کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'جس'.
-
*جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔* 1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه (حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254) 2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» (حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465) دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں 1 *إسماعيل بن يحيى* اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔ ✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں ✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔ ✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔ ✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔ خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ: 12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك، کہتے ہیں کہ اسماعیل مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔ 2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے، ✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے ✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔ اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے الحکم الحدیث:- موضوع (محمد عمران علی حیدری) 01.04.2022. 28شعبان 1443ھ
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــــوئــــی ایـســا گـھـر نـہـیـں جـس کـــے دروازے پـــر مـلــک المــوت عــلیـــہ الســــلام دن میـــــں پـانـچ مـــرتــبـــہ نــــہ آتـــا ہــــو اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے ہر بندہ انٹرنیٹ سے مواد اٹھا کر شیئر کرتا ہے بس لوگوں کو نئے نئے واقعات ملنے چاہئیں وہ ان واقعات کی تحقیق بھی نہیں کرتے اور اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لئے جہنم بنا رہے ہیں اسی طرح ایک یہ روایت بھی ہم تک تحقیق کرنے کے لئے پہنچی کہ نبی ﷺ کی طرف منسوب ہے کوئی ایسا گھر نہیں جس کے دروازے پر موت کا فرشتہ دن میں پانچ مرتبہ نہ آتا ہو جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کا رزق پورا ہوگیا تو اس پر موت کا غم ڈال دیتا ہے اور اس پر موت کی وحشت چھا جاتی ہے اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے اس کے گھر والے اس کے ماتم میں اپنے بال کھول دیتے ہیں اپنے چہرے پیٹ کر سرخ کر دیتے ہیں اس مصیبت پر چیخ و پکار کر رہے ہوتے ہیں فرشتہ مرگ کہتا ہے ہلاکت ہو تم پر کیسا خوف اور کیسا غم میں نے تم میں سے کسی کا رزق تو کم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کی موت قریب کی میں تو اسی وقت کسی کے پاس آتا ہوں جب اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے حضور کی طرف منسوب ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر یہ اسے کھڑا دیکھ لیں اور اس کی باتیں سن لیں تو اپنے مردے کو بھول جائیں اور خود رونے لگیں الخ یہ وہ روایت ہے جو بڑا مرچ مصالحے کے ساتھ واٹس اپ گروپس میں بھی شیئر کی جاتی ہے اور انٹرنیٹ کی ویب سائٹس پر بھی موجود ہے آئیے اس کی تحقیق کرتے ہیں ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ روایــت کـــی تحـقیــق درج ذیـــل ہـــے اس جھوٹے قصے کو گھڑنے والا شخص ابن وَدْعَان (المتوفى: 494هـ) ہے جس کا پورا نام محمد بن علي الودعاني ہے یہ خود تو متہم بالکذب ہے مگر اس نے چالیس روایات پر مشتمل ایک نسخہ گڑھا جس کی تصریح امام الائمہ و المسلمین امام ابن حجرعسقلانیؒ نے اور امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے کی پہلے اس کے نسخے کی روایت ملاحظہ ہو جو اس نے اپنی سند سے نکل کی حدثنا الحسن بن محمد بن جعفر الصوفي البغدادي رحمه الله قال: حدثنا القاضي أبو جعفر أحمد بن عبد الله قال:حدثنا أبي قال: حدثنا عبد الله بن مسلم بن قتيبة قال: حدثنا يحيى بن أيوب قال: حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من بيت إلا وملك الموت يقف على بابه في اليوم خمس مرات فإذا وجد الإنسان قد نفد أكله وانقطع أجله ألقى عليه الموت فغشيه كرباته وعمرته علزاته فمن أهل بيته الناشرة شعرها والضاربة وجهها والباكية لشجوها والصارخة قولها، فيقول ملك الموت عليه السلام ويلكم مم الفزع ومم الجزع فما أذهبت لواحد منكم رزقا ولا قربت له أجلا ولا أتيته حتى أمرت ولا قبضت روحه حتى إستأذنت وإن لي فيكم عودة ثم عودة حتى لا يبقى منكم أحدا قال النبي صلى الله عليه وسلم فوالذي نفس محمد بيده لو يرون مكانه ويسمعون كلامه لذهلوا عن ميتهم ولبكوا على أنفسهم حتى إذا أحمل الميت على نعشه رفرفت روحه فوق النعش وهو يناجي أهله ويا ولدي لا تلعبن بكم الدنيا كما لعبت بي، جمعت المال من حله ومن غير حله ثم خلفته لغيري،فالهناة له والتبعة على فا حذروا مثل ما حل بي كتاب الأربعون الودعانية لابن ودعان ص41📓 ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس شخص اور اس کے اس گڑھے ہوئے نسخے کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کیا فرماتے ہیں امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں محمد بن علي بن ودعان القاضي، أبو نصر الموصلي، صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي، وأدركه، وسمع منه، وقال: هالك متهم بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے كتاب ميزان الاعتدال 3/658📒 امام الائمہ المسلمین الشیخ اکبر امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب لسان المیزان میں اس کے ترجمے میں یہی کلام نقل کیا محمد بن علي بن ودعان القاضي أبو نصر الموصلي صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي وادركه وسمع منه وقال هالك متهم بالكذب وقال ابن ناصر رأيته ولم أسمع منه لأنه كان متهما بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے مزید فرماتے ہیں ابن نصر کہتے ہیں میں نے اسے دیکھا مگر میں نے اس سے سماع نہیں کیا کیونکہ اس پر جھوٹا ہونے کا الزام ہے كتاب لسان الميزان 5/305📙 علامہ شمس الدين ابن الغزيؒ نے اپنی كتاب ديوان الإسلام میں فرمایا ابن ودعان: محمد بن علي بن أحمد فخر القضاء أبو نصر الموصلي المتهم بالكذب كتاب ديوان الإسلام 4/385📕 امام ابن کثیرؒ بھی البدایہ والنہایہ میں اس کے ترجمہ میں اس نسخے کے بارے میں کہتے ہیں وهي موضوعة كلها وإن كان في بعضها معان صحيحة ترجمہ: اس نسخے میں تمام روایات من گھڑت ہیں اگرچہ ان میں سے بعض کے معنی درست ہیں كتاب البداية والنهاية ط هجر 16/179📔 ◉➻═════════════➻◉ ان تمام ائمہ کرامؒ کی تصریحات سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اس گھڑے ہوئے نسخے میں جو چالیس روایات ہیں وہ موضوع ہیں اور خود اس نسخہ کو اپنی سند سے نکل کرنے والا جو شخص ہے اس کو بھی محدثین نے متہم بالکذب کہا مگر اب جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نسخہ اس نے گھڑا ہے تو یہ راوی کذاب اور واضع الحدیث ثابت ہوگیا ہے جہاں تک بات رہی مذکورہ روایت کی تو اس کی کوئی متابعت مجھے نہیں ملی اور اس کی سند کو نقل کرنے والا وہی شخص ہے جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ہے اور وہ اس نسخے میں اس کو نقل کر رہا ہے جس نسخے کے لئے ائمہ کرام کا کلام ہے کہ وہ گھڑا ہوا ہے لہذا ائمہ کرام کے کلام اور تصریحات سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ روایت موضوع ہے اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت وجماعت محمد عاقب حسین رضوی