وہابی نسلوں نے اپنے محدث فورم پر تفسیر ابن عباس پر جرح بھی کی ہے اور امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الحنان کا فتوی پیش کیا ہے۔
مجھے تین باتیں جاننی ہیں::۔
جو جرح کی گئی ہے اس حوالے سے وہ درست ہے یا نہیں؟
میرے اعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جو حوالہ دیا ہے کیا واقعی ایسا فتوی موجود ہے یا نہیں اور میرے سید امام اہلسنت علیہ الرحمہ کا کیا فیصلہ ہے اس حوالے سے؟
کیا اس تفسیر ابن عباس سے استدلال کرنا جائز ہے یا نہیں؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلبی اور ابی صالح کے متعلق علم الجراح والتعدیل سے یوں تو بہت کچھ نقل کیا جاسکتا ہے، مگر بریلویہ کو ان کے امام احمد رضا خان بریلوی صاحب کا ہی قول پیش کرنےپر ہی اکتفاء کرتے ہیں، دیکھئے کہ بریلویہ کے امام احمد رضا خان بریلوی اس ''تفسیر ابن عباس'' کے متعلق کیا فرماتے ہیں:
یہ تفسیر کہ منسوب بسید نا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت یہ بسند محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ کذب ہے تفسیر اتقان شریف میں ہے:
واوھی طرقہ طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فان انضم الٰی ذلک روایۃ محمد بن مروان اسدی الصغیر فھی سلسلۃ الکذب ۔۱
اس کے طُرق میں سے کمزور ترین طریق کلبی کا ابوصالح سے اور اس کا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرنا اگر اس کے ساتھ محمد بن مروان اسدی کی روایت مل جائے تو کذب کا سلسلہ ہے ۔(ت)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 396 جلد 29 فتاوی رضویہ - احمد رضا خان بریلوی – رضا فاؤنڈیشن، لاہور