مجھے تفسیر تبیان القرآن لعلامہ غلام رسول سعیدی کی اس عبارت کی صحت کا پوچھنا ہے؟
یہ انہوں نے سورۃ یونس کی آیت نمبر ۱۸ کے تحت لکھا ہے۔
یہ بھی بتا دیں کہ تفسیر کبیر نے اسی آیت کے تحت مشرکین کے بتوں کی عبادت کرنے سے قبروں کی تعظیم کی نظیر کیوں اخذ کی ہے؟
جب تک غیر اللہ کو واجب الوجود یا مستحق عبادت نہ مانا جائے، اس وقت تک تو شرک کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔۔۔۔ مگر تفسیر کبیر اور تفسیر تبیان القران نے بزرگان کی قبور کی تعظیم کو
مشرکین کے شرک کی نظیر کیوں کہا ہے؟
کیا انکا یہی مفاد ہے کہ جیسے مشرکین اپنے بتوں کو معبود مان کر تعظیم کرتے تھے ، ایسے ہی یہ لوگ بھی قبروں کو معبود مان کر قبور کی تعظیم کیا کرتے تھے؟؟۔۔۔۔ (جبکہ جب تک کسی کو معبود نہ مانا جائے تو محض اسکا طواف یا حد رکوع تک اسکے آگے جھکنا یا اسے سجدہ کرنے یا اسکی نذر ماننے سے شرک تو نہیں ہوتا مگر علامہ غلام رسول صاحب نے تو ان کاموں کو مشرکین کے شرک کی نظیر کے طور پر پیش کیا ہے)۔۔،۔۔،
برائے مدینہ جلد از جلد مدد فرمائیں