کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'بدر'.
-
اہل بدر کے اسمائے گرامی پر برزنجی کی معلومات افزا تحریر جعفر بن حسین بن عبدالکریم برزنجی تمام تعریف اللہ کو سزوار ہے جس کے صفات اور اسماء پاک ہیں اور دورود سلام ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جنکے انوار نے وجود کو منور کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر جن سے اللہ تعالٰی نے پلیدی دور کردی اور ان کو پوری طرح پاک کیا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اصحاب پر جن کی بدولت باغ اسلام سر سبز و شاداب ہوا۔ اما بعد یہ بندہ جو اللہ نجات دینے والے کے فضل کا محتاج ہے جعفر بن حسن ابن عبدالکریم برزنجی عرض پرداز ہے کہ جب میں نے نامور علماء کی جماعت کو دیکھا کہ وہ صحابہ بدریین کے ناموں کو ان فضائل و خواص کی بدولت جو ان کے سوا کسی دوسرے بشر کو حاصل نہیں ہیں جمع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں خصوصاً استاد شیخ عبدالطیف شامی خدا ان کی روح کو آرام بخشے اور ان کی قبر کو منور کرے کیونکہ انھوں نے ان کو بڑی خوبی کے ساتھ جمع کیا ان میں سے اکثر کو کتاب عیون الاشرفی فنون المغازی والشمائل والسیر مئولفہ فتح الدین محمد بن محمد یعمری معروف بہ ابن سید الناس سے اخذ کیا ہے اور اس کو حروف معجم پر مرتب کیا ہے اور جو اصحاب اپنی کنیتوں کے ساتھ مشہور ہیں ان کو آخر میں ذکر کیا ہے بعد فضائل اور ان اسماء کے کچھ خواص کا ذکر کیا ہے مگر انھوں نے اسماء کو مسلسل درج کردیا ہے اور ان کو متوسل بہ کی کیفیت پر ذکر نہیں کیا اور نہ مہاجرین کو انصاری سے کو اوسی یا خزرجی ہوتے ہیں اور نہ شہید کو تمیزدی ہے مگر علامت کے ساتھ۔ تو میں نے ان ناموں کو متوسل کی لڑیوں میں پرونے کی طرف توجہ کی۔ پس ان میں سے ہر اسم پر میں نے سیدنا کا لفظ داخل کیا جو باء جارہ کے ساتھ مقرون ہے یہ باء اللھم انی اسالک کے الفاظ کے ذکر کے بعد ہر اسم کے ساتھ آئی ہے پھر یہ الفاظ ان اسماء کی ہر نوع کے آغاز میں لفظ ان کو واؤ عاطفہ کے ساتھ بدلنے کے بعد آئے ہیں کیونکہ متوسل بہ میں غالباً یہ طریقہ ہوتا ہے اور ان اسماء سے فارغ ہونے کے بعد جس کےلئے توسل کیا گیا ہے اس کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے ہر اسم کے ساتھ میں نے رضی اللہ عنہ لکھا ہے اور عشرہ مبشرہ کے ناموں میں، میں نے حروف تہجی کی ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا اور نہ مصنفین کی اس طرز کو اختیار کیا ہے کہ جو اصحاب اپنی کنیتوں کے ساتھ مشہور ہیں ان کا ذکر آخر میں کیا جائے بلکہ اس کو میں نے مطلقاً ترمذی وغیرہ کی اس حدیث کی ترتیب کے موافق مقدم کیا ہے جس میں ان کے جنتی ہونے کا حکم لگایا گیا ہے اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا نام حرف حائے مہملہ میں مقدم کیا ہے۔ اور مہاجرین انصاری اوسی خزرجی اور شہید کی میں نے تصریح کردی ہے اور اس سے مقصود ثواب اور آرام قلب ہے اور اس کے ساتھ میں شہداء احد کے نام شامل کردئیے ہیں جن سے فریاد کرنا اور جن کے بلند ارادوں کے ساتھ امداد چاہنا مقصود ہے کیونکہ اہل احد کا رتبہ فضیلت میں اہل بدر کے بعد ہے۔ بآنکہ ان کو شہادت کا وصف حاصل ہے بلکہ ان میں سے اکثر بدر میں بھی شریک ہوئے ہیں اور انھوں نے دونوں فضیلتیں حاصل کی ہیں اور اس میں تکرار نہیں کیونکہ دونوں حیثیتیں مختلف ہیں اور ان کو یعنی اسماء اہل احد کو حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا ہے مگر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا نام جس کو میں نے مطلقاً مقدم رکھا ہے اور ان اسماء کو بھی بدر میں کی طرح تمیز کیا ہے۔ مگر ابو زید انصاری کا نام کیونکہ مجھ کر معلوم نہیں ہوا کہ وہ اوسی ہیں یا خزرجی اور ان اسماء کو میں نے ایسی دعاؤں کے ساتھ ختم کیا ہے جو انشاءاللہ مقبول ہونے والی ہیں ان سب باتوں میں میں نے ان کتابوں سے مدد لی ہے: 1- اصابہ حافظ ابن حجر 2- استیعاب ابن عبدالبر 3- عیون بن سیدالناس 4- نورالنبر اس شرح سیرۃ ابن سیدالناس 5- شرح سیرۃ ابن سید الناس للنورحلبی 6- سیرۃ شمس شامی 7- سیرۃ ابن برہان حلبی 8- رسالہ شیخ عبدالطیف 9- شرح رسالہ مذکورہ وغیرہ پس اس کتاب کی وہ بدری اور احدی لڑیاں تیار ہوگئیں جو روشن فضیلتوں پر شامل ہیں اور خدا کے فضل کے ساتھ اس شخص سے پر ظلم و نقصان کو دفع کرنے کے متکفل ہے جو ان کو ہر روز خلوص کے ساتھ ایک مرتبہ پڑھے اس لئے میں نے اس مجموعے کا نام جالیۃ الکرب باصحاب سید العجم و العرب رکھا۔ اور اللہ سے التجا ہے کہ وہ مجھ کو شک و شبہ کے راستوں سے بچائے اور دین و دنیا کی مہموں سے مجھ کوہر آرزو پر کامیابی بخشے کیونکہ وہ عطا کرنے والا اور ہدایت، بخشنے والا ہے اور اس پر میرا بھروسہ اور اعتماد ہے اب میں ان کے عام واضح و ظاہر فضیلتوں اور ان کے اسماء کے خواص کا ذکر کرتا ہوں جن کےلئے ہر ایک نور سے منور ہونے والا قلب شادمان ہے تاکہ مومن کو ان کے ذریعے سے اس امر کی دلیل حاصل ہو کہ جو شخص مالی مصیبتوں میں ان کے نام کی دہائی دے وہ ان کی سنتے ہیں اور بڑی بڑی مصیبتوں اور تاریک مشکلات کے اندھیروں کو دور کرتی ہے کیونکہ قطرہ کی صفائی حوضوں کی شیرینی پر دلالت کرتی ہے اور کلی کی مہک باغوں کی خوشبو پر دلالت کرتی ہے اب میں کہتا ہوں کہ ان کے مناقب میں سے ایک یہ ہے اللہ تعالٰی نے ان کو اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زبان سے جنت کی بشارت دی ہے چنانچہ فرمایا پس تمھارے لئے جنت واجب ہوگئی جیسے کہ حاطب کے مشہور قصہ کے بعض الفاظ میں آیا ہے اور ایک یہ ہے اللہ تعالٰی نے ان کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردئیے حتٰی کہ اگر ان میں سے کسی سے کبھی گناہ کا صدور فرضآً ہوتا تو اس کو توبہ کی ضرورت نہیں کیونکہ جب وہ گناہ صادر ہوگا تو بخشا ہوا ہی صادر ہوا۔ اگرچہ دنیا میں اس کے فاعل پر شرعاً اس کا حکم مترتب ہو اور اس امر کو میں نے شیخ عبدالطیف کے رسالہ بدریہ کی شرح میں واضح کردیا ہے۔ ایک یہ ہے بدر کے واقعہ میں ملائکہ ان کے ساتھ شریک ہوئے اور جنگ کی اس جنگ میں فرشتوں کے شریک ہونے پر سب کو اتفاق ہے اور جنگ احد اور جنگ حنین میں اختلاف ہے۔ ان کے اسماء کے خواص کے متعلق ابن برہان حلبی اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ دوانی نے ذکر کیا ہے کہ اس نے مشائخ حدیث سے سنا ہے کہ ان کے یعنی اہل بدر کے ذکر کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے اس کا بارہا تجربہ کیا گیا ہے انتہٰی۔ شیخ عبدالطیف اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ بعض نے ذکر کیا ہے کہ بہت اولیاء کو ان کے اسماء کی برکت سے ولایت دی گئی ہے اور بہت سے بیماروں نے ان کے طفیل سے اللہ سے شفاء مانگی تو شفایاب ہوگئے۔ ایک عارف کہتے ہیں کہ میں نے جس مریض کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور ان کے نام خالص نیت سے پڑھے تو اللہ نے اس کو شفا بخشی اور اگر اس کی اجل نزدیک آگئی ہو تو اللہ اس کی تکلیف کم کردی اور بعض نے کہا میں نے تلاوت اور کتابت دونوں طرح سے بڑے بڑے معاملات میں ان کے اسماء کو آزمایا ہے پس ان سے زیادہ جلدی اجابت میں نے کسی چیز میں نہیں دیکھی اور جعفر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت اور تمام مہمات میں اہل بدر کے توسل کی وصیت کی اور مجھ سے فرمایا اے بیٹا ان کے ذکر کے وقت دعا قبول ہوتی ہے اور رحمت اور برکت اور بخشش اور رضی اور رضوان بندے کو گھیرلیتی ہے جبکہ وہ ان کا ذکر کرے یا دعا کے وقت ان کا نام لے اور جو کوئی ان کو ہر روز یاد کرے اور ان کے توسل سے کسی حاجت میں اللہ سے سوال کرے وہ اس کو پوری کردی جاتی ہے لیکن جو شخص کسی مہم میں ان کا نام لے اس کو چاہئے کہ ہر ایک نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہے پس یوں کہے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسی طرح آخر تک کیونکہ یہ حصول مراد کےلئے زیادہ موثر ہے اور زید بن عقیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک سال کا ذکر ہے کہ سر زمین مغرب میں ایک راستہ خونخوار درندوں کے سبب بند ہوگیا اور ایک اور راستہ چوروں کے سبب سے بند ہوگیا جو کوئی ان راستوں سے گذرتا ہلاک ہوجاتا اگرچہ وہ بڑی جماعت میں ہوتا اور اس راستہ میں بہت سی جانیں اور مال ضائع ہوگئے جب کوئی ہم پر اس راستہ سے وارد ہوتا تو ہم کو تعجب آتا ایک دن اسی اثناء میں کہ ہم بیٹھے تھے ایک آسمی اس راستہ سے آیا اور اس کی بڑی تجارت تھی اور اس کے ساتھ اس کے ایک غلام کے سوا کوئی اور نہ تھا اور وہ اپنے دونوں لب ہلا رہا تھا گویا کچھ اسماء پڑھ رہا ہے پس ہم نے اس سے ملاقات کی اور سمجھا یہ شخص بڑے شان و شکوہ سے آرہا ہوگا اوراس کے پیچھے نظر کی تو اس کے ساتھ اس کے غلام کے سوا اور کوئی دکھائی نہ دیا میرے والد نے اس سے کہا سبحان اللہ تم اپنی تجارت کے ساتھ کس طرح سلامت رہے حالانکہ تم اکیلے ہوں اور یہ راستہ کئی سال سے چوروں اور درندوں کے سبب سے بند ہے اس نے کہا کیا یہ کافی نہیں کہ میں اس راستہ میں اس لشکر کے ساتھ داخل ہوا ہوں جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم داخل ہوئے اور اس کو ساتھ لے کر دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اس کی بدولت اللہ نے آپ کو فتح بخشی میرے والد نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کون سے لشکر کو آپ نے پایا اس نے کہا اصحاب بدر رضی اللہ عنہم کو میں نے پایا اور میں ان کو اپنے ساتھ اس خوفناک راستے میں لایا پس مجھ کو نہ کسی چور سے خوف ہوا نہ کسی درندے سے۔ میرے والد نے کہا خدا کےلئے اپنا مفصل حال سناؤ اس نے کہا واضح ہو کہ میں ڈاکوؤں کا سردار تھا ہم ڈاکہ ڈالا کرتے تھے جو کوئی قافلہ گزرتا لوٹ لیتے جو مال تجارت آتا چھین لیتے۔ ایک رات اس اثناء میں کہ ہمارے جاسوس آئے اور خبر لائے کہ فلاں تاجر بہت سے تجارتی مال کے ساتھ آرہا ہے اور اس کے ساتھ پندرہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہیں جب ہم نے یہ سنا تو ان پر حملہ کردیا اور اس کے ساتھیوں میں سے دس آدمیوں کو قتل کردیا پھر تاجر ہمارے سامنے آیا اور کہا اے لوگوں تمہارا کیا مطلب ہے اور کیا چاہتے ہوں ہم نے کہا ہم یہ تجارتی مال لینا چاہتے ہیں پس اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ نجات پاؤ قبل اس کے کہ تمہارے ساتھ بھی وہی گذرے جو تمہارے ساتھیوں کے ساتھ گذری اس نے کہا تم میں اس کی قدرت کہاں ہے جب کہ میرے ساتھ اہل بدر ہیں ہم نے کہا ہم اہل بدر کو اور اس کے اصحاب کو نہیں جانتے ہیں اس نے کہا اللہ اکبر پھر کچھ نام پڑھنے شروع کئے جن کو ہم نہیں جانتے تھے تو ہم پر اس کے پڑھنے سے رعب چھا گیا اور ہم کمزور ہو گئے ساتھ ہی ہم پر تند ہوا چلنے لگی اور ہم کو زمین میں ایک لرزہ اور ہتھیاروب کی کھٹ کھٹ اور نیزوں کا ایک دوسرے پر پڑنا سنائی دیا اور کہنے والا کہہ رہا تھا اب اہل بدر کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرواتنے میں میں نے ہوا سے آگئے بڑھ جانے والے گھوڑوں پر میں نے یہ حال دیکھا تو تاجر کی طرف گیا اور اس سے کہا میں اللہ اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس نے کہا ان کاموں سے اللہ کی طرف رجوع کر پس میں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی میرت رفیقوں میں سے اس قدر آدمی قتل ہوگئے جستنے اس کے رفیقوں میں سے قتل ہوگئے تھے پھر جب میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو اس سے سوال کئے اس نے مجھ کو اہل بدر کے نام سکھادیے پس جب سے میں نے ان اسماء کو معلوم کیا ہے مجھ کو خشکی اور تری میں کسی آدمی کی چوکیداری کی ضرورت نہیں اور ان کے ساتھ میں اس راہ سے آیا ہوں جیسے کہ تم نے مجھ کو دیکھا ہے پس جو چور یا درندہ مجھ کو دیکھتا میرے راستہ سے الگ ہوجاتا پس اللہ کا شکر ہے اور یہی سبب میرے اکیلے آنے کا ہے اور بعض نے حکایت کی ہے کہ وہ حج کے ارادہ سے بیت الحرام کی طرف روانہ ہوا تو اسمائے اہل بدر کاغذ میں لکھے اور ان کو دروازہ کی دہلیز میں محفوظ رکھا اور شخص مال دار تھا پس جب سفر کو گیا تو چور گھر کی طرف آئے تاکہ تمام موجودہ مال لوٹ لیں جب چھت پر چڑھے تو ان کو کچھ کلام اور ہتھیاروں کی کھٹ کھٹ سنائی دی پس وہ واپس چلے گئے دوسری رات آئے تو پھر بھی ایسا ہی سنا تب ان کو تعجب آیا اور وہ باز آئیں حتی کہ وہ آدمی حج سے واپس آیا تو چوروں کا سردار آیا اور کہنے لگا خدا کےلئے مجھے بتاؤ تم نے گھر میں حفاظت کا کیا بندوبست کیا تھا اس نے کہا میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا اللہ کے اس قول کو کہ ولا یئودہ حفظھما وھو العلی العظیم اور تمام اہل بدر کے اسماء کو لکھا تھا پس یہ چیز ہے جس کو میں نے اپنے گھر میں رکھا تھا پس اس چور نے کہا یہ بات مجھ کو فائدہ پہنچا چانے کےلئے کافی ہے اور اہل مغرب میں سے ایک شخص جو سمندر کے سفر پر گیا تھا کہتا ہے کہ میں ہجت کرکے ایک شہر سبتہ کی طرف گیا اس جہاز میں بہت سے لوگ سوار تھے اور سمندر میں طوفان آگیا اور سخت ہوائیں چلنے لگیں موجیں بلند ہوگئیں حتی کہ ہم غرق ہوجانے کے قریب ہوگئے پس ہم میں سے کوئی دعا کرتا تھا کوئی روتا تھا اور تضرع کرتا تھا پس مجھ سے میرے ایک رفیق نے کہا جہاز میں ایک مجذوب آدمی ہے کیا آپ اس کے پاس جاکر دعا کی التجا کرتے ہیں پس میں اس کی طرف گیا دیکھا کہ وہ سورہا ہے میں نے اپنے دل میں کہا اس شخص کی طرف مجھ کو بھیجا ہے اگر اس بیچارے میں کچھ عقل ہوتی تو اس کی نیند نہ آتی جب کہ اس حالت میں ہیں پھر میں نے اپنے پاؤں کے ساتھ اس کو ٹھوکر ماری تو وہ جاگ اٹھا اور کانپتا تھا اور کہتا تھا بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم میں نے کہا اے اللہ کے بندے کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں پس وہ خاموش ہوگیا اور مجھ کو کوئی جواب نہ دیا پھر میں نے دوبارہ اس سے کہا تو اس نے کہا یہ لو کاغذ اس کو جہاز کے اگلے حصے میں کرکے جدہر سے ہوا آتی ہے اس طرف اس کے ساتھ اشارہ کردو پس مین نے اس کو لیا اور جس طرح اس نے کہا تھا ویسے ہی کیا تو اللہ نے میری نطر سے پردہ اٹھا دیا کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سے آدمیوں نے جہاز کو کناروں سے پکڑ لیا اور کھینچ کرساحل پر لے گئے اور ریت میں لاکر کھڑا کیا اس رات میں بہت سے جہازات ٹوٹ گے تھے دوسرے دن خوشگوار ہوا آئی اور ہم نے جہاز کو ریت سے نکال لیا اور روانہ ہوئے اس ورقہ میں اہل بدر کے نام لکھے ہوئے تھے پس ہم ان کے ناموں کو پڑھنے لگے حتی کہ صحیح و سالم منزل مقصود کو پہنچ گئے اللہ ان سب سے راضی ہوا اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ میرا ایک بیٹا تھا جو مخلوق بھر سے مجھ کو عزیز تھا اور وہ دیانت دار اور صاحب امانت اور پرہیزگار تھا پس اس کو وزیر کے بیٹے نے طلم و زیادتی سے قتل کر ڈالا میں نے قصاص طلب کیا تو کسی نے میری دستگیری نہ کی تب میں نے صبح و شام اہل بدر کی طفیل خدا سے دعا مانگنی شروع کی اور طلب انتقام میں ان کی مدد مانگنے لگا حتٰی کہ میرا سینہ تنگ ہو گیا اور میں ناامید ہوگیا آخر ایک رات میں سو رہا تھا کہ اس اثناء میں بحالت خواب میں نے کچھ آدمی دیکھے جو اچھی ہئیت اور پسندیدہ حالت میں تھے اور کہنے والا کہتا تھا کہ آؤ اے اہل بدر پس وہ آگے بڑھے ایک دوسرے کے قدم پر چلتے تھے میں نے اپنے دل میں کہا سبحان اللہ یہ لوگ اہل بدر ہیں جن سے میں اپنے فرزند کا انتقام لینے کے لیے مدد طلب کرتا ہوں واللہ میں ان کے پیچھے چلوں گا پس میں ان کے پیچھے چلنے لگا حتٰی کہ وہ ایک بلند مقام پر پہنچے اور ان میں سے ہر ایک ایک نورانی کرسی پر بیٹھ گیا اور میں لوگوں کو دیکھا کہ ان کی طرف آتے ہیں اور اپنے حالات کی شکایت کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ وجہ ہے کہ میں اپنے فرزند کے قتل کی شکایت نہ کروں پس میں ان کی طرف بڑھا اور ان کو اپنے قصہ سے مطلع کیا اور یہ کہ کسی نے مجھ کو میرے فرزند کے انتقام لینے میں مدد نہیں دی پس ان میں سے ایک نے کہا لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا تم میں سے کون اس مسکین کے مخالف کو میرے سامنے لائے گا پھر ان میں سے ایک گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد اسے لایا اور ملزم اس کے ساتھ تھا پس اس سے کہا کہ تو وہی ہے جس نے اس کے بیٹے کو قتل کیا ہے کہا ہاں فرمایا تجھ کو اس کے قتل پر کس بات نے آمادہ کیا ہے کہا ظلم اور سرکشی نے پس فرمایا زمین پر بیٹھ جا پس وہ بیٹھ گیا پھر مجھ کو ایک خنجر دے کر کہا یہ تمہارا ملزم ہے اس کو قتل کرو جس طرح اس نے تمہارے بیٹے کو قتل کیا پس میں اس کو پکڑا اور ذبح کر ڈالا پھر میں اپنی نیند سے اٹھا تو جب دن چڑھا میں نے بڑا شوروغل سنا اور لوگ کہتے تھے کہ وزیر کا بیٹا اپنے بستر پر ذبح شدہ پایا گیا اور معلوم نہیں کس نے اس کو قتل کیا اور عسقلانی نے ایک نسخہ میں قسطلانی نے کہا میرے ایک چچا کا بیٹا مشرکین کے ملک میں گرفتار ہوگیا پس اہل روم نے اس کے قدیے میں بہت سا مال طلب کیا ہم کو اس کے دینے کی طاقت نہ تھی پس میں نے اس کی طرف اسماء اہل بدر کاغذ میں لکھ کر بھیج دیجئے اور اس کو اس کے حفظ کرنے اور ان سے توسل چاہنے کی وصیت کی کہا پس اللہ تعالٰی نے اس کو بغیر فدئیے کے چھوڑ دیا پس جب ہمارے پاس آیا ہم نے اس کے متعلق اس سے پوچھا جب وہ ورقہ میری طرف پہنچا جن میں وہ اسماء تھے تو میں نے اس کے بارے میں وہی عمل کیا جیسے کہ تم نے کہا تھا پس انہوں نے مجھ کو منحوس سمجھا اور ایک دوسرے کے پاس فروخت کرنے لگے۔ اور جو شخص مجھ کو خریدتا تھا اس پر کوئی مصیبت نازل ہو جاتی تھی تو میری قیمت گھٹنے لگی حتٰی کہ مجھ کو سات دینار کے عوض فروخت کیا گیا پس جس شخص نے مجھ کو اب کے خریدا تھا اس کو تین دن سے زیادہ نہ گزرے تھے حتٰی کہ وہ سب سے بڑی مصیبت میں مبتلا ہوگیا پس وہ مجھ کو طرح طرح کا عذاب دینے لگا اور کہتا تھا کہ تو جادوگر ہے اور میں تجھ کو فروخت نہ کروں گا صلیب پر تیری قربانی چڑھا کر ثواب حاصل کروں گا پس تھوڑی ہی دیر بعد اس کے گھوڑے نے اس کے پاؤں مارا جس سے اس کا منہ توڑ ڈالا اور وہ اسی وقت مر گیا کہتا ہے کہ پس اس کے بیٹے نے مجھ کو پکڑ کر طرح طرح کا عذاب دینا شروع کیا اور میری خبر لوگوں میں مشہور ہوگئی انہوں نے اس سے کہا اس قیدی کو شہر سے باہر نکال دے اس نے کہا نہیں میں اس کو عذاب کے ساتھ ماروں گا پس تین ہی دن گزرے تھے کہ ان کو اطلاع ملی کہ بادشاہ کا جہاز تلف ہو گیا جس میں بادشاہ کا فرزند اور بہت سا مال تھا پس جب یہ خبر روم تک پہنچی تو وہ لوگ بادشاہ کے پاس آئے اور کو میرے تمام حال سے مطلع کیا اور بتایا کہ جب تک یہ مسلمان ہمارے ملک میں ٹھہرے گا ہم ہلاک ہو جائیں گے اور ہم کو کوئی شک نہیں کہ وہ انبیاء کی اولاد سے ہے پس بادشاہ نے مجھ کو بلا بھیجا اور قید سے چھوڑ کر مجھ کو ایک سو دینار دئیے اور میرے وطن کی طرف مجھ کو بھیج دیا پس یہ میرے قید سے چھوٹ جانے کا سبب ہے والحمدللہ علی ذلک وہ بیان ختم ہوا جو شیخ عبداللطیف نے اپنے رسالہ میں ان کے فضائل اور خواص اسماء اور داد خواہ کے لیے نزول مشکلات کے وقت ان کی دادخواہی کے متعلق نقل کیا ہے اور ان کی امداد ان میں سے ایک وہ واقعہ ہے جس کو حموی نے اپنی کتاب نتائج الارتحال والسفر فی اخبار اہل القرآن الھادی عشر میں بہ ضمن حالات جامع شریعت و حقیقت شیخ احمد بن محمد الدمیاطی معروف بہ ابن عبدالغنی البنا متوفی بمدینہ منورہ در ماہ محرم الحرام سنہ 1116 لکھا ہے کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک سال میں نے اپنی والدہ کے ساتھ حج کیا ۔ یہ قحط کا سال تھا اور میرے ساتھ دو اونٹ تھے۔ جن کو میں نے مصر سے خریدا تھا ان پر ہم نے حج کیا جب ہم حج سے فارغ ہوئے اور مدینہ کی طرف رخ کیا تو دونوں اونٹ مدینہ میں مر گئے اور ہمارے ساتھ کوئی مال نہ تھا جس کے ساتھ ہم اور اونٹ خرید سکتے یا کسی سے کرایہ پر لے سکتے پس میں اس سے بڑا لاچار ہوگیا اور اپنے شیخ صفی الدین قثاشی قدس اللہ سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے حال سے ان کو مطلع کیا اور عرض کیا میں نےس فر سے معدور ہو جانے کے باعث اب مدینہ میں پڑے رہنے کا ارادہ کر لیا ہے حتیی کہ اللہ تعالٰی کشائش بخشی پس وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر مجھ سے فرمایا اس وقت سیدنا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کی قبر پر جاؤ اور قرآن مجید کی کچھ آیات پڑھ کر ان کی قبر پر کھڑے ہوئے ان کو اپنے حال سے ازوال تا آخر مطلع کرو جس طرح مجھ سے بیان کی ہے میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور فی الفور صبح کے وقت ان کی قبر پر حاضر ہوکر آیات کی تلاوت کے بعد ان کو اپنے حال سے مطلع کیا جس طرح میرے شیخ نے مجھ کو حکم دیا اور فی الفور ظہر سے پہلے واپس آیا پس میں باب الرحمۃ کی طہارت گاہ کی طرف واپس آیا تو وضو کیا اور مسجد میں داخل ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ میری والدہ مسجد میں مجھ سے کہہ رہی ہے یہاں ایک آدمی تیرے بارے میں مجھ سے پوچھ رہا تھا اس کی طرف جاؤ میں نے پوچھا وہ کہا ہے کہا اس کو حرم کی پچھلی طرف دیکھی پس میں اس کی طرف گیا جب اس کے سامنے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک سفید ریش بارعب آدمی ہیں پس فرمایا مرحبا یا شیخ احمد میں نے ان ہاتھ پر بوسہ دیا فرمایا مصر کے سفر کو تیار ہو جاؤ میں نے عرض کیا یا حضرت کس کے ساتھ سفر کروں فرمایا میرے ساتھ چلو تاکہ کسی سے کرایہ سواری لے دوں پس میں ان کے ساتھ گیا حتٰی کہ ہم اونٹوں کی فرودگاہ میں پہنچے جہاں مصری حاجی اترے پڑے تھے وہ بزرگ ایک مصری کے خیمہ میں داخل ہوئے میں بھی ساتھ اندر چلا گیا جب انہوں نے مالک خیمہ کو سلام کیا تو وہ تعظیم کے لیے کھڑا ہوگیا اور ان کے ہاتھ چومے اور ان کی کمال عزت کی انہوں نے اس سے کہا میرا مدعا یہ ہے کہ تم شیخ احمد اور اس کی والدہ کو اپنے ساتھ مصر لے جاؤ اور اس سال اونٹ کثرت موت کے باعث کمیاب تھے اور ان کا کرایہ سخت گران تھا پس ان سے منظور کر لیا فرمایا کیا کرایہ لو گے کہا یاحضرت جو کچھ آپ چاہیں فرمایا اتنا اس نے قبول کیا اور ان بزرگ نے کرایہ کا اکثر حصہ اپنے پاس سے ادا کر دیا اور مجھ سے فرمایا اٹھو اپنی والدہ کو اور اپنے مال کو لے آؤ میں اٹھ کر چلا اور وہ بزرگ اس شخص کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں اپنی والدہ کو اور اسباب کو لے آیا مجھ سے شرط کی کہ باقی کرایہ مصر پہنچ کر میں اپنے پاس سے ادا کرونگا میں نے یہ قبول کیا پس انہوں نے فاتحہ پرھی اور اس کو میرے ساتھ نیکی سے پیش آنے کی وسیت کی اور اٹھ کر چل دئیے میں ان کے ساتھ ہولیا جب ہم مسجد تک پہنچے تو پہلے اندر چلو میں اندر گیا اور نماز کا وقت ہو جانے پر ان کا انتظار کیا تو وہ مجھے نظر نہ آئے اور کئی مرتبہ ان کو تلاش بھی کیا مگر نہ ملے پس میں اس شخص کی طرف واپس گیا جس سے کرایہ کیا تھا اس سے پوچھا کہ وہ کون تھے اور ان کا گھر کہاں ہے اس نے کہا میں ان کو نہیں جانتا اور آج سے پہلے کبھی ان کو دیکھا نہیں لیکن جب وہ میرے پاس آئے تو مجھ پر ان سے کچھ ایسا خوف اور رعب چھایا جو عمر بھر کبھی نہ چھایا تھا میں پھر واپس گیا اور کئی مرتبہ پھر تلاش کیا مگر میری نظر ان پر نہ پڑی پھر میں اپنے مرشد شیخ صفی الدین احمد قثاشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی ان کو خبردی فرمایا وہ سید بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی روحانیت تمہارے لیے مجسم ہوکر آئی تھی پھر میں اپنے رفیق کی طرف جس نے کرایہ کیا تھا واپس گیا اور ان کے ساتھ حاجیوں کے ہمراہ مصر کی طرف روانہ ہوا میں نے اس سے وہ حسن سلوک اور خاطرداری اور خوش خلقی دیکھی جو کسی نے نہ بحالت سفر دیکھی اور نہ بحالت قیام دیکھی یہ سب کچھ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور نفعنا کی برکت سے تھا الحمدللہ علی ذالک انتہٰی ما ذکر الحموی فی ضائجہ اور ان کی امداد دن میں سے ایک وہ واقعہ ہے جو شیخ محمد بن مرحوم عبداللطیف التمتام مالکی مدنی نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ شیخ سید بن قطب ربانی ملا ابراہیم کردی سیدالشھداء حمزہ عم رسول رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے اہل مدینہ کی مقررہ زیارت سے پیشتر جو رجب کی بارہویں تاریخ کو ہوتی ہے گئے اور وہ پیشتر ان کی زیارت کو پہلے چلے اور بارہویں تاریخ تک وہاں مقیم رہتے وہ کہتے ہیں کہ ایک سال ان کے ساتھ گئے اور دیوان السنود میں ٹھہرے جب رات پڑی تو رفقاء سو گئے میں ان کی حفاظت کرنے لگا میں نے دیکھا کہ ایک سوار ہمارے قیام گاہ کے اردگرد چکر لگا رہا ہے میں نے اس کی طرف بڑھنے میں سستی کی پھر میں نے اپنے دل میں کہا تو کہاں تک سستی کرے گا حتٰی کہ وہ مجھ پر حملہ کر دے گا پھر میں اس کی طرف گیا اور اسے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا تجھے کیا ہوا کیا اس لیے تو میرے دائرہ حمایت میں اترتا ہے اور مجھے رنج پہنچاتا ہے یعنی اپنی شب بیداری اور پاسبانی سے جبکہ میں خود برابر تمہاری حفاظت کرتا ہوں اور میں حمزہ بن عبدالمطلب ہوں پھر وہ میری نظر سے غائب ہو گئے اللہ ان سے اور تمام صحابہ سے راضی ہو۔ اور ان کے منازل مبارکہ رحمت کے مینہ سے سرسبز رہیں اصحاب بدر کے شمار کے متعلق مرجع قول یہ ہے کہ وہ تین سو تیرہ مرد ہیں اور یہاں مذکور ان کے تین سو چونسٹھ نام ہیں چورانوے نام اوس کے ہیں اور چھیانوے نام خزرج کے ہیں ان میں سے ابو قیس بن معلٰی ہیں کیونکہ عیون کے اندر وہ ان میں شمار کیا گیا ہے اور اس کو شیخ عبداللطیف نے اپنے رسالہ میں ذکر نہیں کیا اور ان میں سے اس کا بھائی زید ہے کیونکہ اس نے اس کو اپنے رسالے کے اندر ان میں شمار کیا ہے جیسا کہ حافظ نے اصابہ میں کہا ہے اور عیون میں اس کا ذکر نہیں کیا اور جو ذکر کیا ہے اس میں جو وہ نام شہیدوں کے ہیں چھ مہاجروں میں سے چھ خزرج میں سے اور دو اوس میں سے اور اکثر کا زعم ہے شہداء احد ستر ہیں اور ان کے نام یہاں ایک سو تین ہیں تیرہ مہاجرین کے ہیں چالیس اوس کے پچاس خزرج کے اور ان میں سے ہر ایک کو خیرالبریہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت کی بدولت فضیلت اور برتری حاصل ہے اور یہ ان کے بانسق اسماء کے موتیوں کے ہار اور چمک دار جواہر کی لڑیاں ہیں میں ان کو اس واسطہ عظمٰے کے نام سے شروع کرتا ہوں جن کو جناب الٰہی سے مقام اعلٰی حاصل ہے پس میں کہتا ہوں؛
- 3 replies
-
- badar
- ashab e badar
-
(and 2 more)
Tagged with: