کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'اُستاد و مُرشد کی تخفیف کرن'.
-
علماءومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق کافر ہے الحمدﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ یہ تحریر ان طلباء و طالبات کے لئے مفید ثابت ہو گی جو کہ ذرا ذرا سی بات پر علماء حق سے اپنا ناطہ توڑ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو مدرسے سے نکال دیا جاتا ہے اور ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے میں داخلہ لے کے اپنی تعلیم تو جاری رکھتے ہیں ۔ مگر علماء و مشائخ کرام کی توہین کی وجہ سے عاق کیئے جانے کی وجہ سے دین و دنیا میں ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے ۔ اس آرٹیکل میں ان کو مُرشد و استاذ و مشائخ کے درجہ اور مرتبہ کا پتا چلے گا۔ انشاللہ علماءومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق فاسق نہیں بلکہ کافر علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا عاق فاسق نہیں بلکہ کافرہے : قرُآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے : وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔( سورۃ البقرہ آیت 34) ور اس آیت کے بارے میں بیضاوی شریف میں ہے کہ : ای صار منھم باستقبا حہ امر اللہ یاہ بالسجود لاٰدم علیہ السلام اعتقادا بانہُ افضل منہ والافضللا یحسن ان موئ مر بالتخضع للمفضول۔ ( تفسیر بیضاوی ،ص۶۳،) وجہ کفر یہ ہے کہ اُستاد و مُرشد کی تخفیف کرنے والا کافر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بیضاوی شریف کی اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ سب فرشتے بمہ شیطان مردود کے آدم علیہ السلام کے شاگرد تھے سب فرشتوں نے سجدہ تعظیمی کیا لیکن شیطان نے نہیں کیا بلکہ آدم علیہ السلام کو حقیر جانا جبکہ وہ اُستاذ ہونے کے باعث لائق عزت تھے جیسا کہ مصرح موجود ہے ۔ وھومراعاۃ للدب بتفویض العلم کلہ الیہ۔ ( تفسیر بیضاوی شریف ص۶۴) ابیٰ ای امتنع من السجود لاٰ دم فلم یسجدواستکبر وھٰذا کانکان من اللہ خبراعن ابلیس فانہ خلق اللہ الذین یتکبرون عن الخضوع لامر اللہ والانقاد لطاعتہ فیما امر ھم وفیما نھی ھم عنہ والتسلیم لہ فیما اوجب لبعضھم علی بعض من الحق فنبہ اللہ الی الکافرین انہ کان حین ابیٰ حین ابیٰ من السجود فصار من الکافرین حینئذ و قبل فی ھٰذا الموضع۔ ( تفسیر ابن جریر ج ۱،ص۱۷۵) تفسیر ابن جریر کی عبارت سے ثابت ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر حق ہوتا ہے اور خُداوند کریم فرماتا ہے کہ تو اس کا حق ادا کر اور وہ اس کا حق ادا نہیں کرتا بسب تکبر اور حسد کے تو وہ اس صورت میں کافر ہو جاتا ہے ۔ اس طرح سے سرکار دو عالم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور طاعت تمام دنیا پر واجب ہے کیونکہ وہ معلم الخیر تھے ۔ جس وقت یہودیوں نے تعظیم و توقیر سے انکار کیا بوجہ تکبر و حسد کے تو خُدا وندکریم نے اُن کو کفر میں مبتلا کیا۔ اس طرح سے اگر استاذ و مُرشد بِھی معلم الخیر ہیں ان کی تعظیم و توقیر نہیں کرتابلکہ تخفیف کرتا ہے تو اس صورت میںاس پر کفر لازم ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ خُدا وند کریم قُرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے ۔ یا الھا الیزین اٰمنو اطیعو اللہ واطیع الرسول و اولی الامر منکم ۔ اس آیۃ کریمہ کی تفسیر میں ہے ۔ قال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنھما ھم الفقھاء والعلامء الذین یعلمون الناس معالم دینھم وھو قال الحسن والضحاک والمجاھد۔ ( خازن ، ج۱،ص۳۷۲، بیروت) خُداوندکریم اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت واجب ہے اور نا فرمانی کُفر ہے ۔ اسی طرح اُستاذ و معلم کی اطاعت واجب ہے اور نا فرمانی کفر ہے ۔ کیونکہ حکم معطوف اور معطوف علیہ دونوں کا ایک ہوتا ہے ۔ ایک اور جگہ قُرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ سورة النور - الآية ۶۳ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل نصوص میں تعلیل ہے ۔ اس نص میں علت یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ تمام مخلوق کیلئے مُعلم الخیر تھے اس لئے ان کا نام مبارک لیکر پُکارنا حرام ہے اور ان کی تخفیف کرنا کُفر ہے ۔ جیسا کہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وفی ھذاالاٰیۃ بیان توقیر معلم الخیر لان رسول اللہ ﷺ کان معلم الخیر فامر اللہ یتوقیرہ و تعظیم و فی ھٰذاالاٰیۃ معروفۃ حق الاستاذ لا نہ معلم الخیر ایضا و جب علی التلمیذ توقیرہ۔ ( تفسیر الروح البیان، ج۲،ص ۷۹۱، سورۃ النور) لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ دُعا مصدر اپنےفاعل کی طرف مضاف ہے یعنی لاّ کی دعوت و امر برائے اعتقاد و عمل کو نہ بنا : کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضًا اپنے جیسوں کی دُعا کی طرح یعنی حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دعوت کو اپنی دعوت پر قیاس مت کرو اس سے اعراض اور اجابت میں مساہلت ان کی اجازت کے بغیر رجوع ہرگز نہ کرو اس لئے کہ آپﷺ کی دعوت کی اجابت واجب ہے اور آپ کی اجازت کے بغیر رجوع حرام ہے ۔ فقیہ ابو اللّیث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت میں معلم الخیر یعنی استاذ کا ادب سکھایا گیا ہے ۔ یعنی اشارتاََحکم فرمایا کہ اَپنے استاذ کی تعظیم و تکریم کرو۔ آیت سے استاذ کی معرفت کو معفت حق بتایا اور اس سے اہل علم و فضل کی علوِ شان و رفعت اور مرتبہ کا پتہ چلتا ہے ۔ حقائق البقلی میں ہے کہ احترام ِ رسول ﷺ احترام الہٰی اور معرفت نبوی ، معرفتِ ایزدی اور ان کی متابقت حق تعالی کی مطابقت ہے ۔ ( تفسیر الروح البیان،پارہ ۱۸، ص۳۰۲) اس کی تائید یہ آیت مبارکہ کرتی ہے ۔ قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا۔ سورہ الکہف آیت ۶۶، ۶۹۔ موسیٰ علیہ السلام باوجود کمال علم کے اور عالی منصب ہونے کے اپنے اُستاذکی تعظیم اور توقیر اور تابعداری کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اُستاد اور مرُشد کی نافرمانی کرنا کفر ہے ۔ ( تفسیر مدارک ص۲۱۸) حدیث مبارکہ:لا یشکر اللی من لا یشکر الناس جس نے لوگوں کا شکر ادا نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا۔ حدیث مذکورہ میں اللہ تعالی نے اپنے شکر کو بندوں کے شکر پر موقوف فرمایا ہے ۔ یاس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے شکر کے ثواب کو بندوں کے شکرہ ادا کرنے پر موقوف فرمایا ہے ۔ اُستاذ کا شکریہ والدین کے شکریہ پر فوقیت رکھتا ہے ۔ ، لیکن افسوس دور حاضرہ میں عوام تو عوام ، خواص نے بھی اساتذہ کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ۔ (فیوض الرحمٰن تفسیر روح البیان پارہ ۲۱، ص۲۸۳) التاویلات النجمیہ‘‘ میں ہے کہ آیت کریمہ ’’لاتجعلو دعا الرسول الایۃ‘‘ میںعلماءِ و مشائخ اور پیران طریقت کی تعظیم کرنے کی طرف اشارہ ہے لان اھانۃ اھل العلم کفر علی المختار۔ (درشامی ج۳، صفہ ۲۰۳) ترجمہ: عالم کی تخفیف اور استہزا ء کرنا کفر ہے ۔ تو کیا استاذ کی تخفیف و استہزا کفر نہیں ہو سکتا بلکہ ہو سکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو حقوق استاذ کے ہیں وہ دلالت النصوص کے ساتھ ثابت ہیں وہ نصوص جو کہ نبی کریم ﷺ کے حقوق میں وارد ہوئے ہیں کیونکہ دونوں کی علت مشترکہ ہے ۔ اور وہ علت یہ ہے کہ ہر ایک معلم الخیر ہے ۔ اور دلالت النص حکم قطعی اور یعینی ثابت کرتی ہے جیسا کہ ظاہر علم اصلول میں مرقوم ہے ۔ استاذ و علما ءِ کرام کے ساتھ کینہ بُغض رکھنا اور اُن کی توہین کرنا یا عُلماء کرام کی شان میں بُرا بھلا کہنا کفر ہے ۔ خاص کر عوام جہلاء ایسی باتیں نہین جانتے اِس لئے علمائے کرام کی توہیں کرتے ہیں ۔ اِس وجہ سے علامہ شامی نے لکھا ہے ۔ والااحتیاط ان یجدد الجھال ایمانہ کل یوم و یجدہ نکاح امراتہ عند شاھدین فی کُل شھر مرۃ او مرتنین اذا الخطاء وان لم یصدر من الرجل فھو من النّساء کثیر۔ (شامی، ص۳۲) یعنی احتیاط اِ سمیں ہے کہ جاہل (عام شخص) روزانہ ایمان کی تجدید کرتا رہے ۔ اور ہر مہینے میں دو یا ایک مرتبہ اپنا نکاح پڑھاتا رہے ۔ (یعنی تجدید نکاح کرتا رہے) دو گواہوں کے سامنے کیونکہ اگرچہ آدمی کی طرف سے کوئی نہ ہو ۔ مگر عورتیں گناہ میں کثرت کرتی ہیں۔ انا عبد من المنی حرفا واحدا ان شاء باع وان شاء اعتق وان شاء استرق۔ (تعلیم المتعلم ) یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا۔ اگر ہو چاہے تو مجھے پیچ دے اگر چاہے تو آزاد کر دے اور اگر چاہے تو غلام بنا لے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : من تعلم عبدا آیۃ من کتاب اللہ فھو مولاہ لا ینبغی لہ ان یخذلہ ولا یستاثر علیہ۔ یعنی جو کسی کو کتاب اللہ کی ایک آیت سکھا دے وہ اس کا آقا ہے لہذا سیکھنے والے طالب علم کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کی توہین کرے یا اس پر برتری جتائے ۔ الاستھزاء بالعلم والعلماء کفر۔ (حموی شرح اشباہ ولنظائر ، ص۱۷۸) علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا گستاخ اگر گستاخی سے باز نہ آئے اور نوبت عاق تک پہنچ جائے تو اسکے بارے میں قران و حدیث سے دلائل اور علماء و مشائخ کرام کی رائے : استاذ و مُرشد کے عاق کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ُاُستاذ و مُرشد کے عاق کی توبہ قبول نہیں ہو سکتی جیسا کہ اس آیۃ کریمہ کی تفسیر میں ہے ۔ فان تولو ا فان اللہ علیم بالمفسدین قال امشائخ رحمھم اللہ تعالی فی تفسیر ھٰذہ الآیۃ عقوق الاستاذین لا توبۃ منہ۔ ( تفسیر روح البیان ج۲، ص۴۶،لبنان ، بیروت) اس سے معلوم ہوا کہ عاق توبہ سے نہیں بخشا جاتا۔ جس طرح سابی الرسول توبہ سے نہیں بخشا جاتا۔ یہ مذھب مختار ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ عاق، شرک سے بڑا گناہ ہے ، کیونکہ شرک توبہ سے بخشا جاتا ہے ۔ اعوذ باللہ منہ تحذیر الاخوان ص۱۷۰ میں فج عمیق کے حوالے سے منقل ہے کہ عاق کے کفر کے بہت سی روات منقول ہیں آخر میں لکھا ہے کہ عاق کا کفر۔ نوادر اور ذکیرہ کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخون درویزہ بابا رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے رسالے میں لکھا ہے کہ کسی کتاب میں نہ روایت ہے یہ کسی سے سُنا گیا ہے اور نہ کوئی کہتا ہے کہ عاق کے پیچھے نماز جائز ہے ۔ حق الاستاذ فرض فمن انکر من حقہ فھو کافر وکذا الشیک بل الشیخ افضل من الاز فادبہُ اولی من ادبہ وقال یحییٰ بن معاذ العلماء ارحم بامۃ محمد ﷺ من اٰ بائھم وامھا تھم قیل وکیف ذٰلک قال لان اٰ بائھم وامھاتھم یحفظونھم من نار الدینا وھم یحفظونھم نار الآ خرۃ۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری، شیخ ابو عبد الرحمن حاجی ملا حیدر الحنفی القادری) یعنی اُستاذ کا حق فرض ہے جس نے اُستاذ کے حق کا نکار کیا وہ کافر ہے اس طرح شیخ یعنی پیر و مرُشد کا حق ہے بلکہ شیخ والد سے افضل ہے تو شیخ و استاذ کا ادب والد کے ادب سے اولی و مقدم ہے ۔ یحییٰ بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علماء کرام اُمت محمدیہ پر ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ وہ کیسے فرمایاکہ ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والاے ہیں پوچھا گیا کہ وہ کیسے فرمایا کہ ان کے والدین انہیں اس دنیاوی آگ سے محفوظ رکھتے ہیں اور علماء کرام ان کو آخرت کی آگ سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اسکی تائید فقۃ کے دلائل سے بھی ہوتی ہے ۔ وعقوق الوالدین الخ و المعلم و الشیخ قیاس علیھما و فی الفتاوی برالتلمیذ لا ستاذہ الفضل من بر الوالد لوالدیہ لا نالاب یحمی ولدہ من اٰفات الدینا و الاستاذیحمی تلمیذہ من اٰفات الآخرۃ۔ انتھی۔ ویودہ ما فی کتب الفقہ و زوج الموضعۃ اب المرفع انتھی ۔ وتربۃالعلم افضل من تربۃ اللبن و قال فی الظھریۃ و غیر ھا لا یجوز الصلوۃ خلف العاق ولا تقبل توبۃ انتھی ۔ وفی العاق ثلاثۃ والقاف دال علی القھر فھٰذا اسباب العقوق اعذانا اللہ تعالی منہ ولا یجوز تعلیم العلم ولا طلب المسئلۃ من العاق۔ (تسھیل المشکوۃ صفہ ۵) یعنی والدین کی نافرمانی اور اس پر قیاس استاذ اور پیر و مُرشد کی نافرمانی ہے ۔ شاگرد کا اپنے استاذ کی خدمت بیٹے کا اپنے والدین کی خدمت سے افضل ہے ۔ کیونکہ باپ اپنے بچے کو دنیاوی مصیبتوں سے بچاتا ہے اور استاذ اپنے شاگرد کو اُخروی آفات سے بچاتا ہے ۔ اسکی تائیدمیں فقہ کے دلائل بھی موجود ہیں۔ دودھ پلانے والی عورت کا شوہر دودھ پینے والے بچے کا باپ ہے ۔ اور علم کی تربیت دودھ کی تربیت سے افضل ہے ظہریہ میں ہے کہ عاق کے پیچھے نماز جائز نہیں اور عاق کی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ عاق میں تین حروف ہیں عین، عیب پر دلالت کرتا ہے ، الف ، اہانت پر دلالت کرتا ہے قاف ، قہر پر دلات کرتا ہے ۔ اور یہ تینوں عقوق کے اسباب ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے بچائے ۔ آمین۔ عاق کو تعلیم دینا یا اس سے مسئلہ پوچھنا جائز نہیں۔ ولاتعقن والدیک ہا و قیاس علیھا المعلم و شیخ و زوج المرضعۃ و العجب فی ھٰذا الذمان ان الا و لاد یخالفون عن الوالدین و التلمیذ من الاستذۃ و ھلم جرا و قال فضل بن عیاض لا الکلم العالم الذی یخالف عن شیخہ ولاانظر اِلی وجھہ انتھی۔ ( تسھیل المشکوۃ ص ۶) یعنی اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اور اس پر قیاس استاذ اور پیر و مُرشد ہے اور رضاعی باپ بھی۔ اس زمانے میں تعجب کی بات یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین اور شاگرد اپنے اساتذہ کی مخالفت کرتے ہیں، فضیل بن عیاض فرماتے ہیں میں اِس عالم سے بات نہیں کرتا جو اپنے پیر و مرشد کی مخالفت کرتا ہے اور نہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ من تعلم منہ حرفا من القرآن اور من تفسیر اور من الففقہ او من مسئلۃ من المسائل الدینیۃ او من کلمۃ الاخری او من الصلوۃ او من ذکر اللی او نصیحۃ من الحسنات فھو الستاذ من انکر من حقہ کفر لان حق الاستاذ فرض من انکر من حقہ فھو کافر النبی ﷺ من استخف استاذہ ابتلاہ اللی بشالاثہ بلاء اولہ نسی منہ العلم و الثانی قل رزقہ و الثالث یخرج من الدنیا کافرا و من منع کلمۃ من کلام الاستاذ من عاق لا یقبل اللہ تعالی عنہ الصلوۃ و الصوم الحج و الذکاۃ و کل عبادۃ ولا یجوز الصلوۃ خلفہ ولایقبل شھادتہ ولا یعتبر قولہ ولو کان عالما فقیھا ولاذبیحۃ من یدہ لانہ صار عاقا فذبیحۃ العاق و الکافر سواء کان فی النار من الکافرین الا ان یرضی عنہ الستاذہ صار مسلما کما اسلم الکافر من الکفر کذا ذکر من منھاج العابدین۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری، شیخ ابو عبد الرحمن حاجی ملا حیدر الحنفی القادری) یعنی جس نے کسی سے ایک حرف قُرآن یا تفسیر یا فقہ یا دینی مسئلہ یا کلمہ شھادت یا کوئی دوسرا کلمہ یا نماز یا ذکر یا نیکی کو کوئی نصیحت سیکھی تو وہ اس کا استاذ ہے پس جو اپنے استاذ کا حق فرض ہے اور جو اس سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے ۔ اس طرح جس نے اپنے استاذ کی اہانت کی وہ کافر ہے ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے استاذ کی توہین کی اس کو اللہ تعالی تین مصیبتوں میں مبتلا کرے گا۔ ۱۔ اس سے علم بھول جائے گا۔ ۲۔ رزق میں کمی ہو گی۔ ۳۔ دنیا سے کافر جائے گا۔ جس نے اپنے استاذ کی کوئی بات منع کی تو وہ عاق ہے ۔ اللہ تعالی اس کی نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ، اور اللہ اس کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں فرمائے گا۔ اور عاق کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اسکی شہادت قبول نہیں اور نہ ہی اس کے قول کا اعتبار ہو گا اگرچہ عالم ہو یا فقیہ اور اسکے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں کیونکہ وہ عاق ہے اور عاق اور کافر کا ذبیحہ برابر ہے اور کافروں کے ساتھ دوزخ میں ہو گا۔ مگر یہ کہ استاذ اس سے راضی ہو جائے تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔ لایقبل اللی تعالی من کل طاعۃ کالکافر ولا یجوز الصلوۃ خلفہ قال رسول اللہﷺ المرتد علی نوعین احدھمامرتد عن الدین فیلقنہ علی الفور فان عاد و تاب صار مسلما فیصیح توبتہ ولا یقتل و الثانی المرتد عن الاستاذلا یقبل اللی تعالی منہ کل طاعۃ بالاتفاق الاان یرضی استاذہ ذکر فی الظھیرۃ و کذٰلک لا تسافر بغیر اذن الاستاذ حتی لا تصیر عاقا۔ ( دُررالفرائد معروف بکچکول الحیدری ،ص ۳۳۵، ۳۳۶ بریقیہ ۱۴۸) اللہ تعالی عاق کی کوئی عبادت کافر کی طرح قبول نہیں فرماتا اور عاق کے پیچھے نماز نہیں ہوتی سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا مُرتد کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ دین سے مُرتد : ایسے مُرتد کو فورا دین کی تلقین کی جائے گی اگر واپس آیا اور توبہ کی تو مسلمان ہو گیا اور اس کی توبہ قبول ہے اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۲۔ اپنے استاذ سے مُرتد: ایسے مُرتد کا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس سے استاذ راضی ہو جائے اور استاذ کی اجازت کے بغیر سفر بھی نہیں کرنا چاہیئے تاکہ عاق نہ ہو جائے ۔ عاق کا شرعی حکم ۱۔ عاق کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس پر اپنی بیوی طلاق ہو جاتی ہے ۔ ۲۔ اسکا ذبیحہ حرام اور گواہی مردود ہے اور اس کی امامت صحیح نہیں ۔ ۳۔ اسکی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز واجب الاعادۃ ہے ۔ ۴۔ عاق کا کوئی قول و فعل معتبر نہیں ۔ ۵۔ عاق کی کوئی بھی مالی و جانی عبادت قبول نہیں ہے ۔ ۶۔ اگر اسلامی قانون نافذ العمل ہو تو عاق واجب القتل اور لازم الاہانت ہے ۔ سب سے پہلے عاق شخص کو توبہ کی ترغیب دی جائے گی اگر توبہ کر کے اپنے حقدار ( استاذ، مُرشد، اور والدین) کو راضی کر لیا تو پھر اس کو اسلام کی تلقین کی جائے گی اور نکاح کی بھی تجدید کی جائے گی ۔ اگر توبہ سے انکار کیا تو واجب القتل ہے ۔ اور اگر قتل کا غلبہ و قدرت نہ ہو تو عاق کے ساتھ قطع تعلق کرنا واجب ہے البتہ استاذ کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے جس نے کسی سے ایک بھی حرف پڑھا اس کی قدر کرے گا اور اس کے سامنے عاجزی کرے گا۔ علماء ومشائخ کرام ومُرشد اور استاذ کا گستاخ جب عاق ہو جائے تو اسکا کیا حکم ہے بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ اُستاذ و مُرشد کا عاق فاسق ہوتا ہے ۔ ہالانکہ فاسق لُغت میں خارج عن حد الایمان کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ قولہ تعالی الاالفاسقین الزین الفاسق فی اللغۃ خارج عن حد الایمان۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فاسق بھی کافر ہوتا ہے ۔ فاسق کا کفر دلالت النص سے ثابت ہے جیسا کہ مولوی صاحب شرح الحسامی نے تشریح کی ہے ۔ فان استدل بمعناہ اللغوی فدلالت ص۷۴۔ وفی الشرع الخارج عن امر اللی بارتکاب الکبرۃ ولہُ درجات ثلث الاولی التغابی وھو ان یرتکبھا احیانا مستقبحا ایاھا و الثانیۃ الانھمساک وھو ان یعاتاد ارتکا بھا غیر مبال بھا و الثالثۃ الجحود و ھو یرتکبھا متصوبا ایاھا فخلع ربقتہ الایمان عن عنقہ وھو لا بس الکفر۔ (تفسیر بیضاوی ،ص ۵۴) عاق اگر استاذ کا اگر فاسق ہے تو اعلیٰ درجہ کا فاسق ہے (وھو لابس الکفر) اس سے ثابت ہوا کہ عاق امامت کے لائق ہرگز نہیں ہو سکتا۔ لان معصومیت الامام عن الکبائر شرط لان الام ھو الذی یوتمّ بہ وقتدی بہ فلو صدر منہ الکبائر لو جب علینا الاقتداء لہ فی ذٰلک فیلزم ان یجب علینا فعل الکبائر و ذٰلک محال لان کونہ معصیۃ عبارت عن کونہ ممنوعا من فعلہ و کونہ واجب عبارت عن کونہ ممنوعا عن ترکہ والجمع بینھما محال فثبت بدلالۃ النص بطان امامۃ الفاسق وقال لا طعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق و دل ایضا علی ان الفاسق لا یکون حاکما و احکامہ لا تنفذ اذا ولی احکم و کذا لا تقبل شھادتہُ و لا خبرہُ اذا اخبر عن النبی ولا فتیاہ اذا افتنی ولا یقدل الصلوۃ ۔ (تفسیر کبیر ج۱، ص۴۶۹ ) کراھۃ تقدمہ بانہ لا ینھم لا مردینہ وبان تقدمہ للا مۃ تعظیمہ وقد و جب علیھم اھانتہ شر عابل مشی فی شرح منیۃ علی ان کراھِۃ تقدمہ بانہ لاینھم لامردینہ وبان تقدمہ للمۃ تعظیمہ وقد وجب علیم اھانتہ شر عابل مشی فی شرح منیۃ علی ان کراھۃ تقدیم ہکراھتہ لما ذکر نا ولھٰذا لم تجز الصلوۃ خلفہُ اصلاعن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ و فی روایۃ احمد رحمہ اللہ تعالٰی ۔ (شامی ،ج۱) فاسق ، علماءی مجتہدین کے درمان کافر اختلافی ہو گیا ہے ۔ (کبیری ص ۳۱۸، ۳۱۹) عاق کافر ہے اور اس کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہے ۔ (فتاوی نور الھدیٰ المشہور فتاویٰ جامع الفوائد) وینبغی للمتعلم ان یعظم استاذہ لان فی تعظیم برکۃ ومن لم یعظم او شتم فھو عاق لا تقبل صلاتہ و لااممتہُ و یعذر و یشھر ع لیہ الفتوی فی زماننا(مختار الفتاوی ) ولا یجوز شھادۃ العاق ولاامامتہ و تسقط عدالتہ ولایتعبر قولہ ولایعمل بفتواہ لو کان مفتیا(تحفۃ الفقھاء) لا یحل ذبیحۃ العاق ولامامتہ لان العاق یصیر متدا فی الحال و مثواہ فی النار (فتاویٰ جامع) من امتنع کلمۃ من الاستاذ فھو عاق لم یدخل الجنۃ ولانجدۃ لہ من النار و یخرج من الدنیا بغیر الایمان ولا تقبل عبادتہ ان کان الاستاذ ممن تعلم منہ حرفا من القرآن او تعلّم مسئلۃ من مسائل الفقہ او الحدیث او النصیحۃ من الحسنات او الذکر او لقّن کلمۃ طیبۃ۔ (فتاوی نور الھدیٰ المشہور فتاویٰ جامع الفوائد) (1) يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ" أخرجه أحمد: جـ 441/6، وأخرجه مختصرًا ابن ماجه: 3376, وحسَّن إسناده البوصيري. النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ، وَلَا عَاقٌّ وَالِدَيْهِ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ (2) مسند أحمد 2/ 201 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عاقٌّ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ". أخرجه أحمد: جـ 441/6، وأخرجه مختصرًا ابن ماجه: 3376, وحسَّن إسناده البوصيري. وأخرجه أحمد بن منيع، ثنا الهيثم بن خارجة، ثنا سليمان بن عتبة به انظر: مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 1173، وحسنه الألباني في: الصحيحة: 675. (3) أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ وَلَا عَاقٌّ وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ» . وأخرجه أحمد 3/ 28 من طريق عبد العزيز بن مسلم به. وأخرجه أحمد 3/ 44 والبيهقي 8/ 288 من طريق شعبة عن يزيد به. وأخرجه أبو يعلى 1168 من طريق جرير عن يزيد به. وأخرجه النسائي في «الكبرى» 4920 عاق اور صلہ رحمی قطع کرنے والا جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (فتاوی خانیہ ) سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ والدین کے نافرمان کی مغفرت کی جائے گی مگراستاذ کے نافرمان کی مغفرت نہ ہو گی ۔ (مجمعۃ العجائب) الاستھزاء بالعلم و العلماء کفر۔ (بحر الرائق ج۵، صفہ ۱۲۳، درسہ جا آوردہ) ولو صغر الفقیہ قاصدا الا ستاخفاف بالدین کفر ۔ (بحر الرائق ج۵، صفہ ۱۲۴، ) قال الملا علی قاری من البعض عالما من غیر سبب ظاھرخیف علیہ الکفر قلت الظاھر انہ یکفر لا نہ اذا ابعض العالم من غیر سبب دنیوی او اخروی فیکون بغضہُ لعلم الشریعۃ ولا شک فی کفر من انکرہ فضلا عمن ابعضہُ۔ (شرح فقہ الاکبر) تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ استاد کا عاق توبہ سے نہیں بخشا جاتا جب تک کہ استاد کو راضی نہ کرے اس سے ثابت ہوا کہ عاق، شرک سے بڑا گناہ ہے کیونکہ شرک توبہ سے بخشا جاتا ہے اللہ رب العرز ہمیں والدین ، استاد اور شیخ کی نافرمانی سے بچائے ۔ آمین جو شخص علماء کرام کی توہین کرے یا ان کا مذاق اُڑائے اُس کے متعلق سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے اُستاد کو حقیر جانے اُس شخص کو اللہ تعالی بارہ بلائوں میں مبتلا فرما دیتا ہے ۔ ۱۔ وہ شخص جو کچھ بھی علم حاصل کریگا بھول جائیگا۔ ۲۔ اسکا رزق جاتا رہے گا۔ ۳ ۔ اُسکی عمر کم ہو گی۔ ۴۔ اُسکے چہرے سے نیکی اور سعادت کی رونق دور ہو جائیگی ۔ ۵۔ عبادت الہٰی کی اُسکو توفیق نہ ہو گی ۔ ۶۔ شیطان کے مکر و فریب میں ہمیشہ مبتلا رہے گا۔ ۷۔ معرف الہٰی کیلئے اُسکا دل حاضر نہ ہُو سکے گا۔ ۸۔ جان کَنی کے وقت اُسکی زبان سے کلمہ شہادت کیلئے گونگی ہو جائے گی۔ ۹۔ دنیا سے بغیر ایمان کے اُٹھا لیا جائے گا۔ ۱۰۔ اُس کی قبر اس قدر تنگ ہو گی کہ اُسکی ہڈیاں پسلیاں چُور چُور ہو جائیں گی۔ ۱۱۔ فاسقوں اور بد کاروں کے ساتھ اُسکا حشر ہو گا۔ ۱۲۔ ہمیشہ دوزخ میں رہیگا۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۱۶۹) شب برات یعنی ۱۵شعبان المعظم کی مبارک رات کو تمام لوگوں کی بخش دیا جاتا ہے سوائے ان سات بد نصیب لوگوں کے ان ساتھ میں سے ایک بد نصیب وہ شاگرد بھی ہے جسکا اُستاذ اُس سے ناراض ہو۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۳۳۳) اے لوگو میرے اہلبیت رضوان اللہ اجمعین کی محبت اور حاملان قُرآن کی محبت اور اپنے علماء کی محبت فرض سمجھو، خبردار|ا ۔۔ کبھی اُنسے بُغض و حسن نہ رکھنا کبھی اُن پر طعن و تشنیع نہ کرنا خوب سمجھ لو کہ جو اُن کا دوست ہے وہ میرا دوست ہے اور جو میرا دوست ہے وہ خُدا کا دوست ہے جو اُنسے دشمنی رکھتا ہے وہ میرا دشمن ہے جو میرا دشمن ہے وہ خُدا کا دشمن ہے ۔ ( تذکرۃُالواعظین ص۲۳۵) سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت عالم کسی جلسہ میں آئے اور حاضرین اُسکی تعظیم کے لئے پورے طور پر کھڑے نہ ہوں تو قیامت کے دن وہ لوگ میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔ (فتاوی نسفی)( تذکرۃُالواعظین ص۷۹) ہنر ی کا کہناہے:معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے ۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اُٹھاتے ہیں ۔جنکے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ۔ کیونکہ :الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ ”ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل ۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟“ ادب و تعظیم و توقیر پر سلف صالحین کی روایات: اب ملت اسلامیہ کی قابل قدر ،قد آورچنداہم شخصیات کے احوال و اقوال کا ذکر کیا جاتا ہے ۔جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں قائم کیں اور جو ہمارے لےے مشعل راہ ہیں۔ مفسر قرآن حضرت سیدنا عبد اللّٰہ ابن عباس رضی اللہ عنہما: معارف قرآن کے لئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھر جاتے ۔ تو انکے دروازے پر دستک نہ دیتے ۔ بلکہ خاموشی سے انکا انتظار کرتے ۔حتیٰ کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر آتے ۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو یہ بات گراں گزری ۔ایک دن کہنے لگے”آپ نے دروازہ کیوں نہ کھٹکھٹایا ۔تاکہ میں باہر آجاتا اور آپکو انتظار کی زحمت نہ اُٹھانا پڑتی۔“آپ نے جواب میں کہا! العالم فی قومہ کالنبی فی امتہ وقد قال اللّٰہ فی حق نبیہ ﷺ ولو انھم صبروا حتیٰ تخرج الیھم۔”عالم کا اپنی قوم میں مقام ایسا ہی ہے جیسے نبی ﷺ کا مقام امت میں اور بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے ادب کے بارے فرمایا (اے دروازہ نبوت پر آوازیں لگانے والو)اگر تم صبر کرتے یہاں تک کہ میرے رسول خود باہر تشریف لاتے۔“ حضرت زید بن ثابت نے ایک جنازے پر نماز پڑھی ۔پھر انکی سواری کےلئے خچر لایا گیا ۔تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھا م لی ۔حضرت زید نے یہ دیکھ کر کہا:اے ابن عم رسول اللہ !آپ ہٹ جائیں ۔اس پر حضرت ابن عباس نے جواب دیا:”علماءاور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہے۔“ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہرضی اللہ عنہ:امام اعظم رضی اللہ عنہ اور آپکے استاد امام حماد بن سلیمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔ لیکن آپ کبھی انکے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوئے۔آپ دوران درس اپنے استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے ۔امام حماد کی ہمشیرہ عاتکہ کہتی تھیں ،کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے ۔دودھ اور ترکاری خرید کر لاتے اور اسی طرح کے بہت سے کام کرتے تھے۔ امام احمد رضی اللہ عنہ:امام احمد رضی اللہ عنہ ایک بار مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔اثنائے گفتگو ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا۔ان کا نام سنتے ہی آپ فوراً سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ بات ناز یبا ہو گی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم اسی طرح بیٹھے رہیں ۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کی مجلسِ درس بڑی باوقار ہوتی تھی ۔تمام طلبہ مو ¿دب بیٹھتے۔یہاں تک کہ ہم لوگ کتاب کا ورق آہستہ اُلٹتے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز پیدا نہ ہو۔ امام قاضی ابو یوسف رحمة اللہ علیہ:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کےلئے دعا نہ مانگی ہو۔ ایک روایت ہے کہ آپ ہر نماز کے بعد پہلے امام اعظم کےلئے دعا مغفرت کرتے تھے ۔پھر اپنے والدین کےلئے ۔ امام ربیع رحمة اللہ علیہ :آپ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے استاد حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی نظروں کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرا ت نہیں ہوئی۔ ہارون الرشید :ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کےلئے کھڑا ہوجاتا ۔درباریوں نے کہا کہ اس سلطنت کا رُعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگا ۔اس دوران میں عالم صاحب سے پوچھا ۔آپ کو معلوم ہے کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے ۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے ۔اس پر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا ۔بلکہ جواب دیا کہ ہاں آپ نے علم کی عزت کےلئے ایسا کیا ہے ۔اس نے جواب دیا بے شک یہی بات ہے ۔ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعی کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً انکے پاس جا پہنچا ۔دیکھا کہ اصمعی اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے ۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا ۔میں نے تواسے آپکے پاس اسلئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے ۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے ۔ حضر ت یوسف بن حسین رحمة اللہ علیہ: حضر ت یو سف بن حسین رحمتہ اللہ علیہ کا قو ل ہے کہ ادب سے علم سمجھ میں آتا ہے ۔اور علم سے عمل کی تصحیح ہوتی ہے ۔اور عمل سے حکمت حاصل ہوتی ہے ۔(آداب المعلمین ،صفحہ10) اصمعی رحمة اللہ علیہ کا قول مشہور ہے:جو شخص علم حاصل کرنے میں ایک لمحہ کی ذلت برداشت نہ کر سکے ،وہ پھر ساری عمر جہالت کی ذلت میں زندگی گزار دیتا ہے۔ (ادب الاملائ،والاستملاءللسمعانی،صفحہ145۔ ) حضرت مظہر جان جاناں:حضرت مظہر جان جاناں شہید رحمة اللہ علیہ نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل سے حاصل کی تھی ۔تحصیل علم سے فراغت کے بعد حضرت حاجی صاحب نے اپنی کلاہ جو پندرہ برس سے آپکے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی ۔حضرت مظہر جان جاناں کو عنایت فرمائی۔آپ نے رات کے وقت ٹوپی پانی میں بھگودی ۔ صبح کے وقت پانی سیاہ ہو چکا تھا ۔آپ نے اس پانی کو پی لیا ۔آپ فرماتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے میرا دماغ ایسا روشن ہوا کہ کوئی کتاب بھی مشکل نہ رہی۔ اللہ ہم سب کو علماء و مشائخ کی گستاخی اور ناراضگی سے بچائے ۔ آمین فقیر خادم علم و علماء محمود ختم شد