کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'اولیاءکرام'.
-
اولیاءوصوفیاء کرام کی کرامات-پانی اور ہوا پر چلنا - انجنیئر مرزا محمد علی جہلمی کو جواب
اس ٹاپک میں نے فیصل خان رضوی میں پوسٹ کیا دیگر فتنے و مذاہب
تحقیق مسئلہ: اولیا ءکرام کا پانی پر چلنا مرزا محمد علی جہلمی صاحب کا اولیاء کرام کی کرامات پر ٹھٹھہ بازی تحریر:خادم اہل سنت و جماعت فیصل خان رضوی بسم اللہ الرحمن الرحیم اولیاء کرام کی عظمت و شان کی وجہ تقوی اورشریعت پر پابندی ہوتی ہے۔اہل سنت و جماعت اللہ کا ولیوں سے محبت ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے۔اولیاء سے محبت صرف اللہ او ر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اور اسی کا شریعت مطاہرہ نے درس بھی دیا۔ Ø ایک دوست نے جناب مرزا محمد علی صاحب کی ایک ویڈیو بھیجی ،جس میں جناب کے دیگر عقلی دلائل کے ساتھ جب اولیاء کرام کے بارے میں نہایت عامیانہ لفظ "بابے "سنا تو بہت حیرانگی ہوئی اور جب وہ اپنی اس تقریر میں اپنے جذبات میں بہتے ہوئے ایک کرکٹ کے کھلاڑی کو 6 چھکے لگانے پر کرامات کا سرٹیفیکیٹ دیا تو سوچا کہ کیا جناب مرزا صاحب کے چاہنے والے ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے ہونے کی باوجود کسی کھلاڑی کی کرامت مان سکتے ہیں؟ بہرحال ایسی باتیں ہمیشہ اپنے متبعین یا چاہنے والوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی لیے جناب مرزا محمد علی صاحب کرتے رہتے ہیں،بلکہ ان کی ایک تقریر میں جناب مرزا صاحب تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ" سائنسدانوں نے تو موبائل بنا دیا ہے اگر تہمارے بابے میں طاقت ہے تو اسے کہو کہ ایک موبائل ہی بنا کر دکھا دیں۔" جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ایک طرف جہاں ان کی دلیل میں نہ استدلالی وزن ہے اور نہ عقلی ۔ بالفرض جناب کی اس عقلی دلیل کو معتبر مان لیا جائے تو اسی طرح کے اعتراض تو دہریے خدا کی ذات پر کرتے ہیں۔آپ ان کی کتابیں خود پڑھ کر دیکھ لیں۔دہریے جب بھی خدا کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں تو کچھ اسی قسم کا اعتراض کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔بہرحال جناب محمد علی مرزا صاحب کے اعتراضات میں ایک نکتہ کی طرف کچھ تحریر کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو ان دلائل کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوسکے۔ Ø جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب اور ان کے چند شاگردوں کی تحریروں اور تقریروں سے یہ بات سامنے واضح ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ولی کی شان اس کی کرامت کے ساتھ ہوتی ہے،اوروہ یہ اعتراض ہم اہل سنت پر اولیاء پر اعتراضات کے ضمن میں کرتے ہیں۔مگر اس بابت کچھ عرض یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کا اس معاملہ پر موقف واضح ہے کہ اولیاء کی عظمت و شان ان کا شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے نہ کہ ان کی کرامات کی وجہ سے ان کی شان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔مگر اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایک ولی اللہ سے اگر شریعت کی پابندی کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر ہوں تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عوام الناس کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ اہل سنت وجماعت اولیاء کی عزت و قدر ان کی کرامات کی وجہ سے نہیں بلکہ دین و شریعت کی پابندی کی وجہ سے کرتے ہیں۔اس نکتہ کو شیخ الصوفیاء حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ بھی بیان کرتے ہیں۔ · محدث علامہ ذہبی اپنی کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول نقل کرتے ہیں : وَقَالَ: للهِ خَلْقٌ كَثِيْرٌ يَمْشُوْنَ عَلَى المَاءِ، لاَ قِيْمَةَ لَهُمْ عِنْدَ الله، وَلَوْ نَظَرْتُم إِلَى مَنْ أُعْطِيَ مِنَ الكَرَامَاتِ حَتَّى يَطِيْرَ، فَلاَ تَغْتَرُّوا بِهِ حَتَّى تَرَوا كَيْفَ هُوَ عِنْدَ الأَمْرِ وَالنَّهْي، وَحِفْظِ الحُدُوْدِ وَالشَّرْعِ۔ سير أعلام النبلاء13/88 ترجمہ : حضرت با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی بہت ساری مخلوق ایسی ہے جو پانی پر چلتی ہے ، اور اس کے باوجود اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ، اور تم کسی ایسےشخص کو دیکھو جسےمتعدد کرامات حاصل ہیں ،حتی کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے تو اس کی کرامات سے ہرگز دھوکا نہ کھانا ۔ اس وقت تک جب تک یہ نہ جان لو کہ وہ امر ونواہی اور شریعت کا پابند ہے "۔ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول کو کچھ اضافہ کے ساتھ محدث ابونعیم نے اپن کتاب حلية الأولياء10/39 پر سنداً نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ مُوسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ الْبِسْطَامِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ أَبُو يَزِيدَ:۔۔۔ تو حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کے اس قول سے واضح ہوا کسی ولی اللہ نے اگر شریعت کی پابندی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو تو اس کی کرامات پر اعتماد ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ نکتہ تو واضح ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک شرف و منزلت کا دارومدار شریعت کی پابندی ہے ۔اس لیے جو لوگ صوفیاء کرام کی کرامت پر اعتراضات کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی کرامات پر اعتراضات کریں گے تو ان کی شرف ومنزلت یا ان کی بزرگی پر اعتراض ثابت ہوجائے گا ،ایسا بلکل غلط اور باطل ہے۔اس لیے کرامات سے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں کہ اس ولی اللہ کی شان میں کوئی حرف آئے گا۔اس کے برعکس اہل سنت و جماعت اولیاء صالحین کی شریعت کی پابندی اور اللہ کے نیک بندے ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کرامات ظاہر ہو تو اس کا انکار بھی نہیں کرتے۔اولیاء صالحین کی کرامات کے منکر معتزلہ ہیں اور صوفیاء کرام کی کرامات پر یقین رکھنااہل سنت و جماعت کے عقائد میں سے ہے۔ · جب ان لوگوں کے پاس دلائل نہیں ہوتے تو ایک بات الزامی طور پر کہتے ہیں ہیں کہ صوفیاء کرام کی کرامت نہ ماننے پر کون سے شریعت کے قانون کا انکار لازم آتا ہے؟ان لوگوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ اپنا مطالعہ وسیع کر لیں تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار کرنا عقائد اہل سنت کے قبیل سے ہے ۔اس پر شرعی حکم اگر کسی مفتی صاحب ہی سے پوچھ لیں تو بہتر ہوگا۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب سے جب اولیاء کرام کی شان کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو اولیاء کرام پر اعتراض کرنے کے لیے عقلی دلیل پیش کی کہ اگر کوئی ولی پانی پر چل سکتا ہے تو آج کل کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چل کر دکھا سکے۔ جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب کی اس بات کا مقصد یہ عوام الناس کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ کر دیا جائے کہ کیونکہ آج کوئی ولی اگر پانی پر چل نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام کرامات جو کتب میں موجود ہیں وہ جھوٹی ہیں۔اور اگر ان اولیاء کرام کی کرامات جھوٹی ثابت ہوئیں تو ان کی شان و منزلت پر یقین کرنا بھی صحیح نہیں۔ مرزا محمد علی صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ کی دلیل عقلی و نقلی طور پر غلط ہے ،وہ اس لیے کہ 1-موجودہ کسی نیک شخص اور متقدمین اولیاء کا تقابل میں قیاس مع الفارق ہے،کیونکہ اہل سنت و جماعت نے یہ موقف واضح کیا ہے کہ ولی اللہ کے لیے کرامت کا ظہور ضرور ی نہیں،اس پر بے شمار عقائد کی کتب میں تصریحات موجود ہیں۔ 2-ولی اللہ کے لیے یہ بھی شرط نہیں کہ جب کوئی اعتراض کرے تو وہ اس کرامات کو ظہور پذیر کرنے کا پابند بھی ہو۔ 3-امت کے ولیوں میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کا بھی شمار ہوتا ہے،ان صحابہ کرام سے ظہور پذیر کرامات کا [جو کہ صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہیں]اگر کوئی اس دلیل کے ساتھ رد کرے کہ ہم ان جیل القدر شخصیات کی کرامات کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسی کرامت ہوسکتی ہے تو پھر آج کا کوئی ولی ہمارے سامنے ایسی کرامات کا ظہور کر کے دکھائے۔ شاید مرزا محمد علی صاحب کو قران مجید کی ان آیات کا بغور مطالعہ کیا ہو جس میں بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے خدا کو ماننے کی شرائط رکھیں تھیں۔مرزا محمد علی جہلمی صاحب کے ان استدلال پر اتنی بات ہی بہت ہے کیونکہ قارئین کرام عقل بھی رکھتے ہیں اور شعور بھی۔ 4-جناب ایسے استدلال سے تو آپ کو صحیحین اور صحاح ستہ کی بے شمار احادیث کو غلط اور جھوٹ کہنا پڑجائے گا کیونکہ کثیر روایات میں صحابہ کرام اور تابعین و تبع تبعین کی کرامات ثابت ہیں۔ 5- اگر ان حادث صحیحہ کی کرامات کو آپ یہ کہہ کر تسلیم کرتے ہیں کہ ہم صرف اُن کرامات کو مناتے ہیں جو صحیح روایات میں منقول و ثابت ہے تو جوابا ًعرض ہے کہ پھر تو آپ کی وہ عقلی دلیل[کہ اگر پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا کسی ولی سے ہو سکتا ہے تو کوئی ہمارے سامنے کر دکھائے]بھی ہبا منشور ہوجاتی ہے ،کیونکہ آپ نے کرامات کو جانچنے کا طریقہ یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی آج کل ایسی ہی کرامت کر کے دکھا دے تو آپ اس کو مان لیں گے۔جناب مرزا صاحب،پھر تو صحابہ کرام کی ہر کرامت کو آپ کو اس وقت ماننا چاہیے جب ایسی کرامت آج کوئی آپ کے سامنے ظہور پذیر کرسکے۔ اب جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب خود فیصلہ کریں کہ کون سی دلیل معتبر ہے اور کون سی قابل رد۔کیونکہ آپ کے اصولوں کے مطابق اگر آپ کے سامنےظہور پذیر کرامات کو دلیل لیا جائے تو پھر کوئی بھی کرامت کیا ثابت ہو سکتی ہے؟اگر احادیث و مروایات صحیحہ کی کرامات آپ کو قبول ہیں تو دیگر اولیاء کرام کی کرامات پر انکار کیوں؟اس کا فیصلہ آپ کے چاہنے والے خود کریں تو بہتر ہوگا۔ موصوف محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی ہر دلیل ا و رقیاس ان کے اپنے ہی خلاف جاتا ہے۔ اولیاء کرام کی کرامات تو اس تواتر سے ثابت ہیں کہ اس کا انکار کوئی ضدی یا ہٹ دھرم شخص ہی کرسکتا ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا ایسی بات نہیں کرسکتا۔ان کرامات کو تواتر کے ساتھ نہ صرف صوفیاء نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے بلکہ محدثین کرام نے اولیاء کرام کی کرامات پر کتب لکھیں ہیں جن میں محدث ابن خلال اور محدث لالکائی علیہ الرحمہ کی کرامات اولیاء مشہور و معروف کتب ہیں۔ اس مقام پر مناسب ہے کہ اس امت کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ حضرت ابو مسلم الخولانی علیہ الرحمہ کی کرامت کا بیان کیا جائے کہ ان سے پانی پر چلنا معتبر کتب و اسانید سے محدثین کرام نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنا 1. امام عبداللہ سے مروی امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں حضرت ابو مسلم الخولانی کا پانی پر چلنے کا واقعہ صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»۔(الزهد أحمد بن محمد بن حنبل 1/310،رقم:2253) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 2. محدث ابو نعیم اسی روایت کو سند سے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَالِكٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، أَوْ غَيْرِهِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ، مَرَّ بِدِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُو اللهَ؟۔( حلية الأولياء وطبقات الأصفياء5/120) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 3. محدث لالکائی روایت نقل کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، أنا الْحُسَيْنُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا فَنَدْعُو اللَّهَ تَعَالَى؟ (كرامات الأولياء للالكائي: ص188،رقم149) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 4. امام ابن الدنیا اس روایت کو اپنی سندسے بیان کرتے ہیں۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ: " انْتَهَى أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ إِلَى دِجْلَةَ وَهِيَ تَرْمِي بِالْخَشَبِ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ شَيْئًا؟ فَتَدْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ "۔ (مجابو الدعوة1/68،رقم86) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ 5. امام بیھقی اپنی کتاب میں روایت نقل کرکے تحریر کرتے ہیں۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّمُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ أَبَا مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى الدِّجْلَةِ وَهِيَ تَرْمِي الْخَشَبَ مِنْ مَدِّهَا، فَمَشَى عَلَى الْمَاءِ وَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ مَتَاعِكُمْ شَيْئًا فَنَدْعُوَ اللهَ. هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ۔ (دلائل النبوة6/54) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔امام بیھقی نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ صوفیاء پر سب سے زیادہ نقل کرنے والے محدث ابن الجوزی کو جب اپنی تحریر کے بارے میں احساس ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے صوفیاء کرام کی کرامات کا اقرار بھی کیا اور اسے بیان بھی کیا اورصوفیاء کے حالات پر ایک تفصیلی کتاب صفوۃ الصفوۃ بھی لکھی۔ 6. محدث ابن الجوزی حضرت ابو مسلم الخولانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ سليمان بن المغيرة قال: جاء مسلم بن يسار إلى دجلة وهي تقذف بالزبد، فمشى على الماء ثم التفت إلى أصحابه فقال: هل تفقدون شيئاً؟. (صفة الصفوة 2/142) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا تم اپنے سامان کے بارے میں فکر مند ہو۔ 7. امام نووی جنہوں نے مسلم شریف کی شرح لکھی جو شرح نووی کے نام سے مشہور و معروف ہے،انہوں نے اپنی کتاب میں بھی حضرت ابو مسلم الخولانی کی کرامت کو بیان کر کے اس کو تسلیم کیا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں۔ ومن نفائس كراماته ما رواه الامام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد له أن أبا مسلم الخولاني مر بدجلة وهي ترمي الخشب من برها فمشي على الماء ثم التفت إلى الصحابة فقال هل تفقدون من متاعكم شيئا فتدعوا الله عز وجل. (بستان العارفين1/71) ترجمہ: حضرت ابو مسلم الخولانی ایک مرتبہ دجلہ کی طرف تشریف لائے،اس وقت دجلہ نے اپنے اندر تیرتی لکڑیوں کو پھینکنا شروع کردیا،اور حضرت ابو مسلم الخولانی نے پانی پر چلنا شروع کردیا اور پھر اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تمہارے سامان سے کوئی چیز کم ہوگئی تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ تمہیں وہ لوٹا دے۔ مذکورہ بالا تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابو مسلم الخولانی سے یہ کرامت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور محدثین کرام نے اس کرامت کو اپنی کتب میں بیان کر کے کرامت پر دلیل بھی پیش کی ہے۔ محدثین کرام کی نظر میں - اولیاء کا پانی پر چلنا صحابہ کرام و اولیاء امت سےاسانید صحیحہ سے ایسی کرامات ثابت ہی جس میں دریا کا پھٹنا،ان کا ہٹنا اور پانی پر چلنا۔دریا کا پھٹنا اور دریا کا راستہ دینا تو مرویات صحیحہ میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کتب احادیث میں روایات موجود ہیں۔ محدث علامہ سبکی کی تحقیق: · محدث علامہ سبکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ النَّوْع الثَّالِث انفلاق الْبَحْر وجفافه والمشى على المَاء وكل ذَلِك كثير وَقد اتّفق مثله لشيخ الْإِسْلَام وَسيد الْمُتَأَخِّرين تقى الدّين بن دَقِيق العَبْد۔ (طبقات الشافعية الكبرى2/339) ترجمہ: دریا کا پھٹ جانا،دریا کے پانی کا کم ہوجانا اور پانی پر چلنا ،ایسی کرامات بھی لاتعداد ہیں۔شیخ الاسلام سید المتاخرین حضرت تقی الدین دقیق العید سے بھی ایسی کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ قارئین کرام کو یہ بخوبی علم ہوگا کہ علامہ سبکی ایک جلیل القدر شافعی محدث تھے،جنہوں نے ایسی کرامات کے ظہور کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ محدث ابن دقیق العید جو کہ علامہ ذہبی کے شیخ تھےان سے بھی ایسی کرامات کے ظہور کا لکھا ہے۔ اب ہم جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جناب آپ تو اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ" دیکھو جی ان کی کتب میں لکھا ہے کہ فلاں ولی پانی پر چلتے تھے"،ی"ہ دیکھو جی ان کے بابے"۔ان جیسے الفاظ سے جو آپ نے اولیاء امت کا ٹھٹہ اڑایا،اب آپ کا ان محدثین کرام کے بارے میں کیا رائے ہے؟پانی پر چلنے والی کرامت کا اقرار ایک عظم محدث علامہ سبکی نے کی اور اس کا ثبوت محدث ابن دقیق العید سے دیا۔ابن دونوں جیل القدر محدثین کرام کا تمسخر بھی اسی طرح اڑائیں گے یا پھر علمی روش کو اپناتے ہوئے اپنے موقف پر کوئی نظر ثانی بھی کریں گےیا نہیں؟ جناب محمد علی مرزا صاحب نے اولیا امت کی ایسی کرامات کو نقل کرنے پر نہ صرف علماء اہل سنت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ ان ہستیوں کے ذکر کرنے پر بہت لعن طعن بھی کیا اور ان اکابرین کو اہل سنت کے "بابے" جیسے الفاظ بھی استعمال کیے۔لفظ بابے پر جناب مرزا محمد علی جہلمی صاحب یہ موقف پیش کرسکتے ہیں کہ" بابے "پنچابی کالفظ ہے اور اس کا مطلب بزرگ ہوتا ہے۔عرض یہ ہے کہ ہر لفظ کے استعمال کا جہاں موقع محل ہوتا ہے وہاں سیاق و سباق بھی لفظ کے معنی متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مرزا صاحب کی یہ تاویل قابل سماع ہر گز نہیں کیونکہ تقریر وہ اردو میں کرتے ہیں اور درمیان میں مطعون کرنے کے لیے ایسے لفظ کا استعمال یہ واضح کرتے ہیں کہ اکابرین اہل سنت اور اولیاء امت پر طعن و تشنیع مقصد ہے۔بہرحال ہو جس انداز میں گفتگو کرنا چاہیں مگر اب یہ بھی غور کریں کہ اولیاء امت کی کرامات کو ذکر کر کے محدثین کرام کو جناب محمد علی مرزا صاحب کن الفاظ سےپکاریں گے؟ قارئین کرام کی خدمت میں پہلے تو روایت صحیحہ پیش کردی گئی ہے کہ پانی پر چلنا تابعین کرام سےبھی ثابت ہے۔اب جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کی خدمت میں محدثین کرام کے بے شمار حوالہ جات میں سے چند حوالے پیش خدمت ہیں۔ محدث ابن رجب حنبلی کی تحقیق: · محدث ابن رجب حنبلی اپنی کتاب میں علامہ ذہبی کے حوالہ سے فقیہ ابو الموفق ابن قدامہ کا پانی پر چلنا کا اثبات کرتے ہیں۔ وقرأت بخط الحافظ الذهبي: سمعت رفيقنا أبا طاهر أَحْمَد الدريبي سمعت الشيخ إِبْرَاهِيم بْن أَحْمَد بْن حاتم - وزرت مَعَهُ قبر الشيخ الموفق - فَقَالَ: سمعت الفقيه مُحَمَّد اليونيني شيخنا يَقُول: رأيت الشيخ الموفق يمشي عَلَى الماء. ذيل طبقات الحنابلة 3/291 ترجمہ: اپنے شیخ الفقیہ محمد الیونینی سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الموفق کو پانی پر چلتے دیکھا۔ محدث ابن ملقن شافعی کا حوالہ: · محدث ابن ملقن شافعی ،یہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی شیخ اور استاد ہیں ،اصول حدیث المقنع اور حدیث پر البدر المنیراور صحیح بخاری کی شرح مشہور و معروف ہیں،اپنی کتاب طبقات الاولیا میں امام ابراھیم بن سعد العلوی کے ترجمہ میں ان کا پانی پر نماز پڑھنے کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ حكى عنه أبو الحارث، قال: " كنت معه فى البحر، فبسط كساءه على الماء وصلى عليه ". طبقات الأولياء 1/24 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ حضرت ابراھیم بن سعد العلوی کا سمندر میں پانی پرنماز پڑھنے کا واقعہ صرف محدث ابن ملقن نے ہی نہیں لکھا،بلکہ اس واقعہ کو سند کے ساتھ خطیب بغدای اور محدث ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔محدث خطیب بغدادی کا حوالہ: · محدث خطیب بغدادی لکھتے ہیں: عنه أَبُو الحارث.قَالَ: كنت معه فِي البحر فبسط كساءه عَلَى الماء وصلى عَلَيْهِ۔. تاريخ بغداد وذيوله 6/84 ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندر میں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ محث حافظ بن عساکر کا حوالہ:· حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں: عنه أبو الحارث قال كنت معه في البحر فبسط كساءه على الماء وصلى عليه۔( تاريخ دمشق6/401) ترجمہ:حضرت ابو الحارث فرماتے ہیں کہ میں ایک بار سمندرمیں ان کے ساتھ تھا،آپ نے اپنا مصلی پانی پر بچھایا اور اس کے اوپر آپ نے نماز ادا کی۔ مذکورہ بالا حوالہ جات محدثین کرام کی کتاب سے ہیں،کسی سنی بریلوی کی متاخر کتب سے کوئی حوالہ موجود نہیں،اب ان حوالہ جات کو پڑھ کر جناب محمد علی مرزا جہلمی صاحب کوئی نظر ثانی کا پروگرام رکھتے ہیں؟ یا پھر اہل سنت و جماعت سے ہی کوئی خاص دلی لگاو ہے۔ اس مضمون میں اگر کوئی خطاء یا غلطی ہو تو آگاہ کریں،اگر تحریر مسلک یا تعصب سے پاک لگے تو اس پر عمل کریں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات کرنے اور اکابرین اہل سنت کا ادب و احترام کی توفیق عطا فرما۔