حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ عِبْرَت نشان ہے: ''قِیامَت
کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا ۱؎ جب اُسے لایاجائے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ اِن نعمتوں کا اِقرار کریگا پھر اللہ عَزَّوَجَلّ ارشاد فرمائے گا :''تُو نے اِن نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟'' وہ عَرْض کریگا : ''میں نے تیری راہ میں جِہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا :''تُو جھوٹا ہے تو نے جہاد اس لئے کیاتھا کہ تجھے بہادُر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا ۱؎ ، پھر اس کے بارے میں جہَنَّم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ ۲؎
پھر اس شخص کو لایا جائے گا جس نےعِلْم سیکھا، سکھایا اور قرآن کریم پڑھا ،وہ آئے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کریگا، پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے دریافت فرمائے گا :''تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟'' وہ عرض کریگا کہ ''میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ''تُو جھوٹا ہے تو نے علم اِس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالِم کہا جائے اور قرآنِ کریم اس لئے پڑھا تا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔'' ۳؎ پھر اُسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کثرت سے مال عطا فرمایا تھا، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کریگا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : ''تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟'' وہ عرض کریگا: ''میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ''تو جھوٹا ہے تو نے ایسا اس لئے کیا تھا تا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔'' پھر اس کے بارے میں جہنم کا حُکْم ہو گا ،چُنانچِہ اُسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔'' (اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ )
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۹۵۰،ص۱۰۵۵)
حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: معلوم ہوا کہ جیسے اِخلاص والی نیکی جنت ملنے کا ذریعہ ہے ایسے ہی رِیا والی نیکی جہنم اورذِلَّت حاصل ہونے کا سبب ۔ یہاں ریا کار شہید، عالِم اور سخی ہی کا ذِکْر ہوا، اس لئے کہ انہوں نے بہترین عمل کئے تھے جب یہ عمل ریا سے برباد ہوگئے تو دیگر اعمال کا کیا پوچھنا! رِیا کے حج و زکوۃ اور نماز کا بھی یہی حال ہے۔
(مِرْاٰۃ المناجیح ،ج۷،ص۱۹۳)
حکیمُ الْاُمَّت حضرت مولانامفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں: ''رِیا کے بہت دَرَجے ہیں، ہر دَرَجے کا حکم علیحدہ ہے بعض رِیا شرک ِاَصغر ہیں ، بعض ریا حرام ،بعض ریا مکروہ، بعض ثواب۔ مگر جب رِیا مطلقاً بولی جاتی ہے تو اس سے ممنوع رِیا مراد ہوتی ہے۔
Malfoozaat e Alahazrat me bhi ye hadees likhi hai... tarjuma ye likha hai... page 342
ایک بار حُضُور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) تشریف لیے جاتے تھے راہ میں ایک بی بی (یعنی عورت)کا پاؤں پِھسلا رُوئے مُبارک اس طرف سے پھیرلیا۔ صَحَابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)نے عرض کیا : حُضُور! وہ پاجامہ پہنے ہوئے ہے ۔ ارشا د فرمایا:
'' اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُتَسَرْوِلَاتِ ''
اے اللہ بخش دے ان عورتوں کو جو پاجامہ پہنتی ہیں۔
(کنزالعمال،کتاب المعیشۃوالعادات،باب ادب اللباس،حدیث ۴۱۸۳۱،ج۱۵،ص۱۹۷)