Jump to content

Raza11

اراکین
  • کل پوسٹس

    422
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    12

Raza11 last won the day on 22 مارچ 2020

Raza11 had the most liked content!

About Raza11

Previous Fields

  • فقہ
    Hanafi
  • پیر
    Ahmed Alteejani

Contact Methods

  • MSN
    کروں مدحتِ اھل دل رضا ،، پڑے اس بلا میں میری بلا ،،، میں گدا ھوں اپنے حیبیب کا ، میرا دین پارہ ناں نہی

تازہ ترین ناظرین

The recent visitors block is disabled and is not being shown to other users.

Raza11's Achievements

Proficient

Proficient (10/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

20

کمیونٹی میں شہرت

  1. آپ صل اللہ علیہ وسلم کی عظمت تمام خلقت سے اعلی ہے (معنوی اور حسی )اس آیت سے صرف آپ صل اللہ علیہ وسلم کہ اخلاق کی تعریف ہی مقصود نہیں بلکہ آپ صل اللہ علی وسلم کی عظمت تمام تر مخلوقات حسی و معنوی پر اعلی بیان کرنا مقصود ہے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں احادیث صحیحہ بکثرت سے موجود ہے لیکن ایک طويل حدیث ایسی ہے جس میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی تعریف پر جامع و مدلل اترتی ہے عین اسی آیت کریمہ کے مطابق جس کا ذکر اسی حدیث میں بطورے حجت بیان کیا گیا ہے ( قُلتُ : يَا أُمَّ المُؤمِنِينَ ! حَدِّثِينِي عَن خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ . قَالَت : يَا بُنَيَّ أَمَا تَقرَأُ القُرآنَ ؟ قَالَ اللَّهُ : ( وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ) خُلُقُ مُحَمَّدٍ القُرآنُ ) أخرجها أبو يعلى (8/275) بإسناد صحيح ترجمہ میں کہا ائے مؤمنو کی ماں مجھے حضور صل اللہ علیہ وسلم کی اخلاق کے بارے میں بتائے آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا ائے میرے بیٹے کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ اللہ تعالی فرماتا ہے اور آپ (صل اللہ علیہ وسلم ) خلق کی عظمت پر ہے آپ محمد صل اللہ علیہ وسلم سرا پا قرآن پاک ہے۔ آپ صل الله عليه وسلم لوگوں میں چلتے پہرتے قرآن تھے آپ صل اللہ علیہ وسلم سے نا کوئی خطا نا امکان خطا نا کوئی سہو نا کوئی امکان سہو ممکن ہوا ہو آپ صل اللہ علیہ وسلم سر چشم حق ہیں ،آپ صل اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت اتنی اعلی ہے کہ اس طرح کوئی گمان رکھنا بھی باطل ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو کفر اور یہ کے خارج عن دین کا سبب ہو سکتا پے کہ اپ صل اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ادنی سا شبہ بھی کیا جائے کسی خطا یا امکان خطا کا اور یہ کے گمان کرنا کے آپ صل اللہ علیہ وسلم کو سہو یا امکان سہو ہوسکتا ہے اگرچہ کفر نا سہی لیکن بے ادبی ضرور سمجھی جائے گی جسے توبہ و رجوع کرنا لازمی ہے ، قبل اس کے کہ ہم اس بحث اگئے بڑھائے ایک بات کی وضاحت یہاں ہوجانا ضروری سمجھتے ہے وہ یہ کے بعض آیات کی تاویل کرنا ضروری ہے اگر اس کی تاویل نا کی جائے اور اسے اسکی ظاہری معانی میں لیاجائے تو وہ آیت عقیدہ پر کاری ضرب بن جاتی ہے مثال طور پر سورة السجدة 14 (فَذُوقُوا۟ بِمَا نَسِیتُمۡ لِقَاۤءَ یَوۡمِكُمۡ هَـٰذَاۤ إِنَّا نَسِینَـٰكُمۡۖ وَذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلۡخُلۡدِ بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ) اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کر دینے کا مزه چکھو، ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا اور اپنے کیے ہوئے اعمال (کی شامت) سے ابدی عذاب کا مزه چکھو یہاں لازمی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف منسوب لفظ بھلا دینا کی تاویل کرے کیونکہ اگر ایسا نا کیا جائے تو پہر سوال اٹھے گا کہ اللہ اور اس کے مخلوق کے بیچ میں وہ تیسری قوت کیا ہے جو اس بات پر قادرہے کہ وہ اللہ تعالی سے بھی حفظ چھین لے (استغفر اللہ) اس لئے لازما یہاں بھلادیا کا وہ مفھوم نہیں ہوں گا جس طرح اللہ کی مخلوق کے لئے عامةً لیا جاتا ہے یہاں بھلادیا یا بھلادینا سے مراد جھنمیوں کو دوزخ میں چھوڑ دینا انکی کوئی آہ و بکار یا فریاد نا سنا ہے اس طر ح سورة مريم 64 (وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمۡرِ رَبِّكَۖ لَهُۥ مَا بَیۡنَ أَیۡدِینَا وَمَا خَلۡفَنَا وَمَا بَیۡنَ ذَ ٰ⁠لِكَۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیࣰّا) ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے، ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار ہرگز بھولنے واﻻ نہیں اس آیت کریمہ میں یہ صراحت ہے کہ اللہ تعالی کی یہ قطعا شان نہیں کہ وہ بھول جائے بلکہ اللہ تعالی کی قدرت و ملکیت میں ایک شئے ابدیت و ازلیت میں ہے لہذا بھول جانے سے مراد صرف بد بختوں کہ لئے انکو انکے حال پر چھوڑ دینا ہے ، اس لئے امام بغوی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اپنی تفسیر میں جہاں جہاں" نسئ "کا لفظ آیت کی مفھوم میں آیا ہے اللہ تعالی کی ذات کے لئے وہاں اس لفظ کی تاویل میں لفظ " ترك"استعمال کیا ہے اسی بنا پر ہم سرورکوئنین حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو مد نظر رکھ کر یہ استدلال کرے گے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے لئے سہو و نسیان اس معنوں میں ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم پر کسی شئے کی تکليف کو یعنی ذمہ داری کو وقتی طور پر اٹھا لینا ہے یا دور کر لینا مراد ہے نا کے ذہن سے محو ہوجانا اس کا مطلب ہے ، اما عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی صحیح بخاری کی حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بھول گئ تھی کیونکہ اول تو راوی خود کہے رہا ہے کہ مجھے نہیں خبر کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے زیادتی کی نماز میں یا کمی یعنی راوی خود وھم میں ہے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہوکر دوسجدے کئے در حقیقت یہ سجدے وھم کے ازالے کہ لئے تھے جس کا مقصد صحابہ کرام کو تعلیم دینا تھا ورنہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے وھم بھی ساقط ہے اما حضور صل اللہ علیہ وسلم کا اس پر یہ فرمانا إنَّما أنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أنْسَى كما تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وإذَا شَكَّ أحَدُكُمْ في صَلَاتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عليه، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ. ترجمہ: پر میں تمہاری طرح بشر ہوں بھول سکتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو اگر بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو ور اگر تم میں کسی کو شک ہوں اپنی نماز میں تو درست کرلے یعنی شک دور کر لئے اور اسی پر رہے پہر سلام پہرے پہر دو سجدے کر لئے اول ذکر اس حدیث میں بات یہ ہے کے یہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کی انکساری ہے کے آپ صل اللہ علیہ وسلم اس طرز سے صحابہ کرام سے کلام کیا کرتے تھے کے " میں تمہاری طرح بشر ہوں " دوسری طرف غور کرنے کی بات یہ ہے کہیں پر بھی حدیث میں نماز میں بھول ہوجانے کی بات معلوم نہیں ہوتی دوم اگر نماز میں واقعی کوئی بھول ہوگی تھی تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نقص یا زیادتی کی صورت میں یقینا یا تو نماز کو دوہراتے یا جو رکعت رہے گی تھی اسکی تکمیل کرتے چونکہ نماز ختم ہوچکی تھی جیسا کے حدیث کی ابتدائی حصے میں ہے کے آپ صل اللہ علیہ وسلم سے سلام کے پہرنے کے بعد سوال کیا گیا تھا کہ آیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی ہے ؟آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے والے سے اپنی حیرت کا اظہار فرمایا کہ وہ کیا ہے نا کے کسی اشکال کا پہر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے انکساری سے بشری تقاضے بیاں کئے آخر میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کا بعد میں سجدہ کرنا صحابہ کرام کو تعلیم دینا مقصود تھا ، حدیث کی ابتدائی کلمات اس طرح سے ہے صَلَّى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ - قالَ إبْرَاهِيمُ: لا أدْرِي زَادَ أوْ نَقَصَ - فَلَمَّا سَلَّمَ قيلَ له: يا رَسولَ اللَّهِ، أحَدَثَ في الصَّلَاةِ شيءٌ؟ قالَ: وما ذَاكَ، قالوا: صَلَّيْتَ كَذَا وكَذَا، فَثَنَى رِجْلَيْهِ، واسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، وسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أقْبَلَ عَلَيْنَا بوَجْهِهِ، قالَ: إنَّه لو حَدَثَ في الصَّلَاةِ شيءٌ لَنَبَّأْتُكُمْ به۔۔۔۔۔۔الخ ترجمہ :حضور صل اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ابراھیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے نمازمیں زیادتی کی یا کمی پہر جب آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سلام پہرا ان سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور کیا ہے وہ کہنے لگے آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اور اس طرح نماز پڑھی آپ صل اللہ علیہ وسلم دو زانو ہوکے قبلہ رخ ہوگے اور دو سجدے بجا لائے پہر سلام کیا اور جب ہماری طرف متوجہ ہوئے آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نئی چیز ہوتی نماز میں تو میں تم لوگوں کو بتا دیتا ۔۔۔الخ ایک اور حدیث صحیح بخاری اور مسلم کی ہے جسے حضور صل اللہ علیہ وسلم سے نسیان ثانت کرنے کہ لئے پیش کی جاتی ہے سَمِعَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ في سُورَةٍ باللَّيْلِ، فَقَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ لقَدْ أذْكَرَنِي كَذَا وكَذَا، آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا مِن سُورَةِ كَذَا وكَذَا. ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص رات کے پہر قرآن شریف کی سورة پڑھتے سنا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس رحم کرے اس نے مجھے یہ یہ یاد دلائی دی آیت تھی میں بھول ہوا تھا اس سورة میں یہ یہ ۔ جیسا کے پہلے اوپر بیان گزر چکا ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا نسیان در حقیقت آپ صل اللہ علیہ وسلم پر سے وقتی طور پر تکلیف(تکلیف سے مراد آپ صل اللہ علیہ وسلم کا جن جن چیزوں کو بیان کرنے کہ لئے مکلف کیا گیا ہے ) یا ذمہ داری کو دور کرنا مقصود ہوتا نا کے ذہن سے محو ہوجانا یہاں بھی اسی مقصد کے لئے آپ صل اللہ علیہ وسلم پر وہ تکلیف وقتی طور پر اٹھا لیگی تھی اس حدیث سے یہ قعطا درست استدلال نا ہوں گا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم قرآن میں کسی سورة کی آیت کو بھول گے تھے اللہ تعالی قرآن شریف میں سورة 29 پارے کی سورة الاعلی آیت 6 میں فرماتے ہے (سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰۤ) ترجمہ: ہم تمہیں (صل اللہ علیہ وسلم ) پڑھائے گے پہر تم کبھی بھی نا بھول پاؤ گے یہ آیت اتنی صریح ہے کہ اس پر کسی حدیث کو لیکر ایسا استدلال کرنا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم بھی قرآن پاک میں کسی آیت کو بھول سکتے ہے یہ قطعا جائز نہیں کیونکہ قرآن پاک کی فوقیت مسلمہ ہے اور پہر آیت کی صراحت سے بھولنے کا استدلال مکمل ساقط ہوجاتا پے لہذا یہ دیکھنا ہوں گا کے حدیث میں اس جملے سے اصل مراد کیا ہے آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا مِن سُورَةِ كَذَا وكَذَا اس جملے کی تشریح کہ لئے ہمیں قرآن شریف میں پائے گے مجمل طور پر موضوعات کا تعین کرنا پڑے گا کہ قرآن پاک کن کن موضوع پر طور منقسم ہے قرآن پاک میں اول قبل کل شئ اللہ تعالی کی توحید ثم حمد و ثناء کا بیان ہے پہر قرآن پاک میں رسالت و نبوت ودیگرالانبیاء و انکی امتوں کا بیان ہے سوم احکام اللہی وعبادات کے متعلق ارشادات ہے چہارم اہل ایمان کے لئے بشارتیں اور اہل کفر کے لئے عذاب کی نوید ہے مجمل طور پر قرآن شریف میں یہ چار موضوعات ہے اور موضوعات کو امکان کی صورت میں لیتے ہوئے ہم یہاں پر بحث کرے گے کہ کہ وہ کیا امکانی تکلیف تھی جسے وقتی طور پر آپ صل اللہ علیہ وسلم سے دور کرلی گی تھی یا اٹھا لی گی تھی اول ذکر موضوع کے متعلق تو قطعا یہ گمان کرنا بھی جائز نہیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے کبھی اللہ تعالی کی شان توحید و حمد و ثناء میں کوئی قصر کی ہو یا ان سے یہ تکلیف یعنی ذمے داری لمحہ بصر کہ لئے بھی دور کی گی ہو یا اٹھالی گی ہو اس لئے اللہ تعالی کی ذات سے متعلق کوئی بھی ارشاد ربانی قرآن پاک میں ہو اسے حضور پاک صل اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر کے لئے بھی نا دور ہو سکتے ہے نا وہ فضیلت اپ صل اللہ علیہ وسلم سے لمحہ بھر کہ لئے بھی اٹھائی جا سکتی ہے ، اس کی دلیل خود قرآن پاک میں اللہ تعالی نے اس طرح پیش کی ہے سورة الضحى آیت 3 میں ہے (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ) ترجمہ:نا کبھی آپ صل اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپکو چھوڑا ہے نا ہی آپ صل اللہ علیہ وسلم سے کبھی بے اعتناء ہوئے دوسری بہت اہم دلیل سورة الاحزاب اس آہت مبارکہ 56 میں ہمیں ملتی ہے (إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰۤىِٕكَتَهُۥ یُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِیِّۚ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ صَلُّوا۟ عَلَیۡهِ وَسَلِّمُوا۟ تَسۡلِیمًا) بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہے آئے آیمان والو حضور صل اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو . قبل اس کے کہ بحث کو آگے بڑھائے ہم درود کی اہمیت کو بھیقی کی اس حدیث سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہے كم أجعلُ لك من صلاتي ؟ قال : ما شئتَ ، قال : الثُّلُثَ ، قال : ما شئتَ وإن زدتَ فهو أفضلُ ، قال : النِّصفَ ، قال : ما شئتَ وإن زدتَ فهو أفضلُ ، قال : أجعلُ لك صلاتي كلَّها ، قال : إذًا يكفيك اللهُ همَّك ، ويغفرُ لك ذنبَك ترھمہ :آپ صل اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے پوچھا کے کتنا آپ صل اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجوں (دعاء میں )آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا چاہے تو صحابی نے عرض کیا ایک چوتھائی آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کہا جتنا تو چاہے لیکن اگر تو نے زیادہ کیا تو بہتر ہے صحابی نے کہا آدھا آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کہا جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کیا تو بہتر ہے صحابی نے کہا میری ساری دعاء ہی آپ صل اللہ علیہ وسلم پر درود ہوگی آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہر اللہ تیرے ھم (یعنی غم ،دکھ، درد، تکلیف،اندیشے ،پریشانی) کہ لئے کافی ہے اور تیرے گناہوں کی بخشش کی جائے گی۔ اس حدیث سے جو بات سامنے آتی کہ ایک امتی کو حضور صل اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے پر اس قدر انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے کہ اس کے تمام دکھ تکلیف غم و اندیشے و پریشانی اللہ تعالی دور کردیتا ہے اور اس کے تمام گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے اگر یہ حال ایک امتی کا ہے یعنی امتی کو وہ سیکنہ و مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ بے فکر وبے نیاز ہوجاتا ہے آپنی تمام تر غموں اور پریشانیوں سے پہر جب اللہ تعالی جو بزرگ و برتر ہے خود درود و سلام حضور پرنور صل اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے ہو تو آپ صل اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہوں گا اس تصور کا خیال انسان تو کیا جبریل آمین علیہ سلام جو کے فرشتوں کے سردار ہے انکو بھی یہ علم نہیں کہ سدرے منتھاء کے بعد کیا ہے کیونکہ قربت کا جو مقام حضور پاک صل اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے وہ دیگر کسی مخلوق کو حاصل نہیں الغرض جب درود شریف کی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ امتی پڑھے تو وہ بے فکر و بے نیاز ہوجائے تو جسے اللہ تعالی نے آپنا حبیب بنایا ہوا ہو اس پر اللہ ذوالجلال و الاکرام درود بیھجے تو کیسے ممکن ہو کے اسے لمحہ بصر کے لئے بھی اللہ کی توحید اور اسکی حمد و ثناء دور کردی گی ہو اس لئے یہ امکان مکمل ساقط ہے کہ اول ذکر آپ صل اللہ علیہ وسلم سے کچھ دیر کہ لئے یہ تکلیف یا ذمہ داری اللہ کی توحید و حمد و ثناء کی دور کردی گی ہو یا اٹھا لی گی ہو امکان دوم: آپ صل اللہ علیہ وسلم کمال نبوت پر ہے نبوت کے تمام کمالات آپ صل اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اس لئے آپ خاتم النبیین ہے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت آخری رسالت ہے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی کتاب آخری کتاب ہے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے آپ صل اللہ علیہ وسلم کا کمال نبوت یہ ہے کہ آپ کوئی بھی بات خود سے نہیں کہتے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہوتی ہے سورة النجم کی آیت 3 و4 (وَمَا یَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰۤ) (إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡیࣱ یُوحَىٰ) جس ہستی کا کمال یہ ہو کہ وہ خود سے کچھ نا کہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کچھ بھول جاوئے یا اسے نبوت و رسالت کے بیان سے کچھ دیر کے لئے دور کیا جاوئے یا اسے بیان کو طور پر اٹھا لیا جائے قطعا نہیں اس پر رتی برابر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم سے کچھ دیر کہ لئے نبوت و رسالت سے متعلق بیان کو دور یا اٹھا لیا گیا ہو تو یہ امکان بھی ساقط ہے کیونکہ آپ کی تمام باتیں اللہ کی وحی ہوتی ہے جہاں تک اصحاب الکہف کے سوال پر تاخیر سے جواب دینے کا ہے در اصل اس میں اللہ تعالی کی حکمتے موجزة یہ تھی کے سائلیں کی جستجو بڑھے کیونکہ سوال کرنے والے یہود کے احبار تھے اور انہوں نے قریشی کے ذریعہ یہ تین سوالات حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کئے تاکے آپکی نبوت و رسالت کی دلیل ثابت ہو اگر سوال کا جواب فورا دے دیا جاتا تو شاید احبار یہود جوابات سن کر مطمئن ہوجاتے لیکن دیگر کفار قریش میں وہ جستجو نا رہتی جو اس سوال کی تاخیر کی وجہ سے ابھر کر سامنے آگئی تھی اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جس چیز میں انسان کی جستجو بڑھ جائے تو وہ چیز انسان کہ لئے محور بن جاتی ہے احبار یہود نے تین سوالات دے تھے اصحاف الکہف کے متعلق بتایا جائے وہ کون تھے اور وہ کون تھا جس نے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا یعنی حضرت ذی القرنین اور روح کیا چیز ہے اللہ تعالی سورة الکہف میں اصحاب الکہف اور ذی القرنین کا قصہ بیان فرما دیا اور سورة بني اسرائيل کی آیت 86 میں روح کے متعلق واضح جواب دے دیا،بعض مفسریں و اہل علم اصحاب الکہف کے تاخیر سے جواب کو اسی سورة الکہف کی آیات 23 و 24 سے یہ استدلال پیش کرتے ہے کے ایسا آپ صل اللہ علیہ وسلم کا نسیان وسہو سے ان شاء اللہ نا کہنا کی وجہ سے ہوا اور آپنی دلیل کی تقویت میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث النضر بن الحارث کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے جسے خود محدث ابن الحجر العسقلانی رحمة الله عليه اس حدیث پرغریب ہونے کا حکم لگاتے ہے ،قبل اس کے ہم اس توجیہ پر بحث کرے یہاں پر صحیح بخاری کی ایک حدیث پیش کرے گے جسے یہ ثابت ہوں گا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پاس کلمہ " ان شاء اللہ " کی اہمیت کتنی زاد تھی آلى سُليمانُ بنُ داودَ: لأطوفَنَّ الليلةَ على سبعينَ امرأةً، تَلِدُ كُلُّ امرأةٍ غُلامًا، فطاف عليهنَّ فلم تَلِدْ إلَّا امرأةٌ منهن نِصفَ غُلامٍ. فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: لو قال: إن شاء اللهُ، لكان كما قال ترجمہ:آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلیمان بن داود علیہما سلام نے کہا کہ آج رات میں ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا جسے ہر عورت ایک نر بچہ پیدا کرے گی پہر آپ ان کے پاس گے تو ان میں سے صرف ایک نے آدھے نر بچے کو جنم دیا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگر وہ(سلیمان بن داود علیہما سلام ) ان شاء اللہ کہے دیتے تو ایسا ہی ہوتا جیسے اس نے کہا تھا ۔اس حدیث سے یہ معلوم ہوا آپ صل اللہ علیہ وسلم ان شاء اللہ کے کلمہ پرہی عمل کو منحصر رکھتے تھے اور اسکی ترغیب دیتے اما سورة الكهف کی آیات 23و 24 میں اللہ تعالی نے یوں فرمایا (وَلَا تَقُولَنَّ لِشَا۟یۡءٍ إِنِّی فَاعِلࣱ ذَ ٰ⁠لِكَ غَدًا ۝ إِلَّاۤ أَن یَشَاۤءَ ٱللَّهُۚ وَٱذۡكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِیتَ وَقُلۡ عَسَىٰۤ أَن یَهۡدِیَنِ رَبِّی لِأَقۡرَبَ مِنۡ هَـٰذَا رَشَدࣰا) ترجمہ: اور آئے حبیب صل اللہ علیہ وسلم آپ ہرگز یہ مت کہے کہ کل میں یہ کروں گا (کیونکہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے تمام کام اللہ ہی کے ذمے ہے )- سوا یہ کے جو اللہ چاہے اور آپنے رب کو یاد کیجئے اگر آپ کچھ بھولے ہو (یعنی آپ صل اللہ علیہ وسلم پر سے وقتی طور پر کوئی چیز پرے کر لی گی ہو)اور کہے مجھے امید پوری ہے آپنے رب سے کہ وہ مجھے اس سیدھی راہ پر قریب ہدایت دے گا ۔ اس آیت کی تشریح ہم یوں کرتے ہے کہ اللہ تعالی فرما رہے کہ آئے حبیب صل اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کو ٹھان لیں تو آپ صل اللہ علیہ وسلم یوں مت کہے کہ میں کل یہ کروں گا کیونکہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے تمام کام اللہ کے ذمے ہے ،سوا اس کے جسے اللہ چاہے کردے یا روک دے اور ہر وقت آپنے رب کا ذکر بجا لائیں اگر کوئی شئے آپ صل اللہ علیہ وسلم سے وقتی طور پر پرے کرلی گئی ہو اور یہ کہتے رہئے مجھے پوری امید ہے آپنے رب سے کہ وہ مجھے اس سیدھی راہ پر قریب ہدایت دے گا، یہاں امکاں دوم میں سہو و نسیاں کی بحث ختم ہوتی ہے اما امکان سوم جس میں احکام اللہی اور عبادات ہے اس پر ہم اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح بخاری کی حدیث سے پیش کرے گے أنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هذا يا رَسولَ اللَّهِ، وقدْ غَفَرَ اللَّهُ لكَ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وما تَأَخَّرَ؟ قالَ: أفلا أُحِبُّ أنْ أكُونَ عَبْدًا شَكُورًا فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا، فَإِذَا أرَادَ أنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ. ترجمہ:حضور پر نور صل اللہ علیہ وسلم رات کے پہر اٹھ کر عبادت کرتے تھے یہاں کے آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم آپ ایسا کیوں کرتے ہے اللہ تعالی نے آپ صل اللہ علیہ وسلم (کی امت کے ) تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرماتے تو کیا شکر گزار بندہ نا بنو پہر جب آپ صل اللہ علیہ وسلم کے (پیروں پر ) گوشت زیادہ بڑھ جاتا (سوجن) تو آپ صل اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے پہر جب آپ صل اللہ علیہ وسلم رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے اور پڑھتے پہر رکوع کرتے۔ جہاں معاملہ یہ ہو کہ نوافل پر عبادات اتنی کثرت ہو کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی پنڈلیاں سوچ جائے وہاں یہ گماں بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم فرائض عبادات میں سے کسی سہو و نسیاں امکاں ہوا ہو ،اسی پر ہم اللہ تعالی کی گواہی پیش کرتے ہے جس سورة المزمل آیت 20 میں بیان فرمایا ہے (۞ إِنَّ رَبَّكَ یَعۡلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدۡنَىٰ مِن ثُلُثَیِ ٱلَّیۡلِ وَنِصۡفَهُۥ وَثُلُثَهُۥ وَطَاۤىِٕفَةࣱ مِّنَ ٱلَّذِینَ مَعَكَۚ وَٱللَّهُ یُقَدِّرُ ٱلَّیۡلَ وَٱلنَّهَارَۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحۡصُوهُ فَتَابَ عَلَیۡكُمۡۖ فَٱقۡرَءُوا۟ مَا تَیَسَّرَ مِنَ ٱلۡقُرۡءَانِۚ عَلِمَ أَن سَیَكُونُ مِنكُم مَّرۡضَىٰ وَءَاخَرُونَ یَضۡرِبُونَ فِی ٱلۡأَرۡضِ یَبۡتَغُونَ مِن فَضۡلِ ٱللَّهِ وَءَاخَرُونَ یُقَـٰتِلُونَ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِۖ فَٱقۡرَءُوا۟ مَا تَیَسَّرَ مِنۡهُۚ وَأَقِیمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَقۡرِضُوا۟ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنࣰاۚ وَمَا تُقَدِّمُوا۟ لِأَنفُسِكُم مِّنۡ خَیۡرࣲ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَیۡرࣰا وَأَعۡظَمَ أَجۡرࣰاۚ وَٱسۡتَغۡفِرُوا۟ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورࣱ رَّحِیمُۢ) ترجمہ : آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم دو تھائی رات اور ادھی رات پر آٹھ کر ( عبادت کرتے ہے) اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت بھی رات اور دن کا پورا اندازه اللہ تعالیٰ کو ہی ہے، وه (خوب) جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ گن پاؤ گے پس اس نے تم پر مہربانی کی لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو اتنا ہی پڑھو، وه جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی روزی بھی) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راه میں جہاد بھی کریں گے، سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو۔ اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ﺛواب میں بہت زیاده پاؤ گے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے. اس آیت کی گواہی کے بعد یہ امکان بھی سقاط ہوجاتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم سے کسی عبادات میں کوئی سہو او نسیاں پیش ہوا ہو اور آپ کو صحابی کی قرآن پاک کی قرآت سے یاد آیا گیا ہو، آپ صل اللہ علیہ وسلم کی صفات مبارکہ بشیر و نذیر ہے اس لئے اللہ تعالی نے اہل ایمان کہ لئے بشارتیں اور اہل کفر کہ لئے نوید قرآن میں کھل کھل کر بتا دی ہے حضور پاک صل اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارک سے اس لئے ہم اس امکاں کو بھی رد کرتے ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کو مؤمنين کو بشارت دینے یا کافرین کو نوید سنانے سے وقتی طور پر دور کردیا ہو اوپر بیاں کی گی اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی صحیح بخاری کی حدیث کو ہم سورة الانعام کی آیت 33 (قَدۡ نَعۡلَمُ إِنَّهُۥ لَیَحۡزُنُكَ ٱلَّذِی یَقُولُونَۖ فَإِنَّهُمۡ لَا یُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ بِـَٔایَـٰتِ ٱللَّهِ یَجۡحَدُونَ ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کی باتیں رنجیدہ کرتی ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ﻇالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور سورة الشورى کی آیت 24 (أَمۡ یَقُولُونَ ٱفۡتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبࣰاۖ فَإِن یَشَإِ ٱللَّهُ یَخۡتِمۡ عَلَىٰ قَلۡبِكَۗ وَیَمۡحُ ٱللَّهُ ٱلۡبَـٰطِلَ وَیُحِقُّ ٱلۡحَقَّ بِكَلِمَـٰتِهِۦۤۚ إِنَّهُۥ عَلِیمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ) کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگادے (صبر و اطاعت کی ) اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے اور سچ کو ﺛابت رکھتا ہے۔ وه سینے کی باتوں کو جاننے واﻻ ہے توجیہ؛ہم نے فَإِن یَشَإِ ٱللَّهُ یَخۡتِمۡ عَلَىٰ قَلۡبِكَ پر امام مجاہد بن جبر کے قول کو زیادہ مستحب سمجھا اس لئے یہاں پر مہر سے مراد صبر و اطاعت لیا مد نظر رکھ کر یہ استنباط کرے گے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی نے حزن (رنج ) کو اٹھا لیا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اللہ نے آپنی مہر لگا دی (صبر و اطاعت کی ) واللہ اعلم
  2. کیا اعلی حضرت احمد رضا خان نے المہند کے بعد اپنے فتوے کفر سے رجوع کر لیا تھا ؟
  3. Raza11

    nazria aor aqeeda Imam mehdi

    Aqeedah Imam Mehdi.inp
  4. Raza11

    مناظرہ عجیبہ

    مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاللہ علیہ پرختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام اور اس کی حقیقت .... ================================ (حافظ عبيدالله) جماعت مرزائیہ جس طرح قرآن وحدیث اور دوسرے بزرگان وصوفیاء کرام کی عبارات میں تحریف معنوی کرکے اپنی خود ساختہ نبوت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے ، ایسے ہی حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ’’تحذیر الناس ‘‘ کے مختلف مقامات سے ناتمام عبارات ماقبل ومابعد کے الفاظ حذف کرکے پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مولانا بھی اجراء نبوت کے قائل تھے حالانکہ مولانا اپنی اسی کتاب میں منکر ختم نبوت کو کافر ومرتد کہتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ مرزائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ بھی دانستہ یا نادانستہ اس بات پر مصر ہے کہ حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اجراء نبوت کے قائل ہیں اور قادیانیوں نے انہی کی عبارات کو دلیل بناکر مرزا قادیانی کی نبوت کو ثابت کیا ہے، ہمارے خیال میں یہ حضرات مولانا نانوتویؒ کے ساتھ بغض کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں کیونکہ مرزائی تو حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، ملا علی قاریؒ ، شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ وغیرہم کی عبارات بھی اپنے حق میں پیش کرتے ہیں تو پھر صرف مولانا نانوتویؒ پر یہ غصہ اور ناراضگی کیوں کہ مرزائی صرف ان کی عبارات سے اپنا عقیدہ ثابت کرتے ہیں؟ اصل میں بہت سے لوگ قصور فہم کی وجہ سے مولانا کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوئے اور کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر مولانا کی کتاب کے مختلف مقامات سے ناتمام عبارتوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا جس سے سادہ لوح عوام تردد میں پڑگئے ، اللہ ہمیں عدل وانصاف کے ساتھ کام لینے کی توفیق دے۔ ہم سب سے پہلے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ عبارات پیش کرتے ہیں جن کے اندر صاف طور پر انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کا زمانہ آخری ہے ، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا احتمال نہیں ، جو اس کا قائل ہو اسے کافر سمجھتا ہوں وغیرہ، اس کے بعد ہم مولانا کی تحذیر الناس کی اس عبارت (یا عبارت کے ٹکڑوں) پر بات کریں گے جنہیں لے کر جماعت مرزائیہ اور ہمارے کچھ نا سمجھ مسلمان دوست بھی مولانا کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوئے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جواس میں تاویل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں --------------------------------------------- مولاناؒ لکھتے ہیں:۔ ’’ اپنا دین وایمان ہے بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تاویل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں‘‘ ۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم ، کورنگی ، کراچی) واضح رہے کہ مولانا نانوتویؒ کی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ کی کچھ عبارات پر ایک صاحب علم مولانا عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا کے سامنے چند اعتراضات واشکالات خطوط کی صورت میں پیش کے تھے جن کاجواب مولانا نانوتویؒ نے دیا ، مناظرہ عجیبہ اسی سلسلے کی خط وکتابت کا مجموعہ ہے ، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ گویا کہ ’’تحذیر الناس‘‘ کی شرح ہے جس میں حضرت نانوتوی ؒنے تحذیر الناس میں لکھی گئی عبارات کی تشریح اوروضاحت فرمادی ۔ مولانا نانوتویؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:۔ ’’حضرت خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں…‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 9 ، مکتبہ قاسم العلوم ، کورنگی ، کراچی) لیجیے مولانا صاف لکھ رہے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خاتمیت زمانی یعنی آپ کا تمام انبیاء کے آخر میں مبعوث ہونا تو ایسی بات ہے جو سب کے نزدیک مسلم ہے ، اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں ۔ خاتمیت زمانی سے انکارنہیں بلکہ منکروں کے لئے انکار کی گنجائش نہیں چھوڑی ---------------------------------------- ایک جگہ لکھتے ہیں:۔ ’’حاصل مطلب یہ ہے کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں بلکہ یوں کہیے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی ، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاؤں جما دیے ،اور نبیوں کی نبوت پر ایمان ہے ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا …‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 71، مکتبہ قاسم العلوم ، کورنگی ، کراچی) یہاں ایک بار پھر صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی خاتمیت زمانی سے مولانا کو انکار نہیں ، اسی طرح آپ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو افضل الرسل سمجھتے ہیں اور آپ کے ہم مرتبہ کسی کو نہیں سمجھتے ۔ پھر مولانا عبدالعزیز صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ ’’آپ ہی فرمائیں تأخر زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا اور کہاں باطل کیا؟ مولانا میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں ، اہل زبان میں مشہور ہیں ‘‘ ۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 52) آگے چلنے سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘ در اصل ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک اثر جس میں سات زمینوں اور ان کے انبیاء کا ذکر ہے اور جسے امام بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جلد 2 صفحہ 268 ، باب بدء الخلق، روایت نمبر 832 ،طبع مکتبۃ السوادی) کو درج کرکے اس کی آیت خاتم النبیین کے ساتھ تطبیق دریافت کی گئی تھی کہ آیا بیک وقت آیت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر پر عقیدہ رکھنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب تین طرح سے ممکن تھا : نمبر 1: آیت اور اس اثر میں تعارض ہے لہذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر کو غلط سمجھا جائے ۔ نمبر 2 : یہ اثر صحیح ہے ، پھر آیت کے ساتھ اس کی تطبیق یوں ہے کہ آیت میں آپe کی خاتمیت صرف ہماری اس زمین کے اعتبار سے بیان کی گئی ہے اور آپ صرف اس زمین کے خاتم النبیین ہیں ۔ نمبر 3 : آیت اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر دونوں کو تسلیم کرکے ایسی تطبیق دی جائے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی خاتمیت صرف اس زمین تک محدود نہ رہے بلکہ باقی زمینوں بلکہ ساری کائنات پر محیط ہو۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے پہلی یا دوسری صورت اختیار کی ، لیکن مولانا نانوتویؒ نے آیت اور اثر ابن عباسؓ دونوں کو صحیح قرار دے کر تیسرا جواب اختیار کیا ، مولانا کی ساری کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم ہماری زمین کے اعتبار سے تو خاتم النبیین ہیں باعتبار خاتمیت مرتبی کے بھی اور باعتبار خاتمیت زمانی کے بھی ، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کی خاتمیت صرف اسی زمین تک محدود نہیں بلکہ پوری کائنات کے بھی خاتم النبیین ہیں ، اور چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں مزید چھ زمینوں اور ان میں ہونے والے نبیوں کا بھی ذکر ہے تو اگر بالفرض ہزار زمینیں بھی اور ہوتیں اور ان میں سلسلہ نبوت جاری ہوتا اور چونکہ ان کے انبیاء کے بارے میں یہ تصریح نہیں آئی کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم سے پہلے ہوئے یا بعد میں تو دونوں احتمال موجود ہیں پس اگر وہ انبیاء بھی آپ صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تو ان کے لئے بھی آپ خاتم النبیین ہیں زمانے کے لحاظ سے بھی اور مرتبے کے لحاظ سے بھی اور اگر بالفرض (جی ہاں اگر فرض کیا جائے کہ) دوسری زمینوں کے انبیاء آپ کے ہم عصر یا بالفرض آپ کے بعد ہوں تو بھی آپ ان تمام نبیوں کے بھی خاتم ہوتے لیکن صرف ختم نبوت مرتبی اور ذاتی کے لحاظ سے۔ مرزائی مربیوں نے مولانا کی اس بات کو جو ختم نبوت مرتبی سے متعلق ہے سیاق وسباق سے کاٹ کر اس طرح پیش کیا کہ گویا یہ ختم نبوت زمانی سے متعلق ہے اور محض اتنے ہی حصے کو مولانا کا عقیدہ بتا کر دھوکہ دیا اور مولانا نے خاتمیت زمانی کے بارے میں جولکھا اسے یک سر ذکر نہ کیا گیا ۔ فائدہ: ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم زمانہ کے لحاظ سے اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملنی اور نہ کسی نبی کا پیدا ہونا ممکن ہے ، یہ شان آپ صلى الله عليه وسلم کو اس وقت حاصل ہوئی جب تمام انبیاء یکے بعد دیگرے دنیا میں تشریف لاچکے اور سب سے آخرمیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا گیا ، جبکہ ختم نبوت مرتبی کا یہ مطلب ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے نبوت کے تمام مراتب ختم ہیں اور آپ مرتبے کی لحاظ سے بھی تمام انبیاء سے آخر ہیں اور شان کے لحاظ سے اللہ کے آخری نبی ہیں ، ختم نبوت مرتبی تو آپ صلى الله عليه وسلم کو اس وقت بھی حاصل تھی جب ابھی حضرت آدم علیہ السلام خلعت نبوت سے سرفراز نہ ہوئے تھے، اس ختم نبوت مرتبی کے ہوتے ہوئے تمام انبیاء کرام یکے بعد دیگرے تشریف لاتے رہے ، معلوم ہوا کہ صرف ختم نبوت مرتبی اپنی ذات کے لحاظ سے اور نبیوں کو مانع نہیں ، لیکن عقیدے کے لئے صرف یہی ختم نبوت مرتبی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ختم نبوت زمانی کا اقرار بھی لازم ہے جیساکہ مولانا نے متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی ہے (جن میں سے کچھ حوالے پہلے بیان ہوئے اور چند آگے بیان ہوں گے) ۔ تو مولانا نانوتویؒ کے مطابق آیت خاتم النبیین سے ختم نبوت مرتبی اور ختم نبوت زمانی دونوں ثابت ہیں ، چاہے ختم نبوت مرتبی کو آیت کا مدلول مطابقی لیا جائے اور ختم نبوت زمانی کو اس کا مدلول التزامی ، یا دوسری صورت یہ کہ ختم نبوت کو عام اور مطلق رکھا جائے اور ختم نبوت زمانی ومرتبی (بلکہ ایک تیسری قسم ختم نبوت مکانی) کو بھی آیت خاتم النبیین کا مدلول مطابقی قرار دیا جائے، اور اس دوسری صورت کو مولانا نے اپنا مختار بتلایا ہے ، بہرحال دونوں صورتوں میں سے جو بھی اختیار کی جائے ختم نبوت زمانی کا اقرار دونوں میں موجود ہے اور ختم نبوت مرتبی اس کے علاوہ ایک اور فضیلت ہے ۔ خاتمیت زمانی کا منکر کافر ہے -------------------------------- مولانا نانوتویؒ لکھتے ہیں :۔ ’’ سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو ثبوت خاتمیت زمانی ظاہر ہے ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے اور تصریحات نبوی مثل [انت منی بمنزلۃ ہارون لموسیٰ الا أنہ لا نبی بعدي اوکما قال] جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ہے کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے پھر اسی پر اجماع بھی منعقد ہوگیا گو الفاظ مذکور بسند تواتر منقول نہ ہوں سو یہ عدمِ تواتر الفاظ باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض ووتر وغیرہ ، باوجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں جیسا اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا اب دیکھیے کہ اس صورت میں عطف بین الجملتین اور استدراک اور استثناء مذکور بھی بغایت درجہ چسپاں نظر آتا ہے اور خاتمیت بھی بوجہ احسن ثابت ہوتی ہے اور خاتمیت زمانی بھی ہاتھ سے نہیں جاتی‘‘۔ (تحذیر الناس ، صفحہ 12 و 13 ، دار الاشاعت کراچی) اس عبارت میں مولانا نے ختم نبوت زمانی کو نہ صرف یہ کہ منطقی دلیل ہی سے تسلیم کیا ہے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ ختم نبوت زمانی لفظ خاتم النبیین سے ثابت ہے جو قرآن میں موجود ہے اور حدیث شریف اور اجماع امت سے بھی ثابت ہے اور جس طرح فرائض وغیرہ کی رکعات کی تعداد کا منکر کافر ہے اسی طرح ختم نبوت زمانی کا منکر بھی کافر ہے ۔ اور مناظرہ عجیبہ میں ہے:۔ ’’بلکہ اس سے بڑھ کر لیجیے (تحذیر الناس کے) صفحہ نہم کی سطر دہم سے لیکر صفحہ دہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں اور اسی تقریر کو اپنا مختار بتایا ہے‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 70 ، مکتبہ قاسم العلوم کراچی ) پھر یہ بھی لکھا:۔ ’’اگر خاتم کو مطلق رکھیے تو پھر خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی تینوں اس سے اسی طرح ثابت ہو جائیں گے جس طرح آیت ’’انما الخمر والمیسر والانصاب رجس من عمل الشیطان‘‘میں لفظ رجس سے نجاست معنوی اور نجاست ظاہری دونوں ثابت ہوتی ہیںاور اس ایک مفہوم کا انواع مختلفہ پر محمول ہونا ظاہر ہوتا ہے‘‘ ۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 53) اور آگے لکھا:۔ ’’بالجملہ جیسے اخبار قیام ِ زید وعمرو مخالف ومعارض قیام زید نہیں بلکہ مع شیء زائد اس کی تصدیق ہے ، ایسے ہی اس صورت میں میری تفسیر مع شیء زائد مصدقِ تفسیر مفسران گذشتہ ہوگی نہ مخالف اورمعارض‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 53) پھر لکھا :۔ ’’ اور سنیے آپ خاتمیت زمانی کو معنی مجمع علیہ فرماتے ہیں اگر یہ مطلب ہے کہ خاتمیت زمانی مجمع علیہ ہے خاتم النبیین سے ماخوذ ہو یا کہیں اور سے تو اس میں انکار ہی کسے ہے، اور اگر یہ مطلب ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے مراد ہونا مجمع علیہ ہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے جو یہ آپ پردہ میں آوازہ خرقِ اجماع کستے ہیں ، تحذیر (یعنی تحذیر الناس ۔ ناقل) کو غور سے دیکھا ہوتا تو اس میں خود موجود ہے کہ لفظ خاتم تینوں معنوں پر (یعنی خاتمیت زمانی، مرتبی اور مکانی ۔ ناقل) بدلالت مطابقی دلالت کرتا ہے اور اسی کو اپنا مختار قرار دیا تھا…‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 115) معلو م ہوا کہ مولانا تو خاتمیت زمانی ومرتبی بلکہ مکانی کو بھی آیت خاتم النبیین سے ثابت فرمارہے ہیں ۔ اور یہ بیان فرمانا چاہ رہے ہیں کہ عام طور پر آیت خاتم النبیین سے صرف آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ختم نبوت زمانی ہی ثابت کی جاتی ہے ،جبکہ میرے نزدیک اس آیت سے ختم نبوت مرتبی اور زمانی دونوں بلکہ ایک تیسری قسم ختم نبوت مکانی بھی ثابت ہوتی ہیں ۔ یہ ہے وہ فرق جس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ مولانا نے گذشتہ مفسرین کی تفسیر کے خلاف تفسیر کی ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے مفسرین سابقین کی تفسیر کو قبول کرتے ہوئے ختم نبوت مرتبی ومکانی کا ایک اضافی نکتہ بیان فرما یا ہے ۔ قارئین محترم! ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی پر الزام لگانے سے پہلے اس کی تمام عبارات وبیانات کو پڑھا اور سمجھا جائے ، اگر اس نے اپنی کسی بات کی تشریح وتوضیح خود کی ہے تو اسے قبول کیا جائے ، یہ ہرگز انصاف نہیں کہ کسی کی بات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر ، یا شرط کو جزا سے ، اور جزا کو شرط سے کاٹ کر، ایک فقرہ ایک صفحے سے لے کر اور دوسرا فقرہ کسی اور صفحے سے لے کر خود ایک عبارت ترتیب دے کر اس پر فتوی لگا دیا جائے ۔ انصاف تو یہ تھا کہ جب مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمادیا کہ: ’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم ، کورنگی ، کراچی) تو پھر نہ کسی الزام کی گنجائش نظر آتی ہے اور نہ کسی اعتراض کی ۔ فیصلہ کن بات ------------------- جہاں تک میرے ان کرم فرماؤں کا تعلق ہے جو اپنے آپ کو "مجاہدین ختم نبوت" بھی کہتے ہیں اور پھر آنکھ بند کرکے مکھی پر مکھی مارتے ہوے یہ نعرے لگاتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوى رحمه الله ختم نبوت زمانی کے منکر تھے اور وہ اجراء نبوت کا عقیدہ رکھتے تھے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ الله سے ڈریں، صرف اپنے مسلکی تعصب کی وجہ سے انصاف کا خون نہ کریں، اور مولانا کے یہ الفاظ پڑھیں : ’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم ، کورنگی ، کراچی) ... جب خود مولانا نے واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان فرما دیا تو پھر آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کفر کے فتووں کی توپیں چلاتے جائیں؟ دنیا کا وہ کونسا مفتی ہے جو ایسے آدمی پر منکر ختم نبوت ہونے کا فتویٰ صادر کرے جو صاف اور واضح الفاظ میں اقرار کرے کہ ’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘؟؟ نیز مکتب دیوبند کے ہزاروں لاکھوں علماء و مفتیان کرام ہوے ، آج بھی ان کے دار الافتاء موجود ہیں، کیا کسی ایک مفتی یا کسی ایک عالم نے یہ فتویٰ دیا کہ "انحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد نبوت جاری ہے؟"؟ کیا علماء دیوبند منکر ختم نبوت کو کافر نہیں کہتے؟ کیا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نامی تنظیم اسی مکتب دیوبند سے منسلک نہیں؟ کیا علماء دیوبند کا رد قادیانیت پر لٹریچر موجود نہیں؟ تو پھر کتنی نہ انصافی ہے کہ بیک جنبش قلم لکھ دیا جائے کہ "مکتب دیوبند والے تو ختم نبوت کے منکر ہیں"؟؟؟؟ اعدلوا هو اقرب للتقوى . (حافظ عبيد اللہ۔
  5. گزارش ہے کہ یہ معلوم کرنا تھا کیا مولانا فضل الحق خیر آبادی رحمہ اللہ علیہ نے 1857 کی جنگ آزادی پر جہاد کی تنسیخ کا فتوی دیا تھا ؟
  6. ایک غیر مقلد کا بیس رکعات تراویح پر اعتراض پڑھنے کو ملا، آگر حضرت ان اعتراضات کا جواب دے سکتا ہے تو مہربانی کرکے دے اس میں بعض اقوال دیوبند علماء کے ہے علمی لحاظ سے معترض کو جواب دیا جائے تو بھتر ہے 8 رکعت تراویح کے سنّت ہونے پر احناف کے گھر کی 15 گواہیاں 1- علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں: فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ ان سب کا حاصل یہ کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ ج1ص 486،485) 2- امام الطحاوی الحنفی لکھتے ہیں: لأنّ النبي عليه الصلٰوة والسلام لم يصلها عشرين،بل ثماني کیونکہ نبی ﷺ نے بیس رکعت نہیں پڑی بلکہ آٹھ ( رکعت پڑھی ہے۔ (حاشیہ الطحاویہ علی در المختار ج1ص 295) 3- علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام حنفی سے بطور اقرار نقل کیا: فَإِذَنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ ( رکعت مسنون اور بارہ (12) رکعت مستحب ہو جاتی ہیں۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج2ص 72) 4- ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں: فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة اِحدي عشرة بالوتر في جماعة فعله عليه الصلاة والسلام کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ (11) رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے، یہ آپﷺ کا عمل ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج3ص 345) 5۔ محمد احسن نانوتوی حنفی لکھتے ہیں: لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانياً کیونکہ نبی ﷺ نے بیس (20) رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ (رکعت پڑھی ہیں۔ (حاشیہ کنز الدقائق ص 36 حاشیہ:4) 6۔ عبدالشکور لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: اگرچہ نبی ﷺ سے 8 رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے 20 رکعت بھی مگر۔۔ (علم الفقہ ص 195، حاشیہ) 7۔ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: کہ نبیﷺ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے 1) 20 رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے، 2) 8 رکعتیں اور 3 وتر با جماعت۔۔( (فتاویٰ عبدالحئی ج1ص 332،331) 8- خلیل احمد سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں: البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ ( کو سنّت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سو یہ قول قابلِ طعن کے نہیں۔ ایک اور جگہ سہانپوری صاحب لکھتے ہیں: اور سنتِ مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو اباتفاق ہے اگر خلاف (اختلاف) ہے تو بارہ( 12) میں ہے۔ (البراہین القاطعہ ص9،195) 9۔ محمد یوسف بنوری حنفی لکھتے ہیں: فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلّى التراويح ايضاً ثماني ركعات اس بات کو تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی ﷺ نے 8 رکعت تراویح بھی پڑھی ہے۔ (معارف السنن ج5ص 543) 10۔ مولانا یوسف لدھیانوی حنفی جابر رضی اللہ عنہ کی 11 رکعت والی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس طرح آپﷺ کی رضامندی کی بنا پر یہ (11 رکعت ) سنّت ہوئی۔ (حیاۃ الصحابہ ج2 ص 165) 11- زکریا کاندھلوی دیوبندی حنفی لکھتے ہیں: “لاشك في أنّ تحديد التراويح في عشرين ركعة لم يثبت مرفوعا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح على أصول المحدثين وماورد فيه من رواية ابن عباس رضي الله عنهمامتكلّم فيها على أصولهم یقیناً محدثین کے اصولوں کے مطابق 20 رکعت نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً ثابت نہیں بلکہ ابن عباس والی روایت محدثین کے اصولوں کے مطابق مجروح ہے۔ (أجز المسالک الی موطا امام مالک ج2ص 534) 12- شاہ ولی محدث دہلوی حنفی لکھتے ہیں: از فعل آنحضرت صلعم یازدہ رکعت ثابت شدہ و در قیام رمضان رسول اللہ ﷺ کے عمل سے اا رکعات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ (مصفیٰ شرح مؤطا ص 175) 13- احمد علی سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں: فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة احدي عشة ركعة بالوتر فى جماعة ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان 11 رکعت سنٗت ہے وتر کے ساتھ باجماعت۔ (حاشیہ بخاری شریف ج1ص 154) 14- حسن بن عمار الشرنبلالی حنفی لکھتے ہیں: وصلاتها بالجماعة سنة كفاية” لما ثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالجماعة إحدى عشر ركعة بالوتر اور اس کی باجماعت نماز سنّت کفایہ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے جماعت کے ساتھ 11 رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔ (مراقی الفلاح شرح نور الیضاح ص 159) 15- مولانا انور شاہ کشمیری حنفی لکھتے ہیں: ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان اس بات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چھٹکارہ نہیں کہ آپ ﷺ کی تراویح 8 رکعت تھی اور روایات میں سے کسی ایک روایت سے بھی یہ ثابت نہیں آپﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھی ہوں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: وأما النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق رہے نبی ﷺ تو ان سے 8 رکعت ثابت ہے اور رہی 20 رکعت تو وہ آپ ﷺ سے ضعیف سند کے ساتھ ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ (العرف الشذی ج2 ص 208)
  7. کوئی بھائی لینک دے بڑی مہربانی ہوں گئ یا کس نام سے موضوع بنا ہے وہ بتا دے
  8. السلام علیکم گزارش ہے کہ ایک گروپ میں وہابی غیر مقلد سے مالک الدار کی حدیث بحث چھڑ گی ہے اس نے تحریر طور پر یہ جرح لیکھے ہے آپ لوگ اس سلسلے میں مدد کرے تاکے انکو جواب ارسال کیا جائے [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※=== *علماء سوء کی سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک اور کاوش* جیسا کہ واضحہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک ہے، اگر قرآن وسنت کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نہ کسی نبی ورسول علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے کبھی کسی کا وسیلہ ڈالا (قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ میں موجود انبیاء کرام علیہم السلام کی تمام دعائیں اس پر شاہد ہیں) اور نہ کہ صحابہ کرام نے کبھی کسی فوت شدہ (خواہ وہ ان کے اور ہمارے محبوب ترین نبیﷺ ہی کیوں نہ ہوں) کا وسیلہ ڈالا، بلکہ وہ تو حکم الٰہی کے مطابق صرف اللہ کی صفات یا اپنے نیک اعمال کا وسیلہ ڈالتے تھے۔ ہاں البتہ ان سے یہ ضرور ثابت ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ضرورت کے وقت آکر ان سے دُعا کراتے اور خود بھی دُعا کرتے تو اللہ تعالیٰ یہ دُعا فوری قبول فرما لیا کرتے تھے، (جیسے ایک بدوی صحابی کا معروف واقعہ ہے کہ انہوں نے جمعہ کے وقت آکر نبی کریمﷺ سے بارش کی دُعا کی درخواست کی تھی اور نبی کریمﷺ نے دُعا فرمائی تھی اور فوری بارش ہوگئی تھی، اور مکمل ہفتہ ہوتی رہی تھی اور پھر اگلے ہفتے اسی صحابی نے بارش رُکنے کی دُعا کی درخواست کی تھی ... *صحیح البخاری 933)* اور اس کا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم بھی دیا ہے۔ فرمان باری ہے: ﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴾ ... سورة النساء: 64 *کہ ’’اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔‘‘* صحیحین میں ہی سیدنا انس سے مروی ہے کہ سیدنا عمر کے دورِ خلافت میں جب قحط پڑ جاتا اور بارش نہ ہوتی تو عمر بن خطاب بجائے نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر جاکر یا دور ہی سے ان کا وسیلہ ڈالنے کے عمِ رسول سیدنا عباس بن عبد المطلب کو بلا کر ان سے بارش کی دُعا کی درخواست کرتے اور خود بھی دُعا کرتے «اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا » قال: فيسقون ... *صحيح البخاري: 1010* کہ ’’اے اللہ! ہم آپ سے (نبی کریمﷺ کی زندگی میں) ان کے وسیلے سے بارش کی دُعا مانگا کرتے تو آپ بارش برسا دیا کرتے تھے، تو اب ہم آپ سے آپ کے نبی کے چچا کے وسیلے سے دُعا کرتے ہیں کہ آپ ہم پر بارش برسا دیں، سیدنا انس فرماتے ہیں کہ پھر بارش ہو جایا کرتی تھی۔‘‘ اور یہ تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوتا، جو گویا تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ لیکن افسوس در افسوس! حبِ رسول کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کچھ حضرات قرآن کریم اور نبی کریمﷺ کے صریح احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ضعیف احادیث کو توڑ موڑ کر اپنے نام نہاد وسیلے کے جواز کیلئے پیش کرنے کی سعی نا مشکور سر انجام دیتے ہیں جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فرمان الٰہی ﴿ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُم وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة الأنعام: 121 *کہ ’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔‘‘* کے عین مصداق ہے۔ ان کی یہ دلیل اور اس کا جواب آگے پوسٹ کیا جاتا ہے: *جاری ہے* [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *حصّہ سوم* حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مصنف ابن ابی شیبہ: 31993 میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ... وكان خازنَ عمر على الطعام ... قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه جبکہ امام بیہقی نے دلائل النبوۃ 7؍47 میں أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اس سند میں کئی خرابیاں ہیں: *نمبر1* اعمش معروف مدلّس ہیں، اور ان کا ابو صالح سے عنعنہ ہے، اور کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں، گویا یہ روایت منقطع ہے، جیسا کہ اصولِ حدیث میں معروف ہے۔ *نمبر 2* حافظ ابن حجر نے اس روایت کے متعلّق کہا ہے (روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) گویا انہوں نے اس روایت کی سند کو ابو صالح السمان تک صحیح قرار دیا ہے، کامل سند کو صحیح قرار نہیں دیا، کیونکہ انہوں نے اپنی عادت کے مطابق مطلقا یہ نہیں کہا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور ایسا علماء اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے بعض راویوں کے حالات واضح نہ ہوں، خصوصاً حافظ ابن حجر جو تراجم الرواۃ کے امام ہیں (جنہوں نے تراجم الرجال پر کئی عظیم الشان کتب تحریر کی ہیں)، وہ مالک الدار سے واقف نہیں، انہوں نے مالک الدار کے حالات اپنی کسی کتاب میں بیان نہیں کیے اور اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تاریخ‘ میں اور امام ابن ابی حاتم نے ’جرح وتعدیل‘ میں کسی امام جرح وتعدیل سے مالک الدار کی توثیق نقل نہیں کی حالانکہ یہ دونوں ائمہ کرام اکثر راویوں کے حالات سے واقف ہیں۔ حافظ منذری ... جو متاخرین میں سے ہیں ... اپنی کتاب ’ترغیب وترہیب‘ 2 ؍ 29 میں مالک الدار کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں انہیں نہیں جانتا۔ (خلاصہ یہ ہے کہ مالک الدار مجہول راوی ہے۔) *نمبر 3* اگر بالفرض ’مالک الدار‘ کو ثقہ ثبت فرض کر لیا جائے تب بھی مالک الدار اسے ایک (مجہول) شخص سے روایت کرتے ہیں جو نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا، اور علم اصول حدیث کے مطابق اس طرح بھی یہ حدیث منقطع بنتی ہے، کیونکہ اس میں قبر پر آنے والا شخص مجہول ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ قبر پر آنے والا شخص بلال بن حارث صحابی تھے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس کی تصریح صرف سیف بن عمر سے مروی ہے جو بذاتِ خود غیر ثقہ راوی ہے، گویا اس روایت پر موجود دیگر کئی جرحوں میں سے ایک جرح سیف بن عمر کے حوالے سے بھی ہے۔ اور اگر علمائے جرح وتعدیل کے اقوال سیف بن عمر کے متعلّق جان لیے جائیں تو یہ ایک جرح ہی اس روایت کو ردّ کرنے کیلئے کافی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں: قال الحافظ الذهبي في ميزان الاعتدال٣؍٣٥٣ في ترجمة سيف بن عمر: إن يحيى بن معين ، قال فيه: فِلسٌ خيرٌ منه ، وقال أبو داود: ليس بشيء ، وقال أبو حاتم: متروك ، وقال ابن حبان: اتهم بالزندقة ، وقال ابن عدي: عامة حديثه منكر ، وقال مكحول البيروتي: كان سيف يضع الحديث ، وقد اتهم بالزندقة. وقال ابن الجوزي في كتابه ، الضعفاء والمتروكين ٢؍٣٥ رقم: ١٥٩٤: سيف بن عمر الضبي، قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث ، فِلسٌ خير منه ، وقال أبو حاتم الرازي: متروك الحديث ، وقال النسائي والدارقطني: ضعيف ، وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقال إنه يضع الحديث. اھ. ومن أراد مراجعة سند سيف بن عمر ، فليراجع ، تاريخ الطبري ٢؍٥٠٨ والبداية والنهاية٧ ؍ ١٠٤ امام ابن حجر کی تصحیح پر امام البانی رحمہ اللہ اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا تعاقب امام البانی رحمہ اللہ نے ’توسل‘ ص132 میں کہا ہے: لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ. کہ ’’اس روایت سے حجت نہیں لی جا سکتی، کیونکہ اس کا دار ومدار ایک ایسے آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور وہ مجہول بھی ہے، اور ’سیف‘ کی روایت میں اس کا نام بلال ہونے کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ یہ سیف بن عمر تمیمی ہے جس کے باتفاق المحدثین ضعیف راوی ہے، بلکہ ابن حبان نے تو اس متعلّق کہا ہے کہ ’’یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، اور محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔‘‘ ایسے شخص کی تو عام روایت ہی قبول نہیں، کجا یہ ہے کہ صحیح حدیثوں کے بالمقابل اس کی روایت قبول کی جائے۔‘‘ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فتح الباری پر تعلیق 2؍575 میں حافظ ابن حجر کے اس کلام پر تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك . وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ. کہ اس روایت کو ابن حجر کے کہنے کے مطابق اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس میں نبی کریمﷺ سے وفات کے بعد بارش کی دُعا کا تقاضا کرنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ کی قبر پر آکر سوال کرنے والا شخص مجہول ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اس کے بالکل مخالف ہے، اور وہ سب سے زیادہ شریعت کو جاننے والے تھے، اور ان میں کبھی کوئی نہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر استسقاء کیلئے آیا نہ کسی اور کی قبر پر، بلکہ قحط کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس کے اُلٹ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے دُعا کرائی تھی اور اس کی مخالفت کسی صحابی نے نہیں کی، پس ثابت ہوا کہ یہی حق ہے، اور اس مجہول شخص کا عمل منکر اور وسیلۂ شرک ہے، بلکہ بعض علماء تو اسے شرک کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک سیف مذکور کی روایت اس شخص کا نام بلال بن حارث (صحابی) ذکر کیا گیا ہے تو یہ صحیح نہیں، نہ ہی ابن حجر رحمہ اللہ نے ’سیف‘ کی سند ذکر کی ہے، اور اگر بالفرض اسے بھی صحیح تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ کبار صحابہ (سیدنا عمر، ومعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم وغیرہما) کا عمل اس کے مخالف ہے اوروہ نبی کریمﷺ اور ان کی شریعت کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے تھے۔ واللہ اعلم! *جاری ہے* [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *حصّہ دوم* مشہور صوفی عالم علی جفری یہاں امام ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فتح الباری کی جلد دوم، کتاب الاستسقاء میں ذکر کیا ہے ... اور اسی طرح اس حدیث کو ائمہ بیہقی، حاکم اور ابن خزیمۃ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ... کہ أن بلال بن الحارث المزني ، وهو من أصحاب المصطفى، جاء إلى قبر رسول الله ، في سنة مقحطة في عهد عمر ، ووقف على القبر الشريف ، وقال يا رسول الله! استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه کہ ’’بلال بن حارث مزنی جو صحابہ کرام میں سے ہیں زمانہ خلافتِ عمر میں قحط کے موقع پر نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کیونکہ لوگ تو قحط کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں، تو انہیں رات خواب میں نبی کریمﷺ آئے اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ، انہیں میرا سلام کہو اور انہیں خبر دو کہ عنقریب بارش ہوگی اور انہیں کہو کہ ذمہ داری کا ثبوت دو، تو انہوں نے سیدنا عمر کے پاس آکر سارا ماجرہ سنایا تو وہ رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ! میں تو کوئی کوتاہی نہیں کرتا الا یہ کہ میں عاجز آجاؤں۔‘‘ نمبر ایک یہ روایت مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ بلکہ امام حاکم اور ابن خزیمہ کی کسی کتاب میں موجود نہیں، اور نہ ہی کسی نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے اسے نقل کیا ہے۔ نمبر دو فتح الباری میں یہ الفاظ نہیں جو اس صوفی علی جفری نے نقل کیے ہیں، بلکہ وہاں موجود اصل الفاظ یہ ہیں: قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار ، وكان خازنَ عمر ، قال: أصاب الناسَ قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لامتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: ائت عمر .. الحديث ، وقد روى سيف ، في الفتوح ، أن الذي رأى المنام المذكور ، هو بلال بن الحارث المزني ، أحد الصحابة. کہ ’’امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے ابو صالح السمان کی صحیح روایت سے مالک الدار سے روایت کیا ہے جو (یعنی مالک الدار) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خازن تھے، کہ انہوں نے کہا کہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط پڑ گیا تو ایک شخص نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کہ وہ تو ہلاک ہوگئے، تو اس آدمی سے پاس (نبی کریمﷺ) خواب میں تشریف لائے، اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ ... الیٰ آخر الحدیث! (ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ) سیف نے ’فتوح‘ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ بلال بن حارث المزنی ایک صحابی تھے۔‘‘ *جاری ہے * [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *چوتھا اور آخری حصّہ* *نمبر 4* اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابن حجر نے مالک الدار کے متعلّق کہا ہے کہ (له إدراك) کہ ’’انہوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے۔‘‘ تو واضح رہے کہ ابن حجر نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں مالک الدار کو تیسری قسم میں شمار کیا ہے، اور یہ قسم مخضرمین (جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا، لیکن انہوں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا، خواہ وہ آپ کے زمانے میں مسلمان ہوگئے ہوں یا بعد میں مسلمان ہوئے ہوں) کے ساتھ خاص ہے۔ اور مخضرم حضرات اصول حدیث کے مطابق بالاتفاق صحابہ میں شمار نہیں کیے جاتے۔ *نمبر 5* اس روایت کے متن میں نکارت ہے۔ *نمبر 6* اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک بڑی علت یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک خلافتِ عمر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھی، حتیٰ کہ بعد میں یزید بن الولید نے اسے مسجد نبوی میں شامل کر دیا تھا، تو خلافتِ عمر میں ایک غیر محرم شخص سیدۃ عائشہ کے حجرہ میں کیسے داخل ہو سکتا تھا؟؟؟ حافظ ابن کثیر کا اس حدیث کو بیان کرنا اور صحیح کہنا واضح رہے کہ امام ابن کثیر نے بھی اس حدیث کو امام بیہقی سے دلائل النبوۃ سے ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت میں درج ذیل علل ہیں: 1. اعمش کا عنعنہ، اور اعمش مدلس ہیں، اور ابن کثیر کے نزدیک اعمش مدلسین کے دوسرے طبقہ میں شامل ہیں۔ در اصل امام ابن کثیر کے اس حدیث کو صحیح کہنے کی بنیادی وجہ ان کا طرزِ عمل: ’کبار مجہول تابعین کو ثقہ قرار دینا‘ ہے، جیسا کہ ان کا یہ طریقہ کار ان کی تفسیر میں معروف ہے۔ چونکہ مالک الدار مجہول ہیں، لہٰذا ان کا تاریخ وفات بھی معلوم نہیں۔ 2. ابو صالح السمان ... جن کا اصل نام ذکوان ہے ... کا مالک الدار سے سماع اور ادراک ثابت نہیں، کیونکہ مالک الدار کی تاریخ وفات کا علم نہیں، اور اس پر مستزاد کہ ابو صالح کا مالک سے عنعنہ ہے۔ سماع کی صراحت بھی نہیں۔ 3. یہ حدیث مشہور احادیث (سیدنا عمر ومعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہم) کے خلاف ہے۔ *ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم*
  9. گزارش ہے کہ وہابیوں نے اعلی حضرت کے کلام مصطفی جان رحمت پر ایک نیا اعتراض اٹھایا ہے آپ لوگوں جواب طلب ہے جزاکم اللہ
  10. السلام علیکم گزارش ہے کہ حیات مسیح پر میری ایک قادیانی شخص گفتگو whattsapp group زیرے بحث ہے اس حوالے سے قادیانی شخص چند علماء کے اقوال پیش کیے ہے جس میں اس دلیل کے مطابق عیسی ابن مریم کا وفات پاچکے ہے آپ لوگ اس دلیل کی رد میں میری مدد کریں جزاکم اللہ
  11. الحمد للہ اویس نورانی صاحب نے آپنی بات سے رجوع کر لیا اور آپنی بات سے توبہ کرلی اب جبکہ انھوں نے آپنی بات سے رجوع کر لیا تو آیڈمن چاہے تو اس ٹوپک کو delete کردے یا پہر اس کا عنوان بدل دے جزاک اللہ 1506503534259.mp4
×
×
  • Create New...