Jump to content

Madni.Sms

اراکین
  • کل پوسٹس

    132
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    6

سب کچھ Madni.Sms نے پوسٹ کیا

  1. السلام علیکم! آپ درس نظامی کو کسی بھی عمر میں سیکھ سکتے ہیں اور یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ آپ کسی بھی سنی حنفی مدرسہ میں داخلہ لے لیں جتنا جلد ممکن ہو۔ لیکن درس نظامی کا بھی ایک بورڈ ہے جس طرح دنیاوی امتحانات کے لئے ایک بورڈ بنا ہوا ہے، تو اس میں امتحانات دینے سے گورنمنٹ کی ڈگری ملتی ہے جو ایم اے کے برابر ہوتی ہے اس کے امتحانات دینے کے لئے کم سے کم آٹھویں جماعت پاس کی ہوئی ہونی چاہیے اور زیادہ عمر کی کوئی قید نہیں۔ اس حوالے سے مزید کسی حوالے سے معلومات چائیں ہوں تو اس ریپلائی کریں۔ جزاک اللہ۔
  2. Salam, "Namaz Ke Ahkam" ke kuch pages mazeed tafseel aur namaz wagera ke zarori ahkam janne ke lie pori book parhen. Namaz Ke Ahkam: http://www.dawateislami.net/bookslibrary/95/
  3. or search on google " the application was unable to start correctly 0xc00007b" and see videos about this error.
  4. Salam, Solution 1: Re-install Directx Step 1. Open Windows Explorer and navigate to C:\Windows\System32 Step 2: Locate and delete the following files: “xinput1_1.dll”, “xinput1_2.dll”, “xinput1_3.dll” and all other files started with xinput1_*.dll. Step 3: Once the files are deleted, click the link below to download and run the DirectX setup https://www.microsoft.com/en-us/download/details.aspx?id=35 Now Run the downloaded file and install Directx. Once the installation is completed reboot your computer. This should most probably solve the problem of “the application was unable to start correctly 0xc00007b“. In case it doesn’t, try the next solution. Solution 2: Re-install .NET Framework Many a times, these issues are caused by a faulty .net framework. I would suggest reinstalling the framework. Download latest .net framework from here, install it and restart your computer. Your problem should get solved now. Well, that’s it. Now your problem should be solved. In case you are still facing 0xc00007b error, drop in your comment below. I will personally help you to solve it. If the tutorial worked for you, feel free to share it.
  5. :یہ بات روز اول کی طرح روشن اور عیاں ہے کہ "دنیا میں انقلاب غور وفکر برپا کرنے کا سہرا دین اسلام کے سر ہے" اور مشاہدات زندگی کا نام سائنس ہے اور سب سے پہلے جواز سائنس کا نظریہ قرآن نے پیش کیا۔ اﷲ رب ذوالجلال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’بے شک آسمان اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کے بدل بدل کر جانے میں عمل والوں کے لئے نشانیاںہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہرحال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں‘‘ علوم سائنس کے پیشتر علوم قرآن سے پیداہوئے۔ اس کے علاوہ بے شمار علوم دین اسلام کے آنے سے وجود میں آئے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ نظام فطرت میں غوروفکر کرنا اور جستجو حیات کرنا بھی عبادت ہے۔ نیز تخلیق انسانی کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرے اور بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان سائنس دانوں نے کائنات میں مشاہدات زندگی (علم سائنس) کو ضرورت انسانی نہیںبلکہ اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر کیا ہے اور جو بات بھی کہی ہے، نہایت پائیدار اور مذہب کے حوالے سے ناقابل تردید و تنقید کی ہے۔ سائنس قرآن کے سامنے ایک نقطہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ اس لئے کہ سائنس انسان کے معمولات کا مجموعہ ہے اور قرآن کریم جو کلام الٰہی ہے، اﷲ تعالیٰ کے علوم کا مظہر ہے۔ تمام علوم و فنون قرآن پاک میں ہیں۔ ہر خشک و تر اور چھوٹی بڑی ہر شے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ تفسیر اتقان میں فرماتے ہیں: قال اﷲ تعالیٰ مافرطنافی الکتاب المبین یعنی ’’ہم نے کتاب میں کوئی کمی نہ فرمائی‘‘ وقال نزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شئی ’’اور نازل کی ہم نے آپ پر کتاب جو ہر شے کا بیان واضح ہے‘‘ قرآن ایک بحر بے کنار ہے۔ اس سے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے اور قرآن کے مقابلے میں سائنس کا علم ناقص ہے، جبکہ قرآن کامل ہے تو ناقص کو کامل پر فوقیت کیسے اور کیوں کردی جاسکتی ہے۔ اسے ہماری بدقسمتی کہئے یا قیامت کے قریب ہونے کی نشانی کہ انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں زندگی بسر کرنے والے جب نشہ اقتدار یا کسی دوسری بدمستی میں مست ہوتے ہیں تو یورپ کی مادی ترقیات سے مرعوب ہوکر آیات قرآنیہ کو سائنس کے مسائل اور جدید تحقیقات پر ڈھال دیا کرتے ہیں جن پر خود ماہرین سائنس کو پورا وثوق اور اطمینان ہے کہ شاید آئندہ چل کر ہماری یہ تحقیقات غلط ثابت ہوجائیں۔ عجب ماجرا ہے کہ استاد توشک اور تردّد میں ہے اور شاگرد یقین کی آخری منزل میں ہے۔ مقصد گویائی یہ ہے کہ آج ہماری نصابی کتب بھی انہی فرسودہ اور دقیانوسی خیالات سے پُر ہیں اور طلباء ایسی فضول باتیں پڑھ کر گمراہ اور دین سے دور ہورہے ہیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جہاں اور باتوں میں مشرق اور مغرب کا اختلاف ہے اور سب سے بڑا جھگڑا مذہب کا ہے تو یہ مسئلہ بھی خالص مذہبی نوعیت کا ہے اور ہمیں خالصتاً مشرقی مسلمان بن کر اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ خلیجیں اس قدر وسیع ہوچکی ہیں کہ اب ان کو پاٹنا ناممکن ہوگیا ہے اور اس بات کو تو ایک مغربی مفکر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا: ’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے اور یہ دونوں کبھی ایک نہیں ہوسکتے‘‘ اب ایک اور اہم مسئلہ مغربی تعلیم یافتہ طبقہ ہمارے ہاں علماء کرام کو سائنسی علوم کی ترویج و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ تو یہ الزام مذہبی علماء پر غلط اور بے بنیاد ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جہاں مذہب کے خلاف سائنس نے بات کی ہے تو مذہب کے پاسبانوں نے دین کی حفاظت کی ہے۔ مثلا حرکت زمین پرجب مذہب پر آنچ آئی تو علماء کرام نے ہی آواز اٹھائی۔ یعنی جب مذہب کو داغدار کرنے کی کوشش بلکہ مذموم سازش کی جاتی ہے تو علماء میدان میںآتے ہیں اور اصولاً بحیثیت مسلمان کے ہونا یہ چاہئے کہ سائنسی مسائل کا حل مذہب کے حوالے شے پیش کرنا چاہئے، بصورت دیگر گمراہی پھیلتی ہے۔ زمانہ قدیم کے حکماء اور علماء شروع سے متفقہ طور پر یہ مانتے آئے تھے کہ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، بالکل ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ مگر جدید سائنس نے جہاں اور بہت سے قدیم نظریات کو باطل کردیا وہاں قوی اور جدید ترین آلات رصد کے ذریعے یہ بات بھی ثابت کردی کہ سورج کی گردش اور زمین کے ساکن ہونے کا مسئلہ غلط تھا۔ اب معاملہ بالکل الٹ ہے یعنی اب علم الارض کے ماہر اور سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ زمین مع اپنے تمام متعلقات کے بڑی تیزی سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور سورج ساکن ہے۔ قرآن پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے سائنس اور علوم قدیم کی طرف کس قدر ترغیب دی ہے اور ان قوانین قدرت کو جو مظاہر فطرت ہیں، ان کی طرف کس قدر پرزور طریقے سے توجہ دلائی ہے۔ مسلمانوں نے بے شمار سائنس دان پیدا کئے ہیں جن کے علم کی روشنی سے یورپ بھی فیض یاب ہوا ہے۔ مذہبی سائنس کے حوالے سے ایک بات یہ بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مسلمان سائنس دان مذہبی علوم کے بھی ماہر ہوتے تھے اور بیک وقت کئی کئی علوم پر سند تعلیم کئے جاچکے تھے اور آج بھی اسلامی سائنس کی روایات برقرار ہے، جبکہ یونانی سائنس (مغربی سائنس)ے اپنا دم توڑ چکی ہے اور اپنی روایات سے بہت دور جاچکی ہے۔ سائنس مسلمانوں کا موروثی فن ہے اور ہم نہایت فخریہ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فاتح عالم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے علم کی بھی بڑی خدمت کی۔ سائنسی اور تحقیقی کارناموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کائنات کے سربستہ راز آشکارا کئے۔ عناصر قدرت پر حکمرانی کی۔ جب خدائے واحد کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوا تو یہ عقیدہ واضح ہوا کہ الہیات، فلسفہ، تصوف اور نفسیات کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ، طب، ہیئت اور ریاضی جیسے تمام سائنسی علوم حضورﷺ کے غلاموں کے قدموں میں ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی غفلت سے اغیار نے ان میں ترقی کرلی اور ان علوم سے مسلمانوں کا قلع تعلق کرلیا۔ ذراغور تو کیجئے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید سائنس اپنا رشتہ یونانی دور سے ملاتی ہے اور درمیان سے مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور روز روشن میں غائب کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ ایجادات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ارشیدس کی چرخی 1260) قبل مسیح) کے فورا بعد ہی گٹن برگ کے چھاپہ خانہ 1450)ئ) کا ذکر آتا ہے۔ متعصب مغربی مورخین نے دانستہ طور پر اسلامی ترقی کے ڈیڑھ ہزار سال غائب کردیئے۔ اب ایسی صورت حال میں جہاں سائنس اسلام کے خلاف بات کررہی تھی، ایک عظیم اسلامی مفکر، عاشق رسولﷺ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے سائنس کا ابطال فرمایا اور آپ نے حرکت زمین کے رد میں ایک سو پانچ دلیلیں دیں۔ سائنس دانوں نے صرف اتنا ہی نہیں کہ زمین کو محور گردش ثابت کرنا چاہا ہے بلکہ انہوں نے تو صاف طور سے آسمان کے وجود کا بھی انکار کیا ہے۔ بظاہر اس سادہ بیان میںعوام کو تو کوئی خرابی نظر نہیں آئی ہوگی لیکن اگر ذرا سا غوروفکر کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ سائنس دانوں کا نظریہ مذہب اسلام کی بنیاد پر ایک کاری ضرب ہے۔ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اسلامی سائنس کے داعی تھے اور سائنسی نظریات کو مذہبی تناظر میں پرکھتے تھے۔ یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو سائنس کے مطابق کرایا جائے یوں تو معاذ اﷲ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام قبول کیا، وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اسے اختلاف ہے سب میں مسئلہ اسلامی کو روشن کیا جائے، جابجا سائنس ہی کے اقوال سے مسئلہ اسلامی کا اثبات ہو، سائنس کا ابطال و اسکات ہو تو یوں سائنس قابو میں آئے گی۔ اصول سائنس تارعنکبوت ہیں۔ قرآن مجید اور اسلام کے اصول ربانی ہیں۔ اس لئے جو سائنسی مسئلہ قرآن و اسلام کے موافق ہوگا، وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے جو اس کے خلاف ہوگا ہم اسے دیوار پر ماریں گے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ: ’’سائنس کو اصول اسلام کے تابع ہونا چاہئے نہ کہ غلط سائنس دانوں کے غلط اصولوں پر اسلام کو ڈھالا جائے‘‘ قرآن کریم نے فکر انسانی کو نہ صرف بدلہ بلکہ ان کے ذہنوں اور روحوں میں جو انقلاب پیدا کیا وہ آج تک زندہ تابندہ ہے اور ان شاء اﷲ تاحشر قائم و دائم رہے گا۔ قرآن کریم میں علوم کی ایک دنیا آباد ہے۔ جدید سائنس کی بنیادیں استوار کرنے والے مسلمان سائنس دانوں کی فہرست تو بہت طویل ہے تاہم مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔ جابر بن حیان،الکندی، الرازی، الفرغانی، ثابت بن قرہ، الفارابی، مسعودی، مالکرفی، البغدادی، ابن عیسٰی، الغزالی، ابن رشد، ابن الہیشم، بوعلی سینا، عمر خیام، خوارزمی، البیرونی۔ یہ ہمیشہ کا دستور ہے کہ زوال پذیر قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہیں اور پھر ان کے افراد کا عقیدہ بن جاتا ہے کہ وہ ان کے علم کو محفوظ کرلیں۔ اتنا ہی کافی ہے، ان سے آگے بڑھنا تو درکنار ان کی برابری بھی ناقابل تصور ہے۔ اس احساس کمتری کی نفسیات کے زیر اثر وہ اپنی تمام قوتیں صرف حفاظت میں صرف کرتی ہے۔ مگر امت مسلمہ کے اس زوال کے دور میں بھی رحمت ذوالجلال نے وقت کے ہر تھوڑے فاصلے پر کوئی نہ کوئی روشنی کا مینار نصب کئے رکھا اور یہ انہی مینارۂ نور کا طفیل ہے کہ امت مسلمہ ایک مرتبہ پھر زوال کے آخری کنارے کو عبور کرنے کے سرے پر ہے اور عروج کے میدان میں ان شاء اﷲ قدم رکھنا اب دور نہیں۔ وقت کی شاہراہ پر نصب روشنی کے ان میناروں میں سے ایک قریب ترین اور روشن مینارہ ’’احمد رضا خان‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ جس کی روشنی آج 70 سال کے فاصلے سے بھی ظلمتوں کا سینہ چیرتی ہوئی جویان حق کو عروج کی سرحدوں کی جانب رواں دواں رہنے میں معاون ہے۔ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
  6. Salam, hazrat uper blue color ka download ka button hai usper click karne se download as .zip ka option zahir hota hai is tarha karne se ap .zip file download kar saken ge.
  7. Please listen. https://tune.pk/video/245172/aj-sik-mitran-di-with-tashree-by-owais-raza-qadri
  8. Link Updated! https://www.dropbox.com/sh/8mmtlpg5z9721g5/AAA2zxaPxozZakhPSXRmOvC-a?dl=0
  9. Salam, Quran Learning Software Link Updated: https://www.dropbox.com/sh/8mmtlpg5z9721g5/AAA2zxaPxozZakhPSXRmOvC-a?dl=0
  10. Question: Zakat kis umer me lazim hoti hai? Answer:
  11. Salam, Question: روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا، آنکھ میں ڈراپ ڈالنا یا سرمہ لگانا کیسا؟ Answer:
  12. Madni.Sms

    قرآن کی فصاحت وبلاغت

    قرآن کی فصاحت وبلاغت لغت ونحواورعربی ادب کے امام عبدالملک بن قریب بن عبدالملک اصمعی (متوفی ۲۱۶ھ)کہتے ہیں کہ میں نے ایک دیہاتی بچی کو یہ فصیح وبلیغ اشعارکہتے سنا: استغفراللہ لذنبی کلہ قبلت انسانا بغیر حلہ مثل الغزال ناعما فی د لہ فانتصف اللیل ولم اصلہ میں نے کہا:اللّٰہ تجھے مارے !توکس قدر فصیح ہے۔‘‘اس نے جواب دیا:اویعد ہذا فصاحۃ مع قولہ تعالییعنی کیا اس فرمانِ باری تعالیٰ کے سامنے میری اس بات کو فصیح کہاجاسکتاہے؟=]وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ 0(پ۲۰،القصص:۷)ترجمہ:اور ہم نے موسٰی کی ماں کو الہام فرمایاکہ اسے دودھ پلا پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہوتو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈراور نہ غم کربیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔‘‘[=میری یہ بات اس کے سامنے ہرگز فصیح نہیں کیونکہ اس ایک آیت میں دو امر ،دونہی،دوخبریں اور دوبشارتیں ہیں ۔ (النکت والعیون،ج۳،ص۲۶۵،تفسیر قرطبی،ج۷،ص۱۹۱) قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی جووجوہات ہیں ان میں سے سب سے اعلی اورسب پر مقدم قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت ہے …دورِ جاہلیت میں اہل عرب کو فصاحت وبلاغت میں جومقام حاصل تھا وہ کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوا…اہم مواقع پر وہ اپنے اس فن کے عجائبات بدیہی طور ظاہر کیا کرتے تھے … مجالس میں فی البدیہ خطبے پڑھ دیاکرتے تھے…کھڑے کھڑے تین تین سو اشعار سنادیاکرتے تھے…میدانِ جنگ میں جب گھمسان کارن پڑتاتوسیف وسنان کی ضربوں کے درمیان رجز پڑھا کرتے تھے…ا س فن سے وہ بزدل کو دلیر ،بخیل کو سخی،ناقص کو کامل،گمنام کو نامور او رمشکل کو آسان کردیتے تھے…جسے چاہتے تعریف کرکے شریف اور ہجو کرکے کمینہ بنادیتے… بغض وکینہ دور کرکے بیگانے کو اپنا بنالیتے… انہیں یقین تھا کہ اقلیم سخن کے مالک اور میدان فصاحت وبلاغت کے شہسوار ہم ہی ہیں …اورانہیں گھمنڈ تھاکہ کوئی کلام ہمارے کلام پرسبقت نہیں لے جاسکتا…کلام کے اس کمال کے باوجودان کی ذاتی ومعاشرتی حالت نہایت ہی دگرگوں تھی …عقائدواعمال دونوں میں افراط وتفریط کا شکار تھے۔کفر وشرک اوربدعملی وبداطواری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی …الغرض دن رات بدکاری ،شراب خوری ،جوئے بازی اور قتل وغارتگری میں مشغول رہتے تھے ۔ ایسے حالات میں ضرورت تھی کہ زمین کے اس مرکز میں خدائے وحدہ لاشریک کی طرف سے کوئی کامل وروحانی طبیب مبعوث ہو… چنانچہ ،رب العالمین جل جلالہ نے ان کی طرف ایک کامل واکمل ہستی کو بھیج دیا جوایک کامل کتاب ساتھ لے کر آئی …جس میں قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے سارے امراض کا نسخہ کیمیاء درج تھا…امی لقب پانے والی اس کامل ہستی نے اپنی نبوت کے ثبوت میں جو کتاب اہل مکہ کے سامنے پیش کی وہ انہی کی زبان میں تھی …ا ور اسی فن(فصاحت وبلاغت) میں ان سے معارضہ طلب کیا جس میں وہ پوری دنیا کو چیلنج کرتے تھے…اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان لوگوں میں انتہائی فصیح وبلیغ خطباء اور ذہین وفطین شعراموجود تھے مگرجب بطورِ معارضہ ان کے سامنے قرآن کریم پیش کیا گیا تو ان کی عقلیں حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئیں …قرآن کریم نے واشگاف لفظوں میں فرمایا: قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا 0 (پ۱۵،بنی اسرائیل:۸۸) ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔ پھرلگام کو تھوڑاڈھیلاکرکے فرمایا: قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 0(پ۱۲،ہود:۱۳) ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اوراللہ کے سوا جو مِل سکیں سب کو بلالو اگر سچے ہو۔ پھرحجت کوپوراکرنے کے لئے دس کے بجائے ایک ہی سورت بناکر لانے کا چیلنج کیا: قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ0(پ۱۱،یونس :۳۸) ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤتو اس جیسی ایک سورۃ لے آؤ اوراللہ کو چھوڑ کر جو مل سکیں سب کو بُلا لاؤ اگر تم سچے ہو ۔ اور یوں وہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللّہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں مسلسل دس برس کفارومشرکین کو چیلنج کرتے رہے … پھر جب مدینے میں رونق افروز ہوئے تو وہاں بھی دس سال :فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ(پ۱،البقرۃ :۲۳)سے تحدی ومعارضہ کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ:فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ(پ۱،البقرۃ :۲۴)سے انہیں چونکاتے ،برانگیختہ کرتے اورڈراتے رہے …غورفرمائیے !جس وقت عرب میں فصاحت وبلاغت اپنے کمال کوپہنچی ہوئی تھی اس زمانے میں فصحاء وبلغاء چھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضہ سے عاجز آگئے … توبعد والوں اور غیر عرب کا عاجز وبے بس ہونا خودہی ثابت ہوگیا…اور یہ رسالت مصطفی کی ایسی ساطع وقاطع دلیل ہے کہ آج 14 سوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکا مگرکوئی اس چیلنج کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی اس پر قادر ہوگا۔ اگر ہم کسی انسان کے فصیح وبلیغ کلام کا مطالعہ کریں تو اختلافِ مضامین ،اختلاف احوال اور اختلاف اغراض سے اس کی فصاحت وبلاغت میں فرق ضرور نظر آئے گاجیسے اہل عرب کے جن شعراء اور خطبا ء کی فصاحت وبلاغت میں مثالیں دی جاتی ہیں …ان میں سے کوئی تعریف ومدح بہت بڑھ چڑھ کرہے تو ہجومیں معمول سے زیادہ گرا ہوا اور کوئی اس کے برعکس ہے …کوئی مرثیہ گوئی میں فوقیت رکھتاہے تو غزل میں بھداہے اورکوئی اس کے برعکس ہے…اوریوں ہی کوئی رجز میں اچھا ہے تو قصیدے میں خراب اورکوئی اس کے برعکس …اس تمام کے برعکس قرآن کریم پر غور فرمائیے !اس میں وجوہِ خطاب بھی مختلف ہیں : کہیں قصص ومواعظ ہیں… کہیں حلال وحرام کا ذکر…کہیں اعذاروانذارتو کہیں وعدہ ووعید …کہیں تخویف وتبشیرتو کہیں اخلاق حسنہ کا بیان ہے مگریہ کتاب ہر فن میں فصاحت وبلاغت کے اس اعلی درجے پر فائز ہے جوبشری طاقت سے باہر ہے …یوں تو قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کے سلسلے میں بے شمار واقعات وروایات ہیں ،سردست صرف دوکے ذکر پر اکتفاء کرتاہوں: (۱)…درسِ نظامی (عالم کورس)کے نصاب میں داخل مشہورکتاب سبع معلقات کے فصیح وبلیغ شعراء میں سے ایک حضرت لبید بن ربیعہ رضی اللّٰہ عنہ ہیں ۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اور قبول اسلام کے بعد 60سال زندہ رہے …نیز اسلام لانے کے بعد انہوں نے صرف یہی ایک شعرکہا: ماعاتب المرء الکریم کنفسہ والمرء یصلحہ القرین الصالح ٍ ایک دن امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللّٰہ عنہنے ان سے فرمایا:’’اپنے اشعارمیں سے مجھے بھی کچھ سنائو۔‘‘تو انہوںعرض کی: ماکنت لاقول شعرابعد ان علمی اللّٰہ تعالی البقرۃ وال عمران یعنی جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے سورہ ٔ بقرۃ اور سورۂ ال عمران سکھادی ہے میں کوئی شعرنہیں کہتا۔(اسد الغابۃ،ج ۴، ص۵۴۰) (۲)…دورتابعین سے تعلق رکھنے والے فصاحت وبلاغت میں یگانہ روز’’ابن المقفع‘‘ کے متعلق منقول ہے کہ اس نے قرآن کریم کا معارضہ کرنا چاہاتو ایک کلام نظم کیا ، اسے مفصل بنایااور اس کا نام ’’سورتیں‘‘ رکھا… ایک دن وہ کسی مدرسے کے پاس گزراتو اس نے کسی بچے کو قرآن کریم کی یہ آیت طیبہ پڑھتے ہوئے سنا : وَ قِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآء َکِ وَ یٰسَمَآء ُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآء ُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ 0 (پ ۱۲،ہود:۴۴) ترجمہ کنزالایمان :اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ ۔ یہ سن کروہ واپس لوٹااورگھر آکر جوکچھ لکھا تھا سب مٹاڈیااور کہا کہ اشہد ان ہذا لایعارض ابدا وماہو من کلام البشر یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کتاب کا معارضہ کبھی نہیں ہوسکتا اور یہ انسان کا کلام نہیں۔(تفسیر الماوردی،ج۱،ص۳۱،المواہب اللدنیۃ مع شرحہ الزرقانی،ج۶،ص۴۴۴)یا اس نے یہ کہا:ہذا کلام لایستطیع احد من البشران یاتی بمثلہ یعنی یہ ایساکلام ہے کہ کوئی بشر اس جیسا کلام نہیں کرسکتا۔(تفسیر البحرالمحیط ،ج۵،ص۲۲۹) اپنی گفتگو’’تفسیر مظہری (مترجم)کے مقدمہ ‘‘سے اس اقتباس پر ختم کرتاہوں:’’بھلا وہ کلام جو اپنے الفاظ ومعانی فصاحت وبلاغت عذوبت وحلاوت ،جامعیت وآفاقیت اور اثر انگیزی وسحرطرازی میں اس عظمت وشان کا حامل ہو کہ ہر دور کے منکرین کو یہ چیلنج دے رہاہو:’’ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُہَدَآء َکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(پ۱،البقرۃ :۲۳)تولے آئو ایک سورت اس جیسی اور بلالو اپنے حمائتیوں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔‘‘ تو پھر کون ہے ؟جو اس کے حقیقی کمالات واوصاف بیان کرسکے۔۔ذراغورتو کیجئے… کون ہے ؟جو اس عظیم کلام سے وابستہ ہو اور دوجہاں میں سرخرو نہ ہو…کون ہے ؟جو عامل قرآن تو ہو مگر خالق کائنات نے اسے اپنے خصوصی انعامات سے نہ نوازہو…کون ہے ؟ جس نے اس بحرذخار میں غواصی کی ہو مگر اس کادامن لعل وگوہر سے نہ بھراہو…کون ہے ؟جس کا سینہ مسکن آیات قرآنیہ ہو دل ان کی ضیاء سے ضوفشاں ہواور ذہن ان میں تدبر کناں ہو مگر وہ تجلیات ربانی کا مرکز نہ ہواور کتاب الہی کے اسرار ورموز اس پر ظاہر نہ ہوں…کون ہے ؟جس کا مسیحا قرآن ہومگر وہ شفایاب نہ ہو…کون ہے ؟جس کاہادی ورہبر قرآن ہو مگر وہ صراط مستقیم پر گامزن نہ ہو…کون ہے ؟جس کا شفیع قرآن ہومگر وہ جنت کی بہاروں کا مستحق نہ بنے…کون سا وہ گھر ہے ؟جس میں تلاوت قرآن تو ہومگر وہ ملائکہ رحمت کی آماجگاہ نہ بنے…اور کون سا وہ معاشرہ ہے ؟جس میں دستور ِقرآن رائج توہو مگر وہ امن وآشتی اور سکون وراحت کا گہوارہ نہ ہو…بلکہ جس کا تعلق قرآن سے مستحکم ہوجاتاہے ،قرآن کریم میں وہ جملہ اوصاف وکمالات اور فضائل ومحاسن موجود ہیں کہ اسے گوہر مقصودحاصل ہوجاتاہے۔ (تفسیرمظہری (مترجم)،التقدیم،ج۱،ص۲۱) (نوٹ:یہ مضمون علامہ نوربخش توکلی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مشہور تصنیف ’’سیرت رسول عربی ‘‘کی روشنی ورہنمائی میں تحریرکیا گیاہے) محمد آصف اقبال مدنی
  13. کسی بھی موضوع کو آسانی سے سمجھنے کا ایک طریقہ معروضی ہوتا ہے، جو تحقیقی دنیا میں بھی بہت مشہور و مقبول ہے، یعنی موضوع کو سمجھنے کے لئے کچھ سوالات قائم کئے جاتے ہیں اور ان کے جوابات سے موضوع کو سمجھاجاتا ہے۔ ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کوسمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھی ہم اس تحریر میں معروضی انداز اختیار کریں گے۔ چنانچہ… 1… ’’عقیدہ‘‘ کیا ہے؟ 2… ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ 3… شریعت مطہرہ میں عقیدہ ’’کس طرح ثابت ہوتا ہے؟‘‘ 4… ایمان و کفر کی تعریف کیا ہے؟ 5… کامل ایمان والا کون ہے؟ 6… کفر اور کافر کی اقسام کتنی اور کون کون سی ہیں؟ نیز ان کے احکام کیا ہیں؟ 7 سب سے اہم یہ کہ ’’ضروریات دین‘‘ سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ وغیرہ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہر مسلمان کو جاننا ضروری ہے۔ آنے والی سطور میں ان کے جوابات کو آسان انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ عام مسلمانوں کے لئے نفع کا باعث ہو اور راقم کے لئے آخرت میں زاد راہ ہوسکے۔ عقیدے کی تعریف عقیدہ عربی زبان کے لفظ ’’عقد‘‘ سے بنا ہے جس کا لغوی معنی ’’کسی چیز کو باندھنا‘‘ یا ’’گرہ لگانا‘‘ ہے، اس کی جمع ’’عقائد‘‘ آتی ہے۔ شریعت مطہرہ میں ’’عقیدہ‘‘ سے مراد ’’وہ دلی بھروسہ اور اعتبار ہے جو کسی امر یا شخص کو درست وحق سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے‘‘ آسان الفاظ میں عقیدہ سے مراد ’’ان دینی اصولوں پرپختہ یقین اور اعتقاد کرنا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے‘‘ ختم نبوت کی تعریف ’’ختم‘‘ کا معنی ہے اختتام اور مہر (Seal) یعنی کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اس کے بعد نہ باہر سے کوئی چیز اندر جاسکے اور نہ اندر سے کچھ باہر نکالا جاسکے۔ ’’نبوت‘‘ کا معنی ہے نبی ہونا، لہذا ’’ختم نبوت‘‘ کا معنی ہوگا نبوت کا اختتام، سلسلہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کا رک جانا، ختم ہوجانا۔ عقیدہ ختم نبوت شریعت مطہرہ میں ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ سے مراد ہے: یہ اعتقاد اور یقین رکھنا کہ محمد رسول اﷲﷺ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل ہوچکا ہے، اب قیامت تک کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہیں رہی۔ عقیدہ کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ جس طرح فقہ کے اصول یا ماخذ چار ہیں کہ جن سے کوئی فقہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح عقائد کے اصول یا ماخذ بھی چار ہیں، جن سے کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے یہ سب اصول و ماخذ مندرجہ ذیل ہیں۔ اصول فقہ اصول عقائد قرآن قرآن سنت سنت اجماع سواداعظم قیاس عقل صحیح اصول عقائد کی وضاحت 1۔ قرآن: یعنی: اﷲ تعالیٰ کا کلام جو رسول اﷲﷺ پر نازل کیا گیا، رہا گزشتہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شریعتوں کا تعلق تو وہ قرآن کریم کے تابع ہیں۔ 2۔ سنت: یعنی: مصطفی کریمﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات (وہ بات یا کام جو کسی نے رسول اﷲﷺ کی موجودگی میں کیا ہو مگر آپ علیہ السلام نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے سکوت فرمایا۔ گویا یہ سکوت فرمانا ہی ’’اذن‘‘ ہے کیونکہ اگر وہ بات یا کام خلاف شرع ہوتا تو آپﷺ ضرور منع فرماتے) ’’سنت‘‘میں داخل ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اقوال، سنت کے تابع ہیں (حاشیہ طحطاوی علی الدر، خطبہ کتاب، ج 1،ص 25) 3۔ سواداعظم: اس سے مراد لوگوں کی بڑی جماعت ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’سواداعظم‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں؟ اس سے مراد ’’اہل سنت‘‘ ہیں۔ 4۔ عقل صحیح: یعنی: عقل سلیم۔ اصول عقائد کا ثبوت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مذکورہ ’’اصول عقائد‘‘ کا کسی معتبر عالم دین نے ذکر بھی کیا ہے یا یہ تقسیم بلا دلیل ہے؟ چنانچہ مولانا احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر کرتے ہیں: ’’جس طرح فقہ میں چار اصول ہیں۔ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس، اسی طرح عقائد میں بھی چار اصول ہیں: کتاب، سنت، سواداعظم اور عقل صحیح۔ جو کوئی عقائد سے متعلق کسی مسئلہ کو ان چار اصولوں کے ذریعہ جانتا ہے تو گویا اس مسئلہ کو دلیل سے جانتا ہے۔ نہ کہ بے دلیل محض کسی دوسرے کی تقلید کے ذریعے۔ اسلام میں سواداعظم ’’اہل سنت‘‘ ہی ہیں لہذا ان کا حوالہ دینا بھی دراصل دلیل کا حوالہ دینا ہے نہ کہ کسی کی تقلید کرنا۔ یوں ہی آئمہ کرام کے اقوال سے استدلال و استناد کا یہی معنی ہے کہ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، لہذا ایک دو نہیں بلکہ دس بیس اکابر علماء ہی سہی اگر وہ ’’جمہور علمائے کرام اور سواداعظم‘‘ کے خلاف لکھیں گے، تو اس وقت ان کے اقوال پر نہ اعتماد جائز ہے نہ استدلال و استناد، کیونکہ اب یہ استدلال واستناد کرنا ’’تقلید‘‘ ہے اور تقلید عقائد میں جائز نہیں۔ اس دلیل شرعی یعنی سواداعظم کی جانب رشد و ہدایت کاہونا، اﷲ و رسول جل و علاء و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کمال رحمت ہے، کیونکہ ہر شخص میں یہ قدرت کہاں ہے کہ وہ عقیدہ کو کتاب و سنت سے ثابت کرے۔ رہا معاملہ عقل کا، تو یہ خود ہی سمعیات (یعنی سنے جانے والے امور) میں کافی نہیں، لہذا ناچار عوام کو عقائد میں تقلید کرنے کی ضرورت پڑتی اور عقائد میں تقلید جائز نہیں، لہذا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیینﷺ نے مسلمانوں کو یہ واضح روشن دلیل عطا فرمائی کہ سواداعظم مسلمین جس عقیدہ پر ہو، وہ حق ہے، اس کی پہچان کچھ دشوار نہیں‘‘ کیا زمانہ صحابہ کرام میں بھی ’’سواداعظم‘‘ تھا؟ رہا یہ سوال کہ کیا یہ ’’سواداعظم‘‘ زمانہ صحابہ میں بھی تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے وقت میں تو کوئی بدمذہب تھا ہی نہیں اور بعد کو اگرچہ پیدا ہوئے مگر دنیا بھر کے سب مذہب ملاکر کبھی اہل سنت کی گنتی کو نہیں پہنچ سکے۔ وﷲ الحمد۔ فقہ میں جس طرح ’’اجماع‘‘ ایک بڑی قوی دلیل ہے کہ اس سے اختلاف کا اختیار مجتہد کو بھی نہیں، اگرچہ وہ اپنی رائے میں کتاب و سنت سے اس کا خلاف پاتا ہو، یقینا یہ سمجھا جائے گا کہ اس مجتہد کے یا تو فہم کی خطا ہے یا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور مجتہد کو اس کا ناسخ معلوم نہیں، یونہی اجماع اُمّت تو ایک عظیم شے ہے۔ سواداعظم کے خلاف کوئی عقیدہ قابل قبول نہیں سواداعظم یعنی اہل سنت کا عقائد کے کسی مسئلہ پر اتفاق بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے، لہذا اگر بالفرض کسی کو کتاب و سنت سے اس کا برخلاف کچھ سمجھ میں آئے تو فہم کی غلطی تصور ہوگا، کیونکہ حق سواداعظم کے ساتھ ہے۔ رہی عقل تو ایک معنی پر یہاں عقل بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے، وہ اس طرح کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی عقل صحیح سے ظاہر ہوئی ہے۔ یہ محال (ناممکن) ہے کہ سواداعظم کا اتفاق کسی ایسی دلیل پر ہو جو عقل صحیح کے خلاف ہو۔ یہ گنتی کے جملے یں مگر بحمدہ تعالیٰ بہت نافع و سودمند۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 29، ص 214) فعضوا علیہا بالنواجذ واﷲ تعالیٰ اعلم (یعنی انہیں مضبوطی سے تھام لو) ایمان و کفر کی تعریف ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کے دلائل ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ایمان اور کفر کی تعریف بیان کردی جائے۔ ان الایمان فی الشرع ہو التصدیق بما جاء بہ الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم من عنداﷲ ای : تصدیق النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ماعلم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عنداﷲ تعالیٰ اجمالا (دیکھے شرح ’’عقائد نسفی‘‘ مع ’’نبراس ’’مکتبہ حقانیہ، محلہ جنگی پشاور، ص 392) یعنی: محمد رسول اﷲﷺ کو ہر بات میں سچا جاننا، حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا ’’ایمان‘‘ ہے اور جو اس کا اقرار کرے وہ ’’مسلمان‘‘ ہے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیینﷺ کا انکار یا تکذیب یا توہین نہ پائی جائے (ملخصاً از ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ج 29،ص 254) یا اسے یوں سمجھ لیں کہ ’’سید العالمین محمدﷺ جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے، ان سب میں ان کی تصدیق کرنا اور سچے دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ’’ایمان‘‘ ہے اور ان میں کسی بات کا جھٹلانا اور اس میں ذرہ برابر شک لانا ’’کفر‘‘ ہے (معاذ اﷲ) کامل ایمان اس مسلمان کا ایمان کامل ہوگا جس کے دل میں اﷲ و رسول جل وعلا وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا علاقہ تمام علاقوں پر غالب ہو۔ اﷲ و رسول کے محبوں سے محبت رکھے، اگرچہ اپنے دشمن ہوں اور اﷲ و رسول کے مخالفوں و بدگویوں سے عداوت رکھے اگرچہ اپنے جگر کے ٹکڑے ہوں، جو کچھ دے اﷲ کے لئے دے جو کچھ روکے، اﷲ کے لئے روکے۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: ومن احب ﷲ وابغض ﷲ واعطی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الایمان (ملخصاً از ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ج 29، ص 254) کفر کی اقسام پھر یہ ’’انکار‘‘ جس سے اﷲ تعالی ہم سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے، دو طرح ہوتا ہے۔ 1… التزامی اور 2… لزومی 1۔ التزامی یہ کہ ضروریات دین سے کسی شے کا تصریحاً خلاف کرے، یہ قطعاً اجماعاً کفر ہے۔ اگرچہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعویٰ کرے… جیسے نیچری فرقے کا فرشتوں، جن، شیطان، جنت و جہنم اور معجزات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کے ان معانی کا انکار کرنا اور ان معانی میں اپنی باطل تاویلات کرنا، جو معانی مسلمانوں کو نبی اکرمﷺ سے تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں۔ 2۔لُزومی یہ کہ جو بات اس نے کہی، عین کفر نہیں مگر منجر بکفر (کفر کی طرف لے جانے والی) ہوتی ہے یعنی مآل سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات و تتمیم تقریبات کرتے لے چلئے تو انجام کار اس سے کسی ضرورت دینی کا انکار لازم آئے، جیسے روافض کا خلافت حقہ راشدہ خلیفہ رسول اﷲﷺ حضرت جناب صدیق اکبر و امیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے انکار کرنا وغیرہ۔ اس قسم کے کفر میں علماء اہلسنت مختلف ہوگئے جنہوں نے مآل مقال و لازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں، بدعت و بدمذہبی و ضلالت و گمراہی ہے۔ والعیاذ باﷲ رب العالمین کافروں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟ کفر کی طرح کافر بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ 1۔ اصلی 2۔ مرتد 1۔ اصلی: وہ کہ شروع سے کافر اور کلمہ اسلام کا منکر ہے۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں۔ 1…مجاہر اور 2… منافق 1۔ مجاہر وہ کہ علی الاعلان کلمہ کا منکر ہو، جیسے دہریہ، مشرک اور مجوسی۔ ان کی عورتوں سے نکاہ باطل اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور مردار ہے۔ رہے اہل کتاب یعنی یہودونصاریٰ تو ان کی عورتوں سے نکاح ممنوع و گناہ ہے۔ اور (2) منافق وہ کہ بظاہر کلمہ پڑھتا اور دل میں اس کا انکار کرتا ہو، آخرت کے اعتبار سے یہ قسم سب اقسام سے بدتر قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ان المنٰفقین فی الدرک الاسفل من النار (سورۂ نسائ، 145/4) ترجمہ: بے شک منافقین سب سے نیچے طبقہ دوزخ میں ہیں۔ 2۔ مرتد: وہ کہ کلمہ گو ہو کر کفرے کرے اس کی بھی دو قسم ہیں۔ 1۔ مجاہر اور 2۔ منافق 1۔ مرتد مجاہر: وہ کہ پہلے مسلمان تھا پھر علانیہ اسلام سے پھر گیا، کلمۂ اسلام کا منکر ہوگیا۔ چاہے دہریہ ہوجائے یا مشرک یا مجوسی یا کتابی کچھ بھی ہو۔ 2۔ مرتد منافق: وہ کہ کلمہ اسلام اب بھی پڑھتا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے پھر بھی اﷲ عزوجل یا رسول اﷲﷺ یا کسی نبی کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین میں سے کسی شے کا منکر ہے۔ ان کے احکام حکم دنیا میں سب سے بدتر مرتد ہے، اس کا نکاح کسی مسلم، مرتد اس کے ہم مذہب یا مخالف مذہب، غرض کسی سے نہیں ہوسکتا۔ مرتد مرد ہو خواہ عورت، ان میں سب سے بدتر مرتد منافق ہے۔ یہی وہ ہے کہ اس کی صحبت زیادہ نقصان دہ ہے کہ یہ مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے، خصوصا آج کل کے بدمذہب کہ اپنے آپ کو خاص اہلسنت کہتے ہیں، نماز روزہ ہمارا سا ادا کرتے ہیں، ہماری کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس رسول معظمﷺ کو گالیاں دیتے ہیں، یہ سب سے بدتر زہر قاتل ہیں، ہوشیار خبردار! مسلمانو! اپنا دین بچائو ان سے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 329-327) ضروریات دین سے کیا مراد ہے؟ اقسام کفر و کافر میں ’’ضروریات دین‘‘ کا ذکر آیا ہے لہذا اسے بھی سمجھ لیجئے۔ ’’ضروریات دین‘‘ سے مراد وہ دینی مسائل ہیں جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں۔ مثلا اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت، رسول اﷲ کی ختم نبوت، آخرت، نماز اور روزہ وغیرہ۔ ’’عوام‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کرام کی صحبت سے فیض یاب ہوں۔ ’’عوام‘‘ سے مراد وہ لوگ نہیں جو دینی مسائل خصوصا ضروریات دین سے ناواقف و غافل ہیں، مثلا بہت سے گائوں دیہاتوں میں رہنے والے جاہل خصوصا برصغیر اور مشرق وغیرہ میں رہنے والے ایسے ہیں جو بہت سے ضروریات دین کے مسائل سے ناواقف اور غافل ہیں۔ ان کی ناواقفیت اور غفلت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ یہ ضروریات دین کے منکر ہیں، غافل ہونے اور انکار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 1،ص 243-239) تنبیہ ضروری مسلمانو! دین میں اصل مدار ’’ضروریات دین‘‘ ہیں اور ’’ضروریات‘‘ اپنے ذاتی روشن بدیہی ثبوت کے سبب مطلقاً ہر ثبوت سے غنی ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر بالخصوص ان پر کوئی نص قطعی اصلاً نہ بھی ہو، جب بھی ان کا وہی حکم رہے گا کہ منکر یقینا کافر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ضروریات دین میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ جیسے نیچریہ نے آسمان کو بلندی، جبرئیل و ملائکہ کو قوت خیر، ابلیس وشیاطین کو قوت بدی، حشر ونشر و جنت و نار کو محض روحانی نہ جسدی بنالیا۔ غلام احمد قادیانی نے ’’خاتم النبیین‘‘ کو ’’افضل المرسلین‘‘ گھڑ لیا اور ایک دوسرے شقی نے ’’خاتم النبیین‘‘ کو ’’نبی بالذات‘‘ سے بدل دیا، ایسی تاویلیں سن لی جائیں تو اسلام و ایمان قطعاً درہم برہم ہوجائیں گے۔ اگریہ باطل تاویلیں درست مان لی جائیں تو بت پرست ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کی تاویل یوں کرلیں گے کہ یہ ’’افضل واعلیٰ‘‘ سے مخصوص ہے یعنی ’’خدا‘‘ کے برابر دوسرے خدا بھی ہیں، مگر وہ ’’خدا‘‘ سب دوسروں سے بڑھ کر خدا ہے۔ یہ معنی نہیں کہ دوسرا خدا ہی نہیں اور اس کی دلیل عرب کا یہ محاورہ ہے کہ لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار (یعنی علی کرم اﷲ وجہ جیسا کوئی بہادر جوان نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں) نعوذ باﷲ من ذلک تو کیا اس بت پرست کی یہ باطل تاویل سنی جائے گی؟ یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ بہت سے گمراہ و بے دین مدعیان اسلام کے مکروہ اوہام سے نجات و شفا ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 266) ایک شبہ کا ازالہ اگر بظاہر اکابرین امت میں سے کسی امام، مفسر، محدث، فقیہ یا مفتی وغیرہ کی کوئی بات خلاف شرع معلوم ہوتی ہو، یا اس کا موقف سواداعظم کے خلاف جاتا ہوا نظر آئے تو ایسے میں ہم کیا کریں۔ کس کی بات مانیں اور کس کا ساتھ دیں؟ اس سلسلے میں صحیح اور معتدل قول یہ ہے کہ ’’انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کے سوا کوئی انسان معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بے جا صادر ہونا کچھ نادر کالعدم نہیں، پھر سلف صالحین و آئمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے کہ کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الا صاحب ہذا القبرﷺ (یعنی رسول اﷲﷺ جو اس روضہ پاک میں آرام فرما ہیں، ان کے سوا ہر شخص کا قول لیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے‘‘ یہ قول سیدنا امام مالک بن انس علیہ الرحمہ نے حضور خاتم النبین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی قبر انور کے پاس ارشاد فرمایا تھا) لہذا جس کی جو بات خلاف اہل حق و جمہور دیکھی، وہ اسی پر چھوڑی اور اعتقاد وہی رکھا جو جماعت یعنی سواداعظم کا ہے کہ حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے: یداﷲ علی الجماعۃ اور فرمایا اتبعوا السواد الاعظم (یعنی اﷲ تعالیٰ کی حمایت جماعت کے ساتھ ہے اور فرمایا سواد اعظم کی پیروی کرو) (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 466-465) عقیدہ ختم نبوت پر کیسا ایمان ہونا چاہئے؟ مسلمانوں پر جس طرح لاالہ الا اﷲ ماننا، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کو احد صمد لاشریک لہ جاننا فرض اول و مناط ایمان ہے، یونہی محمد رسول اﷲﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ ماننا، ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت کو یقینی طور پر محال و باطل جاننا اہم فرض اور جزء ایقان ہے (ولکن رسول اﷲ و خاتم النبیین) (ترجمہ: ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبییوں کے پچھلے) (الاحزاب: 40/33) نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر تو منکر بلکہ شبہ کرنے والا، بلکہ اس میں شک کرنے والا کہ ادنیٰ ضعیف احتمال کی وجہ سے اس کا خلاف کرنے والا ہو، قطعاً اجماعاً کافر ملعون ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والا ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو ایسے شخص کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہوکر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، بلکہ جو ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک و تردد کو راہ دے، وہ بھی واضح طور پر کافر ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 630) عقیدہ ختم نبوت اور قرآن کریم عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم میں بے شمار صریح آیات ہیں، ان میں سے چند حصول برکت کے لئے ذکر کی جاتی ہیں۔ الحمدﷲ مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اﷲ عزوجل نے ایسا فرمایا ہے اور اس چیز کا حکم دیا ہے یا اس کے محبوب خاتم النبیینﷺ نے یہ بات یوں ارشاد فرمائی ہے یااپنے غلاموںکو یہ حکم دیا ہے، پھر وہ مسلمان مرد ہو یا خواہ عورت، کسی قسم کا تامل کئے بغیر اسے قبول کرلیتے ہیں، اس حکم کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور مصروف عمل ہوجاتے ہیں، چاہے انہیں اس کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم، ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلٰلاً مبیناً (الاحزاب: 36/33) ترجمہ: اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اﷲ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اﷲ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی بہکا‘‘ اور فرماتا ہے: ما اٰتٰکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہو واتقوا اﷲ ان اﷲ شدید العقاب (الحشر: 7/59) ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، باز رہو اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ کا عذاب سخت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ذیل میں صرف چار آیات پر اکتفا کیاجاتا ہے: قل یآایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السمٰوٰت والارض، لا الہ الا ہو یحی و یمیت فاٰمنو باﷲ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باﷲ وکلمٰتہ واتبعوہ لعلکم تہتدون (سورۂ اعراف: 158/7) ترجمہ: تم فرمائو: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اﷲ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لائو اﷲ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اﷲ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پائو۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’یہ آیت سید عالمﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام خلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت: بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں‘‘ انہیں میں فرمایا: ’’ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا… اور میں تمام خلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے‘‘ ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین (سورۂ انبیائ: 107/21) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے۔ ’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت مطلقہ تامہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ بہ جمیع مقیدات، رحمت غیبیہ و شہادت علمیہ و عینیہ ووجودیہ و شہودیہ و سابقہ ولاحقہ وغیر ذلک تمام جہانوں کے لئے عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہو، لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو‘‘ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیماً (الاحزاب: 40/33) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اﷲ سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’یعنی آخر الانبیاء ہیں کہ نبوت آپ پر ختم ہوگئی۔ آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نمازپڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے۔ نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث توحد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضورﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے‘‘ وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیراً و نذیراً و لٰکن اکثر الناس لایعلمون (سورۂ سبا: 28/34) ترجمہ: اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے، خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔ خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت ہے: ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالمﷺ کی رسالت عامہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں۔ گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لئے آپ ’’رسول‘‘ ہیں اور وہ سب آپ کے ’’امتی‘‘۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔ سید عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئی… یہاں تک کہ فرمایا ’’اور انبیاء خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا‘‘ عقیدہ ختم نبوت اورسنت مولانا احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ نے صرف ایک رسالہ میں ’’ختم نبوت‘‘ کے بارے میںایک سوبیس احادیث، اکہتر صحابہ کرام اور گیارہ تابعین عظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے مروی نقل کی ہیں۔ اتنے راویان حدیث کی تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، کسی متواتر چیز کا انکار کرنا اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ من جملہ ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ بھی انہی احکام سے ہے، جس کا ثبوت تواتر سے ہے۔ اس حدیث کے راویان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔ تابعین کرام کے اسماء 1۔ امام اجل محمد باقر 2۔ سعد بن ثابت 3۔ ابن شہاب زہری 4۔ عامر شعبی 5۔ عبداﷲ بن ابی الہذیل 6۔ علاء بن زیاد 7۔ ابو قلابہ 8۔ کعب احبار 9۔ مجاہد مکی 10۔ محمد بن کعب قرظی 11۔ وہب بن منبہ رحمہم اﷲ اجمعین صحابہ کرام کے اسماء 12۔ ابی بن کعب 13۔ ابو امامہ باہلی 14۔ انس بن مالک 15۔ اسماء بنت عمیس 16۔ براء بن عازب 17۔ بلال مؤذن 18۔ ثوبان مولیٰ رسول اﷲﷺ 19۔ جابر بن سمرہ 20۔ جابر بن عبداﷲ 21۔ جبیر بن معطم 22۔ حبیش بن جناوہ 23۔ حذیفہ بن اسید 24۔ حذیفہ بن الیمان 25۔ حسان بن ثابت 26۔ حویصہ بن مسعود 27۔ ابوذر 28۔ ابن زمل 29۔ زیاد بن لبید 30۔ زید بن ارقم 31۔ زیدبن ابی اوفٰی 32۔ سعد بن ابی وقاص 33۔ سعید بن زید 34۔ ابو سعید خدری 35۔ سلمان فارسی 36۔ ابو الطفیل عامر بن ربیعہ 37۔ ام المومنین ام سلمہ 38۔ سہل بن سعد 39۔ عامر بن ربیعہ 40۔ عبداﷲ بن عباس 41۔ عبداﷲ بن عمر 42۔ عبدالرحمن بن غنم 43۔ عدی بن ربیعہ 44۔ عرباض بن ساریہ 45۔ عصمہ بن مالک 46۔ عقبہ بن عامر 47۔ عقیل بن ابی طالب 48۔ امیرالمومنین علی 49۔ امیر المومنین عمر 50۔ عوف بن مالک اشجعی 51۔ ام المومنین صدیقہ 52۔ ام کرز 53۔ مالک بن حویرث 54۔ محمد بن عدی بن ربیعہ 55۔ مالک بن سنان والد ابی سعید خدری 56۔ معاذ بن جبل 57۔ امیر معاویہ 58۔ مغیرہ بن شعبہ 59۔ ابن ام مکتوم 60۔ ابو منظور 61۔ ابو موسیٰ اشعری 62۔ ابو ہریرہ 63۔ حاطب بن ابی بلتعہ 64۔ عبداﷲ ابن ابی اوفٰی 65۔ عبداﷲ بن زبیر 66۔ عبداﷲ بن سلام 67۔ عبادہ بن صامت 68۔ ہشام بن عاص 69۔ عبید بن عمر ولیثی 70۔نعیم بن مسعود 71۔ عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین مقام غور مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین دین اسلام کو ہم سے زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے والے تھے ’’ختم نبوت‘‘ کے بارے میں ان کا اجماع بھی انہی معنوں پر ہوا کہ ’’آپﷺ کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا‘‘ اور یہ تواتر سے مروی بھی ہے تو یقینا آج یا آج کے بعد کسی بھی دور میں اگر کوئی ان معانی کے خلاف بتائے، وہ آپ اپنا سر کھائے اور جہنم میں جائے۔ اہل ایمان کو اس کی کسی بات پر ہرگز کان نہیں دھرنا، اگرچہ ظاہر میں قرآن و حدیث ہی پیش کرے۔ من جملہ اس باب میں مروی احادیث شریفہ سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ صحیح مسلم شریف و مسند امام احمد و سنن ابو دائود و جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ وغیرہا میں ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی (جامع ترمذی، ابواب الفتن، باب ماجاء لاتقوم الساعۃ حتیٰ یخرج کذابون ، امین کمپنی دہلی، 45/2) ترجمہ: بے شک میری امت دعوت میں یا میری امت کے زمانے میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ 2۔ امام احمد ’’مسند‘‘ اور طبرانی ’’معجم کبیر‘‘ اور ضیائے مقدسی ’’صحیح مختارہ‘‘ میں حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے راوی رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: یکون فی امتی کذابون ودجالون سبعۃ و عشرون منہم اربعۃ نسوۃ وانی خاتم النبیین لا نبی بعدی (المعجم الکبیر للطرانی، ترجمہ حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حدیث 3026، مکتبہ فیصیلہ بیروت، 170/3) ترجمہ: میری امت دعوت میں ستائیس دجال کذاب ہوں گے۔ ان میں چار عورتیں ہوں گے حالانکہ بے شک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ مذکورہ احادیث میں نئے ’’نبی‘‘ کی نفی کی گئی ہے۔ رسول کی نہیں، تو کیا نیا ’’رسول‘‘ آسکتا ہے؟ جواب آنے والی حدیث میں ہے۔ 3۔ احمد وترمذی و حاکم بسند صحیح بر شرط صحیح مسلم حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی (جامع الترمذی، ابواب الرؤیا، باب ذہبت النبوۃ الخ، امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی، 51/2) ترجمہ: بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔ 4۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ترمذی و تفسیر ابن حاتم و تفسیر ابن مردویہ میں جابر رضی اﷲ عنہ سے ہے رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں۔ مثلی و مثل الانبیاء کمثل رجل ابنتی داراً فاکملہا واحسنہا الا موضع لبنۃ فکان من دخلہا فنظر الیہا قال، مااحسنہا الا موضع اللبنۃ فانا موضع اللبنۃ فختم بی الانبیاء (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، قدیمی کتب خانہ کراچی، 248/2) ترجمہ: میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا مگر ایک اینٹکی جگہ خالی تھی تو جو اس گھر میں جاکر دیکھتا، کہتا یہ مکان کس قدر خوب ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوا مجھ سے انبیاء ختم کردیئے گئے۔ 5۔ مسند احمد و صحیح ترمذی میں باوفادہ تصحیح ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں۔ مثلی فی النبیین کمثل رجل بنی داراً فاحسنہا واکملہا واجملہا وترک فیہا موضع لبنۃ لم یضعہا فجعل الناس یطوفون بالبنیان ویعجبون منہ ویقولون لو تم موضع ہذہ اللبنۃ فانا فی النبیین موضع تلک اللبنۃ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، آفتاب عالم پریس لاہور، 301/2) ترجمہ: پیغمبروں میں میری مثال ایسی ہے کہ کسی نے ایک مکان خوبصورت و کامل و خوشنمابنایا اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی وہ نہ رکھی، لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبیو خوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کسی طرح اس اینٹ کی جگہ پوری ہوجاتی تو انبیاء میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں‘‘ حضور غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ الرحمہ کا عجیب استدلال غزالی زماں کے ایک مناظرے کی روداد خود غزالی زماں کی زبانی نقل کرتے ہوئے مولانا مفتی ابراہیم القادری بیان کرتے ہیں کہ غزالی زماں نے قادیانیوں کے خلاف اپنی خدمات کے ضمن میں ایک واقعہ ارشاد فرمایا کہ میں کم سن تھا۔ ابھی میری داڑھی نہیں تھی کہ میں قادیان گیا اور قادیانی علماء سے مناظرہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے: رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میری اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے مکان بنایا ’’فاکملہا‘‘ اس نے اسے مکمل کیا اور حسین بنایا مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کے حسن تعبیر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش! یہ اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں ہی وہ اینٹ ہوں‘‘ میں نے قادیانی علماء سے پوچھا کہ نبوت کی عمارت میں فقط ایک اینٹ کی گنجائش تھی جسے حضورﷺ نے پورا کردیا۔ اب تم بتائو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کہاں ڈالو گے؟ وہ سب خاموش ہوگئے اور سوچ میں پڑ گئے۔ پھر ان میں سے ایک بولا: عزیز بات یہ ہے کہ جب عمارت بنائی جاتی ہے تو اس کا پلستر کیاجاتا ہے، ہم مرزا کا پلستر کردیں گے۔ میں نے کہا : تم مرزا صاحب کا پلستر بھی نہیں کرسکتے۔ سرکارﷺ نے فرمایا ’’فاکملہا‘‘ بنانے والے نے عمارت کو مکمل کردیا اور پلستر کے بغیر عمارت مکمل نہیں ہوسکتی۔ پھر ایک اور نے ہمت کی اور وہ کہنے لگا کہ دیکھیں عزیز ٹھیک ہے کہ پلستر کے بغیر عمارت مکمل نہیں ہوتی مگر عمارت کا رنگ و روغن بھی کیا جاتا ہے۔ ہم مرزا صاحب کا رنگ وروغن کردیں گے۔ میں نے کہا کہ تم مرزا صاحب کا رنگ و روغن بھی نہیں کرسکتے۔ میرے آقاﷺ نے فرمایا ’’فاحسنہا‘‘ بنانے والے نے عمارت کو حسین و جمیل بنایا اور عمارت کا حسن رنگ وروغن ہے۔ اس واقعہ کے بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ میرے استدلال نے ان کی زبانوں کو بند کردیا اوروہ لاجواب ہوگئے اور کوئی بات نہ کرسکے۔ عقیدہ ختم نبوت اور سواداعظم الحمدﷲ گزشتہ صفحات میں گزرا کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین رضی اﷲ عنہم کا ختم نبوت پر اجماع تھا۔ اسی طرح تبع تابعین اور ان کے بعد سے لے کر آج تک امت مرحومہ کا یہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اور عقل صحیح گزشتہ سطور میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین سے ہے، جس کے لئے دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اہل ایمان کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ عقیدہ ضروریات دین سے ہے اور بس۔ یہاں عقلی دلائل ذکر کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ عقیدہ ختم نبوت کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل نہیں ہیں یا کمزور ہیں۔ اسی لئے عقل کا سہارا لیا جارہا ہے بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن، سنت اور سواد اعظم سے ثابت ہے، اسی طرح عقل صحیح بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپﷺ کے دنیا میں مبعوث ہوجانے کے بعد رہتی دنیا تک کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہ ہو۔ کیسے؟ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات جن میں حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا گیا ،وہ چار قسم کے تھے: پہلی قسم: کسی قوم میں نہ تو کوئی نبی مبعوث کیا گیا ہو اور نہ کسی نبی کی تعلیم ان لوگوں تک پہنچی ہو۔ دوسری قسم: کسی گروہ انسانی تک نبی تو بھیجا گیا لیکن اس کی لائی ہوئی شریعت میں تحریف ہوگئی اور نیا نبی نئی شریعت لے کر تشریف لایا ہو۔ جیسے بنی اسرائیل نے شریعت موسوی میں تحریف کردی تھی، تو حضرت عیسٰی روح اﷲ علیہ السلام نئی شریعت لے کر ان میں تشریف لائے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ من الذین ہادو یحرفون الکلم عن مواضعہ ویقولون سمعنا وعصینا واسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتہم وطعناً فی الدین (سورۂ نسآئ: 46-44/4) ترجمہ: کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اورکہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنئے آپ سنائے نہ جائیں اور ’’راعنا‘‘ کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اور دین میں طعنہ کے لئے۔ تیسری قسم: گزشتہ نبی کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی نہ تھیں تو پچھلی شریعت کی تکمیل کے لئے نیا نبی مبعوث کیا گیا۔ چوتھی قسم: کبھی ایک نبی کی زندگی ہی میں ان کی ذمہ داریوں میں ہاتھ ہٹانے کے لئے دوسرا نبی بھیجا گیا۔ مثلا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اب اگر ان حالات پر غور کریں کہ آج ان حالات میں سے کون سی حالت پائی جاتی ہے؟ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ الحمدﷲ آج مذکورہ حالات میں سے کوئی حالت نہیں پائی جاتی۔ 1۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کا پیغام کرۂ ارض کے گوشے گوشے میں پہنچ چکا ہے۔ 2۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لائی ہوئی شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس میں حیات انسانی کے کسی شعبہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ 3 آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم آج بھی بحمدﷲ تعالیٰ اسی طرح صحیح سلامت بغیر کسی کمی بیشی کے ہمارے پاس ہے، جس طرح نبی اکرمﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ تقریبا دو ہزار گیارہ سال کا عرصہ گزرا لیکن انجیل کے کسی ایک متن پر اتفاق نہ ہوسکا جبکہ مسلمانوں کے اگرچہ کئی فرقے ہوئے جن میں اختلاف بھی رہا لیکن قرآن کریم پر سب کا ایمان ایک ہی رہا۔ اس میں حروف تو کیا زیر و زبر کی تبدیلی بھی نہ آئی، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قیامت تک کے لئے یہی ایک کتاب ہدایت ہے، اور کیونکر نہ ہو کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے خود لیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون (سورۂ حجر: 15/9) ترجمہ: بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں 4۔ چوتھا نکتہ باقی رہتا ہے کہ اس پر تفصیل سے بحث کی جائے۔ یعنی کسی مددگار نبی کی ضرورت۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ہستی کو آپﷺ کی اعانت کے لئے نبی بنایا جانا ضروری تھا تو وہ آپﷺ کی زندگی میں بنایا جاتا، کیونکہ اسلام کے ابتدائی دور میں کفار و مشرکین نے طرح طرح کے مظالم کئے جس کی وجہ سے نبی کریمﷺ کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ اٹھانا پڑے۔ جب اس دور میں آپﷺ کی حیات مبارکہ میں کسی نبی کو آپﷺ کی مدد کے لئے ضروری نہیں سمجھا گیا تو پھر آج کے دور میں جبکہ اسلام آج غلبہ پاچکا ہے اور کرۂ ارض کے کونے کونے میں رسول اﷲﷺ کا پیغام امن وسلامتی پہنچ چکا ہے، کسی بھی نبی کی بعثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں بعض حضرات یہ دلیل دیتے ہیںکہ حالات بگڑ چکے ہیں، بداخلاقیاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، گناہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ غیر شرعی باتیں تیزی سے رواج پکڑتی جارہی ہیں، تو کیا ماحول ایک نئے نبی کی بعثت کا تقاضا نہیں کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ حالات کی درستگی اور اصلاح کے لئے کبھی نبی نہ آئے بلکہ مصلحین تشریف لائے، جنہوں نے معاشرے کو فساد اور بگاڑ سے پاک کیا، لوگوں کو حق پر عمل کرنے کے لئے آمادہ کیا، شریعت کو اپنانے کی رغبت دلائی۔ لہذا اب بھی ایسے مصلحین کی ضرورت ہے اور رہے گی جن کی شخصیت میں قول وعمل کی موافقت ہو اور حسن قول کے ساتھ ساتھ حسن عمل بھی ہو تا تاکہ لوگوں کو رسول اﷲﷺ کا پیغام ایک عملی کردار کے پیکر کی صورت میں دکھا سکیں، نیز لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مصلحین نیکی کا حکم تو کرتے ہیں مگر اس پر خود عمل نہیں کرتے۔ الحمدﷲ آج ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ علماء و مشائخ اہلسنت تبلیغ دین و اصلاح امت کا کام بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں، کوئی تحریر و تصنیف اور تالیف کے ذریعے تو کوئی تقریر، وعظ و نصیحت کے ذریعے۔ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
  14. Salam, Tawajju Dilane ka buhat shukria, link ko thek kardia gya hai. جزاک اللہ
  15. Salam, Kal Alhamdulilah Owais Raza Qadri Sahab Ne Tv-One Channel par kafi zabardast programme kia usme parhi gaien naat sunne ke lie neche click karen....
  16. Madni.Sms

    تراویح کی فضیلت و اہمیت

    تراویح کے معنی تراویح جمع ہے ترویحہ کی، جس کے معنی ہیں، دیر کرنا، خوشبودار کرنا… اور تراویح کو تراویح اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں ہر چار رکعت کے بعد دیر کرنا مستحب ہے، جس کو ترویحہ کہتے ہیں چنانچہ حدیث میں ہے۔ عن سعید بن عبید ان علی بن ربیعہ کان یصلی بہم فی رمضان خمس ترویحات ویوتر بثلاک (اخرجہ ابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ و اسنادہ صحیح) یعنی سعید بن عبید سے مروی ہے کہ علی بی ربیعہ انہیں پانچ تراویح یعنی بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ تراویح سنت موکدہ ہے تراویح کی جماعت سنت کفایہ ہے یعنی بعض لوگ اگر باجماعت پڑھ لیں تو دوسروں پر بلاعذر جماعت سے نہ پڑھنے کا گناہ نہیں، گویا جماعت کا ثواب بہت زیادہ ہے اور تراویح خود سنت موکدہ ہے کہ بلاعذر نہ پڑھنے سے گناہ ہوتا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال قال رسول اﷲﷺ ان اﷲ فرض صیام رمضان و سنت لکم قیامہ فمن صامہ وقامہ ایمانا واحتساباً خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ (رواہ نسائی) یعنی رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے روزے کو فرض فرمایا اور میں نے رمضان کی شب بیداری کو (تراویح و قرآن کے لئے) تمہارے واسطے (اﷲ کے حکم سے) سنت بنایا (جو موکدہ ہونے کے سبب ضروری ہے) جو شخص ایمان اور ثواب کے اعتقاد سے رمضان کا روزے رکھے اور رمضان کی شب بیداری کرے، وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح نکل جائے گا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ تراویح کی جماعت و ختم قرآن پاک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا صدقہ جاریہ ہے حضور سید دوعالمﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے ابتدائے خلافت میں لوگ علیحدہ علیحدہ تنہا تراویح پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو مسجد میں اپنی اپنی تراویح پڑھتے دیکھا تو سب کو ابی ابن کعب رضی اﷲ عنہ کی امامت میں جماعت سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا پھر آپ نے ایک مرتبہ رمضان میں لوگوں کو ساتھ نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا ’’نعمت البدعت ہذہ‘‘ اور امام محمد نصر مزوری کی کتاب ’’قیام اللیل‘‘ میں ہے۔ ان کانت ہذہ البدعۃ فنعمت البدعۃ ہذہ ’’یعنی اگر یہ ایک بدعت ہی ہے تو ایک اچھی ہی بدعت ہے‘‘ واضح ہو کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اس ارشاد سے کسی کو تراویح کی جماعت کے بدعت ہونے کا کوئی شبہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ خود حضورﷺ نے تین رات تراویح جماعت سے پڑھائی پھر امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے اسے ترک فرمایا، اس لحاظ سے یہ سنت ہے نیز حضرت خلفائے راشدین کی اطاعت عین سنت ہے، جس کے اتباع کا ہمیں حکم ہے چنانچہ حدیث میں ہے۔ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوا بہا و عضوا علیہا بالنواجذ (رواہ احمد وابو دائود والترمذی و ابن ماجہ) فضائل تراویح رمضان المبارک میں نماز عشاء کے بعد (یعنی فرض جماعت پڑھ کر دو سنت اور دو نفل پڑھنے کے بعد) بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت موکدہ ہے جس کا ثبوت اس حدیث میں ہے۔ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ (ابن ابی شیبہ والبیہقی ج 2ص 496) یعنی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان میں بیس تراویح اور پڑھتے تھے اور افضل یہ ہے کہ دو دو رکعت ایک ایک سلام سے پڑھی جائیں اور تراویح میں ایک مرتبہ قرآن پاک ختم کرنا مسنون ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد بقدر درود شریف اور تسبیح پڑھنا بہتر ہے۔ تسبیح تراویح کا تین مرتبہ پڑھنا پسندیدہ امر ہے۔ تسبیح تراویح یہ ہے۔ سبحان ذی الملک والملکوت سبحان ذی العزۃ والعظمۃ والہیبۃ والقدرۃ والکبریآء والجبروت سبحان الملک الحی الذی لاینام ولایموت سبوح قدوس ربنا ورب الملئکۃ والروح لاالہ الا اﷲ نستغفراﷲ ونسئلک الجنۃ ونعوذبک من النار (شامی ج 1ص 661) مسئلہ: اگر کوئی شخص مسجد میں اس وقت پہنچا کہ نماز عشاء (جماعت) ہوچکی تھی تو وہ پہلے عشاء پڑھے اور پھر تراویح میں شریک ہو اور وتر بھی جماعت کے ساتھ پڑھے، وتر پڑھنے کے بعد جتنی تراویح رہ جائیں پوری کرے یعنی بیس رکعت تراویح پوری کرے (درمختار) مسئلہ: سارا مہینہ تراویح پڑھنا سنت موکدہ ہے۔ اگرچہ قرآن شریف پہلے ہی ختم کرلیا جائے۔ (عالمگیری) مسئلہ: اگر لوگوں کو شوق نہ ہو تو ایک سے زائدہ کلام پاک تراویح میں نہ پڑھا جائے لیکن لوگوں کی کاہلی یا سستی کی وجہ سے پورے رمضان کی تراویح میں ایک قرآن شریف ختم کرنا ترک نہ کیا جائے (بحرالرائق) مسئلہ: تراویح کی نماز میں تسمیہ ایک مرتبہ بلندآواز سے کسی سورۃ کے شروع میں پڑھ لینا چاہئے کیونکہ یہ بھی کلام پاک کی پوری آیت ہے ورنہ قرآن پاک پورا نہ ہوگا (عالمگیری) مسئلہ: تراویح میں ایک رات میں پورا قرآن پاک پڑھنا جائز ہے بشرط کہ لوگ نہایت شوق رکھتے ہوں، ان کو گراں نہ گزرے۔ اگر گراں گزرے اور ناگوار ہو تو مکروہ ہے (مراقی الفلاح) تراویح کی بیس رکعت سوال: تراویح کی شرعی حیثیت کیاہے؟ اس کی کتنی رکعت ہیں؟ کیا حضورﷺ سے تراویح کا کوئی ثبوت ہے؟ اگر ہے تو کتنی رکعت؟ ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں کہ تراویح کی نماز صرف آٹھ رکعت ہیں۔ بیس رکعت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس سے عوام میں بڑا خلجان ہے، برائے کرم آپ واضح دلائل کے ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح صورت متعین فرمائیں تاکہ ہماری پریشانی دور ہو اور راہ ثواب ہم پر کھل جائے اور پھر اطمینان سے اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔ جواب: تراویح سنت موکدہ ہے اور مردوعورت دونوں کے لئے حکم ایک ہی ہے اور تراویح کی بیس رکعت ہیں اور یہ بیس رکعت سرکار دوعالمﷺ اورصحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے ثابت ہیں۔ اسی لئے حضرات تابعین، ائمہ مجتہدین، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲعلیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک تراویح کی بیس رکعت ہیں اور حضرت امام مالک رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ایک قول کے مطابق بھی تراویح کی بیس رکعت ہیں۔ ان چاروں برحق اماموں نے بیس سے کم تراویح کو اختیار نہیں فرمایا۔ یہی جمہور کا قول ہے اور آج تک مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں اسی پر امت مسلمہ کا عمل ہے، آج کل بھی مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں، مسجد نبوی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) مدینہ منورہ میں تراویح کی بیس رکعت ہوتی ہیں۔ آٹھ رکعت تراویح پر عمل کرنے والے بہت اقلیت میں ہیں اور غلطی پر ہیں کیونکہ جن روایات میں آٹھ رکعات کا ذکر ہے اس سے تہجد کی نماز مراد ہے، تراویح کی نماز مراد نہیں ہے اور یہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں۔ تراویح کی بیس رکعت ہونے پر چند دلائل درج ذیل ہیں۔ حدیث: عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲﷺ کان لیصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر (رواہ ابن ابی شیبہ مصنفہ) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں سرکار دوعالمﷺ وتر اور بیس رکعت (تراویح) پڑھا کرتے تھے۔ فائدہ: اس روایت کو ابن ابی شیبہ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی مصنف میں ’’عبد بن حمید‘‘ نے اپنی مسند میں، طبرانی نے معجم کبیر میں، بیہقی نے اپنی سنن میں اور امام بغوی رحمتہ اﷲ علیہ نے ’’مصابیح السنہ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔ اس حدیث مرفوع کے تمام روای ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن عثمان کے لیکن محض ایک راوی کی وجہ سے جبکہ بعض سے اس کی توثیق بھی منقول ہے، بالکل نظر انداز کرنا صحیح نہیں۔ علاوہ اس کے بہت سے آثار قویہ اور تعامل صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ جس سے اس کا یہ معمولی سا ضعف بھی دور ہوجاتا ہے اور اس مسئلہ میں اس سے استدلال کرنا یقینا درست اور صحیح ہے (اعلاء السنن ص 71ج 7، بتصرف) حدیث: عن یزید بن رومان انہ قال الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فی رمضان ثلاث وعشرین رکعۃ (رواہ مالک و اسنادہ مرسل قوی) ترجمہ: حضرت یزید بن رومان رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ بیس رکعت (تراویح) اور تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے حدیث: عن یحیی بن سعید ان عمر رضی اﷲ عنہ ابن الخطاب امر رجلا یصلی بہم عشرین رکعۃ (رواہ ابوبکر بن ابی شیبۃ مصنفۃ واسنادہ مرسل قوی) ترجمہ: حضرت یحییٰ بن سعید رحمتہ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ حدیث: وعن عبدالعزیز بن رفیع قال: کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث (اخرجہ ابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ واسنادہ حسن) ترجمہ: حضرت عبدالعزیز بن رفیع رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میںحضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔ حدیث: عن عطاء بن السائب عن عبدالرحمن السلمی عن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال دعا القراء فی رمضان فامرمنہم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعۃ قال وکان علی رضی اﷲ عنہ یوتربہم الخ (السنن الکبریٰ بیہقی ص 496، کتاب الصلوٰۃ جلد دوم) ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے رمضان المبارک میں قراء کوبلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ راوی کا کہنا ہے کہ وتر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خود پڑھا کرتے تھے۔ فائدہ: ان روایتوں اور دیگر تصریحات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے قول و عمل سے بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں۔ علامہ ابن قدامہ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں بڑے دلکش انداز سے بیس رکعت تراویح پڑھنے کے پس منظر کو اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ تراویح کی بیس رکعت ہیں اور یہ سنت موکدہ ہیں۔ سب سے پہلے حضور اکرمﷺ نے ان کا آغاز فرمایا، دو یا تین شب آپﷺ نے ان کی باقاعدہ جماعت فرمائی، جب آپﷺ نے اس کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا انتہائی شوق و جذبہ دیکھا تو آپﷺ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تراویح امت پر فرض نہ ہوجائے، اس لئے آپﷺ نے اس کی جماعت ترک فرمادی اور حضرات صحابہ انفرادی طور پر تراویح پڑھتے رہے، یہاں تک کہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دور آگیا، آپ انتہائی غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضور اکرمﷺ کے وصال کے بعد اب ان کی فرضیت کا کوئی امکان نہیں لہذا اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ بالآخر آپ نے اس کا فیصلہ فرمالیا، اور حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تراویح کی امامت پر مقرر فرمایا۔ حضرات صحابہ میں سے کسی نے آپ کے اس فیصلہ کی نکیر نہیں فرمائی بلکہ بخوشی اس پر عمل شروع کردیا اور روایات صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ کو بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ تمام صحابہ کرام حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، اسی پر تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا اجماع ہوگیا۔ ’’اجماع‘‘ خود مستقل حجت شرعیہ ہے۔ اس لئے بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہی راہ حق ہے اور اس کا چھوڑنا گمراہی ہے (المغنی ص 799 ج 1 بزیادہ) تراویح کا وقت سوال: تراویح کا وقت عشاء کے فرضوں سے پہلے ہے یا بعد میں؟ اگر کوئی شخص فرضوں سے پہلے تراویح پڑھ لے اور بعد میں عشاء کے فرض ادا کرلے تو کیا اس کی تراویح درست ہوجائیں گی، نیز تراویح کا وقت کب تک باقی رہتا ہے؟ جواب: نماز تراویح کا وقت عشاء کے فرضوں کے بعد شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔ نماز عشاء سے پہلے اگر تراویح پڑھی جائیں گی تو اس کا شمار تراویح میں نہ ہوگا۔ فرضوں کے بعد تراویح دوبارہ پڑھنی ہوں گی (درمختار ص 473ج 1) سوال: تراویح اور وتر سب پڑھ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ امام یا منفرد کو عشاء کے فرض میں کچھ سہو ہوگیا تھا جس کی وجہ سے عشاء نماز نہیں ہوئی تھی تو کیا صرف فرض لوٹائیں گے یا تراویح یا وتر سب دوبارہ پڑھنے ہوں گے؟ جواب: تراویح عشاء کے تابع ہیں جیسے اگر کوئی شخص عشاء سے پہلے تراویح پڑھ لے تو تراویح نہیں ہوں گی۔ اسی طرح اگر عشاء کے فرض فاسد ہوجائیں اور منفرد یا امام تراویح پڑھا چکا ہے تو فرضوں کے لوٹانے کے ساتھ تراویح بھی لوٹائی جائیں گی خواہ تراویح تمام پڑھ چکا ہو یا بعض البتہ وتر کے لوٹانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عشاء کے تابع نہیں ہیں (ہندیہ وکبیری) مسئلہ: اگر بعد میں معلوم ہوا کہ کسی وجہ سے عشاء کے فرض صحیح نہیں ہوئے۔ مثلا امام نے بغیر وضو نماز پڑھائی یا کوئی رکن چھوڑ دیا فرضوں کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہاں وہ وجہ موجود نہ ہو (بحوالہ کبیری) تراویح کی نیت سوال: تراویح کی نیت کس طرح کرنی چاہئے؟ جواب: تراویح کی نیت یوں کرنی چاہئے ’’یااﷲ تیری رضا کے لئے تراویح پڑھتا ہوں‘‘ یا ’’یااﷲ اس وقت کی سنت ادا کرتا ہوں‘‘ یا ’’رمضان المبارک کے قیام لیل کی نماز اداکرتا ہوں‘‘ یا امام کی اقتداء میں تراویح پڑھ رہا ہو تو اس طرح بھی نیت کرسکتا ہے ’’یااﷲ امام جو نماز پڑھ رہا ہے میں بھی وہی نماز ادا کرتا ہوں‘‘ ان میں سے جو بھی نیت کی جائے، تراویح ادا ہوجائیں گی (خانیہ) مسئلہ: اگر کسی نے عشاء کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں اور تراویح پڑھانے والے امام کے پیچھے سنت عشاء کی نیت کرکے اقتداء کی تو یہ جائز ہے (بحوالہ خانیہ) مسئلہ: اگر امام تراویح کا دوسرا یا تیسرا شفعہ پڑھ رہا ہے اور کسی مقتدی نے اس کے پیچھے اپنے پہلے شفعہ کی نیت کی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے (بحوالہ خانیہ) مسئلہ:اگر یاد آیا کہ گزشتہ شب کوئی شفعہ تراویح کا فوت ہوگیا یا فاسد ہوگیا تھا تو آج اس کو جماعت کے ساتھ تراویح کی نیت سے قضا کرنا مکروہ ہے (بحوالہ خانیہ) تراویح میں پورا قرآن کریم پڑھنا سوال: تراویح میں پورا قرآن کریم پڑھنا افضل ہے یا سنت؟ واضح فرمائیں۔ جواب: ایک مرتبہ قرآن شریف ختم کرنا (پڑھ کر یا سن کر) سنت ہے۔ دوسری مرتبہ فضیلت ہے اور تین مرتبہ افضل ہے۔ لہذا اگر ہر رکعت میں تقریبا دس آیتیں پڑھی جائیں تو ایک مرتبہ یہ سہولت ختم ہوجائے گی اور متقدیوں کو بھی گرانی نہ ہوگی تاہم لوگوں کی سستی کی وجہ سے حتی الامکان سنت کو نہیں چھوڑنا چاہئے (درمختار خانیہ) مسئلہ: جولوگ حافظ ہیں ان کے لئے فضیلت یہ ہے کہ مسجد سے واپس آکر بیس رکعت اور پڑھا کریں تاکہ دو مرتبہ ختم کرنے کی فضیلت حاصل ہوجائے (خانیہ) مسئلہ: ہر عشرہ میں ایک مرتبہ ختم کرنا افضل ہے۔ مسئلہ: اگر مقتدی اس قدر ضعیف اور کاہل ہوں کہ ایک مرتبہ بھی پورا قرآن شریف نہ سن سکیں بلکہ اس کی وجہ سے جماعت چھوڑ دیں تو پھر جس قدر سننے پر وہ راضی ہوں اس قدر پڑھ لیا جائے یا الم تر کیف سے پڑھ لیا جائے (بحر) لیکن اس صورت میں ختم کی سنت کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ (بحوالہ خانیہ) مسئلہ: 27 ویں شب کو ختم کرنا مستحب ہے (بحرالرائق) مسئلہ: اگر اپنی مسجد کا امام قرآن شریف ختم نہ کرے تو پھر کسی دوسری مسجد میں جہاں پر ختم ہو تراویح پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں (کبیری) مسئلہ: اگر اپنی مسجد کا امام قرآن شریف غلط پڑھتا ہو تو دوسری مسجد میں تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں (فتاویٰ ہندیہ) ایک یا تین یا سات راتوں میں ختم کرنا سوال: آج کل بعض شہروں میں کسی جگہ ایک رات میں تراویح کے اندر قرآن ختم کیا جاتا ہے اور بعض جگہ تین راتوں میں اور بعض جگہ سات راتوں میں، اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر ایک رات میں یا تین یا سات راتوں میں تراویح کے اندر قرآن کریم قواعد تجوید کے مطابق صاف صاف اور بالکل صاف طریقہ سے پڑھا جائے۔ حروف نہ کاٹے جائیں اور صرف تعلمون یعلمون سنائی نہ دے بلکہ کلام پاک اچھی طرح سامعین کے کانوں میں آئے اور اور نمازی خوش دلی سے اس میں شریک ہوں تو اس طرح ختم کرنا جائز ہے۔ شرعا کچھ مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر قرآن کریم صاف اور صحیح نہ پڑھا جائے، حروف کٹنے لگیں، سامعین کو سوائے یعلمون تعلمون کے کچھ سمجھ نہ آئے جیسا کہ بعض جگہ صورتحال اس طرح ہے تو پھر اس طرح پڑھنا درست نہیں ہے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ تراویح میں نابالغ بچے کی امامت سوال: نابالغ بچہ کلام پاک کا حافظ ہے کیا وہ مردوں کو تراویح پڑھا سکتا ہے؟ جواب: مختار اور صحیح قول یہ ہے کہ نابالغ بچہ خواہ قریب البلوغ ہی کیوں نہ ہو، تراویح میں بالغوں کی امامت نہیں کراسکتا اور ان کو تراویح نہیں پڑھا سکتا (ہدایہ و درمختار) مسئلہ: نابالغ کو تراویح کے لئے امام بنانا درست نہیں (کبیری) البتہ اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو جائز ہے (بحوالہ خانیہ) تراویح میں جماعت کا حکم سوال: تراویح جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا واجب ہے یا سنت؟ وضاحت فرمائیں نیز تراویح کی جماعت اگر گھر میں کرلی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جواب: تراویح مسجد میں باجماعت پڑھنا سنت ہے مگر سنت کفایہ ہے یعنی مسجد میں اگر تراویح کی جماعت نہ ہو اور تمام اہل محلہ تراویح کی جماعت کو چھوڑ دیں تو تمام اہل محلہ گنہ گار ہوں گے اور تارکین سنت بھی اور اگر بعض نے باجماعت مسجد میں اور بعض نے باجماعت گھر میں ادا کی تو ترک سنت کا گناہ تو نہ ہوگا مگر گھر میں تراویح پڑھنے والے مسجد کی فضیلت عظمیٰ اور جماعت مسجد کی فضیلت سے محروم رہیں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تراویح کی جماعت سنت کفایہ نہیں بلکہ ہر ہر شخص پر جماعت سے تراویح پڑھنا مستقل سنت ہے۔ اگر کوئی شخص جماعت کو چھوڑ کر چاہے مسجد ہی میں تراویح اد اکرے پھر بھی ترک سنت کا گناہ ہوگا (شامی و کبیری) مسئلہ: اکثر اہل محلہ نے تو تراویح جماعت سے پڑھی مگر اتفاقاً ایک دو شخص نے بغیر جماعت پڑھی بلکہ اپنے مکان میں تنہا پڑھی تب بھی سنت ادا ہوگئی (کبیری ص 384) مسئلہ: گھر پر تراویح کی جماعت کرنے سے بھی جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی لیکن مسجد میں پڑھنے کا جو ستائیس درجہ ثواب ہے وہ نہیں ملے گا (کبیری ص 384) مسئلہ: تراویح کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہے (لہذا عشاء کی جماعت سے پہلے جائز نہیں) اور جس مسجد میں عشاء کی جماعت نہیں ہوئی وہاں پر تراویح کو بھی جماعت سے پڑھنا درست نہیں (کبیری ص 391) مسئلہ: ایک شخص تراویح پڑھ چکا امام بن کر یا مقتدی ہوکر۔ اب اسی مسجد میں اگر تراویح کی جماعت ہورہی ہو تو وہاں (بہ نیت نفل) شریک ہونا بلا کراہت جائز ہے۔ (کبیری ص 389) مسئلہ: ایک امام کے پیچھے فرض اور دوسروں کے پیچھے تراویح اور وتر پڑھنا بھی جائز ہے (بحوالہ کبیری) مسئلہ: کسی مسجد میں ایک مرتبہ تراویح کی جماعت ہوچکی تو دوسری مرتبہ اسی شب میں تراویح کی جماعت جائز نہیں لیکن تنہا تنہا پڑھنا درست ہے (بحرالرائق) تراویح میں، ڈاڑھی منڈے کی امامت سوال: بعض حفاظ ایسا کرتے ہیں کہ تمام سال ڈاڑھی منڈواتے یا کترواتے رہتے ہیں اور ماہ رمضان سے کچھ عرصہ پہلے داڑھی چھوڑ دیتے ہیں۔ رمضان تک کچھ ہلکی سی داڑھی نکل آتی ہے پھر لوگ انہیں تراویح پڑھانے کے لئے امام مقرر کرلیتے ہیں اور رمضان کے بعد یہ حفاظ حسب سابق دوبارہ داڑھی منڈوا یا کتر والیتے ہیں تو ان کے پیچھے تراویح پڑھنا کیسا ہے؟ جواب: درج ذیل حدیث سے داڑھی کا چھوڑنا اور زیادہ کرنا اور مونچھوں کا کتروانا کم کرنا ثابت ہے اور داڑھی جب کہ قبضہ سے کچھ کم ہو تو اس کا منڈوانا یا کتروانا شرعاً بالکل ناجائز ہے لہذا جو حفاظ فاسق ہیں (خواہ دوسری باتوں میں کتنے ہی نیک ہوں مگر ان باتوں سے یہ فسق ختم نہیں ہوسکتا) اور فاسق کے پیچھے تراویح پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یعنی حرام کے قریب ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ ہر مسجد کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ اچھی طرح دیکھ بھال کر تراویح کے لئے حافظ مقرر کرے۔ اس میں قرابت داری یا باہمی تعلقات کی رعایت کرکے فاسق کو امام مقرر کرنا جائز نہیں ہے جو انتظامیہ ایسا کرے گی وہ گناہ گار ہوگی اور لوگوں کی نمازیں خراب کرنے کا وبال بھی انہی پر ہوگا۔ لہذا تراویح کے لئے ایسا حافظ منتخب کریں جو ظاہراً بھی باشرع، متقی، پرہیزگار ہو۔
  17. Madni.Sms

    والدین کے ساتھ حسن سلوک

    والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی نگہداشت سے متعلق حضور سید عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ، عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال رغم انفہ ثم رغم انفہ ثم رغم انفہ قیل من یا رسول اﷲ قال من ادرک والدیہ عندالکبر احدہما او کلاہماثم لم یدخل الجنۃ (مسلم شریف ثانی، ص 134، مشکوٰۃ شریف ص 418، اصح المطابع) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ایک بار فرمایا: خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، عرض کی گئی کس کی؟ یارسول اﷲ! فرمایا، ’’اس کی جس نے بوڑھے ماں باپ یا ان دونوں میں سے ایک کو پایا پھر جنتی نہ ہوا‘‘ یعنی ان کی خدمت نہ کی، نہ کسی اور طرح ان کی خوشنودی حاصل کی جس کے سبب وہ جنت کا مستحق ہوتا۔ اس وعید شدید سے ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے سبق حاصل کریں اور اپنا انجام بد معلوم کرلیں۔ حدیث:حضور محسن انسانیتﷺ فرماتے ہیں۔ والدین کی نافرمانی سے بچو۔ اس لئے کہ جنت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور والدین کا نافرمان اس کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔ اور اسی طرح رشتہ توڑنے والا، بوڑھا زانی، تکبر سے اپنا ازار (تہبند) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا بھی جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (تفسیر مدارک جلد 2، ص 312، حیا الکتب مصر) اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا۔ بلاشبہ کبریائی تو صرف رب العالمین ہی کولائق ہے۔ عن عبداﷲ بن عمر وقال قال رسول اﷲﷺ من الکبائر ان یشتم الرجل والدیہ قالوا یارسول وہل یشتم الرجل والدیہ؟ قال نعم یسبت ابا الرجل فیسب اباہ ویشتم امہ فیشتم امہ (بخاری، مسلم، ترمذی 2، ص 12) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا! جب کہ وہ کسی شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور جواب میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دے تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دی (مشکوٰۃ ص 419) عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲﷺ ثلث دعوات مستجابات لاشک فیہن دعوۃ المظلوم ودعوۃ المسافر ودعوۃ الوالد علی ولدہ (ترمذی جلد 2، ص 13) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں۔ اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا تین دعائیں ایسی ہیں جن کے مقبول ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنے بیٹے پر بددعا۔ لہذا اولاد کو چاہئے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے جس کے سبب والدین کی اس کے حق میں بددعا کرنی پڑے اور والدین کو بھی حتی الامکان ان پر بددعا کرنے سے بچنا چاہئے ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑے گا، جیسا کہ مشاہدہ ہے۔ عن ابن عباس ان رسول اﷲﷺ قال من ولد بار ینظر الی والدیہ نظرۃ رحمۃ الا کتب اﷲ لہ بکل نظرۃ حجۃ مبرورۃ قالوا وان نظر کل یوم مائۃ مرۃ قال نعم! اﷲ اکبر واطیب (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰۃ ص 421) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو بھی اطاعت شعار فرزند اپنے والدین کوایک بار نگاہ مہرورحم سے دیکھے اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے ایک مقبول حج لکھے گا اور لوگوں نے عرض کیا، یارسول اﷲ! ہر دن سو بار دیکھے! ہاں اﷲ بہت بڑا اور طیب ہے۔ عن عبداﷲ بن عمر و رضی اﷲ عنہما قال قال رسول اﷲ ﷺ الکبائر الاشراک باﷲ وعقوق الوالدین و قتل النفس والیمین الغموس (رواہ البخاری) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہوں میں سے اﷲ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، کسی جان کو بلاوجہ شرعی قتل کرنا اورجھوٹی قسم کھانا ہے (مشکوٰۃ ص 17، بحوالہ بخاری) عن ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما قال قال ورسول اﷲﷺ ان اشد الناس عذابا یوم القیمٰۃ من قتل نبیا او قتلہ نبی او قتل احد والدیہ والمصورون وعالم لم ینتفع بعلمہ(اخرجہ البیہقی کذا فی الدر المنشور) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور انورﷺنے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب والا وہ ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کردیا یا جس کو کسی نبی نے قتل کیا ہو، یا جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو قتل کیا ہو، اور تصویر کھینچنے والوں کو اور اس عالم کو بھی سب سے زیادہ عذاب ہوگا جس نے اپنے علم نے نفع نہ حاصل کیا (در منثور جلد 4، ص 174) عن ابن رزین العقیلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انہ اتی النبیﷺ فقال یارسول اﷲ ان ابی شیخ کبیر لا یستطیع الحج ولا العمرۃ ولا الظعن قال حج عن ابیک واعتم (رواہ الترمذی، وابو دائود النسائی و کذا فی المشکوٰۃ) حضرت ابو زرین عقیلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ! یقینا میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو حج و عمرہ اور سفرکی طاقت و قوت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا۔ تم اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو (مشکوٰۃ ص 222) حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضور اقدسﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ مجھ سے ایک بڑا گناہ ہوگیا ہے۔ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ حضورﷺنے فرمایا، کیا تیری ماں ہے؟ عرض کیا نہیں۔ پھر فرمایا کیا تیری کوئی خالہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں، فرمایا تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر (مشکوٰۃ ص 420) اس سے معلوم ہوا کہ ماں یا خالہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی وجہ سے بہت سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص نے اپنے والد کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا جس نے اپنے والد کو تیز نظر سے دیکھا، یعنی نگاہ سے ناراضگی کا اظہار کیا (تفسیر در منثور جلد 4، ص 171) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انورﷺ نے ارشاد فرمایا: جو چاہے کہ خدا تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے اور اس کا رزق بڑھائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھے۔ (درمنثور) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مقدس ﷺ نے فرمایا کہ تم دوسروں کی عورتوں سے پرہیز کرکے پاک دامن ہوجائو۔ ایسا کرنے سے تمہاری عورتیں پاک رہیں گی اور اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایسا کرنے سے تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور جس شخص کے پاس اس کا بھائی معذرت چاہتا آئے تو اس کو معذرت قبول کرلینی چاہئے۔ وہ حق پر ہو خواہ ناحق پر، اگر کسی نے ایسا نہ کیا (یعنی معذرت قبول نہ کی) تو وہ میرے حوض کوثر پر نہ آئے۔ یعنی اس کو میرے حوض کوثر سے سیراب ہونے کا حق نہیں۔ (مستدرک حاکم جلد 4، ص 154)
  18. Amad e Sarkar Se Zulmat Hui Kafoor Hai Kia Zameen Kia Aasman Har Samt Chahya Noor Hai
  19. سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ سرکار دوعالمﷺ کا جشن ولادت منانا کیسا ہے؟ مسلمانوں کو عید میلاد النبیﷺ منانا چاہئے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ہے کہ جشن عید میلاد النبیﷺ کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ کرسچن کی ایجاد ہے۔ سرکارﷺ کے چھ سو سال بعد شروع ہوا۔ ہم کو حکم نہیں ہے کہ حضورﷺ کی ولادت (پیدائش) (Birth Day) یا وصال کا دن منائیں۔ یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کی رو سے صحیح ہے یا نہیں؟ صحیح و تحقیقی جواب سے نوازیں؟ بینوا توجروا۔ جواب: ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، اس میں حضورﷺ کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر وبرکت ہے۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنت نبی کریمﷺ و سنت صحابہ و تابعین و طریق جملہ مسلمین بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا، ولادت رسولﷺ کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانان عالم میں یہ رائج عمل مولود مقبول ہے۔ آیت کریمہ ہے: قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فذالک فلیفرحوا تم فرماو& اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں (یونس، آیت 58) واذکرو نعمۃ اﷲ علیکم اور اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو (آل عمران، آیت 103) واما بنعمۃ ربک فحدث اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (الضحیٰ، آیت 12) کے تحت داخل ہے۔ حضور اقدسﷺ کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلق خدا کو ملی، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت اﷲ تعالیٰ نے انسانوں، جنوں، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی۔ سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت کریمہ ’’الذین بدلوا انعمۃ اﷲ کفرا‘‘ (ابراہیم۔ آیت ۲۸) (جنہوں نے اﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) کی تفسیر میں فرمایا ’’ہو محمدﷺ‘‘ (اﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدﷺ ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقع ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمائی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں ’’وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا‘‘ سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا (مریم آیت ۱۵) ’’والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا‘‘ اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں (مریم: آیت ۳۳) اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے۔ سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی اکرمﷺ کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے۔ پھر انبیائے کرام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے۔ قرآن کریم میں حضور اکرمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلاد النبیﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ آل عمران میں ہے ’’ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘ پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا (آل عمران آیت ۸۰) حدیث پاک میں بھی میلاد النبی کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول اﷲﷺ سئل عن صوم یوم الاثنین، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ (حضور اقدس٭ﷺ سے دوشنبہ (سوموار) کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی۔ (مسلم شریف، جلد ۱، ص ۳۶۸) محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی، اس حدیث سے رسول اﷲﷺ کا اپنی ولادت مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے۔ اب اگرکوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، واقعہ میلاد کے تذکرہ کے لئے جلسے کرتا ہے، جشن مناتا ہے، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ رسول اﷲﷺ کی متابعت اور پیروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپﷺ کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ حضور اقدسﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’ان اﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح‘‘ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا، نجات پائے گا (التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳) حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے ’’انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام‘‘ ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی اکرمﷺ کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے (التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳) مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائزو مستحسن ہے۔ اور یہ کہ یہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے۔ میلاد النبیﷺ کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کے لئے مجلس کا انعقاد عہد صحابہ میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے۔ قرون ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلاد النبیﷺ کے دن کو عید وخوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشن ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذونات شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں۔ صاحب مجمع البحار علامہ طاہر فتنی، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں: بحمدہ تعالیٰ اﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سرچشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہار مسرت کا حکم دیا گیا ہے۔ الیٰ آخرہ) یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہوسکتی، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع وبدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو، اصول شرع جس کے جواز کے مقتضی ہوں، اس کے جواز میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ چاہے تفصیلا وہ عمل قرون ثلٰثہ میں نہ رہا ہو، اس لئے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا و رسول جل و علا و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ’’لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ‘‘ کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرا اور نئی شریعت گڑھتا ہے، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہےباقاعدہ اصول بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابل جواز تممسک باصل، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں، بعض حضرات جہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کرکے دھوکہ کھاتے دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر، تو دلیل تم پر چاہئے۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید وخذیعت ہے، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امرونہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے؟(ص ۳۔۴) اسی میں ہے ’’علامہ عبدالغنی نابلسی ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی اﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘ علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں ’’من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ‘‘ ’’غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جوا زکاقائل مثل سائل مدعا علیہ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل، اس کے لئے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں‘‘ نفس میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا۔ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا۔ اس لئے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے۔ رہا جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئت کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘یعنی بری ایجاد۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ، مسلم الثبوت محدث ہیں، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’میلاد النبیﷺ کا مروجہ طریقہ قرون ثلٰثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں، اس کی بنیاد قرون ثلٰثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے، اس میں جشن مناتے ہیں، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور میلاد النبیﷺ کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں‘‘ (سبل الہدیٰ والرشاد، ج ۱، ص ۳۶۲) عید میلاد النبیﷺ کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لئے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اقدسﷺ نے فرمایا ’’ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں‘‘ آپ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں اﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، لہذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہوجائے‘‘ (الحاوی للفتاویٰ، ج ۱، ص ۲۶۰) یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں حضور اقدسﷺ کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کرکے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی اپنی کتاب مولد النبیﷺ میں لکھتے ہیں: ’’عرب کے شرق و غرب، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولد النبیﷺ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ میلاد النبیﷺ سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیروبرکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیروبرکت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت، رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب رسول اکرمﷺ کی برکت کے سبب سے ہے‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالم اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہل اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔ مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں: ’’نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہورہا ہے۔ ہر سال یوم عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسن سلوک اور حضورﷺ کی محبت اور آپ کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اﷲ کریم نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا‘‘ (السیرۃ الحلبیہ، ج ۱، ص ۱۳۷) میلاد النبیﷺ کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے ’’جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمدﷺ کی پیدائش کی خوشی میں) ثویبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں‘‘ (بخاری، جلد ۲، ص ۳۶۳) اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری لکھتے ہیں: ’’جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا، نبی کریمﷺ کی شب ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی تو امت محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلاد النبیﷺ کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے، حضورﷺ کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے، میری زندگی کی قسم اﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا‘‘ (المواہب اللدنیہ، بشرح الزرقانی، ج ۱، ص ۲۶۱) علامہ زرقانی کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری، ثویبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلاد النبیﷺ کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا، جبکہ قرآن کریم کی نص قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں، ان کے اعمال باطل کردیئے گئے، قال اﷲ تعالیٰ ’’وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا‘‘ (الفرقان: آیت ۲۳) جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیئے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں مگر صحیح حدیث میں ابولہب اسی طرح ابوطالب (جمہور کے نزدیک جس کی موت کفر پر ہوئی) کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: ’’جس عمل کا تعلق حضورﷺ سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکم عام سے مخصوص ہے جس پر دلیل ابوطالب کا وہ واقعہ ہے کہ اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے اوپر لایا گیا (یعنی اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی)‘‘ (عمدۃ القاری، ج ۲۹، ص ۲۴۲، المکتبۃ الشاملۃ) علامہ کرمانی نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق حضور اکرمﷺ کی ذات سے ہو، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے۔ یہ خصوصیت اﷲ عزوجل نے اپنے محبوب کی ذات سے متعلق رکھی، عمدۃ القاری ہی میں ہے: ’’اگر آپ کہیں کافروں کے اعمال حسنہ تو نیست و نابود کردیئے گئے، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے، میںکہوں گا کہ (ابو طالب و ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول اﷲﷺ کی برکت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے ہے‘‘ (عمدۃ القاری، باب قصۃ ابی طالب، ج ۱۱، ص ۵۹۳) پوری دنیا کے جلیل القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عمل میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، علامہ امام برہان الدین صاحب سیرت حلبیہ، علامہ ابن حجر مکی، امام ابن جزری صاحب حصن حصین، حافظ جلال الدین سیوطی، حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار، ملا علی قاری، شیخ عبدالوہاب متقی مکی، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ ازروئے اصول مروجہ عمل مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرف عام خود حجت شرعیہ ہے جس کی اصل حدیث پاک ’’مارأہ المسلمون حسناً فہو عنداﷲ حسن‘‘ (جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے۔ موجودہ میلاد النبیﷺ کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا، جیسا کہ وہابیہ اور دیابنہ کا نقطہ نظر ہے، سخت محرومی، بددیانتی اور جہل و بے خبری ہے۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہد رسالت میں یا عہد صحابہ و تابعین میں تھی، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن وسنت کے مزاحم اور اصول شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر تمصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصف استحسان رکھتی ہے تو اسی ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے۔ حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں: 1۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ، 2۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہاووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ (مشکوٰۃ شریف، ص ۳۵، مجلس برکات) ’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے ’’خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے‘‘ (جلد۱، ص ۱۳۷) سخت افسوس کی بات ہے کہ ابن تیمیہ اور فاکہانی کی اتباع و پیروی میں وہابیہ و دیابنہ عید میلادالنبیﷺ کو غیر شرعی ایجاد بتاتے ہیں جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی مفتی نے عیدمیلاد النبیﷺ کے تعلق سے اپنے فتوے میں اپنے دل کا بغض اتارا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ اس نام نہاد مفتی نے قرآن و حدیث کے نصوص کو نہیں سمجھا، فقہاء و محدثین اور معتمد سیرت نگاروں کی واضح و غیر مبہم درجنوں عبارتوں سے صرف نظر کیا جن سے عید میلاد النبیﷺ کا جواز و استحسان و باعث خیر وبرکت ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس وہابی مفتی نے اپنے خود ساختہ ضابطے سے محدثین کرام و فقہائے عظام کی نئی ایجادات پر کاری ضرب لگائی۔ یہ وہابی مفتی قرآن و حدیث و شریعت مطہرہ کا پیروکار نہیں بلکہ ابن تیمیہ، فاکہانی، محمد بن عبدالوہاب نجدی، اسماعیل دہلوی جیسے گروہ وہابیہ کی اتباع کرنے والا ہے۔ اگر اس وہابیائی ضابطے کو مان لیا جائے جو استفتے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے حوالے سے درج ہے تو پھر شریعت سے امان اٹھ جائے گا۔ کیا کوئی وہابی دیوبندی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ: 1۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے؟ جبکہ خاص کتاب اﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہد رسالت میں ہوا، نہ عہد صحابہ میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین میں ہوا۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں۔ 2۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے؟ جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہد رسالت میں ہوئی نہ عہد صحابہ میں، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر جدید میں محراب بھی بنوایا، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا۔ 3۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے؟ جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے؟ کس نے شامل کئے؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے۔ 4۔ بیس رکعت نماز تراویح باجماعت پڑھنا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایجاد، بدعت و گناہ ہے؟ 5۔جمعہ کے دن اذان اول کا اضافہ بدعت سئیہ ہے؟ جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کی۔ 6۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے؟ جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے۔ فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے: ’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں، کیا دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا؟ اس مفتی سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشن صد سالہ کرسچن کی ایجاد ہے؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے؟ تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا؟ خاص نماز میں وہابی دیوبندی لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم نے اقامت نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبر الصوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے؟ حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں، وہابی اصول پر یہ تمام بری بدعتیں اور ضلالت ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں۔ اگر وہابیوں کے اعتقاد و عمل، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکار دوعالمﷺ کی ولادت مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی‘‘ غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عید میلاد النبیﷺ کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے۔ پہلی روایت کی رو سے ایجاد میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے، مگر پورے عالم اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عید میلاد النبیﷺ کو ناجائز و حرام نہیں کہا، بری بدعت نہیں بتایا، بلکہ تمام علماء فقہائ، محدثین اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہل اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سواداعظم، جمہور اہل اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول لغو و باطل و مردود ہے اور نبی کریمﷺ سے بغض کی دلیل ہے جبکہ یہود وسعود کے علاوہ پورے عالم اسلام میں رائج عمل جشن عید میلاد النبیﷺ جائز و مستحسن اور باعث خیروبرکت و علامت محبت رسولﷺ ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم
  20. Kia Huzu r (pa Droud salam) ne Azan di ha?>Jb Hazrat Hasan Ibn Ali ki Wiladat HuiTo Huzur Ne Unke Kaan Me Azan Di(Tirmizi H#1519)

×
×
  • Create New...