Jump to content

ghulamahmed17

Under Observation
  • کل پوسٹس

    452
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    2

سب کچھ ghulamahmed17 نے پوسٹ کیا

  1. سعیدی صاحب جناب سعیدی صاحب پہلے بات کو سمجھ لیا کیجے پھر جواب لکھا کیجیے ۔ پہلے آپ بتائیں اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام سے بعض علماء حضرات کو مسئلہ کیا درپیش ہے کہ لکھا جائیں یا نہ لکھا جائے ؟ دوسری بات : میں اک جملہ لکھتا ہوں اس کو پڑھیں : " غیر نبی و ملک کے نام کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھنا چاہیے " اس میں کفریہ کلمہ کونسا ہے ؟ جناب سعیدی صاحب اب یہ پڑھیں : کتاب کا نام : کفریہ کلمات کے بارے سوال و جواب پھر کتاب کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے کہ : حرام الفاظ اور کفریہ کلمات کے متلق علم سیکھنا ضروری ہے ۔ جناب سعیدی صاحب اب اس جملہ میں : " غیر نبی و ملک کے نام کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھنا چاہیے " کونسا کفریہ کلمہ ہے جو " علیہ السلام " کو کفریہ کلمات کی اس کتاب میں سوال و جواب میں شامل کیا گیا ؟ امید ہے کہ آپ ایمانداری سے جواب لکھیں گے ۔ اپ کا دوسرے سوال کا جواب میں آپکا جواب آنے کے بعد لکھو گا ، -----------------------
  2. اعتراض ابو مخنف میرے نزدیک غیر معتبر ھے مگر آپ تو اُسے بہت معتبر مانتے ہیں۔ اس لئے اُس کی بات مجھ پر نہیں بلکہ آپ پر حجت ھے۔ جواب سعیدی صاحب جو آپ کے نزدیک غیر معتبر ہے آپ اس کی بات پر یقین کیسے کریں گے؟ اور جان سعیدی صاحب آپ اصل واقعہ کی طرف بالکل توجہ نہیں فرما رہے کہ امیر معاویہ کے گورنر اور خود امیر معاویہ حضرت علی کو قاتلیں عثمان میں سمجھتے تھے اور اسی بہانے ان کو گورنر صاحبان گالیاں دیتے تھے اور یہ سب بحکم معاویہ ہی ہوتا تھا ۔ اصل نقطہ پر دھیان دیں وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة، ويسبون علياً، ويقعون فيه، ولما كان المغيرة متولي الكوفة، كان يفعل ذلك طاعة لمعاوية، فكان يقوم حجر وجماعة معه، فيردون عليه سبّه لعليٍ رضي الله عنه، وكان المغيرة يتجاوز عنهم، فلما ولي زياد، دعا لعثمان وسب علياً، وما كانوا يذكرون علياً باسمه، وإنما كانوا يسمونه بأبي تراب، وكانت هذه الكنية أحب الكنى إِلى علي، لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كناه بها، فقام حجر وقال: كما كان يقول من الثناء على علي، فغضب زياد وأمسكه، وأوثقه بالحديد، وثلاثة عشر نفراً معه، وأرسلهم إِلى معاوية، فشفع في ستة منهم عشائِرهم، وبقي ثمانية، منهم: حجر، فأرسل معاوية من قتلهم بعذرا، وهي قرية بظاهر دمشق، رضي الله عنهم، وكان حجر من عظم الناس ديناً وصلاة، وأرسلت عائشة تتشفع في حجر، فلم يصل رسولها إِلا بعد قتله معاویہ اور اس کے گورنر جمعہ کے خطبوں میں معاویہ کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے اور علیؓ پر سب اور برا بھلا کرتے تھے، چنانچہ جب مغیرہ گورنر کوفہ بنا، تو وہ بھی معاویہ کی اطاعت کے چکر میں عثمان کے لئے دعائے خیر کرتا اور علیؓ پر سب، چنانچہ حجر اور ان کے ساتھ ایک جماعت کھڑے ہوجاتی اور جو مغیرہ سب علی رض کرتا تھا اس کے خلاف احتجاج کرتے جب مغیرہ وہاں سے گورنرشپ سے ہٹا تو اس کی جگہ زیاد بن ابیہ گورنر بنا اور وہ عثمان کا ذکر خیر کرتا اور علیؓ پر سب کرتا، اور امیر المومنین کا نام علی نہ لیتے بلکہ ابو تراب کہا کرتے تھے، جو اگرچہ علیؓ کو سب سے زیادہ پسندیدہ کنیت لگتی تھی چونکہ رسول اللہق نے وہ کنیت عطا کی تھی تو حجر کھڑے ہوئے اور وہی کہا جو وہ علیؓ کی مدح میں کہا کرتے تھے، جس پر زیاد غضبناک ہوگیا اور حجر کو روکنا چاہا اور حجر اور ان کے تیرہ ساتھیوں کو گرفتاوی کا کہا چنانچہ ان تمام کو معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا، جن میں سے چھ کے بارے میں ان کے قبائل نے سفارش کرکے چھڑوادیا اور باقی آٹھ جن میں حجر تھے ان کو معاویہ نے مقام عذرا جو دمشق کا ایک قریہ تھا وہاں قتل کروایا، اللہ ان تمام سے راضی ہو، اور حجر تمام لوگوں میں دین اور نماز کے معاملہ میں بلند ترین تھے، اور عائشہ نے حجر کی شفارش کے لئےایک قاصد کو بھیجا تھا جو حجر کے قتل کے بعد وہاں پہنچا۔ حوالہ: المختصر في أخبار البشر جلد ١ ص ١٨٦ http://shamela.ws/browse.php/book-12715#page-174 -------------------- اعتراض شہادتوں کا لیٹر لے جانے والے حضرت وائل بن حجر اور حضرت کثیر بن شہاب بھی شاھد تھے تو ان کی شہادت تو اسلامی قانون کے مطابق تھی جواب ابوداؤد میں حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ سے روایت ہے : " رسول اللہﷺ نے فیصلہ ( یعنی عدالتی ضابطہ بیان فرمایا ہے) کہ: مقدمے کے فریقین دونوں حاکم کے روبرو بیٹھیں " کریم آقاﷺ نے مذید فرمایا : جب دونوں فریق تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو فیصلہ نہ کرو ۔ جب تک کہ دوسرے کی بات بھی نہ سن لو جس طرح تم نے پہلے کی بات سنی ۔ " حضرت عمر فاروقؓ جو ہدایت نامہ اداب قضاء سے متلق حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو بھیجا تھا وہ معتدد کتب فقیہ میں منقول ہے اس میں حضرت عمرؓ فرماتے ہیں : " تم لوگوں کی طرف متوجہ ہونے اور اپنا اجلاس منعقد کرنے میں مساوات قائم کرو ۔ تا کہ کمزور تمہارے عدل سے مایوس نہ ہو اور بڑے خاندان والا تم سے بے انصافی کی طمع نہ کرے ۔ جناب سعیدی صاحب ملزمین کے خلاف ان کی غیر موجودگی میں گواہیاں لینا ارشاداتِ نبویﷺ اور اسلامی اصول قضاء کے بالکل خلاف ہے ۔ اس پر شہادت کا ہی اطلاق نہیں کیا جا سکتا جو اثباتِ جرم کی بنیاد بن سکے ۔ پھر اسلامی قانونِ شہادت کے مطابق یہ بھی ضروری اور بہت اہم ہے کہ ہر گواہ کی گواہی الگ الگ لی جائے تا کہ پہلے کی گواہی سے دوسرا متاثر نہ ہو ۔ اور ان کی شہادت میں اگر اختلاف ہو جو ملزم کے حق میں مفید ہو تو وہ اس فائدے سے محروم نہ ہو ۔ لیکن جناب سعیدی صاحب زیاد کے سامنے اصحاب کی گواہیاں جس طرح درج کی گئی وہ میں اوپر لکھ چکا ہوں ۔ زیاد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی افراد بھی اسی طرح کی گواہی تحریر کریں۔ میری کوشش ہے کہ اس خائن احمق کی زندگی کا چراغ بجھا دوں۔ عناق ابن شرجیل ابن ابی دہم التمیمی نے کہا کہ میری گواہی بھی ثبت کرو۔ مگر زیاد نے کہا ! نہیں ہم گواہی کے لیے قریش کے خاندان سے ابتدا کریں گے اور اس کے ساتھ ان معززین کی گواہی درج کریں گے جنہیں معاویہ پہچانتا ہو۔ چنانچہ زیاد کے کہنے پر اسحاق ابن طلحہ ابن عبید اللہ اور موسی ابن طلحہ اور اسماعیل ابن طلحہ اور منذر ابن زبیر اور عمارہ ابن عقبہ ابن ابی معیط ، عبد الرحمن ابن ہناد ، عمر ابن سعد ابن ابی وقاص ، عامر ابن سعود ابن امیہ ، محرز ابن ربیعہ ابن عبد العزی ابن عبد الشمس ، عبید اللہ ابن مسلم حضرمی ، عناق ابن وقاص حارثی نے دستخط کیے۔ جناب سعیدی صاحب یہ سارے گواہ زیاد کے من پسند گواہ تھے ۔؎ پھر زیاد کا یہ اک جملہ ہی اسلامی قانوں شہادت کے سراسر خلاف ہونے کے لیے کافی ہے کہ : " زیاد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی افراد بھی اسی طرح کی گواہی تحریر کریں۔" معین الحکام صفحہ نمبر/100 پر لکھا پڑا ہے کہ : " اگر ایک گواہ شہادت دے اور اس کی تفصیل بیان کرے پھر دوسرا گواہ کہے کہ میں اپنے ساتھی کی گواہی کے مثل گواہی دیتا ہوں تو دوسرے کی گواہی قبول نہ ہو گی ۔ ----------------------------------- اعتراض اور ان کی شہادتوں میں بھی( جمع جموع+ شتم معاویہ + دعوت الی حرب+ آل ابو طالب کو ھی حکمرانی کا حق ھے) کے عناصر موجود ھیں بلکہ معاویہ کے عامل کا شہر سے اخراج بھی بیان شدہ ھے جناب محترم سعیدی صاحب حضرت حجر بن عدیؓ نے جس عامل کو نکال باہر کیا تھا اس کا نام تو لکھ دیتے کہ اس کا نام کیا تھا ؟ کس شہر کا عامل تھا ؟ جبری اخراج کے بعد واپسی ہوئی کہ نہیں ؟حجر بن عدی تو خود کوفے میں چھپتے پھر رہے تھے ، اگر کوفہ کے عامل کے اخراج کی بات ہے تو وہ اس وقت عمرو بن حریث تھے ۔ اور جو شہادتیں اور گواہیاں لکھی گئی اس میں خود عمرو بن حریث کی گواہی موجود ہے ، امید ہے کہ آپ عامل اور شہر کانام لکھیں گے ۔ جہاں تک اس میں سب و شتم کا مسئلہ ہے تو معاویہ کے گورنر پہل کرتے حجر بن عدی احتجا جاً اس کا جواب میں بولتے ۔ کیونکہ بہت شروع میں حجر بن عدی اور ان کے کچھ ساتھی ایسا کرتے تھے تو حضرت علیؓ نے خود حجر بن عدی کو بلا کر ایسی باتوں سے روک دیا تھا ۔ لہذا مغیرہ اور ابن زیادہ کے دور زمانہ میں امیر معاویہ کے گورنر ہی حضرت علیؓ پر سب و شتم کرتے اور حجر بن عدی احتجاج کرتے ہوئے جواباً ایسی باتیں کرتے ۔ ------------------------------------------- اعتراض باغی کی تعریف بھی آپ اپنی من پسند پیش کریں اور اپنے اسی ابومخنف کی روایات کے مطابق پرکھ لیں۔ اس سب کے باوجود جنابِ حجر کا اپنی بیعت پر قائم رھنے کا دعوٰی کیا وزن رکھتا ھے؟ ہاں وہ تجدید بیعت کرتے تو اور بات ھوتی۔ جواب : فقہائے اَحناف کے ہاں بغاوت کی تعریف فقہائے احناف میں سے ایک نمایاں نام علامہ ابن ہمام (م 861ھ) کا ہے۔ انہوں نے فتح القدیر میں بغاوت کی سب سے جامع تعریف کی ہے اور باغیوں کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : والباغی فی عرف الفقهاء : الخارج عن طاعة إمام الحق. والخارجون عن طاعته أربعة أصناف : أحدها : الخارجون بلا تأويل بمنعة وبلا منعة، يأخذون أموال الناس ويقتلونهم ويخيفون الطريق، وهم قطاع الطريق. والثاني : قوم کذلک إلا أنهم لا منعة لهم لکن لهم تأويل. فحکمهم حکم قطّاع الطريق. إن قتلوا قتلوا وصلبوا. وإن أخذوا مال المسلمين قطعت أيديهم وأرجلهم علي ما عرف. والثالث : قوم لهم منعة وحمية خرجوا عليه بتأويل يرون أنه علي باطل کفر أو معصية. يوجب قتاله بتأويلهم. وهؤلاء يسمون بالخوارج يستحلون دماء المسلمين وأموالهم ويسبون نساء هم ويکفرون أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . وحکمهم عند جمهور الفقهاء وجمهور أهل الحديث حکم البغاة.... والرابع : قوم مسلمون خرجوا علی إمام ولم يستبيحوا ما استباحه الخوارج، من دماء المسلمين وسبی ذراريهم وهم البغاة. ابن همام، فتح القدير، 5 : 334 ’’فقہاء کے ہاں عرف عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔ حکومت وقت کے نظم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں : ’’پہلی قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو طاقت کے بل بوتے یا طاقت کے بغیر بلاتاویل حکومت کی اتھارٹی اور نظم سے خروج کرنے والے ہیں اور لوگوں کا مال لوٹتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور مسافروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، یہ لوگ راہزن ہیں۔ ’’دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس غلبہ پانے والی طاقت و قوت تو نہ ہو لیکن مسلح بغاوت کی غلط تاویل ہو، پس ان کا حکم بھی راہزنوں کی طرح ہے۔ اگر یہ قتل کریں تو بدلہ میں انہیں قتل کیا جائے اور پھانسی چڑھایا جائے اور اگر مسلمانوں کا مال لوٹیں تو ان پر شرعی حد جاری کی جائے۔ ’’تیسری قسم کے باغی وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت و قوت اور جمعیت بھی ہو اور وہ کسی من مانی تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کا یہ خیال ہو کہ حکومت باطل ہے اور کفر و معصیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کی اس تاویل کے باوجود حکومت کا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر خوارج کا اطلاق ہوتا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور ان کے اموال کو حلال قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کی عورتوں کو قیدی بناتے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرتے تھے۔ جمہور فقہاء اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کا حکم بھی خوارج اور باغیوں کی طرح ہی ہے۔۔۔۔ ’’چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے حکومتِوقت کے خلاف مسلح بغاوت تو کی لیکن ان چیزوں کو مباح نہ جانا جنہیں خوارج نے مباح قرار دیا تھا جیسے مسلمان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قیدی بنانا وغیرہ۔ یہی لوگ باغی ہیں۔‘‘ چلیں سعیدی صاحب میں نے تعریف لکھ دی ہے آپ جن چاروں اقسام میں سے چاہیں حجر بن عدی کی بغاوت لکھ دیں اور پھر اسے ثابت کریں ۔ ------------------------ اعتراض اور اگر مخالف شہادت پر نقصان پہنچنے کی بات ھے تو قاضی شریح کا کسی نے کیا بگاڑا؟ اگر قاضی کی شہادت میں اس کا اپنا مشاھدہ تھا اور دوسروں کے مشاھدہ کی نفی نہیں تھی۔ جواب جناب سعیدی صاحب قاضی شریح کا کوئی کسی نے کچھ نہیں بگاڑا تھا ۔ مگر آپ کے زیاد نے اس شہادت نامے میں قاضی شریح کی اپنی طرف سے جھوٹی گواہی درج کر کے امیر معاویہ کو روانہ کر دی تھی ۔ جس کی تردید خود قاضی شریح نے کی جو غیر جانب دار بندہ تھا ۔ اور پھر اس کے علم میں تھا کہ زیاد یہ ظلم عظیم کر رہا ہے اس لیے اس نے خود اپنی طرف سے لکھ کرانہیں لوگوں کو دیا جو یہ جھوٹ کا پلندہ لے جا رہے تھے اور لکھا کہ: " حجر کا مال اور خون حرام ہے " ------------------------- اعتراض: اخبارالطوال والے دینوری کو تنقیح المقال والے نے شیعہ لکھا ھے، اور جناب اس کی تردید کے گراؤنڈز پیش کریں۔ جواب سعیدی صاحب حسب ضرورت میں ان کے سنی ہونے کے ثبوت دے پیش کر دوں گا ۔ ---------------------------- اعتراض قاتلینِ عثمان پر لعنت کو حضرت علی پر لعنت و سب وشتم قرار دینے والے مہربانوں کا پتہ بھی چل گیا۔ اور حضرت علی پر معاویہ کی سب وشتم اور لعنت بھیجنے کی حقیقت بھی سامنے آ گئی جواب جناب سعیدی صاحب آپ کس نگر میں آباد ہیں جنابِ امیر معاویہ حضرت علیؓ کو بھی قاتلین حضرت عثمان غنیؓ میں شمار کرتے تھے ۔ ورنہ حضرت علیؓ سے قصاص کا مطالبہ ہی کیوں کرتے جو کہ سرا سر غلط تھا ۔بحثیت خلیفہِ وقت تو مطالبہ ہی نہیں کر رہے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ قاتلین عثمان ہمارے حوالے کیے جائیں یا انہیں قتل کیا جائے ۔ اصل میں یہ تو اک بہانہ تھا ۔ پھر میں لکھ چکا ہوں کہ معاویہ کے گورنر حضرت علیؓ کو گالیاں دیتے تھے اور لعنت کرتے تھے جس کے احتجاج میں حضرت حجر بن عدیؓ جواب دیتے تھے ۔ مغیره بن شعبه و لعن و سب حضرت علیؓ كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له . تاريخ ابن خلدون ، ج3 ص13 المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن محمد، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (المتوفى: 808هـ)، المحقق: خليل شحادة، الناشر: دار الفكر، بيروت، الطبعة: الثانية، 1408 هـ - 1988 م، عدد الأجزاء: ------------ 2 لَمَّا بُويِعَ لِمُعَاوِيَةَ بِالْكُوفَةِ أَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَلْعَنُونَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ السنة لابن أبي عاصم ج 2 ص 618 ش 1427 المؤلف: أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ)، المحقق: محمد ناصر الدين الألباني، الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400، عدد الأجزاء: 2. ------------------------ 3 ثُمَّ صَعِدَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ وَقَعَ فِي عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ... المعجم الكبير ج 3 ص 71 ش 2698 المؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ)، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة، الطبعة: الثانية، عدد الأجزاء:25 ---------------
  3. قادری سلطانی صاحب کیا کتابت کرتے تھے ؟ اور جہاں تک صحابی کی بات ہے تو جناب یہ بھی صحابی ہی تھے ۔
  4. قادری سلطانی صاحب آپ قلابازیوں پی قلابازیاں لگا رہے ہیں ۔ پہلے آپ نے یہ پرزور اصرار کیا تھا پڑھیں جب بنو امیہ کے الفاظ احادیث سے ثابت ہو گئے تو اب استثنی پر مدھانی ڈال دی اور لکھا کہ تو پڑھیں حضرت ؑ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس لیے استثنی حاصل ہے کہ وہ خلیفہِ راشد ہیں ۔ وہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔ اسی طرح سیدہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر بن ععبدالعیزؓ کے بارے میں بے شمار احادیثِ صحیحہ موجود ہیں ۔ اس لیے ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کو ان جیسے باقی دیگر بنو امیہ کے وہ اصحاب جن کے بارے میں احادیث صحیحہ موجود ہیں ان کو ان احادیث سے مستثنی سمجھا جائے گا ۔ اب ہر ایک احادیث میں پیش نہیں کر سکتا وہ آپ خود زحمت فرمائیں گے ۔ ---------------------------------
  5. اب آپ اتنے بھی بچے نہیں ہیں کہ آپ کو علم نہ ہوں کہ استثنیٰ کیسے حاصل ہے اگر مذید تسلی کرنا ہے تو لفظ مولا کے معنیٰ آقا کے بارے انبیاء کیسے مستثنیٰ ہیں وہ میں نے پوسٹ لگائی ہے وہاں سے پڑھ کر خود اخذ کر لیں ابھی اس وقت بنو امیہ کے بارے مذید پڑھیں ۔ اگر آپ استثنی کا انکار کرتے ہیں تو کنزالعمال پر اور دیگر پر فتوی لگا دیں ، میں بالکل انکار نہیں کروں گا ۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اب آپ آئیں بائیں اور شائیں نہ کریں تو اور کیا کریں ۔ یہ معاویہ رضا آپ سب محبان کو لے ڈوبے گا ۔
  6. قادری سلطانی صاحب ان احادیث سے سیدنا عثمان غنیؓ ، حضرت سیدہ ام المؤمنین ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کو استثنیٰ حاصل ہے ۔ اور بنو امیہ کے جو باغی اور ظالم ہیں وہ سب ان احادیث سے مراد ہیں ۔ قادری سلطانی صاحب اب اگر آپ اجازت دیں اور میری پوسٹیں ڈیلیٹ نی کرنے کا لکھیں تو میں باغیوں اور ظالموں کی نشان دہی کر دیتا ہوں ۔ یہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ۔ باقی سند درست ہے وہ کتاب سے ہی ثابت ہے ۔ پھر کنزالعمال کی کتاب خاص کر بریلوی حضرات کے نزدیک با اعتماد کتاب ہے ۔ -----------------------------------
  7. قادری سلطانی صاحب حدیث صحیح ہے ۔پڑھو لو اعتراض کا رد ہو گیا ہے جو سوئے حفظ کا اعتراض تھا اس پر بخاری اور ترمذی کی تصدیق آ چکی ہے ۔ اور آپ کے مطالبہ پر اگلا صفحہ لگا دیا ہے اور وہاں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امیر معاویہ جس کو مجتہد اور ہادی مہدی تک کہا جاتا ہے انہوں نے اپنے بیٹے کی بیعت کفار ہرقل اور قیصر کی سنت پر لی ہے ۔ یہ کہ خلفائے راشدین کی سنت پر --------------------------
  8. انسان کو کسی حالت میں بڑے بول نہیں بولنے چاہیے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اب جو حوالہ پیش کر رہا ہوں وہ اس حدیث کی کتاب کا ہے جس سے فتاویٰ رضویہ بھرا پڑا ہے ہر دوسرا تیسرا فتوی کنزالعمال کی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے دیا گیا ہے ۔ لہذا اسناد پر زیادہ شور نہ کیا جائے ۔ کسی بھی وقت سب کچھ ثابت ہو جائے گا ، ان شاء اللہ اور پڑھیے
  9. میرا کام ہے آپ کے آپ کے خاندان کے ظالم اقو قاتل دیکھانا ، اور حدیث صحیحہ پیش کرنا اب قادری سلطانی صاحب اگر حق ماننا آپ کے مقدر میں نہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ یہی کہ میں صحیح احادیث آپ کو پڑھاتا رہوں ۔ کرم آقاﷺ کے فرمان مباری کی روشنی میں صاف صاف بنو امیہ کے بغض اورقاتل ہونے کی نشان دہی ہے ۔ ---------------------------------------
  10. قادری سلطانی صاحب آپ دوھد پیتے معصوم سے بچے ہیں کہ پیر نصیر الدین نصیر صاحب کی کتاب کی حدیث میں کیا لکھا ہے چلیں بچہ صاحب مین پڑھ کر آپ کو سمجھتا ہوں ۔ کریم آقاﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے اہل بیت کو قتل کیا جائے گا اور سخت تشدد کا سامنا ہو گا ۔ اور بے شک ہماری قوم سے بنو امیہ اور بنو مخزوم ہمارے ساتھ بغض میں سخت ہیں ۔ قادری سلطانی اس حدیث میں تو کریم آقاﷺ نے صرف بنو امیہ کو ہلاک کرنے والا کہا مگر اس حدیث میں دوٹوک واضح فرمایا کہ میرے بعد میرے اہل بیت کو قتل کیا جائے گا ۔ اور ہم سے بغض رکھنے میں بنو امیہ اور بنو مخزوم بہت سخت ہیں یعنی کہ یہی میرے بعد میرے اہل بیت کو قتل کرے گا اور تشدد کرے گا ۔ اب تو بنو امیہ پر مہر لگ گئی ہے ڈئیر قادری سلطانی جی --------------------------------
  11. جناب سعیدی صاحب کا اعتراض اعتراض یہ ہے کہ یہ قول " ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع) کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں " جناب محترم سعیدی صاحب اب جواب پڑھیں اور (کان شدید التشیع) کو حافظ ابن حجر عسقلانی کا قول ثابت کریں ۔ ----------------- 705- "د ت ص - أبو عبد الله" الجدلي1 الكوفي اسمه عبد بن عبد وقيل عبد الرحمن بن عبد روى عن خزيمة بن ثابت وسلمان الفارسي ومعاوية وأبي مسعود الأنصاري وسليمان بن صرد وعائشة وأم سلمة وعنه أبو إسحاق السبيعي وإبراهيم النخعي قال أبو داود لم يسمع منه وعامر الشعبي ومعبد بن خالد الجدلي وسمرة بن عطية وعطاء بن السائب وعمرو بن ميمون الودي على خلاف فيه قال حرب بن إسماعيل قيل لأحمد بن حنبل أبو عبد الله الجدلي معروف قال نعم ووثقه وقال ابن أبي خيثمة عن ابن معين ثقة قلت وذكره ابن حبان في الثقات وقال روى عنه الحكم بن عتيبة وقال العجلي بصري تابعي ثقة وقال ابن سعد في الطبقة الأولى من أهل الكوفة اسمه عبد بن عبد بن عبد الله بن أبي العمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن واثلة بن عمرو بن رماح بن يشكر بن عدوان بن عمرو بن قيس عيلان بن مضر يستضعف في حديثه وكان شديد التشيع ويزعمون أنه على شرطة المختار فوجهه إلى بن الزبير في ثمان مائة من أهل الكوفة يمنعوا محمد بن الحنفية مما أراد به ------------------- كتاب تهذيب التهذيب [ابن حجر العسقلاني] کتاب لنک https://al-maktaba.org/book/3310/5869 --------------------------- جناب سعیدی صاحب میں نے بار بار عرض کیا کہ یہ الفاظ " (کان شدید التشیع) " حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے نہیں ہیں ، نہیں ہیں نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی جو بات " تقریب میں (رمی بالتشیع) " یعنی الزام ہے درست اور سچی بات ہے کہ یہ واقعی ہی الزام ہے ۔ مگر آپ لوک کسی طور بھی ماننے کو تیار نہیں تھے ۔ اگر یہ الزامات درست ہوتے تو البانی جیسا بندہ اس حدیث کو کبھی حدیثِ صحیحہ نہ لکھتا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے آپ کے غلط اعتراض کا رد کر دیا ہے ۔ اب میری پیش کردہ حدیث کو حدیث صحیح مانیں امید ہے آپ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی نئی غلطی نہیں کریں گے ۔ ---------------------------- ------------------------------
  12. اس لیے کہ اہل حدیث وہی ترجمہ کر رہے ہیں جو آج کا کوئی بھی ناصبی پسند نہیں کرتا میں نے مختلف تراجم پڑھے سب سے زیادہ ڈنڈی بریلوی مترجمین نے ماری ہے ۔ میں نے کچھ دن پہلے لفظ مولی کا ترجم دیکھا جو اھل حدیث نے کمال کا انصاف کیا ، حدیث کے مطابق جو اس کا معنی بنتا تھا وہی اردو ترجمہ کیا پھر میں نے بریلوی ترجمہ پڑھا ظالم بہت بڑی ڈنڈی مار گیا اور جہاں اردو ترجمہ لکھنا تھا وہاں وہی عربی لفظ لکھ گیا ۔ اگر قادری سلطانی صاحب آپ اس ترجمہ کو صحیح نہیں مانتے تو وہ خاندان قریش بتا دو جس نے اہل بیت اور محبان اہل بیت کا قتل عام کیا ؟ اخر وہ کونسا خاندان ہے؟ کوئی تو ہے نا؟ یا کوئی بھی نہیں ، امید ہے آپ جواب لکھ دیں گے َ اور پلیز غصے میں کچھ غلط نہ لکھا کریں ۔ صبر اور تحمل سے کام لیں ۔ ------------------------------ ------------------------
  13. قادر ی سلطانی صاحب اتنا بھی محب بنو امیہ نہ بنو ۔ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بنو امیہ سے جو مجھے ورثہ میں ملی ہو ۔ یہ کریم آقاﷺ کا فرمان مبارک ہے اور اس سے مراد بنو امیہ نہیں تو دوسرا قریش کا کونسا خاندان ہے جس نے اہل بیت اور ؐجبان اہل بیت کا قتل عام کیا ؟ اسی پر باز آجاو ، آپ لوگ اپنی جانوں پر کیوں ظلم عظیم کر ہے ہو ۔ احادیث صحیحہ کا انکار صرف صرف آج کا بریلوی ہی کیوں کر رہا ۔ اسی کو ہضم کرو ، ورنہ مجھے بنو امیہ کا مکمل شجرہ قرآن و تفاسیر سے پیش کرنا پڑے گا ۔ ----------------------
  14. قاتل خاندان سے الگ رہنے کا حکملمحہِ فکریہ !فرمانِ رسولﷺکریم آقاﷺنے صحابہ سے فرمایا کہ قریش کا یہ خاندان یعنی بنو امیہ لوگوں کو ہلاک کرے گا تمہارے لیے بہتر ہے ان سے الگ رہنا۔ تم 7 محرم الحرام کو شہادت امام حسین علیہ السلام کے مہینے اپنے بیٹوں کا نام نبی کریمﷺ کے بیٹے کے قاتل یزید پلید کے باپ کے نام پر " معاویہ رضا " رکھو ۔ یہ اُمت خوب صلہ دے رہی ہے اپنے نبیﷺ کو اور ان کی آل کو ۔۔۔ یوں ہی جاری رکھو قادر سلطانی صاحب -----------------------------------
  15. میرے علم میں پہلے ہی تھا ۔ میں کئی سالوں سے تمہیں جانتا ہوں ۔
  16. رافضی کی تعریف کر مفتی امجد علی اعظمی نے فقط لکھا کہ انبیاء و ملائکہ کے علاوہ کسی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا کہنا نہیں چاہئے“۔ اور تیرے پیرو مرشد الیاس عطار نے اس کلمہ " علیہ السلام " کو ”کفریہ کلمات“ کتاب میں لکھ مارا ۔ اور ان محرم الحرام کی 7 کو پوتے کو معاویہ رضا نام رکھ دیا ۔ اب بتا میں رافضی ہو یا تم ناصبی ہو بننا پہلے کی طرح ۔۔ نہ بننا اور جواب لکھنا کہ کیا سیدہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا امام حس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام اور امت مسلمہ کے پیرو مرشد سیدنا امام علی علیہ السلام لکھنا کفریہ کلمات ہیں کیا ؟ اس کا جواب تم جاہل پر ادھار رہے گا ۔ ---------------------------
  17. اعتراض: آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔ ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ نے اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ: میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر ابن عدی اور اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے جواب جناب سعیدی صاحب یہ بھی میں نے خود ہی لکھا کہ : جناب سعیدی صاحب آپ نے اپنے مطلب بات لکھ دی کہ میں نے خود لکھا ، یہ بھی میں نے خود لکھا کہ بارہ افراد شہادت کے لیے ابن زیاد نے خود بلائے ۔ اور چار حکومتی رئیس تھے ۔ آپ کا پیش کردہ شہادتی بھی حکومتی رکن ہے ۔ اور جناب حجر بن عدیؓ کی بار بار دھرائی جانے والی بات آپ کو کہیں نظر نہیں آ رہی کہ : " جب وہ(حجر بن عدی) زیاد کے پاس سے بھیج دئیے گئے تو کہنے لگا قسم بخدا اگر امان نہ دہ ہوتی تو یہاں سے وہ ہل نہ سکتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس کی جان نکال لی جاتی ۔قسم بخدا اس کی گردن کاٹنے کے لیے میرا جی لوٹ رہا ہے ۔ تو جنا سعیدی صاحب اس وقت حجر بن عدی نے کہا : " انہوں نے (حجر بن عدی) نے بلند آواز سے پکار کر کہا : بار الہا میں اپنی بیعت پر قائم ہوں نہ میں اسے چھوڑوں گا ۔ نہ چھوڑنا چاہتا ہوں یہ محض خدا و خلق خدا کی اطاعت کے لیے " جناب یہی بات حجر بن عدی نے امیر معاویہ کو پیغام میں کہی ، یہی بیعت پر قائم رہنے کی بات قتل سے پہلے کہی ۔ کیا کوئی باغی یوں بار بار اپنی بیعت پر قائم رہنے کی دہائی دیتا ہے وہ بھی حجر بن عدی جیسا جو کہ مولا علیؓ کا ساتھی اور محب ہو ۔ ------------------------- اعتراض: " آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔ کہنے لگے ۔ خدا وندا عثمان بن عفانؓ پر رحم کر اُن سے در گزر کر عمل نیک کی انہیں جزا دے اور اُن کے قاتلوں پر بدعا کی یہ سن کر حجر بن عدیؓ اُٹھ کھڑے ہوئے مغیرہؓ کی طرف دیکھ کر اس طرح اک نعریہ بلند کیا ۔ کہ مسجد میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اور جو باہر تھے سب نے سنا۔ جواب سعیدی صاحب یہ روایت آپ کے سب سے ناپسندیدہ راوی ابو مخنف سے منقول ہے۔ اگر اس کی نہیں تو راوی پیش فرما دیں ۔ --------------------------------- اعتراض آپ نے خود ہی نقل کیا ہے کہ حجر بن عدی حکمرانی کا حق صرف آل ابوطالب کیلئے مانتا تھا،اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خلفاء ثلاثہ سے بھی بغاوت رکھتا تھا۔ جواب: جناب سعیدی صاحب بہت سے صحابہ کرام حضرت علیؓ کو خلیفہِ اول ہونے کا مانتے اور عقیدہ رکھتے تھے ۔ اور وہ بھی ہیں جبہوں نے کبھی بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلافت کو نہیں مانا ، نہ ہی بیعت کی کیا وہ باغی ٹہرائے جائیں گے ۔ یہاں تو حجر بن عدی خود بار بار کہ رہے ہین کہ مین بیعت پر قائم ہوں ۔اور نہ ہی توڑنا چاہتا ہوں ۔ اعتراض " شیعہ مؤرخ دینوری لکھتا ہے " جواب دینوری ہرگز شیعہ نہیں اہل سنت ہے اعتراض " شیعہ مؤرخ دینوری لکھتا ہے کہ اس نے صلح حسن پر امام حسن کو شرم دلائی تھی ،پھر امام حسین کے پاس گیا وہاں سے بھی جواب ملا۔پس وہ حسنین کریمین کی صلح کا بھی باغی تھا۔ " جواب جناب سعیدی صاحب لکھ امام حسن رضی اللہ عنہ کے بہت سے ساتھیوں نے صلح معاویہ پر اعتراضات کیے تھے ، مگر بعد میں حجر بن عدی نے بیعت کر لی تھی ، اور اہل بیعت ہرگز حجر بن عدی سے ناراض نہیں تھے ۔ ورنہ آج حجر بن عدی شہیدِ اہل بیت ہرگز نہ کہلاتا ،پھر ایسی باتوں سے بغاوت ثابت نہیں ہوتی ۔ باغی کی اک مکمل تعریف ہے جب تک کوئی بھی فسادی ڈاکو یا راہزن اس جامع مکمل تعریف پر پورا نہیں اترتا وہ ہرگزہرگز باغی نہیں کہلا سکتا ۔ اعتراض : "علی کی شتم و ذم نہ چھوڑنا کی روایت آپ نے جہاں سے لی ہے وہیں لوط بن یحییٰ کی شخصیت بطورراوی جلوہ گرہے،اور وہ جلا بھنا شیعہ ہے" ۔ جواب: میرے پاس معاویہ کی گالیوں کی صحیح روایات موجود ہیں آپ اس کی ہرگز فکر نہ کریں ۔ آپ کے اعتراضات ختم ہوئے ۔ -------------------------------- سب سے اہم ترین گواہی جو کہ شریح بن ہانی کی ہے انہوں نے کہا کہ : " حجر بن عدی کے باب میں میری شہادت یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے والوں میں ہیں ۔ ان کا خون بہانا اور مال لینا حرام ہے ، اب چاہو تو قتل کرو یا چھوڑ دو " ------------------------ جناب محترم سعیدی صاحب باغی کی مکمل اور جامع تعریف لکھیں ؟ جناب سعیدی صاحب کیا یہ شہادتیں اسلامی قانونِ شہادت کے مطابق ہوئیں ؟ ---------------------------
  18. جناب سعیدی صاحب میں نے بالکل وہ قول آپ کی طرف منسوب نہیں کیا ۔ وہ عام روٹین میں لکھا کہ یہ آپ کے مسلسل خلفاء کی تعداد بارہ مکمل ہو گئی ۔ اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ آپ مسلسل خلفاء کی بات کر رہے تو پھر میں اسی کو زیر بحث لاتا ۔ جب بار بار کہنے کے باوجود آپ کے دوٹوک موقف سامنے نہیں آ رہا تھا تب ہی تو اتنا کچھ لکھنا پڑا۔ اب آپ کا دو ٹوک موقف آ گیا ہے کہ امیر معاویہ خلیفہ ہیں ۔ عادل ہیں اور قیامت تک کے عادل بارہ خلفاء میں شامل ہیں جناب سعیدی صاحب کیا میں نے آپ کا موقف صحیح سمجھا ؟ ------------------
  19. بہتر ہو گا کہ خود بھی اپنا خیال کریں اور مجھے بھی بداخلاقی پر مجبور نہ کریں ۔ انسان کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ۔ ایسی باتیں انسان ٹاپکس پر پوسٹیں لگا کر تب کرتا ہے اگر پلے کچھ نہ کچھ ہو ۔ امید ہے آپ غعر فرمائیں گے ۔ -------------------------------------
  20. قادری سلطانی صاحب میں نے ایسے ہی نہیں لکھا تھا کہ اس فورم پر سب سے بڑی بڑی باتیں فقط آپ کرتے ہیں لیکن پلے کچھ بھی نہیں ہے ۔ قادری سلطانی صاحب آپ ہی ہمت کر کے لکھ دیں کہ اگر یہ قول ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ " تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں" ۔ ابن حجر عسقلانی کا ثابت نہ ہوا تو پھر آپ کیا کریں گے ۔ چلیں لکھ دیں ۔ ذرا سی بات ہے ۔ ----------------------------
  21. جناب سعیدی صاحب اللہ اور اللہ کے رسولﷺ گواہ ہیں اور جانتے ہیں کہ حق کیا ہے ۔ مجھے آج نہیں تو کل مرنا ہے اور ہر عمل کا مجھے جواب دینا پڑے گا ۔ آپ پڑھتے آئیں اور آخر میں فیصلہ کیجے گا کہ کیا حضرت حجر بن عدی واقعی باغی تھے ؟ اگر باغی تھے ، تو اس باغی نے امیر معاویہ کے آخری پیغام پر علیؓ پر لعنت کر کے اور گالیاں دے کر جان کیوں نہیں بچائی ؟ اور شریح بن ہانی نے اس باغی کے حق میں کیوں گواہی دی؟ اور کیا جو باغی اقرار کر رہا ہو کہ میں بیعت پر قائم ہوں پھر بھی اسے سزا دی جائے گی ؟ اگر باغی تھا بھی تو کیا حجر بن عدی جسے باغی کی سزا شریعت میں قتل تھی ؟ پڑھیے ۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ: " اُم امؤمنین حضرت عائشہؓ کو جب معلوم ہوا کہ حجر مع چند لوگوں کے گرفتار ہو کر شام بھیجے گئے ہیں تو جنابِ موصوفہ نے عبدالرحمٰن بن الحرث کو امیر معاویہ کے پاس سفارش کے لیے روانہ کیا ۔ لیکن یہ لوگ اس وقت دمشق پہنچے جب کہ حجر مع ساتھیوں کے قتل ہو چکے تھے۔ عبدالرحمٰن نے امیر معاویہ سے کہا: " کیوں معاویہ حجر کے قتل کے وقت ابوسفیان کا حلم کہاں غائب ہو گیا تھا " ۔ امیر معاویہ نے جواب دیا: جہاں تم جیسے قوم کے حلیم غائب ہو گئے تھے اور مجھ کو اس امر پر ابنِ سمیہ(زیاد) نے آمادہ کیا تھا اسی وجہ سے میں حجر کے قتل پر تل گیا۔ اُم امؤمنین حضرت عائشہؓ کو حجر کے قتل کا مدتوں افسوس رہا " ۔ ابنِ خلدون پھر لکھتا ہے: لوگوں نے حجر کے قتل کے اسباب بیان کرتے ہوئے یوں بھی بیان کیا کہ: ایک مرتبہ زیاد نے جمعہ کے دن بہت بڑا خطبہ پڑھا جس سے نمازِ اوّل کا وقت جاتا رہا حجر کو یہ فعل ناگوار گذرا ، چلا کر بولے الصلوٰۃالصلوٰۃ زیاد کچھ متوجہ نہ ہوا تب انہوں نے نماز کے بےوقت ہونے کے ڈر سے ایک مٹھی کنکریاں اٹھا کر زیاد کی طرف پھینکی اور نماز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ ساتھ ہی حاضرین بھی اٹھے، زیاد نے یہ دیکھ کر ممبر سے اتر کر نماز پڑھی اور امیر معاویہ کو حجر کی بہت شد و مد سے شکایت لکھ کر بھیج دی۔ امیر معاویہ نے حکم بھیجا کہ حجر کو پابہ زنجیر گرفتار کر کے بھیج دو۔ پس زیاد نے سپاہیوں کو حجر کے گرفتار کرنے کو بھیجا، بالاآخر حجر مع ان لوگوں کے جنہوں نے حجر کی ہمدردی اور اعانت کی ۔ گرفتار کر کے امیر معاویہ کے پاس بھیج دئیے گئے ۔ امیر معاویہ نے حجر کے قتل کا حکم دیا ۔ حجر نے دورکعت نماز پڑھی اور حاضرین کو وصیت کی کہ: " میری بیڑیاں اور ہتھکڑی نہ اتارنا نہ میرے خون کو دھونا میں کل قیامت میں معاویہ سے اسی حالت میں ملوں گا " تاریخ ابنِ خلدون (حصہ دوم) خلافتِ معاویہ و آلِ مروان ،صفحہ نمبر / 491 ------------------ ------------------------------------------
  22. آج تقریباً چار پانچ دن آپ جان بوجھ کر یہ کھیل کھیل رہے ہیں ۔ جو حوالہ دیا جائے اگر اسی وقت اس کی کتاب پیش کر دی جائے تو یہ پریشانی نہ ہو شاید آپ کتاب اسی لیے پیش نہیں فرماتے چلیں سعیدی صاحب اگر آپ اس کو امام ابن حجر عسقلانیؒ کا قول ثابت نہ کر سکے تو پھر ؟ -------------------------------
  23. --------------------------- جناب محترم سعیدی صاحب میں کبھی بھی اور کسی بھی ٹاپک کر اپنا عقیدہ صاف، واضح اور دو ٹوک بیان نہیں کر رہے ، آپ کی کیا مجبوری ہے میں نہیں سمجھ پا رہا ۔ میں نے تین کتابیں پیش کی جس میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں امیر معاویہ کو خلیفہِ راشد لکھا گیا ۔ میں نے سوال کیا تھا کہ کیا امیر معاویہ خلیفہ راشد ہیں ، جس کا جواب فقط اتنا تھا کہ ہاں خلیفہِ راشد ہیں ۔ یا نہیں خلیفہِ راشد نہیں حالانکہ کہ عقیدہ مراد کسی شے کی ایسی تصدیق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔ مگر جناب آپ کبھی ایک تاویل پیش فرماتے ہیں کبھی دوسری جبکہ میں بار بار پوچھ رہا کہ کیا امیر معاویہ خلیفہِ راشد تھے یا نہیں ؟ آب آپ نے یہ جملہ میرے سامنے رکھ دیا کہ : " کیا (یعمل بالھدیٰ و دین الحق) سے آپ کو جواب نہ ملا تھا؟ " پہلے آپ نے لکھا کہ امیر معاویہ بارہ خلفاء عادل خلفاء میں شامل ہیں اور وہ بھی راشد ہی سمجھے جاتے ہیں ، کی طرح یا اس سے ملتے جلتے الفاظ استعمال کیے ۔ اور ساتھ ہی دوکتابوں الصواعقِ محرقہ اور تاریخ الخفاء کے نام لکھ ڈالے ۔ جناب محترم سیعدی صاحب عقائدِ اھل سنت خیالات سے نہیں بلکہ قرآن و احادیث صحیحہ ، اجماع یا جمہور اہل سنت کی آراء پر قائم ہیں ۔ میں آپ ہی کی لکھی ہوئی کتاب " تاریخ الخلفاء " آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ۔ اس کے جتنے صفحات ہیں ان کو پڑھ لیں ، سوچ لیں اور کسی بھی ایک بات کو دوٹوک عقیدہ بنائیں اور لکھیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے ۔ اور اس کتاب کے مترجم بھی بہت بڑے پکے اور سچے بریلوی ہیں آپ کو بات سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی ۔ صفحہ نمبر/ 120 پر صاف اور دوٹوک لکھا ہے کہ: " حضرت علیؓ کے دور خلافت میں جنگِ صفین ( حکمین فی صفین ) کا واقعہ پیش آیا اور امیر معاویہ نے اسی دن اپنے آپ کو خلیفہ موسوم (نامزد) کیا " آگے اسی صفحہ نمبر/120 پر لکھتے ہیں کہ : " اس طرح خلفائے راشدین کے بعد مندرجہ ذیل سات خلفاء ہوئے ہیں ۔ ( اُن سات خلفاء میں (1): خلیفہ امیر معاویہ (2):خلیفہ یزید (3): خلیفہ عبدالملک بن مروان (4): خلیفہ ولید بن عبدالملک (5):خلیفہ سلیمان بن عبدالملک (6): یزید بن عبدالملک (7) خلیفہ ہشام اس طرح کل تعداد گیارہ ہو گی، بارھویں خلیفہ ولید بن یزید بن عبدالملک ہے ۔ لیجے جناب سعیدی صاحب یہاں پر آپ کے 12 مسلسل خلفائے راشدین یا عادلین کی تعداد پوری ہوگی ۔ صفحہ نمبر/121 ------------------- پھر اسی صفحہ نمبر/ 121 کے آخر میں لکھا ہے کہ: بارہ خلفائے اسلام آغاز سے قیامت تک پھر صفحہ نمبر/ 122 پر لکھتے ہیں کہ: اور رسولﷺ کا یہ ارشاد کہ " ان بارہ خلفاء کی خلافت کے بعد پھر فتنہ و فساد ہو گا " اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ یہ فتنہ و فساد کا زمانہ خروج دجال سے قیامِ قیامت کا درمیانی زمانہ ہے " مصنف کا زاتی خیال لکھتے ہیں کہ : " لیکن میرا خیال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے جن بارہ خلفاء کی بابت ارشاد فرمایا ہے ۔ وہ حضرات یہ ہیں ۔ چار خلفائے راشدین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) اور امام حسنؓ ۔ (6): حضرت امیر معاویہؓ (7): حضرت ابن زبیرؓ (8) : حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ یہ جملہ آٹھ حضرات ہوئے ۔ (9): انہی خلفاء اثنا عشرہ میں خلیفۃ المہدی کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ (10): دسواں خلیفہ الطاہر کو شمار کرنا چاہیے ۔ (11) - (12) دو خلفائے منتظر " ۔ صفحہ نمبر/ 122 ------------------------- لیجیے جناب محترم سعیدی صاحب یہ بارہ وہ خلفائے راشد یا عادل ہیں جو مصنف کے ذاتی خیال سے بنائے گئے ہیں ۔ اہم نوٹ : مصنف نے صرف اک رائے کا اظہار کیا ہے ۔ اور اس رائے سے پہلے مصنف 12 خلفاء کی حدیث سے سے اصل مراد لکھ چکے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ : " اور رسولﷺ کا یہ ارشاد کہ " ان بارہ خلفاء کی خلافت کے بعد پھر فتنہ و فساد ہو گا " اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ یہ فتنہ و فساد کا زمانہ خروج دجال سے قیامِ قیامت کا درمیانی زمانہ ہے " --------------------------- جناب محترم سعیدی صاحب لیجے اب آپ کے پاس اپنے ہی حوالہ میں لگائی گئی کتاب سے تین قسم کے آپشن ہیں ان میں سے کسی ایک پر جناب امیر معاویہ کے خلیفہِ راشد ہونے بارے اپنا دوٹوک ، واضح عقیدہ لکھ دیں کہ : کیا امیر معاویہ مسلسل خلفائے راشدین و عادلین جن میں یزید بھی خلیفہِ راشد یا عادل ہے، کے ساتھ شامل ہیں ۔ یا وہ خلفائے راشدین و عادلین جو مصنف نے بارہ خلفاء کی حدیث کا مطلب و مراد لکھنے کے بعد اپنا ذاتی خیال ظاہر کیا ہے ؟ یا بقول امیر معاویہ " حضرت علیؓ کے دور خلافت میں جنگِ صفین ( حکمین فی صفین ) کا واقعہ پیش آیا اور امیر معاویہ نے اسی دن اپنے آپ کو خلیفہ موسوم (نامزد) کیا " صفحہ نمبر/120 ------------------------- جناب سعیدی صاحب اب امید ہے کہ تینوں میں کسی ایک آپشن میں سے امیر معاویہ کا خلیفہِ راشد یا خلیفہِ عادل ہونا واضح فرما دیں گے ۔ --------------------
  24. جناب سعیدی صاحب محترم آپ نے لکھا کہ ابن حجر عسقلانی نے راوی مذکور کا ثقہ ہونا ذکر کرنے کے باوجود ساتھ ساتھ تقریب میں (رمی بالتشیع) اور تہذیب میں(کان شدید التشیع)کے الفاظ بھی اس کے متعلق لکھے ہیں ۔ اب اس کو ثابت آپ نے کرنا تھا کہ ابن حجر عسقلانیؒ کا ابو عبداللہ الجدلی کے بارے (کان شدید التشیع) کا عقیدہ ہے ۔ لیکن میرے بار بار کے اصرار کے باوجود آپ کتاب سے ابن حجر کے یہ الفاظ نہیں دیکھا رہے اور مجھے کہتے ہیں کہ میں دیکھاؤں کیا آپ اصولی بات فرما رہے ہیں ، کتاب سے ابن حجر عسقلانیؒ کے یہ الفاظ دیکھانا اور ثابت کرنا آپ کے ذمہ ہے نہ کہ میرے
×
×
  • Create New...