Jump to content

Attari26

رکنِ خاص
  • کل پوسٹس

    2,710
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    13

سب کچھ Attari26 نے پوسٹ کیا

  1. سبحان اللہ جزاک دھوم ہے عطار ہر سو شاہ کے میلاد کی جھوم کر تم بھی پکارو مرحبا یا مصطفیٰ
  2. میرے پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بھی کیا خوب شان ہے کہ مختصر سا کھانا بہت سارے لوگوں نے کھالیا پھر بھی اس میںکسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی اور پھر بکری کے گوشت کی بچی ہوئی ہڈیوں پر کلا م پڑھا توگوشت پوست پہن کر بعینہ وہی بکری کان جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑ ی ہوئی۔ نیر حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے فوت شدہ دونوں مدنی منوں کو باذن اللہ عزوجل زندہ کردیا۔ ؎ مردوں کو جلاتے ہیں روتوں کوہنساتے ہیں آلام مٹاتے ہیں بگڑی کو بناتے ہیں سرکار کھلاتے ہیں سرکار پلاتے ہیں سلطان و گدا سب کو سرکا رنبھاتے ہیں حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، غزوہ تبوک میں ایک رات سرور کائنات ،شاہ موجودات، دافع آفات و بلیات ؐ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، اے بلال ! تمھارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی، حضور ! آپ کے رب عزوجل کی قسم ہم تواپنے توشہ دان خالی کئے بیٹھے ہیں۔رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم ، رسول محتشم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اچھی طرح دیکھو اور اپنے توشہ دان جھاڑو شاید کچھ نکل آئے ۔ (اس وقت ہم تین افراد تھے)سب نے اپنے اپنے توشہ دان جھاڑے تو کل سات کھجوریں برآمد ہوئیں ۔ آپ ؐ نے ان کو ایک صفحہ پر رکھ کر ان پر اپنا دست مبارک رکھ دیا، اور فرمایا ، بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ، ہم تینوں نے محبوب داورعزوجل و ؐ کے دست انورکے نیچے سے اٹھاکر خوب کھائیں، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گٹھلیاں الٹے ہاتھ میں رکھتا جاتا تھا، جب میں نے سیر ہوکران کو شمار کیا تو 54تھیں! اسی طرح ان دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی سیر ہوکر کھائیں۔ جب ہم نے کھانے سے ہاتھ روک لیا تو سرکار نامدار ؐ نے بھی اپنے دست پر انوار اٹھالیا۔ وہ ساتوں کھجوریںاسی طرح موجود تھیں! شہنشاہ خوش خصال ، سلطان شیریں مقال، پیکر حسن وجمال ، بے مثل و بے مثال ، اپنی ہر صفت میں باکمال ، محبوب رب ذوالجلال عزوجل و ؐ نے فرمایا، اے بلال! ان کو سنبھال کر رکھواور ان میںسے کوئی نہ کھائے، پھر کام آئیں گی۔ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،ہم نے ان کو نہ کھایا ، جب دوسرا دن آیا اور کھانے کا وقت ہواتو سرکار مدینہ ؐ نے وہی سات کھجوریںلانے کا حکم دیا، آپ ؐ نے پھر اسی طرح ان پر اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا ، بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ! اب ہم دس آدمی تھے سب سیر ہوگئے۔حضور تاجدار رسالت ؐ نے اپنے دست رحمت اٹھایا تو سات کھجوریں بدستور موجود تھیں۔ آپ ؐ نے فرمایا، اے بلال! اگر مجھے حق تعالی سے حیا نہ آتی تو واپس مدینہ پہنچے تک ان ہی سات کھجوروں سے کھاتے۔ پھر سرکار ؐ نے وہ کھجوریں ایک لڑکے کو عطا فرمادیں۔ وہ انھیں کھا کرجاتارہا۔ ( الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٤٥٥) رب کائنات عزوجل نے شہنشاہ موجودات ؐ کو کس قدر وسیع اختیارات سے نوازا تھا۔ سات کھجوروں میں کس قدر برکت ہوئی کہ کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے شکم سیر ہو کر تناول کیا۔ حضرت سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تاجدار مدینہ ؐ کےلئے تھوڑا سا کھانا پکایا اور دعوت عرض کرنے کے لئے حاضرہواتو آپ ؐ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرماتھے ۔ مارے شرم کے کچھ عرض نہ کرسکااور خاموش کھڑا رہا۔سرکار مدینہ ؐ نے میری طرف دیکھامیںنے اشارے سے کھانے کےلئے چلنے کی التجاء کی ، فرمایا ، اور یہ لوگ؟ میں نے عرض کی ، نہیں۔ سرکار ؐ خاموش ہوگئے اور میں اسی مقام پر کھڑارہا۔ حضورِ انور ؐ نے پھر میری طرف نظر کی۔ میں نے اسی طرح اشارۃ عرض کی۔ فرمایا، یہ لوگ؟ میں نے عرض کی ، نہیں۔ دوسر ی یا تیسری مرتبہ کے جواب میںمیں نے عرض کی، ''بہت اچھا'' یعنی ان کو بھی لے چلئے اور ساتھ یہ بھی عرض کی کہ صرف تھوڑا سا کھاناآپ ؐ کے لئے ہی پکایا ہے۔ شاہ خیر الانام ؐ ان تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف لائے ، میںنے اچھی طرح کھایا اور کھانا پھر بھی بچ رہا۔ (الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٨٢) سرور کائنات ، شہنشاہ موجودات ؐ کی ذات ستودہ صفات یقینا باعث نزول برکات ہے۔ اور آپ ؐ کے صدقے ہم پر ہر دم رحمت کی برسات ہے۔ کھانے کی قلت کے سبب فقط جان ِ رحمت ؐ کی دعوت تھی مگر مالک جنت ، قاسم نعمت ، سراپا جود وسخاوت ، محبوب رب العزت عزوجل و ؐ کی برکت سے قلیل طعام کثیر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو نہ صر ف کافی ہوگیا بلکہ بچ رہا۔ الحمدللہ عزوجل سرکار مدینہ ؐ کی شان و عظمت نشان اور آپ سے ظاہر ہونے والے معجزات کی بات ہی کیا ہے ! آپ ؐ کے غلاموں سے بھی عظیم الشان کرامات کو ظہور ہوتا ہے چنانچہ مراد آباد(الھند) میں ایک عاشق رسول ہر سال ربیع النور شریف میں دھوم دھام سے میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جشن ولادت مناتے اور زبردست محفل میلاد منعقد فرماتے، سرکا ر اعلیٰحضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمتہ الرحمن کے خلیفہ صاحب خزائن العرفان حضرت صدر الافاضل علامہ مولینا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمتہ الھادی اس میں خصوصی شرکت فرماتے تھے۔ ایک بار محفل میلاد میں معمول سے بہت زیادہ افراد آگئے ۔ اختتام پر حسب معمول پاؤپاؤ بھر (تقریباً250گرام ) کے لڈو کی تقسیم شروع ہوئی مگر وہ آدھوں آدھ کم پڑنے لگے۔ بانئی محفل نے گھبرا کر حضرت صدر الافاضل رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ماجرا عرض کیا ، آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا رومال نکال کر دیا اور فرمایا، لڈو کے برتن پر ڈالدیجئے ، اور تاکید کی کہ تبرک رومال کے نیچے سے نکال نکال کر تقسیم کیاجائے مگر برتن کھول کر نہ دیکھا جائے۔ چنانچہ خوب لڈو تقسیم ہوئے اور ہر ہر فرد کو لڈو مل گیا۔ آخر میں جب برتن کھولا گیا تو رومال اڑھاتے وقت برتن میں جتنے لڈو تھے اتنے ہیں موجود تھے (ملخصاً، تاریخ اسلام کی عظیم شخصیت صدر الافاضل ص ٣٤٣) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک غزوہ میں لشکر ِ اسلام کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ اللہ کے پیارے رسول ، رسول مقبول ، سیدہ آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول عزوجل وؐو رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا، تمھارے پاس کچھ ہے ؟میں نے عرض کی،توشہ دان میں تھوڑی سی کھجویریں ہیں۔ فرمایا، لے آؤ۔ میں نے حاضر کردیںجو کل 21تھیں۔ سرکار ؐ نے ان پر دست مبارک رکھ کر دعا مانگی پھر فرمایا، دس افراد کو بلاؤ! میں نے بلایا ، وہ آئے اور سیر ہو کر کھایا اور چلے گئے ۔ پھر دس افراد کو بلانے کا حکم دیا ، وہ بھی کھاکر چلے گئے ۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیر ہو کر کھاتے اور تشریف لے جاتے ، یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھائیں اور جو باقی رہ گئیں ان بارے میں فرمایا، اے ابوہریرہ! ان کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب چاہو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرو لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور سرور کائنات ، شاہ موجوداتؐ کی ظاہری حیات مبارکہ کے زمانے میں اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک ان ہی کھجوروں سے کھاتا ۔ اورخرچ کرتا تخمیناً(یعنی اندازاً)پچاس وسق تو فی سبیل اللہ دیں اور دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو وہ توشہ دان میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص ٨٥) وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع 270تولہ (یعنی تین سیر چھ چھٹانک ) کا ہوتا ہے اس حساب سے ان 21کھجوروں میں سے ہزار من سے زائد کھجوریں کھائی گئیں ۔ یہ سب اللہ عزوجل کی شان ِ کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب مکرم ؐ کو بے شمار اختیارت اور عظیم الشان معجزات سے نوازا ۔ یقینا سرکار دوجہاں ؐ کی شان عظمت نشان تو بہت بڑی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس خداعزوجل کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں بھوک کی وجہ سے اپنا پیٹ زمین پر رکھتا اور بھوک کے سبب پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا ایک دن میں اس راستے میں بیٹھ گیا جس سے لوگ باہر جاتے تھے۔ جان دو عالم ؐ میرے پاس سے گزرے مجھ دیکھ کر مسکرائے اور میرا چہرہ دیکھ کر میری حالت سمجھ گئے۔ فرمایا، اے ابوہریرہ ! میں نے عرض کی ، لبیک یا رسول اللہ (عزوجل و ؐ) فرمایا، میرے ساتھ آجاؤ۔ میں پیچھے پیچھے چل دیا، جب شہنشاہ بحرو بر ، مدینے کے تاجور، ساقی کوثر حبیب داورعزوجل و ؐ اپنے مبارک گھر پر جلوہ گر ہوئے تو اجازت لیکر میں بھی اندر داخل ہوگیا۔ سرور کائنات ، شاہ موجودات ؐ نے ایک پیالے میں دودھ دیکھاتو فرمایا، یہ دودھ کہاں سے آیا؟ اہل خانہ نے عرض کی ، فلاں صحابی یا صحابیہ نے آپ کے لئے ہدیۃً بھیجا ہے۔ فرمایا ، ابوہریرہ! میں عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، جاکر اہل صفہ کو بلالاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، نہ ان کو گھر بارسے رغبت ہے نہ ما ل ودولت سے اور نہ وہ کسی شخص کا سہارا لیتے ہیں۔ جب محبوب رب ذوالجلال و ؐ کے پاس صدقہ کا مال آتا تو آپ ؐ و ہ مال ان (اصحاب صفہ) کی طرف بھیج دیتے اورخود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے۔ اور جب آپ ؐ کے پاس کوئی ہدیہ آتاتو آپ ؐ ان کے پاس بھیجتے اور اس میں سے خود بھی استعمال کرتے اور ان کو بھی شریک کرتے ۔ مجھے یہ بات گراں سی گزری اور دل میں خیال آیا، اہل صفہ کا اس دودھ سے کیا بنے گا،میں اس کا زیادہ مستحق تھا کہ اس دودھ کے چند گھونٹ پیتا اور کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب اصحاب صفہ آجائیں گے تو سرکار نامدار مجھے ہی ارشاد فرمائیں گے،کہ ان کو دود ھ پیش کرو۔ اس صورت میں بہت مشکل ہے کہ چند گھونٹ مجھے میسر ہوں ۔ لیکن اللہ عزوجل اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے بغیر چارہ نہ تھا۔ میں اصحاب صفہ کے پاس گیا اور ان کو بلوایا ۔ وہ آئے ، انہوں نے شہنشاہ عرب، محبوب رب عزوجل و ؐ سے اجازت طلب کی۔ آپ ؐ نے اجازت عطافرمائی اور گھر میں حاضر ہوکر بیٹھ گئے۔ میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطفی ؐ نے فرمایا، ''ابوہریرہ !''میں عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، پیالہ پکڑو اور ان کو دودھ پلاؤ۔ '' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میںنے پیالہ پکڑا۔ میں وہ پیالہ ایک شخص کو دیتا وہ سیر ہوکر دودھ پیتا اومجھے لوٹا دیتا ۔ حتیٰ کہ میں پلاتا پلاتا آقائے نامدار ؐ تک پہنچا ۔ اور تمام لوگ سیر ہوچکے تھے۔ سرکار ؐ نے پیالہ لے کر اپنے دست اقدس پر رکھا ۔ پھر میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا، اور فرمایا،'' ابو ہریرہ ! میں نے عرض کی لبیک یا رسول اللہ (عزوجل وؐ) فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ عرض کی، یارسول اللہ عزوجل و ؐ ! آپ نے سچ فرمایا۔ فرمایا،'' بیٹھو اور پیؤ۔''میں بیٹھ گیا اور دودھ پینے لگا۔ آپ ؐ نے فرمایا، ''پیؤ!'' میں نے پیا۔ آپ ؐ مسلسل فرماتے رہے،'' پیؤ!'' حتیٰ کہ میں نے عرض کی ، نہیں ، قسم ! اس ذات کی جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اب مزید گنجائش نہیں۔ فرمایا،'' مجھے دکھاؤ''۔ میں نے پیالہ پیش کردیا۔ آپ ؐ نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی، بسم اللہ پڑھی اور باقی دودھ نوش فرمالیا۔ (صحیح بخاری ج٧ ص ٢٣٠ رقم الحدیث٦٤٥٢) الحمدللہ یہ سرکار مدینہ ؐ کا عظیم معجزہ ہے کہ تمام ستر اہل صفہ مل کر بھی دودھ کا ایک پیالہ پورا نہ پی سکے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ اسی ایمان افروز واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عرض گزار ہیں ؎ کیوں جناب بوہریرہ! تھا وہ کیسا جم شیر جس سے ستر صاحبوں کاد ودھ سے منہ پِھر گیا
  3. مشہور عاشق رسول حضرت علامہ عبدالرحمن جامی رحمتہ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں ،حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے حقیقی مدنی منوں کی موجودگی میں بکری ذبخ کی تھی۔ جب فارغ ہوکر آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو وہ دونوں مدنی منے چھری لیکر چھت پر جاپہنچے ، بڑے نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا، آؤ میں بھی تمھارے ساتھ ایسا ہی کروں جیسا کہ ہمارے والد صاحب نے اس بکری کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ بڑے نے چھوٹے کو باندھا اور حلق پر چھڑی چلادی اور سر جدا کرکے ہاتھوں میں اٹھا لیا ! جونہی ان کی امی جان رضی اللہ عنہانے یہ منظر دیکھا تو اس کے پیچھے دوڑیں وہ ڈر کر بھاگا اور چھت سے گر ااو رفوت ہوگیا۔ اس صابرہ خاتون نے چیخ وپکار اور کسی قسم کا واویلا نہیں کیا کہ کہیں عظیم الشان مہمان سلطان دو جہان، رحمت عالمیان ؐ پریشان نہ ہوجائیں، نہایت صبرو استقلال سے دونوں کی ننھی لاشوں کو اندر لاکر ا ن پر کپڑا اڑھا دیا اور کسی کو خبر نہ دی یہاں تک کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو بھی نہ بتایا۔ دل اگرچہ صدمہ سے خون کے آنسو رورہا تھا مگر چہرے کو تروتازہ و شگفتہ رکھااور کھانا وغیرہ پکایا۔ سرکار نامدار ؐتشریف لائے اور کھانا آپ ؐ کے آگے رکھا گیا۔ اسی وقت جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام نے حاضر ہوکرعرض کی ، یارسول اللہ ! عزوجل و ؐ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جابر سے فرماؤ، اپنے فرزندوں کو لائے تاکہ وہ آپ ؐ کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل کرلیں۔ سرکار عالی وقار ؐ نے حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، اپنے فرزندوں کو لاؤ! وہ فوراًباہر آئے اور زوجہ سے پوچھا ، فرزند کہاں ہیں؟اس نے کہا کہ حضور ؐ سے عرض کیجئے کہ وہ موجود نہیں ہیںسرکار ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کافرمان آیا ہے کہ ان کو جلدی لاؤ!غم کی ماری زوجہ رو پڑی اور بولی ، اے جابر! اب میں ان کو نہیں لاسکتی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟ روتی کیوں ہو؟زوجہ نے اندر جاکر سار ا ماجرا سنایا اور اکپڑا اٹھا کر مدنی منوں کو دکھایا، تووہ بھی رونے لگے کیونکہ وہ ان کے حال سے بے خبر تھے۔ پس حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دنوں ننھی ننھی لاشوں کو لاکر حضور انور ؐ کے قدموں میں رکھ دیا۔ اُس وقت گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ اللہ تعالی نے جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور فرمایا، اے پیارے حبیب! تم دعا کر وہم ان کو زندہ کردیں گے۔حضور اکر م نور مجسم شاہ بنی آدم رسول محتشم ؐ نے دعا فرمائی اور اللہ عزوجل کے حکم سے دونوں مدنی منے اسی وقت زندہ ہوگئے۔ (شواہد النبوۃ ص ١٠٥، مدارج النبوت حصہ ١ ص ١٩٩)
  4. Attari26

    شان و عظمت مصطفیٰ

    شان وعظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم امیر اہلسنت مولانا ممحمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور پر نور شافع یوم النشور ؐ کی بارگاہ ِبے کس پناہ میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ کے چہرہ انورکو متغیر پایا ۔ یہ دیکھ کر اسی وقت وہ اپنے گھر پہنچے اور اپنی زوجہ سے کہا ، میں رسول اللہ عزوجل وؐ کا چہرہ زیبا بدلا ہوا دیکھا ہے ، میرا گمان ہے کہ بھوک کے سبب سے ایسا ہے۔ کیا تیرے پاس کچھ موجود ہے ؟ جواب دیا، وللہ عزوجل اس بکری اور تھوڑے سے بچے کھچے آٹے کے سوا کچھ نہیں۔اسی وقت بکری کو ذبخ کردیا اور فرمایا کہ جلدی جلدی گوشت اور روٹیاں تیار کرو۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو ایک بڑے پیالے میں رکھ کر سرکار نامدار ؐ کے دربار گہر بار میں حاضر ہوگئے اور کھانا پیش کردیا۔ رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم شافع امم ، رسول محتشم ؐ نے ارشاد فرمایا ، اے جابر! اپنی قوم کو جمع کرلو۔ میںلوگوں کو لیکر حاضر خدمت ِ بابرکت ہوا، فرمایا ، ان کوجداجدا ٹولیا ں بناکر میرے پاس بھیجتے رہو۔ اس طرح وہ کھانے لگے۔ جب ایک ٹولی سیر ہوجاتی تو وہ نکل جاتی اور دوسری ٹولی آجاتی یہاں تک کہ سب کھا چکے اور برتن میں جتنا کھانا پہلے تھا اتنا ہی سب کے کھانے کے بعد بھی موجود تھا۔ سرکار مدینہ ؐ فرماتے تھے کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو۔ پھر آپ ؐ نے برتن کے بیچ کوہڈیاں جمع کیا اور ان پر اپنا ہاتھ مبارک رکھااور کچھ کلام پڑھا جسے میں نے نہیں سنا ۔ ابھی جس کا گوشت کھایا تھا وہی بکری یکایک کان جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ،اپنی بکری لے جاؤ! میں بکری اپنی زوجہ کے پاس لے آیا۔ وہ (حیرت سے ) بولیں ، یہ کیا ؟ میں نے کہا ، واللہ عزوجل یہ ہماری وہی بکری ہے جس کو ہم نے ذبخ کیا تھا۔ دعائے مصطفی ؐ سے اللہ عزوجل نے اسے زندہ کردیاہے! یہ سن کر ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا بے ساختہ پکاراٹھیں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ بے شک وہ اللہ عزوجل کے رسول ؐ ہیں (الخصائصٰ الکبرٰی ج ٢ ص ١١٢)
  5. میٹھے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم امیر اہلسنت مولانامحمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نہایت ہی گناہ گار تھا۔ سو سال گناہوں اور معصیت میں اس نے گزارے، جب اس کی موت واقع ہوگئی تو لوگوں تو بہت خوشی ہوئی۔(لوگ اس کے فتنہ اور فساد سے بیزار تھے)نہ اس کو کسی نے غسل دیا نہ کفن پہنایا نہ نماز جنازہ ادا کی بلکہ اس کو گھسیٹ کر کچڑا کونڈی پر پھینک دیا۔حضر ت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حضرت سیدنا جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کیا۔اے موسیٰ علیہ السلام ! اللہ تعالی آپ کو سلام فرمارہا ہے۔اور اس نے فرمایا کہ میرا ایک ولی انتقال کرگیا ہے۔ لوگوں نے اس کو کچڑا کونڈی پر ڈال دیا ہے۔ اٹھواور اس جاکر وہاں سے اٹھالاواور اس کی تجہیز وتدفین کرو اوار بنی اسرائیل کو فرماؤ کہ اسکی نماز جنازہ پڑھیں۔تاکہ اس کی نماز کی برکت سے ان کے گناہ بخشے جا ئیں۔حضرت موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بحکم رب الانام عزوجل جب اس کچڑا کونڈی کے پاس تشریف لائے تو اسے دیکھاتو یہ وہی شخص تھا جس نے سو سال نافرمانیوں میں گزارے ۔آپ کو تعجب ہوامگر اللہ عزوجل کا فرمان تھا۔چنانچہ غسل دلایا، کفن پہنایا ، نماز جنازہ پڑھ کرا س کو دفن کردیا۔پھر بارگاہ خداوندی عزوجل میں اس شخص کے بارے میںاستفسار کیا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ اے موسیٰ!(علیہ السلام ) وہ شخص واقعی فاسق و فاجر و گناہ گار تھا۔مگر اس نے ایک روز توریت شریف میںکھولی اس میں میرے حبیب ؐکا نام ِ نامی اسم گرامی محمد ؐلکھا ہوا پایااس نے اس مبارک نام کو چومااور اپنی انکھوں پر لگایا۔ اس کی یہ تعظیم و ادب مجھے پسند آگیا۔میں نے اس کے سو سال کے گناہوں کو بخش دیا۔اور اسے اپنے مقربین کی فہرست میں داخل کرلیا۔ (مدارج النبوت،نزھتہ المجالس) ؎رحمت ِحق بہا نہ می جوید رحمت حق 'بہانہ'می جوید (یعنی اللہ کی رحمت قیمت نہ مانگتی بلکہ اللہ کی رحمت کو بہانہ ڈھونڈتی ہے) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ساری عبادتیں ایک طرف اور تعظیم مصطفی ؐ ایک طرف۔ اللہ عزوجل کے حبیب ؐ کی تعظیم کرنے والا سو سالہ مجرم اللہ عزوجل کے اولیا کی فہرست میں آگیا ۔ اور اس کویہ بلند انعام ملا کہ جو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرئے اس کی بھی مغفرت کااعلان کردیا گیا۔ تو ہم کتنے خوش نصیب ہیںکہ ہمیں اس پیارے حبیب ؐ کی امت میں پیدا فرمایا۔تو ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام پاک ''محمد '' ؐ اتنا میٹھا میٹھامیٹھا میٹھا ہے کہ شہد بھی کچھ نہیں، اتنی مٹھاس ہے کہ کوئی لفظ نہیںملتاکہ جس میں اتنی مٹھاس ہو۔جتنی مٹھا س نام محمد ؐمیں ہے۔ اس نام مبارک کو کس نے رکھا؟ ان کا نام ان کے پیارے پرودگار جل جلالہ نے خود رکھا۔یہ نام آج سے نہیں بلکہ آپ کی ولادت مبارکہ سے بہت پہلے سے یہ نام رکھا جاچکا تھا۔اور اس نام نامی اسم گرامی نے جتنی شہرت پائی ہے اتنی شہرت کسی کے نام کو ملی ہی نہیں۔جیسے کسی ملک کا بادشاہ ہوتو اسے شہرت حاصل ہوتی بھی تواپنے ملک میں،پڑوسی ملک میں اس کی شہرت نہیں ہوتی۔چلئے مان لیا پوری دنیا میں حکومت اور پوری دنیا والے نام جانیں۔لیکن اس کا نام جانیں تو کب تک جانیں،جب تک وہ زندہ ہو۔ جب وہ مرجائے تو تھوڑے عرصے بعد بھول جائیں۔لیکن کسی کا نام مشہور ہوجائے تو ایسا نہیں کہ لوگوں کے دل میں اس کا احترام ہو۔لیکن اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب ؐ کے نام کو وہ عزت بخشی کہ اس نام کی تو کفار نے بھی تعظیم کی تو بڑے بڑے رتبے پائے۔ ایک یہودی نے جب توریت شریف کھولی تو اس نے اللہ کے پیارے حبیب ؐ کا نام پاک دیکھا، اس نے اس کو کھڑچ دیا۔پھر اس نے جب دوسری بار توریت شریف کو کھولا تو وہ نام مبارک چار جگہ لکھا ہوا تھا۔پھر دوسرے دن کھولا توآٹھ جگہ لکھا ہوا تھا،وہ کھرچتا گیا۔ تیسرے دن کھولاتو بارہ جگہ لکھا ہوا تھا۔وہ پریشان ہواکہ آخر کیا بات ہے۔یہ ضرور مقبول ہستی ہیں کہ ان کا نام بڑھتا چلا جارہا ہے۔میں مٹاتا ہوں تو یہ مٹنے کی بجائے اور بھی بڑھتا ہے۔ فوراً ملک شام سے مدینہ منورہ کا اس نے سفر اختیار کیاکہ اس نام والے سے ضرو ر ملنا چاہیے۔چنانچہ وہ مدینہ منورہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ جس کا نام توریت شریف میں پڑھ کر،شوق دیدار میں چلاتھا،وہ نام والے اس دنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔وصال ظاہری ہوگیا۔اس کو بڑا غم ہوا۔مولیٰ مشکل کشاء علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے محمد عربی ؐ کا لباس مبارک دکھاؤ۔جب مولی مشکل کشاء علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے لباس دیاتواس نے لباس پاک کو سونگھا اس کا بہت ادب کیا چوما آنکھوں سے لگایا۔اور سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار فائز الانوار پر حاضر ہوا۔وہاں کھڑے ہوکر اس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور مسلمان ہوگیا۔بارگاہ خدا وندی میں عرض کیا کہ مولیٰ عزوجل اگر میرا ایمان تیری بارگاہ میں مقبول ہے تو مجھے موت عطا فرمااتنا کہناتھا کہ واقعی اس کا انتقال ہوگیا۔مولیٰ مشکل کشاء علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے غسل دلاکر جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ میرے آقا میٹھے میٹھے مصطفی ؐکا مبارک نام کتنا بابرکت ہے۔کتنی عظمت والا اور کتنا مشہور ہے۔اور خاص بات یہ کہ نام بہت پرانا ہے۔اللہ تعالی نے بہت پہلے جب کوئی مخلوق پید ا نہیں ہوئی تھی۔اس وقت بھی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام محمد ؐرکھ لیا تھا۔ لیکن کسی نے یہ نام اپنی اولاد کا نہیں رکھا۔ سرکار ؐ کے ظہور سے پہلے کسی نے اپنے بچوںکانام محمد نہیں رکھا یہ نام اتنا منفرد۔ لیکن سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت شریفہ سے کچھ سال پہلے جب علماء یہودکو جب معلوم ہوا کہ اس نام کا ایک بچہ ہوگا اور وہ آخری نبی ہوگا۔یہ بشارتیں جب ان کو معلوم ہوئیںتو بعض لوگوں نے اس امید پراپنے بچوں کے نام رکھے تھے کہ شاید یہی وہ نبی ہوجائے ۔ لیکن جس کے حصہ میںتھا وہ حصہ توپہلے سے ہی مقرر ہوچکاتھا۔جسے ملنا تھا اسے تو پہلے ہی مل چکا تھا ایک روایت میں ہے کہ حضرت آدم صفی اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو شجرہ ممنوع کا پھل کھایا تھاتو اسکی ندامت میں بہت توبہ کی بہت گریہ وزاری فرمائی۔بہت روئے بہت روئے۔ یعنی جو بہت زیادہ رونے والی شخصیات میں ان کا نام سر فہرست ہے۔حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میںعرض کیا۔ یا اللہ عزوجل ! محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقے میںمیری خطا معاف فرمااور میری توبہ قبول کر۔اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ارشاد ہوا کہ تونے محمد ؐ کو کہاں سے پہچانا۔عرض کی میں نے جنت میں ہر جگہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ جل جلالہ وؐ لکھا ہوا پایا۔ میں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ضرورتیرا محبو ب ہے کہ تونے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ذکر فرمایا ہے اور یہ ساری کائنات سے افضل ہے۔اگر ان سے کوئی اور افضل ہوتا تو اس کا نام لکھتا۔ اللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبو ب ؐ کے وسیلے سے حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خطا کو بخش دیا۔آدم علیہ السلام بخشے بخشائے ہیں ان کا وہ فعل کوئی گناہ نہیں تھا ایک خلاف اولیٰ عمل تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سرکار ؐ سے بہت محبت کرتے تھے۔چنانچہ بعض روایت میں ہے کہ آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بیٹے کوبھی سرکا ر ؐ کا ادب کرنے کی تاکید فرمائی کہ ان کا نام محمد ؐ ہے جنت اور عرش پر ہر جگہ لکھا ہوا ہے۔اس نام کی تعظیم کرتے رہنا۔ مدارج النبوۃ میں شیخ محقق ، محقق علی الاطلاق عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا بڑا پیار ا واقعہ درج کیا ہے۔ آپ کو ایک بار سیدنا غوث الثقلین حضور سیدی غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خواب میں زیارت ہوئی۔آپ حضورغوث پاک کو دیکھ کر تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔غوث پاک رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔لوگوں نے عرض کی کہ محمد عبدالحق سلام کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ فوراً کھڑے ہوگئے۔آپ سے معانقہ کیا اور فرمانے لگے کہ تم پر دوذخ کی آگ حرام ہے۔سیدنا شیخ محمد عبدالحق محدث فرماتے ہیںکہ یہ بشارت اس نام کی وجہ سے ہے کہ میر انام محمد عبدالحق ہے ۔ سیدنا شیخ محمد عبدالحق محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ کے نام میں محمد نام شامل ہے اس لئے آپ نے دیکھا کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی،ادب کیا اور بشارت سنائی کہ جہنم تم پر حرام ہے۔ دراصل حدیث مبارکہ میں یہ مضامین موجود ہیں ۔ مشکوۃ شریف جلداول کی یہ حدیث پاک ہے ۔ جب قیامت کا روز ہوگا تو اعلان کیا جائے گا۔خبردار وہ شخص کھڑا ہوجائے جس کا نام محمد ہے اورجنت میں داخل ہوجائے۔ ان شآء اللہ الیاس قادری بھی جنت میں اسی طرح جائے گا کہ اس کے نام کے آگے بھی محمد ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ سرکار نامدار ، مدینے کے تاجدار، رسولوں کے سالار، نبیوں کے سردار ، غیبوں پر خبردارباذن پروردگار،شفیع روز شمار جناب احمد مختار ؐ فرمان مشکبار ہے کہ پرودگار عزوجل نے فرمایا کہ مجھ اپنی عزت وجلال کی قسم میں اسکو دوزخ میں عذاب نہ دونگا جس کا نام محمد ہوگا۔ ؎ ہم رسول اللہؐ کے جنت رسول اللہؐ کی ایک اور ایمان افروز حدیث ملاحظہ ہو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار نامدار ،مدینے کے تاجدار، رسولوں کے سالار، نبیوں کے سردار ، غیبوں پر خبردارباذن پروردگار،شفیع روز شمار جناب احمد مختار ؐ نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا بارگاہ خداوندی میں کھڑا کیا جائے گا۔ان کا حکم دیا جائے گاکہ جنت میںداخل ہوجاؤ۔ وہ عرض کریں گے ہمارے پرودگار کس وجہ سے ہم جنت کے حقدار ٹھہرئے حالانکہ ہم نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے بدلے میں ہمیں جنت مل جائے۔ اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا۔تم دونوں جنت میں داخل ہوجاو بے شک میں نے اپنی ذات پرقسم اٹھائی ہے کہ نہ داخل کروں گا دوزخ میں اس کو جس کا نام احمد یا محمد ہوگا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس کا نام محمد ہوگاحضورؐ اس کی شفاعت کرکے جنت میں داخل کریں گے۔ بلکہ جس گھر میں محمد کا کوئی ایک فرد ہوگاان گھر والوں کے بھی وارے نیارے ہوجائیںگے۔چنانچہ شفاء شریف میں ہے جس گھر میں محمد نام والا ہوگاتو وہ لوگ ترقی کریں گے۔ان لوگوں کی روزی میں برکتیںدی جائیںگی۔یہاں تک کہ ان کے پڑوسی بھی اس کی برکتیں لوٹیںگے۔ میرے محبو ب ؐ کے نام نامی اسم گرامی میں کتنی برکتیں ہیںکہ سارا گھر بلکہ پڑوسی بھی اس سے متمتع ہونگے ۔چنانچہ اپنی اولاد کا نام محمد ہی رکھنا چاہےے۔ میرے پیارے آقا ؐ ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمھارا اس بات سے کیا نقصان ہے کہ اس کے گھر میں ایک کا نام محمد ، دو کے نام محمد یا تین کے نام محمدہوں۔ ہمارے ہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک کا کوئی نام ہے توپورے قبیلے میںاسکانام نہیںرکھتے کہ صاحب وہ دو ہوجائیں گے ۔ لیکن ہمارے آقا ؐ فرماتے ہیں کہ ایک ہو ں دو ہوں تین ہوںیہ تو عاشقوں کا عمل نصیب ہوتا ہے۔میں آپکو عاشقوں کے تاجدار کی بات بتاوں ۔میرے آقا عاشقوں کے بھی آقاامام احمد رضاخان رضی اللہ عنہ کے چار بیٹے تھے میرے آقا فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے تمام بیٹوں کا نام'' محمد ''رکھا۔میر ے بھی دو بیٹے ہیں ایک کا نام میں نے احمد رکھا ہے اور دوسرے کا محمد رکھا ہے۔اگر ایک سوربار ہ بیٹے بھی ہوتے تو سب کانام بھی محمد ہی رکھتا۔ پہلے سے طے ہے۔ہمیں تو نام محمد سے بڑا پیارہے۔الحمد للہ ہم تو ہیں ہی انہی کے، انہی کے ٹکڑے کھاتے ہیں ، انہی کے صدقے پلتے ہیں۔الحمد للہ ان کا کھاتے ہیں تو ان کا گاتے ہیں ؎ زمانے بھر کایہ قاعدہ ہے جسکا کھانا اسی کا گانا تونعمتیں جس کی کھارہے ہیںگیت اس کے گارہے ہیں میرے آقا میٹھے میٹھے مصطفی ؐ کے مبارک نام میں کیا کمال ہے۔جب ہم محمد ؐ کہتے ہیں تو ہمارا اوپر کا ہونٹ اور نیچے کا ہونٹ مل جاتا ہے ۔یعنی دونوں ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں۔یا یہ ہونٹ محمد ؐ کو بے خودی میں چوم لیتے ہیں۔تو عاشقوں کے آقا امام احمد رضاخان علیہ رحمتہ الرحمن کتنی پیاری بات ارشادفرماتے ہیں ؎ لب پہ آجاتا ہے جب نام جناب منہ میں گھول جاتا ہے شہد نایاب وجد میں ہوکہہ ہمیں جان دیتا اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں میرے آقا ؐ کے نا م کی تو کیا کیا شان ہے۔ سیدنا شیخ محمد عبدالحق محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں درج کرتے ہیں کہ کوئی ایسا گھر نہیں جس میں محمد نام والا ہو تو اللہ تعالی اس میں برکت عطا فرماتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جوکوئی دسترخوان بچھایا جائے تو اس پر وہ شخص حاضر ہوجس کا نام محمد یا احمد ہو۔ اللہ تعالی اس گھر کو پاک کرتا ہے۔کتنی بار ؟ دن میں دو بار۔ مدارج النبوۃمیں مزید فرمایاگیا جو قوم کسی مشورے کےلئے اکھٹی ہو۔اور اس میں کوئی ایسا شخص ہوجس کا محمد ہواس مجلس مشاورت میں برکت ہوجائے گی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ عزوجل کے لئے سیر کرنے والے ملائیکہ سیاحین وہ اس گھر میںعبادت کرتے ہیں جس گھر میںاحمد یا محمد نام والا ہو۔ وہ اس لئے اس گھر میں عبادت کرتے ہیں کہ وہ محمد ؐ کی تعظیم بجا لاتے ہیں کہ اس نام میں مناسبت ہے۔اس نام کی برکتیں ملاحظہ کرتے جائےے اور جھومتے جائےے۔چنانچہ جس کے بچے پیدا ہوکر مرجائیں ۔ بعضوں کے بچے جیتے نہیں ہیں۔اس کے لئے کہ اس کے بچے جی جائیں۔ یہ نسخہ ذہین نشین کرلیں۔یہ بتانے والے بھی میری جان سے پیارے محمد ؐ ہیں۔چنانچہ حضرت جلیلہ بنت عبدالجلیل رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن کل عیوب محمد ؐکی خدمت میں عرض کی ۔ یا رسو ل اللہ عزوجل و ؐ میر ابچہ پیدا ہوتا ہے مگر بچپن میں ہی مر جاتا ہے۔تو سرکا ر ؐ نے ارشادفرمایا اب جب کہ امید ہوجائے تو اپنے اوپر لازم کرلے کہ اس بچے کا نام محمد رکھوں گی۔مجھے امید ہے کہ ا س بچے کی عمر لمبی ہوگی اور اس کی نسل میں برکت ہوجائے گی۔ حضرت جلیلہ بنت عبدالجلیل رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیاتو میر ابچہ زندہ رہا۔راوی مزید لکھتے کہ بحرین میں نوزع قبیلہ میں سب سے زیادہ اولاد اسی جلیلہ بنت عبدالجلیل کے بیٹے محمد سب سے زیادہ ہے۔ کتنا پیار ابرکت والا نسخہ میرے میٹھے میٹھے محمد ؐنے بتایا۔ہر ایک کوچاہےے کہ اپنے گھر میں محمد نام ضروررکھے ۔ بلکہ جتنے یہ پڑھ رہے ہیں اگر آپ کا نام محمد نہیں ہے تو کوئی بات نہیںمحمد نام رکھنے کےلئے آپ کو کوئی بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں۔ابھی ابھی بیٹھے بیٹھے یہ ٹھان لیں کہ آج سے میرا نام ہے محمد تو نام محمد ہوگیا آپ کا۔ غلام محمد نا م بھی بہت اچھا ہے ۔ لیکن یہ ذہین میں رہے کہ نام محمد کے جو فضائل ہیں وہ غلام محمد کے نہیں ہیں۔ الحمد للہ ا س دور میں جتنے نام رکھنے کا شرف مجھے ملتا ہے شاید ہی کسی کوملتا ہو۔دنیا بھر سے لوگ حسن عقیدت کی وجہ سے مجھ سے نام رکھواتے رہتے ہیں۔میں سب کانام (الحمد للہ )محمد یا احمدرکھتا ہواور پھر عرف دے دیتا ہوں پکارنے کے لئے ۔ ۔تو نام محمد ہے حصول برکت کے لئے ایک روایت ہے کہ جو اپنے بچے کا نام میرے نام پر رکھے ، محمد رکھے یا احمد رکھے۔ (حصول کے برکت کے لئے ) وہ یعنی جس کا نام رکھا گیا وہ اور جس نے نام رکھا وہ دونوں کی مغفرت ہوجائے گی۔ الحمد للہ میں تحدیث نعمت کے لئے کہہ رہا ہوں کہ مجھے تو ہزاروں کے نام محمد رکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔یہ نام کیوں رکھتا ہوں کہ مجھے میٹھے میٹھے میٹھے میٹھے محمد ؐ سے پیار ہے ؎محمدؐ کی غلامی سند ہے آزاد ہونے کی ؎کی محمد سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں عرش علےٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہ امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطا رؔ قادری عرش علےٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہؐ ہے ہر مکان سے بالا میٹھے نبی کا روضہؐ کیسا ہے پیار اپیارا یہ سبزسبز گنبد کتنا ہے میٹھا میٹھا میٹھے نبی کا روضہ ؐ فردوس کی بلندی بھی چھوسکے نہ اس کو خلدیں بریں سے اونچامیٹھے نبی کا روضہؐ مکے سے اس لئے بھی افضل ہوا مدینہ حصے میں اس کے آیامیٹھے نبی کا روضہؐ کعبے کی عظمتوںکا منکر نہیں ہوں لیکن کعبے کا بھی ہے کعبہ میٹھے نبی کا روضہؐ آنسو چھلک پڑے اور بے تاب ہوگیا دل جس وقت میں نے دیکھا میٹھے نبی کا روضہؐ ہوگی شفاعت اس کی جس نے مدینے میں آکر خواہ ایک نظر بھی دیکھامیٹھے نبی کا روضہؐ بادل گھرئے ہوئے ہیں بارش برس رہی ہے لگتا ہے کیا سہانا میٹھے نبی کا روضہؐ ہجر وفراق میں جو یارب ! تڑپ رہے ہیں ان کو دکھادے مولیٰ!میٹھے نبی کا روضہؐ اس آنکھ پر نہ کیوں میں عطار جاوں قربان جس آنکھ نہ دیکھامیٹھے نبی کا روضہؐ جس وقت روح تن سے عطارؔ کی جدا ہو ہو سامنے خدایا میٹھے نبی کا روضہ ؐ مدنی مدینے والے ؐ امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطا رؔ قادری مجھے در پر پھر بلانامدنی مدینے والے ؐ مئے عشق بھی پلانامدنی مدینے والے ؐ مری آنکھ میں سمانا مدنی مدینے والے ؐ بنے دل تیر ا ٹھکانہ مدنی مدینے والے ؐ تیری جبکہ دید ہوگی جبھی میری عید ہوگی مرے خواب تم آنا مدنی مدینے والے ؐ مجھ سب ستار ہے ہیں مراد ل دکھار ہے ہیں تمھیں حوصلہ بڑھانامدنی مدینے والے ؐ مرے سب عزیز چھوٹے سبھی یا ر بھی توروٹھے کہیں تم نہ روٹھ جانامدنی مدینے والے ؐ میں اگرچہ ہوں کمینہ تیر ا ہوں شہ مدینہؐ مجھے سینے سے لگانا مدنی مدینے والے ؐ ترے در سے شاہ بہتر ترے آستان سے بڑھ کر ہے بھلا کوئی ٹھکانا مدنی مدینے والے ؐ تیرا تجھ سے ہوئی سوالی شہاؐ پھیرنا نہ خالی مجھے اپنا تم بنانامدنی مدینے والے ؐ یہ مریض مررہا ہے ترے ہاتھ میں شفاء ہے اے طبیب جلد آنا مدنی مدینے والے ؐ توہے بے کسوں کا یاور اے میرے غریب پرور ہے سخی تیر ا گھرانہ مدنی مدینے والے ؐ توخدا کے بعد بہتر سبھی سے میرے سرور ترا ہاشمی گھرانہمدنی مدینے والے ؐ کہوں کس سے آہ جاکر سنے کون میری دلبر مرے درد کا فسانہ مدنی مدینے والے ؐ بعطائے رب دائم تو ہی رزق کا قاسم ہے تیرا سب آب ودانہ مدنی مدینے والے کبھی جو کی موٹی روٹی کبھی کھجور پانی تیر ا ایسا سادہ کھانامدنی مدینے والے ؐ ہے چٹائی کا بچھونا کبھی خاک ہی پہ سونا کبھی ہاتھ کا سرہانہ مدنی مدینے والے ؐ تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی میں لاکھوں ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے ؐ شہا!ؐ ایسا جذبہ پاؤں میں خو ب سیکھ جاوں تیری سنتیںسیکھانامدنی مدینے والے ؐ ترے نام پر ہو قربان مری جان جانِ جاناں ہو نصیب سر کٹانا مدنی مدینے والے ؐ تیری سنتوں پہ چل کر میری روح جب نکل کر چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے ؐ مری آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تم بنانامدنی مدینے والے ؐ تیرے غم کاش عطارؔ رہے ہر گھڑی گرفتار غم مال سے بچانامدنی مدینے والےؐ مجلس نشرو اشاعت دعوت اسلامی 03218441226 03218491941
  6. یہ ہم پر امیرا ہلسنت کا فیض ہے۔اس طرح آپ کے درس میںترقی ہوگی۔ان شآء اللہ ہم اپنا درس بڑھا دیں گے۔یہ درس بڑھے گا ، آپ کے ہفتہ وار اجتماع کی تعداد خود بڑھ جائے گی۔آپ دیکھے کہ بارہ ماہ ہوگئے ڈبل بارہ ماہ ہوگئے ، آپ کی بس کی تعداد وہی ہے۔بلکہ بعض اوقات آپ بس سے کوسٹر پر آگئے اور کوسٹر سے سوزوکی پر آگئے۔جبکہ بس سے دوسری بس ہونی چاہیے تھی آپ کی۔دعوت اسلامی الحمدللہ ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔اس طرح آپ کے فیضان مدینہ کے اجتماع میں ہفتہ وار اجتماع میںآپ کے مسجد اجتماع میں ترقی ہوگی۔اپنے درس کو مصبوط کیجئے یہ تو ہوگیا نمازیوں کا طریقہ کار کہ نمازیوں کو آپ اپنے قریب کریں گے ۔ بے نمازیوں کونمازی بنانا ہے۔اس کے لئے چوک درس، اس کے لئے مدنی مرکز نے ہمیں چوک درس دیاکہ مبلغ اسلامی بھائیچوک میں کھڑے ہوکرفیضان سنت کو کھول کر اسلامی بھائیوں کودعوت دیتے ہیں۔نیکی کی دعوت دیتے ہیں یہ بین الاقوامی اجتماع کے لئے اہم نکتہ ہے۔ایک ایک کے پاس آپ کی دعوت پہنچ جاتی ہے۔چوک درس دینے کے بعد کتاب بند کرکے بعدآپ کو موقع ملتا ہے ہاتھ ملانااس کا نالکھنا اس سے رقم لے لینا۔اس کا ایڈریس لے لینا اس کا فون نمبر لے لینا،یہ ساری ترکیبں آپ کی چوک درس میں بنیں گئیں۔چوک درس دیں گے تو آپ کے مسجد درس کی تعداد بڑھ جائے گی اور بین الاقوامی اجتماع کو مدینے کے چھبیس چاند اور لگ جائے گی۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور ہمیں دعوت اسلامی کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
  7. یہ نرمی کے انداز تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ۔ ہمیں کوئی غصہ آتا ہے اور ہمیں کوئی سختی اے کاش نرمی اور درگذر کا ہمیں جذبہ نصیب ہو ،مدنی مشوروں کا ہمیں کاش جذبہ نصیب ہو۔اے کاش! انفرادی کوشش کرنے کا ہمیںجذبہ نصیب ہوجائے۔ یاد رکھئے مدنی قافلہ یہ دعوت اسلامی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اگر آپ نے اسے مدنی قافلے کے لئے تیار کرلیا اور مدنی قافلے کی برکت سے جب وہ مدنی قافلے میں سفر کرکے آئے گاتو آپ کو چند دنوں میں ایک مبلغ تیار ہوکر مل جائے گا۔شہید مسجد میں جب امیر اہلسنت نے علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت شروع کی تھی، جو آج ہماری مروجہ ہے میں نے خود دیکھا کہ امیر اہلسنت شہید مسجد کھڑے ہوکر ازخودعلاقائی دور ہ برائے نیکی کی دعوت کے لئے قافلہ بنارہے تھے اورا نہیںاپنے ہاتھوں سے رخصت فرماتے تھے۔از خود آپ نے یہ کام شروع کروایا تھا ۔ مغرب کے بعد بیان ہوتا تھا تو میری آنکھوں نے دیکھا ہے کہ ہمارے حاجی صاحب ہوتے تھے داڑھی والے وہ گیٹ کے پاس کھڑے ہوجاتے تھے۔جو جاتا اس کا ترغیب دلاتے تھے کہ بیٹھو ، یقین مانئےے ایک اسلامی بھائی بزرگ کی دعوت کی وجہ سے، ایک کی دعوت کی وجہ سے شہید مسجد کی نیچے کی اور اوپر کی منزل بڑھی رہتی تھی۔مغرب کے بیان میں ان کے سر پر عمامہ بھی نہیںہوتا تھا، جذبہ۔ جو اسلامی بھائی اس طرح اٹھیں گے نا اور درس میں بیٹھانے کی کوشش کریں گے۔بنیادی فائد ہ میں آپ کو عرض کروں۔ان کو جذبہ پید ا ہوگا کہ ہم برسوں سے مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں ، یہ بھی مجھے جانتا ہے ، وہ بھی مجھے جانتا ہے۔یہ حاجی صاحب ، یہ نمازی صاحب میں در س میں بیٹھاتا ہوں یہ بیٹھتا نہیں ۔میں کہتا ہوں اجتماع میںآ ، آتا نہیں۔میں کہتا ہوں یہ کام کر کرتا نہیں۔یہ میری بات مناتا نہیں ، اس کے اندر ایک عجیب جذبہ پیدا ہوگا ہو سوچے گا۔ میں ایک نمازی کودرس میں نہیں بیٹھا سکا،اللہ کو امیرا ہلسنت پر کتنا کرم ہے کہ اس نے لاکھوں بے نمازیوں کو نمازی بنادیا۔لاکھوں نوجوانوںکو عمامے کا تاج پہنوادیا۔میںایک کو در س میںنہیں بیٹھا پا رہا امیر اہلسنت نے لاکھوں کو درس دینے والا بنادیا۔اس پر امیرا ہلسنت کے شخصیت اور جو آپ پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرم ہے اس کے ذہین میں آجائے گا۔اس کو آہستہ آہستہ آپ کی قدر ہوگی۔میں ایک اسلامی بھائی کو درس میں نہیں بیٹھا پارہا یہ ان لوگوں پر امیرا ہلسنت کاکیسا فیض ہے کہ میرے سے ایک درس والا تیار نہیںہورہا۔یہ تیس دن کے لئے قافلہ تیار کردیتے ہیں۔بارہ دن کا قافلہ تیار کردیتے ہیں، ان کی زبانوں پر کیسا اثر ہے۔یہ اثر کس وجہ سے ہے؟ الحمدللہ ہم پر امیرا ہلسنت کا فیض ہے کہ ہم کوشش کرتے ہیں اور ہمیں اچھی کامیابی مل جاتی ہے۔صحیح عرض کررہاہوں یہ اللہ تعالی کا کرم ہے ، اس کے حبیب کا کرم ہے۔امیر اہلسنت کافیض ہے ۔ خاک مجھ میں کمال رکھا ہے مرشدی نے سنبھال رکھا ہے میرے عیبوں پہ ڈال کے پردہ مجھے اچھوں میں ڈال رکھا ہے
  8. کرنی پڑتی ہے ، ہمیں کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، بعض اوقات کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، ہم جواب کیا دیتے ہیں؟یا ردیکھونا اس کو آپ مجھے نرمی کا کہہ رہے ہو یہ کتنی بدتمیزی کررہا ہے۔یہ کتنی بداخلاقی کررہا ہے۔اس کو کوئی نہیں سمجھا رہا مجھے ہی سمجھا رہے ہیں کہ کوئی آپ کے سامنے بداخلاقی یا بد تمیزی کررہا ہے۔تبھی تو آپ نے نرمی دیکھانی ہے۔کوئی آپ کے ساتھ نرمی سے چل رہا ہے ، محبت سے چل رہا ہے۔بھائی کون پاگل ہوگیا کہ سامنے کوئی نرمی کررہا ہے اور آپ آگے سے غصہ کریں گے۔نرمی کرنی کب ہے؟ جب سامنے سے کوئی سختی کرئے گا۔جب سامنے کوئی سختی کرئے ، سامنے کوی تکلیف دے گا تو آپ نے صبر کرنا ہے۔مصیبت آتی ہے تو صبر کیا جاتا ہے۔کمال تو کب ہے کہ کوئی سختی کرئے اور اس کے ساتھ ہم نرمی کا برتاو کریں۔امیرا ہلسنت کے مدنی مذاکروں میںآپ نے کئی ایسے واقعات ارشاد فرمائے کہ لوگوں نے آپ کو ستایا جب آپ نے نرمی کی توالحمدللہ وہ ستانے والاامیر اہلسنت کا غلام بن گیا۔ کتنی بڑی تحریک ہے امیرا ہلسنت کے ساتھ ، کوئی بھی آپ کو امیر اہلسنت کے اخلاقیات کے حوالے سے شکوہ کرنے والا نہیں ملے گا۔یعنی جس کا لاکھوں لوگوں سے ملنا ہو ، لاکھو ں مریدین جس کے ہوں۔لاکھوں لوگوں کا جو پیر ہو ،پیشواء اور شیخ ہواور کتنے لوگ اس سے رابطہ کرتے ہوں گے ، کتنے لوگوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہوگا ، کوئی نرمی میں بات کرتا ہوگا کوئی گرمی میں بات کرتا ہوگا۔کوئی کیا کرتا ہوگا ، کوئی کیا کرتا ہوگا۔آ پ مجھے یہ بتائیں آپ کو ایک اسلامی بھائی ایسا ملااتنے ہزاروں لوگوں سے آپ کے واسطے ہونگے، آپ ایک اسلامی بھائی بتائیں ، جس نے آپ کے اخلاق کے حوالے سے شکایت کی ہو۔کبھی بھی نہیں یہ کمال ہے امیر اہلسنت کا ۔الحمدللہ یہ فیض حاجی مشتاق علیہ رحمۃ کو بھی ملا تھا۔آج تک ، آ پ کے وصال فرمانے کے بعد بھی اورآپ کی حیات میں بھی مجھے آج تک کوئی ایسا اسلامی بھائی نہیں ملا، میںنے نہیں دیکھا جس نے حاجی مشتاق علیہ رحمتہ کے اخلاق کی شکایت کی ہو۔کہ جناب اس سے ہمیں فلاں وقت یہ تکلیف ہوئی تھی۔اس نے فلاں وقت ہمیں زبان سے یہ تکلیف دی تھی۔یہ انداز تھا۔ نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی۔حالانکہ ان کا بھی لاکھوں کے ساتھ واسطہ تھا، ان کا تو ایسا واسطہ تھا کہ لوگ پیچھے پڑتے تھے نعت خوانی کے۔ان سے تاریخیں لینے کےلئے لوگ ان کے آگے پیچھے بھاگتے تھے۔اور انہوں نے تاریخ دینی بھی نہیںہوتی تھی، ہم نے یہ منظردیکھا ہے حاجی مشتاق کا کہ کوئی تاریخ لینے آتا او رآپ کے پاس تاریخ نہ ہوتی ، آپ اس کو تاریخ دیتے نہیں تھے مگر اس کو ایساجواب دیتے تھے کہ وہ دعوت اسلامی سے پیار کرنے والا بن جاتا تھا۔یہ بہت کم لوگوں کو حصہ ہوتاہے۔منع بھی کرنا ہے اور اس کو سیٹ بھی رکھنا ہے۔یہی انداز امیرا ہلسنت کا ہم نے دیکھ ، امیر اہلسنت کا صدقہ حاجی مشتاق کا دیکھا، ان کے صدقے ہمیں نصیب ہوجائے۔
  9. کرنی پڑتی ہے ، ہمیں کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، بعض اوقات کوئی سمجھاتا ہے کہ نرمی کرو، ہم جواب کیا دیتے ہیں؟یا ردیکھونا اس کو آپ مجھے نرمی کا کہہ رہے ہو یہ کتنی بدتمیزی کررہا ہے۔یہ کتنی بداخلاقی کررہا ہے۔اس کو کوئی نہیں سمجھا رہا مجھے ہی سمجھا رہے ہیں کہ کوئی آپ کے سامنے بداخلاقی یا بد تمیزی کررہا ہے۔تبھی تو آپ نے نرمی دیکھانی ہے۔کوئی آپ کے ساتھ نرمی سے چل رہا ہے ، محبت سے چل رہا ہے۔بھائی کون پاگل ہوگیا کہ سامنے کوئی نرمی کررہا ہے اور آپ آگے سے غصہ کریں گے۔نرمی کرنی کب ہے؟ جب سامنے سے کوئی سختی کرئے گا۔جب سامنے کوئی سختی کرئے ، سامنے کوی تکلیف دے گا تو آپ نے صبر کرنا ہے۔مصیبت آتی ہے تو صبر کیا جاتا ہے۔کمال تو کب ہے کہ کوئی سختی کرئے اور اس کے ساتھ ہم نرمی کا برتاو کریں۔امیرا ہلسنت کے مدنی مذاکروں میںآپ نے کئی ایسے واقعات ارشاد فرمائے کہ لوگوں نے آپ کو ستایا جب آپ نے نرمی کی توالحمدللہ وہ ستانے والاامیر اہلسنت کا غلام بن گیا۔ کتنی بڑی تحریک ہے امیرا ہلسنت کے ساتھ ، کوئی بھی آپ کو امیر اہلسنت کے اخلاقیات کے حوالے سے شکوہ کرنے والا نہیں ملے گا۔یعنی جس کا لاکھوں لوگوں سے ملنا ہو ، لاکھو ں مریدین جس کے ہوں۔لاکھوں لوگوں کا جو پیر ہو ،پیشواء اور شیخ ہواور کتنے لوگ اس سے رابطہ کرتے ہوں گے ، کتنے لوگوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہوگا ، کوئی نرمی میں بات کرتا ہوگا کوئی گرمی میں بات کرتا ہوگا۔کوئی کیا کرتا ہوگا ، کوئی کیا کرتا ہوگا۔آ پ مجھے یہ بتائیں آپ کو ایک اسلامی بھائی ایسا ملااتنے ہزاروں لوگوں سے آپ کے واسطے ہونگے، آپ ایک اسلامی بھائی بتائیں ، جس نے آپ کے اخلاق کے حوالے سے شکایت کی ہو۔کبھی بھی نہیں یہ کمال ہے امیر اہلسنت کا ۔الحمدللہ یہ فیض حاجی مشتاق علیہ رحمۃ کو بھی ملا تھا۔آج تک ، آ پ کے وصال فرمانے کے بعد بھی اورآپ کی حیات میں بھی مجھے آج تک کوئی ایسا اسلامی بھائی نہیں ملا، میںنے نہیں دیکھا جس نے حاجی مشتاق علیہ رحمتہ کے اخلاق کی شکایت کی ہو۔کہ جناب اس سے ہمیں فلاں وقت یہ تکلیف ہوئی تھی۔اس نے فلاں وقت ہمیں زبان سے یہ تکلیف دی تھی۔یہ انداز تھا۔ نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی نہ ان کے انداز کی کبھی شکایت کی۔حالانکہ ان کا بھی لاکھوں کے ساتھ واسطہ تھا، ان کا تو ایسا واسطہ تھا کہ لوگ پیچھے پڑتے تھے نعت خوانی کے۔ان سے تاریخیں لینے کےلئے لوگ ان کے آگے پیچھے بھاگتے تھے۔اور انہوں نے تاریخ دینی بھی نہیںہوتی تھی، ہم نے یہ منظردیکھا ہے حاجی مشتاق کا کہ کوئی تاریخ لینے آتا او رآپ کے پاس تاریخ نہ ہوتی ، آپ اس کو تاریخ دیتے نہیں تھے مگر اس کو ایساجواب دیتے تھے کہ وہ دعوت اسلامی سے پیار کرنے والا بن جاتا تھا۔یہ بہت کم لوگوں کو حصہ ہوتاہے۔منع بھی کرنا ہے اور اس کو سیٹ بھی رکھنا ہے۔یہی انداز امیرا ہلسنت کا ہم نے دیکھ ، امیر اہلسنت کا صدقہ حاجی مشتاق کا دیکھا، ان کے صدقے ہمیں نصیب ہوجائے۔
  10. میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! میںعرض کررہاتھا کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کتنا پیارا ارشادعطا فرمایاہم سے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوکہ ان کی شفاعت کرو۔کتنی پیاری بات ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالی نے ہمیں کتنا پیارا درس عطافرمایا اگرچہ اللہ تبارک و تعالی براہ راست معاف کردینے پر قادر ہے۔لیکن سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معافی کا راستہ بتایا جارہا ہے۔جب میرا محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفاعت کرئے گاتو میں بخش دوں گا۔تومجھ سے بخشش کا طالب محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت لیکر آجائے، محبوب صلی اللہ علیہ والہ کی سفارش لیکر آجائے۔جس کی آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفارش فرمائیںگے، اللہ اسے بخش دے گا، اپنی رحمت اور اپنے فضل سے۔پھر فرمایا کہ کاموں میںان سے مشور ہ کرویہ کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی،کوئی کسی سے مشورہ کرئے وہ کتناخوش ہوتا ہے۔جو اسلامی بھائی مشورے کے عادی نہیں اپنی چلاتے ہیں۔اپنے اسلامی بھائیوں کو لیکر نہیں چلتے وہ کبھی بھی کامیاب ذمہ دار بن کر ظاہر نہیں ہوتے۔ہمیشہ ذمہ دار کو چاہیے ،نگران کو چاہیے کہ اپنے اسلامی بھائی سے مشورہ کرتارہے ، مشورہ کرتے ہیں نا آپس میں۔ اسلامی بھائی مشورہ کرتے ہیں کہاں اجتماع ہوگا، کہاں بڑی رات کا اجتماع کرنا ہے، اس کا مشورہ کیا۔ امیرا ہلسنت ہمارے علاقے میں تشریف لارہے ہیں ، امیر اہلسنت کا بیان کہاں رکھوانا ہے یہ مشورہ کیا۔اسلامی بھائیوں کو سحری کروانی ہے کہاں سحری کروانی ہے یہ مشورہ کیا۔مدنی قافلے میں سفرکرنا ہے ، کہاں سے سفرکرنا ہے یہ مشورہ کیا۔بین الاقوامی اجتماع پر بس روانہ کرنی ہے تو بس کہاں کہاں سے روانہ کرنی ہے اس کا مشورہ کیا۔ اسلامی بھائیوں کو ٹرین پر لیکر جانا ہے یا بس پر لیکر جانا ہے اس پر مشورہ کیا۔وہاں بستوں پر جاکر کھاناکھانا ہے یا اسلامی بھائیوں کےلئے کھانا پنڈال میںلیکر آئیں تاکہ اسلامی بھائی سنت کے مطابق مٹی کے برتن میںمل کر کھانا کھائیں اور وہاں بستوں پرجاکرمنتشر نہ ہوجائیں اس پر مشورہ کرلیا۔بارہ بارہ اسلامی بھائیوں پر جو ذمہ دار بنانا ہے تو کس کس کو ذمہ دار بنانا ہے۔اس پر مشورہ کرلیا۔کہاںکہاں چوک درس کرنا ہے اس پر مشورہ کرلیا۔کتنے مشورے ، کیونکہ دعوت اسلامی کا م تو اس وقت چل مشوروںپر رہا ہے۔ذیلی حلقے سے لیکر مرکزی مجلس شوریٰ تک مشاورت کا نظام ہمیں امیر اہلسنت نے عطا کردیا ہے۔تو اسلامی بھائیوں سے مشورہ کرنا ہے ۔ آپ نے فنڈکرنا ہے۔آپ نے مدنی مشورہ رکھ لیا کہ کس کس سے کتنا فنڈ کرنا ہے۔ہمیں ہماری شہرکی مشاورت نے یہ فنڈ کا ھدف دیا ہے۔اسلامی بھائی کو چاہیے کہ فوراً اسلامی بھائیوں کو بلاکر مشورہ کرلیں، ہر اسلامی بھائی کو اس کا ھدف تقسیم کردے۔آپ کو مدنی مرکز نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اجتماع سے پہلے اتنے قافلے اور بین الاقوامی جتماع کے بعد ہاتھوں ہاتھ اتنے قافلے چاہیے تو نگران عموماًمدنی مشورے میں شرکت کرکے چلے آتے ہیں۔بعد میں نگران کو چاہیے کہ جب اپنے علاقے میں آئیں اپنے ذیلی حلقے میں آئیں اپنے اسلامی بھائیوں کو جمع کریں۔جمع کرنے کے بعد مدنی مرکز نے جو آپ کو نکات دئےے ، آپ کو ہدف دیا ، آپ یہ ہدف اپنے کندھے پر کیوں رکھتے ہیں۔بعض اوقات نگران گھبرا جاتا ہے کہ میں اتنے قافلے کہاں سے دوں گا؟ ارے بھائی آپ کو کون کہتا ہے آپ اتنے قافلے دیجئے؟ آپ کے علاقے کے اندر ڈبل چھبیس اسلامی بھائی مدنی کام کررہے ہیں۔ آپ جاکر مشورہ کیجئے،اتنے ذیلی نگران ہیں، ان کی مشاورت ہے۔ان میں علاقائی مشاورت بنی ہوئی ہے کوئی حلقہ مشاورت بنی ہوئی ہے ، کوئی مدرستہ المدینہ بالغان پڑھا رہے ہیں۔کوئی علاقائی دور برائے نیکی کی دعوت میںشرکت کرتے ہیںیہ اتنے سارے اسلامی بھائی ان کا مشورہ کریں۔ان کا مشورہ کرنے کا بعد کہئے کہ مدنی مرکز نے کہا ہے کہ بارہ قافلے بارہ دن کے ہمیں چاہیے۔یہ مدنی مرکز نے گویا آپ کو ہدف دے دیا۔ہدف دیا نا، کون دے رہا ہے یہ ہدف کو، بھائی بارہ قافلے بارہ دن کے بین الاقوامی اجتماع سے ہاتھوں ہاتھ، اب ہمت نہیں کررہے کچھ اسلامی بھائی ، کیونکہ میں بارہ قافلوں میں اکیلا کیسے جاوں گا؟ آپ کو کون کہہ رہا ہے کہ بارہ قافلوںمیںجائے؟ آپ ایک قافلے میںجائے گا ، یہ آپ کو رعایت ہے۔آپ مدنی مشورہ کیجئے ، آپ کے ڈبل جھبیس اسلامی بھائی بہتر اسلامی بھائی آپ کے علاقے میں ہیں۔انہیںجمع کیجئے اور کہیے کہ ہمیں بارہ مدنی قافلے چاہیے۔بارہ قافلے میں اسلامی بھائی کتنے ہوگئے، ایک میں سات تو بارہ میں چوراسی اسلامی بھائی ہوگئے اور بہتر اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ ہے۔اول تو یہ سارے چلے جائیںتو آپ کے بارہ مدنی قافلے ہوجائیںگے۔آپ سے سب سے پہلے انہیں تیار کریں اور ان کو صرف ایک اسلامی بھائی کاہدف دے دیں۔آپ نے ایک اسلامی بھائی تیس دن کاایک اسلامی بھائی بارہ دن کا اور سات اسلامی بھائی تیس دن کا تیار کرنا ہے۔صر ف ایک اسلامی بھائی کوہدف دے دیں۔آپ کے بہتر اسلامی بھائی ہیں ، یہ تیس دن کی تیاری میںمصروف عمل ہوگئے۔اگر اس کا آپ کو پچاس فیصدبھی رزلٹ ملا توآپ کے چھ مدنی قافلے ہوگئے بارہ دن کے۔جبکہ یہ پچاس فیصد رزلٹ نہیںہوتا اس کا رزلٹ 100%آئے گا۔جب آپ مشورہ کریں گے اور جب مشورہ کرکے کوئی بات طے کریں گے اور آپ اٹھے تو آپ نے عزم کرلیا۔اب ہم نے بارہ دن کے بارہ مدنی قافلے بین الاقوامی اجتماع سے ہاتھوں ہاتھ علاقائی سطح پر سفر کروانے ہیں۔آپ نے یہ ذہین بنالیا کہ ایک علاقے میں کتنی مسجدیں ہیںکم وبیش پچیس ذیلیحلقے ہیںعلاقے میں پچیس ذیلی حلقوںسو اسلامی بھائیوں کو قافلے میں سفرکروانا ہے تو ایک ذیلی حلقے سے کتنے اسلامی بھائی ہوگئے؟ چار اسلامی بھائی۔ ایک مسجد میں نمازی ڈھائی سو تین سو چار سو ہیں۔ بھائی ڈھائی ،تین ، چار سو نمازیوں میں سے تیار کریں تو کیاچار اسلامی بھائی بارہ دن اور تیس دن کے تیار نہیںکرسکتے اسکے علاوہ ہزاروں اسلامی بھائی مسجد کے باہر ہیں نماز کےلئے نہیں آتے۔ ان تک آپ جائےے آپ ان کو کہیے کہ آپ مدنی قافلے میں سفر اختیار فرمائے۔آپ مشورہ کرلیںاور مدنی مشورے کے بعداس کا ہد ف او راس ہدف کو پورا کیسے کرنا ہے اس کاطریقہ کار بھی اپنے اندر واضح کرلیجئے کہ آپ اتنے اسلامی بھائیوں کوقافلے کی دعوت دیں گے ۔آپ تیس دن کے لئے مدنی قافلے کی دعوت شروع کیجئے وہ منع کرئے گا کہ میں تیس دن کے لئے نہیں جاسکتا ،اپنے عازاربیان کرئے گا آپ مزید اس کو فضائل بیان کریں مزید رغبت دلائیں،آپ کو یاد ہونے چاہیے فضائل، آپ کو رغبت یاد ہونی چاہیے یہ ذمہ دار اسلامی بھائی کا کام ہے۔مدارس المدینہ اور اپنے ہفتہ وار اجتماع میں، اپنی انفرادی کوشش میںاپنے اسلامی بھائیوں کو ترغیبات یاد کروائیں۔فضائل یادکروائیں،نیکی کی دعوت یادکروائیں تاکہ اس کے اندر انفرادی کوشش کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ہم مائیک پر جیسے آپ مجھے سن رہے ہیں میں مائیک پر دو گھنٹے بیان کرلوں گا۔آپ کہیں کہ یہ اسلامی بھائی ہے اسے نیکی کی دعوت دیں اسے قافلے کےلئے تیار کریں،میرے پاس مواد نہیںہوگا۔میںپانچ سات منٹ میں اس سے جان چھڑوالوں گا۔مجھے اسے ایک ڈیرھ گھنٹے بیٹھ کر سمجھانے کے لئے مواد نہیں ہے، انفرادی کوشش کے لئے کلمات نہیں ہے۔اتنے بڑے اجتما ع میں بیان کرنا الگ بات ہے ۔کمال ہے اس اسلامی بھائی پر آفرین ہے اس اسلامی بھائی پر جو انفرادی کوشش کے ذریعے دعوت اسلامی کے مدنی کام کو آگے لیکر جارہا ہے۔ آپ دیکھے کہ عمیر بن وہاب جن کی روایت آپ نے سنی تھی ان کا کیا واقع تھا۔ان پر سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انفرادی کوشش کی تھی۔انہیں قریب بٹھایا اور انہیں قریب بٹھا کر، نرمی پیار ، محبت ،شفقت نتیجہ اسلام قبول کیا اور اسلام کا مبلغ بن گئے۔انہیں علم دین بھی سیکھایا۔میں امید کروں کے اس طرح مدنی مشورے کرکے ، نرمی پیار اورشفقت سے ان شآء اللہ تعالی مدنی کام کو آگے لیکر بڑھیںگے۔مدنی مشورے کو نافذ کریں اور مدنی مشورہ اس وقت کامیاب ہوگا،جب اس مدنی مشورے میں نرمی ،پیاراور شفقت ہوگی۔ورنہ وہ مدنی مشورہ کہاں رہا؟جس مدنی مشورے میںدل آزاریاں ہوں۔جس مدنی مشورے میں جھاڑنا ہو،جس مدنی مشورے میںدل دکھانا ہو، دل آزاریاںہوں وہ مدنی مشورہ کہاں؟ مدنی مشورہ تو مدنی ہوتا ہے نا۔میٹھا میٹھا پیارا پیارا مشورہ ہوتا ہے۔اور واقعی مدنی مشورے کی روح یہ ہے کہ اسلامی بھائی آپ کے مدنی مشورے سے اٹھے تو ایک نیاجذبہ ایک نیاولولہ ایک جوش لیکر اپنے علاقے میںجائے،یوں منہ چھوٹا کرکے اور منہ لٹکا کرنہ جائیں۔ایک نیا جذبہ لیکرجائیں۔نگران کو چاہیے کہ اتنی پیاری اور مدنی باتیں کرے اپنے اسلامی بھائیوں سے اور ان کے حوصلے بڑھائے۔کارکردگی ناقص ہے تو کارکردگی کو بہتر بنانے کی صورت کو وہ خود پیدا کرئے۔وہ اپنے اوپر لے نہ اپنے اسلامی بھائیوں پر ڈال دے کہ تم نے ایسا کیاایک اسلامی بھائی سے تنظیمی خطاہوگئی۔اب ہوا یہ کہ دیگرا سلامی بھائی جوتھے اس کی عزت کے درپے ہوگئے۔خوب بچارے کو جھاڑا ڈانٹا، جہاں جاتا ہے وہ دس باتیںسن کر ہی آتا ہے۔پھر گرتا پڑتا لوگوں کی باتیں سنتا ، نگران کے پاس پہنچا،نگران تو نگران تھے،نگران فوراً قدموں میں گرگئے۔ان سے معافی مانگنے لگ گئے وہ سراپا حیرت کہ سب تو باتیںسنارہے ہیں اور یہ عجیب نگران ہے جو کہ قدموں میں گر کر معافی مانگ رہا ہے۔ کہاں حضور آپ کیاکررہے ہیں؟ کہابس آپ مجھے معاف کردیں۔آپ کیاکررہے ہیں؟ آپ مجھے معاف کردیں۔کیا بات ہے کیوں مجھ سے معافی مانگ رہے ہیں۔نگران بولا اگر میں آپ کی صحیح معنوں میں تنظیمی تربیت کرپاتا تو آپ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،یہ میری کمزوری ہے، یہ میری نادانی تھی کہ آج آپ کو یہ دن دیکھنا پڑگیا۔مجھے معاف کردیجئے۔ مجھے بتائے اگر ہم ایسے نگران بن جائیں تو مدنی کام کو مرشد کے چھبیس پر نہ لگ جائیں اور کیسے مدینے کی طرف پرواز ہونے لگ جائے۔نہ علاقے میں نااتفاقی ہو، نہ علاقے میں کوئی روٹھا ہوا ہو، نہ علاقے میں کوئی ناراض ہو،کچھ بھی نہ ہو ایسے سب مدنی انعامات کے عامل بنئے ہوئے ہوں۔تو ان شآ ء اللہ تعالی نرمی کریں گے۔ حضرت انس بن مالک نقل کرتے ہیںکہ میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔اس وقت آپ ایک یمنی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔راستے میں ایک اعرابی( دیہاتی)ملااس نے بہت زور سے آپ کی چادر کھینچی، حضرت انس فرماتے ہیں کہ اس کھینچنے کی وجہ سے دومیرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کاندھوں کے درمیان نشان پڑگیا۔ پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم دیجئے۔میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوکر مسکرائے اور اس کا مال دینا کا حکم ارشاد فرمایا۔
  11. اللہ تبارک و تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔اگر تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو ضرور تمھارے گرد سے پریشان ہوجاتے۔تو تم انہیں معاف فرماواور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جب کسی بات کو ارادہ پکاکرلو تو اللہ عزوجل پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ یہ باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں کہ کسی کے بارے پتہ ہو کہ یہ تند مزاج ہے،جھاڑ دے گا ،ڈانٹ دے گاآدمی اس کے قریب نہیں آتا۔ڈرتا ہے بھاگتا ہے۔ اس بات کو میرے اسلامی بھائی محسوس کریں گے جو مشورہ لیتے ہیں کہ اگر نگران سخت ہوتا ہے، تند مزاج ہوتا ہے ، ترش لہجہ ہوتا ہے اس کا اور ہاتھوں ہاتھ اس کی سنادینے کی عادت ہوتی ہے۔تو آپ دیکھئے کہ اس مدنی مشورے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔کیونکہ مدنی مشورے میں آنے والا جب اسے تاخیر ہوجاتی ہے یا مدنی کام کی کارکردگی اس کی ناقص ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں مدنی کام کی یہ کارکردگی پیش کرونگاتو مجھے دو باتیں سننی پڑیں گئیں۔اور بھرے مدنی مشورے میں میر ی درگٹ بنادی جائے گی تو وہ ازخود مدنی مشورے سے بھاگ جاتا ہے۔تھوڑ ی بہت تاخیر ہونے کے باوجود وہ مدنی مشورے میں نہیںآئے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مدنی مشورے میں آوں گااور میرے نگران نے مجھے سب کے بیچ میں ذلیل کردینا ہے۔ایسے نگران کے قریب اسلامی بھائی نہیں آتے۔امیر اہلسنت مدظلہ العالی کا یہ انداز دیکھا ہے بارہا دیکھا ہے کہ آپ نے کوئی مدنی مشورہ طلب فرمایا ہے اور اسلامی بھائیوں کو آنے میںتاخیر ہوگئی ہے۔ کچھ اسلامی بھائی جمع ہوگئے اور آنے میں تاخیر ہوگئی تویقین مانئےے دیکھا ہے کہ تاخیر سے آنے والا، بارگاہ مرشدی ہے وہ ویسے ہی لرزہ بدام ہے ، مرشد کی بارگاہ اس کا ادب اور اس کا مقام ہی کچھ اور ہوتا ہے۔نگران کی بات کچھ اور ہے مرشد کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔وہاں بڑے بڑے نگران سگ عطار بن کر جاتے ہیں ، وہاں کوئی نگران نہیں ہے ، وہاں سب سگہوتے ہیں اور جب کوئی ایسا ذمہ دار آتا ہے۔تو وہ شاید یہ بات ذہین میں لیکر آیاہو جانے کیا سننے کو ملے گا اور کیا ہوگا؟ باپا کیا کہیں گے،امیر اہلسنت کیا کہیں گے؟ وہ باتیں ایک طرف الٹا شفقت ہوجاتی ہے اس پر۔اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مدنی مشورے میں آجاتا ہے۔اس کے روحانی اثرات ہوتے ہیں۔جب کوئی نرمی کرتا ہے تو اسلامی بھائی کہتے ہیں کہ نرمی سے عادت بگڑجاتی ہے ،نرمی سے عادت بگڑتی نہیں ، نرمی سے عادت سنورتی ہے۔ نرمی میں کوئی شر کوئی نقصان کا پہلو ہے ہی نہیں۔نرمی میں خیر ہی خیر ہے۔تو امیرا ہلسنت کا یہ انداز بارہا دیکھا ہے۔کاش یہ انداز نرمی کا عفوودرگزرکا ہم سب کو نصیب ہوجائے اور ہم اپنے اسلامی بھائیوں کے لئے ایسے نرم ہوجائیں کہ ایسے نرم ہوجائیں کہ کبھی ہماری زبان سے کسی اسلامی بھائی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔معافی اور درگذر کا ایسا پہلو،اے کاش یہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت صدقہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔
  12. یہ بھی ایک انداز تھا میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا، دین اسلام کو پھیلانے میںیہ بھی نمایاں اندازتھا میرے آقا کا ، وہ انداز تھا میرے آقا کا عطائیں، عطا وںپر عطائیں فرماتے تھے۔دیکھے یہ انداز میرے امیرا ہلسنت نے لیا۔عفود رگذر کا انداز، شاید ہی کوئی ہو جس نے امیرا ہلسنت کے عفو و درگزر کے انداز کو نہ دیکھا ہو،شاید ہی کوئی جس نے امیرا ہلسنت کے نرمی کے انداز کو نہ دیکھا ہو، اتنی نرمی ہے میرے امیر اہلسنت میں ۔ اور واقعی یہ کتابوں میں پڑھا ہے ،جو شخص جتنا سرکا رصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔اسے سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کا اتنا حصہ نصیب ہوتا چلا جاتا ہے، یہ کتابوں میں پڑھا اور ہم دیکھتے ہیں واقعی جو جتنا سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔جتنی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی الفت اس کے قلب میں ہوتی ہے، عظمت اس کے قلب میں ہوتی ہے اتناہی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کا حصہ اس کے مقدر میں آجاتا ہے۔ امیر اہلسنت کے ایسے ایسے انداز ہیں جب کتابوں میں پڑھتے ہیں سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کو پڑھتے ہیں تو یہ ان انداز کی جھلک ہمیں امیر اہلسنت میںر نظر آتی ہے۔اس میں عفو و درگزر اور نرمی جو میں نے ابھی کہا اور دوسر ی بات انفرادی کوشش جس کے ذریعے عمیر بن وہاب رضی اللہ عنہ کیسے زبردست مبلغ اسلام بن گئے ، کیسے زبردست مبلغ اسلام بنے اور کیسا ان کے اندر وہ جذبہ آگیا کہ جتنا انہوں نے مسلمانوں کو ستایاتھا یہ اتنے زیادہ کفار پر سخت ہوگئے۔یہ کیسی انفرادی کوشش تھی میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اور پھر دوسری بات عرض کی عطائیں، آپ دیکھیں امیر اہلسنت کاانداز ، جب بھی کوئی ملتا ہے تو فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کرا سے کوئی نہ کوئی تحفہ دے دیتے ہیں۔ملاقات کرو تو کوئی رسالہ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ۔ بہت کم کسی نے دیکھا ہوگا کہ اس نے امیراہلسنت سے ملاقات کی ہو اور امیر اہلسنت نے اسے کوئی تحفہ نہ دیا ہو۔بہت کم ایسا ہوا ہوگا اور اس کی بنیادی وجہ کہ واقعی تحفہ دینے سے سامنے والے کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔میرے ذمہ دارا سلامی بھائی یہاں موجود ہیں کہ اے کاش! یہ انداز ہمیں نصیب ہوجائے ۔ ہم جب بھی کسی سے ملیں نرمی کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ اگر وہ ہمار ے ساتھ منفی رویہ اختیار کرتا ہے، ہمیں جھاڑتا ہے ،ہمیں ڈانٹتا ہے ہمارے ساتھ کوئی بدکلامی کرتا ہے۔اس پر ہمیں بدکلامی کرنے کی حاجت نہیں ہے۔بلکہ ہمیں نرم ہی ہونا چاہےے کہ نرم ہونا یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصف ہے۔
  13. یہ میرے آقاکا کردار ہے اتنے واقعات ہیں اس عنوان پر اتنے واقعات ہیںکہ پورا ایک مضمون ہے۔جوروایت آپ نے سنی اس میں ایک اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیارا نداز ہمیںسیکھنے کو ملا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نرمی اورحسن اخلاق سے وہ مسلمان ہوگئے ،مسلمان ہوتے ہی میرے آقا نے کیا فرمایا کہ یہ تمھارا اسلامی بھائی ہے۔ایک بات اور دوسری بات یہ بڑی قابل توجہ ہے کہ انہیں قرآن کی تعلیم دویعنی اسے علم دین سیکھاو کہ جب کوئی قر یب آئے تو بڑا پیارا انداز ہونا چاہیے ۔ مبلغ کا پہلے تو اسے حسن اخلاق اور نرمی اور درگزر کے ساتھ اپنے قریب کرکے اپنے رنگ میں رنگ لے۔جب وہ قریب آجائے تو اس پر انفرادی کوشش کرئے اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے، اسے قرآن کی تعلیم دے،فرائض او رواجبات سیکھائے ۔ الحمدللہ یہ اندا زہمیں ہمارے امیراہلسنت نےعطافرمایا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کو پھیلانے والی یہ عظیم ، عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کا یہ انداز ہے کہ جب ماحول کے کوئی قریب آتا ہے تو الحمدللہ جیسے ہی وہ قریب آتا ہے دعوت اسلامی کے اسلامی بھائی اسے مدرستہ المدینہ بالغان کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے قرآن پاک سیکھاتے ہیںاور قرآن پاک سیکھانے کے ساتھ ساتھ اسے نماز سیکھاتے ہیں،اسے غسل اور طہارت کے مسائل سیکھاتے ہیں۔یہ بہت اہم نکتہ ہے ہمارا یہ تنظیمی نکتہ ہے۔ کہ الحمدللہ آنے والے کو اولاً طہارت اور نمازکی تربیت دے دی جاتی ہے۔نماز کے بارے میںآتاہے کہ نماز بڑائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔یہ کتنا پیارا اور مدنی نسخہ ہے کہ جو آپ کے قریب آیا۔آپ اسے نماز سیکھادیں، اسکی نماز کامل کردیں ، نماز کامل کرنے کے لئے جوباتیں اسے آپ بھی جانتے ہیں۔کسی کے نماز کامل کرنی ہے تو اولاً اسے نماز کی شرائط سیکھانی پڑیں گئیں پھر نماز کے فرائض سیکھانے پڑیں گے ، اس میں طہارت ، قرآت ساری باتیں آگئیں۔طہارت کے اندر طہارت کبریٰ او رطہارت کے صغریٰ سبھی طہارتیں آگئیں۔ ساری طہارتیں جو کچھ نما ز کے لئے ہیں یہ مدرستہ المدینہ بالغان میں سیکھائی جاتی ہیں۔قرآت کیوں کے نماز میں فرض ہے تو الحمدللہ قرآت بھی مدرستہ المدینہ بالغان میں سیکھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ جو امیر اہلسنت رسائل ہیں طہارت کے متعلق اور نماز کے متعلق، مدرستہ المدینہ بالغان میں ان کی طرف بھی توجہ دی جاتی ہے۔تو جوکوئی دعوت اسلامی کے ماحول کے قریب آتا ہے ، پہلی بات نرمی ، عفو و درگزر۔ آنے والا آپ کے مزاج کے مطابق آپ سے گفتگو کرئے یہ ضروری نہیں ہے۔دعوت اسلامی رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر نیکی کی دعوت عام کرتی ہے۔الحمدللہ اس میں مختلف زبانوں کے لوگ، مختلف کلچر کے لوگ داخل ہوتے ہی رہتے ہیں۔جو قریب آیا لازمی نہیں وہ آپ کے مزاج کے مطابق آپ سے کلام کرئے،میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ میںدیکھیں تو کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ کوئی اعرابی آتے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی تلخ کلامی کرتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضون کے جذبات بھڑک اٹھتے اور بڑھتے کہ ابھی اسے پکڑلیں لیکن میرے آقادرگزر فرماتے۔آپ معافی عطافرماتے، معافی عطافرماتے اور مزید یہ کہ اس کو نوازدیتے تھے۔ ؎میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہادیئے ہیں دُر بے بہا دئے ہیں واہ کیا جودو کرم ہے شاہ بطحاؐ تیرا نہیںسنتا ہی نہیں مانگنے والا تیراؐ
  14. میرے میٹھے میٹھے اور پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس روایت سے معلوم ہوا جو میرے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم قتل کرنے کے ارادے سے حاضر ہوا تھا اور زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر آیا تھا۔میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نرمی اور حسن اخلاق کود یکھ کر، نہ صرف مسلمان ہوگئے بلکہ نیکی کی دعوت پھیلانے والے بہت بڑے مبلغ بن گئے۔یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کااسوہ حسنہ کی ایک جھلک جس کا عنوان میرے آقا کا حسن اخلاق اور اس حسن اخلاق کا ایک عنوان،حسن اخلا ق یہ بہت بڑا مضمون ہے، اس میں صبر بھی ہے نیکی کی دعوت بھی ہے، اس میں بہت سے باتیں ہیں،اس حسن اخلاق میںایک موضوع عفوو درگذر بھی ہے۔معاف کردینا ، درگزرسے کام لینا۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس انداز دل نشین نے بڑے بڑے کافروں کا صادق الاسلام نیکی کی دعوت دینے والا مبلغ بنادیا اور ہمیں اس بات کادرس دیا کہ کوئی تم پر کتنا ہی ظلم کرئے ،کوئی تمھارے ساتھ کتنی ہی زیادتی کرئے ،تمھیں چاہیے کہ ہر ایک کے ساتھ نرمی کا برتاو کریں۔ میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری پیاری شان ملاحظہ کیجئے کہ امام بخاری روایت کرتے ہیںکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تقاضا کیا اور بہت بدکلامی کی،آپ کے اصحاب نے اسے مارنے کا ارادہ کیا، میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، صاحب حق کے لئے بات کرنے کی گنجائش ہوتی ہے اور ایک اونٹ خرید کرا س کا حق ادا کردو، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی اب جو اونٹ دستیاب ہیں اس کے اونٹ سے افضل ہیں۔میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہی خرید کراسے ادا کردو کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح ادا کرئے۔ یہ اندازتھا میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ؎گالیاں دیتا ہے کوئی تودعادیتے ہیں دشمن آجائے تو چادر بھی بچھادیتے ہیں
  15. Attari26

    aqa ka afoo darguzar

    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط آقا کا عفو و درگزر نگران مرکزی مجلس شوریٰ دعوت اسلامی حاجی محمدعمران عطاری رحمت عالم نور مجسم شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان تقریب نشان ہے،تم میں سے قیامت کے میرے سب سے زیادہ نزدیک ترین وہ شخص ہوگا، جس نے مجھ پر کثرت سے درود پاک پڑھا ہوگا صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالی علی محمد آج آپ کی بارگاہ میں پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عفو ودرگزر کے متعلق چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کرونگا۔اس عنوان کے تحت ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس پہلو کی بھی برکت سے کیسے کیسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔چنانچہ اس ضمن میں ایک روایت بیان کرتا ہوں۔اس روایت کو دل کے کانوں سے سنئے گا۔ حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں قریش کی شکست کے بعدعمیر بن وہاب اور سفیان بن امیہ خطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔عمیر بن وہاب قریش کے شیطانوں میں سے ایک بہت بڑا شیطان تھااور وہ اپیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت ایذا پہنچایا کرتا تھا۔مکہ میں اس سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے بہت تکلیفیں بھی اٹھائیں، عمیر کابیٹاوہاب بن عمیر بدر کے قیدیوں سے تھا۔انہوں نے مقتولین بدر کا ذکر کیا جب وہاں بیٹھے تھے ، سفان کہنے لگاخدا کی قسم ! ان کے بعد زندہ رہنے اب کوئی بھلائی نہیں ہے۔عمیر کہنے لگا تم سچ کہتے ہو، اگر میں نے علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قرض نہ دینا ہوتا جس کی میرے پاس گنجائش نہیں ہے اور مجھے اپنے بال بچوں کے ضائع ہوجانے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ابھی روانہ ہوتااورمحمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرکے آتا (معاذ اللہ )۔ سفان نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ تمھارے قرض کا میں ضامن ہوں اور تمھارے بال بچے میرے بال بچوں کے ساتھ رہیں گے اور جب تک وہ زندہ رہیں گے ان کا خرچ میں اٹھاوں گا۔ اس معاہدے کے بعد عمیر نے اپنی تلوار کو زہر میں ڈبویا اور مدینے پہنچ گیا۔حضرت عمربن خطاب (عمر فاروق) رضی اللہ عنہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ بیٹھے تھے اور بدر کے متعلق وہاں بھی تذکرہ چل رہاتھا۔اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عمیر بن وہاب مسجد کے دروازے میں اپنے گلے میںتلوار لٹکائے ہوئے کھڑا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کا یہ دشمن ضرور کسی شر کی نیت آیا ہے۔جنگ بدر کے دن یہی فتنے کے آگ بھڑکارہا تھا۔ پھر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورعرض کرنے لگے اے اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہاب ہے، یہ گلے میںتلوار لٹکائے ہوئے آیا ہے۔پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے میرے پاس لے آو،سیدنا عمرفاروق اسے لیکر آئے اور گردن سے اسکی تلوار کی پٹی پکڑ لی اور اس کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لاکر بیٹھا دیا۔میرے پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو اور عمیر سے فرمایا کہ تم میرے پاس آجاو۔ اس نے کہا کہ صبح بخیر(یہ زمانہ جہالیت کا سلام تھا ) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا سلام تمھارے سلام سے بہتر ہے اور یہی اہل جنت کا سلام ہے ۔آپ نے اس سے پوچھا اے عمیر ! تم کس لئے آئے ہو؟ اس نے عرض کی آپ کے پاس جو ہمارے قیدی ہیں ان کے متعلق یہ کہنے آیا ہوں کہ ان پر احسان کریں۔ پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایاپھر تمھارے گلے میں تلوار کیوں لٹکی ہوئی ہے؟اس نے کہا کہ ان تلواروں کی خرابی ہو انہوں نے ہم سے کون سے مصیبت دور کی ہے۔آپ نے فرمایا کیا تم سچ کہہ رہے ہو اس نے کہا خدا کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں، میں اسی لئے آیا ہوں ۔ میرے غائب بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا نہیں ، بلکہ تم اور سفیان بن امیہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔تم نے مقتولین بدر کا زکر کیا پھر تم نے کہ کہ اگر مجھ پرعلی رضی اللہ عنہ کا قرض اور بچوں کی ذمہ داری نہ ہوتی تومیں ابھی روانہ ہوتا اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم قتل کرکے آتا (معاذ اللہ)۔ پھر سفان اس شرط پر تمھارے قرض اور بچوںکی کفالت کا ضامن ہوگیا کہ تم مجھے قتل کردو گے ۔ تمھارے اور تمھارے اس ارادے اراد ے کے درمیان میرا رب عزوجل نے اپنے کرم سے اس ارادے کو ختم کردیا۔یہ سن کر عمیر جو میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرنے آیاتھا بے ساختہ پکار اٹھا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔پہلے ہم آسمانی خبروں اوروحی کے متعلق آپ کے تکذیب کرتے تھے۔یہ ایسی بات ہے کہ وہاں میرے اور سفان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔یقینا اس واقعہ کی خبر آپ کو آپ کے رب نے دی ہے۔لہذا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔یہ کہہ کر وہ مسلمان ہوگئے اور صحابی کا رتبہ پالیا۔جب وہ اسلام قبول کرچکے تو سرکا ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا یہ تمھارا اسلامی بھائی ہے۔اس کو قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔پھر عمیر بن وہاب رضی اللہ عنہ مکے چلے گئے اورا سلام پھیلانے یعنی نیکی کی دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔جس طرح پہلے مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے ، مشرکین کے خلاف تیغ نیام رہتے تھے۔ان کی نیکی کی دعوت سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالی علی محمد
  16. صبحِ بہاراں(عیدمیلاد النبی) امیراہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری ماہ ربیع النور شریف تو آتاہے ہر طرف موسم بہار آجاتی ہے ۔ میٹھے میٹھے مکی مدنی مصطفی ؐ کے دیوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بوڑھا ہو یا جوان ہر حقیقی مسلمان گویا دل کی زبان سے بول اٹھتا ہے۔ نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیا ں منا رہے ہیں جب کائنات میں کفر وشرک اور وحشت و بربرےت کا گھپ اندھیر ا چھایا ہوا تھا ۔ بارہ ربیع النور شریف کو مکہ مکرمہ میں حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر ایک ایسا نور چمکا جس نے سارے عالم کو جگمگ جگمگ کردیا۔ سسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ جن کی طر ف لگی ہوئی تھی وہ تاجدار رسالت شہنشاہ نبوت ، مخزن جودوسخاوت ، پیکر عظمت وشرافت ، محبوب رب العزت ، محسن انسانیت عزوجل و ؐ تمام عالمین کے لئے رحمت بن کر مادر گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔ مبارک ہوکہ ختم المرسلین تشریف لے آئے جناب رحمۃ للعلمین تشریف لے آئے صبح بہاراں خا تم المرسلین ، رحمۃ للعلمین،شفیع المذنبین ، انیس العریبین، سراج السالکین ، محبوب رب العالمین،جناب صادق وامین ؐ قرار ہر قلب مخزون وغمگین بن کر١٢ربیع النورشریف کو صبح صادق کے وقت جہاں میں تشریف لائے اور آکربے سہاروں، غم کے ماروں ،دکھیاروں ، دلفگاروں اوردردر کی ٹھوکر کھانے والوںبے چاروں کو شام غریباں کو ''صبحِ بہاراں '' بنایا۔ مسلمانو!صبح بہاراں مبارک وہ برساتے انوار سرکارؐآئے معجزات ١٢ ربیع النور شریف کو اللہ عزوجل کے نو ر ؐکی دنیا میں جلوہ گری ہوتے ہوئے ہی کفر وظلمت کے بادل چھٹ گئے ۔ شاہ ایران کسری کے محل پر زلزلہ آیا ، چودہ کنگرے گرگئے۔ ایران کا جو آتش کدہ ایک ہزار سال سے شعلہ زن تھا وہ بجھ گیا ، دریائے ساوہ خشک ہوگیا ، کعبہ کو وجد آگیا ، بت سر کے بل گر پڑے۔ تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرتھر اکر گر گیا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تاجدار رسالت ؐ جہاں میں فضل و رحمت بن کر تشریف لائے اور یقینا اللہ عزوجل کی رحمت کے نزول کا دن خوشی ومسرت کا دن ہوتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ کنز الایمان۔ تم فرماو اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے اللہ اکبر! رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا قران کریم حکم دے رہا ہے ۔ اور کیا ہمارے پیارے آقا ؐ سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ عزوجل کی رحمت ہے؟ دیکھئے مقدس قرآن میں صاف صاف اعلان ہے۔ ترجمہ کنزالایمان۔ اور ہم نے تمھیں نہ بھیجامگر رحمت سارے جہان کےلئے شب قدر سے بھی افضل رات حضرت سیدنا شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں'' بے شک سرور عالم ؐ کی شب ولادت شب قدر سے بھی افضل ہے کیونکہ شب ولادت سرکار ؐ کے اس دنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے جبکہ لیلۃ القدر سرکار ؐ کو عطا کردہ شب ہے اورجو رات ظہور ذات مقدس ؐ کی وجہ سے مشرف ہو وہ اس رات سے زیادہ شرف وعزت والی ہے جو ملائکہ کے نزول کی بنا پر مشرف ہے۔( ماثبت بالسنہ ص ٢٨٩ مطبوعہ دارالاشاعت باب المدینہ کراچی) عید وںکی عید الحمد للہ عزوجل ١٢ ربیع النور مسلمانوں کے لئے عید وں کی عید ہے یقینا آنسرور ؐ جہاں میں شاہ بحر وبر بن کر جلو گر نہ ہوتے تو کوئی عیدعید ہوتی، نہ کوئی شب شبِ برات ، بلکہ کون ومکان کی تمام تر رونق و شان اس جان ِ جہان ، رحمت عالمیان ، سیاح لامکان ، محبوب رحمن عزوجل و ؐ کے قدموں کی دھول کا صدقہ ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے ابولہب اور میلاد جب ابولھب مرگیا تو اس کے بعض گھر والوں نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا۔پوچھا ، کیا گزری ؟ بولا تم سے جدا ہوکر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی ، ہاں مجھے اس کلمے کی انگلی سے پا نی ملتا ہے کیونکہ ( اس کے اشارے سے)میں نے ثوبیہ لونڈی کو آزاد کیا تھا۔ (بخاری جلد اول ص ١٥٣ رقم الحدیث٥١٠١ کتاب النکاح باب وامھاتکم لاتی ارضعنکم مطبوعہ دارالفکر بیروت) مسلمان اور میلاد اس روایت کے تخت سیدنا شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں ، اس واقعہ میں میلاد شریف والوں کے لئے بڑی دلیل ہے جو تاجدار رسالت ؐ کی شب ولادت میں خوشیان مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ ( یعنی ابو لہب جو کہ کافر تھاجب وہ تاجدار نبوت ؐ کی ولادت کی خبر پاکر خوش ہونے اور اپنی لونڈی ( ثوبیہ ) کو دودھ پلانے کی خاطر آزاد کرنے کے بدلے دیا گیا ۔ تو مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھر ا ہو اہے اور مال خرچ کررہا ہے ۔ (لیکن یہ ضروری ہے کہ محفل میلاد گانے باجوں سے اور آلات موسیقی سے پاک ہو) (مدارج البنوت ج٢ ص٣٤ ضیاء القران ) جشن ولادت کو دھوم مچاو! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خوب خوب عید میلاد مناوئ۔جب ابولہب جیسے کافرکو بھی اسکی ولادت کی خوشی کرنے پر فائدہ پہنچا تو ہم تو الحمد للہ عزوجل مسلمان ہیں۔ ابولہب نے اللہ کے رسول ؐ کی نیت سے نہیں بلکہ اپنے بھتیجے کی خوشی منائی پھر بھی اس کو بدلہ ملا تو ہم اگر اپنے آقا و مولیٰ محمد رسول اللہ عزوجل و ؐ کی ولادت کی خوشی منائیں گے تو کیونکر محروم رہیں گے ۔ گھر آمنہ کے سید ابرار آ گیا خوشیاں مناو غمزدوںغمخوار آگیا میلاد منانے والے سے سرکا رؐ خوش ہوتے ہیں ایک عالم صاحب رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں تاجدار رسالت ، شہنشاہ نبوت ؐ کی زیارت کی تو عرض کیا ، یارسول اللہ عزوجل و ؐ کیا آپ کو مسلمانوں کا ہر سال آپ کی ولادت مبارک کی خوشیاں منانا پسند آتا ہے ؟ ارشاد فرمایا ،''جو ہم سے خوش ہوتا ہے ، ہم بھی اُ سے خوش ہوتے ہیں ( تذکرہ الوعظین ص ٦٠٠ مطبوعہ مکتبہ حبیبہ کوئٹہ) ولادت کی خوشی میں جھنڈے سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، میں نے دیکھا تین جھنڈے نصب کئے گئے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں تیسر ا کعبے کی چھت پر۔۔۔ اور حضور اکرامؐ کی ولادت ہوگئی۔ (خصائص کبریٰ ج اول ص ٨٢ مطبوعہ دارلکتب العلمیہ بیروت) روح الامیں نے گاڑا کعبے کی چھت پہ جھنڈا تا عرش اڑا پھریرا صبح شب ولادت جھنڈے کے ساتھ جلوس رحمت عالم ؐ نے جب سوئے مدینہ ہجرت فرمائی اورمدینہ پاک کے قریب موضع غمیم میں پہنچے تو بریدہ اسلمیٰ قبیلہ بنی سہم سے ستر سوار لے کر سرکار نامدار ؐ کو معاذ اللہ عزوجل گرفتار کرنے آئے ،مگر سرکار عالی وقار کی نگاہ فیض آثار سے خود ہی محبت ِ شاہ ابرار ؐ میں گرفتار ہوکر پورے قافلے محبت شاہ ابرار ؐ میں گرفتار ہوکر پورے قافلے سمیت مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اب عرض کیا، یارسول اللہ عزوجل و ؐ مدینہ منورہ میں آپ کا داخلہ پرچم کے ساتھ ہونا چائیے ،چنانچہ اپنا عمامہ سر سے اتار کر نیزے سے باندھ لیا اور سرکار مدینہ ، راحت ِ قلب وسینہ کے آگے آگے روانہ ہوئے۔(وفاء الوفا ج اول ص ٢٤٣ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت) ایمان کی حفاظت کانسخہ شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن حجر مکی علیہ رحمۃ اللہ القوی''النعمۃ الکبری '' ص ٢٤پر نقل فرماتے ہیں، حضرت سیدنا جنیدبغدادی علیہ رحمۃ الھادی نے فرمایا ،'' محفل میلاد مصطفی ؐ میں ادب وتعظیم کے ساتھ حاضری دینے والے کا ایمان سلامت رہے گا ۔ ان شاء اللہ عزوجل'' بخش دے مجھ کو الہیٰ ! بہر میلاد النبی ؐ نامہ اعمال عصیاں سے مرا بھر پور ہے جشن ولادت منانے کا ثواب شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں ، سرکار مدینہ ؐ کی ولادت کی رات خوشی منانے والوں کی جزاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں فضل وکرم سے َجناَ تُ النعیم میں داخل فرمائے گا ، مسلمان ہمیشہ سے محفل ِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور ولادت کی خوشی مےںدعوتیں دیتے ، کھانے پکواتے اور خوب خوشی کا اظہار کرتے اور خوب صدقہ و خیرات دیتے آئے ہیں ، خوب خوشی کا اظہار کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں نیز آپ کی ولادت باسعادت کا ذکر کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے مکانوں کو سجاتے ہیں اور ان تمام افعال حسنہ کی برکت سے ان لوگوں پر اللہ عزوجل کی برکتوں کا نزول ہوتا ہے،''(ماثبت با لسنہ ص٢٩٠ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی) جشن ولادت کے صدقے یہودیوں کو ایمان نصیب ہوگیا حضرت سیدنا عبدالواحد بن اسمعیل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ،مصر میں ایک عاشق رسول ؐ رہا کرتا تھا جو ربیع النور شریف میں اللہ عزوجل کے پیارے محبوب ؐ کا خوب جشن ولادت منایا کرتا تھا ، ایک بار ربیع النور شریف کے مہینے میں ان کی پروسن یہودن نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ ، ہمارا مسلمان پڑوسی اس مہینے میں ہر سال خصوصی دعوت وغیرہ کا اہتمام کیوں کرتاہے ؟یہودی نے بتایا کہ اس مہینے میں اس کے نبی ؐ کی ولادت ہوئی تھی لہذا یہ ان کا جشن ولادت مناتا ہے ۔ اور مسلمان اس مہینے کی بہت تعظیم کیا کرتے ہیں۔اس پر یہودن نے کہا ،واہ مسلمانوں کا طریقہ بھی کتنا پیار اہے کہ یہ لوگ اپنے نبی ؐ کا ہر سال جشن ولادت مناتے ہےں ۔ وہ یہودن رات جب سوئی تو اس کی سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ، خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل بزرگ تشریف لائے ہیں ،اردگرد لوگوں کا ہجوم ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک شخص سے دریافت کیا ، یہ بزرگ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ ، یہ نبی آخرالزمان، رحمت عالمیان ، محمد رسول اللہ عزوجل و ؐ ہیں ۔ آپ اس لئے تشریف لائے ہیں تاکہ تمھارے مسلمان پروسی کو جشن ولادت منانے پرخیروبرکت عطا فرمائیں اور ان سے ملاقات فرمائیں نیز اس پر اظہار مسرت کریں ۔ یہودن نے پھر پوچھا،کیا آپ لے نبی ؐ میری بات کا جواب دیں گے؟ اس نے جواب دیا کہ، جی ہاں ۔ اس یہودن نے سرکار عالی وقار ؐ کو پکارا۔ آپ ؐ نے جو اب میں لبیک فرمایا ۔ وہ بے حد متاثر ہوئی اور کہنے لگی ، میں مسلمان نہیں ہوں۔ آپ ؐ نے پھر بھی مجھے لبیک کہہ کر جواب دیا۔ سرکار مدینہ ،قرار قلب وسینہ ؐنے ارشاد فرمایا۔ اللہ عزوجل کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ تومسلمان ہونے والی ہے ۔ اس پر وہ بے ساختہ پکار اٹھی۔ بے شک آپ نبی کریم صاحب خلق عظےم ہیں ، جو آپکی نافرمانی کرے وہ ہلاک ہو ا اور جو اپکی قدر و منزلت نہ جانے وہ خائب وخاسر ہوا۔ پھر کلمہ شھادت پڑھا ۔ اب انکھ کھل گئی اور سچے دل سے مسلمان ہوگئی اور اس نے یہ طے کرلیا کہ صبح اٹھ کر ساری پونجی اللہ عزوجل کے پیارے محبوب ؐ کے جشن ولادت کی خوشی مےں لٹادوں گی اور خوب نیاز کروں گی ، جب صبح اٹھی تو اس کا شوھر دعوت وطعام میں مصروف تھا۔ اس نے حیرت سے پوچھا آپ یہ کیا کررہے ہیں ؟ اس نے کہا ۔ اس بات کی خوشی مےں دعوت کا اہتمام کررہا ہوں کہ تم مسلماں ہوچکی ہو ۔ پوچھا، آپکو کیسے معلوم ہوا؟ اس نے بتایا کہ میں بھی رات حضور اکرام، نور مجسم ؐ کے دست حق پرست پر ایمان لا چکا ہوں۔ (تذکرہ الوعظین ص٥٩٨ مکتبہ حبیبہ کوئٹہ) آمد سرکار ؐ سے ظلمت ہوئی کافو ر ہے کیا زمیں ، کیا آسماں ہر سمت چھایا نور ہے مرحبا یا مصطفی کے بارہ حروف کی نسبت سے جشن ولادت کے ١٢ مدنی پھول از امیر اہلسنت حضر ت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ ١۔جشن ولادت کی خوشی میں مسجدوں ، گھروں ، دوکانوں اور سواریوں پر نیز اپنے محلہ میں بھی سبز سبز پرچم لہرائے ، خوب خوب چراغاں کیجیے ۔ اپنے گھر پر کم ازکم بارہ بلب تو ضرور روشن کیجیے ۔ بارہویں رات کو دھوم دھام سے اجتماع ذکرو نعت کا انعقاد کیجیے اور صبح صادق کے وقت سبز سبز پرچم اٹھاے ،دوردو سلام پڑھتے ہوئے اشکبار انکھوں سے صبح بہاراں کا استقبال کیجیے کہ١٢ ربیع النور شریف کے دن ہوسکے تو روزہ رکھ لیجیے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ؐ ہر پیر شریف کو روزہ رکھ کر اپنا یوم ولادت مناتے تھے جیسا کہ حضرت سید نا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، بارگاہ رسالت میں پیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا (کیونکہ آپ ؐ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے) تو ارشاد فرمایا کہ ''اسی دن میری ولادت ہوئی اسی روز مجھ پر وحی نازل ہوئی۔'' ( صحےح مسلم شریف ج اول باب استجاب صیام ثلثہ ایام من کل شھر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) شارح صحےح بخاری حضرت سید نا امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اور ولادت باسعادت کے ایام میں محفل میلاد کرنے سے خواص سے یہ امر مجرب (یعنی تجربہ شدہ)ہے کہ اس سال امن و امان رہتا ہے اور ہرمراد پانے میں جلدی آنے والی خوشخبری ہوتی ہے ۔ اللہ عزوجل اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جس نے ماہ ولادت کی راتو ں کو عید بنا لیا ۔ ٢۔کعبہ اللہ شریف کے نقشے (MODEL ) ّ ّمیںکہیں کہیں گڑیوں کا طواف دیکھایا جاتا ہے ۔ یہ گناہ ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں کعبہ اللہ شریف میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ۔ ہمارے پیارے اورمیٹھے میٹھے آقا ؐ نے فتح مکہ کے بعد کعبہ المشرفہ کو بتوں سے پاک فرمادیا لہذا نقشے میں بھی بت (گڑیاں) نہیں ہونی چاہئیں ۔ اس کی جگہ پلاسٹک کے پھول رکھے جاسکتے ہیں۔(طواف کعبہ کے منظر کی تصویر جس میں چہرے واضح نظر نہیں آتے اس کو مسجد یا گھر وغیرہ میں لگانا جائز ہے ۔ ہاں جس تصویر کو زمین پر رکھ کر کھڑے کھڑے دیکھنے سے چہرہ واضع نظر آئے اسکا آویزاںکرنا ناجائز و گناہ ہے) ٣۔ایسے باب (GATE)لگاناجائز نہےںجن میںمور وغیرہ بنے ہوئے ہوں۔جاندار وں کی تصاویر کی مذمت میں دو احادیث مبارکہ پڑھئے اورخوفِ خداوندی سے لرزیئے ۔ ٭(رحمت کے)فرشتے اس گھر مےں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو۔٭''جو کوئی (جاندار) کی تصویر بنائے گا اللہ تعا لی اس کو اس وقت تک عذاب دیتا رہے گا جب تک اس تصویر میں روح نہ پھونک سکے گا۔ (مشکوۃ) ٤۔جشن ولادت کی خوشی میں بعض جگہ گانے باجے بجائے جاتے ہیں ایسا کرنا شرعاً گناہ ہے ۔ اس سلسلے میں دو روایات پیش ِخدمت ہیں۔ ٭سرکار ؐ نے فرمایا ،''مجھے ڈھول اور بانسری توڑنے کا حکم دیا گیا ہے'' (ویلمی) ٭حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ،گانا دل کو خراب اور رب تبارک و تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے ( تفسیر احمدیہ) ٥۔ نعت پاک کی کیسیٹیں بے شک چلائیں مگر اس میں بھی اذان واوقات نماز کی رعایت اور مریضوں وغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے ( عورت کی آواز میں نعت کی کیسٹ نہ چلائیں) مدینہ٦۔شارع عام میں زمین پر اس طرح سجاوٹ کرنا،پرچم گاڑنا جس سے راہ گیروںاور گاڑی والوں تکلیف ہو ناجائز ہے۔ ٧۔عورتوں کا بلااجازت شرعی گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں لہذا چراغاں وغیرہ دیکھنے کے لئے عورتوں کو گھر وں سے نکلنا ناجائز اورگناہ ہے نیز بجلی چوری بھی ناجائز ہے لہذا اس سلسلے میں بجلی فراہم کرنے والے ادارہ سے رابطہ کرکے جائز ذرائع سے ترکیب بنائیں ٨۔جلوس میلاد میں حتیٰ الامکان باوضو رہئے ، نماز باجماعت کی پابندی کاخیال رکھئے ۔ ٩۔جلوس میلاد میں گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑی سے اجتناب کریں کہ یہ پیشاب اور لید سے لوگوں کے کپڑے پلید کردیتے ہیں۔ ١٠۔جلوس میںپھل اور اناج وغیرہ پھینکنے کی بجائے لوگوں کے ہاتھوں میں دیجیے ۔ زمین پر گرنے بکھرنے اور قدموں تلے کچلنے سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اور اس طرح قصداً کھانے پینے کی چیزوں کو ضائع کرنا گناہ ہے۔ ١١۔اشتعال انگیز نعرہ بازی پر وقار جلوس کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ پر امن رہنے میں آپ کی اپنی بھلائی ہے ١٢۔ خدا نحواسۃ اگر کہیں ہلکا پھلکا پتھراو ہو بھی جائے تب بھی جذبات میں آکر جوابی کاروائی پر نہ اتر آئیں کہ اس طرح آپ کا جلوس میلاد تتر بتر اور دشمن کی مراد بار آور ۔۔۔ غنچے چٹکے پھول مہکے ہر طر ف آئی بہار ہوگئی صبح بہاراں عید میلادالنبی ؐ
  17. Attari26

    25 کرسچن کا قبول اسلام

    مکتبہ المدینہ کی ایک اور نئی کتاب تشریف لے آئی یہاں سے پڑھیں
  18. Attari26

    Sٓalat o Salam ki Ashiqa

    مکتبہ المدینہ کی نئی کتاب آگئی یہاں کلک کریں
  19. آسان سی بات ہے سرکار کے غلام خوشیاں مناتے ہیں ابلیس کے چیلے اس دن سر پر خاک ڈالے غصے میں لال پیلے ہوتےہ یں شادیوں میں چراغاں اور میٹھایاں باٹنے والے بیٹے کی ولادت پر مٹھائی باٹنے والے سرکار کی ولادت پر کیوں سوگ منار ہے ہیں اللہ ہدایت دے امین بجاہ النبی الامین
  20. نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں ربیع الاول سواءے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں سرکار کے عاشق سرکار کی ولادت کی خوشیاں مناتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تاجدار رسالت ؐ جہاں میں فضل و رحمت بن کر تشریف لائے اور یقینا اللہ عزوجل کی رحمت کے نزول کا دن خوشی ومسرت کا دن ہوتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے،(پ۱۱یونس ۵۷) ترجمہ کنز الایمان۔ تم فرماو اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے اللہ اکبر! رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا قران کریم حکم دے رہا ہے ۔ اور کیا ہمارے پیارے آقا ؐ سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ عزوجل کی رحمت ہے؟ دیکھئے مقدس قرآن میں صاف صاف اعلان ہے۔ ترجمہ کنزالایمان۔ اور ہم نے تمھیں نہ بھیجامگر رحمت سارے جہان کےلئے
  21. Attari26

    Adab e Din

  22. Attari26

    Madani Jaloos in Lahore

    دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جلوس عیدمیلاد النبی ١٢ ربیع الاول کو ریلوے اسٹیشن تا داتادربار نکالاجائےگا عاشقان رسول سبز پرچم تھامے ، لبوں پر نعتوں کے ترانے سجائے بھرپور شرکت کریں گے جلوس کی گزرگاہ کو سبز سبز پرچموں ، خوشنما بینروں سے سجایا جائے گا، جگہ بہ جگہ مشروبات کی سبیلیں لگائی جائیں گی لاہور (سٹاف رپورٹر)تبلیغ ِقرآن وسنت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک ''دعوت اسلامی ''کے زیراہتمام عظیم الشان مدنی جلوس بسلسلہ عیدمیلاد البنی ؐ مرحبا یامصطفی ، سرکار کی آمد مرحبا کی دھومیں مچاتا 10مارچ بمطابق ١٢ ربیع الاول بروز منگل کو2:00بجے لاہور ریلوے اسٹیشن سے داتا دربارتک نکلا جائے گا ۔دعوت اسلامی کا مدنی جلوس اپنے روایتی راستوں( ریلوے اسٹیشن نوری مسجد سے شروع ہوکر لنڈا بازار سے گزرتا ہوا میلاد چوک پہنچے گا ،وہاں سے سرکلر روڈ بیرون دہلی گیٹ ، بیرون موچی گیٹ ، بیرون شاہ عالم گیٹ بیرون لوہاری اور اردو بازار) سے گزرتا داتا دربار پر جاکر ختم ہوگا۔داتا دربار پہنچ کر دعا کروائی جا ئے گی اور نماز عصر باجماعت ادا کی جائے گی۔ہزاروںعاشقان سفید مدنی لباس پہنے ، سروں پر عمامے کے تاج سجائے ہاتھوں میں سبز سبز پرچم تھامے ، لبوں پر نعتیںاور مرحبایا مصطفی کے نعرے لگاتے انتہائی نظم وضبط کے ساتھ شریک ہونگے ۔ذندہ لانان لاہورمدنی جلوس کا پرجوش استقبال کریں گے،مدنی جلوس پر جگہ بہ جگہ گل پاشی کی جائے گی، جلوس کے راستے میں مشروبات اور ٹھنڈے پانی سبیلیں لگائی جائیں گی اور شرکا میں لنگر رسائل تقسیم کئے جائیں گے۔ جلوس کو مختلف مقاما ت پر روک کر نیکی کی دعوت پیش کی جائے گی ۔جلوس کی ساتھ پولیس کی بھاری نفری تعینات ہوگی اور سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے جائیں گے مجلس نشرواشاعت دعوت اسلامی
×
×
  • Create New...