
Eccedentesiast
مدیرِ اعلیٰ-
کل پوسٹس
3,046 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
85
سب کچھ Eccedentesiast نے پوسٹ کیا
-
Kya Store Main Phenki Hui Cheezein Istimaal Kar Saktay Hain?
Eccedentesiast replied to islam's topic in شرعی سوال پوچھیں
dua main yad rakhnay ki darkhawst hay .. -
Maachis waghera k zareay aag ki lo say balon ko jalana durust nhi http://mufti.faizane...wer.php?Q=17896
-
Imam-e-Azam Razi allah talla unhou
Eccedentesiast replied to Bismillah's topic in دیگر تمام درخواستیں
-
Imam-e-Azam Razi allah talla unhou
Eccedentesiast replied to Bismillah's topic in دیگر تمام درخواستیں
-
Kya Store Main Phenki Hui Cheezein Istimaal Kar Saktay Hain?
Eccedentesiast replied to islam's topic in شرعی سوال پوچھیں
ji han .... alcohol mili cream ka istemal jaiz hay aor isay lga kr nmaz bhi parh sktay hain http://mufti.faizaneattar.net/Answer.php?Q=17821 -
Kya Store Main Phenki Hui Cheezein Istimaal Kar Saktay Hain?
Eccedentesiast replied to islam's topic in شرعی سوال پوچھیں
ji han ... Alcohol ka kharji istemal jaiz hay ... -
Masha Allah SubhanAllah Jazak Allah for sharing Allah kram aesa kray tujh pay jahan main Aay Dawat-e-Islami Teri Dhoom Machi Ho! Aameen
-
Meray nihayat hi Qabil-e-Ehtram Muhtram Ishrat Iqbal Warsi bhai ki aap beeti: شُکریہ اے دعوتِ اسلامی تیرا شُکریہ آکہ فِتنوں سے ہمیں تونے بچایا شُکریہ ظُلمتوں کی رات تھی اِک اِک دیا تھا بُجھ رہا تُونے فانوسِ رضا آکہ جلایا شُکریہ دُور ہوتے جارہے تھے سُنتوں سے اُمتی سُنتوں کی راہ پہ تونے چلایا شُکریہ تھے لباسِ خضر میں رہزن یہاں جلوہ نُما تونے سیدھا راستہ ہم کو دکھایا شُکریہ کاش عشرت وارثی محشر میں جب بیدار ہو ساتھ ہو عطار کے اِنکا نِکما شُکریہ یہ 1984 کی بات ہے جب میں میٹرک کے ایگزام سے فارغ ہوکر اپنے مستقبل کی تیاری کر رھا تھا آنکھوں میں ہزار سپنے تھے دِل میں ترنگ تھی میں اکثر اپنے فیوچر کے بارے میں سوچا کرتا مجھے بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد لیکچرار بننا ہے مذہب سے قربت فقط اتنی تھی کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ لیا کرتا تھا۔ اُنہی دِنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا اوربس زندگی بدل گئی میرے خاندان والوں کا عجب حال تھا بُغض اولیاءَاللہ میں حد سے بَڑھےہوئے تھے اولیاءَاللہ کو بُتوں سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اور اُنہیں نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور فلمی گانوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا اور ہرہر معاملے میں مُتشدد تھے ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ میری نظر مسجد کے دروازے میں کھڑے اپنے کلاس فیلو پر پڑی میں نے لپک کر اُسے خود سے بغلگیر کرلیا چُوں کے مسجد کے احترام سے ناواقف تھا اس لئے مسجد کے دروازے کے اندر ہی کلاس کے دیگر ساتھیوں کا حال احوال پوچھنا شروع کردیا بات سے بات نکلتی چلی گئی اور ہم نے نا سمجھی میں کسی فلم سے مُتعلق گفتگو شروع کردی ہماری گفتگو جاری تھی کہ کسی نے دھیرے سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا میں نے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو ایک نوجوان جس کے چہرے پہ داڑھی تھی اوروہ اپنے سر پہ ناسی رنگ کا عمامہ سَجائے کھڑا تھا، میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جی؟ اُس نے نہایت شفقت بھرے لہجے میں کہا آپ کے قیمتی وقت میں سے چند لمحے درکار ہیں! میں نے کہا جی فرمایئے تب اُس نے کہا بھائی چند لمحوں کے لئے اگر مسجد میں ہی بیٹھ کر بات کرلیں تو بہتر ہوگا آپ کو بھی ثواب مِلے گا اور مجھے بھی میرا دوست تو مولوی نما نوجوان کو دیکھتے ہی یہ کہہ کر کھسک لیا کہ مجھے دیر ہورہی ہے اور گھر والے پریشان ہورہے ہونگے جبکہ میں شرمیلی طبیعت کی وجہ سے انکار نہ کرسکا اور دوبارہ مسجد میں داخل ہوگیا مسجد میں ایک کونے میں چند نوجوان قُرانی قاعدہ ہاتھ میں لئے سبق یاد کر رہے تھے وہ نوجوان مجھے لیکر ایک طرف بیٹھ گیا اور بڑے دھیمے لہجے میں سمجھانے لگا بھائی مسجد میں دُنیا کی بات کرنے سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں اور فلموں کی باتیں وہ بھی مسجد میں یہ تو اور بھی سخت گُناہ کا کام ہے ۔ میرا ندامت سے سر جُھک گیا تب اُنہوں نے میری حالت دیکھ کر کہا بھائی کوئی بات نہیں شاید آپ نے بھولے سے یہ گناہ کا کام کیا ہے اپنے رَب عزوجل سے معافی مانگ لیجئے گا وہ نہایت ہی کریم ہے مُعاف فرمادیگا اُس کے بعد اُنہوں نے مجھے تجوید سے قران پڑھنے کی دعوت دی جو میں نے کچھ پس وپیش کے بعد قبول کرلی میں روزانہ عشا کی نماز کے بعد درس اور مدرسے میں بیٹھنے لگا جمعرات کو مدرسے کی چُھٹی ہوا کرتی کہ وہ سب ہفتہ وار اجتماع میں جایا کرتے تھے چند ہفتے تو میں اپنے اُستاد کو ٹالتا رہا لیکن ایک مرتبہ اُنہوں نے ایسے دلنشین انداز میں التجا کی کہ میں انکار نہ کرسکا اور اجتماع میں جانے کی حامی بھر لی اور جب میں پہلی مرتبہ اجتماع میں گیا تو میری زندگی میں انقلاب برپا ہوگا اصلاحی بیانات سُن کر ساری پلاننگ جو میں نے فیوچر کے لئے بنا رکھی تھیں ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیئں لیکن جب اجتماع سے واپس گھر پہنچا تو ابو نے ڈانٹ ڈپت سے میری خوب تواضع کی جب میں نے اجتماع کا بتایا تو ذیادہ سیخ پا ہوگئے اور سمجھانے لگے کہ مولویوں کے چکر میں پڑوگے تو بہت پیچھے رہ جاؤ گے ابا پَکے کاروباری تھے دین کے معاملے میں میری طرح کورے تھے اُس رات تو میری جان چھوٹ گئی لیکن جلد ہی بڑے ابا کا بُلاوہ آگیا اور مجھے سمجھایا گیا بیٹا یہ ناسی پگڑی والوں کے چکر میں تُم کب سے آگئے بیٹا یہ لوگ اچھے نہیں ہیں شرک کی دعوت دیتے ہیں مزاروں پہ سجدے کرتے ہیں نبی کو خُدا کے برابر سمجھتے ہیں اور اِنہوں نے اپنا نیا دین بنایا ہوا ہے اسلئے خبردار جو آج کے بعد کبھی اِن کیساتھ بھی نظر آئے میں اپنے تمام طایا بلخصوص بڑے ابو کی بہت عزت کیا کرتا تھا اُن کے مُنہ سے یہ انکشافات سُن کر بھونچکا سا ہوگیا قصہ مُختصر اُس دَن کے بعد میں نے اُس مسجد اور مدرسہ میں جانا چُھوڑ دیا ایک دَن سَرِ راہ اُسی نوجوان سے مُلاقات ہوگئی۔ اُنہوں نے جب مدرسے نہ آنے کا سبب پوچھا تو میں نے طایا ابو والی تمام باتیں دُھرا دیں جِنہیں وہ بَڑے تَحمُل سے سُنتے رہے اور میری گُفتگو خَتم ہونے کے بعد گویا ہوئے اقبال بھائی آپ ہمارے ساتھ کافی دِن رہے ہیں کیا آپ نے اِن الزامات کو جو آپکے طایا ابو نے ہم پر لگائے ہیں اُن میں سے کوئی بھی بات ہم میں پائی میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ کے طایا ابو جھوٹ بُول رہے ہیں مگر اتنا ضرور کہونگا کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مُتعلق کچھ نہیں جانتے بھائی دعوتِ اسلامی تو اُسی دعوت کو عام کررہی ہے جِسے ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے بڑی محنت سے لوگوں تک پہنچایا صحابہ کرام رضوانُ اللہ علیہم اجمعین نے پھیلایا اور بُزرگان دین نے جسکی آبیاری اپنے پسینے اور خون سے کی مجھے آپکی جانب سے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ آپکے خاندان والے آپکو ضرور بھڑکایئں گے میں تو صرف دُعا ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ کریم آپ کے لئے منزل کی تلاش آسان فرمادے بس اتنی استدعا ضرور کرونگا کہ آپ مجھ سے رابطہ نہ توڑیں جب تک کہ آپ حقیقت کو نہ پالیں اگر آپ مُناسب سمجھیں تو کل میرے پاس تشریف لایئں میں آپکو چند کتابیں دونگا جنہیں پڑھ کر آپ کے لئے منزل کا انتخاب آسان ضرور ہوجائے گا اُس نوجوان کی باتوں میں ایسا اخلاص تھا کہ باوجود اِس کہ مجھے بڑوں کی طرف سے سختی کیساتھ سمجھایا گیا تھا کہ دعوتِ اسلامی والوں سے رابطہ نہ رَکھوں میرے قدم خود بخود اُسی مسجد کی جانب اُٹھتے چلے گئے جہاں میری پہلی ملاقات اُس اسلامی بھائی سے ہوئی تھی مسجد میں مجھے صرف ایک کتابچہ پیش کیا گیا جسکا نام تھا کنزالایمان اور دیگر تراجم کا تقابلی جائزہ یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا جس میں امام احمد رضا (علیہ الرحمہ) اور دیگر علماء کے تراجم کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا بِلا مُبالغہ صرف اس ایک کتابچہ نے مجھ پر آشکارہ کردیا کہ جو لوگ قران کے ترجمہ میں اسقدر احتیاط پیش نظر رکھیں کہ کوئی دوسرا ترجمہ اُسکا مُقابل نہ بن سکے وہ لوگ غلط نہیں ہوسکتے چونکہ میرا خاندان والد صاحب اور ایک چچا کو چھوڑ کہ انتہائی مذہبی تھا اس لئے اچھی خاصی دینی کُتب موجود تھیں اب میں دونوں طریفین کی کُتب پڑھ رھا تھا البتہ فرق صرف اتنا تھاکہ دعوت اسلامی والوں کی کتابیں صرف مسجد میں ہی پڑھ سکتا تھا چند ماہ میں ہی مجھے مطالعے سے اندازہ ہوگیا کہ جِنہیں بدعتی اور بے دین کہا جارہا ہے حقیقت میں وہی لوگ اعتدال پسند ، عُشاقِ مصطفیٰ ، اور سُنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرنے والے ہیں اور مجھے کونسی منزل کا انتخاب کرنا ہے میں جان چُکا تھا چند دن کے بعد ہی امیرِ اھلسُنت مدظلہُ العالی میرے شہر تشریف لائے اور اُن کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی دِل نے کہا واللہ یہ چہرہ کسی اللہ کے ولیء کامل کا ہی ہوسکتا تھا میں نے کُھل کر دعوتِ اسلامی کا ساتھ دینے کا خود سے پیمان کیا اور اُسکے بعد میرے خاندان والوں کے لئے جیسے میں دُنیا میں نہ رھا پہلے پہلے تو مجھے صرف سمجھایا گیا بعد میں شوشل بائیکاٹ کردیا گیا کبھی سر سے عمامے کو نُوچ کہ پھینکا گیا تو کبھی شادی میں بُھلا دیا گیا کبھی محفل میں بیگانہ بنایا گیا تو کبھی خلوت میں ڈرایا گیا۔یعنی ہر وہ سِتم کیا گیا جس سے میرے دِل کو زخم پہنچے جب میں کبھی ذیادہ دِل برداشتہ ہوجاتا تو امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا اُس وقت چونکہ دعوتِ اسلامی کا کام ابتدائی تھا اسلئے کبھی نشست مُیسر آجاتی تو کبھی امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کیساتھ عام بسوں میں سفر کا موقع مِل جاتا کبھی آپ اپنے کاشانہء اقدس پہ لیجا کر ساتھ کھانا کھلاتے تو کبھی عام دِنوں میں ساتھ افطار پہ بِٹھالیتے اُس وقت جس فیض کا دریا امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کی ذات سے جاری تھا اور جسقدر آسانی سے ملاقات کے مواقع مُیسر تھے آج اُسکا تصور بھی مُحال ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد اس نیت کیساتھ کراچی پہنچے کہ مولانا سے لڑوں گا کہ آپ نے ہمارے بچے کو بِگاڑ دیا اچھا بھلا میرا کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا آپ نے مولوی بنادیا لیکن جب امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی سے مُلاقات ہوئی آپ نے میرے والد کو گھر چلنے کی دعوت دی گھر لیجا کر اپنے ساتھ کھانا کھلایا میرے ابو اُس درمیان گھر کی سادگی اور امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کے آداب طعام اور ادبِ رزق اور آپکے اخلاق سے اسقدر مُتاثر ہوئے کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی نے میرے والد سے کراچی آمد کا سبب پوچھا تو فقط اتنا کہہ سکے ،، مولانا میں تو آپ سے اپنا ایک بیٹا واپس لینے آیا تھا مگر آپ سے ملنے کے بعد دِل چاہتا ہے سارے بیٹے آپ ہی کو دے دوں آج الحمدُللہ میری جو بھی پہچان ہے سب امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کے فیضان نظر کی مرہونِ مِنت ہے القصہ مختصر دعوت اسلامی اور امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کے میری فیملی پر اسقدر احسانات ہیں جنکا شُکریہ میں تا زیست ادا نہیں کرپاوں گا اسلئے یہ چھوٹی سی نظم پیش کی ہے
-
Awal-o-Aakhir Durood Shareef zroor parhiay aor Ahqar ko dua main yad rakhna mat bhooliay ga ... Jazak Allah Azawajal
-
دیدار الہی اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم
Eccedentesiast replied to Eccedentesiast's topic in فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
دیدار الہی اور تطبیق روایت عایشہ صدیقه رضی الله عنہا مزید تفصیل کی لیے غزالی زمان علامہ سید احمدسعید کاظمی رحمت الله علیہ کے مقالات کا مطالعہ فرمائیں .جو کہ آن لائن بھی دستیاب ہیں . مقالات کاظمی جِلد ١ باب معراج النبی صلی الله علیہ و سلم و ''درالتاج فی مسئلۃ المعراج'' کا مطالعہ نہایت ہی سود مند رہے گا - جزاک الله عزوجل -
دیدار الہی اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم
Eccedentesiast replied to Eccedentesiast's topic in فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
علامہ محمّد نجم مصطفائی کی کتاب وفا کا سفر سے اقتباس Kitab Mwahib Ul Ladunya Say : Sharah Saheeh Muslim Shareef Say : -
دیدار الہی اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم
اس ٹاپک میں نے Eccedentesiast میں پوسٹ کیا فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
صحیح ترین اورراجح مذہب یہی ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ و سلم نے سر کی آنکھوں سے الله عزو جل کا دیدار فرمایا : اس سلسلے میں امام احمد رضا خان رحمت الله علیہ کی تصنیف لطیف منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش والرّؤیۃ (۱۳۲۰ھ) پیش خدمت ہے منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش والرّؤیۃ (۱۳۲۰ھ) (محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا) بسم اللہ الرحمن الرحیم مسئلہ ۳۶: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شب معراج نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنے رب کو دیکھنا کس حدیث سے ثابت ہے ؟بینواتوجروا(بیان فرمائےے اوراجر دیے جاؤ گے ۔ت) الجواب الاحادیث المرفوعہ مرفوع حدیثیں امام احمد اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل۱ ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ (۱مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵) امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : یہ حدیث بسند صحیح ہے ۱۔ (۱ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵) (الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱) ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود۲۔ بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔ (۲کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ ) وہی محدث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لی ربی نخلت ابرٰھیم خلتی وکلمت موسٰی تکلیما واعطیتک یا محمد کفاحا۳۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔ (۳تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶ ) فی مجمع البحار کفاحا ای مواجھۃً لیس بینھما حجاب ولارسول۴ ۔ مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (ت) (۴مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴) ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو یصف سدرۃ المنتہٰی (وذکر الحدیث الی ان قالت ) قلت یارسول اللہ مارأیت عندھا ؟قال رأیتہ عندھا یعنی ربہ ۱۔ یعنی میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ !حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب کا۔ (۱الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴) اٰثار الصحابہ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی :اما نحن بنوھا شام فنقول ان محمدا رای ربہ مرتین ۲۔ ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔ (۲جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) ( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹) ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی :ان ابن عمر ارسل الٰی ابن عباس یسألہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ ، فقال نعم۳۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کرابھیجا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں ۔ (۳ الدرالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰) جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں عکرمہ سے مروی :واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمۃ فقلت لابن عباس نظر محمد الی ربہ قال نعم جعل الکلام لموسٰی والخلۃ لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱(زاد الترمذی )فقد رای ربہ مرتین۲۔ یعنی طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔ (۱المعجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (۲جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰) امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔ امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے :واللفظ للبیہقی أتعجبون ان تکون الخلۃ لابراھیم والکلام لموسٰی والرؤیۃ لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے ۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکم۳ نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے ۴۔ (۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴) (الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹) (المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵) (السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲) (۴شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷) طبرانی معجم اوسط میں راوی : عن عبداللہ بن عباس انہ کان یقول ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفوادہ۵۔ یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اورایک بار دل کی آنکھ سے ۔ (۵المواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶) امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۱۔ (۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷) امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :ان محمد ا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ عزوجل۲ ۔ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ (۲ المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے۳ ۔ (۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸) محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے :ان مروان سأل ابا ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ فقال نعم۴۔ یعنی مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں (۴شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹) _ اخبار التابعین مصنف عبدالرزاق میں ہے :عن معمر عن الحسن البصری انہ کان یحلف باللہ لقد راٰ ی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۵۔ یعنی امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ (۵الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹) اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے :وانہ یشتد علیہ انکارھا ۱ اھ ملتقطا۔ اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔ (۱شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۱۶) یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں : اخرج ابن خزیمۃ عن عروہ بن الزبیر اثباتھا وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم بہ کعب الاحبار والزھری ۲الخ۔ ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت) (۲ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴) اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے :قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی ۳اھ مختصراً۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا۔ (۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷) نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سے راوی : انہ قال اقول بحدیث ابن عباس بعینہ راٰی ربہ راٰہ راٰہ راٰہ حتی انقطع نفسہ۔۴ یعنی انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔ (۴الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹) امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جزم بہ معمر واٰخرون وھوقول الاشعری وغالب اتباعہ۱۔ یعنی امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔ (۱المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴) علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں :الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابۃ۲۔ مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہئ کرام کا یہی مذہب ہے۔ (۲نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳) امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :الراجح عند اکثر العلماء انہ طرای ربہ بعین راسہ لیلۃ المعراج۳۔ جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ (۳شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶) ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ مسئلہ۳۷ : از کانپور محلہ بنگالی محل مرسلہ حدم علی خاں وکاطم حسین ۱۱محرم الحرام ۱۳۲۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شبِ معراج مبارک عرش عظیم تک تشریف لے جانا علمائے کرام وائمہ اعلام نے تحریر فرمایا ہے یا نہیں ؟زید کہتاہے یہ محض جھوٹ ہے ، اس کا یہ کہنا کیسا ہے ؟بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجردئے جاؤ گے ۔ت) الجواب : بیشک علمائے کرام ائمہ دین عدول ثقات معتمدین نے اپنی تصنیف جلیلہ میں اس کی اور اس سے زائد کی تصریحات جلیلہ فرمائی ہیں ، اوریہ سب احادیث ہیں، اگرچہ احادیث مرسل یا ایک اصطلاح پر معضل ہیں،اورحدیث مرسل ومعضل باب فضائل میں بالاجماع مقبول ہے خصوصاً جبکہ ناقلین ثقات عدول ہیں اوریہ امر ایسا نہیں جس میں رائے کو دخل ہوتو ضرور ثبوت سند پر محمول ، اورمثبت نافی پر مقدم، اورعدم اطلاع اطلاع عدم نہیں تو جھوٹ کہنے والا محض جھوٹا مجازف فی الدین ہے ۔ امام اجل سید ی محمد بوصیری قدس سرہ، قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : عسریت من حرم لیلا الی حرم کما سری البدر فی داج من الظلم وبت ترقی الی ان نلت منزلۃ من قاب قوسین لم تدرک ولم ترم خفضت کل مقام بالاضافۃ اذ نودیت بالرفع مثل المفرد العلم فخرت کل فخار غیر مشترک وجزت کل مقام غیر مزدحم۱ یعنی یارسول اللہ!حضور رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں حرم مکہ معظمہ سے بیت الاقصٰی کی طرف تشریف فرماہوئے جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چلے ، اورحضور اس شب میں ترقی فرماتے رہے یہاں تک کہ قاب قوسین کی منزل پہنچے جو نہ کسی نے پائی نہ کسی کو اس کی ہمت ہوئی ۔ حضور نے اپنی نسبت سے تمام مقامات کو پست فرمادیا، جب حضور رفع کے لئے مفرد علم کی طرح ندافرمائے گئے حضور نے ہر ایسا فخر جمع فرمالیا جو قابل شرکت نہ تھا اور حضور ہر اس مقام سے گزرگئے جس میں اوروں کا ہجوم نہ تھا یا یہ کہ حضور نے سب فخر بلا شرکت جمع فرمالئے اورحضور تمام مقامات سے بے مزاحم گزرگئے ۔ (۱ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ (قصیدہ بردہ )الفصل السابع مرکز اہلسنت گجرات ہند ص۴۴تا۴۶) یعنی عالم امکان میں جتنے مقام ہیں حضور سب سے تنہا گزر گئے کہ دوسرے کو یہ امر نصیب نہ ہوا ۔ علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں :ای انت دخلت الباب وقطعت الحجاب الی ان لم تترک غایۃ للساع الی السبق من کمال القرب المطلق الی جناب الحق ولا ترکت موضع رقی وصعود وقیام وقعود لطالب رفعۃ فی عالم الوجود بل تجاوزت ذٰلک الٰی مقام قاب قوسین اوادنٰی فاوحٰی الیک ربک ما اوحٰی۱۔ یعنی حجور دروازہ میں داخل ہوئے اورآپنے یہاں تک حجاب طے فرمائے کہ حضر ت عزت کی جناب میں قرب مطلق کامل کے سبب کسی ایسے کے لئے جو سبقت کی طرف دوڑے کوئی نہایت نہ چھوڑی اورتما م عالم وجود میں کسی طالب بندلی کے لئے کوئی جگہ عروج وترقی یا اٹھنے بیٹھنے کی باقی نہ رکھی بلکہ حضور عالم مکان سے تجاوز فرما کر مقام قاب وقوسین اوادنٰی تک پہنچے تو حضور کے رب نے حضور کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ۔ (۱الزبدۃ العمدۃ فی شرح القصیدۃ البردۃ الفصل السابع جمعیت علماء سکندریہ خیر پور سندھ ص۹۶) نیز امام ہمام ابو عبداللہ شرف الدین محمد قدس سرہ، ام القرٰی میں فرماتے ہیں :وترقی بہ الٰی قاب قوسین وتلک السیادۃ القعسا رتب تسقط الاما فی حسرٰی دونھا ماوراھن وراء۲ حضور کو قاب قوسین تک ترقی ہوئی اوریہ سرداری لازوال ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ آرزوئیں ان سے تھک کرگرجاتی ہیں ان کے اس طرف کوئی مقام ہی نہیں ۔ (۲ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الرابع حز ب القادریۃ لاہور ص۱۳) امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :قال بعض الائمۃ والماریج لیلۃ الاسراء عشرۃ ، سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوی والعاشر الی العرش۳الخ ۔ بعض ائمہ نے فرمایا شب اسراء دس معراجیں تھیں ، سات ساتوں آسمانوں میں ، اورآٹھویں سدرۃ المنتہٰی ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔ (۳افضل القرٰی لقراء ام القری تھت شعر۷۳ المجعم الثقافی ابو ظبی ۱/ ۴۰۴) سید علامہ عارف باللہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا :قال الشھاب المکی فی شرح ھمزیۃ لامام بوصیری عن بعض الائمۃ ان المعاریج عشرۃ الٰی قولہ والعاشر الی العرش والرؤیۃ۴ ۔ فرمایا ، امام شہاب مکی نے شرح ہمزیہ امام بوصیرہ میں کہا بعض آئمہ سے منقول ہے کہ معراجین دس ہیں، (۴ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ بحوالہ شرح قصیدہ ہمزیہ المکتبۃ النوریۃ الرضویہ لائلپور ۱ /۲۷۲) دسویں عرش ودیدار تک ۔ نیز شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے :لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی ۱ ۔ جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوادی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اوراس مین ادنٰی مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے ۔ اوروہ جو فوق العرش سے مستوٰی اورفرف تک رہی اسے توخدا ہی جانے ۔ (۱افضل القرٰی لقرء ام القرٰی) اسی میں ہے :لما اعطی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام الکلام اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مثلہ لیلۃ الاسراء وزیادۃ الدنو والرویۃ بعین البصر وشتان مابین جبل الطور الذی نوجی بہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام موما فوق العرش الذی نوجی بہ نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲۔ جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دولت کلام عطاہوئی ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ویسی ہی شب اسراملی اورزیادت قرب اورچشم سر سے دیدارالٰہی اس کے علاوہ ۔ اوربھلاکہاں کو ہ طور جس پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام سے مناجات ہوئی اورکہاں مافوق العرش جہاںہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کلام ہوا۔ (۲افضل القرٰی لقرء ام القرٰی) اسی میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ببدنہ یقظۃ بمکۃ لیلۃ ولاسراء الی السماء ثم الی سدرۃ المنتھٰی ثم الی المستوی الی العرش والرفرف والرویۃ۳ ۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جسم پاک کے ساتھ بیداری میں شب اسراآسمانوں تک ترقی فرمائی ، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر مقام مستوٰی ، پھر عرش ورفرف ودیدار تک۔ (۳افضل القرٰی لقراء ام القرٰی تحت شعرا ۱المجمع الثقافی ابوظبی ۱/ ۱۱۶و۱۱۷) علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی رحمۃ اللہ تعالٰی تعلیقاتِ افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :الاسراء بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی یقظۃ بالجسد والروح من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم عرج بہ الی السمٰوٰت العلی ثم الی سدرۃ المنتہٰی ثم الی المستوی ثم الی العرش والرفرف۱۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معراج بیداری میں بدن ورُوح کے ساتھ مسجد حرامِ سے مسجدِ اقصٰی تک ہوئی ،پھر آسمانوں ، پھر سدرہ ، پھر مستوٰی ، پھرعرش ورفرف تک۔ (۱ تعلیقات علی ام القرٰی للعلامۃ احمد بن محمد الصاوی علی ھامش الفتوحات الاحمدیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصرص۳) فتوحات احمدیہ شرح الہمزیہ للشیخ سلیمان الجمل میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الاسراء من بیت المقدس الی السمٰوٰت السبع الی حیث شاء اللہ تعالٰی لکنہ لم یجاوز العرش علی الراجح۲۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ترقی شب اسراء بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اوروہاں سے اس مقام تک ہے جہاں تک اللہ عزوجل نے چاہا مگر راجح یہ ہے کہ عرش سے آگے تجاوز نہ فرمایا ۔ (۲ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر ص۳) اسی میں ہے :المعاریج لیلۃ الاسراء عشرۃ سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوٰی والعاشر الی العرش لکن لم یجاوز العرش کما ھو التحقیق عند اھل المعاریج۳۔ معراجیں شب اسراء دس ہوئیں، سات آسمانوں میں ،ا ورآٹھویں سدرہ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔ مگر راویان معراج کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ عرش سے اوپر تجاو ز نہ فرمایا ۔ (۳الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۰) اسی میں ہے :بعد ان جاوز السماء السابعۃ رفعت لہ سدرۃ المنتھٰی ثم جاو زھا الی مستوٰی ثم زج بہ فی النور فخرق سبعین الف حجاب من نور مسیرۃ کل حجاب خمسائۃ عام ثم دلی لہ رفرف اخضر فارتقی بہ حتی وصل الی العرش ولم یجاوزہ فکان من ربہ قاب قوسین او ادنٰی۱۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آسمان ہفتم سے گزرے سدرہ حضور کے سامنے بلند کی گئی اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور عالم نور میں ڈالے گئے وہاں ستر ہزار پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور کے لئے لٹکایا گیا ، حضور اقدس اس پر ترقی فرماکر عرش تک پہنچے ، اورعرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین اوادنٰی پایا۔ (۱ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۱ اقول :(میں کہتاہوں۔ت) شیخ سلیمٰن نے عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمانے کوترجیح دی، اورامام ابن حجر مکی وغیرہ کی عبارت ماضیہ وآتیہ وغیرہا میں فوق العرش ولامکان کی تصریح ہے ، لامکان یقینا فوق العرش ہے اورحقیقۃً دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ، عرش تک منتہائے مکان ہے ، اس سے آگے لامکان ہے ، اورجسم نہ ہوگا مگر مکان میں ، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جسم مبارک سے منتہائے عرش تک تشریف لے گئے اورروح اقدس نے وراء الوراء تک ترقی فرمائی جسے ان کا رب جانے جو لے گیا، پھر وہ جانیں جو تشریف لے گئے ، اسی طرف کلام امام شیخ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اشارہ عنقریب آتاہے کہ ان پاؤں سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ، تو سیر قدم عرش پر ختم ہوئی ، نہ اس لئے کہ سیر اقدس میں معاذاللہ کوئی کمی رہی ، بلکہ اس لئے کہ تمام اماکن کا احاطہ فرمالیا،اوپرکوئی مکان ہی نہیں جسے کہئے کہ قدم پاک وہاں نہ پہنچا اوسیر قلب انور کی انتہاء قاب قوسین ، اگر وسوسہ گزرے کہ عرش سے وراء کیا ہوگا کہ حضور نے اس سے تجاوز فرمایاتو امام اجل سید علی وفا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد سنئے جسے امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا کہ فرماتے ہیں :لیس الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الافلاک والجنۃ والنار وانما الرجل من نفذ بصرہ الی خارج ھٰذا الوجود کلہ وھناک یعرف قدرعظمۃ موجدہ سبحٰنہ وتعالٰی ۲۔ مَرد وہ نہیں جسے عرش اورجو کچھ اس کے احاطہ میں ہے افلاک وجنت ونار یہی چیزیں محدود ومقید کرلیں، مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں اسے موجد عالم جل جلالہ کی عظمت کی قدر کھلے گی۔ (۲الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثوں داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰) امام علامہ احمد قسطلانی مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ میں اور علامہ محمد زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : (ومنہا انہ راٰی اللہ تعالٰی بعینیہ) یقظۃ علی الراجح (وکلمہ اللہ تعالٰی فی الرفیع الا علی) علی سائر الامکنۃ وقدروی ابن عساکر عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعا لما اسری لی قربنی ربی حتی کان بینی وبینہ قاب قوسین اوادنی ۱۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے ، اوراللہ عزوجل نے حضور سے اس بلند وبالا تر مقام میں کلام فرمایا جو تمام امکنہ سے اعلٰی تھا اوربیشک ابن عساکر نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شب اسراء مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اوراس میں دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔ (۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۳۴) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع الفصل الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۵ /۲۵۱و۲۵۲) اسی میں ہے : قد اختلف العلماء فی الاسراء ھل ھوا اسراء واحد او اثنین مرۃ بروحہ وبدنہ یقظۃ ومرۃ مناما او یقظۃ بروحہ وجسدہ من المسجدالحرام الی المسجد الاقصی ثم منا ما من المسجدالاقصٰی الی العرش۲۔ علماء کو اختلاف ہوا کہ معراج ایک ہے یا دو، ایک بار روح وبدن اقدس کے ساتھ بیداری میں اورایک بارخواب میں یا بیداری میں روح وبدن مبارک کے ساتھ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک، پھر خواب میں وہاں سے عرش تک ۔ (۲ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷) فالحق انہ اسراء واحد بروحہ وجسدہ یقظۃ فی القصۃ کلھا والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین ۳۔ اورحق یہ ہے کہ وہ ایک اسراء ہے اورسارے قصے میں یعنی مسجد الحرام سے عرش اعلٰی تک بیداری میں روح وبدن اطہر ہی کے ساتھ ہے ۔ جمہور علماء ومحدثین وفقہاء ومتکلمین سب کا یہی مذہب ہے ۔ (۳المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷) (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۲) اسی میں ہے : المعاریج عشرۃ (الٰی قولہ )العاشر الی العرش ۱ ۔معراجیں دس ہوئیں ، دسویں عرش تک۔ (۱المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس مراحل المعراج المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۷) اسی میں ہے : قدروردفی الصحیح عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما عرج بی جبریل الی سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی فکان قاب قوسین او ادنٰی ۲ وتدلیہ علی ما فی حدیث شریک کان فوق العرش ۳۔ صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : میرے ساتھ جبریل نے سدرۃ المنتہٰی تک عروج کیا اور جبار رب العزۃ جل وعلانے دنو وتدلیّ فرمائی تو فاصلہ دو کمانوں بلکہ ان سے کم کا رہا، یہ تدلی بالائے عرش تھی ، جیسا کہ حدیث شریک ہے ۔ (۲المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۸۸) (المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۹۰) علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں : وردفی المعراج انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما بلغ سدرۃ المنتہٰی جاء ہ بالرفرف جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فتناولہ فطاربہ الی العرش۴۔ حدیث معراج میں وارد ہوا کہ جب حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرۃ المنتہٰی پہنچے جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم رفرف حاضر لائے وہ حضو کر لے کر عرش تک اڑگیا۔ (۴نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واماما ورد فی حدیث الاسراء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۳۱۰) اسی میں ہے :علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ ۱۔ صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شب اسراء جنت میں تشریف لے گئے اورعرش تک پہنچے یا علم کے اس کنارے تک کہ آگے لامکان ہے اوریہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا۔ (۱نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثم اختلف السلف والعلماء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۶۹،۲۷۰) حضرت سیدی شیخ اکبرامام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ فتوحاتِ مکیہ شریف باب ۳۱۶میں فرماتے ہیں :اعلم ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما کان خلقہ القراٰن وتخلق بالاسماء وکان اللہ سبحٰنہ وتعالٰی ذکر فی کتاب العزیز انہ تعلاٰی استوی علی العرش علی طریق التمدح والثناء علی نفسہ اذ کان العرش اعظم الاجسام فجعل لنبیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من ھذا الاستواء نسبۃ علی طریق التمدح والثناء علیہ بہ حیث کان اعلی مقام ینتہی الیہ من اسری بہ من الرسل علیھم الصلٰوۃ والسلام وذٰلک یدل علی انہ اسری بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بجسمہ ولو کان الاسراء بہ رؤیا لما کان الاسراء ولا الوصلو الی ھذا المقام تمدحا ولا وقع من الاعرافی حقہ انکار علی ذٰلک۲۔ تو جان لے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خلق عظیم قرآن تھا اورحضور اسماء الٰہیہ کی خووخصلت رکھتے تھے اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی قرآن کریم میں اپنی صفات مدح سے عرش پر استواء بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی اس سفت استواعلی العرش کے پر تو سے مدح ومنقبت بخشی کہ عرش وہ اعلٰی مقام ہے جس تک رسولوں کا اسراء منتہی ہو ، اوراس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسراء مع جسم مبارک تھا کہ اگر خواب ہوتا تو اسرااوراس مقام استواء علی العرش تک پہنچنا مدح نہ ہوتا نہ گنواراس پر انکار کرتے ۔ (۲ الفتوحات المکیۃ الباب السادس داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۱) امام علامہ عارف باللہ سید ی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت موصوف سے ناقل :انما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی سبیل التمدح حتی ظھرت لمستوی اشارۃ لما قلنا من ان متھی السیر بالقدم المحسوس للعرش ۱۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بطور مدح ارشاد فرمانا کہ یہاں تکہ کہ میں مستوی پر بلند ہوا اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدم جسم سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ۔ (۱ الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰) مدارج النبوۃ شریف میں ہے :فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پس گسترانیدہ شد برائے من رفرف سبز کہ غالب بود نور او پر نور نورآفتاب پس درخشید بآن نور بصر من ونہادہ شدم من برآں رفرف وبرداشتہ شدم تابرسید بعرش۲۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میرے لئے سبز بچھونا بچھایا گیا جس کا نور آفتاب کے نور پر غالب تھا چنانچہ اس نور کے سبب میری آنکھوں کا نور چمک اٹھا ، پھر مجھے رفرف پر سوار کر کے بلندی کی طرف اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں عرش پر پہنچا۔(ت) (۲مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱/۱۶۹) اسی میں ہے : آوردہ اند کہ چوں رسید آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعرش دست زد بدامان اجلال وے ۳۔ منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرش پر پہنچے تو عرش آپ کا دامن اجلال تھام لیا۔(ت) (۳مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۱۷۰) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے :جز حضرت پیغمبرما صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالاترازاں ہیچ کس نہ رفتہ وآنحضرت بجائے رفت کہ آنجاجانیست ؎ ہمارے نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ عرش سے اوپر کوئی نہیں گیا، آپ اس جگہ پہنچے جہاں جگہ نہیں ۔برداشت از طبیعت امکاں قدم کہ آں اسرٰی بعبدہٖ است من المسجد الحرام تاعرصہ وجوب کہ اقتضائے عالم ست کابخانہ جاست ونے جہت ونے نشاں نہ نام۱ طبیعت امکان سے قدم مبارک اٹھالئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندے کو سیرکرائی مسجد حرام سے صحرائے وجوب تک جو عالم کا آخری کنارہ ہے کہ وہاں نہ مکان ہے نہ جہت، نہ نشان اورنہ نام ۔(ت) (۱اشعۃ اللمعات باب المعراج مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۵۳۸) نیز اسی کے باب رؤیۃ اللہ تعالٰی فصل سوم زیر حدیث قد راٰی ربہ مرتین (تحقیق آپ نے اپنے رب کو دوبارہ یکھا۔ت) ارشاد فرمایا :بتحقیق دیدآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پروردگارخود را جل وعلا دوبار، یکے چوں نزدیک سدرۃ المنتہٰی بود،دوم چوں بالائے عرش برآمد۲۔ تحقیق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے پروردگارجل وعلاکو دوباردیکھا ، ایک بار جب آپ سدرہ کے قریب تھے ، اوردوسری بار جب آپ عرش پرجلوہ گرہوئے ۔(ت) (۲اشعۃ اللمعات کتاب الفتن باب رؤیۃ اللہ تعالٰی الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۴۴۲تا۴۲۹ ) مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی جلد اول ، مکتوب ۲۸۳میں ہے : آں سرورعلیہ الصلٰوۃ والسلام دراں شب چوں از دائرہ مکان وزمان بریون جست وازتنگی امکان برآمد ازل وابدراں آں واحد یافت وبدایت ونہایت رادریک نطقہ متحد دید۳۔ اس رات سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکان وزمان کے دائرہ سے باہر ہوگئے ،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل وابد کو ایک پایا اورابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا۔(ت) (۳مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۸۳نولکشورلکھنؤ ۱/ ۳۶۶) نیز مکتوب ۲۷۲میں ہے : محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت۴۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب ہیں اور تمام موجودات اولین وآخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش وکرسی سے آگے گزر گئے اورمکان وزمان سے اوپر چلے گئے ۔ (ت) (۴ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۷۲نولکشورلکھنؤ ۱ /۳۴۸) امام ابن الصلاح کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں :قول المصنفین من الفقہاء وغیرہم ''قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کذا وکذا''ونحو ذٰلک کلہ من قبیل المعضل وسماہ الخطیب ابوبکر الحافظ فی بعض وکلامہ مرسلا وذٰلک علی مذھب من یسمی کل مالایتصل مرسلاً۱۔ فقہاء وغیرہ ومصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کی مثل کوئی کلمہ یہ سب معضل کے قبیل سے ہے ۔ خطیب ابو بکر حافظ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اوریہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتاہے ۔(ت) (۱معرفۃ انواع علم الحدیث النوع الحادی عشر دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۱۳۸) تلویح وغیرہ میں ہے :ان لم یذکر الواسطۃ اصلا فمرسل۲۔ اگر واسطہ بالکل مذکور نہ ہوتو وہ مرسل ہے ۔(ت) (۲التوضیح والتلویح الرکن الثانی فی السنۃ فصل فی الانقطاع نورانی کتب خانہ پشاور ص۴۷۴) مسلم الثبوت میں ہے : المرسل قول العدل قال علیہ الصلٰوۃ والسلام کذا۳۔ مرسل یہ ہے عادل کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں فرمایا۔(ت) (۳مسلم الثبوت مسئلہ تعریف المرسل مطبع انصاری دہلی ص۲۰۱) فواتح الرحموت میں ہے :الکل داخل فی المرسل عند اھل الاصول۴۔ اصولیوں کے نزدیک سب مرسل میں داخل ہیں۔(ت) (۴فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴) انہیں میں ہے :المرسل ان کان من صحابی یقبل مطلقا اتفاقا وان کان من غیرہ فالاکثر ومنھم الامام ابوحنیفۃ والامام مالک والامام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہم قالو یقبل مطلقا اذا کان الراوی ثقۃ ۵الخ۔ مرسل اگر صحابی سے ہو مطلقاً مقبول ہے اوراگر غیر صحابی سے ہو تو اکثرائمہ بشمول امام اعظم،امام مالک اورامام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ مطلقامقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو الخ۔ (ت) (۵فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے : لایضرذٰلک فی الاستدلال بہ ھٰھنا لان المقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا۱۔ اس سے استدلال کرنا یہاں مضر نہیں کیونکہ فضائل میں منقطع بالاجماع قابل عمل ہے ۔(ت) (۱ مرقاۃ المفاتیح باب الرکوع الفصل الثانی تحت الحدیث ۸۸۰المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۶۰۲) شفائے امام قاضی عیاض میں ہے :اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقتل علی وانہ قسیم النار۲۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قتل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک وہ قسیم النار ہیں۔(ت) (۲الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذلک مااطلع علیہ من الغیوب المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۴) نسیم الریاض میں فرمایا :ظاھر ھذان ھذا مما اخبربہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا انھم قالوا لم یروہ احدمن المحدثین الا ان ابن الاثیر قال فی النہایۃ الا ان علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار قلت ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرائ فھو فی حکم المرفوع ۳ اھ ملخصاً۔ ظاہر اس کا یہ ہےکہ بیشک یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی مگر انہوں نےکہاکہ اس کو محدثین میں سے کسی نے روایت نہیں کیا مگر ابن اثیر نے نہایہ میں کہا: بیشک حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں قسیم نار ہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذکر فرمایا وہ قیاس سے نہیں کہا جاسکتا لہذ ا وہ مرفوع کے حکم میں ہے اھ تلخیص(ت) (۳نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳) امام ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :عدم النقل لاینفی الوجود۱۔ عدم نقل وجود کی نفی نہیں کرتا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم (۱ فتح القدیر کتاب الطہارت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۰) رسالہ منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش والرؤیۃختم ہوا۔ -
rabi ul ghous aur rabi un noor kahna?
Eccedentesiast replied to Ibrahim Qadri's topic in فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
Masha Allah Jazak Allah Sag-e-Madinah bhai thanks for references! -
-
Kya Store Main Phenki Hui Cheezein Istimaal Kar Saktay Hain?
Eccedentesiast replied to islam's topic in شرعی سوال پوچھیں
bhai is silsilay main behtar hay k aap Dar-ul-Uloom amjadia Karachi say ruju farmain ... dar-ul-Uloom ka phone number hay 02134949011 mumkin ho to jwab yhan bhi post kr dijiay ga Jazak Allah -
Kya Store Main Phenki Hui Cheezein Istimaal Kar Saktay Hain?
Eccedentesiast replied to islam's topic in شرعی سوال پوچھیں
Jab store walon nay phaink di to means k unki traf say ijazat hay k jo bhi utha k lay jaye ... lihaza un ashya ka istemal durust hoga Aor jhan tak Alcohol ki bat hay to baz ulama-e-kiram nay , aesi medicines jin main alcohol mili ho , ka istemal krny per jwaz ka hukm irshad farmaya hay .. -
Masha Allah Jazak Allah toheedi bhai aap hamesha hi dandan shikan jwab k saath hazir hotay hain ... ager koi shakhs ghair janibdari k sath aor ta'sub ki ainak utar kr aapki aor Saeedi sahib ki posts parhay to ba aasani haq pehchaan skta hay ... Allah aapko bhut khush rakhay
-
Imam K Mut'liq Wazahat
Eccedentesiast replied to Eccedentesiast's topic in فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
Imam K Muta'liq Fiqhi Ahkamaat: مسئلہ۱ … مرد غیرمعذور کے امام کے لئے چھ شرطیں ہیں:۔ (۱) اسلام (۲) بلوغ (۳) عاقل ہونا (۴) مرد ہونا (۵) قرأت (۶) معذور نہ ہونا (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۳) مسئلہ۲… عورتوں کے امام کے لئے مرد ہونا شرط نہیں عورت بھی امام ہو سکتی ہے اگرچہ مکروہ ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ْس ۵۱۳، عامہ کتب) مسئلہ۳… نابالغوں کے امام کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ نابالغ بھی نابالغوں کی امامت کر سکتا ہے اگر سمجھ دار ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۳) مسئلہ۴… معذوراپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی امامت کر سکتا ہے کم عذر والے کی امامت نہیں کر سکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں مثلا ایک کو ریاح کا مرض ہے دوسرے کو قطرہ آنے کا تو ایک دوسرے کی امامت نہیں کر سکتا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۴، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۳) مسئلہ۵… طاہر معذور کی اقتداء نہیں کر سکتا جبکہ حالت وضو میں حدث پایا گیا بعد وضو وقت کے اندر طاری ہوا اگر نماز کے بعد ہو اور اگرنہ وضو کے وقت حدث تھا نہ ختم وقت تک اس نے عود کیا تو یہ نماز جو اس نے انقطاع پر پڑھی اس میں تندرست اس کی اقتداء کر سکتا ہے(درمختار ج ۱ ص ۵۴۱) مسئلہ۶… معذور اپنے مثل معذور کی اقتداء کر سکتا ہے اور ایک عذر والا دو عذر والے کی اقتداء نہیں کر سکتا نہ ایک عذر والا دوسرے عذر والے کی اور دو عذر والا ایک عذر والے کی اقتداء کر سکتا ہے جب کہ وہ ایک عذر اسی کے دو میں سے ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۴۱ وغیرہ) مسئلہ۷… معذور نے اپنے مثل دوسرے معذور اور صحیح کی امامت کی صحیح کی نہ ہو گی اوروں کی ہو جائے گی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۴۲) مسئلہ۸… وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی حد کفر کو پہنچ گئی ہو جیسے رافضی اگرچہ صرف صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کی خلافت یا صحبت سے انکار کرتا ہو یا شیخین رضی الله تعالیٰ عنہما کی شانِ اقدس میں تبرّا کہتا ہے۔ قدری، جہمی، مشبہ اور وہ جو قرآن کو مخلوق بتاتا ہے اور وہ جو شفاعت یا دیدار الٰہی یا عذابِ قبر یا کراماً کاتبین کا انکار کرتا ہے ان کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۴، غنیہ) اس سے سخت تر حکم وہابیہ زمانہ کا ہے کہ الله عزوجل و نبی ﷺ کی توہین کرتے یا توہین کرنے والوں کو اپنا پیشوا یا کم از کم مسلمان ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ۹… جس بد مذہب کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۴) Is kay elawa Muqtadi k mutaliq ahkaamat aor jammat ka byan Bhar-e-Shairat main tafseel say mazkoor hay ... whan say dekha ja skta hay .. -
Imam K Mut'liq Wazahat
Eccedentesiast replied to Eccedentesiast's topic in فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
Bhar-e-Shariat Shareef Say Makhuz: احادیث حدیث۱… ابود اؤد ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا تم میں کے اچھے لوگ اذان کہیں اور قُرّا امامت کریں (کہ اس زمانہ میں جو زیادہ قرآن پڑھا ہوتا وہی علم میں زیادہ ہوتا) حدیث۲… صحیح مسلم کی روایت ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ سے ہے کہ فرمایا امامت کا زیادہ مستحق اقرٴ ہے یعنی قرآن زیادہ پڑھا ہوا۔ حدیث۳… ابوالشیخ کی روایت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے ہے کہ فرمایا امام و موذن کو ان سب کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ حدیث۴… ابوداؤد و ترمذی روایت کرتے ہیں کہ ابو عطیہ عقیلی کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث رضی الله تعالیٰ عنہ ہمارے یہاں آیا کرتے تھے ایک دن نماز کا وقت آگیا ہم نے کہا آگے بڑھیے نماز پڑھائیے فرمایا اپنے میں سے کسی کو آگے کرو کہ نماز پڑھائے اور بتا دوں گا کہ کیوں نہیں پڑھاتا میں نے رسول الله ﷺ سے سُنا ہے کہ فرماتے ہیں جو کسی قوم کی ملاقات کو جائے تو اُن کی امامت نہ کرے اور یہ چاہیے کہ انہیں میں کا کوئی امامت کرے۔ حدیث۵… ترمذی ابو امامہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور نے فرمایا کہ تین شخصوں کی نماز کانوں سے متجاوز نہیں ہوتی ،بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ واپس آئے اور جو عورت اس حالت میں رات گذارے کہ اس کا شوہر اس پر ناراض ہے اور کسی گروہ کا امام کہ وہ لوگ اس کی امامت سے کراہیّت کرتے ہوں (یعنی کسی شرعی قباحت کی وجہ سے) حدیث۶… ابن ماجہ کی روایت ابنِ عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے یوں ہے کہ تین شخصوں کی نماز سر کے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی ایک وہ شخص کہ قوم کی امامت کرے اور وہ لوگ اس کو بُرا جانتے ہیں اور وہ عورت جس نے اس حالت میں رات گذاری کہ اس کا شوہر اس پر ناراض ہے اور وہ مسلمان بھائی باہم جو ایک دوسرے کو کسی دنیاوی وجہ سے چھوڑے ہوں۔ حدیث۷… ابوداؤد و ابن ماجہ ابن عمر رضی تعالیٰ عنہما سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی جو شخص قوم کے آگے یعنی امام ہو اور وہ لوگ اس سے کراہت کرتے ہیں اور وہ شخص کہ نماز کو پیٹھ دے کر آئے یعنی نماز فوت ہونے کے بعد پڑھے اور وہ شخص جس نے آزاد کو غلام بنایا۔ حدیث۸… امام احمد و ابن ماجہ سلامہ بنت الحر رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ قیامت کی علامت سے ہے کہ باہم اہل مسجد امامت ایک دوسرے پر ڈالیں گے کسی کو امام نہیں پائیں گے کہ ان کی نماز پڑھا دے (یعنی کسی میں امامت کی صلاحیت نہ ہو گی حدیث۹… بخاری کے علاوہ صحاح ستہ میں عبدالله ابن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی کہ فرماتے ہیں ﷺ کسی کے گھر یا اسکی سلطنت میں امامت نہ کی جائے نہ اس کی مسند پر بیٹھا جائے مگر اس کی اجازت سے۔ حدیث۱۰… بخاری و مسلم وغیرہما ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جب کوئی اوروں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کہ ان میں بیمار اور کمزور اور بوڑھا ہوتا ہے اور جب اپنی پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔ حدیث۱۱… امام بخاری ابو قتادہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کہ میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور طویل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ بچّہ کی رونے کی آواز سنتا ہوں لہٰذا میں اختصار کر دیتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کو غم لاحق ہوتا ہے۔ حدیث۱۲… صحیح مسلم میں ہے انس رضی الله تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول الله ﷺ نے نماز پڑھائی جب پڑھ چکے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے لوگو میں تمہارا امام ہوں رکوع و سجود و قیام اور نماز سے پھرنے میں مجھ پر سبقت نہ کرو کہ میں تم کو آگے اور پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ حدیث۱۳… امام مالک کی روایت انہیں سے اس طرح ہے کہ فرمایا جو امام سے پہلے اپنا سر اُٹھاتا اور جھکاتا ہے اس کی پیشانی کے بال شیطان کے ہاتھ میں ہیں۔ حدیث۱۴… بخاری و مسلم وغیرہما ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کیا جو شخص امام سے پہلے سر اُٹھاتا ہے اس سے نہیں ڈرتا کہ الله تعالیٰ اس کا سر گدھے کا سر کر دے۔ بعض محدثین سے منقول ہے کہ امام نووی رحمة الله تعالیٰ حدیث لینے کے لئے ایک بڑے مشہور شخص کے پاس دمشق میں گئے اور ان کے پس بہت کچھ پڑھا مگر وہ پردہ ڈال کر پڑھاتے مدتوں تک ان کے پاس بہت کچھ پڑھا مگر ان کا منہ نہ دیکھا جب زمانہ دراز گذرا اور انہوں نے دیکھا کہ ان کو حدیث کی بہت خواہش ہے تو ایک روز پردہ ہٹا دیا دیکھتے کیا ہیں کہ اُن کا منہ گدھے کا سا ہے انہوں نے کہا صاحب زادے امام پر سبقت کرنے سے ڈرو کہ یہ حدیث جب مجھ کو پہنچی میں نے اسے مستبعد جانا اور میں نے امام پر قصداً سبقت کی تو میرا منہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ حدیث۵ ۱… ابوداؤد ثوبان رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کہ تین باتیں کسی کو حلال نہیں جو کسی قوم کی امامت کرے تو ایسا کر ے کہ خالص اپنے لئے دُعا کرے اُنہیں چھوڑ دے ایسا کیا تو ان کی خیانت کی اور کسی کے گھر کے اندر بغیر اجازت نظر نہ کرے اور ایسا کیا تو ان کی خیانت کی اور پاخانہ پیشاب روک کر نماز نہ پڑھے بلکہ ہلکا ہولے یعنی فارغ ہولے۔ ) -
Imam-e-Azam Razi allah talla unhou
Eccedentesiast replied to Bismillah's topic in دیگر تمام درخواستیں
-
مسئلہ نمبر ۸۱۵: ازشہر محلہ قراولان مسئولہ عبدالکریم خیاط قادری رضوی ۲۳محرم الحرام ۱۳۳۹ھ کیا ارشاد ہے شریعت مقدسہ کا اس مسئلہ میں کہ زید بد مذہبوں کے یہاں علانیہ کھاتا ہے بد مذہبوں سے میل جول رکھتا ہے مگر خود سُنّی ہے اُس کے پیچھے نماز کیسی اور اسکے تراویح سننا کیسا ہے؟بینوا تو جروا۔ الجواب: اس صورت میں وہ فاسق معلن ہے اورامامت کے لائق نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم مسئلہ نمبر ۸۱۶: ازشہر محلہ ذخیرہ مسئولہ منشی شوکت علی صاحب محرر چونگی ۲۴محرم ۱۳۳۹ھ کیا حکم ہے اہل شریعت کا اس مسئلہ میں کہ امامت کن کن شخصوں کی جائز ہے اور کن کن کی ناجائز اور مکروہ، اورسب سے بہتر امامت کس شخص کی ہے؟ الجواب جو قرأت غلط پڑھتا ہو جس سے معنی مفسد ہوں وضو یا غسل صحیح نہ کرتا ہو یا ضروریاتِ دین سے کسی چیز کا منکر ہو جیسے وہابی ،رافضی ،غیر مقلد،نیچری،قادیانی،چکڑالوی وغیرہم یا وہ جوان میں سے کسی کے عقائد پرمطلع ہوکر اس کے کفر میں شک کرے یا اسکے کافر کہنے میں تامل کرے اُن کے پیچھے نماز محض باطل ہے ، اور جس کی گمراہی حدِ کفر تک نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ :مولٰی علی کوشیخین سے افضل بتاتے ہیں رضی اﷲ تعالٰی عنہم یا تفسیقیہ کہ بعض صحابہ کرام مثل امیر معاویہ وعمروبن عاص وابوموسٰی اشعری و مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو بُرا کہتے ہیں ان کے پیچھے نماز بکراہت شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انھیں امام بنانا حرام ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اور جتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب ،اورانھیں کے قریب ہے فاسق معلن مثلاً داڑھی منڈایا خشخاشی رکھنے والا یا کتر واکر حدِ شرع سے کم کرنے والا یا کندھوں سے نیچے عورتوں کے سے بال رکھنے والا خصوصاً وہ جو چوٹی گُندھوائے اور اس میں موباف ڈالے یا ریشمی کپڑے یامغرق ٹوپی یا ساڑھے چار ماشے زائدکی انگوٹھی یاکئی نگ کی انگوٹھی یا ایک نگ کی دو۲انگوٹھی اگر چہ مل کر ساڑھے چار ماشےسے کم وزن کی ہوں یا سُود خور یا ناچ دیکھنے والا اُن کے پیچھے بھی نماز مکروہ تحریمی ہے اور جو فاسق معلن نہیں یا قرآن میں وُہ غلطیاں کرتا ہے جن سے نماز فاسد نہیں ہوتی یا نابینا یا جاہل یا غلام یا ولد الزنا یاخوبصورت امرد یا جذامی یا برص والا جس سے لوگ کراہت ونفرت کرتے ہوں اس قسم کے لوگوں کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہے کہ پڑھنی خلافِ اولٰی اور پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں، اور اگر یہی قسم اخیر کے لوگ حاضرین میں سب سے زائد مسائلِ نماز و طہارت کا علم رکھتے ہوں تو انھیں کی امامت اولٰی ہے بخلاف ان سے پہلی دوقسم والوں سے کہ اگر چہ عالم متبحر ہو وہی حکم کراہت رکھتا ہے مگر جہاں جمعہ یا عیدین ایک ہی جگہ ہوتے ہوں اور ان کا امام بدعتی یا فاسق معلن ہے اور دوسرا امام نہ مل سکتا ہو وہاں ان کے پیچھے جمعہ و عیدین پڑھ لئے جائیں بخلاف قسم اول مثل دیوبندی وغیرہم ،نہ ان کی نماز نماز ہے نہ اُن کے پیچھے نماز نماز ، الغرض وہی جمعہ یا عیدین کا امام ہو اور کوئی مسلمان امامت کے لئے نہ مل سکے تو جمعہ و عیدین کا ترک فرض ہے جمعہ کے بدلے ظہر پڑھیں اورعیدین کا کچھ عوض نہیں ،امام اُسے کیا جائے جو سنّی العقیدہ صحیح الطہارۃ صحیح القرأۃ مسائلِ نماز و طہارت کا عالم غیر فاسق ہو نہ اُس میں کوئی ایسا جسمانی یا روحانی عیب ہو جس سے لوگوں کو تنفر ہو یہ ہے اس مسئلہ کا اجمالی جواب اور تفصیل موجب تطویل واطناب واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب۔ Aik aor jga likha hay: ولد الزناء کے پیچھے بنی نماز مکروہ تنزیہی ہے جبکہ وہ سب حاضرین سے مسائل نماز وطہارت کا علم زیادہ نہ رکھتا ہو Mazeed aik aor Jga Likha hay: داڑھی کترواکر ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہے سیاہ خضاب حرام ہے، عَلَم تعزیوں اور فسق کے میلوں اور رقص کے جلسوں میں جانا حرام ہے۔ اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔ ان افعال کا مرتکب ضروف فاسق معلن ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا جائز نہیں اور پڑھی ہو تو پھیرنا واجب ہے نہ ایسے شخص کو مہتمم مسجد بنانے کی اجازت
-
Ager dhari qudrti tor per hi aik musht se kam hay , tab to us k peechay nmaz parhnay main koi harj nahi jabkay doosri shariat imamat ki us main paai jati hon ... laikin ager wo khud dhari aik muthi say kam krta ho to chahy wo maliki ho ya hanafi , shafi hambli , us k peechay nmaz ada krna jaiz nahin .... aesay halaat main imamat kay qabil kisi shakhs k peechay nmaz ada krni chahiay ya tanha ada kr lain .. Jesa k Alahazrat farmatay hain: فاسق معلن مثلاً داڑھی منڈایا خشخاشی رکھنے والا یا کتر واکر حدِ شرع سے کم کرنے والا یا کندھوں سے نیچے عورتوں کے سے بال رکھنے والا خصوصاً وہ جو چوٹی گُندھوائے اور اس میں موباف ڈالے یا ریشمی کپڑے یامغرق ٹوپی یا ساڑھے چار ماشے زائدکی انگوٹھی یاکئی نگ کی انگوٹھی یا ایک نگ کی دو۲انگوٹھی اگر چہ مل کر ساڑھے چار ماشےسے کم وزن کی ہوں یا سُود خور یا ناچ دیکھنے والا اُن کے پیچھے بھی نماز مکروہ تحریمی ہے Aik aor Jga Farmatay hain: داڑھی کترواکر ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہے سیاہ خضاب حرام ہے، عَلَم تعزیوں اور فسق کے میلوں اور رقص کے جلسوں میں جانا حرام ہے۔ اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔ ان افعال کا مرتکب ضروف فاسق معلن ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا جائز نہیں اور پڑھی ہو تو پھیرنا واجب ہے نہ ایسے شخص کو مہتمم مسجد بنانے کی اجازت Imam k mut'aliq chand masail: http://www.islamimeh...__0entry61584
-
WaAlaikumusalam bhai darasal yeh masla kisi kitab main meri nazar say nahin guzra ... isiliay Mufti sahib se daryaft kia tha jo hukm unhon nay byan farmaya wo main nay yhan byan kr dea ,,,, wesay Muslman k balon ko jlana nahi chahiay ..... balkay zameen main dafan kr dena chahiay ... JazakAllah
-
Aesa nahi krna chahiay , is se jism ko nuqsan ka andaisha hay http://mufti.faizaneattar.net/Answer.php?Q=17405