Jump to content

Qadri Sultani

مدیرِ اعلیٰ
  • کل پوسٹس

    1,552
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    79

Qadri Sultani last won the day on 31 اکتوبر

Qadri Sultani had the most liked content!

8 Followers

About Qadri Sultani

  • Birthday 03/05/1989

Previous Fields

  • فقہ
    Hanafi
  • پیر
    Qazi Mehmood Qadri

Profile Information

  • جنس
    Male

تازہ ترین ناظرین

16,268 profile views

Qadri Sultani's Achievements

Mentor

Mentor (12/14)

  • Dedicated Rare
  • First Post
  • Collaborator
  • Posting Machine Rare
  • Week One Done

Recent Badges

172

کمیونٹی میں شہرت

1

Community Answers

  1. حدیث جس میں مریضوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا گیا أس پہ کیے گئے اعتراض کا جواب؛ اعتراض: “اونٹ کے پیشاب کے شفابخش اور حفظانِ صحت کے مطابق ہونے کا ذکر صحیح البخاری میں مروی ہے۔ fir susu pee lo.” جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی ) : پہلی بات تو یہ کہ کتنی ہی ایسی ہی چیزیں ہیں جنکو طبیعت پسند نہیں کرتی لیکن اس سے دوائی وغیرہ تیار کی جاتی ہیں ، أور اسکے علاوہ بھی اس دور فتن بعض کچھ دیگر أشیاء بھی جانوروں کے فضلات سے بنتی ہیں جیسے كافي کاپی لاک یہ انڈونیشیا میں بننے والی معروف کافی ہے جو خاص قسم کے جانور کے فضلات سے بنائی جاتی ہے ، أور یہ دنیا کی تقریباً سب سے مہنگی كافي ہے ، إسی طرح کافی أیوری یہ بھی فضلات سے بنتی ہے آپ گوگل پہ اسکا انٹروڈکشن پڑھ سکتے ہیں، اور ایک عجیب بات ہماری بہت سی کریمز میں بھی مختلف جانوروں کے پیشاب استعمال کیے جاتے ہیں آپ DHEA أور melatonin کا تعارف پڑھ لیں تو حقیقت واضح ہوجائے یعنی ہم پتا نہیں کتنی کریمز و آئل وغیرہ استعمال کرتے ہیں جن میں أونٹ أور دیگر جانوروں کا پیشاب ہوتا ہے حتی کہ انسان کا بھی أس وقت تو ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے کیونکہ أس سے شیطان خوش نہیں ہوتا ۔ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اونٹ کے پیشاب میں شفا کا فرمادیا تو کونسا حرج ہوگیا حالانکہ آپ نے پیشاب عام پینے کا حکم نہیں دیا بلکہ ایک خاص عذر کے تحت پینے کا فرمایا۔ أور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے خاص انہیں اونٹوں کا پیشاب پینے کا کیوں کہا حالانکہ اونٹ تو اور بھی تھے تو موجودہ تحقیق یہ ثابت کرچکی ہے کہ بعض علاقوں کے جانوروں کے فضلات میں خاص قسم کی شفاء ہوتی ہے کیونکہ وہ موزوں آب و ہوا کی وجہ سے مختلف ڈیفنڈ سیلز رکھتے ہیں. لیکن یہ پیشاب پینے کا ضرورت کے وقت کہا گیا نہ کہ عام حالات میں جیسے قرآن نے مردہ اور خون کے استعمال کو ضرورت کے وقت استعمال کرنے کو جائز کہا تو کیا قرآن پہ بھی اعتراض ہوگا۔ پھر یہ قصہ کچھ لوگوں کے ساتھ خاص ہے لہذا قصۃ عین کو عام حالات میں استدلال کے لیے حجت نہیں پکڑ سکتے۔ اور بہت سی موجودہ میڈیسنز بھی جانور کے فضلات سے بنائی جاتی ہیں۔ مزید TNF کا انٹروڈکشن پڑھیں JBC پہ یعنی جنرل آف بائیولوجیکل کیمسٹری تو حقیقت واضح ہو جائے گی لہذا فضلات جانور کو اشد ضرورت کے وقت شفاء کے لیے استعمال کرنا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے۔۔ بشرطیکہ اس کے علاوہ کسی اور دوائی سے علاج ممکن نہ ہو۔ سو بخاری کی یہ حدیث حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل ہے کہ جب میڈیکل سرچ بھی نہ تھی اس وقت بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کو علم ہوگیا کہ فلاں انٹوں کے پیشاب میں فلاں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔ لہذا دوست ! حدیث پہ اعتراض کرنے سے پہلے کچھ سوچ لیا کریں کہ جن کے کلام پہ آپ اعتراض کررہے ہیں وہ کلام أس ذات کا ہے جس پہ وحی نازل ہوتی رہی تو کوئی شئے حقیقت کے خلاف کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ سوچ إیمان میں إضافہ کرتی ہے۔ اونٹ کے پیشاب اور حدیث پر اٹھنے والے اعتراض کا جواب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا کچھ لوگوں کو اونٹوں کا پیشاب پینے کا حکم دینا عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدیۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربوا من ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 ) ’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاںتک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔ قارئین کرام ! اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں : (1) نقلاً (2) عقلاً۔ قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے : إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتۃ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ(سورۃ البقرۃ ۔آیت 172) ’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط ’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173) اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟ جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟ جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے دودھ میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔ عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔(علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites) اس حدیث صرف اور صرف یہ مشروط رواداری بیان کی جا رہی جیسے کہ آج اسپرین میں گھوڑے کے پیشاب کے اجزا ہونے کے باوجود لوگ اس کو بر وقت ضرورت طبی طور پر استعمال کرتے ہے ، بہت سے کو تو پتا بھی نہیں ہے کہ اس میں کیا اجزا ہے ،،کیا اسپرین میں گھوڑے کا پیشاب ایک عمل کے ذریعہ pasteurized کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے ، بلکل ویسے اس وقت ان لوگوں کو یہ تجویز دودھ میں مکس کرنے کی دی گئی. اب اسلام میں سور کا گوشت کھانا حرام ہے ،، لیکن ایسے وقت میں جب کسی کو جان بچانے کے لئے بھوک کی وجہ سے جہاں آپ کچھ اور کھانے کو میسر نہیں ہے سوائے سور کے گوشت کے ، تو اس وقت مسلمان کو مشروط طور اتنا کھانے کی اجازت ہے جس وہ اپنی جان بچا سکے ،،، تو کیا آپ اس conditional consumption کی مراد یہ لی جائے گی کہ مسلمانوں میں سور حلال ہے ؟ ہرگز نہیں ! ایک اور مثال دیتا ہوں : پرانےوقتوں میں شاہد اب بھی کہیں نہ کہیں پاکستان یا انڈیا میں ، کالی کھانسی کے علاج کےلئے گدھی کا دودھ بطور دوا استعمال ہوتا آیا ہے ، اور یہ چین کے میں ہوتا رہا ، اب جس شخص نے گدھی کا دودھ بطور دوا استعمال کیا ہے ، کیا یہ اس پر تا حیات لاگو ہو جاتا ہے کہ اب گدھی کا دودھ پینا ہے ؟ یا اسکے گھر والوں نے ؟ دوسری بات ابھی نزلہ زکام ، دانتوں کے درد کے لیے کچھ لوگ شراب (برانڈی) کا استعمال کرتے ہے، کیا یہ قانون لاگو ہو گیا اب اس نے شراب پینی ہے ؟ یا شراب حلال ہو گئی ؟ اور اس کے گھر والوں نے یا پورے خاندان نے ؟ اسلام میں اس کی کیا حثیت وہ الگ بحث ہے ،،، لیکن جو اونٹنی کے دودھ اور پیشاب والی حدیث پیش کر کہ یہ مفروضہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں اونٹ کا پیشاب حلال ہے تو وہ صرف اور صرف کم عقلی سے کام لیتے ہے ، ہلکہ یہ حکم ایک مخصوص قبیلے کے لئے ایک دوا کے طور پر استعمال کرنے کو کہا گیا تھا وہ بھی دودھ میں مکس کر کے،بوجہ بیماری ، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری امت بیماری میں ہے، خیر وہ قبیلہ تو مسلمان بھی نہیں تھا... دوسری بات اس نوعیت کا صرف ایک واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں پیش آیاتھا، اس کے بعد صحابۂ کرام کے زمانہ میں بھی کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اللہ کے دیے علم سے یہ جان لیا تھا انکو شفا اسی سے ہی مل سکتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کے لئے نجس چیز کا استعمال جائز ہے۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے حرام چیز سے علاج کیا جاسکتا ہے ۔ اس حدیث میں عمومی حکم نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص اونٹ کے پیشاب سے علاج کرے جیساکہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ یہ ایک خصوصی واقعہ ہے، جس طرح جمہور علماء نے صحیح مسلم میں وارد حدیث کو خصوصی واقعہ قراردیا ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم کو دودھ پلادیں جس سے دونوں کے درمیان حرمت ثابت ہوجائے، حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی یعنی ماں بیٹے کا رشتہ نہیں بن سکتا۔ ۔(خلاصہ مضمون: التداوی ببول الابل از محمد بن عبداللطیف آل الشیخ، ویب سائٹ العربیہ) #متعدد شواہد دلالت کررہے ہیں کہ یہ واقعہ سن ۶ ہجری سے قبل کا ہے، خود حدیث کے راوی حضرت قتادہؒ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین ؒ نے حدیث بیان کی کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے، (بعد میں اس طرح کی سزا کی ممانعت نازل ہوگئی جو انکو دی گئی)، یعنی یہ واقعہ مثلہ کی حرمت سے قبل کا ہے،لہذا ظاہر یہی ہے کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا ہو اور اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اس نوعیت کا علاج نہیں بتایا اور نہ کسی صحابی سے اس نوعیت کا علاج کرنا منقول ہے۔ خلاصہ یہ کہ صحیح بخاری میں وارد اونٹ کے پیشاب سے علاج والا واقعہ خصوصی واستثنائی ہے۔ ایسی “تخصیص” قرآن سے بھی ثابت ہے،”تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔(: سورہ البقرہ (2) ، آیت : 173) کیا گائے کا پیشاب پینے کے ساتھ اس کی کوئی مماثلت بنتی ہے؟؟ کچھ لوگ اس حدیث کو ہندوؤں کا گائے کا پیشاب پینے سے ملاتے ہیں حالانکہ ہندووں کا گائے کا پیشاب پینا گائے کے تقدس کے طور پر باقاعدہ ایک مشغلہ ہے نہ کہ کسی خاص بیماری کی وجہ سے۔ اسلام میں نہ تو اونٹ کو مقدس جانور سمجھا جاتا ہے نہ اس کا پیشاب بابرکت سمجھ کر ہر چیز پر چھڑکنے کا کوئی تصور ہے نا اس کا تعلق عبادت اور شعائر دین سے ہے۔ حدیث میں اونٹ کے پیشاب کا استعمال محض ایک دوا کے طور پر کرایا گیااس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بغرض علاج بھی لازم قرار نہیں دیا گیا جس کی طبیعت مائل نہ ہو وہ نہ پیے ۔ اس کو کسی کے لیے لازم قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس پر عمل نہ کرنے والے کے لیے کوئی وعید سنائی ، اور نہ ہی کسی اور کو یہ علاج بتایا، نا اس طریقہء علاج کو کبھی سنّت سمجھا گیا۔ آجکل حرام اور نجس چیزوں سے علاج عام ہے،ہزاروں ادویات میں ایسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں جو انتہائی نجس چیزوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ یہ تو اسلام کی خوبی ہے کہ اس نے پہلے دن سے اسکی گنجائش رکھی کہ بوقت انتہائی ضرورت اور علاج کسی نجس لیکن فائدہ مند چیز کو استعمال کیا جاسکتا ہے ، ہر چیز کو ہر حال میں حرام قرار دے کرانسانوں کو بلاوجہ کی تنگی اور سختی میں مبتلا نہیں کیا۔ حیرت ہوتی ہے اسلام کی اس ریلکسیشن پر بھی لوگ اعتراض کرتے اور الٹا اسے اسلام کے لیے ایک نقص اور طعنے کی بات بنا لیتے ہیں۔ کچھ اہل علم نے اس حدیث پر اعتراضات کے سائنسی حوالے سے بھی جواب دیے ہیں وہ ان لنک سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ اونٹ ، گھوڑے اور انسانی پیشاب سے بننے والی ادویات : https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=198093597269667&id=178832225862471 http://www.islamawareness.net/FAQ/faq1000.html ٓhttp://quraniscience.com/2011/12/urine-of-camel-and-modern-science/
  2. وعلیکم السلام ورحمةالله وبركاته بھائی برائے مہربانی کوشش کیا کریں کہ عربی صحیح لکھا کریں کیوں کہ ایسا نہ کرنے سے معنی تبدیل ہو جاتا ہے
  3. یعنی صحابہ کرام و اجلہ تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول کی کوئی اہمیت نہیں؟
  4. یہ کتاب نہیں ہے قبلہ سعیدی صاحب کی ایک پوسٹ کا حصہ ہے
  5. السلام عليكم ورحمةالله وبركاته اسلامی محفل دیکھنے والے تمام احباب سے گزارش ہے کہ اس نیک کام میں لازمی اپنا حصہ ڈالیں۔جزاک اللہ
  6. میں یہاں اس ٹاپک میں خلط مبحث نہیں کرنا نام نہاد حنفی صاحب آپ کے اکابرین، اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی کو مشرک نہیں کہتے اس لیے یہاں آپ باہم دست و گریباں ہوں
  7. کیا جواب دیں تمہیں؟اوپر جو جواب دیا ہے کیا تم اسے جواب نہیں سمجھتے؟تمہارے کئی لوگ ایسے ہیں جب ان پر گرفت کی جائے تو تم بھی یہی جواب دو گے
  8. جناب کیسے محکک ہیں کہ یہ علم نہیں کہ جب قرآن و حدیث سے ایک واضح حکم مل جائے تو اسکی صراحت امام اعظم رضی اللہ عنہ سے ملنا لازمی نہیں۔ پہلے جا کر پڑھیں پھر بحث کریں یہی کام وہابی اہل حدیث کرتے ہیں جنکا نمائندہ بن کر آپ یہ باتیں ادھر کررہے ہیں
×
×
  • Create New...