Jump to content

ذوالقرنین بریلوی

اراکین
  • کل پوسٹس

    9
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ ذوالقرنین بریلوی نے پوسٹ کیا

  1. آج کل رجسٹرڈ اہلحدیث المعروف وہابی خود کو پکا سچا مسلمان اور خود کو حق پر کہتے پھرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ باطل کے خلاف سب سے زیادہ کام ہم وہابیوں نے ہی کیا ہے، اور اپنے علماء کو فاتحِ شیعیت اور فاتحِ قادیانیت کہتے پھرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے، وہابیوں کے عقاٸد شیعہ کے عقاٸد کے سب سے زیادہ قریب ہیں شیعہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں جو عقاٸد رکھتے ہیں وہابیوں کے عقاٸد بھی انہی عقاٸد جیسے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی کھل کر صحابہ پر سب و شتم نہیں کر پاتے۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم وہابیوں اور شیعہ کے مشترکہ عقاٸد کی بجاۓ وہابی علماء کا شیعہ و قادیانیوں کے بارے میں جو نظریہ تھا اس کا ذکر کریں گے جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہابیوں کا شیعہ و قایانیوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔ جیسا کہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ علماءِ اہلسنت نے شیعہ رافضیوں و قادیانیوں دونوں کے بارے میں کفر کے فتاویٰ جاری کیے ہیں ان کے ساتھ میل جول ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ یہاں تک صراحت موجو ہے کہ جو ان کے کفر میں شک بھی کرۓ گا وہ خود کافر ہو جاۓ گا۔ جبکہ وہابیوں کا حال اس سے بلکل الٹ ہے۔ اس تحریر میں ہم وہابیوں کے بہت بڑے چوٹی کے عالم ”ثناء اللہ امرتسری“ جس کو وہابی ”فاتح قادیانیت“ کے القابات سے یاد کرتے ہیں کی عبارات جو شیعہ و قادیانیوں کے بارے میں اس نے کہا ہے کو بیان کریں گے جس سے آپ کو اندازہ ہو جاۓ گا کہ وہابی شیعہ اور قادیانی بھائی بھائی ہیں یا نہیں۔ ثناء اللہ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ! فرقہِ شیعہ بلحاظ اپنے عقاٸد سب و شتم خلفاء کیا داخل اسلام ہے یا خارج ؟ تو اس نے جواب دیا کہ! اسلام کی دو حیثیتیں ہیں، ایک یہ کہ ”ایمان لاٶ اللہ پر اور اس کے رسول پر“ تو اس لحاظ سے تو اصحاب کی تصدیق داخل اسلام نہیں دوسری حیثیت صحبتِ رسول کی ہے جس کی بابت ارشاد ہے (سورة الفتح، آیت نمبر 29) ”محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ والے ہیں(یعنی صحابہ) وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تم ان کو دیکھتے ہو رکوع سجود کرتے ہوۓ اللہ کا فضل چاہتے ہیں“ وغیرہ اس آیت کی تصدیق بھی داخل اسلام ہے اس لۓ اصحاب کے حق میں سب و شتم کرنے والے کو کافر یا مومن کہنے کے بارے میں ”کف لسان اور قلم کو روکتا ہوں“۔ (فتاویٰ ثناٸیہ، جلد 1، صحفہ نمبر 190) یہاں وہابی مولوی سے خلفاء یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمرؓ و عثمانؓ پر سب و شتم کرنے والے کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے جو جواب دیا اس سے یہ بات واضح کر رہا ہے کہ اس کے مطابق اسلام کی پہلی حیثیت میں صحابہ کی تصدیق داخل نہیں تو کوٸی حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ کو جو کچھ مرضی کہتا رہے اس کے ایمان میں فرق نہیں پڑۓ گا اور دوسری حیثیت میں صحبت رسول کا ذکر کر رہا ہے اور سورة الفتح کی آیت نمبر 29 بیان کر رہا ہے جس میں اللہ نے صحابہ کی شان بیان فرماٸی اور نقل کر کے کہتا ہے اس لۓ اصحاب کے حق میں سب و شتم کرنے والے کو مومن یا کافر کہنے کے بارے میں کف لسان اور قلم کو روکتا ہوں یعنی میں اس معاملے میں بلکل خاموش ہوں۔ جبکہ علماءِ اہلسنت کے مطابق جو حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ کو بُرا بھلا کہے وہ کافر ہو جاتا ہے، اور یہی اہلسنت کا منہج ہے۔ اس وہابی مولوی کے مطابق صحابہ کو کافر کہنے والے کے بارے میں تو اس کا قلم رُک گیا لیکن جب یہی سوال اس سے وہابیوں کو گمراہ کہنے والے کے بارے میں ہوا تو ملاحظہ فرماٸیں اس نے کیا جواب دیا۔ اس سے سوال ہوا کہ! جو شخص جماعت اہلحدیث کو گمراہ و جہنمی قرار دیتا ہے اور علماءِ اہلحدیث کے پیچھے نماز ناجائز قرار دیتا ہے ایسے شخص پر منجانب قرآن و احادیثِ نبویہ کوٸی حرف اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ! ایسے شخص کی وہی سزا ہے جو حدیث میں آٸی ہے کہ جو شخص کسی کو کافر یا فاسق کہے اور وہ اصل میں نہ ہو تو وہ الفاظ اس پر لوٹ پڑتے ہیں (یعنی وہابی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے)۔ (فتاویٰ ثناٸیہ، جلد 1، صحفہ نمبر 222) یہاں پر اس شخص کے اندر کا گند کس طرح باہر آیا ہے کہ اگر کوٸی شخص کسی وہابی کو کافر کہہ دے تو حدیث کی رو سے کہنے والا خود کافر ہو جاۓ گا کیونکہ وہابی میں تو کفر نہیں ہے لیکن اگر کوٸی رافضی تبراٸی صحابہ کو معازاللہ کافر کہے تو اس حدیث کی رو سے اُس کو کافر نہیں کہا جاۓ گا بلکہ اس پر تو قلم روک لیا جاۓ گا۔ صرف اتنا ہی نہیں یہ شخص شیعہ و مرزاٸیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو بھی جاٸز قرار دیتا ہے۔ اس سے سوال ہوا کہ! سُنی المذہب (یعنی جعلی اہلحدیث/وہابی) کو نمازِ فرض میں اہل شیعہ و مرزاٸیوں کی اقتداء جاٸز ہے یا نہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ! ”ایسے لوگوں کو امام بنانا جاٸز نہیں اگر کہیں جماعت ہو رہی ہو تو بحکم آیت ”رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ“ اس لحاظ سے جاٸز ہے“۔ (اخبار اہلحدیث، 1 جنوری 1915، صحفہ نمبر 12) یعنی اس شخص کے نزدیک شیعہ و مرزاٸی دونوں مسلمان بھی ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جاٸز ہے۔ اس بندے کو وہابی فاتحِ قادیانیت کہتے ہیں جبکہ اس کے نزدیک قادیانی بھی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا فرقہ ہیں اور اس کا قادیانیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی تھا۔ ملاحظہ فرماٸیں! ثناء اللہ امرتسری اپنے اخبار میں کہتا ہے کہ! خواجہ کمال الدین صاحب( قادیانی) اور میرا کسی ایک جلسہ میں دوشن مدوشن(ایک ساتھ) بیٹھ کر مشترک کام کرنا ایک عجیب نظارہ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ ”قرآن کا ایک ادنہٰ کرشمہ ہے“، (پھر وہابی ہیڈنگ دیتا ہے ) "مولوی ثناء اللہ اور خواجہ کمال الدین ایک پلیٹ فارم پر" (اور لکھتا ہے کہ) اہلحدیث میں مولوی ثناء اللہ اپنی جماعت کے آرگن اہلحدیث کے ایڈیٹر اور لیڈر ہیں، اُدھر یہی درجہ و مرتبہ احمدی جماعت خصوصاً لاہوری پارٹی میں خواجہ کمال الدین کو حاصل ہے، ان دونوں کے عقائد میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ان کے مِل بیٹھنے کی توقع ہی نہیں ہو سکتی، ”مگر یہ طاقت اور یہ اثر اسلام ہی میں ہے“ کہ باوجود ان اختلافات کے جب خالص اسلامی معاملہ پیش نظر ہوتا ہے تو فروعات کو طاق پر رکھ دیا جاتا ہے، چنانچہ یکم مارچ کے انجمن اسلامیہ کے جلسہ میں ایک ہی پلیٹ فارم پر مولوی ثناءاللہ اور خواجہ کمال الدین نے اسلامی حقوق و اسلامی توحید و اشاعتِ اسلام پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، اسی طرح یہ دونوں کشمیری انجمن میں بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے، لیکن جہاں اسلامی خدمات کی ضرورت ہو گی ”وہاں دونوں کو بلکہ تمام سمجھدار مسلمانوں کو“ اپنے ذاتی عقائد و خیالات کو الگ تہہ کر کے رکھنا ہو گا جیسا کہ آج تک ہو رہا ہے اور آئندہ ہوتا رہے گا۔ (اخبار اہلحدیث، 2 اپریل 1915، صحفہ نمبر 4) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ثناءاللہ امرتسری قادیانیوں کو بھی مسلمان سمجھتا تھا اور ان کے بڑے بڑے نماٸندگان کے ساتھ مِل کر اشاعتِ اسلام کے نام پر جلسوں میں اکھٹے خطاب کیا کرتا تھا۔ اور عقیدہ ختمِ نبوت جیسے ”ضروریات دین“ کے مسٸلہ کہ جس میں زرا برابر شک کرنے والا کافر ہو جاتا ہے کو فروعات میں شامل کرتا ہے۔ اور قادیانیوں اور وہابیوں کے اس مِل بیٹھنے کو قرآن کا کرشمہ کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جہاں بھی اسلامی خدمات کی ضرورت ہو گی تمام سمجھدار مسلمانوں کو اپنے عقاٸد تہہ کر کے ایک طرف رکھ کر اکھٹا ہونا پڑۓ گا یعنی جو شخص نبی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اس کے ماننے والے کے ساتھ مِل کر عقیدہ ختم نبوت کو تہہ کر کے الگ ساٸیڈ پر رکھ کر جو وہابی قادیانیوں کے ساتھ مِل کر اشاعتِ اسلام کے نام پر کانفرس کریں وہ سمجھدار مسلمان ہیں۔ اور یہ بات اس کی اپنی جماعت کے وہابی مولوی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ثناءاللہ امرتسری نے خود بھی قادیانیوں کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں اور 1917 میں عدالت میں بھی اس نے قادیانیوں کو کافر نہیں کہا۔(دیکھیں فیصلہِ مکہ صحفہ نمبر 36) ان تمام دلاٸل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہابیوں کے چوٹی کے علماء بھی شیعہ و قادیانیوں کو کافر نہیں کہتے بلکہ ان کو مسلمان سمجھتے تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے نکاح کو بھی جاٸز سمجھتے تھے۔ پس ثابت ہوتا کہ شیعہ و قادیانی بھی وہابیوں کے بھاٸی ہیں کیونکہ وہابیوں کے مطابق شیعہ و قادیانی کافر نہیں بلکہ مسلمان ہیں تو وہابی شیعہ اور وہابی قادیانی بھاٸی بھاٸی ہوۓ۔ لیکن اگر کوٸی وہابی ان عبارات کو نہ مانتے ہوۓ شیعہ و قادیانی کو کافر کہتا ہے تو پھر اس کو اپنے ان علما پر کفر کا فتویٰ لگانا پڑۓ گا جو شیعہ و قادیانیوں کو مسلمان کہتے تھے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے کو بھی جاٸز قرار دیتے ہیں۔ ہم اپنی سابقہ تحریر میں یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ ”دیوبندی شیعہ بھی بھاٸی بھاٸی ہیں“ اس تحریر کا مطالعہ کرنے کے لۓ نیچے لنک پر کلک کریں۔ دیوبندی شیعہ بھاٸی بھاٸی دُعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں کو فتنہ وہابیت و دیوبندیت و شیعیت و قادیانیت سے محفوظ فرماۓ۔(آمین) تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  2. آج کل شیعوں کی طرف سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں نہیں بلکہ صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؓ ہی تھیں، اور نبیﷺ کی باقی تین بیٹیوں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کا انکار کر دیتے ہیں، جبکہ ان کا یہ اعتراض جہالت اور اپنی کتب سے ناواقفیت کے سوا کچھ نہیں، بعض شیعہ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ زینبؓ، رقیہؓ اور ام کلثومؓ حضرت خدیجہؓ کی بہن کی بیٹیاں تھیں اور بعض شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب بیٹیاں تو حضرت خدیجہؓ کی ہی تھیں لیکن ان کے سابقہ شوہر سے تھیں۔ تو آج کی اس تحریر میں ہم شیعہ کتب سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ چاروں نبیﷺ کی بیٹیاں تھیں، اور یہ سب نبیﷺ کو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوٸیں، ذیل میں شعیہ کتب سے نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے پر مستند ترین حوالے ملاحظہ فرماٸیں۔ شیخ صدوق جو کہ شیعوں کے نزدیک امام المحدثین ہے وہ اپنی کتاب ”الخصال“ میں باب باندھتا ہے کہ ”نبیﷺ کی سات اولادیں تھیں“ اور اس باب میں اپنی صحیح سند سے امام جعفر الصادقؓ کا قول نقل کرتا ہے کہ ”نبیؐ کی حضرت خدیجہؓ سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ قاسمؓ ، اور طاہرؓ جو کہ عبداللہ ہیں، اور ام کلثومؓ، اور رقیہؓ، اور زینبؓ اور فاطمہؓ ہیں، فاطمہ ؓکی شادی علیؓ بن ابی طالب سے ہوئی اور زینبؓ کی شادی ابو العاصؓ بن الربیع سے ہوئی اور ام کلثومؓ کی شادی عثمانؓ بن عفان سے ہوئی وہ رخصتی سے پہلے ہی وفات پا گٸیں تو نبیﷺ نے رقیہؓ کی شادی بھی عثمانؓ بن عفان سے کر دی، اور نبیؐ کے بیٹے ابراہیمؓ، ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے“۔(الخصال،جلد 2،صحفہ نمبر 275) حواشی میں شیعہ محقق نے اس روایت کی سند کو معتبر صحیح کہا ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیعہ کتاب کی صحیح سند کی روایت کے مطابق بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں اور یہ سب نبیﷺ کو حضرت خدیجہ سے پیدا ہوٸیں، حضرت زینبؓ کا نکاح تو حضرت ابوالعاصؓ (بعد میں مسلمان ہو گۓ تھے) سے ہوا اور حضرت ام کلثومؓ اور حضرت رقیہؓ کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوٸی۔ شیخ صدوق اسی باب میں اگلی روایت بھی امام جعفر صادقؓ سے نقل کرتا ہے کہ ”ایک دن نبیؐ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمہؓ سے کہہ رہی تھیں، اے خدیجہؓ کی بیٹی آپ یہ سوچتی ہیں کہ میری ماں (خدیجہؓ) ہم (باقی بیویوں) سے افضل ہیں،ان میں ایسی کیا خوبی تھی؟ وہ بھی تو ہماری طرح ہی تھیں، تو فاطمہؓ یہ سن کر رونے لگیں تو نبیؐ نے پوچھا اے فاطمہؓ کیوں روتی ہو؟ تو فاطمہؓ نے سب کچھ بتایا تو نبیؐ غصہ ہوئے پھر فرمایا! اے حمیرا (عائشہؓ) اللہ نے بچے پیدا کرنے والی عورت کو مبارک کیا ہے،اور خدیجہؓ سے مجھے طاہر جو کہ عبداللہؓ ہیں وہ پیدا ہوئے اور قاسمؓ ،اور فاطمہؓ اور رقیہؓ اور ام کلثومؓ اور زینبؓ پیدا ہوئیں“۔(الخصال،جلد 2،صحفہ نمبر 276،277) یہاں پر شیعہ روایت کے مطابق نبیﷺ نے خود حضرت عاٸشہؓ سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چار بیٹیاں عطا فرماٸی ہیں۔ اب شیعہ کی معتبر ترین کتاب الکافی کا حوالہ ملاحظہ فرماٸیں۔ شیعہ زاکر یعقوب کلینی لکھتا ہے ”نبیؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو بعثت سے قبل حضرت خدیجہؓ سے قاسمؓ ، رقیہؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئےاور بعثت کے بعد طیب و طاہر (طیب و طاہر عبداللہؓ کے لقب ہیں) اور فاطمہؓ پیدا ہوئے“۔(الکافی،جلد1،صحفہ نمبر 278) اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کی سب سے معتبر کتاب میں بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا ذکر ہے نہ کہ ایک۔ شیعہ زاکر علامہ مجلسی، نبیﷺ کی اولاد کے باب میں امام جعفر صادقؓ سے بسند معتبر روایت نقل کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ یہ روایت بسند معتبر ابن بابویہ نے بھی نقل کی ہے کہ ”نبیؐ کی اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے طاہرؓ، قاسمؓ ،فاطمہؓ، ام کلثومؓ، رقیہؓ اور زینبؓ ہیں، فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا، زینبؓ کا نکاح ابوالعاصؓ سے ہوا، ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ بن عفان سے ہوا اور وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو جب نبیؐ جنگ بدر کے لئے گئے تو رقیہؓ کی شادی بھی حضرت عثمانؓ بن عفان سے فرما دی، اور نبیؐ کے بیٹے ابراہیمؓ، ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے،(پھر علامہ مجلسی)شیخ طوسی اور ابن شہر آشوب کا قول نقل کرتا ہے کہ نبیؐ کی اولاد حضرت خدیجہؓ کے علاوہ اور کسی سے پیدا نہیں ہوئی سوائے حضرت ابراہیمؓ کے جو ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے، اور مشہور یہ ہے کہ نبیؐ کے تین بیٹے تھے، اور مشہور یہ ہے کہ نبیؐ کی چار بیٹیاں تھیں“۔(حیات القلوب،جلد 2 حصہ 5،صحفہ نمبر 869،870) یہاں علامہ مجلسی، نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کی روایت نقل کر کے آخر پر لکھتا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔ زاکر علامہ مجلسی اگلے باب میں نبیﷺ کی ازواج کا تذکرہ کرتے ہوۓ حضرت خدیجہؓ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”ان(خدیجہؓ) سے عبداللہؓ اور قاسمؓ پیدا ہوئے اور چار بیٹیاںؓ پیدا ہوئیں، زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور جناب فاطمہؓ“۔(حیات القلوب،جلد2 حصہ 5،صحفہ نمبر 881) اس کے علاوہ شیعوں کے معتبر اماموں میں سے ایک عبداللہ بن جعفر الحمیری بھی اپنی کتاب ”قرب الاسناد“ میں صحیح سند سے امام جعفر صادقؓ سے اور وہ اپنے والد امام محمد باقرؓ سے ایک روایت لے کر آۓ ہیں کہ ”نبیؐ کو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے قاسمؓ، طاہرؓ، ام کلثومؓ، رقیہؓ، فاطمہؓ اور زینبؓ پیدا ہوئے، فاطمؓہ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا، زینبؓ کا نکاح ابوالعاصؓ سے ہوا، ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ بن عفان سے ہوا اور وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو نبیؐ نے حضرت رقیہؓ کی شادی بھی حضرت عثمانؓ بن عفان سے کر دی،اور نبیؐ کے بیٹے ابراہیمؓ، ماریہؓ قبطیہ سے پیدا ہوئے“۔(قرب الاسناد،صحفہ نمبر 9) نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ کے ایک خطبہ سے بھی نبیﷺ کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہونے کا اشارہ ملتا ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ ”جب لوگوں نے حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ سے بات چیت کرنے کے لئے کہا تو حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اور تم(عثمانؓ) تو رسولؐ سے خاندانی قرابت کی بناء پر اُن دونوں(ابوبکرؓ و عمرؓ) سے قریب تر بھی ہو،اور ان (نبیؐ) کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے کہ جو ابوبکرؓ و عمرؓ کو حاصل نہ تھی“۔(نہج البلاغہ،خطبہ نمبر 162) اس خطبہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کی بیٹیاں حضرت عثمانؓ کے نکاح میں تھیں کیونکہ حضرت علی نے حضرت عثمانؓ کو فرمایا کہ آپ کو نبیﷺ کی دامادی بھی حاصل ہے جو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کو حاصل نہیں تھی۔ شیعہ زاکر نمعة اللہ الجزاٸری بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، لکھتا ہے ”نبیؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو ان سے عبداللہؓ پیدا ہوئے جو کہ طیب و طاہر ہیں اور ان سے قاسمؓ پیدا ہوئے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓ، زینبؓ کا نکاح زمانہ جاہلیت میں ابو العاصؓ سے ہوا اور رقیہؓ کا نکاح عتبہ بن ابو لہب سے ہوا اور رخصتی سے قبل طلاق ہو گئی تو پھر رقیہؓ اور ام کلثومؓ کی شادی حضرت عثمانؓ بن عفان سے ہوئی“۔(انوارالنعمانیہ، جلد1، صحفہ نمبر 340) اس کے ساتھ ساتھ شیعہ زاکر عباس قمی بھی یہی لکھتا ہے کہ ”قرب الاسناد میں امام جعفر صادقؓ سے وارد ہوا ہے (وہ امام باقر سے نقل کرتے ہیں) کہ نبیؐ کو خدیجہؓ سے قاسمؓ، طاہرؓ، فاطمہؓ، ام کلثومؓ، رقیہؓ اور زینبؓ پیدا ہوئے، فاطمہؓ سے علیؓ نے نکاح کیا، ابو العاصؓ نے زینبؓ سے نکاح کیا اور ام کلثومؓ سے عثمانؓ بن عفان نے نکاح کیا لیکن وہ رخصتی سے قبل وفات پا گئیں تو نبیؐ نے رقیہؓ کی شادی بھی عثمانؓ سے کر دی۔(منتھیٰ الامال،جلد1،صحفہ نمبر 151) شیعہ مٶرخین نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔ شیعہ مٶرخین میں سب سے زیادہ مشہور احمد بن ابو یعقوب ہے وہ اپنی کتاب ”تاریخی یعقوبی“ میں نبیﷺ کے حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے باب میں لکھتا ہے کہ ”نبیؐ نے تیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا، اور بعثت سے قبل ان سے قاسمؓ، رقیہؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئے اور بعثت کے بعد عبداللہؓ پیدا ہوئے اور وہی طیب و طاہر ہیں کیونکہ وہ اسلام میں پیدا ہوئے اور فاطمہؓ پیدا ہوئیں“۔(تاریخ یعقوبی،جلد2،صحفہ نمبر 15) اس کے ساتھ مشہور شیعہ مٶرخ محمد ہاشم خراسانی نے بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا اعتراف کیا ہے، لکھتا ہے ”(نبیؐ کی اولاد کے باب میں الکافی کے حوالے سے لکھتا ہے کہ) خدیجہؓ سے نبیؐ کو چار بیٹیاں تھیں، جناب قاسمؓ، اور زینبؓ، رقیہؓ اور ام کلثومؓ بعثت سے قبل پیدا ہوئے اور جناب طاہرؓ و فاطمہؓ بعثت کے بعد پیدا ہوئے، اور مناقب ابن اشہر آشوب کے حوالے سے بھی یہی لکھتا ہے کہ نبیؐ کی چار بیٹیاں تھیں،(پھر لکھتا ہے) ابراہیمؓ، ماریہؓ قبطیہ سے تھے، اور نبیؐ کی تمام اولاد سوائے حضرت فاطمہؓ کے نبیؐ کی وفات سے قبل فوت ہوگئی۔(منتخب التواریخ فارسی،جلد1،صحفہ نمبر 23) شیعہ زاکر عبداللہ المامقانی جو کہ علم الرجال میں شیعہ میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے وہ اپنی کتاب ”تنقیح المقال“ میں ”نبیﷺ کی اولاد و ازواج کے باب“ میں لکھتا ہے ”نبیؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی اور ان کو خدیجہؓ سے بعثت سے قبل قاسمؓ، رقیہؓ، زینبؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئے، اور بعثت کے بعد نبیؐ کی اولاد ابراہیمؓ(یہ ماریہؓ قبطیہ سے)،اور طاہرؓ(عبداللہ)اور فاطمہؓ پیدا ہوئے“۔(تنقیح المقال،جلد1،صحفہ 186،187) شیعہ ایک بے بنیاد اعتراض اور کرتے ہیں کہ اگر نبیﷺ کی کوٸی اور بیٹی بھی تھی تو نبیﷺ نے کبھی اس کی فضیلیت کیوں بیان نہیں کی ؟ جبکہ یہ اعتراض بھی باطل اور جھوٹ ہے شیعہ کتب میں ہی اس اعتراض کا جواب موجود ہے۔ شیعہ زاکر شیخ صدوق ہی نقل کرتا ہے کہ ”نبیؐ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا! اے لوگو کیا میں تم کو ایسے اشخاص کے بارے میں نہ بتاؤں جو لوگوں میں اپنے ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب سے بہترین ہیں؟ تو لوگوں نے کہا بتائیں یا رسول اللہ، تو نبیؐ نے فرمایا، وہ حسنؓ اور حسینؓ ہیں اور ان کے ماموں قاسمؓ بن رسول اللہ اور کی خالہ زینبؓ بنت رسول اللہ ہیں، پھر ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن ایسے اکھٹے ہوں گے پھر فرمایا اے اللہ تو جانتا ہے کہ ان کے ماموں اور ان کی خالہ جنت میں ہیں اور تو جانتا ہے جو ان سے محبت کرئے وہ جنت میں ہے اور جو ان سے بغض رکھے وہ جہنم میں ہے“۔(الامالی الصدوق،صحفہ نمبر 315 تا 318) یہاں پر نبیﷺ نے لوگوں میں سب سے بہترین ماموں اور سب سے بہترین خالہ کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا کہ وہ قاسم بن محمد اور زینب بنت رسول اللہ ہیں، اور جو ان سے محبت کرۓ گا وہ جنت میں جاۓ گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جاۓ گا جبکہ شیعہ تو سِرے سے ہی خالہ کے انکاری ہیں تو ان کا کیا حشر ہو گا وہ یہ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ کی دیگر بیٹیوں کی فضیلت بھی شیعہ کتب میں موجود ہے اور باقی بیٹیاں بھی نبیﷺ کی ہی اولاد تھیں کیونکہ نبیﷺ نے ”زینب بنت رسول اللہ“ فرمایا۔ ان تمام دلاٸل سے روزِ روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شیعہ کتب اور شیعہ علماء کے مطابق بھی نبیﷺ کی چار بیٹیاں تھیں نہ کہ ایک اور باقی سب بیٹیاں بھی نبیﷺ سے پیدا ہوٸیں تھیں، نہ کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن سے نہ ہی حضرت خدیجہؓ کے سابقہ شوہر سے۔ شیعوں کو بھی چاہیے کہ ان تمام دلاٸل کو مانیں اور اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر نبیﷺ کی چار بیٹیاں ہونے کا اقرار کریں اور اپنی عوام کو بھی جاہلانہ منطقیں سُنا کر گمراہ کرنے کی بجاۓ حق بات کی تعلیم دیں۔ ان دلاٸل کے علاوہ بھی بے شمار حوالے موجود ہیں لیکن جس نے حق قبول کرنا ہو گا اس کے لۓ یہی کافی ہیں، اور جس نے حق دیکھ اور سُن کر بھی اندھا اور بہرہ رہنا ہے اس کو چاہے ہزار حوالے دے دیے جاٸیں وہ پھر بھی نہیں مانے گا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین) تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  3. :روافض کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ کے خلاف ایک قول پیش کیا جاتا ہے جو کہ حافظ علی ابن الجعد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، قول کچھ یوں ہے ”ابن ھانیؒ کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے سنا اور ان کو دلویه نے بتایا کہ میں نے علی بن جعد کو سُنا انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم معاویہؓ، اسلام کے علاوہ (کسی مذہب) پر فوت ہوئے“۔ (مسائل امام احمد براویة ابن ھانی، جلد 2، صحفہ 154) اس قول کو پیش کر کے روافض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اہلسنت کے امام، علی بن جعد حضرت امیر معاویہؓ کو مرتد مانتے تھے، روافض کے اس اعتراض کے جواب میں کئی محققین نے لکھا کہ اُن کا یہ قول تب کا ہے جب وہ شیعہ تھے (کیونکہ علی بن جعد پہلے شیعہ تھے) لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ دلویه نے یہ بات علی بن جعد سے نہیں بلکہ یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی سے سُنی جو کہ رافضی و کذاب شخص تھا، مسائل امام احمد میں علی بن جعد کے حوالے سے یہ قول ابن ھانیؒ کا وہم ہے، کیونکہ دلویه نے یہ بات اُن سے نہیں سُنی۔ ذیل میں ملاحظہ فرماٸیں کہ یہ بات دلویه نے یحییٰ بن عبدالحمید سے سُنی ہے نہ کہ علی بن جعد سے۔ امام خطیب بغدادیؒ، یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں اپنی سند سے دلویه کا قول نقل کرتے ہیں کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے،(پھر اس کا رد کرتے ہوئے خود ہی) دلویه نے کہا! اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے“۔ (تاریخ بغداد، جلد 16، صحفہ 262) امام عقیلیؒ بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں اپنی سند سے دلویه کا قول نقل کرتے ہیں کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے“۔ (کتاب الضعفاء لعقیلی، جلد 4، صحفہ 1542) امام ذھبیؒ نے بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں دلویه کا قول نقل کیا کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے“۔ (تذھیب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد 10، صحفہ 9) امام ذھبیؒ نے دلویه کا یہی قول ”میزان الاعتدال میں بھی نقل کیا ہے۔ (میزان الاعتدال، جلد 6، صحفہ 199) حافظ ابن کثیرؒ نے بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں دلویه کا یہی قول نقل کیا کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے، دلویه نے کہا! اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے“۔ (التکمیل فی الجرح والتعدیل، جلد 2، صحفہ 240) حافظ مزیؒ نے بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں دلویه کا یہ قول نقل کیا کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے، دلویه نے کہا! اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے“۔ (تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد 31، صحفہ 429) علامہ بدر الدین عینیؒ نے بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں دلویه کا یہ قول نقل کیا کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے، دلویه نے کہا! اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے“۔ (مغانی الاخیار، جلد 3، صحفہ 218) امام ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے ترجمہ میں دلویه کا یہ قول نقل کیا کہ ”دلویه نے کہا میں نے یحییٰ بن عبدالحمید کو کہتے ہوئے سُنا کہ معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوئے، دلویه نے کہا! اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے“۔ (تھذیب التھذیب، جلد 7، صحفہ 72) اور شیعہ زاکر عباس قمی نے بھی یحییٰ حمانی کے بارے میں لکھتے ہوئے خطیب بغدادی کے حوالے سے اس کا یہ قول نقل کیا لکھتا ہے ”اور اس نے کہا معاویہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب پر فوت ہوا“۔ (الکنی والالقاب، جلد 2، صحفہ 192) ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قول دلویه نے علی بن جعد سے نہیں سُنا بلکہ یحیٰ بن عبدالحمید حمانی سے سُنا ہے، اور یحییٰ بن عبدالحمید حمانی خود رافضی اور کذاب ہے، ملاحظہ فرماٸیں۔ امام ذھبیؒ، یحییٰ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں ”امام احمدؒ کہتے ہیں یہ کھلم کھلا جھوٹ بولتا تھا، امام نسائیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے، ابن نمیرؒ کہتے ہیں ابن حمانی کذاب ہے، یحییٰ بن عبدالحمید نے امام دارمیؒ کی کتابوں سے احادیث چوری کر کے ان کو سلیمان بن بلال سے خود سے نقل کر دیا، میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں یہ بغض رکھنے والا شیعہ(رافضی) ہے، اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے“۔ (میزان الاعتدال، جلد 7، صحفہ 198،199) امام ذھبیؒ نے ”المغنی“ میں اس کے بارے میں فرمایا ”یحییٰ بن عبدالحمید منکر الحدیث ہے، اور امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں یہ کھلم کھلا جھوٹ بولا کرتا تھا، اور امام نسائیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے“۔ (المغنی، جلد 2، صحفہ 407) امام ذھبیؒ نے یحییٰ بن عبدالحمید کو ”دیوان الضعفاء والمتروکین“ میں بھی شامل فرمایا اور اس کے بارے میں فرمایا ”امام نسائیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے، امام احمدؒ کہتے ہیں یہ کھلم کھلا جھوٹ بولتا تھا اور احادیث چوری کرتا تھا، اور ابن نمیرؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے، اور جوزجانیؒ کہتے ہیں اس کی حدیث کو ترک کر دیا گیا، (پھر امام ذھبیؒ کہتے ہیں) یہ شیعہ ہے جو چاہا کرتا تھا بول دیتا تھا حضرت امیر معاویہؓ کی تکفیر کرتا تھا“۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین، صحفہ 436) علامہ بدر الدین عینیؒ بھی یحییٰ بن عبدالحمید کے بارے میں فرماتے ہیں ”یہ بغض رکھنے والا شیعہ(رافضی) تھا“۔ (مغانی الاخیار، جلد 3، صحفہ 218) امام ابن جوزیؒ بھی یحییٰ بن عبدالحمید کو ”الضعفاء والمتروکین“ میں شامل کر کے فرماتے ہیں کہ ”ابن نمیرؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے، اور امام احمدؒ کہتے ہیں کھلم کھلا جھوٹ بولا کرتا تھا، احادیث چوری کیا کرتا تھا، اور امام نسائیؒ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے“۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین، جلد 3، صحفہ 197) ان تمام جروحات سے ثابت ہوتا ہے کہ یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی ایک رافضی شیعہ اور کذاب راوی تھا، اس لیے اس کے کسی قول کو اہلسنت کے سامنے بطورِ استدلال پیش کرنا بھی کسی صورت جائز نہیں، اور شیعہ رجال میں بھی یہ مجہول درجہ کا راوی ہے۔ شیعہ زاکر محمد الجواہری لکھتا ہے! ”یحییٰ بن عبدالحمید مجہول ہے“۔ (المفید من معجم رجال الحدیث، صحفہ 664) ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کی طرف منسوب یہ قول دلویه نے حافظ علی بن جعد سے نہیں سُنا اور نہ ہی ان کے شیعہ ہونے کے زمانے کا قول ہے بلکہ ایک رافضی کذاب یحییٰ بن عبدالحمید کا قول ہے اور اُسی سے دلویه نے یہ سُنا اور دلویه نے خود بھی اس کذاب رافضی کا رد یہ کہہ کر کیا کہ ”اللہ کے اس دشمن نے یہ جھوٹ بولا ہے“، اس لیے اس قول کو حافظ علی بن الجعد کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔ تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت وجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  4. السلام علی من اتبع الھدیٰ اکثر دیوبندی، اہلسنت کو ایک طعنہ دیتے رہتے ہیں کہ ”سُنی(بریلوی) شیعہ بھائی بھائی ہیں۔ ناجانے کس وجہ سے دیوبندیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ اہلسنت بریلوی، شیعوں کی تکفیر نہیں کرتے اور ان کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اس لۓ یہ ان کے بھاٸی ہوۓ،ہم کو بھی کٸ بار یہ طعنہ مل چکا ہے۔ آج ہم اس طعنہ کی حقیقت بیان کریں گے اور یہ بتاٸیں گے کہ اصل میں شیعہ کے بھاٸی کون ہیں اہلسنت یا دیوبندی ؟ ہم نے ذیل میں شیعوں کے بارے میں اہلسنت وجماعت کے اور دیوبندیوں کے فتاویٰ نقل کیے ہیں ان سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعوں کے اصل بھاٸی کون ہیں۔ دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوہی سے اسمٰعیل کو کافر کہنے والے شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ ایسا شخص خود کافر ہوا یا نہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ! جو لوگ مولوی اسماعیل کو کافر کہتے ہیں وہ بتاویل کہتے ہیں، اگرچہ ان کی یہ تاویل غلط ہے لہذا ان لوگوں کو کافر نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی ان کے ساتھ کفار کا معاملہ کرنا چاہیے ”جیسا کہ روافض و خوارج کو بھی اکثر علما کافر نہیں کہتے حالانکہ وہ(رافضی) شیخینؓ و صحابہ کرام کو اور (خوارج) حضرت علیؓ کو کافر کہتے ہیں،پس جب بسبب تاویلِ باطل کے ان کے کفر سے بھی آٸمہ نے تحاشی کی“ تو مولوی اسماعیل کو مردود کہنے والا کو بطریق اولیٰ کافر نہیں کہنا چاہیے۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 192) یہاں پر رشید احمد گنگوہی کہتا ہے کہ روافض و خوارج بھی شیخینؓ و صحابہ کرام اور حضرت علیؓ کو باطل تاویل کے سبب کافر کہتے ہیں تو ہمارے اکثر علما نے ان کو تاویل کی بنا پر کافر نہیں کہا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ نقل فرماتے ہیں کہ! رافضی تبراٸی جو حضرات شیخینؓ کو معاذاللہ بُرا کہے کافر ہے، رافضیوں، ناصبیوں اور خارجیوں کو ”کافر کہنا واجب ہے“ اس سبب سے کہ وہ امیر المومنین عثمانؓ و مولیٰ علیؓ و حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ و حضرت عاٸشہؓ کو ”کافر کہتے ہیں“، (پھر نقل فرماتے ہیں) خلافت صدیقؓ اور خلافت فاروق اعظمؓ اور خلافت عثمانؓ کا منکر کافر ہے،اور جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کا منکر ہو یا شیخینؓ کو بُرا کہے یا حضرت عاٸشہ صدیقہؓ پر تہمت رکھے وہ کافر ہے ”اور اس کی تاویل کی طرف التفات نہ ہو گا نہ اس جانب کہ اس نے راۓ کی غلطی سے ایسا کہا“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 252 تا 255) اعلیٰحضرتؓ یہاں فرماتے ہیں کہ اگر کوٸی شخص صرف حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو بُرا ہی کہہ دے تب بھی وہ کافر ہو جاۓ گا۔ اور ہمارے نزدیک رافضیوں،خارجیوں اور ناصبیوں کو کافر کہنا واجب ہے کیونکہ وہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ و عاٸشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ کو کافر کہتے ہیں۔ اور جو شخص ان کی شان میں گستاخی کر کے کافر ہوا ہو اس کی تاویل پر بھی توجہ نہ دی جاۓ گی اور نہ ہی یہ مانا جاۓ گا کہ اس نے راۓ کی غلطی کی وجہ سے ایسا کہہ دیا۔ جبکہ دوسری طرف رشید احمد گنگوہی کا کہنا تھا کہ اگر کوٸ باطل تاویل کے سبب صحابہ کو کافر کہتا ہے تو اس کو ہمارے علما کافر نہیں کہتے۔(معاذاللہ) رشید احمد گنگوہی سے روافض کے کفر اور ان سے شادی بیاہ کے بارے میں سوال ہوا۔ تو رشید احمد گنگوہی نے جواب دیا کہ! ”رافضی کے کفر میں اختلاف ہے جو علما کافر کہتے ہیں بعض نے اہل کتاب کا حکم دیا ہے بعض نے مرتد کا پس درصورت اہل کتاب ہونے کے عورت رافضیہ سے مرد سُنی(جعلی دیوبندی) کا نکاح درست ہے اور عکس اس کے ناجاٸز اور بصورت ارتداد ہر طرح ناجاٸز ہو گا اور جو ان کو فاسق کہتے ہیں ان کے نزدیک ہر طرح درست ہے“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 198) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوبندیوں کے تین گروہ ہیں جن میں سے ایک کہ نزدیک رافضی صرف فاسق ہیں اور ان سے نکاح جاٸز بھی سمجھتے ہیں اور جو دوسرا گروہ ان کو اہل کتاب سمجھتا ہے وہ بھی ان سے نکاح کو جاٸز سمجھتا ہے۔ جبکہ ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ رافضیوں میں نکاح کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ! ”بالجملہ ان رافضیوں تبراٸیوں کے باب میں حکمِ یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار و مرتدین ہیں انکے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے،ان کے ساتھ مناکت (شادی بیاہ) نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے، معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہیٰ ہے،اگر مرد سُنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہو گا محض زنا ہو گا،اولاد ولدالزنا ہو گی باپ کا ترکہ نہ پاۓ گی اگرچہ اولاد بھی سُنی ہو کہ شرعاً ولدالزنا کا باپ کوٸی نہیں،ان کے مرد عورت،عالم جاہل، کسی سے میل جول، سلام کلام سب سخت کبیرہ اشد حرام، جو ان کے ان ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر پھر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرۓ باجماع تمام آٸمہِ دین خود کافر بے دین ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 269) اعلیٰحضرتؓ نے روافض کے کافر ہونے پر اجماعی حکم بیان کیا کہ ان سے نکاح کسی صورت جاٸز نہیں بلکہ زنا ہے اور اگر سُنی مرد نے کسی رافضیہ عورت سے نکاح کر لیا تو وہ بھی زنا ہے اور جو اولاد ہو گی چاہے وہ سُنی ہی ہو وہ ولدالزنا ہو گی اور ترکہ نہ پاۓ گی۔ ساتھ ہی اعلیٰحضرتؓ نے آٸمہِ دین کا اجماع نقل فرمایا کہ روافض کے کفریہ عقاٸد سے آگاہ ہونے کے بعد بھی جو ان کو مسلمان سمجھے یا ان کے کفر میں شک کرۓ وہ خود کافر و بے دین ہے۔ ایک اور مقام پر رشید احمد گنگوہی سے صحابہ پر طعن و لعنت کرنے والے کے بارے میں سوال ہوا کہ ایسا شخص سنت جماعت سے خارج ہو گا یا نہیں ؟ تو رشید احمد گنگوہی نے جواب دیا کہ! ”جو شخص صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی ”تکفیر“ کرۓ وہ معلون ہے ایسے شخص کو امام مسجد بنانا حرام ہے اور وہ اپنے اس گناہ کبیرہ کے سبب سنت جماعت سے خارج نہیں ہو گا“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 274) یہاں پر رشید احمد گنگوہی کہتا ہے کہ جو صحابہ میں سے کسی کو بھی کافر کہے گا وہ ملعون یعنی لعنتی ہی ہو گا اور اس گناہ کے سبب سنت جماعت (یعنی جماعتِ دیوبند) سے خارج نہ ہو گا بلکہ دیوبندی ہی رہے گا۔ جبکہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ اس مسٸلہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ! ”رافضی جو حضرات شیخینؓ صدیق اکبرؓ و فاروق اعظمؓ خواہ ان میں سے ایک کی شان میں گستاخی کرۓ اگرچہ صرف اس قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے تو فقہ حنفی کی تصریحات اور آٸمہ کے فتویٰ کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے،اگر ضروریات دین میں سے کسی کا منکر ہو گا تو کافر ہے مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کا منکر ہو، جو رافضی حضرت شیخینؓ کو معاذ اللہ بُرا کہے کافر ہے، شیخینؓ کو بُرا کہنا ایسا ہے جیسے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، جو شیخینؓ کو بُرا کہے یا تبرا بکے کافر ہے،جو خلافتِ شیخینؓ کا انکار کرۓ یا ان سے بغض رکھے کافر ہے کہ وہ تو رسول اللہﷺ کے محبوب ہیں، ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر کسی نبی یا شیخینؓ یا ان میں سے کسی ایک کی گستاخی کر کے کافر ہونے والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، درمختار میں بھی ہے کہ جو حضرات شیخینؓ کو بُرا کہے یا ان پر طعن کرۓ وہ کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 251 تا 261) اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اہلسنت اور ہمارے آٸمہِ دین کے نزدیک جو صحابہ کی شان میں گستاخی کرۓ یا ان کو کافر کہے وہ جماعت میں رہنا تو دور کی بات ہے اسلام میں بھی نہیں رہتا اور کافر ہو جاتا ہے اور جو انبیا کی گستاخی کرۓ یا حضرت ابوبکر صدیقؓ یا حضرت عمرؓ یا دونوں کی گستاخی کے باعث کافر ہوا ہو تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ رشید احمد گنگوہی خود شیعہ رافضیوں کو کافر سمجھتا تھا یا نہیں ؟ تو رشید احمد گنگوہی شیعہ کی تجہیر و تکفین کے بارے میں کہتا ہے کہ! جو لوگ شیعہ کو کافر کہتے ہیں ان کے نزدیک تو اس کی نعش کو ویسے ہی کپڑے میں لپیٹ کر واب دینا چاہیے،اور جو لوگ فاسق کہتے ہیں ان کے نزدیک ان کی تجہیر و تکفین حسب قاعدہ(مکمل رواجی و شرعی طور پر) ہونا چاہیے ”اور بندہ بھی ان کی تکفیر نہیں کرتا“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 291) یہاں پر رشید احمد گنگوہی خود اقرار کرتا ہے کہ میں شیعہ کی تکفیر نہیں کرتا یعنی ان کو کافر نہیں مانتا اور شیعوں کی تجہیر و تکفین کو مکمل شرعی طور پر کرنے کا قاٸل ہے۔ جبکہ جب ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ سے شیعہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا سوال ہوا تو فرمایا! ”اگر رافضی ضروریاتِ دین کا منکر ہے، مثلًا قرآن کریم میں کُچھ سوُرتیں یا آیتیں یا کوئی حرف صرف امیر المومنین عثمانؓ یا اور صحابہ خواہ کسی شخص کا گھٹایا ہوا مانتا ہے، یا مولٰی علیؓ خواہ دیگر ائمہ اطہار کو انبیائے سابقین میں کسی سے افضل جانتا ہے۔ اور آجکل یہاں کے رافضی تبرائی عمومًا ایسے ہی ہیں اُن میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے جو ان عقائدِ کفریہ کا معتقد نہ ہو جب تو وہ کافر مرتد ہے اور اس کے جنازہ کی نماز حرام قطعی و گناہ شدید ہے،اگر ضروریات دین کا منکر نہیں ہے مگر تبراٸی ہے تو جمہور آٸمہ کے نزدیک اس کا بھی وہی حکم ہے(یعنی اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جاۓ گی)، اور اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہتے (یعنی ان کی نماز جنازہ نہ پڑھے)، اور اگر صورت پہلی تھی یعنی وہ مُردہ رافضی منکرِ بعض ضروریاتِ دین تھا اور کسی شخص نے باآں کہ اُس کے حال سے مطلع تھا دانستہ اس کے جنازے کی نماز پڑھی اُس کے لئے استغفار کی جب تو اُس شخص کی تجدید اسلام اور اپنی عورت سے ازسر نو نکاح کرنا چاہئے“۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صحفہ نمبر 172،173) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کل کے تمام شیعہ کافر ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے نزدیک تو کسی ایسے شیعہ کا جنازہ پڑھنا بھی جاٸز نہیں جو صرف تفضیلی ہو اور تبرا نہ کرتا ہو،اور اگر کسی نے جان بوجھ کر رافضی منکرِ ضروریات دین کا جنازہ پڑھ لیا تو اس کو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کرنا پڑۓ گا۔ اب آپ خود بتاٸیں کہ ان سب باتوں کے بعد بھی سُنی شیعہ بھاٸی بھاٸی ہیں یا دیوبندی شیعہ بھاٸی بھاٸی ہیں ؟ صحابہؓ کو کافر کہنے والے کو کافر نہ کہنے کے قاٸل دیوبندی ہیں۔ روافض سے نکاح کرنے کے قاٸل دیوبندی ہیں۔ صحابہ کی تکفیر کرنے والا بھی دیوبندی جماعت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور دیوبندی علما شیعہ کی تکفیر بھی نہیں کرتے۔ اس سب کے باجود بھی اگر کوٸی دیوبندی یہ کہتا ہے کہ ”سُنی شیعہ بھاٸی بھاٸی“ تو اس کو چاہیے کہ پہلے اپنے ان تمام علما کو جماعتِ دیوبند سے خارج مان کر کافر مانے اور پھر ہماری کتب سے یہ دکھاٸے کہ ہم کہاں پر روافض کی حمایت کرتے ہیں اور کہاں پر ان سے شادی بیاہ کو جاٸز سمجھتے ہیں اور کہاں پر ان کی تکفیر نہیں کرتے ؟ دُعا ہے کہ اللہ سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور شیعوں و دیوبندیوں کا بھاٸی چارہ بڑھاۓ اور دیوبندیوں کا حال شیعوں کے ساتھ فرماۓ۔(آمین) تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  5. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ اہلحق اہلسنت والجماعت پر اکثر عید میلاد النبی منانے کی وجہ سے اعتراضات کۓ جاتے ہیں کہ یہ بدعت ہے کسی صحابی سے ثابت نہیں نبی ﷺ نے بھی نہیں منایا،تو آج کی اس پوسٹ میں ہم میلاد النبی قران و حدیث و آثار کی روشنی سے ثابت کریں گے۔ لیکن سب سے پہلے ہم میلاد کا مطلب بتاتے جاٸیں کہ میلاد کا مطلب ولادت ہے جو کہ مولد سے ہے۔ قران میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ”اللہ کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو“۔(سورة الضحی آیت نمبر 11) اس آیت میں اللہ نے اپنی نعمت کا چرچا کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ نے دوسری جگہ پر نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا ”(اے نبی ) ہم نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا“۔(سورة الانبیا آیت نمبر 107) ان آیات کو جمع کیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہیں اور اس نعمت کو خوب بیان کرنا چاہیے۔ جیسا کہ قران سے یہ ثابت ہو چکا کہ نبی ﷺ کی آمد کا چرچا کرنا چاہیے تو اب ہم آجاتے ہیں احادیث کی طرف کہ کیا نبی ﷺ نے بھی اپنا میلاد منایا اور صحابہ نے بھی ؟ تو بلکل نبی ﷺ نے بھی اپنا میلاد منایا اور صحابہ نے بھی منایا۔ ایک بار نبی ﷺ منبر پر تشریف لاۓ اور فرمایا ”اللہ نے مجھے اچھے لوگوں میں پیدا کیا اور مجھے بہتر گھر میں اور بہتر ذات میں پیدا کیا“۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 3608) اور امام ترمذی نے ایک حدیث پر پورا باب باندھا ”باب ماجا فی میلاد النبی“ اور پھر اس میں نبی ﷺ کی ولادت کی حدیث بیان کی۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ولادت اور اپنی صفات کو بیان کر کے خود بھی ذکر میلاد کیا۔ اب آتے ہیں صحابہ کرام کی طرف تو ایک بار کچھ صحابہ کرام ایک جگہ بیٹھے ہوۓ تھے تو نبی ﷺ تشریف لاۓ اور پوچھا تم کیا کر رہے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کی تعریف بیان کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور آپ کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا۔ (سنن نساٸی حدیث نمبر 5428) اس حدیث سے بھی واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی آمد کہ وجہ سے اللہ تعالی کا شکر ادا کر کے میلاد منایا۔ اب ہم آتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تاریخ وفات بارہ ربیع الاول ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں رجع قول دو ربیع الاول کا ہے جیسا کہ امام سہیلی فرماتے ہیں ”نبی ﷺ کا وصال ربیع الاول کی دو،تیرہ یا چودہ تاریخ کو ہوا کیونکہ اسی پر امت کا اجماع ہے“۔ (الروض الانف جلد 4 صحفہ 654) اور بھی کٸ کتب میں یہی قول نقل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ کی وفات 12 ربیع الاول نہیں ہے،لیکن پھر بھی اگر کوٸی کہے کہ نہیں 12 ربیع الاول ہی ہے،اور نبی ﷺ کی وفات والے دن خوشی منانا جاٸز نہیں تو فلحال ہم یہ مان لیتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تاریخ وفات بھی 12 ربیع الاول ہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی میلاد کا انکار ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نبی کے مرنے پر غم نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔اب ہم آجاتے ہیں احادیث کی طرف ان کی روشنی میں اس مسٸلے کو دیکھتے ہیں کہ کیا انبیا کی وفات پر سوگ منانا چاہیے یا نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے”جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے،اس کا درجہ اللہ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی زیادہ ہے،اس کی پانچ خصوصیات ہیں:اللہ نے اسی دن آدم کو پیدا کیا،اسی دن ان کو روۓ زمین پر اتارا،”اسی دن اللہ نے ان کو وفات دی“،اور اسی دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اللہ سے جو بھی مانگے اللہ عطا کرتا ہے جب تک کہ حرام چیز کا سوال نا کرۓ اور اسی دن قیامت آۓ گی۔۔۔۔۔“۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر 1084) تو جیسا کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔وجوہات میں بتایا کیونکہ اس دن ہی آدم پیدا ہوۓ اور اسی دن فوت ہوۓ۔ اگر تو نبی کے مرنے پر غمگین ہونا چاہیے تو نبی ﷺ نے یہاں پر یہ کیوں نہیں فرمایا کہ اس دن خوش ہونا ہی حرام ہے کیونکہ اس دن آدم فوت ہوۓ ؟ جبکہ نبی ﷺ نے تو فرمایا کہ اس کی فضیلت تو اللہ کے نزدیک دونوں عیدوں سے بھی زیادہ ہے،تو ثابت ہوا کہ نبی کے مرنے پر غمگین ہونا جاٸز نہیں کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ اب آتے ہیں قران مجید کی طرف کہ قران مجید میں اس بارے میں کیا لکھا ہے سورة مریم آیت نمبر 24 میں حضرت عیسیٰ کا وہ خطاب لکھا گیا جو انہوں نے اپنی قوم سے کیا تھا وہ فرماتے ہیں ”اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مر جاٶں اور جس دن زندہ اٹھایا جاٶں“۔ اس آیت میں بھی حضرت عیسیٰ نے خود اس دن پر سلامتی کہی ہے جس دن ان کی وفات ہو جاۓ گی یعنی کہ عیسی علیہ السلام بھی جانتے تھے کہ نبی کے مرنے پر غم نہیں منایا جاتا کیونکہ وہ زندہ ہوتا ہے،اگر تو ان کے نزدیک نبی کے مرنے پر غمگین ہونا چاہیے تو وہ اپنے مرنے کے دن پر سلامتی کی دعا نہ کرتے۔ الحَمْدُ ِلله ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ نبی ﷺ کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے ہی نہیں اور اگر مان بھی لی جاۓ تو اس دن غم کرنے کی یا سوگ منانے کی دلیل تو ملتی ہی نہیں بلکہ الٹا نبی کی وفات کے دن کو بھی فضیلت کا دن کہا گیا ہے۔ اب آتے ہیں ہم اس بات کی طرف کہ کیا میلاد النبی کو عید کا دن کہا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب ہے بلکل کہا جا سکتا ہے کیونکہ عید کا مطلب ہے خوشی کا دن۔(فیروزاللغت) لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عیدیں صرف دو ہیں جو کہ غلط ہے نبی ﷺ نے تو جمعہ کے دن کو بھی عید کا دن کہا ہے۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر 1098) اب آتے ہیں ہم اس بات کی طرف کہ کیا جشن میلاد پر جھنڈے لگانا جاٸز ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب ہے بلکل جاٸز ہے کیونکہ اللہ نے خود نبی ﷺ کی ولادت پر جھنڈے لگواۓ۔ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ”جب محمد ﷺ پیدا ہوۓ تو میرے سامنے سے تمام حجابات اٹھا دٸے گۓ اور میں نے تین جھنڈے دیکھے مشرق،مغرب اور کعبہ پر۔(نعمت الکبری صحفہ نمبر 122) (خصاٸل الکبری جلد 1 صحفہ نمبر 105) جیسا کہ ہم نے ثابت کر دیا کہ میلاد پر جھنڈے لگانا جاٸز ہے اب ہم آتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیا لوگوں کو میلاد پر کھانا کھلانا جاٸز ہے۔تو نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا اسلام (یعنی اسلام کا حصہ) بہتر ہے تو آپ نے فرمایا تم کھانا کھلاٶ اور سلام کرو لوگوں کو۔ (بخاری حدیث نمبر 12) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کھانا کھلانے پر کی جانے والی فضول خرچی کی بجاۓ کسی غریب کو دے دیے جاٸیں وہ پیسے تو زیادہ ثواب ہو گا۔تو یہ بات بھی صحیح ہے کہ کسی غریب کو دے دیے جاٸیں لیکن اگر کوٸی کھانا کھلا دے تو وہ بھی باعث ثواب ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا بہتر اسلام ہے۔اور کھانا کھلانا فضول خرچی نہیں ہے۔ اب ہم آتے ہیں کہ میلاد پر خوش ہونے سے اجر ملتا ہے یا نہیں تو اس کا جواب بخاری میں موجود ہے کہ ایک کافر کو میلاد منانے پر جہنم میں بھی انعام دیا جا رہا ہے تو جب ایک مسلمان میلاد منائے گا تو اس کا اجر تو بے حساب ہو گا،ابولہب جس کی تزلیل قران میں نازل ہو چکی ہے اس نے بھی جب نبی ﷺ کی ولادت کی خبر دینے والی غلام ثوبیہ کو نبی ﷺ کی ولادت کی خوشی میں جس انگلی کے اشارے سے آزاد کر دیا تھا۔اس انگلی سے اسے جہنم میں بھی پانی پلایا جاتا ہے۔ (بخاری حدیث نمبر 5101) اس حدیث کے تحت کٸ علما کا یہی کہنا ہے کہ اگر میلاد کی خوشی میں ایک کافر کا خوش ہونا اس کے لۓ اتنا فاٸدے مند ہے تو مسلمان کے لۓ کیا مقام ہو گا۔ اب ہم آتے ہیں آثار سے میلاد کے ثبوت کی طرف شاہ ولی اللہ محدث وہلوی لکھتے ہیں کہ مکہ والے میلاد کے دن نبی ﷺ کے مولد مبارک کی زیارت کرنے آتے اور نبی ﷺ پر درود شریف پڑھتے تھے۔اور نبی ﷺ کو عطا کردہ معجزات کا زکر کرتے تھے۔ (فیوض الحرمین صحفہ نمبر33) اور بھی کٸ محدثین نے لکھا ہے کہ میلاد منایا کرتے تھے مکہ والے۔ اس کے بعد ہم منکرین میلاد کے علما سے میلاد کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ دیوبندیوں کا حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتا ہے”میلاد منانا ہر جگہ تو بدعت ہے لیکن کالجز میں جاٸز بلکہ واجب ہے“۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد 21 صحفہ نمبر 326) اور دوسری جگہ اشرف علی تھانوی کا قول نقل کیا گیا کہ ”میلاد منانا خیر و سعادت اور مستحب ہی ہے البتہ اس میں موجود منکرات کو ختم کر دینا چاہیے۔اور منکرات کی وجہ سے ایسے مستحب عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے“۔ (مجالیس حکیم الامت صحفہ نمبر 160) دوسرے دیوبندی علما کا کہنا بھی یہی ہے کہ ”نبی ﷺ کا میلاد منانا ہمارے نزدیک نہایت ہی پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب عمل ہے“۔ (عقاٸد علماۓ دیوبند صحفہ نمبر 246) غیر مقلد عالم کا کہنا یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ولادت کے دن کے بارے میں بتا کر میلاد منایا“۔ (سیرت کے سچے موتی صحفہ نمبر 52) الحَمْدُ ِلله ہم نے قران و حدیث اور آثار کی روشنی میں اور ساتھ ہی منکرین کے علما سے بھی میلاد کو جاٸز اور مستحب ثابت کر دیا تو اب ان لوگوں کو چاہیے قران و حدیث کو چاہے نہ ہی مانیں(جیسا کہ ان کا کام ہے) لیکن اپنے مولویوں کی ہی مان لیں۔ تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحفی الماتریدی البریلوی
  6. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ شیعوں نے اپنی ایک ویب ساٸیٹ پر ایک پوسٹ اپلوڈ کی جس میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی شرح صحیح مسلم میں علامہ عینیؒ کے قول کو نقل کیا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”میں(عینی) کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہؓ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جاۓ گا ؟ اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے ؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی،اور ابن سمیہ عمار بن یاسرؓ ہیں،اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا،کیا معاویہؓ برابر سرابر ہونے پر راضی نہیں ہیں کہ ان کو ایک اجر مل جاۓ“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس قول کو لکھنے کے بعد شیعہ چیلنج کر رہے ہیں کہ ”کیا کوٸی اہل سنت اس اعتراض کا علمی جواب دے سکتا ہے ؟“ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ مکار اور فریبی قوم ہیں،بس اپنے مطلب کی بات نکال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کوٸی شخص کم علمی میں شیعہ کی آدھی پوسٹ پڑھ کر یہ فتوے بازی نہ شروع کر دے کہ علامہ بدرالدین عینیؒ رافضی تھے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم ان کے اس چیلنج کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ ان کے چیلنج کا منہ توڑ جواب اسی کتاب کے اگلے صحفے پر موجود ہے۔ پہلی بات ہی یہ ہے کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے یہ قول ہی اس باب میں نقل کیا ہے کہ ”حضرت معاویہ پر علامہ عینی کے اعتراض کا جواب“ یعنی کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ اس جگہ ان کے اس اعتراض کا جواب لکھنے لگے ہیں،لیکن شیعہ نے اس سے اگلا صحفہ نہ ہی لگایا ہے نا ہی پڑھا ہو گا۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ علامہ عینیؒ کا یہ قول لکھ کر سب سے پہلے یہ کہتے ہیں حضرت علیؓ کی محبت برحق ہے اور ہمارے ایمان کا جُزو ہے،لیکن حضرت علیؓ کی محبت میں حضرت معاویہؓ پر غیظ و غضب کا اظہار کرنا اور ان کے فضاٸل اور ان کے اجر و ثواب کا انکار کرنا تشیع اور رفض کا دروازہ کھولنا ہے،اور راہِ اعتدال اور مسلک اہلسنت وجماعت سے تجاوز کرنا ہے۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ،علامہ عینیؒ کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالی علامہ بدالدین عینیؒ کی مغفرت فرماۓ(آمین) انہوں نے امیر معاویہؓ پر اعتراض کیا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے موقف کا حق ہونا واضح ہو گیا تھا اور لیکن انہوں نے اس کے بعد بھی رجوع نہیں کیا۔ اس کے بعد علامہ عینیؒ کے اعتراض کا جواب کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”علامہ عینیؒ کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت پہلے تو حضرت معاویہ کے اجتہاد پر کوٸی اعتراض نہیں ہے،ہاں حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد حق ضرور واضح ہو گیا تھا لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو یہاں بھی التباس اور اشتباہ ہو گیا،انہوں نے کہا کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کا باعث حضرت علیؓ ہیں(جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں روایت موجود ہے)،اگر حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ کا قصاص لے لیتے تو جنگ کی نوبت نہ آتی اور نا ہی حضرت عمارؓ شہید ہوتے،حضرت معاویہؓ کی تاویل صحیح نہیں ہے لیکن یہ تاویل بھی ان کی اجتہادی خطا پر مبنی ہے“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 792) اس جواب کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ عمدة القاری کے شروع میں علامہ عینیؒ نے خود حضرت معاویہؓ کی اجتہادی خطا کا اعتراف کیا ہے وہ اس حدیث کہ ”عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار اس گروہ کو جنت کی طرف بلاۓ گا اور وہ لوگ عمارؓ کو دوزخ کی طرف بلاٸیں گے“(یاد رہے یہ جنت و جہنم کے زاٸد الفاظ بخاری کے قدیم نسخوں میں موجود نہیں تھے لیکن بعد میں شامل کر دیے گۓ جو کہ میں اپنی پہلے والی پوسٹ میں ثابت کر چکا ہوں)اس حدیث پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عمارؓ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑے تھے اور ان کو حضرت امیر معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا تو کیا حضرت معاویہؓ کا گروہ باغی اور دوزخ کی طرف دعوت دینے والا تھا ؟ اس کے جواب میں علامہ عینیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمارؓ کو حضرت معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا لیکن وہ خود مجتہد تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ وہ جنت کی دعوت دے رہے ہیں اور اس واقعے کے برعکس تھا اور اپنے ظن کی اتباع کرنے میں ان پر کوٸی ملامت نہیں ہے،اگر تم یہ کہو کہ جب مجتہد صحیح اجتہاد کرے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اگر غلط اجتہاد کرے تو ایک اجر ملتا ہے تو یہاں کیا معاملہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اقناعی جواب دیا ہے اور صحابہ کے حق میں اس کے خلاف کہنا لاٸق نہیں ہے،کیونکہ اللہ نے صحابہ کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کی گواہی دی ہے، قران مجید میں ہے ”تم بہترین امت ہو“ مفسرین نے بیان کیا ہے اس سے مراد ”صحابہ“ ہیں۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 972) تو اس سے سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا چیلنج بلکل فضول اور جاہلانہ تھا اور ساتھ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ بدرالدین عینیؒ حضرت امیر معاویہؓ پر طعن کرنے کے قاٸل نہیں تھے اور نا ہی ان کو جہنمی کہتے تھے بلکہ وہ خود حضرت امیر معاویہؓ کی تاویل کو اجتہادی خطا سمجھتے تھے،اور ان کی فضیلت کے قاٸل تھے۔لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ حق واضح ہونے کے باوجود حضرت امیر معاویہؓ نے رجوع نہیں کیا اور پھر سے تاویل کی جو کہ صحیح نہیں تھی۔ شیعہ حضرات کو بھی چاہیے کہ علما کی بیان کردہ باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور الٹے سیدھے فضول چیلنج کرنے کی بجاۓ حق کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔ تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
  7. نبیﷺ کی شان میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کی گستاخی ؟ اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ کچھ دن قبل میرے پاس ایک سکین آیا جو کہ دیوبندیوں کا بنایا ہوا تھا جس میں حسام الحرمین کی ایک عبارت کو مینشن کیا گیا تھا اور اوپر ہیڈننگ دی گٸ تھی کہ یہ اعلیٰ حضرتؒ نے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ سکین ایک دیوبندی ”ابواسامہ“ نے کچھ یوں بنایا تھا کہ ”پوری بریلوی ذریت کو چیلنج ہے کہ احمد رضا کو کفر اور گستاخی کی اس دلدل سے نکال کر دکھاٶ احمد رضا بریلوی پیشوا کی رسول اللہ کے علم اقدس میں بدترین گستاخی۔جیسا علم رسول اللہ کو ہے ایسا تو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چوپاۓ کو حاصل ہے۔“(حسام الحرمین صحفہ نمبر 87) تو جناب نے بہت ساری بونگیاں ماری ہیں اور صرف ایک عبارت کو مینشن کر دیا جو ان کی کتاب میں موجود ہے اور اوپر دعویٰ کر دیا کہ یہ احمد رضا کے الفاظ ہیں۔ اول تو میں یہ بتاتا چلوں کہ اس جاہل بندے کا دعوی بلکل ایسا ہی ہے جیسے کہ کوٸی کافر آکر کہے تمہارے قرآن میں لکھا ہے کہ ”نماز کے قریب مت جاٶ“ یعنی کہ تمہارا خدا نماز پڑھنے سے روک رہا ہے۔ اب سبھی جانتے ہیں کہ کافر یہ آیت آدھی سنا کر اپنا مطلب نکال کر بھڑکیں مار رہا ہے۔ جبکہ آیت ہوں ہے کہ ”اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاٶ....“۔ (سورة النساء آیت نمبر 43) یعنی کہ قرآن میں نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ ایک کافر آکر اپنا مطلب نکالنے کے لۓ آدھی آیت سنا رہا ہے۔ وہی حال اس دیوبندی کا ہے،کہ اپنا مطلب نکالنے کے لۓ آدھی عبارت لگا دی اور باقی سب کچھ غاٸب کر دیا کیونکہ یہ جانتا تھا کہ اگر سارا صحفہ لگا دیا تو ایک تو اس کا دجل و فریب واضح ہو جاۓ گا دوٸم یہ کہ اس کے بڑوں کا کفر و گستاخی واضح ہو جاۓ گی۔ مکمل عبارت یوں ہے کہ اعلی حضرتؒ فرماتے ہیں ”اور اس فرقہ وہابیہ شیطانیہ(دیوبندی/وہابی) کے بڑوں میں ایک اور شخص اِسی گنگوہی کے دم چھلوں میں ہے جِسے اشرف علی تھانوی کہتے ہیں،اس نے ایک رسلیا تصنیف کی کہ چار ورق کی بھی نہیں اور اس میں تصریح کی کہ غیب کی باتوں کا ””جیسا علم رسول اللہ کو ہے ایسا تو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چوپاۓ کو حاصل ہے““اور اس کی ملعون عبارت یہ ہے،آپﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب مراد ہے یا کُل غیب،اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضورﷺ کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہاٸم کے لۓ بھی حاصل ہے“۔ (حسام الحرمین صحفہ نمبر 87) اب آپ اس دیوبندی جاہل ابواسامہ کے دجل و فریب سے واقف تو ہو ہی چکے ہوں گے کہ یہ کتنا بڑا کذاب ہے اور کتنا بڑا بہتان باندھا ہے اس نے امام احمد رضا خان بریلویؒ پر۔ یہ الفاظ اعلیٰحضرتؒ کے نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت نے اس دیوبندی کے بڑے اشرف علی تھانوی کی گستاخی کو نقل کیا ہے کہ اشرف علی تھانوی نے نبیﷺ کے بارے میں ایسے ملعون الفاظ استعمال کیے۔لیکن اِس دیوبندی نے اپنے تھانوی کو بچانے کے لۓ یہ الفاظ اعلیٰحضرتؒ پر تھوپنے کی ناکام کوشش کی۔اور اپنی اس کوشش میں منہ کی کھا کر نیچے گِرا۔ اب ایک اور مطالبہ ہو گا کہ اعلیٰحضرتؒ نے اشرف علی تھانوی کے بارے میں لکھا ہے کہ اشرف علی تھانوی نے یہ ملعون الفاظ نبیﷺ کی شان میں بولے تو اشرف علی تھانوی کے کس رسالے میں یہ الفاظ ہیں تو اس کا مکمل حوالہ نیچے ملاحظہ فرماٸیں۔ اشرف علی تھانوی اپنے رسالے حفظ الایمان میں یہ تمام الفاظ لکھتا ہے جیسا کہ آپ نیچے سکین بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اشرف علی تھانوی کے الفاظ بلکل وہی ہیں جو اعلیٰحضرت نے نقل کیے کہ اشرف علی تھانوی کی یہ معلون عبارت ہے۔ اشرف علی تھانوی لکھتا ہے ”پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب،اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی ہی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہاٸم کے لۓ بھی حاصل ہے“۔ (حفظ الایمان طبع سن 1934ء) تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نازیبا اور ملعون الفاظ دیوبندیوں کے اشرف علی تھانوی کے ہیں نہ کہ اعلیٰحضرتؒ کے۔ اب دیوبندی ایک اور دھوکہ دینے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ الفاظ ان کے رسالے میں نہیں بلکہ بریلویوں نے شامل کیے ہیں تو اس کا منہ توڑ جواب نیچے ملاحظہ فرماٸیں۔ یہی الفاظ حفظ الایمان کے دار الکتاب دیوبند سے چھپنے والے نسخے میں بھی موجود ہیں جیسا کہ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔ تو اگر یہ الفاظ کسی اور نے شامل کیے ہیں تو جناب تم لوگوں کے مکتبہ دیوبند میں چھپنے والے نسخوں میں کیوں شامل ہیں ؟ ان کو اس نسخے سے نکالا کیوں نہیں ؟ یہ الفاظ اشرف علی تھانوی کے ہی ہیں اور دیوبندیوں کے کسی بڑے نام نہاد عالم نے ان الفاظ کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ یہ اشرف علی تھانوی کے رسالے کے اصل نسخے میں شامل نہیں۔ تو دیوبندیوں مان لو کہ یہ کفر و گستاخی تمہارے اشرف علی تھانوی نے کی ہے نہ کہ اعلیٰحضرتؒ نے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر نہ بھی مانو تو تمہارے ابواسامہ کا فتویٰ تمارے ہی تھانوی کی طرف لوٹ گیا ہے کہ اس نے کفر بکا اور گستاخی کی۔ اس بندے ابواسامہ کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ یہ الفاظ یا ایسے کوٸی الفاظ اعلیٰحضرتؒ سے ثابت کر دے کہ یہ اعلیٰحضرتؒ کے الفاظ ہیں تو میں اس دیوبندی کا مسلک قبول کر لوں گا۔ لیکن اگر ثابت نہ کر پایا تو مان لے کہ یہ کفر و گستاخی اس کے اشرف علی تھانوی نے کی ہے۔اور آکر ہمارا مسلک قبول کرۓ۔ دعا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت عطا فرماۓ اور ان کے دجل و فریب سے عام عوام الناس کو محفوظ رکھے۔(آمین) تحقیق ازقلم:مناظرِ اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  8. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُ آج کی اس پوسٹ میں ہم رافضیوں کی طرف سے کیے جانے والے ایک اعتراض کے بارے میں بات کریں گے کہ کیا امیر معاویہ کا حضرت علی کو برے الفاظ سے یاد کرنے والی بات درست ہے یا نہیں،اس حوالے سے رافضیوں کی طرف سے ایک دلیل پیش کی جاتی ہے جو کہ ابن ماجہ میں موجود ہے روایت کچھ یوں ہے ”عبدالرحمن بن سابط نے سعد بن ابی وقاص سے سنا کہ امیر معاویہ کسی حج کے موقع پر تشریف لاۓ،سعد ان کے پاس گۓ،انہوں نے حضرت علی کا تذکرہ کیا تو معاویہ نے علی کے بارے میں برے الفاظ استعمال کیے،تو سعد غصے میں آگۓ اور کہا تم اس شخص کے متعلق یہ کہتے ہو میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔۔۔۔“۔(ابن ماجہ حدیث نمبر 121) یہ روایت پیش کر کے رافضی کہتے ہیں کہ امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔جبکہ اس روایت کا صحیح ہونا ہی ثابت نہیں کیونکہ اس کے مرکزی راوی عبدالرحمن بن سابط کا سماع سعد بن ابی وقاص سے ثابت ہی نہیں۔ اس کے بارے میں لکھتے ہوۓ علامہ حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ”امام یحیی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن بن سابط نے سعد بن ابی وقاص سے سماع کیا تو انہوں نے فرمایا نہیں“۔(تھذیب التھذیب جلد 2 صحفہ 509) اسی طرح امام جمال الدین ابو حجاج یوسف نے عبدالرحمن بن سابط کے بارے میں لکھتے ہوۓ چند صحابہ کا نام لکھا جن میں سعد بن ابی وقاص بھی شامل ہیں پھر لکھا ہے کہ ”ان میں سے کسی سے اس کا سماع ثابت نہیں“۔(تہذیب الکلام فی اسما الرجال جلد 17 صحفہ نمبر 123,124) ہم نے الحَمْدُ ِلله دلاٸل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ یہ روایت ثابت نہیں اور نا ہی امیر معاویہ کی زبان سے مولا علی کے لۓ نازیبا الفاظ کا ادا ہونا ثابت ہے۔ اس لۓ رافضیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان ہتھکنڑوں کو چھوڑ دیں۔ تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
×
×
  • Create New...