Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محمد بن احمد بن سالم بن سليمان السفارينى الحنبلى رحمة الله عليہ متوفٰی۱۱۸۸ھ ناظم رحمه الله و رضی الله عنہ فرماتے ہیں و خالنا معاویہ ) ہمارے ماموں حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو خال المؤمنین کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نبی اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے بھائی ہیں اس لئے آپ پر خال المومنین کا اطلاق کیا کیونکہ ماں کا بھائی اس کے بیٹے کیلئے ماموں ہوتا ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا کا نام رملہ تھا ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام ہند تھا ۔ مگر زیادہ صحیح یہی ہے کہ ان کا نام رملہ بنت ابی سفیان خواہر معاویہ تھا ابو سفیان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی الاموی ان کانسب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عبد مناف میں مل جاتا ہے امیر المومنین حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی الله عنہما فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے ۔ اور مؤلفة القلوب میں سے تھے پھر اسلام میں حسن و کمال پیدا ہو گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ماں کا نام ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا وہ بھی فتح مکہ کے بعد اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کو سابقہ نکاح پر باقی رکھا ۔ وہ فصاحت عقل اور رزانت وقار و سنجیدگی کی مالک تھیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ابو عبد الرحمن کنیت کرتے تھے وہ نبی اکرم ﷺ کے کاتب تھے ایک قول یہ ہے کہ صرف مکاتیب کی کتابت کرتے تھے وحی نہیں لکھتے تھے ۔ ترمذی میں بحکم تحسین مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نےحضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو ہادی مہدی بنا ۔ مسند امام احمد میں حضرت عرباض رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله ﷺ سے سنا آپ نے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو حساب و کتاب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ طبرانی معجم کبیر میں عبد المک بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے جب سے حضور اکرم ﷺ کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ! جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ حوالہ درج ذیل ہے لوائح الأنوار السنية ولواقع الأفكار السنية ، لامام محمد بن احمد بن سالم بن سلیمان السفارینی الحنبلی ، تحت " ترجمة معاوية رضي الله عنه ، جلد 2 ص 74 تا 75 ، مطبوعة مكتبة الرشد الرياض ، طبع اول ١٤١۵ھ/۱۹۹٤ء
  2. اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میرا مختصر تعارف تو وہ ہے جو ہیڈنگ پر لکھا ہے مزید میرا نام محمد حسن عطاری ہے میرا تعلق لاہور سے ہے میں کوئی عالم نہیں ہوں اور نہ ہی عربی جانتا ہوں بس دینی کتب کے مطالعے کا شوق ہے الحمد اللہ میں دعوت اسلامی سے وابستہ ہوں اور الحمد اللہ نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے لیے تحریک لبیک پاکستان اور تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ سے وابستہ ہوں ویسے تو ہر سنی عالم میرے سر کا تاج ہے مگر تین شخصیات میری آئیڈیل ہیں اور ان سے کافی محبت ہے امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم عالیہ شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ محافظ و قائد اہلسنت جناب ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی صاحب زیدہ مجدہ ایک شخصیت تو بظاہر دنیا سے پردہ کر گی مگر میرا عقیدہ ہے کہ وہ مجھے اب بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کی مدد میرے شامل حال ہے اللہ مرتے دم تک اہلسنت پر استقامت دے اور ایمان پر خاتمہ بالخیر فرمائے آمین ثم آمین انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
  3. Total 8 Pages Pick From sah Mahi Afkar e Raza Dec 1999 By Dr Altaf hussain Saeedi لزوم_و_التزام_کفر_اور_اسماعیل_دہلوی.pdf
  4. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط رحمة الله علیہ متوفٰی۷۱۸ھ حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما بہت زیادہ سخی اصحاب رسول ﷺ میں سے تھے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں : میں نے حضور انور ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے زیادہ سخی نہیں دیکھا ۔ آپ رضی الله عنہ پہلے شخص ہیں جس نے صلہ ( انعام ) میں لاکھوں دیئے ، آپ رضی الله عنہ امام حسن مجتبی ، امام حسین اور حضرت عبد الله بن جعفر رضی الله تعالی عنہم کو عطا کرتے تھے … حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس عطا ( داد و دہش ) کی چمکتی حکایت ہے کہ آپ رضی الله عنہ نے حج کیا پھر جب مدینہ منورہ سے لوٹے تو حضرت امام حسین بن علی رضی الله نے اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے فرمایا : معاویہ ( رضی الله عنہ ) سے جا کر نہ ملیں اور نہ سلام پیش کریں ۔ فرمایا : میں زیر بارِ قرض ہوں ان کے پاس جانا ضروری ہے پس سوار ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پیچھے چلے یہاں تک ان سے جا ملے ٬ سلام کیا اور اپنے قرض سے آگاہ کیا ۔ جب دونوں باہم گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک بختی اونٹ گزرا جو بوجھ کی گرانی سے درماندہ تھا لوگ اسے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے تاکہ اسے باربردار اونٹوں سے ملا دیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے پوچھا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ تو حاضرین نے بتایا کہ لدے ہوئے مال کے بوجھ سے درماندہ ہے ۔ فرمایا : اس پر کتنا بوجھ ہے؟ حاضرین نے بتایا کہ ( 80 ) اسی ہزار دینار ہیں ۔ فرمایا : اسے پھیر کر ابو محمد ( امام حسن بن علی رضی الله عنہما ) کو دے دو ۔ حوالہ درج ذیل ہے غرر الخصائص الواضحة و عرر النقائص الفاضحة ، لامام ابى اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط ، الباب التاسع في السخاه ، ص 313 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٩ه‍/٢٠٠٨ء
  5. نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری فقیہ اعظم ہند مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ
  6. نعمتہ الباری فی شرح بخاری علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ صفحہ نمبر 138 کے آخر میں آپ کی مطلوبہ روایت ہے
  7. سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اَلْجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جُمُعہ مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجُمُعَۃُ حَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جُمُعہ غریبوں کا حج ہے۔ *(کنزالعمال، جز:7 ، ج4، ص290، حدیث: 21027 ،21028) حضرتِ علّامہ عبدالرءوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں : جو شخص حج کے لئے جانے سے عاجِز ہو اُس کا جمعہ کے دن مسجد کی طرف جانا حج کی طرح ہے۔ (فیض القدیر،ج3،ص474، تحت الحدیث:3636) ستّر گُنا ثواب حکیمُ الْاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ المنان کے فرمان کے مطابق، جُمُعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستَّر حج کے برابر ہے، جُمُعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستّرگنا ہے .*(چونکہ جمعہ کا شرف بہت زیادہ ہے لہٰذا)* جُمُعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستّر گنا ہے۔ (مراٰۃالمناجیح،ج2،ص 325 ،323، 336) *جمعہ کے دن کی جانے والی چند نیکیاں* جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے قبل اور بعد کئی ایسی نیکیاں ہیں جنہیں بجا لا کر ہم ثواب کا عظیم خزانہ حاصل کرسکتے ہیں، *نمازِ جمعہ کی تیاری سے متعلق چند نیکیاں ملاحظہ کیجئے:* *(1) ناخن تراشئے* جمعہ کے دن ناخن تراشنا اور مونچھوں کو کتروانا ہمارےآقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک عادت تھی۔ *(شعب الایمان،ج3،ص24، حدیث: 2763)* *جمعہ کے دن ناخن کاٹنا حصولِ شفا کا سبب ہے* چنانچہ مروی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن ناخن کاٹتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بیماری نکال کر شِفا داخل کردیتا ہے۔ *(مصنف عبدالرزاق،ج 3،ص93، حدیث: 5325)* *یاد رکھئے❗* جمعہ کے دن ناخن تَرَشْوانا مستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچھا نہیں کیونکہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیٔ رزق کا سبب ہے۔ *(بہار شریعت،ج3،ص582)* *(2)غسل کیجئے، خوشبو لگائیے اور اچھے کپڑے پہنئے* فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: *جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اچھے کپڑے پہنے پھر اگر اس کے پاس خوشبو تھی تو اسے لگایا، پھر جمعہ کے لئے سکون و وقار کے ساتھ چلا اور کسی کی گردن نہ پھلانگی ( اس طرح کہ نہ تو لوگوں کی گردنیں پھلانگے اور نہ ساتھیوں کو چیر کر ان کے درمیان بیٹھے بلکہ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے) اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی، پھر نماز ادا کی اور امام کے لوٹنے تک انتظار کیا تو اس کے دو جمعوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔* *(مجمع الزوائد،ج 2،ص385، حدیث:3039،مراٰۃ المناجیح،ج 2،ص334)* معجمِ اوسط میں ہے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے جمعہ کے دن پہننے کے لئے مخصوص لباس تھا۔ (معجم اوسط،ج 2،ص352، حدیث:3516) *(3) نیا لباس* جمعہ کے دن پہنیں جب کبھی نيا لباس سلوائیں تو جمعہ کے دن سے پہننا شروع کریں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم عام طور پر نیا لباس جمعہ کے دن زیبِ تن فرمایا کرتے تھے۔ *(جامع صغیر، ص408، حدیث:6563)* اللہ کریم ہمیں جمعۃ المبارک کا ادب کرنے اور ان نیکیوں کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
  8. مستند زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ " جانم فدائے حیدری " کا لکھنے اور پڑھنے والے دونوں خبیث رافضی ہیں !!!! اب ان کی دیکھا دیکھی سنی عوام بھی اپنے اپنے سُروں اور گَلوں کے زریعے طبع آزمائی فرمارہے ہیں اور " داد و تحسین و آفرین و واہ واہ " سمیٹنے میں مصروف ہیں ۔۔ اس میں فیس بک کےشعرا بھی ہیں، اور وہ بھی جو رافضیوں کے خلاف سالہا سال پوسٹیں کرتے نہیں تھکتے، یار ہم تو اپنے عقیدے میں بہت ہی کچےنکلے بخدا ! رافضی اپنے باطل عقیدے میں بھی اتنے پکے و مضبوط ہیں کہ مجال ہے کسی رافضی نے امام اہلسنت یا کسی مستند و معروف سنی شاعر کا کلام پڑھا ہو !! یہ وہی رافضی ہیں نا جو اپنی کسی ناپاک مجلس میں شیخین کریمین و اصحاب کبار کو طعن و تشنیع و سب و شتم سے کبھی نہیں چوکتے ؟ یاد رکھیں ! ہم اس " کلام " کو پڑھے بغیر بھی سانس لے سکتے ہیں اور حب علی کو ثابت کرسکتے ہیں کاش کوئی سمجھے !!
  9. ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی دیوبندی کی زبانی پڑھیئے عامر عثمانی دیوبندی اشعار کے ذریعہ سے سمجھاتے ہوئے لکھتا ہے د ، ی ، و ، ب ، ن ، د دغا کی دال ہے یاجوج کی ہے ی اس میں وطن فروشی کی واؤ بدی کی ب اس میں جو اس کے نون میں نارجحیم غلطاں ہے تو اس کی دال سے دہقانیت نمایاں ہے ملے یہ حرف تو بیچارہ دیوبند بنا برے خمیر سے یہ شہر ناپسند بنا (ماہنامہ تجلی دیوبند فروی 1957ء)
  10. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الشافعی رحمة الله علیہ متوفی٧٤٨ھ حضرت قتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ جیسے کام کرنے لگو تو لوگ پکار اٹھیں گے یہ مہدی ہے ۔ احمد بن حواس کہتے ہیں ۔ مجھے ابو ہریرہ المکتب نے بتایا کہ اعمش کے ہاں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ اور ان کے عدل و انصاف کا ذکر چل پڑا تو اعمش نے کہا : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیا آپ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی بردباری کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟ اعمش نے فرمایا : نہیں الله کی قسم! میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے عدل کی بات کر رہا ہوں ۔ ابو اسحاق سبعیی حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی شان میں فرماتے ہیں ۔ اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہی امام مہدی ہیں ۔ ابو بکر بن عیاش ، ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ۔ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے بعد ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ امام بغوی رحمة الله علیہ ، ابو قیس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ہر قبیلہ میں ایک آدمی مقرر فرما رکھا تھا جو اس کے حالات سے ان کو باخبر رکھتا تھا ، ایک شخص جس کی کنیت ابو یحیی تھی ہر صبح ہر مجلس میں جا کر پوچھتا کیا تمہارے ہاں شبِ گزشتہ کوئی بچہ پیدا ہوا یا کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے یا کوئی مہمان باہر سے آیا ہے ؟ لوگ بتایا کرتے کہ ہاں اہل یمن میں سے فلاں آدمی اپنے کنبہ میں آیا ہے ، وہ اس شخص اور اس کے قبیلہ کا نام ذکر کر دیا کرتے تھے ۔ قبائل سے فارغ ہو کر وہ دفتر میں آتا اور وہاں ان کے نام تحریر کیا کرتا تھا ۔ عطیہ بں قیس کہتے ہیں کہ ميں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : تنخواہ تقسیم کرنے کے بعد بیت المال میں کچھ مال بچ گیا ہے اب وہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر آئندہ سال بھی حسب دستور کچھ مال بچ گیا تو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں گا ورنہ مجھے معتوب نہ کریں ۔ اس لیے کہ یہ میرا نہیں ، بلکہ یہ الله تعالی کا مال ہے جس نے تمہیں یہ عطا فرمایا ۔ سیرت و کردار اور عدل و احسان کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا دامن ایسے فضائل و مناقب سے پر ہے ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا : حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کی نماز نبی اکرم ﷺ سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو ۔ یہ ہے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی شہادت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے تدوین و تفقہ کے بارے میں فقاہت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے گواہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ ہیں ، اور حسن صلوة کی گواہی دینے والے حضرت ابو درداء رضی الله عنہ دونوں جس پایہ کے صحابی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس کے مؤید آثار اور بھی بہت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سابقین اولین صحابہ میں شمار نہیں ہوتے ۔ بخلاف ازیں کہا گیا ہے آپ فتح مکہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے ۔ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ خود اس بات کے معترف تھے کہ وہ فضلاء صحابہ میں شامل نہیں ہیں ، اس کے باوجود آپ کثیر اوصاف کے حامل تھے ۔ آپ کی سلطنت حدود خراسان سے لیکر مغرب میں بلاد افریقہ اور قبرص سے لیکر یمن تک پھیلی ہوئی تھی ، اس بات پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما تو درکنار عظمت و فضیلت میں حضرت عثمان غنی و حضرت علی المرتضی رضی الله عنہما کے قریب بھی نہ تھے ۔ پھر کسی اور بادشاہ کو ان کے مشابہ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نیز مسلم سلاطین میں سے کوئی مسلم سلطان سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا حریف کیسے ہو سکتا ہے ؟ حوالہ درج ذیل ہے المنتقى من منهاج الاعتدال ، لامام ابى عبد الله محمد بن عثمان الذهبى ، تحت " ثناء الأئمة الاعلام على معاوية و حكمه و سيرته و انه خير ولاة المسلمين بعد الراشدين ، ص 402 تا 403 ، مطبوعة الرئاسة العامة لإدارة البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد السعودية ، طبع ثالث ١٤١٣ه‍
  11. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۵۵ھ اہل سنت کا برحق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد اور تاويل کرنے والے تھے ، انہوں نے نہ ہی کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا ۔ حوالہ درج ذیل ہے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الإيمان ، تحت " باب " وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ ، جلد 1 ، ص 335 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء درست جواب یہ ہے کہ وہ سب صحابہ مجتھد تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ وہ سب جنت کی طرف بلانے والے ہیں اگرچہ نفس الامر میں اس سے خلاف ہو ۔ ان کے اپنے گمان پر فیصلے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے اگر توں یہ اعتراض کرے کہ مجتھد جب درست فتوی دے تو دو ثواب جب غلطی کرے تو ایک یہاں کیسے یہ ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں : یہ جواب کافی ہے اس پر گزارا کروں کہ صحابہ کے حق میں اس کے خلاف بات ذکر کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ ان کی تعریفیں تو رب تعالیٰ نے کی ہیں اور ان کی فضیلتوں کی گواہی دی ہے ۔ فرمایا : تم لوگوں میں نکلنے والی بہترین امت ہو ۔ مفسرین کرام فرماتے : اس سے مراد آقا کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الصلوة ، تحت " باب التعاون فى بناء المسجد ، جلد 4 ، ص 308 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء
  12. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بنحجر الهيتمى الشافعى رحمة الله علیہ متوفی۹۷٤ھ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاويہ اور مقتولین صفین رضی الله عنہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے پاس ایسا جواب لے کر جاؤں جس کے بارے میں مجھ سے سوال ہو اور اگر خاموش رہتا ہوں تو اس سے سوال نہ ہوگا تو جس کیساتھ میں مکلف ہوں اس میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الخيرات الحسان فى مناقب الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، لامام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى ، الفصل السادس و العشرون و السابع و العشرون فى شيء من حكمه و آدابه ، ص 140 ، مطبوعة دار الهدى و الرشاد ، طبع اول ١٤٢٨ه‍/٢٠٠٧ء
  13. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از شیخ اکبر امام ابو بکر محی الدین محمد بن علی المعروف ابن عربی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٣٨ه‍ کاتبین رسول ﷺ : نبی اکرم ﷺ کیلئے ( وحی و دیگر امور کی ) کتابت کرنے والے اصحاب رضی الله عنہم حسب ذیل ہیں : ١_حضرت عثمان ٢_حضرت علی ٣_حضرت ابی بن کعب ٤_حضرت زید بن ثابت ۵_حضرت معاویہ ٦_حضرت خالد ابن سعید بن العاص ٧_حضرت ابان بن سعید ٨_ حضرت علاء بن الحضرمی ٩_ حضرت حنظلہ بن الربیع ١٠_ حضرت عبد الله بن سعید بن ابی سرح ، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی یہ سب اصحاب رضی الله عنہم وحی کے کاتبین تھے ۔ ( دیگر امور کے کاتبین کی تفصیل اس طرح ہے ) حضرت زبیر بن عوام اور حضرت جہم بن صلت رضی الله عنہما صدقات کے اموال ( کا ریکارڈ ) تحریر فرماتے تھے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھجوروں کے حوض لکھ کر شمار فرماتے تھے ، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حصین بن نمیر رضی الله عنہما مداینات و معاملات تحریر میں لاتے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہ بادشاہوں کے نام خطوط لکھتے تھے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے سفر ہجرت میں حضور ﷺ کیلئے تحریر کی ۔ تحت كتابه ﷺ ، ص 47 تا48 خلافت حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ : معاویہ بن سفیان ابن صخر ابن امیہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف یہاں رسول الله ﷺ کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف سے شجرہ مل جاتا ہے ۔ صلح امام حسن رضی الله عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بیعت ٢۵ ربیع الاول سنہ اکتالیس ھجری کو ہوئی ۔ ان کی مہر و انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " ان کا کاتب ( منشی ) عبد الله بن اوس الغسانی تھا ۔ جب کہ حاجب ان کا مولی زیاد بن نوف اور قاضی فضالہ بن عبد الله الانصاری تھا ۔ رجب سنہ ساٹھ ہجری میں وفات پائی ، نماز جنازہ ان کے بیٹے یزید نے پڑھائی ۔ ایک اور قول ہے کہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق شہر میں باب الجابیہ اور باب الصغیر کے درمیان دفن ہوئے ، بوقت وصال ان کی عمر اٹھتر سال ایک دن کم نو مہینے تھی ۔ بیعت خلافت سے پہلے بیس سال سے زائد شام کے گورنر رہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے ( محاضرة الابرار و مسامرة الاخيار ، الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربي ، ذكر الخلفاء و تاريخ مدتهم خاصة ، تحت " خلافة معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، جلد 1 ص 66 ، مطبوعة دار اليقظة العربيعة ، طبع عام ١٣٢٤ه‍
  14. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمة الله علیہ متوفی۷٤٨ه‍ صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الله تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اسے لڑائی کا چیلنج کرتا ہوں ۔ اور رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنانا پس جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا ۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں ان لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے جنہوں نے رسول الله ﷺ کے بعد صحابہ کرام کو نشانہ بنایا ان کو گالیاں دی ان پر جھوٹ باندھا ، ان کو عیب لگایا ان کو خلافت قرار دیا اور ان پر جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ کلمہ " الله الله " ڈرانے کے لیے جس طرح اس شخص کو ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے " السار " یعنی آگ سے بچو اور ڈرو ۔ لا تتخذوهم غرضاً بعدي " تک یہ عبارت صحابہ کرام کے فضائل مناقب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ ہیں ۔ انہوں نے آپ کی مدد کی ، آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تعظیم کی اور جان و مال کے ذریعے آپ کی غمخواری کی ۔ پس جس نے ان سے محبت کی اس نے رسول الله ﷺ سے محبت کی تو صحابہ کرام کی محبت ، رسول الله ﷺ کی محبت کا عنوان ہے اور ان سے بغض رسول الله ﷺ سے بغض کا عنوان ہے صحیح حدیث میں ہے : انصار سے محبت ایمان ہے اور ان سے بغض منافقت سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اور رسول الله ﷺ کے سامنے الله تعالی کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔اسی طرح حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت کی علامت ہے ۔ صحابہ کرام کے فضائل کا علم اس طرح حاصل ہوگا کہ ان کے احول ، سیرتوں اور آثار کا مطالعہ کیا جائے ان میں غور و فکر کیا جائے وہ رسول الله ﷺ کی حیات طیبہ میں ہوں یا آپ کے بعد ۔ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اسی طرح کفار سے جہاد کیا ، اشاعت اسلام ، شعائر اسلام کے اظہار ، الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے کلمہ کو بلند کرنے ، آپ کے بتائے ہوئے فرائض و سنن کی تعلیم میں سبقت کی ۔ اگر یہ نفوس قدسیہ نہ ہوتے تو ہمارے پاس دین کی اصل اور فرع کچھ بھی نہ پہنچتا ، اور ہمیں فرائض و سنن میں سے کسی فرض اور سنت کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم احادیث و اخبار علم حاصل کر سکتے ۔ پس جو شخص ان پاکیزہ ذاتوں پر طعن کرے یا ان کو گالی گلوچ کرے تو وہ دین سے نکل گیا اور مسلمانوں کی ملت سے بھی خارج ہوگیا ۔ کیونکہ طعن کی وجہ سے ان کے بارے میں بر عقیدہ رکھنا اور دل میں کینہ رکھنا ہے نیز الله تعالی نے اپنی کتب میں ان کی تعریف میں جو کچھ فرمایا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے فضائل و مناقب اور ن سے محبت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا انکار کرنا ہے ۔ علاوہ ازیں جو کچھ ہم تک منتقل ہوا ، اس کا سب سے عمدہ وسیلہ صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں اور وسائل میں طعن ، اصل میں طعن ہوتا ہے اور نقل کرنے والے کو حقیر جاننا منقول کو معمولی سمجھنا ہے ۔ یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے ظاہر ہے اور اس طرح منافقت اور بے دینی سے بچ سکتا ہے اور تمہارے لیے وہی بات کافی ہے جو احادیث میں آتی ہے جیسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام کو پسند فرمایا پس میرے لیے ان کو وزیر ، مددگار اور سسرالی بنائے ، پس جو ان کو گالی دے اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن الله تعالی اس کے کسی فرض اور نفل کو قبول نہیں فرمائے گا ۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں گالی دی جاتی ہے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اور انہی سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور میرے صحابہ ، بھائی اور سسرال والے بنائے اور عنقریب ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو ان میں عیب نکالیں گے اور ان کی توہین کریں گے ۔ نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ پینا اور نہ ہی ان کے ساتھ نکاح کرنا ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور ان کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھنا ۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خاموش رہو جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر ہو تو خاموش رہو ۔ علماء کرام فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق کے بارے میں تقدیر کے راز پر بحث کو تو خاموش رہو کیونکہ یہ خاموشی ایمان کی علامت ہے اور الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا ہے ۔ یہی حال ستاروں کا ہے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خود عمل کرنے والے ہیں یا ان ستاروں میں ارادۂ خداوندی کے بغیر تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اسی طرح جو شخص نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کی کسی طرح برائی بیان کرے ، ان کی خامیاں تلاش کرے اور عیب بیان کرے اور ان عیبوں کو ان کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرے وہ منافق ہے ۔ بلکہ مسلمانوں پر الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ سے محبت واجب ہے ۔ وہ جو کچھ لائے ہیں اور جس حکم کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، اس سے محبت کرنا نیز آپ کی سیرت و سنت پر عمل کرنے والے ، آپ کی آل ، صحابہ کرام ، آپ کی ازواج مطہرات ، اولاد ، غلاموں اور خادموں سے محبت کرنا بھی ضروری ہے ۔ جو لوگ ان شخصیات سے محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا اور جو ان سے بغض رکھتے ہیں ، ان سے بغض رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایمان کی مضبوط رسی الله تعالی کے لیے محبت اور الله تعالی کے لیے بغض ہے ۔ حضرت ابو ایوب سختیانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے دین کا مینار کھڑا کیا ، جس نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے راستہ واضح کیا ، جس نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے محبت کی وہ الله تعالی کے نور سے روشن ہوا اور کس نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط رسی کو تھاما اور جا نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھی بات کہی ، وہ منافقت سے بری ہوگیا ۔ حوالہ درج ذیل ہے ١_( الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الندوة الجديدة ٢_( الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت
  15. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى رحمة الله عليہ متوفٰی۷۸٦ھ ہم رسول الله ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں کسی ایک کی محبت میں افراط نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں کسی سے بیزاری کرتے ہیں ۔ ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھے اور ان کے بارے میں برا ذکر کرے ۔ ہم ان کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی محبت دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان کے ساتھ بغض کفر ہے نفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ ہم ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ الله ان سے راضی وہ الله سے راضی ہیں ۔ اور ان کی شان تورات ، انجیل اور قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمائی : محمد ﷺ! الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں ( اے مخاطب! ) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے ، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، وہ الله کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے ، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں ۔ صحابہ کرام نے غلبہ دین اور اعلائے کلمة الله کیلئے پوری کوششیں کیں محبت رسول ﷺ میں وطن چھوڑے حضور ﷺ کو ٹھکانہ دیا آپ کی نصرت و حمایت کی اور آپ کے سامنے جانبازی کی پس ان کی محبت واجب ہوئی ۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، گویا اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو ایذاء پہنچائی تو وہ دوزخ کا زیادہ حق دار ہے ۔ یہ کہ ہم اصحاب رسول ﷺ میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی چیز میں افراط فساد اور دوسروں کیلئے بغض و عداوت کا موجب ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ روافض نے سیدنا علی رضی الله عنہ کی محبت میں افراط و غلو کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کی تنقیص و عداوت میں پڑ گئے الله تعالی ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے ۔ ان روافض نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی شان میں الوہیت و نبوت کا دعویٰ کیا ۔ جیسا کہ غالی روافض کا عقیدہ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے فرمایا : تیری وجہ سے دو جماعتیں ہلاک ہوں گی ایک وہ جو بغض میں افراط سے کام لے گی دوسری جو تیری محبت میں غلو کرے گی ۔ اور جیسا کہ رسول الله ﷺ کا بھی فرمان ہے بیشک خوارج آپ کے بغض میں افراط سے کام لے کر ہلاک ہوں گے جیسا کہ روافض آپ کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔ جہاں تک ان سے برآت یعنی بیزاری کا تعلق ہے تو یہ کجروی اور گمراہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم منہج قویم اور دین مستقیم ( پختہ اور سیدھے راستے اور دین ) پر تھے ہدایت ان کی اقتداء سے وابستہ ہے نبی اکرم ﷺ نے اس سلسلہ میں فرمایا : " میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ لہذا ان سے تبری اور بیزاری عدم اھتداء ہے اور یہی گمراہی ہے ہم ان بدبختوں سے عداوت رکھتے ہیں جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں ۔ دراصل صحابہ کرام سے بغض ان کے دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو الله تعالی نے ان کیلئے پسند فرمایا اور منتخب کیا ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا : اور میں نے اسلام بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔ صحابہ کرام سے بغض ، خبث عقیدہ کی دلیل ہے اور نفاق و فساد کا نتیجہ ہے پس ان لوگوں سے عداوت رکھنا اور برائی سے ان کا ذکر کرنا واجب ہے جو صحابہ کرام سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ہم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات میں نہیں پڑتے ان اختلافات کو ہم اجتہاد ہر محمول کرتے ہیں اور ان کاذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دین کے اصول یعنی جڑیں ہیں ۔ پس ان میں طعن دراصل دین میں طعن ہے اور ان کی محبت دین ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض اور کینہ کفر نفاق اور طغیان ہے اور یہ سب ضروریات شرع سے ظاہر ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے ( شرح عقيدة اهل السنة و الجماعة ، لامام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى ، تحت " القول في حب أصحاب رسول الله ﷺ ، ص 141 تا 142 ، مطبوعة وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية سلسلة الرسائل التراثية ، طبع اول ١٤٠٩ه‍/١٩٨٩ء
  16. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی۱۰۵۲ھ تمام صحابہ کرام قطعی طور پر جنتی ہیں اس ( یعنی ان کو جہنمی کہنے ) سے رسول الله ﷺ کی تنقیص شان لازم آتی ہے کیونکہ آپ ﷺ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا گیا ان کی راہنمائی فرمانا اور انہیں کفر و ضلالت سے نکالنا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے ، اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں چھ یا سات کے علاوہ سب کے سب ہدایت نہ پا سکے اور نہ ان کا ایمان ہے خاتمہ ہوا ، ایسے کلمات ادا کرنے سے ہم الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اس لیے اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کا تزکیہ کرے ان کو عادل قرار دے ، ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر طعن کرنے سے باز رہے اور ان کی مدح و ستائش کرے ، کیونکہ الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے ان کو عادل قرار دیا ہے ان کا تزکیہ کیا اور ان کی تعریف بیان فرمائی ۔ اور اسی کی مثل حضرت شہاب الدین عمر سہروردی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب " اعلام الہدی " میں فرمایا : اے خواہش نفس اور تعصب سے پاک لوگو! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم پاکیزہ نفسی اور صاف دلی کے باوجود انسان تھے ۔ ان کے بھی نفس تھے اور نفسوں کی کچھ صفات ایسی ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس لئے اگر ان کے نفسوں سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوتی جو دلوں کے لئے ناگوار ہوتی تو وہ دلوں کی طرف رجوع کر کے ان کا فیصلہ مانتے اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ۔ حوالہ درج ذیل ہے لمعات التنقیح فى شرح مشكاة المصابيح ، العلامة المحدث عبد الحق الده‍لوى ، کتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة ، ، جلد 9 ص 579 ، مطبوعة دار النوادر ، طبع اول ١٤٣۵ھ/۲٠١٤ء
  17. Aajkal Ke Deobandi Jamati Mulle Jisme Tariq Jamila G Ka Launda *Tariq Masood Deobandi* _Kehta Hai Ke Jo Ya Rasool Allah ﷺ Kahe Ya Madad Mange Wo Kafir Hai Aur Uske Piche Namaz Nahi Uska Zabiha Haram Hai_ *Maaz'Allah**Rashid Ahmak Gangohi Deobandi* Likhta Hai*Ya Rasool e Kibriya ﷺ Fariyad Hai Ya Muhammad Mustafa ﷺ Fariyad Hai Madad Kar Behre Khuda Hazrat Muhammad Mustafa ﷺ Meri Tumse Har Ghadi Fariyad Hai*_Lijiye Janab Gangohi To Pakka Kafir Tha Aur Isko Apna Akabir Maan Kar Sare *Deobandi* Jamati Aaj Ke Sab *Kafir* Sabit Ho Gaye_ *Mulla Tariq Masood Deobandi* Ke Fatwe Ke According 🤷🏻‍♂Hawala Note*Fatawa Rashidya*Safa *244* Credit to https://sunnibarelwi.blogspot.com
  18. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو اسحاق ابراھیم بن علی بن یوسف بن عبد الله فیروز آبادی الشیرازی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ه‍ سوال : اگر کہا جائے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا اس میں حق ان کے ساتھ تھا جو ان دونوں سے تعلق رکھتے تھے ؟ جواب : ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔ پس کچھ کہتے ہیں کہ حق حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علی حق پر ہیں اور حق علی کے ساتھ جہاں پھریں ۔ کچھ علماء فرماتے ہیں : کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مجتہد مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر مجتہد مصیب ہے ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کا اختلاف اصول میں نہ تھا ۔ بلکہ ان کا اختلاف فروع میں تھا ۔جیسے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحہما الله کا اختلاف تھا ۔ لوگ اس مسئلہ میں دو قول پر ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ حق ایک جہت میں تھا ۔ اور اس جہت میں مخالف مخطئ تھا جس کیلئے ایک اجر تھا مگر اس کی خطا اسےکفرو فسق تک نہ لے جانے والی تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : جو شخص ( کسی مسئلہ میں ) اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک نہ پہنچے چوک جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے ان ائمہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک خیر پر ہونے کے باعث مصیب تھا انہوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے معاملہ کو اس پر محمول کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ خلیفہ تھے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے چچا زاد تھے ۔ انہیں ظلم سے قتل کیا گیا ان کے بعد خلافت کی زمام کار حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کے ہاتھ آئی پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کے پاس خون عثمان کا مطالبہ لے کر آئے ۔ تو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے پوچھا کس نے عثمان کو قتل کیا ۔ تو پیچھے رہ جانے والے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے پس ان کا اجتہاد اس وقت قاتلین کو اس وقت ترک کرنے( یعنی کچھ نہ کہنے ) کا ہوا کیونکہ ان سب سے لڑنا ممکن نہ تھا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو خدشہ ہوا کہ خود انہیں نہ قتل کر دیں ۔جیسے انہوں نے عثمان کو قتل کیا ۔ پس جب ان سے تعرض نہ کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے گمان کیا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ترک کی ۔ کیونکہ امامت کی شرط اہل حق کیلے حقوق کا کامل حصول ہے ۔ پھر جب حقوق پورے نہ لئے تو شروط امامت میں سے ایک شرط ترک کر دی اور امامت باطل ہو گئی ۔ جب کہ فی الوقت امام و حاکم کا ہونا ضروری ہے پس اس اجتہاد سے انہوں نے معاویہ کو حاکم بنایا ۔ پس ان میں سے ہر ایک مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسا معاملہ نہ ہوا جو کفر و فسق پر منتج ہو ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ جب کافروں سے قتال فرماتے تو خوشی مسرت کا اظہار فرماتے ۔ جب کہ معاویہ کے ساتھ پیکار میں دکھ اورغم کا ظہور ہوا یہاں تک کہ جاں بلب ہو گئے ۔ ابو الحسن علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : یہ سب ہمارے درمیان ہوا میں اپنے دکھ اور پریشانی کا شکوہ بارگاہ خداوندی میں کرتا ہوں کاش میں بیس سال پہلے جام موت پی لیتا ۔ آپ اپنے ساتھیوں سے فرماتے : پیٹھ دینے والے کا تعاقب نہ کیا جائے زخمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ اگر محاربین سے کوئی بات کفر و فسق تک پہنچانے والی بات پاتے تو اپنے ساتھیوں کو اس کا حکم نہ دیتے ۔ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں : حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ مجتہد مصیب تھے ان کیلئے دو اجر ہیں جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ مجتہد مخطئ تھے ان کیلئے ایک اجر ہے ۔ اس مسئلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات میں زبان روکی جائے اور ان کےمحاسن یعنی خوبیوں کا ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عنقریب میرے اصحاب کے درمیان خرابی پیدا ہوگی ۔ جسے الله تعالی ان کی سابقہ نیکیوں کے سبب معاف فرما دے گا ۔ پس تم ان کے اختلافات میں نہ پڑو ۔ بخدا تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے تو ان کے ایک یا نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ حوالہ درج ذیل ہے ( الإشارة الى مذهب اهل الحق ، لامام ابى اسحاق الشيرازى ، تحت " ترتیب الصحابة فی الفضل ، ص 184 تا 188 ، مطبوعة المجلس الاعلى للشئون الاسلامية وزارة الاوقاف ) __________________________________
  19. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ | متوفٰی١٩٨٨ء پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب " جمال مقصود " میں درج ہے کہ : ایک مرتبہ آپ رحمة الله علیہ کی مجلس عالیہ میں جنگ جمل کا تذکرہ ہوا آپ نے فرمایا : کہ میرا گزر اس میدان سے ہوا جہاں یہ جنگ لڑی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ یہ جنگ کیوں اور کیسے لڑی گئی؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بڑی گرج دار آواز مجھے سنائی دی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے " خبر دار اس بارے میں دوبارہ نہ سوچنا ورنہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے ۔ حوالہ درج ذیل ہے جمال مقصود ، صاحںزادہ سید محمد عبد الرزاق شاہ بخاری ، باب چھارم ، تحت " جنگ جمل ، ص 237 ، مطبوعة دار الکتب مقصودیہ غوثیہ ، کوٹ گلہ شریف ( تلہ گنگ ) ضلع چکوال ، طبع اول ۱٤٣٧ه‍/٢٠١٦ء )
×
×
  • Create New...