Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد تھے 1. الإمام تاج الدين السبكي المتوفی:٧٧١-هجري (رحمہ الله) نے ابو عبد الله (امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ) کا تذکرہ اپنی کتاب "طبقات الشافعیہ" میں کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ انہوں (امام بخاری رح) نے سماع_(حدیث) کیا ہے زعفرانی، ابو-ثور اور کرابیسی سے، (امام سبکی کہتے ہیں کہ) میں کہتا ہوں کہ انہوں (امام بخاری) نے امام حمیدی سے فقہ حاصل کی تھی اور یہ سب حضرات امام شافعی کے اصحاب میں سے ہیں.[طبقات الشافعية الكبرى:٢/٢١٤] 2. حافظ ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) بھی آپ کو امام شافعی کے قریب لکھتے ہیں (فتح الباری:۱/۱۲۳) 3) شاہ ولی الله محدث دہلوی المتوفي: (رحمہ الله) کی ١١٧٤هجري كي [الإنصاف مع ترجمہ وصاف: ٦٧] 4) (اہلحدیث) کے مجدد_وقت، مجتہد العصر اور شیخ الکل نواب صدیق حسن خان نے بھی یہی کہا ہے. دیکھئے : ابجد العلوم: ٣/١٢٦، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور, مولفہ: اہلحدیث نواب صدیق حسن خاں
  2. سیدنا ابن عباس نے جنتی جماعت کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں اور اس پر کسی صحابی نے اعتراض نہ کیا...ظاہر ہے اس وقت صحابہ کرام تابعین عظام اہل السنۃ والجماعۃ کہلواتے تھے تبھی تو انہی جنتی کہا گیا دلیل عباس رضي الله عنهما في قوله تعالى: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [آل عمران: 106]؛ "فأما الذين ابيضت وجوههم: فأهل السنة والجماعة وأولوا العلم، وأما الذين اسودت وجوههم: فأهل البدع والضلالة سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اہل السنۃ والجماعۃ کے چہرے چمکتے ہونگے(کہ یہی فرقہ برحق و جنتی صحابہ تابعین وغیرہ اہل حق کا فرقہ ہے)اور بدعتیوں کے چہرے کالے ہونگے (تفسير القرطبي4/167) (الشريعة للآجري روایت2074) تفسير ابن كثير ط العلمية2/79) (تفسير ابن أبي حاتم، الأصيل3/729) (الدر المنثور في التفسير بالمأثور2/291) (تاريخ جرجان ص132) (العرش للذهبي1/27) (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي1/79) . والأساس الذي تبنى عليه الجماعة، وهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ورحمهم الله أجمعين، وهم أهل السنة والجماعة، جماعت و کثرت سے مراد صحابہ کرام کی اکثریت ہے کہ وہی صحابہ کرام اہل السنۃ والجماعۃ تھے (كتاب شرح السنة للبربهاري ص35) . سموا أنفسهم معتزلة...أهل السّنة وَالْجَمَاعَة يَقُولُونَ إِن الله وَاحِد قديم انہوں نے اپنا نام معتزلہ رکھا ان کے مقابلے میں(صحابہ تابعین)اہل السنۃ والجماعۃ کہلائےجو کہتے تھے کہ اللہ واحد ہے ہمیشہ سے ہے (التنبيه والرد على أهل الأهواء والبدع ص36) . وقال عكرمة...{إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ}: أهل السنة والجماعة سیدنا عکرمہ فرماتے ہیں جس پر اللہ رحم کرے سے مراد اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں (التفسير البسيط للواحدى11/588) (الاعتصام 1/92نحوہ) . وَكَذَلِكَ الْخَلِيفَةُ الرَّابِعُ وَهُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ سَيْفُهُ فِي الْخَوَارِجِ سَيْفَ حَقٍّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ , فَأَعَزَّ اللَّهُ الْكَرِيمُ دِينَهُ بِخِلَافَتِهِمْ , وَأَذَلُّوا الْأَعْدَاءَ , وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ , وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ , وَسَنُّوا لِلْمُسْلِمِينَ السُّنَنَ الشَّرِيفَةَ , وَكَانُوا بَرَكَةً عَلَى جَمِيعِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ یعنی چوتھے خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنہوں سے خوارج سے جہاد کیا، خوارج سے جہاد قیامت تک جاری رہے گا،خوارج وغیرہ ناحق و باطل کے مقابلے میں صحابہ کرام تابعین عظام اہل السنۃ و الجماعۃ تھے (الشريعة للآجري تحت روایت1176) . ما وقعت في الأُمة بذور البدع في الِإرجاء، والقدر، والتشيع فتميزت جماعة المسلمين باسم:أَهل السنة،وأَهل السنة والجماعة جب مرجئہ قدریہ شیعہ خوارج وغیرہ باطل فرقے ظاہر ہوے تو مسلمانوں(صحابہ کرام تابعین عظام وغیرہ)نے اپنا نام اہل السنۃ و الجماعۃ رکھ لیا اور اسی سے امتیازیت حاصل کی (عقيدة السلف -مقدمة أبي زيد القيرواني ص21) . مذکورہ حوالہ جات سے باخوبی و روز روشن کی طرح ظاہر و ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام تابعین عظام وغیرہ اہل السنۃ و الجماعۃ بھی کہلواتے تھے...مسلمان، مسلم،اہل السنۃ و الجماعۃ کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام بدری کہلائے ، انصار کہلائے ، مہاجر کہلائے... اس کے بعد اسلاف اشعری ماتریدی کہلائے حنفی شافعی مالکی حنبلی کہلائے تو برحق مقتدا وغیرہ کی نسبت سے اور برکت و پہچان وغیرہ کی نسبت سے ظنیات و فروعی اختلاف میں برداشت و وسعت قلبی کے ساتھ قادری سہرودری نقشبندی عطاری شازلی لبیکی چشتی وغیرہ کہلوانا بھی جائز و درست ہے ======================= کثرت و جمھور سے مراد یہ نہین کہ جس علاقے ملک میں جس فرقے کی کثرت ہو اس کے ساتھ ہو لیجیے....ہرگز نہیں، علماء نے دوٹوک لکھا ہے کہ کثرت و جمھور سواد اعظم سے مراد صحابہ کرام ہیں ان کے بعد اہل حق کثرت سے ہون یا قلت سے ہر حال میں اہل حق اہلسنت کی ہی پیروی کرنی ہوگی…صحابہ کرام کے بعد کسی بدعتی گمراہ فرقے کی کثرت ہوجاءے تو یہ ان کے برحق و معتبر مقتدا ہونے کی نشانی نہیں انکی پیروی ہرگز نہ کی جائے گی…آج کے دور میں کثرت وہ ہے جو سنت نبوی و صحابہ کرام کے پیروکار ہوں چاہے قلت ہی میں کیوں نہ ہوں حتی کہ ایک بھی ہو تو وہ کثرت ہے کیونکہ اصل معتبر مقتدا کثرت وہ ہے جو صحابہ کرام تھے قال ابو شامہ و ابن القيم: لأن الحق هو الذي كانت عليه الجماعة الأولى من عهد النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه، ولا نظر إلى كثرة أهل البدع بعدهم یعنی ابوشامہ اور ابن قیم وغیرہ علماء نے فرمایا کہ کثرت سواد اعظم سے مراد صحابہ کرام ہیں وہی حق ہیں، ان کے بعد جو بدعتی فرقے ہیں انکی کثرت معتبر نہیں(صحابہ کرام کے بعد بدعتی کثرت میں ہوتو بھی انکی پیروی نہ کی جاءے گی انہیں اہل حق نہیں کہا جائے گا) (غربة الإسلام1/385) (شرح الطحاوية لابن ابی العز2/362) (الدرر السنية في الأجوبة النجدية12/108) لَوْ لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ فِي الدُّنْيَا إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَالْجَمَاعَةِ لَكَانَ أَكْثَرَ دنیا میں ایک بھی فرد اہل السنۃ والجماعۃ سے ہو تو وہی کثرت ہے (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها2/349) .===================== مزید چند حوالہ جات جس میں اسلاف نے خود کو اہل السنۃ والجماعۃ کہا، اہل السنۃ و الجماعۃ کو برحق کہا ①امام اشعری نے فرمایا وقال قائلون: وهم أهل السنة والجماعة: هو في العشرة وهم في الجنة لا محالة. أهل السنة والجماعة کہتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ قطعی جنتی ہیں... مقالات الإسلاميين ت زرزور2/352 ٍ②امام ترمذی کا فرمان وَهَكَذَا قَوْلُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ اسی طرح کا قول ہےأهل السنة والجماعة کا (سنن الترمذي ت بشار2/44) امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں ③وَهُوَ قَول اهل السّنة وَالْجَمَاعَة أبو حنيفة النعمان ,الفقه الأكبر ,ص 159 ④امام شیبانی فرماتے ہیں ثمَّ الْمَذْهَب عِنْد جُمْهُور الْفُقَهَاء رَحِمهم الله من أهل السّنة وَالْجَمَاعَة أَن الْكسْب بِقدر مَالا بُد مِنْهُ فَرِيضَة جمھور و اکثر فقہاء أهل السنة والجماعة کا مذہب ہے کہ بقدر ضرورت کمانا فرض ہے (كتاب الكسب لمحمد بن الحسن الشیبانی ص44) ⑤(اعلم أن الناجي من هذه الأمة أهل السنة والجماعة وذلك بفتوى النبي صلّى الله عليه وسلم لما سئل من الناجي قال ما أنا عليه وأصحابي جان لو کہ نجات والا فرقہ و جماعت أهل السنة والجماعة ہی ہے کہ نبی پاک نے فرمایا کہ نجات و جنت والا وہ ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا پیروکار ہو (مفيد العلوم ومبيد الهموم ص66) ⑥وَقَالَتْ طَائِفَةٌ ثَالِثَةٌ وَهُمُ الْجُمْهُورُ الْأَعْظَمُ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ جمھور اعظم أهل السنة والجماعة ہیں (تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزي2/529) . ⑦وَأَدْرَكْنَا عَلَيْهِ أَهْلَ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ انہی عقائد برحقہ پر أهل السنة والجماعة کو ہم نے پایا (صريح السنة للطبري ص20) ⑧اعلموا رحمنا الله وإياكم أن مذهب أهل الحديث أهل السنة والجماعة الإقرار بالله وملائكته وكتبه ورسله جان لو کہ أهل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ اللہ ملائکہ کتب سماوی اور رسولوں پر ایمان لانے کا اقرار کیا جائے (اعتقاد أئمة الحديث ص49) ⑨ولكنه شيء لقيت فيه العلماء بمكة والمدينة والبصرة والشام فرأيتهم على السنة والجماعة یعنی مکہ مدینہ بصرہ شام وغیرہ ممالک و علاقوں میں أهل السنة والجماعة سے یہی پایا ہے (الجامع لعلوم الإمام أحمد3/595ملتقطا) 10:وَهَذَا المَذْهَبُ هو الصحيح، وَهُوَ قَوْلُ أهْلِ السنة وَالجَمَاعَةِ یہی مذہب صحیح ہے جو أهل السنة والجماعة کا ہے (شأن الدعاء1/8) .======================= :وَيَعْصِمَنَا مِنَ الْأَهْوَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْآرَاءِ الْمُتَفَرِّقَةِ وَالْمَذَاهِبِ الرَّدِيَّةِ مِثْلِ الْمُشَبِّهَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ (1) مِنَ الَّذِينَ خَالَفُوا السنة والجماعة یعنی اللہ کریم ہمیں مشبہ معتزلہ جھمیہ جبریہ قدریہ وغیرہ ردی فرقوں سے بچائے أهل السنة والجماعة کے ساتھ رکھے (متن الطحاوية ص87) مَعَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ فَارْجُهُ جو أهل السنة والجماعة کے ساتھ ہو اس کے جنتی ہونے کی امید رکھ (الإبانة الكبرى لابن بطة1/205) ألا تُصلِّ إلا خلفَ مَن تَثقُ به وتعلمُ أنَّه مِن أهلِ السُّنةِ والجماعةِ خبردار أهل السنة والجماعة کے ہی پیچھے نماز پڑھنا (المخلصيات4/82) اہلسنت اہل حق پہچانیے انکا ساتھ دیجیے انکی پیروی کیجیے انہی کے ساتھ کھائیے پیءے دوستی رکھیے انہی کے پیچھے نماز پڑہیے.....باقیون سے دور، بہت دور رہیے سمجھانے کے ساتھ ساتھ مجرموں گستاخوں بدمذہبوں سے سلام دعا کلام ، کھانا پانی ، میل جول ، شادی بیاہ نماز وغیرہ میں شرکت نہ کرنے، بائیکاٹ کرنے کے دلائل کچھ اوپر گذرے کچھ یہ ہیں الحدیث [ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ] ’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں صحیح مسلم1/12 ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا لایصلی لکم ترجمہ وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636, مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381 اتنی سی توہین پر یہ حکم تو لعن طعن تبرا گستاخی کرنے والے نام نہاد علماء و فرقوں کے پیچھے بھلا کیسے نماز پڑھی جاسکتی ہے....ایسوں گستاخوں سے دور رہیے بدعت خرافات سے بھی بچیے صدر الشریعہ خلیفہ اعلی حضرت سیدی مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں اس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ(بائیکاٹ) کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست وغیرہ ترک کریں بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص60 چند اوراق بعد لکھتے ہیں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں..(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص84) الحدیث: فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ ترجمہ: بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو [السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769] . الحدیث: فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم ترجمہ: بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو [جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621] . سمجھانے کےساتھ ساتھ جب مسلمانی کے دعوےدار بدمذہب و گستاخ سے بائیکاٹ کا حکم ہے تو گستاخی کرنے والے غیرمسلم ممالک سے بھی میل جول ، کھانا پانی ،لین دین ، خرید و فروخت ، انکی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہےبلکہ بائیکاٹ کرنا چاہیے ==================== آج ہر کوئی دعوی کرتا ہے کہ وہ اہل حق ہے اہلسنت ہے تو ایسے میں ہر ایک کو حق کہنا منافقت ہے....اہل حق اہلسنت کی پیچان کیجیے درحقیقت محض اہلسنت یا شیعہ یا اہل حدیث یا دیوبندی یا وہابی سلفی وغیرہ کوئی بھی گروپی نام کہلوانے سے کوئی جنتی و حق نہیں بن جاتا…حق و نجات کا اصل دار و مدار ایمان و اسلام ، قرآن و سنت و آثار پے عمل کرنا ہے،نجات والے فرقے کے متعلق صحابہ کرام نے پوچھا تو آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ما انا علیہ و اصحابی یعنی نجات و حق والا جنتی فرقہ وہ ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا پیروکار ہو (سنن الترمذي ت شاكر ,5/26 حديث2641) (نحوہ فی المستدرك للحاکم,1/218حدیث444) (نحوہ فی الشريعة للآجري ,1/307حدیث23) (المعجم الكبير للطبراني ,14/52حدیث14646) )نحوہ فی الترغيب والترهيب ,1/529) یہی وجہ ہے کہ ہم اہلسنت کو ناجی برحق فرقہ کہتے ہیں تو اسکی وجہ صرف نام نہیں بلکہ عقائد اعمال وغیرہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و اہلبیت و صحابہ کرام علیھم الرضوان کے متبع ہونا وجہ قرار دیتے ہیں ورنہ کچھ نام نہاد اہلسنت کہلاتے ہیں اور راہ سنت و راہ صحابہ سے ہٹے ہوتے ہیں اس کی ہم مذمت کرتے ہیں، اسے اہلسنت سے خارج قرار دیتے ہین ، جعلی مردود کہتے ہیں، اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھتے ہیں .
  3. ایسے صلح کلیت گمراہ کن لوگ آتے رہتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ یہ فنکار بدمذہبوں کے کفریہ عقائد سے واقف ہوگا بس جوش میں آکر فتنہ پھیلاتے ہیں مزید اہلسنت کہلوانے کے دلائل پیش کروں گا
  4. رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اہل اسلام کو اہلسنت کہا جاتا تھا روافض اور خوارج کا منہ بند کر دینے والی دلیل
  5. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1034ھ امام ربّانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبت اہلسنت و جماعت کی شرط ہے اور جو شخص یہ محبت نہیں رکھتا اہلسنت سے خارج ہے، اس کا نام خارجی ہے اور جس شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبت میں افراط کی طرف کو اختیار کیا اور جس قدر کہ محبت مناسب ہے،اس سے زیادہ اس سے وقوع میں آتی ہے، اور محبت میں غلو کرتا ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلاۃ و السلام کے اصحاب کو سب و طعن کرتا ہے اور صحابہ و تابعین اور سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریق کے برخلاف چلتا ہے وہ رافضی ہے بحوالہ مکتوبات امام ربانی اردو ترجمہ دفتر 2 صفحہ 104 ادارہ مجددیہ کراچی
  6. حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔ بحوالہ حلیۃ الاولیاء،ج1،ص126مختصراً حلیتہ الاولیاء مترجم بنام اللہ والوں کی باتیں ج1 ص174 تا 175
  7. ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہ سے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو حوالہ درج ذیل ہے حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، ص22 از ابی بکر عبداللہ بن محمد بن عبید بن سفیان رحمتہ اللہ علیہ متوفی 781ھ
  8. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو الحسن على بن بسام الشنترينى رحمة الله علیہ متوفٰی۵٤٢ھ صلح امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے بعد ) تمام مسلمانوں کا کاتبِ وحی ، صہر مصطفٰے ﷺ ( یعنی خسر رسول ﷺ ) ردیفِ حضور ﷺ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما پر اجماع و اتفاق ہو گیا ۔ پس وہ ضبط امورِ خلافت ، نرمئ حکومت و ولایت جہاد کفار اخذ و وصول غیمت و فئ ، قیام عدل اور بخشش اموال کے اس مقام تک پہنچے جو کسی مسلمان یا ذمی کافر سے پوشیدہ نہیں حوالہ درج ذیل ہے الذخيرة فى محاسن أهل الجزيرة ، لامام ابى الحسن على بن بسام الشنترينى ، تحت " فصل في ذكر وزير الكاتب ابى حفص بن برد الاكبر و اثبات جملة … ، القسم الاول جلد 1 ص 110 ، مطبوعة دار الثقافة بيروت ، طبع ١٤١٧ه‍/١٩٩٧ء يعنى امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے حین حیاة حکومت کا معاملہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو سونپا اور حکومت سے کنارہ کش ہو گئے اور ابن ابی سفیان یعنی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے عدل و احسان کے چلن سے کاروبار حکومت چلایا ۔ وہ عقل و دانش اور حلم یعنی بردباری میں یکتا اور بے نظیر تھے ۔ یہاں تک کہ موت نے ان کی طرف پیکان اجل پھینکا ۔ یعنی دم واپسین تک وہ ان صفات سے متصف رہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الذخيرة فى محاسن أهل الجزيرة ، لامام ابى الحسن على بن بسام الشنترينى ، فصل في ذكر الأديب أبي طالب عبد الجبار ، تحت " الخلفاء الأربعة و من تلاهم من بني أمية ، القسم الاول جلد 2 ص 930 ، مطبوعة دار الثقافة بيروت ، طبع ١٤١٧ه‍/١٩٩٧ء
  9. ریاست مدینہ کےدعوے دار مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانی کافر کی تدفین کے خلاف آواز اٹھانے پر مسلمانوں پر ہی پرچہ درج کررہے ہیں اسلام دشمنی کی تمام حدیں اس دور میں پار ہوئیں تاریخ اسلام دشمنی کے ان گنت کارناموں کو یاد رکھے گی
  10. دیوبندی عطاء اللہ شاہ بخاری دردناک عذاب میں اور حضور علیہ السلام کی شفاعت سے محروم مولوی حکیم اختر دیوبندی اپنی کتاب میں ‘’آداب عشق رسول’’ میں لکھتا ہے "ایسے ہی آج دیکھتا ہوں کہ لوگ لمبی لمبی مونچھیں رکھے ہوئے ہیں دیکھو اوجز المسالک شرح موطا امام مالک حدیث کی بڑی کتاب ہے جو 14 جلدوں میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے اپنی مونچھوں کو بڑھایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ میری شفاعت سے محروم کردیا جائے گا اور حوض کوثر پر نہیں آنے پائے گا اور سوال جواب کے لئے قبر میں منکر نکیر کو غصے میں بھیجا جائے گا ،ان کے لئے درد ناک عذاب ہے اگر توبہ کئے مرگئے" 📒 آداب عشق رسول صفحہ 23،24 دیوبندی کی اس نقل کردہ روایت سے خود فرقہ دیوبند کا مستند و معتبر عالم مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری جہنمی،حضور علیہ السلام کی شفاعت و حوض کوثر کی نعمت سے محروم ہے اس لئے کہ مولوی عطا اللہ شاہ بخاری کی مونچھیں بڑی بڑی تھیں جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں !
  11. انبیاءکرام علیہم السلام کی تعداد مُعَیَّنْ (مقرر) کرنا جائز نہیں، یہ اعتقاد (عقیدہ) رکھنا چاہیے کہ اللّه پاک کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔ بہار شریعت ج۱ حصہ۱ ص۵۲
  12. اگر کسی کی فرض نمازیں باقی ہیں، تو حکم ہے کہ انہیں جلد سے جلد ادا کرے اور ضرورت کے کاموں کے علاوہ فارغ وقت میں قضا نمازیں پڑھتا رہے، سنن مؤکدہ تو لازمی پڑھے گا کہ ان کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے (یعنی پڑھنے پر زور دیا گیا ہے) حتی کہ جو شخص ان کو چھوڑنے کی عادت بنا لے، وہ گنہگار و فاسق (بڑا گناہگار) ہے۔ سنت غیر موکدہ (لازم تو نہیں) پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔البتہ قضاء نماز، سنت غیر موکدہ سے زیادہ ضروری ہے۔ ملخصا فتوی#mad:2154 دارالافتاءاہلسنت دعوت اسلامی
  13. وہ نوافل جن کے بارے میں فضائل حدیثوں میں آئے ہیں، جیسے تہجد، چاشت، اوابین وغیرہ یہ پڑھ سکتا ہے اور ان کے علاوہ نوافل پڑھنے کے بجائے اپنی قضا نمازیں ادا کرتا رہےکہ نوافل کے بجائے قضا نمازیں پڑھنی زیادہ اہم و ضروری ہے، کیونکہ نوافل نہ پڑھنے پر کچھ نہیں ہوگا، لیکن قضا نمازیں ذمے پر باقی رہیں، توآدمی جہنم عذاب کا حقدار ہوگا ملخصا فتوی #mad:2154 دارالافتاءاہلسنت دعوت اسلامی
  14. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو طالب محمد بن علی بن عطیہ المکی الحارثی رحمة الله علیہ متوفٰی۳٨٦ھ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کا عبید الله بن موسی عبسی کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا پھر آپ کو اس کا بدعتی ہونا معلوم ہوا مثلاً آپ سے عرض کی گئی کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے افضل مانتا ہے اور یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا تذکرہ غیر موزوں الفاظ میں کیا تو امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ نے اس کے پاس نہ صرف آنا جانا چھوڑ دیا بلکہ اس سے جتنی احادیث حاصل کی تھیں سارہ مسوّدہ چاک کر دیا اور اس سے کوئی حدیث روایت نہ کی ۔ حوالہ درج ذیل ہے قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الحادي و الثلاثون : فيه كتاب العلم و تفضيله ، و أوصاف العلماء ، تحت " ذكر تفصيل العلوم : معروفها و منكرها ، قديمها و محدثها ، جلد 1 ص 463 تا 464 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء ہم اصحاب رسول ﷺ اور اہل بیتِ نبوت رضی الله عنہم و رضوا عنه کافة کی تفضیل کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کے بارے خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ اور دلوں میں الفت پیدا کرنے کیلئے ان کے فضائل و محاسن پھیلاتے اور عام کرتے ہیں ۔ اور ان میں سے جس نے جو کیا اسی کے سپرد کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ علم و عقل رکھتے تھے پس ہر ایک نے اپنے علم و منتہائے عقل کے مطابق اپنے اجتہاد کی روشنی میں عمل کیا ۔ اگرچہ ان میں سے بعض بعض سے علم میں زیادہ تھے جیسے بعض دوسروں سے زیادہ فضیلت رکھتے تھے البتہ ہمارے علوم اور ہماری عقلیں ان کے ادنیٰ صحابی سے بھی علم کے لحاظ سے کمزور اور قاصر ہیں ۔ جیسے انہیں دینی سبقتوں میں ہم پر فضیلت حاصل ہے ۔ اور ہم ان کو مقدم جانتے ہیں جن کو الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے تقدیم دی ہے ۔ اور تمام مسلمانوں نے اس پر اجماع کر لیا جن کو الله تعالی نے ہدایت پر جمع کرنے کی ذمہ داری لی اور رسول الله ﷺ کو صحابہ کی تفضیل و تشریف ضمانت دی اور یہ کہ ان کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا ۔ جب حضرت علی المرتضٰی کرم الله وجہہ الکریم سے سوال ہوا کہ ہم پر خلیفہ کیوں مقرر نہیں کرتے ؟ تو فرمایا : میں تم پر خلیفہ نہ بناوؑں گا بلکہ تمہیں الله تعالی کے سپرد کرتا ہوں اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے گا تو نبی اکرم ﷺ کے بعد تم کو بھلائی پر جمع فرما دے گا ۔ ابراھیم نخغی کہتے ہیں کہ جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے خلافت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے سپرد فرمائی تو اس سال کا نام جماعت کا سال رکھا گیا ۔ اور ایک شخص نے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے کہا : اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا : بلکہ میں مومنوں کو عزت دینے والا ہوں میں نے اپنے باپ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم معاويہ ( رضی الله عنہ ) کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ میرے بعد آزمائش میں ڈالے جائیں گے اور اگر تم نے معاويہ ( رضی الله عنہ ) کی حکومت کو کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سروں کو اس طرح سینوں سے کاٹا جائے گا جیسے حنظل گرتی ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الرابع و الثلاثون : فى تفضيل الإسلام و الإيمان و عقود شرح معاملة القلب من مذهب أهل الجماعة ، جلد 3 ص 1271 تا 1272 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء )
  15. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائی الطبری الشافعى رحمة الله علیہ متوفٰی٤١٨ه‍ انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ۔ میں نے کہا : یا رسول الله ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری ( جہاز ) پر سوار تھے ، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں ، میں نے کہا : الله تعالی سے دعا فرما دیجئیے کہ الله تعالی مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے ، آپ نے فرمایا : تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو ، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی ، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ الله تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو ۔ آپ نے فرمایا : تم ( سوار ہونے والوں کے ) پہلے دستے میں ہو گی ۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا ، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی ( اور ان کا انتقال ہو گیا ) ۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سعید بن عمرو بن سعید بن عاص کو بیان کرتے سنا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ پانی کا برتن لے کر رسول الله ﷺ کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے ، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد حضرت امیر معاویہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول الله ﷺ آپ کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا : اے معاویہ! اگر تو والئ حکومت بنا تو الله سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ فرماتے ہیں کہ میں جان گیا کہ میں آزمایا جاؤں گا رسول الله ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے ۔ عبد الله بن بسر سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے میرے گھر میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما سے مشورہ طلب کیا ۔ تو انہوں نے عرض کیا الله تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معاویہ ( رضی الله عنہ ) کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اس سے حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کو خفگی ہوئی ۔ انہوں نے عرض کیا : یہ لوگ رسول ﷺ کا جو حکم پاتے ہیں کیا رسول الله ﷺ اور قریش کے ان بزرگوں میں اس کا نمونہ نہیں پاتے ۔ تو رسول الله ﷺ نے فرمایا : معاویہ کو بلا لاؤ ۔چنانچہ جب معاویہ آئے اور حضور ﷺ کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ فرمایا : اپنا معاملہ معاویہ ( رضی الله عنہ ) کے سپرد کرو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے حضرت حارث بن زیاد رضی الله عنہ جو کہ رسول الله ﷺ کے صحابی ہیں ان سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ المزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے سعید کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے نبی کریم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو ہادی ( یعنی ہدایت والا ) اور مہدی ( یعنی ہدایت یافتہ بنا ) اس کو ہدایت عطا فرما اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔ جبلہ بن سحیم روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سردار کوئی نہیں دیکھا ۔ امام جعفر صادق بن امام محمد باقر اپنے والد گرامی رضی الله عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی الله عنہما حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے عطیے قبول فرماتے تھے ۔ مصعب زبیری سے مروی ہے ۔ دراوردی نے ہم سے بیان کیا کہ جعفر بن محمد رحمة الله علیہ آئے اور بارگاہِ رسالت ﷺ میں سلام پیش کیا پھر تعریف کرنے کرنے کے بعد حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما پر سلام کیا پھر مجھے حالت تعجب میں دیکھ کر فرمایا : مجھے اچھا لگا ( یعنی مجھے اس سے خوشی ہوئی ) راوی بیان کرتے ہیں پھر فرمایا : بخدا یہ دین ہے جس پر میں عمل پیرا ہوں بخدا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بددعا کرتے ہوئے کہوں کہ الله اسے رسوا کرے یا اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے ۔ اور ( مجھے اس کے بدلے ) دنیا ملے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : تم قریش سے محبت کرو بیشک جس نے ان سے محبت رکھی الله تعالی اس سے محبت فرمائے گا ۔ ریاح بن جراح الموصلی سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو حضرت معافی بن عمران رحمة الله عليہ سے سوال کرتے ہوئے سنا عرض کیا : اے ابو مسعود! امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليہ کے مقابلے میں کیسے ہیں؟ اس کی یہ بات سن کر آپ رحمة الله عليہ کو اتنہائی شدید غصہ آیا اور فرمایا : رسول الله ﷺ کے کسی صحابی پر کسی ( غیر صحابی ) کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول الله ﷺ کے صحابی ، سسرالی رشتہ آپ ﷺ کے کاتب اور وحی الہی پر آپ ﷺ کے امین ہیں بے شک رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے اصحاب اور میرے سسرال والوں سے درگزر کرو ۔ جس نے ان میں سے کسی کی بھی بدگوئی کی اس پر الله تعالی اس کے فرشتوں اور تمام دنیا کے انسانوں کی لعنت ہو عبد الملک بن عبد الحمید المیمونی رحمة الله عليہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمة الله عليہ سے عرض کی کہ : کیا نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : " ہر سسرالی و نسبی رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جاۓ گا مگر میرا سسرالی و نسبی رشتہ ( منقطع نہیں ہوگا ) ؟ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : کیوں نہیں ، ایسا ہی ہے . عبد الملک بن عبد الحمید فرماتے ہیں میں نے عرض کی : کیا یہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ہے ؟ آپ رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہاں ، ( حضور کے سسرال و نسب کے لیے ہے ) ابو علی الحسین بن خلیل العنزی سے مروی ہے میں لکھاریوں کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا تھا ۔ انہوں معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ پر تنقید کی تو میں غصے سے کھڑا ہو گیا جب رات ہوئی تو خواب میں سرکارٍ کائنات ﷺ کو دیکھا ۔ آپ فرما رہے تھے : تم ام حبیبہ! کا مقام میرے ہاں جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا : ہاں یا رسول الله ﷺ ۔ فرمایا : جس نے ام حبیبہ ( رضی الله عنہا ) کو اسکے بھائی کے بارے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔ جعفر بن برقان سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیر کرنے پر عتاب کرتے ہوئے لکھا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا : بھلائی کے کام میں غور و فکر سے کام لینا زیادتی اور راست روی کا باعث ہے ۔ دراصل راشد اور راست رو وہی ہے جو عجلت کی بجائے معاملہ فہمی اختیار کرتا ہے اور مضبوطی سے قدم رکھنے والا حق تک پہنچ جاتا ہے یا اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ اور عجلت باز خطا کرتا ہے یا قریب ہے کہ خطا میں مبتلا ہو ۔ جس شخص کو نرمی فائدہ نہ دے اسے بے عقلی نقصان دیتی ہے جسے تجربات فائدہ نہ دیں وہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتا ۔ اور نصب العین تک نہیں پہنچتا ۔ یہاں تک کہ اس کی جہالت اس کے علم پر اور اس کی شہوت پر غالب آ جاتی ہے وہ مقاصد تک صرف حلم سے پہنچ سکتا ہے ۔ امام شعبی رحمة الله علیہ کا ارشاد مروی ہے کہ زیرک مدبر چار آدمی ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے اور حلم میں ، حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ مدبر ہونے اور جنگی حکمت عملی میں ۔ حضرت مغیرہ رضی الله عنہ سخت اور پیچیدہ معاملات کے حل میں ۔ حوالہ درج ذیل ہے كاشف الغمة فى شرح اعتقاد أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت باب ذكر فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، ص 453 تا 457 ، مطبوعة مكتبة الطبري للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٣٠ه‍/٢٠٠٩ء شرح اصول اعتقاد اھل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت " ما روي عن النبي ﷺ في فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، جلد 8 ص 1524 تا 1534 ، مطبوعة دار الطيبة
  16. اس میں روافض کا رد ہے وہ اپنی بدگمانی و بد اعتقادی کے سبب اہل سنت کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں ۔ یہ اُن کی بد گمانی ہے اہل حق ( یعنی اہل سنت ) تمام صحابہ اور تمام اہل بیت کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ خوارج کی طرح نہیں ہیں جو اہل بیتِ نبوت کے دشمن ہیں اور روافض کی طرح بھی نہیں جو جمہور صحابہ کرام اور اکابر امت سے عداوت رکھتے ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب القريش و ذكر القبائل ، جلد 11 ص 135 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ عادل ، فاضل اور بہترین صحابہ میں سے تھے وہ جنگیں جو ان کے درمیان ہوئیں ان میں سے ہر ایک گروہ شبہہ پر تھا جس کے سبب وہ اپنے آپ کو صواب پر ہونے کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ اور یہ تمام اپنی جنگوں میں تاویل کرنے والے تھے اس سبب ان میں سے کوئی عدالت سے خارج نہیں ہوا اس لیے کہ یہ تمام مجتہد تھے ۔ اور انہوں نے مسائل میں اختلاف کیا جیسا کہ ان کے بعد آنے والے مجتہدین نے مسائل میں اختلاف کیا ۔ اور ان میں سے کسی کے حق میں بھی اس سبب سے تنقیص کرنا لازم نہیں آتا ۔ حوالہ درج ذیل ہے مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة رضي الله عنهم ، جلد 11 ص 151 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء بہر حال صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی مدد نہ کرنا آپ کے ساتھ جنگ پر نکلنے سے رکنا اور ان میں سے ایک گروہ کا آپ رضی الله عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا جو واقعہ پیش آیا ۔ جیسا کہ جنگ جمل و صفین تو یہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی خلافت کی عدم صحت پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی حکومت میں آپ سے مخالفت کرنے والوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ نزاع حقیقتاً حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ ان کے اجتہاد کی وجہ سے تھا جیسا کہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینے پر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ پر انکار کیا ۔ بلکہ ان میں سے بعض نے تو یہ گمان کیا کہ آپ رضی الله عنہ قتلِ عثمان کی طرف مائل تھے ۔ اور معتمد قول کے مطابق اجتہاد میں خطا کرنے والے کی نہ تضلیل کی جاتی ہے نہ تسفیق کی جاتی ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 191 تا 192 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء ہم رسول الله ﷺ کے ہر ایک صحابی کا ذکر خیر کیساتھ ہی کرتے ہیں ۔ یعنی اگرچہ ان میں سے بعض سے بعض سے وہ کام صادر ہوئے جو صورتا شر ہیں ، کیونکہ یہ امور ان سے اجتہاد کی بنیاد پر صادر ہوئے نہ کہ اصرار و عناد کے سبب فساد کی وجہ سے ۔ ان سے حسن ظن کی بنیاد پر ان تمام کا مقصود بہترین انجام کی طرف تھا حوالہ درج ذیل ہے منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 209 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء جو صحابہ کرام رضی الله عنہم میں کسی کو بھی برا کہتے وہ بلاجماع فاسق ، بدعتی ہے جب کہ اس کا اعتقاد یہ ہو کہ برا کہنا مباح ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے شم العوارض فى ذم الروافض ، للملا على بن سلطان بن القارى ، تحت " مسألة من اعتقد ان سب الصحابة مباح فهو كافر ، ص 28 ، مطبوعة مركز الفرقان ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء وہ احادیث بھی جن میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ، حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ اور بنی امیہ کی مزمت اور منصور و سفاح کی تعریف پائی جاتی ہے اور اسی طرح یزید ، ولید اور مروان بن حکم کی مزمت پائی جاتی ہے وہ بھی موضوعات میں سے ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے الاسرار المرفوعة و اخبار الموضوعة ، للملا على بن سلطان بن القارى ، فصول في الأدلة على وضع الحديث ، تحت " أحاديث الفضائل و المثالب ، ص 455 ، مطبوعة المكتب الاسلامي ، طبع ثانى ١٤٠٦ه‍/١٩٨٦ء
  17. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو القاسم محمد بن احمد بن جُزَیّ الكلبى الغرناطی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی۷٤١ھ جہاں تک حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما اور دونوں میں سے ہر ایک کا ساتھ دینے والے اصحاب رضی الله عنہم کے درمیان مشاجرت و اختلاف کا تعلق ہے تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس نزاع کے ذکر سے زبان کو روکا جائے اور ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ذکر کلمات خیر سے کیا جائے اور ان کیلئے عمدہ تاویل تلاش کی جائے کیونکہ یہ معاملہ اجتہادی تھا اس میں حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی حق پر تھے کیونکہ انہوں نے اجتہاد کیا اور صحیح فیصلے پر پہنچے اور ماجور ہوئے ۔ جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے انہوں نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی پس وہ اس میں معذور ٹھہرے ۔ ان کی عزت و توقیر ضروری ہے نیز دیگر تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی بھی توقیر و محبت لازم ہے کیونکہ قرآن حکیم میں ان کی مدح و ثناء آئی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کی ہم نشینی اور صحبت کی وجہ سے بھی ان کی تعظیم و توقیر واجب ہے ۔ پس تحقیق رسول الله ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، تحقیق اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی ۔ حوالہ درج ذیل ہے القوانين الفقهية ، لامام محمد بن احمد بن جُزَيّ الغرناطى المالكى ، تحت " الباب الثامن في الإمامة ، ص 39 تا 40 ، مطبوعة دار ابن حزم ، طبع اول ١٤٣٤ه‍/٢٠١٣ء
  18. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام جمال الدين ابو زكريا يحيى بن يوسف بن یحیی بن منصور الانصاری الصرصری الحنبلی رحمة الله علیہ متوفٰی٦۵٦ھ یہ بھی فضیلت کی دلیل ہے ، کہ میرے عقیدہ کے مطابق ، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ردیفِ مصطفٰے ﷺ ہونا بھی باعثِ فضیلت ہے اس کی فضیلت ضائع نہ جائے گی ۔ وہ کاتبِ وحی تھے صاحبِ حلم تھے اور ان کی بہن مصطفےٰ کریم ﷺ کے ساتھ جاوداں جنت میں ثمرات جنت سے لطف ہو رہی ہیں ۔ ہر صحابی کیلئے فضیلت ہے جس نے حضور اکرم ﷺ کا دیدار کیا اور اس کی یہ فضیلت دوسروں پر کامیابی و نعمت کے لحاظ سے ایسی ہے کہ اس کی طمع نہیں کی جاسکتی ۔ اور اصحاب نبی ﷺ کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کی تفتیش کا خواہش مند وہی ہوگا جو نامراد گمراہ اور طعنہ باز ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے منظومة فى مدح النبي ﷺ و بيان عقيدة أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى زكريا يحيى بن يوسف الأنصاري الصرصري ، ص 61 تا 62 ، نثر : 211 تا 214 ، مطبوعة بيت الأفكار الدولة ، طبع اول ١٤٢٧ه‍/٢٠٠٦ء
  19. بدمذہبوں کے احکام ایک مسلمان کے لیے معاملاتِ زندگی میں بنیادی عقائد کے بارے میں مزید وضاحتی گفتگو مفتی حسان قادری صاحب VID-20210607-WA0002.mp4
  20. ماہنامہ رضائے مصطفےٰ=جون 2012.pdf R M=JULY 2012.pdf August 2012.pdf september 2012.pdf octoter 2012.pdf Novmber 2012.pdf December 2012.pdf JUNVARY 2013 (1).pdf
  21. تحریک پاکستان اور محدث اعظم پاکستان نمبر41 بحوالہ : ماہنامہ رضائے مصطفیٰ شمارہ 8 جلد نمبر 56 اگست 2014 از قلم :- مولانا حسن علی رضوی بریلوی میلسی پاکستان راشد انصاری قادری رضوی 41.tehrike-pakistan-or-muha.pdf
×
×
  • Create New...