-
کل پوسٹس
855 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
27
سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا
-
حج پر پاپندی لگا کر محفل موسیقی کا اہتمام
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in اسلامی خبریں
Allama Farooq ul hassan qadri _ WhatsApp clip _ 2021 _ Saudi Arabia government exposed _ tlp kalam(360P).mp4 -
خاٸن الحرمین کی خیانت جاری ایک طرف مسلسل دوسرے سال حج پر پابندی دوسری طرف 17جون2021 دنیا بھر سے اداکاروں اور فنکاروں کو بلا کر محفل موسیقی کا اہتمام کیا یہ خادم الحرمین ہیں؟
- 1 reply
-
- 1
-
Download https://data2.dawateislami.net/Data/Books/Download/ur/pdf/2009/364-1.pdf?fn=uyun-ul-hikayaat-hissa-2', 'Uyun ul Hikayaat Hissa 2', 668
-
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
السوال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حق پر نہیں تھے کیا ایسا کہنا درست ہے؟ الجواب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حق پر نہیں تھے نری جہالت وگمراہی ہے-اس پر لازم ہے کہ توبہ کرے (فتاوی فقیہ ملت، ج١،ص ١٨) -
محمد علی بھائی تفسیر میں مستند کتب تفسیر خازن اور مدارک اور ساتھ ملا علی قاری علیہ الرحمہ کے موقف سے عقیدہ صاف واضح ہو گیا ہے اور ساتھ امام اہلسنت علیہ الرحمہ کے خلاصہ کلام اور کثیر احادیث سے بلکل درست موقف واضح ہوا ہے اور بات رہی اعتراض کی تو دیوبندی وہابی لوگ تو اپنے اکابر کے کفریات پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہیں اللہ پر اعتراض کرتے ہیں معاذ اللہ اللہ کے بارے میں کفریات بکتے ہیں انہیں اس کی کیا سمجھ لگنی ہے وہ تو صمم بكم عمي فهم لا يعقلون کا نمونہ ہیں عام مسلمان انشاءاللہ اس تفسیر کو پڑھنے کے بعد گمراہ نہیں ہوگا آپ فکر نہ کریں
-
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام برهان الدين ابو الوفاء ابراهيم بن فرحون اليعمری المالكی رحمة الله علیہ متوفٰی٧٩٩ه فصل : ازواج و اصحاب رسول ﷺ کو سب وشتم کرنے والوں کا حکم : نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات اور اصحاب رضی الله عنہن و عنہم کو گالی دینا اور ان کی تنقیص شان کرنا حرام ہے اور گالی گلوچ اور تنقیص کرنے والا ملعون ہے ۔ اور جو شخص اصحابِ رسول ﷺ میں سے کسی صحابی مثلا حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی المرتضٰی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہم کو گالی دے تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ( ١ )_اگر بکے کہ وہ گمراہی پر تھے تو کافر ہو جائے گا اور واجب القتل ہو گا ۔ ( ٢ )_اگر ایسی گالی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کی گالیوں کی طرح ہو تو سخت سزا کا مستحق ہوگا ۔ ابن حبیب فرماتے ہیں : جو شیعہ غلو کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے بغض رکھے اور ان سے اظہار برآت کرے تو اسے شدید تادیب و تعزیر کی جائے گی اور جس کی عداوت بڑھ کرحضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کے بغض تک چلی جائے تو اس کی سزا شدید ہوگی ۔ اسے بار بار پیٹا جائے اور لمبی قید میں رکھا جائے ۔ یہاں تک کہ اسے موت آ جائے پس گستاخ شخص صرف اہانت و تنقیص رسول ﷺ سے واجب القتل ہوگا ۔ امام ابو محمد بن ابی زید رحمة الله علیہ امام سحنون رحمه الله سے حکایتاً بیان کرتے ہیں کہ جو شخص حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رضی الله عنہم کے بارے کہے کہ وہ گمراہی و کفر پر تھے وہ واجب القتل ہے اور جو دیگر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو اس نوع کی گالی دے وہ کڑی سزا کا مستحق ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے تبصرة الحكام في اصول الأقضية و مناهج الأحكام ، لامام برهان الدين ابراهيم بن فرحون اليعمري المالكي ، القسم الثالث من الكتاب ، تحت " فصل فيمن سب أزواجه و أصحابه ﷺ ، جلد 2 ص 213 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤١٦ه/١٩٩۵ء -
https://archive.org/details/sharah-sahi-muslim-jild-1 صفحہ نمبر 490 سے آگے تحقیق شروع ہو رہی ہے جس میں ماتم و نوحہ پر تحقیق موجود ہے
- 1 reply
-
- 1
-
دیوبندی عزیز الرحمن کی مدرسے کے بچے سے بدفعلی
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی دیوبندی
گزشتہ دنوں بے لگام نفس والے تھانوی کی روحانی اولاد نے اپنے دیوبندی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے ایک لڑکے سے بدفعلی کی اور تھانوی کی بات کو سچ ثابت کر دیا کہ اسے اپنے نفس پر یقین نہیں عزت بچانے کے لیے جامعہ نے بھی فورا فارغ کر دیا اور اتنا خوف زدہ ہیں کہ تاریخ بھی 3 جون کی ڈال دی تاکہ پتہ لگے ہم نے بہت پہلے کا فارغ کردیا ہے -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےبحری جہاز بنانے کے لئے 49ہجری میں کارخانے قائم فرمائے اور ساحل پر ہی تمام کاریگروں کی رہائش وغیرہ کا انتظام کردیا تاکہ بحری جہاز بنانے کے اہم کام میں خَلل واقع نہ ہو ۔ (فتوح البلدان،ص161) اَنْطَرطُوس، مَرَقِیَّہ جیسے غیر آباد علاقے بھی دوبارہ آباد فرمائے (فتوح البلدان، ص182) سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےعوام کی خیرخواہی کیلئے شام اور روم کے درمیان میں واقع ایک مَرْعَش نامی غیر آباد علاقے میں فوجی چھاؤنی قائم فرمائی (فتوح البلدان، ص265) نئے آباد ہونے والے علاقوں میں جن جن چیزوں کی ضرورت تھی ،اُن کا انتظام فرمایا مثلاً لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے نہری نظام قائم فرمایا (فتوح البلدان، ص499) -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 28 ہجری میں اسلام کی سب سے پہلی بحری فوج کی قیادت فرمائی اور قُبْرُص کو فتح کیا شرح ابن بطال ،ج5، ص11، تحت الحدیث: 2924 -
Tampering of Tafsir as-Sawi by the Wahhabi/Salafis
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا Debate and Refutation of Deviants
http://salafiaqeedah.blogspot.com/2011/11/tampering-of-tafsir-as-sawi-by.html -
Ibn Taymiyyah Defended Yazid Paleed
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا Debate and Refutation of Deviants
http://salafiaqeedah.blogspot.com/2013/11/yazid-and-ibn-ziyad-laanati.html -
https://wahhabisrefuted.wordpress.com http://salafiaqeedah.blogspot.com http://letsknowtruth.blogspot.com https://hornofsatan.wordpress.com
-
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوری القاضی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی۳۳۳ھ حضرت بشر بن حارث رحمة الله علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمة الله علیہ کو فرماتے ہوا سنا ۔ وہ فرما رہے تھے : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک الله تبارک وتعالی نے ہر بدعتی سے توبہ کو اٹھا لیا ہے اور اھل بدعت میں سب سے برے وہ ہیں جو رسول الله ﷺ کے صحابہ سے بغض رکھتے ہیں ۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے ۔ اور مجھ سے فرمایا : کہ الله کی بارگاہ میں اپنا سب سے مضبوط عمل نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی محبت کو بناؤ ۔ پس اگر تم زمین کے ذرات کے برابر بھی گناہ لے کے جاؤ تو بھی الله اس کو بخش دے گا ۔ اور اگر تیرے دل میں بغض صحابہ کا ایک ذرہ بھی ہوا تو تجھے تیرا کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکتا ۔ حوالہ درج ذیل ہے المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 5 ص 412 ، رقم : 2288 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه / ١٩٩٨ء سارے لوگوں کو توبہ کی توفیق مل جاتی ہے ، مگر اصحابِ رسول ﷺ پر تنقید کرنے والوں کو نہیں ملتی کیوں کہ الله ﷻ نے اُن سے توبہ کی توفیق سلب کرلی ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 6 ، ص397 ، رقم : 2816 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه / ١٩٩٨ء حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے حضرت صعصعہ بن صوعان رحمة الله علیہ سے فرمایا : حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے اوصاف بیان کیجئے ۔ تو انہوں نے عرض کی : حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ رعایا کے احوال جاننے والے ، رعایا کے مابین عدل و انصاف کرنے والے ، عاجزی فرمانے والے اور عزر قبول فرمانے والے تھے ، حاجت مندوں کے لیے آپ کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے ۔ حق بات کے لیے جدوجہد کرنا اور برے عمل سے دور رہنا آپ کی صفات تھیں ، اور آپ کمزوروں پر شفقت فرمانے والے ، دھیمے لہجے والے ، نہایت کم گو اور عیب سے بے حد دور رہنے والے تھے ۔ حوالہ درج ذیل ہے المجالسة و جواهر العلم ، لابي بکر احمد بن مروان بن محمد الدینوري القاضي المالکي ، جلد 4 ص 132 ، رقم : 1300 ، مطبوعه دار ابن حزم ، طبع اول ١٤١٩ه / ١٩٩٨ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو الفتح محمد بن محمد بن علي بن همام المعروف ابن الامام رحمة الله عليہ متوفی٧٤۵ھ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا فرماتی ہے کہ رسول الله ﷺ نے مجھے یہ دعا مانگتے ہوئے سن لیا : یا الله! مجھے فیض یاب فرما میرے زوج رسول الله ﷺ سے ، مجھے فائدہ پہنچا میرے باپ ابو سفیان رضی الله عنہ سے اور میرے بھائی امیر معاویہ رضی الله عنہ ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے الله تعالی سے محدود عرصہ ، چند ایام اور مقدر میں پہلے سے لکھے ہوئے اوقات کی دعا کی ہے جو اپنے وقت سے نہ پہلے مل سکتا ہے اور نہ مؤخر ہو سکتا ہے ۔ اگر تم الله تعالی سے یہ سوال کرتیں کہ وہ تمہیں دوزخ سے ، عذاب قبر سے محفوظ رکھے تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا ۔ ص 147 ، رقم : 242 ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے ، انہوں نے کہا میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کو دیکھا آپ منبر پر تشریف فرما تھے ، مؤذن نے اذان دی « الله أكبر الله أكبر » حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « الله أكبر الله أكبر » مؤذن نے کہا : « أشهد أن لا إله إلا الله » حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « و أنا » اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا : « أشهد أن محمدا رسول الله » حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیا : « و أنا » اور میں بھی محمد کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے فرمایا : حاضرین! میں نے رسول الله ﷺ سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ تشریف فرما تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرما رہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا ۔ ( ص 312 ، رقم : 566 ) حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی الله عنہ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول الله ﷺ کو سنا آپ فرما رہے تھے : اے الله! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ حوالہ درج ذیل ہے سلاح المؤمن فی الدعاء و الذکر ، لامام ابی الفتح محمد بن محمد بن علی بن ھمام ، الباب السابع في التخصيص في الدعاء و تسمية المدعو له ، ص 221 ، رقم : 395 ، مطبوعة دار ابن كثير بيروت ، طبع اول ١٤١٤ه/١٩٩٣ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از حضرت امام شاہ فقیر الله بن عبد الرحمن علوی نقشبندی شکارپوری رحمة الله عليہ متوفٰی۱۱۹۵ھ کتب عقائد میں مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے تمام اصحاب رضی الله عنہم اجمعین عادل تھے خواہ وہ تارکین دنیا ( زاھدین ) تھے یا دنیا سے تعلق رکھنے والے خواہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعد آپس میں قتال کیا یا نہیں ۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اصحاب کا ذکر صرف اچھائی سے کریں اور نکتہ چینی سے زبان روکیں ان کی باہم آویزش کا محمل یہ ہے کہ اس کا سبب ان کا اجتہاد تھا اور یہ کہ دونوں گروہ مجتہدین تھے اور اپنے اجتہاد سے حق کے طلبگار تھے جب کہ حق الله تعالیٰ کے نزدیک ایک ہی تھا لیکن ان کے اجتہاد کے سبب سے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ قابل عتاب نہیں بلکہ مستحق ثواب ہیں ۔ پس ان میں سے مصیب کیلئے دو اجر اور مخطئ کیلئے ایک اجر ۔ اس لحاظ سے ان کی برائیاں بیان کرنے سے زبان روکنا فرض ہے بلکہ تمام وفات یافتگان کی برائی بیان کرنے سے باز رہنا فرض ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : مردوں کو گالی نہ دو وہ اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کے انجام تک پہنچ چکے ۔ اس کو امام بخاری رحمة الله عليہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت کیا اس کے ساتھ یہ بھی کہ فاسق کی غیبت حرام ہے بھلا صحابہ کرام کی غیبت کی قباحت کس قدر زیادہ ہے!جب کہ رسول خدا ﷺ نے بکثرت احادیث میں ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے قطب الارشاد ، المقصد الاول ، تحت " الحسن ما الحسنه الشرح او العقل السليم ، ص 100 ، مطبوعة امیر حمزه كتب خانه کانسی روڑ کوئٹہ -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام محمد بن احمد بن عبد البارى الاهدل رحمة الله عليہ متوفٰی۱۲۹۸ھ قوله نسکت عنه : ( ہم اس سے سکوت اختیار کرنے ہیں ) مراد یہ ہے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات میں پڑیں جو کسی صحابی کے حق میں تنقیص شان کی متقاضی ہو کیونکہ ان سے جو کچھ صادر ہوا اس کا انداز وہی ہے جو اجتہادی مسائل کا ہے اسی لیے ناظم رحمه الله نے فرمایا : و اجر الاجتهاد : یعنی ہم ان میں سے ہر ایک کیلئے اجر اجتہاد ثابت کرتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ظنی مسئلہ میں اجتہاد پر مبنی تھا جس میں مصیب کو اجتہاد پر دو اجر اور مخطئ کو ایک اجر ملے گا ۔ پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ و کرم الله وجہہ کے ساتھ مقاتلہ میں مخطئ مجتہد ہیں اور حضرت علی رضی الله عنہ مصیب مجتہد ۔لیکن ان میں سے کسی کو گمراہ نہ قرار دیا جائے گا کیونکہ وہ ہم سے زیادہ الله تعالی اور اس کے رسول ﷺ نیز اس کے احکام کی معرفت رکھتے تھے اور الله تعالی نے سب سے بھلائی ( یعنی جنت ) کا وعدہ کر رکھا ہے ۔حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ہمارے مقتولین اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے مقتولین جنت میں ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے افادة السادة العمد بتقرير معانى نظم الزبد ، لامام محمد بن احمد بن عبد البارى الاهدل ، تحت مقدمة فى علم اصول الدين ، ص 113 ، مطبوعة دار المنهاج للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٢٦ه/٢٠٠٦ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو جعفر أحمد بن محمد بن صابر بن محمد بن صابر القيسى الاندلسی رحمة الله عليہ متوفٰى٦٦٢ه جو شخص آزاد شخص پر دنیا تنگ کرے وہ حاسد ہے وہ چالبازی کرتا ہے اس سے سخت مخالفت کا پورا عزم رکھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی برائیاں شمار نہ کی جائیں گی اور نہ کوئی ان کو دیکھے گا مگر اس کی برائیوں کا شمار ہونے لگتا ہے ۔ پس تم بلند شان والے شخص کے پیچھے بھونکنے والے سے تعجب نہ کرو کیونکہ مخلوق میں ہر علی کیلئے معاویہ ہوتا ہے ۔ اس قبیح تضمین کے اندر لپٹی تنقیص پر اس گستاخ کا رد و انکار کیا اور صراحت کے ساتھ اس لذید تعریض کو لاحق کیا یہاں تک کہ اس سے آگاہ ہونے والے بعض اربابِ علم جن کا علم حدیث میں بڑا حصہ ہے ، اور جو صحابی رسول ﷺ کاتبِ وحی خال المومنین رضی الله عنہ کا دفاع کرنے والے ہیں نے فرمایا : اے لعین دفع ہو ۔۔ اور جان لے! ہر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی شان پر کوئی مشکوک النسب حرف زن ہوتا ہے حالانکہ ان کے قدموں کی جوتی بھی اتنی بلند ہے کہ وہ بد نسل اس کے قریب نہیں پہنچ سکتا ۔ اس حرام زادے کمینے نے حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی عزت پر مذمت کا ارادہ کیا جیسے اس نے خال المومنین حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی مذمت کی ۔ تو ایسا نہیں جو امت احمد سے ہو ہاں تو ان سے ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الذيل و التكملة لكتابى الموصول و الصلة ، لامام ابى عبد الله محمد بن محمد بن عبد الملك الانصاري ، تحت أحمد بن محمد بن صابر بن محمد بن صابر القيسى ، جلد 1 ص 605 تا 606 ، رقم : 652 ، مطبوعة دار الغرب الاسلامي ، طبع اول ٢٠١٢ء عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو محمد عبد الله بن ابی زید القيروانى رحمة الله عليہ متوفٰی۳۸٦ه بیشک بہترین زمانہ ان لوگوں کا زمانہ ہے جنہوں رسول الله ﷺ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لائے ، پھر ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ، پھر ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ اور صحابہ کرام رضی الله عنہم میں افضل خلفاء راشدین مہدیین حضرت ابو بکر صدیق ، پھر حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان غنی ، پھر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہم اجمعین ہیں ۔ اور یہ کہ رسول الله ﷺ کے ہر ایک صحابی کا ذکر عمدہ طریقے سے ذکر کیا جائے ان کے درمیان جو مشاجرات ہوئے اس سے اپنی زبانوں کو روکا جائے وہ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے بارے بہترین مخارج و محامل یعنی تاویلات تلاش کریں اور ان کے ساتھ بہترین نکتہ ہائے نگاہ کا گمان و یقین رکھا جائے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الرسالة الفقهية ، لامام ابى محمد عبد الله بن ابى زيد القيروانى ، تحت " باب ما تنطق به الألسنة و تعتقده الافئدة من واجب أمور الديانات ، ص 80 ، مطبوعة دار الغرب الاسلامي ، طبع ثانى ١٩٩٧ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابو بکر الاندلسی القرطبى رحمة الله عليہ متوفٰی٦٧١ه میں کہتا ہوں کہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم عادل ہیں الله تعالی کے اولیاء اور اصفیاء ہیں انبیاء کرام اور رسل کے بعد وہ اس کی بہترین مخلوق ہیں یہ اہل سنت کا مذہب ہے ۔ اس امرجو کے آئمہ کرام کی جماعت کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ۔ ایک چھوٹے سے گروہ کی رائے یہ ہے کہ جس کو کوئی حیثیت نہیں کہ صحابہ کرام کا حال دوسروں کے حال کی طرح ہے اس وجہ سے ان کی عدالت کے بارے میں بحث ضروری ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو انکے احوال کے درمیان بداءة امر کے حوالے سے فرق کرتے ہیں ۔ کہا : پہلے پہل وہ عادل تھے پھر ان کے احوال بدل گئے ان میں جنگیں اور خون خرابہ ہوا اس لیے بحث ضروری ہے ۔ ان کا یہ قول مردود ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے بہترین اور جلیل القدر ہستیاں جیسے حضرت علی المرتضی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی الله عنہم جو ان ہستیوں میں سے ہیں جن کی الله تعالی نے تعریف بیان فرمائی ، ان کا تذکرہ بیان فرمایا ۔ الله تعالی ان سے راضی ہوا انہیں راضی کیا اور اس ارشاد کے ساتھ ان کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا : " مَغْفِرَةً وَّ أَجْرًا عَظِيْماً " خصوصا دس صحابہ کرام جن کو جنت کی بشارت رسول الله ﷺ نے دی وہ سردار ہیں جبکہ ان کے بارے میں کثیر آزمائشیں اور امتحانات آتے رہے یہ سب کچھ نبی اکرم ﷺ کے بعد ہوا جس کی خبر نبی اکرم ﷺ انہیں ارشاد فرما گئے تھے ایسے امور ان کے مرتبہ و فضیلت کو ساقط کرنے والے نہیں کیونکہ یہ امور اجتہاد پر مبنی ہیں اور ہر مجتہد ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے الجامع لاحكام القرآن ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن ابى بكر القرطبى ، تحت سورة الفتح ، الآیة : 29 ، جلد 19 ص 350 تا 351 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ، طبع اول ١٤٢٧ه/٢٠٠٦ء میں کہتا ہوں : کہ ان کے درمیان جو جنگ واقع ہوئی اس کا سبب بھی یہی قول تھا جلیل القدر علماء کہتے ہیں کہ بصرہ میں ان کے درمیان جو واقع ہوا وہ جنگ کے ارادہ سے نہ تھا بلکہ اچانک ہوا تھا ہر ایک فریق نے اپنا دفاع کیا کیونکہ اس کا گمان یہ تھا کہ دوسرے فریق نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے کیونکہ معاملہ ا۔ کے درمیان منظم ہو چکا تھا صلح مکمل ہوچکی تھی باہم رضا مندی سے وہ الگ الگ ہونے والے تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلین کو خوف ہوا کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا اورانکو گھیر لیا جائے گا وہ اکٹھے ہوئے ، باہم مشاورت کی اور اختلاف کیا پھر ان کا اس رائے پر اتفاق ہوا کہ وہ فریقوں میں بٹ جائیں اور دونوں لشکروں میں سحری کے وقت جنگ شروع کر دیں تیر ان کے درمیان چلے وہ فریق جو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے لشکروں میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما نے دھوکہ کیا اور فریق حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما کے لشکر میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے دھوکہ کیا اس طرح وہ امر تکمیل پزیر ہوا جس کی انہوں نے تدبیر کی تھی اور جنگ نے ان میں اپنی جگہ بنالی ہر فریق اپنے کیے کا اپنے ہاں دفاع کر رہا تھا اور خون بہائے جانے سے مانع تھا ۔ یہ دونوں فریقوں کی جانب سے درست عمل تھا اور الله تعالی کے حکم کی اطاعت تھی کیونکہ باہم جنگ اور دفاع اس طریقہ سے ہوا تھا یہی قول صحیح اور مشہور ہے ، الله تعالی بہتر جانتا ہے ۔ یہ جائز نہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی طرف قطعی طور پر خطاء کو منسوب کیا جائے کیونکہ ہر ایک نے جو بھی عمل کیا اس میں وہ مجتہد تھا وہ اب الله تعالی کی رضا کا ہی ارادہ کرتے تھے وہ سب ہمارے آئمہ ہیں ان کے درمیان جو اختلاف ہوا ہم اس سے باز رہنے کے پابند ہیں ہم ان کا ذکر احسن انداز میں ہی کریں گے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم احترام کے مستحق ہیں اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے اور الله تعالی نے ان کی مغفرت کا ذکر فرمایا ہے ان سے راضی ہونے کی خبر دی ہے ۔ یہ چیز مختلف سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ شہید ہیں جو روئے زمین پر چل رہے ہیں جس جنگ کے لیے وہ نکلے تھے وہ نافرمانی ہوتی تو اس میں قتل ہونے والا شہید نہ ہوتا اسی طرح جس جنگ میں وہ نکلے تھے تو وہ تاویل میں غلطی کرتے اور واجب میں کوتاہی کرتے کیونکہ شہادت تو اسی وقت ہوتی ہے جب اطاعت کی صورت میں قتل ہو ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے معاملہ کو اس امر پر محمول کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ اس امر پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی روایات میں سے صحیح اور عام یہ روایت ہے کہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کو قتل کرنے والا جہنم میں جائے گا ۔ اور ان کا یہ قول ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ۔ جب معاملہ اس طرح ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی الله عنہما نافرمانی کرنے والے اور قتال کے ذریعے گناہ گار نہ تھے کیونکہ اگر معاملہ اس طرح ہوتا یعنی وہ عاصی اور گناہ گار ہوتے تو نبی اکرم ﷺ حضرت طلحہ رضی الله عنہ کے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ وہ شہید ہے اور یہ خبر نبی دیتے کہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کا قاتل آگ میں ہے اسی طرح جو گھر میں بیٹھ گیا وہ تاویل میں غلطی کرنے والا نہیں بلکہ وہ درست ہے الله تعالی نے انہیں اجتہاد کی راہ دکھائی جب معاملہ اس طرح ہے تو یہ امر انہیں لعن و طعن کرنے ان سے براءت کا اظہار کرنے اور ان کو فاسق قرار دینے کو ثابت نہیں کرتا ، ان کے فضائل اور ان کے جہاد کو باطل نہیں کرتا اور دین میں جو ان کا عظیم مقام ہے اس کو ختم نہیں کرتا ۔ بعض سے اس خون ریزی کے بارے میں پوچھا گیا جو ان کے درمیان واقع ہوئی تو یہ آیت پڑھی : " تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞ بعض سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : وہ ایسی خون ریزی تھی جس سے الله تعالی نے میرا ہاتھ پاک رکھا ، میں آپ ی زبان کو اس سے آلودہ نہیں کروں گا یعنی خطاء میں واقع ہونے اور بعض پر ایسا حکم لگانے سے جو درست نہ ہو اس سے بچوں گا ۔ ابن فورک رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہمارے دونوں میں سے کچھ نے کہا صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان جو تنازعات ہوئے ان کے بارے میں وہی رویہ اپناؤ جو حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان تنازعہ ہوا اس میں اپناتے ہو اس کے باوجود وہ ولایت اور نبوت کے دائرہ سے باہر نہ نکلے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان جو معاملہ ہوا وہ بھی اسی طرح ہے ۔ امام محاسبی رحمة الله عليہ نے فرمایا : جہاں تک خون ریزی کا تعلق ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے ہمارے لیے قول کرنا بہت مشکل ہے ۔ حضرت امام حسن بصری رحمة الله عليہ سے ان کے قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : اس میں حضرت محمد ﷺ کے صحابہ حاضر ہوئے جبکہ ہم غائب تھے ، وہ عالم تھے ہم جاہل ہیں ، وہ اکٹھے ہوگئے تو ہم نے ان کی اتباع کی اور انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف کیا ۔ امام محاسبی رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہم وہی بات کرتے ہیں جس طرح حضرت امام حسن بصری رحمة الله عليہ نے فرمائی ہے ، ہم جانتے ہیں جو اس میں داخل ہوئے تھے وہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے جس امر پر انہوں نے اتفاق کیا ہم اس کی پیروی کریں گے جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہم اس کے متعلق توقف کریں گے اور ہم اپنج جانب سے کسی رائے کو پیش نہیں کریں گے ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا ۔ الله تعالی کی رضا سے توفیق کے طالب ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے الجامع لاحكام القرآن ، لامام ابى عبد الله محمد بن احمد بن ابى بكر القرطبى ، تحت سورة الحجرات ، الآیة : 9 ، جلد 19 ص 378 ، 382 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ، طبع اول ١٤٢٧ه/٢٠٠٦ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام احمد بن حمدان بن شعيب بن حمدان النمري الحرانی الحنبلی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٩۵ھ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ اور آپ کے صاحبزادے امام حسن مجتبیٰ رضی الله عنہما کے بعد اسلامی سلطنت کے امام حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں ۔ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی محبت واجب ہے اور ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات و نزاعات کے متعلق لکھنے ، پڑھنے ، پڑھانے اور سننے سنانے سے باز رہنا لازم ہے ۔ ان کے محاسن بیان کرنا ، ان کیلئے دعائے رضائے خداوندی کرنا ، ان سے محبت کرنا ، ان پر طعن سے باز رہنا ( اختلافی معاملات میں ) ان کی معذوری کا یقین رکھنا واجب ہے نیز یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ! انہوں نے اس میں جو کچھ کیا جائز اجتہاد سے کیا وہ موجب کفر و فسق نہیں بلکہ اس پر ان کو ثواب ملے گا کیونکہ جائز اجتہاد ہے ایک قول ہے کہ اس سے سکوت کیا جائے ایک اور قول ہے کہ توقف کیا جائے ایک قول ہے کہ اس میں مصیب علی ہیں اور سے قتال کرنے والے ایسی خطاء پر ہیں جو معاف ہے ایک قول یہ ہے کہ مخطئ غیر معین ہے اور وہ مستحق ثواب ہے ابو الفضل تمیمی رحمة الله عليہ کہتے ہیں امام احمد رحمة الله عليہ احادیث فضائل پیش کرتے تھے اور جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان مفاضلہ کرتا اس کا رد و انکار کرتے تھے ۔ اور فرماتے وہ اس مفاضلہ سے افضل اور برتر تھے جو حلال جانتے ہوئے ان میں سے کسی کو گالی دے وہ کافر ہے اگر حلال نہ جانے تو فاسق ہے ایک اور قعل اس کے بارے ہے کہ وہ مطلقاً کافر ہے اگر ان کی تفسیق کرے یا ان کے دین میں طعن کرے یا ان کی تکفیر کرے وہ کافر ہے اور جو الله تعالیٰ یا رسول الله ﷺ کو گالی دے کافر ہے ان سے یہ بھی ہے کہ اگر حلال نہ جانے تو قتل کیا جائے اس کی تکفیر نہ کی جائے امام احمد فرماتے ہیں کوئی معصوم نہیں سوائے رسول الله ﷺ کے اور انبیائے کرام کے اور حضور ﷺ ان سے افضل ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے نهاية المبتدئين فى اصول الدين ، لامام احمد بن حمدان بن شعيب بن حمدان النمري الحنبلي ، الباب السادس : فى الامامة و ما يتعلق بها ، ص 66 تا 67 ، مطبوعة مكتبة الرشد ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام موفق الدین ابو محمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامه المقدسى رحمة الله علیہ متوفی٦۲۰ھ نبی اکرم ﷺ کیلئے وحی کتابت کرنے والے اصحاب رضی اللہ عنہم حسب ذیل ہیں : حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت خالد ، حضرت ابان بن سعید بن عاص ، حضرت حنظلہ اسيدى ، حضرت عبد الله بن عبد الله بن ابی بن سلول ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ، حضرت عمرو بن عاص ، حضرت معاويہ بن سفیان ، حضرت جہیم بن صلت ، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ ، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہم ۔ التبيين فى انساب القرشيين ، تسمية كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ص 74 تا 75 معاویہ بن ابی سفیان ، کنیت ابو عبد الرحمن رضی الله عنہ ، فتح مکہ کے سال مشرف باسلام ہوئے نبی اکرم ﷺ کی طرف سے وحی ( و مراسلات ) کی کتابت کرتے تھے ان سے ان کا اپنا بیان مروی ہے کہ میں روز قضیہ ( بوقت صلح حدیبیہ )حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔ اور نبی اکرم ﷺ سے اس حال میں ملا کہ میں مسلمان تھا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے انہیں ان کے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ کی موت کے بعد شام کا گورنر بنایا - صالح بن الوجیہ کہتے ہیں یہ سنہ انیس ھجری کا واقعہ ہے ۔ ( قبل ازیں ) حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے غزوہ قیساریہ کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اہل قیساریہ سے لڑائی کی ۔ قیساریہ میں روم کے بطارقہ ( یعنی عیسائیوں کے مذہبی راہنما پیٹرکس ) تھے حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ نے ان سے کئی روز جہاد کیا ۔ قیساریہ میں ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بھی تھے پس وہاں اپنے نائب کی حیثیت سے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو کمان سونپی اور خود دمشق کو روانہ ہوئے پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ قیساریہ کے محاذ پر رہے یہاں تک کہ ماہ شوال سنہ انیس ہجری قیساریہ فتح ہوا ادھر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ اسی سال ماہ ذی الحج میں وصال فرما گئے اور ( وصال سے پہلے ) حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو اپنی عملداری میں اپنا نائب بنایا پس حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے شام کے اس تمام علاقے کا حاکم مقرر کیا جس پر ان کے بھائی حضرت یزید رضی الله عنہ کی عملداری تھی اور ایک ہزار دینار ماہانہ وظیفہ عطا کیا ۔دوسرے مورخین نے لکھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ دور عمر میں چار سال گورنر رہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے بھی انہیں بارہ سال تک اس منصب پر قائم رکھا جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے سفر شام میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا : معاویہ! عربوں کا کسری ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو ایک بڑے لاو لشکر ( پروٹوکول ) کے ساتھ ملے جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے قریب ہوئے تو پوچھا اچھا یہ لاو لشکر اور جلوس شاہانہ کے ساتھ تم ہو ؟ جواب دیا ہاں اے امیر المومنین! ، فرمایا : کیا یہ خبر مجھ تک صحیح پہنچی ہے کہ ارباب حاجات تمہارے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں ؟ عرض کیا : جی ایسا ہی ہے ۔ فرمایا : تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ عرض کیا ہم ایسی سرزمین میں ہیں جس میں جاسوسوں اور دشمنوں کی کثرت ہے پس ضروری ہے کہ ان کے سامنے شاہی وقار کا اظہار ہو جس سے ان پر رعب اور ھیبت طاری ہو اگر آپ حکم دیتے ہیں تو ایسا جاری رکھتے ہیں اور اگر منع فرماتے ہیں تو اسے موقوف کردیتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے فرمایا معاویہ! میں تم سے جو پوچھتا ہوں تم مجھے امتحان میں ڈال دیتے ہو ۔ ( یعنی وسیع فضاء میں جہاں سے بچ نکلنے کی گنجائش ہو ) تم نے جو کہا اگر وہ سچ ہے تو یہ ایک عقل مند کی رائے ہے اور اگر یہ غلط بیانی ہے تو صاحب ادب کی چال ہے ۔ عرض کیا : امیر المومنین! پھر مجھے کچھ حکم دیجئے ۔ فرمایا : نہ حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔ پھر فرمایا : کیا خوبصورت بات اس جوان سے اس کے مقاصد کے بارے اس سے صادر ہوئی معاملات میں پڑنے اور ان سے نکلنے کے متعلق بہترین رائے کے بارے ہم نے جو فیصلہ کرنا تھا کر دیا ۔ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی بارگاہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا تذکرہ کیا گیا ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا : " قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا ۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سرداری والا کوئی نہیں دیکھا ۔ ان سے عرض کیا گیا : کیا حضرت ابو بکر ، حضرت عمر و حضرت عثمان و حضرت علی رضی الله عنہم بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے ؟ فرمایا : بلاشبہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے افضل و بہتر تھے ، لیکن حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ ان سب سے زیادہ سرداری والے تھے ۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں ۔ میں نے رسول الله ﷺ کو دعا فرماتے ہوئے سنا : اے الله! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ ابن اسحاق رحمة الله علیہ کہتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ بیس سال امیر ( گورنر ) اور بیس سال خلیفہ رہے ۔ پھر جب حضرت معاویہ کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو اپنے بیٹے سے کہا ۔ بیٹا! بے شک میں رسول الله ﷺ کی رفاقت و صحبت میں رہا ۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے میں لوٹا لے کر پیچھے گیا ۔ تو آپ ﷺ نے مجھے اوڑھنے کو یہ کپڑا عطا فرمایا جو میرے جسم سے لگا ہے میں نے اسے روز وصال کیلئے چھپا کر رکھا نیز حضور اکرم ﷺ نے اپنے مبارک بالوں اور ناخنوں کے تراشوں سے لے کر مجھے نوازا وہ بھی میں اس روز کے لیے محفوظ کر کے رکھے پس جب میرا وصال ہو تو میرے کفن کے نیچے وہ قمیص پہنا دینا جو میری جلد کے ساتھ لگی ہو اور ان بالوں اور ناخن کے تراشوں کو لے کر میرے مونہہ آنکھوں اور مقام سجدہ ( پیشانی ) پر رکھ دینا کہ مجھے ان سے نفع ہوگا ۔ حوالہ درج ذیل ہے التبيين فى انساب القرشيين ، لامام موفق الدین ابی محمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامه المقدسي ، ذكر ولد أسيد بن ابى العيص بن أمية ، تحت " معاوية بن ابى سفيان ، ص 176 تا 178 ، مطبوعة المجمع العلمي العراقي -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام عبد الله بن مبارک المروزی رحمة الله علیہ متوفٰی۱۸۱ھ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔ باب الاخلاص و النية ، ص 95 ، رقم 199 عباس بن ذریع سے روایت ہے فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی طرف تحریر فرمایا : کہ جو شخص ایسا عمل کرتا ہے جس پر الله تعالی ناراض ہوتا ہے تو اس کی تعریف کرنے والے لوگ بھی مذمت اور بدگوئی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ باب الاخلاص و النية ، ص 95 ، رقم 200 مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص شفیا جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے ہاں جلاد تھا وہ آدمی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پاس آیا اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے حدیث سماعت کی ( کہ قیامت کے دن تین اشخاص سے پہلے حساب کتاب لیا جائے گا اور وہ اپنی فاسد نیات اور غلط ارادوں کی بنا پر اس میں محاسبہ میں نا کام رہیں گے ۔ ) حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا : ان لوگوں کیساتھ اس طرح محاسبہ و گرفت کا معاملہ کیا جائے گا تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ ( خشیت الہی کی وجہ سے ) پھر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر سخت گریہ طاری ہوگیا ۔ پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا : الله اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا ہے ۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ مَنْ كَانَ يُرِيد … الخ ۔ حوالہ درج ذیل ہے كتاب الزهد و الرقائق ، لامام عبد الله بن المبارك المروزي ، تحت " باب ذم الرياء و العجب و غير ذلك ، ص 162 تا 163 ، رقم 469 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع ثانى ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء -
Hazir o Nazir ke Aqeede ki Wazahat chahiye
محمد حسن عطاری replied to محمد آفتاب احمد's topic in عقائد اہلسنت
*عقیدہ حاضر و ناظر* *احادیث مبارکہ کی روشنی میں* حدثنا ابو نعیم: قال، حدثنا الاعمش، عن شفیق بن سلمۃ، قال: قال عبداللہ: کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ ، قلنا السلام علی جبریل، ومیکائیل، السلام علی فلان وفلان، فالتفت الینا رسول اللہ ﷺ فقال: ان اللہ ھو السلام ، فاذا صلی احدکم فلیقل التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عبادللہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللہ صالح فی السماء والارض اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ 📘 (بخاری حدیث نمبر 831) جب ہم نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے سلام ہو جبرائیل اور میکائل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر ۔ نبی کریم ﷺ ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود سلام ہے۔ (تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو) اس لیے جب تم میں سے کوئی سلام نماز پڑھے تو یہ کہے : تمام عبادات قولیہ، فعلیہ اور مالیہ اللہ تعالیٰ کے لیے، اے نبی ! آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہم پر اور اللہ تعالیٰ کےتمام نیک بندوں پر سلام۔ جب تم یہ کلمات کہو گے تو اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان میں رہنے والے ہر نیک بندے کو پہنچیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ غورکیجیے کہ نماز پڑھنے والا شرق و غرب، بحروبر، زمین یا فضا جہاں بھی نماز پڑھے۔ اس کے لیے سرکار دو عالم ﷺ کا حکم ہے کہ اپنی تمام عبادتوں کا ہدیہ بارگاہ الٰہی میں پیش کرنے کے بعد بصیغہ خطاب و نداء نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ سلام پیش کرے۔ یہ خیال ہرگز نہ کیا جائے کہ ہمارا سلام نبی اکرم ﷺ کو نہیں پہنچتا۔ محض خیالی صورت سامنے رکھ کر سلام عرض کیا جارہا ہے۔ کیونکہ امام بخاری کی روایت کردہ حدیث مذکورہ کے مطابق جب ہر نیک بندے کو سلام پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حبیب اکرم ﷺ کو کیوں نہیں پہنچتا؟ اس جگہ سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ روش کلام کے مطابق غائب کا صیغہ السلام علی النبی لانا چاہیے تھا، خطاب کا صیغہ (السلام علیک ایھا النبی )کیوں لایا گیا ہے؟ علامہ طیبی نےجواب دیا کہ ہم ان کلمات کی پیروی کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو سکھائے ۔ دوسرا جواب یہ ہے جسے علامہ بدرالدین عینی علامہ ابن حجر عسقلانی اور دیگر شارحین حدیث نے نقل کیا، حسب ذیل ہے: ارباب معرفت کے طریقے پر کہا جاسکتا ہے کہ جب نمازیوں نے التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو انہی کی لایموت کے دربار میں حاضر ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ مناجات کی بدولت ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، انہیں آگاہ کیا گیا، کہ یہ سعادت نبی رحمت ﷺ اور آپ کی پیروی کی برکت سے ہے۔ اچانک انہوں نے توجہ کی تو پتہ چلا کہ الحبیب فی حرم الحبیب حاضر محبوب کریم رب کی بارگاہ میں حاضر ہیں تو السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے آپ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ 📘(عمدۃ القاری ج 2 ص 111، 📘 فتح الباری ج 2 ص 250، 📘 شرح مواہب لدنیہ ج 7 ص 377، 📘 السعایہ فی کشف شرح الوقایہ ج 2 ص 227) *علامہ عبدالحی لکھنوی مذکورہ بالا تقریر کے بعد فرماتے ہیں:* میرے والد علام اور استاذ جلیل (علامہ عبدالحکیم لکھنوی) اپنے رسالہ نور الایمان بزیارۃ آثار حبیب الرحمن میں فرماتے ہیں کہ التحیات میں صیغہ خطاب (السلام علیک ایھا النبی) لانے کا راز یہ ہے کہ گویا حقیقت محمدیہ ہر وجود میں جاری و ساری اور ہر بندے کے باطن میں حاضر ہے۔ اس حالت کا کامل طور پر انکشاف نماز کی حالت میں ہوتا ہے لہذا محل خطاب ہوگیا۔ 📘 (الساعیہ ج 2 ص 228) دراصل یہ روحانیت کا مسئلہ ہے ، جس شخص کا روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو، جسے معرفت کے ساتھ کوئی علاقہ ہی نہ ہو وہ اس مسئلے کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارا روئے سخن بھی ان کی طرف نہیں ہے، ہمارا تو خطاب ہی ان لوگوں سے ہے جو اولیائے کرام اور انبیاء عظام کی روحانی عظمتوں کو ماننے والے ہیں۔ *شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:* آنحضرت ﷺ ہمیشہ تمام احوال و واقعات میں مومنوں کے پیش نظر اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، خصوصاعبادت کی حالت میں اور (بالخصوص) اس کے آخر میں نورانیت اور انکشاف کا وجود ان احوال میں بہت زیادہ اور نہایت قوی ہوتا ہے۔ بعض عارفوں نے فرمایا کہ یہ خطاب اس بنا پر ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے ذروں اور افراد ممکنات میں جاری و ساری ہے، پس آنحضرت ﷺ نمازیوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہیں۔ لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس حقیقت سے آگاہ رہے اور نبی اکرم ﷺ کے اس حاضر ہونے سے غافل نہ رہے۔ تاکہ قرب کے انوار اور معرفت کے اسرار سے منور اور فیض یاب ہو۔ 📘(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 401، 📘 تیسیرالقاری شرح بخاری ج 1 ص 172، 173) لطف کی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین کے امام اور پیشوا نواب صدیق حسن خاں بھوپالی نے مسک الختام شرح بلوغ المرام ج 1 ص 244 میں بعینہ یہی عبارت درج کی ہے۔ اس مقام پر تھوڑی دیر کے لیے ہم غیرمقلدین سے صرف اتنا پوچھتے ہیں کہ عقیدہ حاضروناظر کی بنا پر تم اہلسنت کو مشرک کہتے ہو ، کیا ان کےساتھ نواب بھوپالی کو بھی زمرہ مشرکین میں کرو گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اس جگہ مخالفین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ تشہد سے حاضروناظر کے عقیدہ پر استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں یہ التحیات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد ہم السلام علی النبی پڑھنے لگے۔ *اس کا جواب حضرت ملا علی قاری کی زبانی سنیے،* وہ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات ظاہرہ میں السلام علیک ایھاالنبی پڑھا کرتے تھے، جب آپ کا وصال مبارک ہوگیا تو ہم السلام علی النبی کہتے تھے۔ یہ امام ابوعوانہ کی روایت ہے، امام بخاری کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت ابن مسعود کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ ان کے شاگرد راوی نے جو کچھ سمجھا وہ بیان کردیا۔ امام بخاری کی روایت میں ہے فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی (حدیث نمبر 6265) جب نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوگیا تو ہم نے کہا السلام یعنی نبی اکرم ﷺ پر (لفظ یعنی بتارہا ہے کہ بعد میں کسی نے وضاحت کی ہے) اس قول میں دو احتمال ہیں: 1: یہ کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں بصیغہ خطاب سلام کرتے تھے۔ اسی طرح وصال کے بعد کہتے رہے۔ 2: ہم نے خطاب چھوڑ دیا تھا۔ جب لفظوں میں متعدد احتمال ہیں تو دلالت (قطعی) نہ رہی، اسی طرح علامہ ابن حجر نے فرمایا۔ 📘( المرقاۃ ج 2 ص 332) *علامہ عبدالحی لکھنوی اپنے والد ماجد علامہ عبدالحلیم لکھنوی کے حوالے سے اس روایت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:* یہ روایت دوسری روایات کے مخالف ہے جن میں یہ کلمات نہیں ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی نبی اکرم ﷺ کی تعلیم کی بنا پر نہیں ہے۔ کیونکہ ابن مسعود نے فرمایا ہم نے کہا: السلام علی۔ 📘 (السعایہ ج 2 ص 228) یہی سبب ہے کہ جمہور علماء کرام اور ائمہ اربعہ نے اس طریقے کو اختیار نہیں کیا، بلکہ وہی تشہد پڑھتے رہے ہیں جس میں السلام علیک ایھاالنبی ہے۔ *دوسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ* ہم نبی اکرم ﷺ کو خطاب کر کے سلام عرض ہی نہیں کرتے، ہم تو واقعہ معراج کی حکایت اور نقل کرتے ہوئے یہ کلمات ادا کرتے ہیں اور بس لہذا ہم پر عقیدہ حاضروناظر ماننا لازم نہیں آتا۔ *اس اشکال کے کئی جواب ہیں:* جس روایت کی بنا پر التحیات کے سلام کو واقعہ معراج کی حکایت کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں دیوبندی مکتب فکر کے مولوی انور شاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس کی سند نہیں ملی۔ 📘(عرف الشذی ص 139) 2: جب التحیات میں حکایت اور نقل ہی مقصود ہے تو التحیات اللہ والصلوات والطیبات بھی بطور حکایت ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سلام عرض کرنے سے اعراض کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہدیہ عبادات بھی پیش نہ ہوگا۔ امام احمد رضا قادری نے کیا خوب فرمایا ہے: بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں 3: ابھی بخاری شریف کی حدیث گزری ہے کہ جب تم یہ کلمات کہتے ہو تو زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو سلام پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر آپ کے قول کے مطابق سلام کہا ہی نہیں گیا، محض واقعہ معراج کی حکایت اور نقل کی گئی ہے تو ہر بندہ صالح کو سلام پہنچنے کا کیا مطلب؟ ماننا پڑے گا کہ ہر غازی حضور ﷺ اور اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے اور پیش کرتا ہے۔ اسی کو انشاء اسلام کہتے ہیں۔ 4: ہمارے فقہاء کرام نے تصریح کردی ہے کہ انشاء اسلام کا ارادہ ہونا چاہیے نہ کہ حکایت کا۔ درمختار میں ہے: نمازی تشہد کے الفاظ سے ان معانی کا قصد کرے جو ان الفاظ سے مراد ہے اور یہ قصد بطور انشاء ہو، گویا وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تحفے پیش کررہا ہے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر، اپنی ذات پر اولیاءاللہ پر سلام پیش کررہا ہے ۔اخبار اور حکایت سلام کی نیت ہرگز نہ کرے۔ 📘(الدر المختار ج 1 ص 77) -
فضائل و مناقب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محمد حسن عطاری replied to محمد حسن عطاری's topic in شخصیات اسلام
عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف كاتب جلبي و حاجي خليفة رحمة الله عليہ متوفٰى١٠٦٧ه حضرت معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب رضی الله عنہ بمقام خیف میں پیدا ہوئے بنو امیہ میں سے تھے ان کی ماں کا نام حضرت ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس رضی الله عنہا تھا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ امیر المؤمنین تھے ان کا لقب " الناصر لدین الله " تھا ایک اور قول ہے لقب " الناصر لحق الله " تھا ۔ دوسرا لقب زیادہ مشہور ہے " مور اللطافة " میں اسی طرح ہے ۔ ان کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے اپنے باپ حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ سے پہلے مسلمان ہوئے ایک اور قول ہے وہ اپنے باپ کے ساتھ روز فتح مکہ مسلمان ہوئے ۔حنین کی لڑائی میں شامل ہوئے وہ مولفة القلوب میں سے تھے دراز قد گورے رنگ کے خوبصورت رعب دار شخص تھے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ انہیں دیکھتے تو فرماتے یہ عرب کے کسریٰ ہیں ۔ ان کی انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " وہ کاتبانِ وحی میں سے تھے نبی اکرم ﷺ سے ایک سو چھتیس احادیث روایت کیں ۔ اور ان سے حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابو درداء حضرت جریر اور حضرت نعمان رضی الله عنہم وغیرھم نے روایت کیں ان کی فضیلت میں احادیث مروی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ جسے امام ترمذی نے اخراج کیا کہ حضور ﷺ نے دعا فرمائی : اے الله! معاویہ کو ہادی مہدی بنا دے " مسند امام احمد میں ہے : اے الله! معاویہ کو کتاب و حساب کا علم دے اور اسے عذاب سے بچا ۔ "طبرانی معجم کبیر میں روایت کرتے ہیں : میں نے جب سے حضور ﷺ کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے انہیں حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ کے بعد سن 18 ہجری میں دمشق شام کے صوبے کا حاکم (گورنر) بنایا پھر وہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی خلافت کے بقیہ دور اور خلافت حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ میں متواتر بیس سال تک گورنر رہے خلافت حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ میں جب معزول کئے گئے تو ملک شام پر تغلب کیا اور روز تحکیم خلافت کی بیعت لی اہل شام نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی مگر اہل عراق نے اختلاف کیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن رضی الله عنہ نے سن 25 ربیع الاول 41 ھ میں خلافت سے دستبرداری کر کے ان سے صلح کر لی اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت جاری رہی یہاں تک کہ ماہ رجب سن 60 ھجری دمشق میں وصال ہوا ۔ اور باب جابیہ اور باب صغیر کے درمیان دفن ہوئے اٹھتر سال عمر پائی اور حکومت کی باگ ڈور اپنے بیٹے یزید کو سونپی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ خوش عیش تھے دین و حلم سے متصف تھے ان کے حلم کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے سلم الوصول الى طبقات الفحول ، لامام مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـكاتب جلبي ، تحت باب المیم ، جلد 3 ص 343 تا 344 ، رقم : 5017 ، مطبوعة منظمة المؤتمر الاسلامي مركز الابحاث للتاريخ و الافنون و الثقافة الاسلامية باستانبول