-
کل پوسٹس
855 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
28
سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا
-
اعلیٰ حضرت مولانا امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کا اردو ترجمہ قرآن آپ نے 1911ء میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو اردو تراجم قرآن میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اور مشہور ترجمہ ہے، اس ترجمہ کا ترجمہ ہندی، سندھی، انگریزی، ڈچ، گجراتی، پشتو اور بنگلہ میں ہو چکا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں، ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے کنزالایمان اور معروف تراجم قرآن کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔[1] انگریزی تراجم ترميم کنز الایمان کو اب تک پانچ شخصیات نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، ۔ پروفیسر محمد حنیف اختر فاطمی (کویت یونیورسٹی )۔[5] پروفیسر شاہ فریدالحق نے 1988ء میں مکمل کیا اور اسے بھارت اور پاکستان میں شائع کیا گیا ہے۔[6] ڈاکٹر مجیداللہ، لاہور۔ عاقب فرید قادری نے 2002ء کے قریب شائع کیا۔ ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم ماہروی، ایٹہ بھارت۔ سید آل رسول حسنین میاں نظمی ماہروی، ایٹہ، بھارت۔ سندھی تراجم ترميم مفتی محمد رحیم سکندری نے سندھی زبان میں ترجمہ کر دیا ہے۔ مولانا عبد الوحید سرہندی ہندی تراجم ترميم مولانا نور الدین نظامی۔[2] کریول ترجمہ ترميم مولانا منصور اور مولانا نجیب (ماریشس) نے کریول زبان میں ترجمہ کیا۔ قرآن کا یہ ترجمہ سب سے پہلے شمیم اشرف ازہری جامع مسجد، ماریشس کے خطیب کی نگرانی میں 17 جنوری 1996ء کو شائع کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ اس اس کام میں دیگر علما اور اہل علم نے مدد کی۔ گجراتی ترجمہ ترميم گجراتی زبان میں مولانا حسن آدم گجراتی نے کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان کا گجراتی ترجمہ کیا ہے جو گجراتی دان طبقہ میں کافی مقبول ہے۔[7] بنگلہ ترجمہ ترميم مفتی عبد المنان۔[2] پشتو ترجمہ ترميم قاری نور الہدیٰ نعیمی۔[2] ذاکر اللہ نقشبندی۔[2] ڈچ ترجمہ ترميم مولانا غلام رسول الٰہ دین۔[2] ترکی ترميم مولانا اسماعیل حقی۔[2] سرائیکی ترميم مولانا ریاض الدین شاہ۔[2] چترالی ترميم مولانا پیر محمد چشتی۔[2] منقول
-
یہ محیر العقول واقعہ جہاں خدا کی قدرت کا روشن ثبوت ہے، وہیں اسے پڑھنے کے بعد یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کا کیا رتبہ ہے۔ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب ”الدولة المکیة“ کے حاشیے ”انباء الحی“ میں خود لکھتے ہیں: ” ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ فجر کی نماز کے لئے آخری وقت میں بیدار ہو پایا۔ احتلام ہوا تھا۔ پہلے نجاست کو پاک کیا، آرام سے استنجا کیا، مسواک اور خلال کیا، تب تک غسل خانے میں پانی رکھ دیا گیا۔ غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے جیب سے گھڑی نکال کر دیکھی تو سورج طلوع ہونے میں دس ہی منٹ کا وقت بچ رہا تھا۔ گھڑی زمین پر رکھ دی اور دعا پڑھ کر غسل خانے میں داخل ہوگئے۔ سردی کا زمانہ تھا؛ ایک ایک کرکے کپڑے اتارے۔ نہانے میں یہ بات ذہن سے بالکل اتر گئی کہ وقت بہت کم ہے؛ اعضائے وضو کو مبالغے سے تین تین بار دھوئے، پورے اطمینان سے نہایا، پھر سر کے بالوں کو تولیہ سے اچھی طرح پوچھ کر خشک کیا۔ غسل خانے سے جوں ہی باہر نکلا، سامنے زمین پر گھڑی رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر اچانک قلت وقت کا خیال ہوا، دل میں سوچنے لگا کہ شاید نماز قضا ہو گئی ہے۔ لیکن گھڑی دیکھ کر حیران رہ گیا؛ اس میں طلوع آفتاب کو اب بھی دس منٹ باقی تھے۔ وقت ایک سکنڈ بھی زیادہ نہ ہوا تھا۔ افق کی طرف نظر پڑی تو زبان حال سے کہ رہا تھا کہ وقت ابھی باقی ہے؛ صرف فرض ہی نہیں سنت کی بھی گنجائش موجود ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد جیبی گھڑی کو دوسری عمدہ گھڑیوں سے ملایا تو وقت سب میں مساوی تھا۔ بالفرض اگر میری جیبی گھڑی بند ہوگئی تھی تو وقت میں ضرور فرق ہوتا۔ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے فقیر (امام احمد رضا خان) کے لئے ایک سکنڈ سے کم کے زمانے کو اتنا پھیلا دیا کہ اس لمحہ بھر میں اتنے کام ہو گئے جو دس منٹ میں بھی ممکن نہیں تھے۔ (انباء الحي انّ كلامه المصوّن تبيان لكلّ شئ، مترجم، ص ١٤٥) اعلی حضرت عظیم المرتبت امام حمد رضا خان علیہ الرحمہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اس طرح کی خارق عادت باتیں ایک سے زائد بار واقع ہوچکی ہیں، لیکن حضرت امام کی عاجزی دیکھیے کہ اسے کرامت کے بجائے معونت سے تعبیر کرتے ہیں۔
-
سلاح المؤمن الدعاء الموقن للإجابة
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
وردت أحاديث في السُّنَّة النَّبويَّة في ذَمِّ الوَهَن، منها: - عن ثوبان رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يوشك الأمم أن تداعى عليكم، كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. فقال قائل: ومِن قلَّةٍ نحن يومئذ؟ قال: بل أنتم يومئذٍ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السَّيل، ولينزعنَّ الله مِن صدور عدوِّكم المهابة منكم، وليقذفنَّ الله في قلوبكم الوَهَن. فقال قائل: يا رسول الله، وما الوَهْن؟ قال: حبُّ الدُّنيا، وكراهية الموت)). [7539] رواه أبو داود (4297)، وأحمد (5/278) (22450). جوَّد إسناده الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (7/290)، إسناده حسن، حتى صححه الألباني في ((صحيح سنن أبي داود)) -4297 . قال العظيم آبادي في شرح هذا الحديث: (... ((يوشك الأمم)). أي يَقْرُب فِرَق الكفر وأمم الضَّلالة. ((أن تداعى عليكم)). أي: تتداعى، بأن يدعو بعضهم بعضًا لمقاتلتكم، وكسر شوكتكم، وسلب ما ملكتموه مِن الدِّيار والأموال. ((كما تداعى الأكلة)). أي: يَقْرُب أنَّ فِرَق الكفر وأمم الضَّلالة... يدعو بعضهم بعضًا إلى الاجتماع لقتالكم وكسر شوكتكم؛ ليغلبوا على ما ملكتموها مِن الدِّيار، كما أنَّ الفئة الآكلة يتداعى بعضهم بعضًا إلى قصعتهم التي يتناولونها مِن غير مانع، فيأكلونها صفوًا مِن غير تعب. ((ومِن قلَّة)). أي: أنَّ ذلك التَّداعي لأجل قلَّة نحن عليها يومئذ. ((كثير)). أي: عددًا، وقليل مددًا. ((ولكنَّكم غُثَاء كغُثَاء السَّيل)). ما يحمله السَّيل مِن زَبَد ووَسَخ؛ شبَّههم به لقلَّة شجاعتهم ودناءة قدرهم. ((ولينزعنَّ)). أي: ليخرجنَّ. ((المهابة)). أي: الخوف والرُّعب. ((وليقذفنَّ)). أي: وليرمينَّ الله. ((الوَهن)). أي: الضَّعف، وكأنَّه أراد بالوَهن ما يوجبه، ولذلك فسَّره بحبِّ الدُّنيا وكراهة الموت. ((وما الوَهن؟)) أي: ما يوجبه وما سببه؟ قال الطيبيُّ رحمه الله: سؤالٌ عن نوع الوَهن، أو كأنَّه أراد منِ أي وجه يكون ذلك الوَهن. ((قال: حبُّ الدُّنيا وكراهية الموت)). وهما متلازمان، فكأنَّهما شيء واحد، يدعوهم إلى إعطاء الدَّنيَّة في الدِّين مِن العدو المبين، ونسأل الله العافية.عون المعبود. أيها الأحبة في الله*. *اجعلوا هذا الدعاء في دعواتنا السرية والجهرية،مع بيان معنى الدعاء بين العوام فيكون الخوف وإلا جابة جدير لاشك فيه مع موقن إلا جابة فهذا سلاح المؤمن كما علمنا رسولنا الكريم صلى الله عليه وسلم فعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِهَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ لأَصْحَابِهِ : ( اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا ، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا ، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا ، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا ، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا ، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا ، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا ، وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا ، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا ). رواه الترمذي (رقم/3502) وردت أحاديث في السُّنَّة النَّبويَّة في ذَمِّ الوَهَن، منها: - عن ثوبان رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((يوشك الأمم أن تداعى عليكم، كما تداعى الأكلة إلى قصعتها. فقال قائل: ومِن قلَّةٍ نحن يومئذ؟ قال: بل أنتم يومئذٍ كثير، ولكنكم غثاء كغثاء السَّيل، ولينزعنَّ الله مِن صدور عدوِّكم المهابة منكم، وليقذفنَّ الله في قلوبكم الوَهَن. فقال قائل: يا رسول الله، وما الوَهْن؟ قال: حبُّ الدُّنيا، وكراهية الموت)). [7539] رواه أبو داود (4297)، وأحمد (5/278) (22450). جوَّد إسناده الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (7/290)، إسناده حسن، حتى صححه الألباني في ((صحيح سنن أبي داود)) -4297 . قال العظيم آبادي في شرح هذا الحديث: (... ((يوشك الأمم)). أي يَقْرُب فِرَق الكفر وأمم الضَّلالة. ((أن تداعى عليكم)). أي: تتداعى، بأن يدعو بعضهم بعضًا لمقاتلتكم، وكسر شوكتكم، وسلب ما ملكتموه مِن الدِّيار والأموال. ((كما تداعى الأكلة)). أي: يَقْرُب أنَّ فِرَق الكفر وأمم الضَّلالة... يدعو بعضهم بعضًا إلى الاجتماع لقتالكم وكسر شوكتكم؛ ليغلبوا على ما ملكتموها مِن الدِّيار، كما أنَّ الفئة الآكلة يتداعى بعضهم بعضًا إلى قصعتهم التي يتناولونها مِن غير مانع، فيأكلونها صفوًا مِن غير تعب. ((ومِن قلَّة)). أي: أنَّ ذلك التَّداعي لأجل قلَّة نحن عليها يومئذ. ((كثير)). أي: عددًا، وقليل مددًا. ((ولكنَّكم غُثَاء كغُثَاء السَّيل)). ما يحمله السَّيل مِن زَبَد ووَسَخ؛ شبَّههم به لقلَّة شجاعتهم ودناءة قدرهم. ((ولينزعنَّ)). أي: ليخرجنَّ. ((المهابة)). أي: الخوف والرُّعب. ((وليقذفنَّ)). أي: وليرمينَّ الله. ((الوَهن)). أي: الضَّعف، وكأنَّه أراد بالوَهن ما يوجبه، ولذلك فسَّره بحبِّ الدُّنيا وكراهة الموت. ((وما الوَهن؟)) أي: ما يوجبه وما سببه؟ قال الطيبيُّ رحمه الله: سؤالٌ عن نوع الوَهن، أو كأنَّه أراد منِ أي وجه يكون ذلك الوَهن. ((قال: حبُّ الدُّنيا وكراهية الموت)). وهما متلازمان، فكأنَّهما شيء واحد، يدعوهم إلى إعطاء الدَّنيَّة في الدِّين مِن العدو المبين، ونسأل الله العافية.عون المعبود. أيها الأحبة في الله*. *اجعلوا هذا الدعاء في دعواتنا السرية والجهرية،مع بيان معنى الدعاء بين العوام فيكون الخوف وإلا جابة جدير لاشك فيه مع موقن إلا جابة فهذا سلاح المؤمن كما علمنا رسولنا الكريم صلى الله عليه وسلم فعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِهَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ لأَصْحَابِهِ : ( اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا ، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا ، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا ، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا ، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا ، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا ، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا ، وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا ، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا ). رواه الترمذي (رقم/3502) -
بدعتی اوربد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
بدعتی اوربد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم فرقہ بجنوریہ کی جانب سے ایک فتویٰ وائرل ہوا ہے جس میں بدعتی وبدمذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ چوں کہ مسئلہ مشکل ہے،اس لیے لغزش ہو سکتی ہے۔ کافر کلامی کی اقتدا میں نماز کا حکم جو مومن نہیں ہے،یعنی کلمہ خواں ہے،لیکن مرتد اور کافر کلامی ہے۔اس کی اقتدا میں نماز باطل محض ہے اور فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی،بلکہ فرض مقتدی کے ذمہ باقی رہے گا،گر چہ لاعلمی میں اس کی اقتدا میں نماز ادا کرلی ہو۔(فتاوی رضویہ جلد سوم۔ص 235.236-رضااکیڈمی ممبئ) بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم: بدعتی اور بدمذہب یعنی جو اہل سنت وجماعت سے خارج ہو, لیکن مذہب اسلام سے بالکل خارج نہ ہو، جیسے فرقہ تفضیلیہ۔ایسے بدعتی اور بدمذہب کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔اس کی اقتدا کرنے والاسخت گنہگار ہے۔لیکن فرضیت اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔ بد مذہبوں میں جو کافر فقہی ہو،ان کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ ان کی اقتدا میں نماز فاسد ہے۔فرضیت کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”مبتدع کی بدعت اگر حد کفر کوپہنچی ہو،اگر چہ عند الفقہا یعنی منکر قطعیات ہو، گر چہ منکر ضروریات نہ ہو، توصحیح یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز باطل ہے:کما فی فتح القدیر ومفتاح السعادۃ والغیاثیۃ وغیرہا:کہ وہی احتیاط جو متکلمین کو اس کی تکفیر سے باز رکھے گی،اس کے پیچھے نماز کے فساد کا حکم دے گی:(فان الصلاۃ اذا صحت من وجوہ وفسدت من وجہ حکم بفسادہا):ورنہ مکروہ تحریمی“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم:ص273-رضا اکیڈمی ممبئ) -
غیر مقلد وہابیہ کی قسم اول رسالہ مذکورہ کا سوال درج ذیل ہے۔اس کے بعد جواب ہے۔ مسئلہ 42: کیافرماتے ہیں علمائے دین وحامیان شرع متین اس بارہ میں کہ ایک عورت سنیہ حنفیہ جس کا باپ بھی سنی حنفی ہے اس کا نکاح ایک غیرمقلد وہابی سے کردینا جائز ہے یا ممنوع؟ اس میں شرعاً گناہ ہوگا،یا نہیں؟ بینوا توجروا- مستفتی محمد خلیل اللہ خاں از:ریاست رامپور دولت خانہ حکیم اجمل خاں صاحب امام احمدرضا قادری نے تسمیہ وتحمید وصلوٰۃوسلام وابتدائی تمہید کے بعد رقم فرمایا: ”وہابی ہو یا رافضی جو بد مذہب عقائد کفریہ رکھتا ہے جیسے ختم نبوت حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار یا قرآن عظیم میں نقص ودخل بشری کا اقرار تو ایسوں سے نکاح با جماع مسلمین بالقطع والیقین باطل محض وزنائے صرف ہے۔ اگرچہ صورت،صورت سوال کا عکس ہو،یعنی سنی مردایسی عورت کونکاح میں لانا چاہے کہ مدعیان اسلام میں جو عقائد کفریہ رکھیں،ان کا حکم مثل مرتد ہے:کما حققنا فی المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ”المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ“میں تحقیق کی ہے۔ ت) ظہیریہ وہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے:احکامھم مثل احکام المرتدین (ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔ت) اور مرتدمرد خواہ عورت کا نکاح تمام عالم میں کسی عورت ومرد مسلم یا کافر مرتدیااصلی کسی سے نہیں ہوسکتا۔ خانیہ وہندیہ وغیرہمامیں ہے:واللفظ للاخیرۃ:لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولاکافرۃ اصلیۃ وکذلک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذافی المبسوط۔ دوسری کے الفاظ یہ ہیں: مرتد کے لیے کسی عورت، مسلمان، کافرہ یا مرتدہ سے نکاح جائز نہیں،اور یونہی مرتدہ عورت کا کسی بھی شخص سے نکاح جائز نہیں،جیساکہ مبسوط میں ہے۔ (ت)(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:377-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:مذکورہ بالا عبارت میں اس غیر مقلد وہابی کوکافرکلامی کہا گیا ہے جو کفری عقیدہ رکھتا ہو،یعنی کسی ضروری دینی کا مفسرومتعین انکارکرتا ہو،اور کفر کلامی میں ملوث ہو۔ اسی طرح وہ دیوبندی بھی کافر کلامی ہو گا جو کسی ضروری دینی کا مفسر ومتعین انکار کرتا ہو، اورکفر کلامی میں ملوث ہو۔واضح رہے کہ ضروری دینی کا غیر مفسر انکار کفر فقہی ہے،جس کو متکلمین کفر لزومی کہتے ہیں۔وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم دوم: ”اور اگر ایسے عقائد خود نہیں رکھتا،مگر کبرائے وہابیہ یامجتہدین روافض خذلہم اللہ تعالیٰ کہ وہ عقائد رکھتے ہیں، انھیں امام وپیشوا یامسلمان ہی مانتا ہے تو بھی یقینا اجماعا خود کافر ہے کہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے یونہی ان کے منکر کو کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔ وجیز امام کردری ودرمختار وشفائے امام قاضی عیاض وغیرہا میں ہے:واللفظ للشفاء مختصرًا:اجمع العلماء ان من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔ شفاء کے الفاظ اختصارًا یہ ہیں:علما کا اجماع ہے کہ جو اس کے کفر وعذاب میں شک کرے وہ کافرہے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:378-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اس غیر مقلد وہابی کو کافرکلامی کہا گیاہے جو خود کفری عقیدہ نہ رکھتا ہو، لیکن کفری عقیدہ رکھنے والوں کو مومن مانتا ہو،جیسے اکابر ین وہابیہ ختم نبوت کے انکار کے سبب کافر ہوئے۔ اسی طرح وہ دیوبندی بھی کافرکلامی ہوگا جوکفریہ عقیدہ رکھنے والوں کومومن مانتا ہے۔ کفری عقیدہ سے کفر کلامی کا عقیدہ مراد ہے۔ کفر فقہی والے عقائد کا ذکر قسم سوم میں ہے۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم سوم: ”اور اگرا س سے بھی خالی ہے۔ ایسے عقائد والوں کو اگرچہ اس کے پیشوایانِ طائفہ ہوں، صاف صاف کافر مانتا ہے(اگرچہ بد مذہبوں سے اس کی توقع بہت ہی ضعیف اور تجربہ اس کے خلاف پر شاہد قوی ہے)تو اب تیسرا درجہ کفریات لزومیہ کا آئے گا کہ ان طوائف ضالہ کے عقائد باطلہ میں بکثرت ہیں جن کا شافی ووافی بیان فقیر کے رسالہ:الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوھابیۃ(۲۱۳۱ھ)میں ہے اور بقدر کافی رسالہ: سل السیوف الھندیہ علی کفریات باباالنجدیۃ (۲۱۳۱ھ)میں مذکور۔ اور اگرچہ نہ ہو تو تقلید ائمہ کو شرک اور مقلدین کو مشرک کہنا ان حضرات کا مشہور ومعروف عقیدہ ضلالت ہے۔ یونہی معاملات انبیا واولیا واموات واحیاکے متعلق صدہا باتوں میں ادنیٰ ادنیٰ بات ممنوع یا مکروہ،بلکہ مباحات ومستحبات پر جا بجا حکم شرک لگادینا خاص اصل الاصول وہابیت ہے جن سے ان کے دفاتر بھرے پڑے ہیں۔ کیا یہ امور مخفی ومستور ہیں۔کیا ان کی کتابوں، زبانوں،رسالوں، بیانوں میں کچھ کمی کے ساتھ مذکور ہیں۔ کیا ہر سنی عالم وعامی اس سے آگاہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو موحد اور مسلمانوں کو معاذاللہ مشرک کہتے ہیں۔ آج سے نہیں شروع سے ان کا خلاصہ اعتقاد یہی ہے کہ جو وہابی نہ ہو، سب مشرک، ردالمحتار میں اسی گروہ وہابیہ کے بیان میں ہے: (اعتقدوا انھم ھم المسلمون-وان من خالف اعتقادھم مشرکون) ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہی مسلمان ہیں او ر جو عقیدہ میں ان کے خلاف ہو وہ مشرک ہے۔ (ت) فقیر نے رسالہ: النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید(۵۰۳۱ھ)میں واضح کیا کہ خاص مسئلہ تقلید میں ان کے مذہب پر گیارہ سو برس کے ائمہ دین وعلما ئے کاملین واولیائے عارفین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین معاذ اللہ سب مشرکین قرار پاتے ہیں، خصوصًا وہ جماہیر ائمہ کرام وسادات اسلام وعلمائے اعلام جو تقلید شخصی پر سخت شدید تاکید فرماتے اورا س کے خلاف کو منکر وشنیع وباطل وفظیع بتاتے رہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص378-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں غیر مقلدوہابیہ کی تیسری قسم کا بیان ہے۔یہ وہ وہابیہ ہیں جو نہ کفرکلامی کا عقیدہ رکھتے ہوں،نہ ہی کسی کفرکلامی کاعقیدہ رکھنے والے کو مومن مانتے ہوں،بلکہ کفرکلامی کے عقیدہ والے کو صاف لفظوں میں کافر کہتے ہوں،گرچہ وہ ان کے پیشو ا ہوں۔ایسے وہابیہ پر صرف لزوم کفر کا حکم ہوگا،یعنی ایسے لوگ کافر فقہی ہوں گے،کیوں کہ وہابیہ کے عقائد میں کفر کلامی کے علاوہ بھی بہت سے فقہی کفریات ہیں۔ اس نے کفر کلامی کا عقیدہ نہیں رکھا اور کفرکلامی کا اعتقادرکھنے والے کو مومن نہیں مانا، لیکن کفر فقہی کا انکار نہیں کیا،یا کفر فقہی کا انکار تو کیا،لیکن اس اعتقادوالے کو کافر فقہی نہیں مانا تو وہ بھی کافر فقہی ہوگا۔ جب کفر فقہی کا انکار کردے اور اس کے قائلین کوکافر فقہی مان لے، گرچہ اس کے پیشوا ہوں تواب اس پر کفرفقہی کا حکم بھی عائد نہیں ہوگا۔ قسم سوم کی مزید تفصیلات درج ذیل ہیں: ”پھر یہ بھی ان کے صرف ایک مسئلہ ترک تقلید کی رو سے ہے۔ باقی مسائل متعلقہ انبیاواولیا وغیرھم میں ان کے شرک کی اونچی اڑانیں دیکھئے۔فقیر نے رسالہ: اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ میں کلام الٰہی کی ساٹھ آیتوں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تین سو حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ ان کے مذہب نامہذب پر نہ صرف امت مرحومہ، بلکہ انبیائے کرام وملائکہ عظام وخود حضور پر نور سید الانام علیہ افضل الصلوٰ ۃ والسلام حتی کہ خود رب العزۃ جل وعلا تک کوئی بھی شرک سے محفوظ نہیں:ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ پھر ایسے مذہب ناپاک کے کفریات واضحہ ہونے میں کون مسلمان تامل کر سکتا ہے، پھر یہ عقائد باطلہ و مقالات زائغہ جب ان حضرات کے اصول مذہب ہیں تو کسی وہابی صاحب کا ان سے خالی ہونا کیوں کر معقول۔یہ ایسا ہو گا جس طرح کچھ روافض کو کہا جائے، تبرا وتفضیل سے پاک ہیں۔ اور بالفرض تسلیم بھی کر لیں کہ کوئی وہابی صاحب کسی جگہ کسی مصلحت سے ان تمام عقائد مردودہ و اقوال مطرودہ سے تحاشی بھی کریں، یا بفرض غلط فی الواقع ان سے خالی ہوں تو یہ کیوں کر متصور کہ ان کے اگلے پچھلے چھوٹے بڑے مصنف مؤلف واعظ مکلب نجدی، دہلوی، بنگالی،بھوپالی وغیرھم جن کے کلام میں ان اباطیل کی تصریحات ہیں، یہ صاحب ان سب کے کفر یا اقل درجہ لزوم کفر کا اقرار کریں۔ کیا دنیا میں کوئی وہابی ایسا نکلے گا کہ اپنے اگلے پچھلوں پیشواؤں ہم مذہبوں سب کے کفر و لزوم کفر کا مقر ہو،او ر جتنے احکا م باطلہ سے کتاب التوحید و تقویۃ الایمان و صراط مستقیم و تنویر العینین و تصانیف بھوپالی و سورج گڑھی و بٹالوی وغیرھم میں مسلمانوں پر حکم شرک لگا یا جو معاذ اللہ خدا و رسول وانبیا و ملائکہ سب تک پہنچا۔ان سب کو کفر کہہ دے،حاش للہ ہر گز نہیں، بلکہ قطعاً انھیں اچھا جانتے،امام وپیشوا وصلحائے علما مانتے،اور ان کے کلمات و اقوال کو با معنی و مقبول سمجھتے،اور ان پر رضا رکھتے ہیں اور خودکفریا ت بکنا،یا کفریا ت پر راضی ہونا، برا نہ جاننا، ان کے لیے معنی صحیح ماننا سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے ان امور کے بیان میں جو بالاتفاق کفر ہیں, نقل فرمایا: (من تلفظ بلفظ کفر یکفر وکذا کل من ضحک او استحسنہ او رضی بہ یکفر) جس نے کلمہ کفر یہ بولا اس کو کافر قرار دیا جائے گا،یونہی جس نے اس کلمہ کفر پر ہنسی کی یا اس کی تحسین کی اور اس پر راضی ہوا ا س کو بھی کافر قرار دیا جائے گا۔(ت) بحرالرائق میں ہے:من حسن کلام اھل الاھواء وقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفر المحسن۔ جس نے بے دینی کی بات کو سراہا، یا بامقصد قرار دیا،یااس کے معنی کو صحیح قرار دیا تو اگر یہ کلمہ کفر ہو تو اس کاقائل کافر ہوگا اورا س کی تحسین کرنے والا بھی۔(ت) تو دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسانہ ہوگا جس پرفقہائے کرام کے ارشادات سے کفرلازم نہ ہو، او ر نکاح کا جواز عدم جواز نہیں،مگر ایک مسئلہ فقہی،تو یہاں حکم فقہا یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلا جائز نہیں۔خواہ مرد وہابی ہو،یاعورت وہابیہ اور مرد سنی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے،اسے کافرنہیں کہتے،مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے۔ دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے،مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی،یہاں مانع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم توا ن سے مناکحت زنا ہے تو یہاں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔ للہ انصاف کسی سنی صحیح العقیدہ فقہائے کرام کا قلب سلیم گوارا کرے گا کہ اس کی کوئی عزیزہ کریمہ ایسی بلا میں مبتلا ہوجسے فقہائے کرام عمر بھر کا زنا بتائیں۔تکفیر سے سکوت زبان کے لیے احتیاط تھی اور اس نکاح سے احتراز فرج کے واسطے احتیاط ہے۔ یہ کون سی شرع کہ ز بان کے باب میں احتیاط کیجئے اور فرج کے بارے میں بے احتیاطی۔ انصاف کیجئے تو بنظر واقع حکم اسی قدر سے منقح ہولیا کہ نفس الامر میں کوئی وہابی ان خرافات سے خالی نہ نکلے گا اور احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیر واقعیہ کا۔بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر۔بلکہ انھوں نے تصریح کی ہے کہ فقہی احکام کا مدار غالب امور بنتے ہیں،نادر امور پیش نظرنہیں ہوتے۔(ت) (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص382-381-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں خط کشیدہ عبارتوں پر توجہ دیں۔منقولہ عبارت میں ان غیر مقلدوہابیہ کا ذکر ہے جوکسی ضروری دینی کے منکر نہ ہوں،نہ ہی ضروری دینی کے کسی منکرکو مومن مانتے ہوں۔کفر کلامی کے علاوہ وہابی مذہب میں بہت سے کفریات فقہیہ ہیں۔ (۱)ا ب یہ شخص اگر ان فقہی کفریات کومانتا ہے تو کافر فقہی۔(۲)اگر لوگوں کے سامنے ان فقہی کفریات کا انکار کرتا ہے، (۳) یا ان فقہی کفریات کو حقیقت میں نہیں مانتا ہے تو بھی اپنے رہنماؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی تو نہیں مانتا ہو گا،بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ ان اقوال کو قابل تاویل مانتا ہے،اوران عبارتوں کے صحیح معانی مانتا ہے اور وہاں پر لازم آنے والے کفر کا نہ اقرار کرتا ہے،نہ ہی اپنے پیشواؤں کوکافر فقہی مانتا ہے تو یہ بھی کافر فقہی ہوا۔ فقہی احکا م کا مدار اکثری احوال پر ہوتا ہے۔اسی کا ذکر آخرمیں اس طرح ہے۔ ”احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیرواقعیہ کا:بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر“۔ کفریات فقہیہ سے خالی ہونے کی دوصورتیں ہیں: (۱)ایک یہ کہ ان کفری فقہیات کوجانتا ہو، لیکن مانتا نہ ہو۔ (۲)دوسری صورت یہ ہے کہ ان فقہی کفریات کو جانتا ہی نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں پر بھی کفرفقہی کاحکم عائد ہوگا، کیوں کہ گرچہ وہ شخص ان کفریات کونہیں جانتا یانہیں مانتا ہے،لیکن اس کے مذہبی پیشواؤں کی کتابوں میں وہ کفریات فقہیہ موجود ہیں،اورہروہابی ان کتابوں کواور ان کے مشمولات کو صحیح مانتا ہے۔جب وہ ان کتابوں کے مشمولات کو نہ ماننے کی صراحت کردے اور ایسے قائلین کو کافر فقہی مان لے،تب وہ کافر فقہی نہیں ہوگا۔اس کابیان قسم چہارم میں ہے۔ اسی طرح وہ دیابنہ جو کسی ضروری دینی کے منکر نہ ہوں،نہ ہی ضروری دینی کے کسی منکرکو مومن مانتے ہوں۔کفر کلامی کے علاوہ دیوبندی مذہب میں بہت سے کفریات فقہیہ ہیں۔ا ب یہ شخص اگر ان فقہی کفریات کو مانتا ہے تو کافر فقہی۔ اگر ان فقہی کفریات کا انکار کرتا ہے،یا ان فقہی کفریات سے لاعلم ہے تو بھی اپنے رہنماؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی تو نہیں مانتا ہوگا،بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ ان اقوال کو قابل تاویل مانتا ہے، اور ان عبارتوں کے صحیح معانی مانتا ہے اور وہاں پر لازم آنے والے کفر کا نہ اقرار کرتا ہے،نہ ہی اپنے پیشواؤں کو کافر فقہی مانتا ہے تو یہ بھی کافر فقہی ہوا۔ کافر فقہی ہونے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں،ان پر غور کیا جائے۔ان میں تیسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ ان فقہی کفریات سے لاعلم ہوتو بھی وہ کافر فقہی ہوگا۔اس کا سبب بھی منقولہ عبارت میں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاکہ ان کفریات فقہیہ کے باوجود اپنے پیشواؤں کوکافر فقہی نہیں مانتا ہے،نہ ہی ان عبارتوں کوغلط کہتا ہے،بلکہ قابل تاویل مانتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ متکلمین کافر فقہی کو گمراہ کہتے ہیں تو تیسرا اور چوتھا طبقہ متکلمین کے یہاں گمراہ ہوگا۔فقہا کے یہاں تیسرا طبقہ کافر فقہی ہوگا۔ گمراہ محض (جوگمراہ کافر فقہی وکافر کلامی نہ ہو)اور کافر فقہی کے احکام میں کچھ فرق ہے، جیسے فاسق غیر معلن اور فاسق معلن کے احکام میں کچھ فرق ہے۔ کفر فقہی کی تبلیغ اور دیابنہ: بہت سے امور کفرفقہی ہیں اور دیابنہ علی الاعلان اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ (1)جوبھی دیوبندی ہوگا،وہ اپنے بزرگوں کی کتابوں کو صحیح مانتا ہوگا۔ان کتابوں میں کفرفقہی وکفر کلامی موجودہے۔ایسی صورت میں وہ لزومی طورپر کفر یات فقہیہ وکفریات کلا میہ کا بھی معتقد ہوگا۔ اس لزوم کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔ امام اہل سنت نے الکوکبۃ الشہابیہ میں رقم فرمایا: ”یہ نمونہ کفریات امام الطائفہ تھا۔اتباع واذناب کہ اس کے عقائد کوصحیح وحق جانتے،اور اسے امام وپیشوا مانتے ہیں،لزوم کفر سے کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں“۔(الکوکبۃ الشہابیہ:کفر 69ص229-فتاویٰ رضویہ:جلد پانزدہم) (2)دیابنہ اور وہابیہ اعلانیہ اپنی تقریر وتحریر میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر قادر ہے،ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بندوں کی قدرت سے کم ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ کوجھوٹ یا کسی بھی عیب پر قاد ر ماننا کفر فقہی ہے۔(سبحان السبوح) (3)دیابنہ اور وہابیہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ نبی کو علم غیب نہیں ہوتا۔ نبی کو پیٹھ پیچھے کا علم نہیں۔ اس سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے علم غیب کا انکار ہوجاتا ہے اور یہ کفر فقہی ہے۔ اگر من کل الوجوہ علم غیب کا انکار کردیں تو تکذیب قرآن کریم اور ضروری دینی کا انکار اورکفرکلامی ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:ص 36-رضا اکیڈمی ممبئ) (4)حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے بڑے بھائی کی طرح مانتے ہیں۔یہ یہ بھی کفر فقہی ہے۔اپنے جیسا بشر کہتے ہیں۔یہ کفار کا طریقہ ہے۔یہ رتبہ گھٹانا ہے۔ (5)جومومن کو مشرک کہے،وہ کافر فقہی ہے۔وہابیہ اور دیابنہ معمولات اہل سنت وجماعت کو شرک کہتے ہیں تو اس اعتبارسے مومن کومشرک کہنا لازم آیا۔یہ بھی کفر فقہی ہے۔ یارسول اللہ کہنا شرک،میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منانا شرک،روضہ نبوی کی زیارت شرک،روضہ نبوی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا شرک،انبیاواولیاسے مددطلب کرنا شرک، مصیبت کے وقت ان کو پکارنا شرک،چادر چڑھانا شرک،فاتحہ ونیاز شرک،قبروں کی زیارت شرک۔وہابیہ اور دیابنہ کے یہاں شرک کی لمبی فہرست ہے۔ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رسالہ:الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد میں وہابیہ اور دیابنہ کے دوتیس کفریات کو شمار کرایا ہے،جن میں چند کے علاوہ سب کفر فقہی ہیں۔اسی کی شرح کشف ضلال دیوبند میں بڑے بھائی کہنے کو کفر فقہی بتایا گیا ہے۔(ص17:اعلی حضرت نیٹ ورک) الکوکبۃ الشہابیہ میں کفرنمبر:70میں مومن کومشرک کہنے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ منقولہ عبارت میں درج ذیل عبارت سے یہی مرادہے کہ وہابیہ معمولات اہل سنت کو شرک ماننے کے سبب کافر فقہی ہیں،کیوں کہ اس سے مومنین کا کافرہونا لازم آتا ہے۔ ”باقی مسائل متعلقہ انبیاواولیا وغیرھم میں ان کے شرک کی اونچی اڑانیں دیکھئے“۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم چہارم: ”اور اگراس سے تجاوز کرکے کوئی وہابی ایسا فرض کیجئے جوخود بھی ان تمام کفریات سے خالی ہو،اور ان کے قائلین جملہ وہابیہ سابقین ولاحقین سب کو گمراہ وبدمذہب مانتا، بلکہ بالفرض قائلان کفریات مانتا اور لازم الکفر ہی جانتا ہو،اس کی وہابیت صرف اس قدر ہو کہ باوصف عامیت تقلید ضروری نہ جانے اور بے صلاحیت اجتہاد پیروی مجتہدین چھوڑ کر خود قرآن وحدیث سے اخذ احکام روا مانے تو اس قدرمیں شک نہیں کہ یہ فرضی شخص بھی آیہ کریمہ قطعیہ ((فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون))(اگر یہ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علما) سے پوچھو۔ت)،اور اجماع قطعی تمام ائمہ سلف کا مخالف ہے۔ یہ اگر بطور فقہا لزوم کفر سے بچ بھی گیا تو خارق اجماع ومتبع غیر سبیل المومنین وگمراہ وبددین ہونے میں کلام نہیں ہوسکتا،جس طرح متکلمین کے نزدیک دو قسم پیشین کافر بالیقین کے سوا باقی جمیع اقسام کے وہابیہ“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص383-382-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالاعبارت میں غیر مقلد وہابیہ کی چوتھی قسم کا بیان ہے،یعنی جو غیر مقلدوہابی ایسا کوئی عقیدہ نہ رکھتا ہوجوکفر کلامی یا کفر فقہی ہو۔ اسی طرح صراحت کے ساتھ یعنی نام بہ نام کافر کلامی کوکافر کلامی اور کافر فقہی کو کافر فقہی مانتا ہوتو اس کے اندرصرف تقلید کو ضروری نہ سمجھنے اور بلاقوت اجتہاد خودسے اجتہاد کرنے کا عیب پایا گیا۔تقلید پراجماع ہے، اوریہ شخص اجماع مومنین کے انکار کے سبب گمراہ وبددین ہے۔کافر کلامی یا کافر فقہی نہیں۔ اسی طرح جو دیوبندی ایسا کوئی عقیدہ نہ رکھتا ہوجوکفر کلامی یا کفر فقہی ہو۔اسی طرح صراحت کے ساتھ یعنی نام بہ نام کافر کلامی کوکافر کلامی اور کافر فقہی کو کافر فقہی مانتا ہوتو اس کے اندرصرف شعار اہل سنت یعنی فاتحہ ونیاز،میلاد وعرس اور سلام وقیام وغیرہ امورمستحبہ کو بدعت اور ناجائز کہنے کا عیب پایا گیا۔ یہ شخص شعاراہل سنت کے انکاراورشعاردیوبندیت کواختیارکرنے کے سبب گمراہ وبدمذہب ہے۔کافر کلامی یا کافر فقہی نہیں۔ اگر ان معمولات کوناجائز کی بجائے شرک،یاسنیوں کومشرک سمجھے تو یہ بھی کافر فقہی ہو گا۔مومن کومشرک سمجھنے کے سبب کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔ جو لوگ محض نمازوروزہ کی تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں،گر چہ وہ دیابنہ کے کفر وضلالت سے نا آشنا ہو ں،لیکن وہ سلام وقیام،میلادوعرس،نیازوفاتحہ وغیرہ مستحب وجائز امور کو بدعت اور غلط کہنے لگتے ہیں، ان امورکو غلط اوربدعت کہنا وہابیوں کا شعار ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم(ص:170 154-185-) شعار کفر اختیارکرنے والا کافر مانا جاتا ہے،اور کسی مرتدفرقہ یا گمراہ فرقہ کے شعار کو اپنا نے والا گمراہ مانا جاتاہے۔ الحاصل وہ دیوبندی جوکسی ضروری دینی کا منکر نہیں اور اس کو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کا علم نہیں،اور اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ علمائے عرب وعجم نے اشخاص اربعہ کو کافر قرار دیا ہے،ایسے لوگ کافر کلامی نہیں۔احتمال کے سبب کفر کلامی کا حکم معدوم ہوجاتا ہے۔ اسی احتمال کا ذکر کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے قسم سوم کے بیان رقم فرمایا تھا: ”ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے،اسے کافرنہیں کہتے،مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے۔دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے،مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی،یہاں مانع نکاح ہوگی“۔ کفر فقہی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کفرفقہی کا معتقد نہ ہو،یا اس مذہب کے فقہی کفریات سے ناآشنا ہو تو بھی اس پر کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا،کیوں کہ عام طورپرکوئی بدمذہب اپنے مذہب کے پیشواؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی قرار نہیں دیتا،بلکہ ان کفریات کی تاویل کرتا ہے،اور ان عبارتو ں کو بامعنی قرار دیتا ہے۔ قسم ثالث پر کفرفقہی کا حکم عائد کرتے ہوئے امام اہل سنت نے رقم فرمایاتھا: ”احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیرواقعیہ کا:بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر“۔ ہاں،اگر وہ صراحت کے ساتھ ان فقہی کفریات کے قائلین کو کافرفقہی مانتا ہے اوران کفریات فقہیہ کونہیں مانتا ہے تو محض شعاربدمذہبیت اختیار کرنے کے سبب گمراہ وبدمذہب ہوگا۔ کافرفقہی یاکافر کلامی نہیں ہوگا۔ بفضلہ تعالیٰ چاروں طبقات کا واضح حکم بیان ہوگیا،تاہم کوئی سوال ہو تو پیش کریں۔ اسی طرح چارطبقات دیگرمرتدفرقے میں ہوسکتے ہیں۔چوں کہ وہابیہ اور دیوبندیہ کی طرح فی الوقت شیعہ فرقہ پایا جاتا ہے،ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے چار طبقات کا بیان ہوگا۔ عہد حاضر کے روافض کافر کلامی،ماقبل کے تبرائی شیعہ کافرفقہی اورفرقہ تفضیلیہ گمراہ ہیں
-
Bitcoin & crypto currency Halal y’a haram?
محمد حسن عطاری replied to Bismillah's topic in شرعی سوال پوچھیں
Fatawa Assalam Alikum bhi... Ya Fatawa Par Click Karien Darulifta Ahlesunnat ka Fatawa Dekh Lian -
Excellence of Sayyiduna AbuBakar RadiallahAnho
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا Articles and Books
excellence-of-sayyiduna-abu-bakr-siddeeq.pdf -
ارشاد سیدنا ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ: "بُرے لوگوں کی صحبت کی نحوست سے نیک بندوں کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔" (الکواکب الدیۃ للمناوی، 2/86)
-
کفار کے کسی کام کو اچھا سمجھنا کیسا؟
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
ہمارے مشائخ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے کافروں کے کسی کام کو اچھا سمجھا تو وہ کافر ہوگیا انھوں نے یہاں تك شدت اختیار فرمائی کہ اگر کسی شخص نے(آتش پرستوں کے بارے میں کہا کہ ان کا طعام کھانے کے وقت خاموش رہنا اچھی بات ہے اور اسی طرح ایام ماہواری میں عورت کے پاس نہ لیٹنا عمدہ بات ہے تو وہ کافر ہے،(یعنی اہل کفر کی بات کو بھی اچھا کہنا یا سمجھنا خالص اسلام میں موجب کفر ہے)۔ -
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔ *بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے ،لیکن تنہائی سے پریشان ہوجانے کااندیشہ ہے،اس لیے اچھی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت ہے...*
-
جب اَذان سُنے، تو جواب دینے کا حکم ہے، یعنی مؤذن جو کلمہ کہے، اس کے بعد سُننے والا بھی وہی کلمہ کہے، مگر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کہے، بلکہ اتنا لفظ اور ملا لے، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ۔ *📚(بہار شریعت جلد1 حصہ3 مسئلہ54)* *📚( ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، جلد2، صفہ81۔)* *📚(’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني، جلد1، صفہ57۔)*
-
تبلیغی جماعت کسے کہتے ہیں اور ان کا عقیدہ کیا ہے ؟
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی دیوبندی
تبلیغی جماعت وہابی دیوبندی ہی کی ایک شاخ ہے، اس کا بانی *مولوی الیاس کاندھلوی* ہے اس کی جماعت کا مقصد صرف *اشرف علی تھانوی* اور *رشید احمد گنگوہی* وغیرہ کی کفری تعلیم کی نشرواشاعت ہے اور مسلمانانِ اہلسنت کو وہابی بناناہے۔ لیکن اس جماعت کی مبلغین سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینے کیلئے یہ کہا کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا یہ طریقہ انبیاءاور صحابہ کا طریقہ ہے۔ یہ ان کا صریح جھوٹ اور نہایت شرمناک فریب ہے۔ اُن کے عقائد وہی ہیں جو اشرف علی تھانوی کے تھے۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد اول، ص۴٣، تبلیغی جماعت، ص١٢) -
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
-
Kalam Maulana Hassan Raza Khan - Brother of Ahla Hazrat
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا شان اعلی حضرت
*🍂🍃🌹Beautiful Kalam🌹🍃🍂* مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے *لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے* *تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے* *تری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے* *بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہے* *تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے* *وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہے* *دَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے* *منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہے* *مشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے* *تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کا* *تمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے* *فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوۂ عارض* *ضیاے طالعِ بدر اُن کا اَبروے ہلالی ہے* *وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپنا* *کہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے* *سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلاؤں کو* *اِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے* *نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیں* *مژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے* *فقیرو بے نواؤ اپنی اپنی جھولیاں بھر لو* *کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے* *تجھی کو خلعتِ یکتائیِ عالم ملا حق سے* *ترے ہی جسم پہ موزوں قباے بے مثالی ہے* *نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے* *نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے* *بڑھے کیونکر نہ پھر شکل ہلال اسلام کی رونق* *ہلالِ آسمانِ دیں تری تیغِ ہلالی ہے* *فقط اتنا سبب ہے اِنعقادِ بزمِ محشر کا* *کہ ُان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے* *خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا* *مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے* *اُتر سکتی نہیں تصویر بھی حسنِ سراپا کی* *کچھ اس درجہ ترقی پر تمہاری بے مثالی ہے* *نہیں محشر میں جس کو دسترس آقا کے دامن تک* *بھرے بازار میں اِس بے نوا کا ہاتھ خالی ہے* *نہ کیوں ہو اِتحادِ منزلت مکہ مدینہ میں* *وہ بستی ہے نبی والی تو یہ اﷲ والی ہے* *شرف مکہ کی بستی کو ملا طیبہ کی بستی سے* *نبی والی ہی کے صدقے میں وہ اﷲ والی ہے* *وہی والی وہی آقا وہی وارث وہی مولیٰ* *میں اُن کے صدقے جاؤں اور میرا کون والی ہے* *پکار اے جانِ عیسیٰ سن لو اپنے خستہ حالوں کی* *مرض نے درد مندوں کی غضب میں جان ڈالی ہے* *مرادوں سے تمہیں دامن بھرو گے نامرادوں کے* *غریبوں بیکسوں کا اور پیارے کون والی ہے* *ہمیشہ تم کرم کرتے ہو بگڑے حال والوں پر* *بگڑ کر میری حالت نے مری بگڑی بنا لی ہے* *تمہارے دَر تمہارے آستاں سے میں کہاں جاؤں* *نہ کوئی مجھ سا بیکس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے* *حسنؔ کا درد دُکھ موقوف فرما کر بحالی *تمہارے ہاتھ میں دنیا کی موقوفی بحالی ہے* -
01Para01.mp3
-
فتاوی رضویہ شریف - جلد اول تخریج شدہ پارٹ 2
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
fatawa-razawiyya-jild-1-part-2.pdf -
فتاوی رضویہ شریف - جلد اول تخریج شدہ
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتاوی اور شرعی مسائل کا حل
fatawa-razawiyya-jild-1-part-1.pdf -
آپ ﷺ نے یا رسول اللہ ﷺ پکارنے کی تعلیم دی
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا فتنہ وہابی دیوبندی
-
-
Quran Pak By Maktab Tul Madina Dawateislami بے وضو قرآن پاک نہ چھوئیں قرآن پاک سولہ لائن والا ( مکتبة المدینہ) .pdf
-
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک جھوٹی روایت
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا شخصیات اسلام
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک جھوٹی روایت سیدنا امام حسن و حسین اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: *اے ہمارے غلام کے بیٹے!* ان الفاظ کی وجہ سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رنجیدہ ہوئے تو اپنے والد محترم کی بارگاہ میں بطورِ شکایت عرض کی کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے مجھے غلام کا بیٹا کہا ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: *امام حسین رضی اللہ عنہ سےیہ بات لکھوا کر لے آؤ تاکہ جب میں فوت ہو جاؤں تو اس کاغذ کو میرے کفن میں رکھ دینا۔* *اس روایت کوکئی خطباء نے بیان کیا ہے جبکہ اس کا کوئی بھی مستند حوالہ موجود نہیں ہے۔۔۔ جھوٹی روایت میں اگرچہ کتنی ہی محبت کا درس کیوں نہ ہو لیکن ہے تو من گھڑت۔ اس لیے علماء کرام و خطباء عظام کا حق بنتا ہے کہ مستند روایات ہی عوام الناس تک پہنچائی جائیں۔* یہ واقعہ اہل تشیع کی کتاب چودہ ستارے از نجم الحسن کراروی کے صفحہ 226 پر موجود ہے۔۔۔ اس واقعہ کا کوئی مستند حوالہ ملے تو ضرور راہنمائی کی جائے تاکہ اپنی اصلاح ممکن ہو۔ -
Kalam Ahla Hazrat - Ankien Roo Roo Ka Sujane Wale Lyrics
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا شان اعلی حضرت
*🍂🍃🌹Kalam-e-Raza🌹🍃🍂* *آنکھیں رو رو کے سُجانے والے* *جانے والے نہیں آنے والے* *کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے* *ارے او چھاؤنی چھانے والے* *ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے* *دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے* *ارے بد فَال بُری ہوتی ہے* *دیس کا جنگلا سُنانے والے* *سُن لیں اَعدا میں بگڑنے کا نہیں* *وہ سلامت ہیں بنانے والے* *آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام* *او درِ یار کے جانے والے* *پھر نہ کروٹ لی مدینہ کی طرف* *ارے چل جُھوٹے بہانے والے* *نفس میں خاک ہوا تو نہ مِٹا* *ہے مِری جان کے کھانے والے* *جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو!* *طیبہ سے خُلد میں آنے والے* *نِیم جلوے میں دو عَالم گلزار* *واہ وا رنگ جمانے والے* *حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا* *کہتے ہیں اگلے زمانے والے* *وہی دُھوم ان کی ہے ما شآء اللہ* *مِٹ گئے آپ مِٹانے والے* *لبِ سیراب کا صَدقہ پانی* *اے لگی دل کی بُجھانے والے* *ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں* *راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے* *ہو گیا دَھک سے کلیجَا میرا* *ہائے رُخصت کی سُنانے والے* *خلق تو کیا کہ ہیں خالق کو عزیز* *کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے* *کشتۂ دشت حرم جنّت کی* *کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے* *کیوں رضاؔ آج گلی سُونی ہے* *اُٹھ مِرے دُھوم مچانے والے* -
. تفسیر جلالین کو پڑھنے کا طریقہ درس نظامی کے نصاب میں ایک تفسیر کی کتاب بنام " *تفسیر جلالین*" شامل ہے۔ اس تفسیر کو پڑھنے کے بعد طالب علم اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کو قرآن پاک کے کلمات کے معنی مرادی سمجھ آجاتے ہیں۔ اور اس کو کچھ کلمات کی تحقیق کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ 👈 دونوں مفسِّرین کرام رحمھما اللہ نے ان امور کا لحاظ کیا ہے۔ *1*:- کبھی الفاظ کا لغوی معنی *2*:- کبھی ترکیب نحوی *3*:- کبھی مرادی معنی *4*:- کبھی صیغہ کی تعلیل *5*:- کبھی اعتراض کا جواب *6*:- کبھی شانِ نزول *7*:- کبھی مختف قراءتیں وغیرہ وغیرہ بیان کریں گیں۔ 👈 تفسیر جلالین کو ایک پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ *سب سے پہلے مشکل لفظوں کے معانی کاپی پہ نوٹ کریں اور ان کو زبانی یاد کریں۔ پھر اغراض مفسّر زبانی یاد کر لیں۔ اب اس کے بعد کسی طالب علم کے ساتھ بیٹھ کر پڑھتے جائیں اور اغراض کی تعیین کرتے جائیں کہ یہاں پہ مفسر کی کونسی غرض مراد ہے*۔ 👈 اس طرح تیاری کرکے درجے میں استاذ صاحب کے سامنے بیان کریں۔ پھر اس وقت نوٹ کریں کہ میں نے کہاں غلطی کی ہے۔ جہاں پہ غلطی ہو تو وہاں پہ استاذ محترم سے مئودبانہ عرض کریں کہ یا سیدی میں نے اس کو یہاں پہ یہ بنایا تھا اور آپ نے کچھ اور۔ تو اس بارے میں رہنمائ فرما دیں۔ تو اسطرح کچھ دنوں کے بعد آپ کیلئے اغراض مفسر کی تعیین کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ *بشرط اچھے انداز اور ہر دن تیار کریں*۔ تفسیر جلالین کے ساتھ کم از کم ان تین کتب کا مطالعہ کریں 1 - حاشیہ صاوی 2- حاشیہ کمالین 3- تفسیر روح البیان
-
شریعت اور طریقت بالجملہ شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایک ایک سانس ایک ایک پل ایک ایک لمحہ پر مرتے دم تک ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو اور زیادہ کہ راہ جس قدر باریک اس قدر ہادی کی زیادہ حاجت ولہذا حدیث میں آیا حضور سیدی عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: المتعبد بغیر فقه کالحمار فی الطاحون،رواہ ابونعیم فی الحلیۃ عن واثلۃ بن الاسقع رضی ﷲ تعالی عنہ۔ مفھوم: بغیر فقہ کے عبادت میں پڑنے والا ایساہے جیسا کہ چکی کھینچنے والا گدھا کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں اسے ابونعیم نے حلیہ میں واثلہ بن الاسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ترجمہ ۳۱۸ خالد بن معدان دارالکتاب العربی بیروت ۵/ ۲۱۹) امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: قصم ظھری اثنان جهل متنسم و عالم متھتك. مفھوم: دو شخصوں نے میری پیٹھ توڑ دی جاہل عابد اور عالم جو علانیہ بیباکانہ گناہوں کا ارتکاب کرے۔ *اے عزیز ! شریعت عمارت ہے اور اس کا اعتقاد بنیاد اور عمل چنائی، پھر اعمال ظاہر وہ دیوار ہیں کہ اس بنیاد پر ہوا میں چنے گئے، اور جب تعمیر اوپر بڑھ کر آسمان تک پہنچی وہ طریقت ہے۔ دیوار جتنی اونچی ہوگی نیوکی زیادہ محتاج ہوگی اور نہ صرف نیوکہ بلکہ اعلی حصہ اسفل کا بھی محتاج ہے۔ اگر دیوار نیچے سے خالی کردی جائے اوپر سے بھی گر پڑے گی،* احمق وہ جس پر شیطان نے نظر بندی کرکے اس کی چنائی آسمانوں تک دکھائی اور دل میں ڈالا کہ اب ہم توزمین کے دائرے سے اونچے گزر گئے ہمیں اس سے تعلق کی کیا حاجت ہے۔ نیو سے دیوار جدا کرلی اور نتیجہ وہ ہوا جو قرآن مجیدنے فرمایا کہ "فانھار به فی نارجهنم. مفھوم: اس کی عمارت اسے لے کر جہنم میں ڈھے پڑی، (القرآن الکریم ۹/ ۱۱۰) والعیاذ باللہ رب العالمین اسی لئے اولیائے کرام فرماتے ہیں: صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔ اسی لئے حدیث میں آیا حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: فقیه واحد اشد علی الشیطان من الف عابد، رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی ﷲ تعالی عنهما۔ ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے. اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا۔ مفھوم: بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے منہ میں لگام، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتا ہے وهم یحسبون انھم یحسنون صنعا. اور وہ اپنے جی میں سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔ (جامع الترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۳ سنن ابن ماجہ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰) (فتاوي رضوية ٢١/٥٢١)
-
کیا رافضی خارجی سید کی تعظیم واجب ہے |فتوی اعلی حضرت کی روشنی میں جواب
اس ٹاپک میں نے محمد حسن عطاری میں پوسٹ کیا اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
امام اہلسنت رحمہ اللہ کی ایک عبارت پر اعتراض کا جواب۔ 👇👇 #اعتراض :۔۔سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ کتاب غایۃ التبجیل مصنفہ شیخ سعید محمود ممدوح مترجم کے ابتداء ص۲۱ پر لکھتے ہیں: ’’امام اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خانؒ سید کی تعظیم و توقیرکے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ سید تفضیلی ہو، تب بھی اس کی تکریم و احترام لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ سید زاہد حسین شاہ صاحب صفحہ ۲۲ پر مزید اعلیٰ حضرتؒ کا فتویٰ نقل کرتے ہیں: ’’سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگرچہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں، اُن اعمال کے سبب اُس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حدِ کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اُس حالت میں بھی اُس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی، ہاں اگر اس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پہنچے جیسے رافضی، وہابی، قادیانی، نیچری وغیرہ تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی سیادت وہی نہ رہی۔‘‘ اعلی حضرت یہ مذکورہ پیش کردہ فتوی مشہور زمانہ تفضیلی قاری ظہور احمد فیضی صاحب نے اپنی کتاب مناقب الزھراءؓ ص ۲۲۴۔۲۲۵ پر بھی نقل کیا ہے۔ جواب:۔ عرض یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلویؒ کے اس فتویٰ پر اپنی رائے دینے سے بہتر ہے کہ اعلیٰ حضرتؒ کی اپنی تصریح پیش کر دی جائے تاکہ معاملہ واضح ہو جائے اور پڑھنے والے بآسانی فیصلہ کر سکیں۔ اعلیٰ حضرتؒ کا ایک دوسرا بھی فتویٰ ملاحظہ کریں: ’’مسئلہ ۸۰۹: اہلِ سنت و جماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق ؓ بعد الانبیاء علیہ السلام افضل البشر ہیں۔ زید و خالد دونوں اہلِ سادات ہیں، زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ پر فضیلت دیتا ہے اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر حضرت علیؓ کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے خود اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ #الجواب: تمام اہلِ سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبرؓ و فاروق اعظمؓ مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ ائمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علیؓ کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ فتاویٰ خلاصہ، و فتح القدیر و بحرالرائق و فتویٰ عالمگیری وغیرہ یا کتب کثیرہ میں ہے۔ اگر کوئی حضرت علیؓ کو صدیق و فاروقؓ پر فضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ غنیہ و رد المختار میں ہے۔ بدمذہب کے پیچھے نماز ہرحال میں مکروہ ہے۔ ارکانِ اربعہ میں ہے۔ ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے۔ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد۶ صفحہ۶۲۲) یہ نکتہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس فتویٰ کی تاریخ ۱۴ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ ہے۔جو کہ علامہ سیدزاہد حسین شاہ صاحب کے پیش کردہ فتویٰ سے متاخر ہے۔ قارئین کرام! آپ اعلیٰ حضرتؓ کے دونوں فتویٰ ملاحظہ کریں اور دونوں میں فرق ملاحظہ کریں اور نتیجہ پڑھنے والے پر ہے۔ مگر سید زاہد شاہ صاحب کو کم از کم اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے دونوں فتویٰ عوام الناس کے سامنے پیش کر دینے چاہئیں تھے تاکہ ساری بات واضح ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے #از_قلم_فیصل_خان_رضوی ________________________________________ امام اہلسنت رحمہ اللہ کے دونوں فتووں کو سامنے رکھ کر یہی سمجھ آتا ہے کہ امام اہلسنت رحمہ اللہ نے جو فرمایا کہ سید اگر بد مذہب بھی ہو تب بھی اس کی تعظیم ضروری ہے وہاں آپ کی مراد یہ ہے کہ اس کی توہین کرنے سے اجتناب کیا جائے نہ یہ کہ اسے عوام الناس کی نظر میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے جس سے وہ اپنی گمراہی کو رائج کرے جیسا کہ دوسرا فتویٰ دلالت کرتا ہے کہ گمراہ سید کو امام نہیں بنا سکتے۔ لہذا بغیر فتوے کا مفہوم سمجھے اپنی اٹکل عوام کے آگے بیان کرتے رہنا عوام الناس کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔