Jump to content

محمد حسن عطاری

اراکین
  • کل پوسٹس

    855
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    27

سب کچھ محمد حسن عطاری نے پوسٹ کیا

  1. سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور مثنوی شریف کا واقعہ حوالہ درج ذیل ہے انوار العلوم مترجم مثنوی شریف عالم امیری دفتر دوم صفحہ 317 تا 320 خدیجہ پبلی کیشنز لاہور
  2. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام جمال الدين ابو عبد الله محمد بن علی بن احمد بن حديدة الانصاری رحمة الله علیہ متوفٰی٧٨٣ه‍ آپ کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے ابن عبد البر رحمة الله علیہ فرماتے ہیں آپ اور آپ کے بھائی فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے اور حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : میں روز قضیہ ( بوقت صلح حدیبیہ ) حلقہ بگوش اسلام ہوا اور میں نے رسول الله ﷺ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ میں اسلام لا چکا تھا ۔ اور آپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو رسول الله ﷺ کے لیے لکھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کا استقبال انہوں نے ایک عظیم جلوس کے ساتھ کیا ۔ تو فرمایا : یہ عظیم جلوس تمہارا ہے؟ عرض کیا : ہاں یا امیر المؤمنین! فرمایا : یہ کیا خبر مجھے مل رہی ہے کہ اہل حاجات تمہارے دروازے پر پڑے ہوتے ہیں؟ کہا ہاں جی اس کے ساتھ یہ بات بھی آپ تک پہنچی ہے اور یہ صحیح ہے ۔ فرمایا : تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ عرض کیا : جناب ہم جس سر زمین میں ہیں اس میں جاسوسوں اور دشمنوں کی کثرت ہے ۔ اس میں ضروری ہے کہ شاہانہ شان و شوکت کا اظہار ہو تاکہ ان پر ھیبت و رعب طاری ہو ۔ اگر آپ حکم دیتے ہیں تو ایسا کرتا رہوں گا اور اگر منع فرماتے ہیں تو باز آجاتا ہوں ۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے سن کر فرمایا : اگر یہ ایسا ہی ہے جیسا تم نے کہا تو یہ ایک دانش مند ( معاملہ فہم ) کی رائے ہے اور اگر غلط ہے تو ایک تجربہ کار شخص کی ہوشیاری ہے ۔ عرض کیا : پھر مجھے حکم دیجئے ۔ فرمایا : نہیں نہ حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔ اس پر حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کہا : امیر المومنین! جس امتحان میں آپ نے اس جوان کو ڈالا کتنی خوبصورتی سے یہ اس امتحان سے نکلا ہے ۔ فرمایا : بہترین مقامات پر اترنے ہی کے لیے ہم نے اسے یہ ذمہ داری سونپی ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ تقریبا بیس سال تک شام کے گورنر اور بیس سال تک خلیفہ ریے ۔ امام ابو بکر الآجری رحمة الله علیہ اپنی کتاب الشریعہ میں عبد المک بن عمیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے جب سے سرکار دو عالم ﷺ کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ جب تم مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ خالد بن یزید بن صبیح سے مروی ہے وہ اپنے باپ یزید بن صبیح سے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ میں ایک روز حضور اکرم ﷺ کو وضو کروا رہا تھا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے اعضائے وضو پر پانی ڈال رہا تھا تو آپ نے میری جانب سخت گہری نظر سے دیکھا تو میں گھبرا گیا اور برتن میرے ہاتھ سے گر گیا ۔ فرمایا : اے معاویہ! اگر تو میری امت کے کسی امر کا والی بنا تو الله تعالی سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ تو اس روز سے میرے دل میں اس کی تمنا پیدا ہو گئی ۔ پس الله تعالیٰ سے التجاء ہے کہ مجھے تمہارے معاملے میں عدل کی توفیق عطا فرمائے ۔ عمرو بن یحییٰ بن سعید اموی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا ( سعید بن عمرو بن سعید بن عاص ) کو بیان کرتے سنا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ پانی کا برتن لے کر رسول الله ﷺ کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے ، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد حضرت امیر معاویہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول الله ﷺ آپ کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا : اے معاویہ! اگر تو مسلمانوں کے کسی معاملہ میں والی بنا تو الله سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ فرماتے ہیں کہ میں جان گیا کہ میں آزمایا جاؤں گا رسول الله ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے یہاں تک کہ میں والئ حکومت بن گیا ۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے فرماتے ہیں : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سرداری والا کوئی نہیں دیکھا ۔ ان سے عرض کیا گیا : کیا حضرت ابو بکر ، حضرت عمر و حضرت عثمان و حضرت علی رضی الله عنہم بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے؟ فرمایا : بلاشبہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے افضل و بہتر تھے ، لیکن حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان سب سے زیادہ سرداری والے تھے ۔ حوالہ درج ذیل ہے المصباح المضيء في كتاب النبي الامي و رسله إلى ملوك الأرض من عربي و عجمي ، لامام ابى عبد الله محمد بن علي بن احمد بن حديدة الأنصاري ، تحت " معاوية بن أبي سفيان صخر ، جلد 1 ص 167 تا 170 ، رقم : 40 ، مطبوعة عالم الكتب ، طبع ثانى ١٤٠۵ھ/۱۹۸۵ء
  3. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از ابو البیان مولانا محمد سعید احمد مجددی رحمة الله علیہ سابق خطیب اعظم داتا دربار لاھور بعض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دل سے نکالنا حوالہ درج ذیل ہے البینات شرح مکتوبات ، مولانا ابو البیان محمد سعید احمد مجددی ، تحت مکتوب : ۸۰ ، جلد 2 ص 532 تا 533 ، مطبوعه تنظیم الاسلام پبلیکیشنز ، گوجرانوالہ ٬ طبع دوم اگست ۲۰۰۸ء
  4. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از علامه حکیم محمد نجم الغنی خان نجمی رامپوری رحمة الله علیہ متوفٰی۱۳۵۱ھ حضرت معاويہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کے باب میں علمائے اہل سنت کا اختلاف ہے علمائے ماوراء النہر اور مفسرین اور فقہاء پر تمام حرکات اور لڑائیاں انکی جناب مرتضٰی رضی الله عنہ کے ساتھ خطائے اجتہادی پر حمل کرتے ہیں اور خطائے اجتہادی سے یہ مراد ہے کہ قاتلان حضرت عثمان رضی الله عنہ کی سزا ہی میں جلدی چاہتے تھے اور بعض یوں کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین علی رضی الله عنہ نے اجتہاد کیا خلافت میں اور مصیب ہوئے اجتہاد میں اور وہ اس وقت میں سب لوگوں سے خلافت کے واسطے زیادہ لائق اور حقدار تھے اور حضرت معاويہ رضی الله عنہ نے اجتہاد کیا خلافت میں اور خطاء کی اجتہاد میں اور وہ حضرت علی رضی الله عنہ کے ہوتے ہوئے خلافت کے مستحق نہ تھے اور اہل حدیث کے نزدیک وہ مرتکب کبیرہ اور باغی تھے اور اہل سنت و جماعت مرتکب کبیرہ کو قابل لعن کے نہیں جانتے اور چونکہ وہ مرد صحابی ہیں پس بوجہ صحابیت کے واجب الاحترام ہیں اسی واسطے علماء نے انکی اہانت کرنے اور انکو باغی و فاسق کہنے سے منع کیا ہے ۔ اسی لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ نے ان اشعار پر : و ان خلافیکہ داشت باحیدر ÷ در خلافت صحابی دیگر ÷ حق در انجا بدست حیدر بود ÷ جنگ با او خطائے منکر بود ÷ آن خلافت از نحالقان سپسند ÷ لیک از طعن و لعن لب بر هند ÷ گر کسے را خدا اے کرنے کرد ÷ نیست لعن من و تواش در خورد ÷ در باحسان و فضل شد ممتاز ÷ لعن عاجز بما نگر دو باز ÷ مولوی جامی کا تخطیہ کیا ہے کہ طرز بیان اس ک موجب بے ادبی کا حضرت معاويہ رضی الله عنہ کی شان میں ہے اور حضرت حسن مجتبی رضی الله عنہ کے حضرت معاويہ رضی الله عنہ کو خلافت بغرض رفع فتنۂ و فساد و قتال بین المسلمین کے اپنی خوشی کے ساتھ دیدینے اور اسپر صلح کرنے سے اسلام حضرت معاويہ رضی الله عنہ کا قطعاً ثابت ہوتا ہے پس انتہائے کار ان کا یہ ابتدئے خلافت حضرت امیر سے خلع خلافت امام حسن رضی الله عنہ تک باغی رہے اور امام حسن رضی الله عنہ نے جب انہیں حکومت سپرد کر دی تو بادشاہ بن گئے اور جو کچھ دونوں لشکر شام اور لشکر کوفہ میں بوجہ جنگ و جدل کے دونوں طرف کے آدمیوں میں سے بعض بعض کو برا کہتے اور لعنت کرتے تھے تو اس کا سبب خصومت و تعصب تھا اور منازعین میں سے یہ کسی کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ ہمارا مخالف کافر ہے اگرچہ قرابت رسول ﷺ کی رعایت اور اسکی پاسداری لازم ہے مگر نہ اس قدر جس سے دین اسلام کا کام برہم ہو جائے علاوہ اسکے قرابت داران رسول ﷺ نے اپنے اپنے دشمنوں کی تکفیر کب کی ہے جو اوروں کو کرنا چاہیے اور نفرت جو انکو مخالفین سے تھی یہ نزع اور لڑائی اور جھگڑوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی مگر ان کے ایمان و اسلام میں کسی طرح کا کلام نہ تھا پس حرمت صحبت خیر البشر اور حکمت دین پر لحاظ کر کے کسی صحابی پر لعنت نہ کرنا چاہیے ۔ حوالہ درج ذیل ہے تعلیم الایمان شرح فقہ الاکبر ، علامہ حکیم محمد نجم الغنی خان نجمی رامپوری ، تحت حضرت معاويہ رضی الله عنہ ، ص 328 تا 329 ، مطبوعة میر محمد کتب خانہ کراچی
  5. عظمت و شان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ از اسحاق بن ابراہیم بن ہانی نیشاپوری 275ھ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے کیا ایسے کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟ فرمایا اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی عزت کرنا حوالہ درج ذیل ہے مسائل امام احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 60 راویت 296 مطبوعہ الکتب اسلامی
  6. vdocuments.mx_imam-ahmad-raza-uk.pdf
  7. جب مکہ شریف کی حدیث کی لائبریری کے امین شیخ اسمائیل خلیل نے اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا فتوی پڑھا تو بہت خوش ہوئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئی لکھا کہ اللہ کی قسم اگر آپ کے فتوی امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے سامنے سے گزرتے تو بلاشبہ ان کا دل خوش ہوتا اور وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے شاگردوں میں شامل کرتے حوالہ درج ذیل ہے امام احمد رضا حز اکیڈمک اینڈ سپیرچول سروسز انگلش صفحہ 33 مطبوعہ امام مصطفی رضا ریسرچ سنٹر ڈربن ساوتھ افریقہ
  8. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لے گے پھر ایک کپڑا چادر منگوا کہ قبر پر پھیلا کر ڈال دی شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور صفحہ نمبر 103 از امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 911ھ
  9. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی۱۰۵۲ھ امام فخر الدین رازی بعضی..............از صحابہ رسول اتفاق برظلم درست نباشد امام فخر الدین رازی رحمة الله علیہ اپنی تصنیفات میں عجیب و غریب اسناد کیا کہ قرآن مجید میں الله تعالی فرماتا ہے : "آیت" حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام اور آپ کا لشکر بے خبری میں کہیں تم کو کچل نہ ڈالے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کی چیونٹیاں رافضیوں سے زیادہ سمجھدار ہیں اس لیے کہ چیونٹیوں کی ملکہ نے ان سے کہا کہ تم سب اپنے گھروں میں گھس جاؤ تاکہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کا لشکر نادانستگی اور بے شعوری میں ہمیں پامال نہ کر دے چونکہ چیونٹیوں کی ملکہ نے اسے جائز نہ جانا کہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کا لشکر جو انکے اصحاب تھے عمدا اور دانستگی میں چیونٹیوں کو پامال کر کے ان پر ظلم کر سکیں کیونکہ نبی اور انکے اصحاب سے ظلم کا صدور ممکن نہیں ہے اس لیے اس نے کہا * آیت * لیکن رافضی کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ کے اصحاب نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کا حق قصد اور عمدا پامال کر کے اہلبیت نبوی پر ظلم صریح کیا حالانکہ وہ اتنا نہیں جانتے صحابہ رسول کا ظلم پر متفق ہونا ہی جائز نہیں ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے تکمیل الایمان ( فارسى ) ، شیخ عبد الحق محدث دھلوی ، ص 140 تا 141 ، ناشر : ڈاکٹر محمد عبد الرحمن غضنفر مدیر الرحیم اکیڈمی ، کراچی ، .............................................. تكميل الايمان مترجم ، شیخ عبد الحق محدث دھلوی ، تحت " خلفاء اربعہ کی فضیلت ، ص 157 تا 158 ، مطبوعة مكتبه نبويه ، گنج بخش روڑ لاھور ، طبع ١٩٨٠ء ونکف عن ذکر الصحابہ............گوئی وی ہنوز مسلمان است اھل سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کو ہمیشہ نیک الفاظ سے یاد کرنا چاہیے ۔ بعض سب و شتم ، اعتراضات و انکار ان کی ذات پر کرنا نامناسب ہے اور ان کے معاملہ میں کسی کی بے ادبی روا نہیں رکھنی چاہیے ۔ کیونکہ ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ صحبت نے پاک فرما دیا تھا ان کے فضائل و مناقب اور درجات میں اکثر قرآنی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں ۔ جیسا کہ الله تعالی کا فرمان ہے : محمد ﷺ الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں ۔ الله ان سے راضی ، وہ الله سے راضی ۔ اور حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے ھدایت یاب ہوگے ۔ اور فرمایا : میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سے بہتر ہیں ۔ فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو دکھ دیا ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو دکھ پہنچایا تو الله تعالی عنقریب اس کا مؤاخذہ فرمائے گا ۔ صحابہ کرام کے بعض اختلافات و محاربات اور اہل بیت کے حقوق میں کوتاہی اور ان کے آداب میں کمی کی روایات ملتی ہیں ان سے اعراض کرنا ضروری ہے ۔ اور نظر انداز کر دینا چاہیے ، اور کہی کو ان کہی سنی کو ان سنی کر دینا چاہیے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ انکی محبت و صحبت یقینی ہے مگر اہل بیت کیساتھ معاملات ظنی ہیں ۔ اور یقین کی فضیلت کو چھوڑ کر ظن اور گمان کے اختلافات میں پڑنا درست نہیں ۔ ان اختلافی امور میں سے اسلامی حدود کا تعین حضرت امیر معاويہ ، حضرت عمرو بن عاص ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہم اور اس قسم کے بزرگوں کے معاملات ہیں ۔ جو شخص بھی اہل سنت و جماعت کے طریقہ کار پر عمل کرے گا اسے ان معاملات میں بغض ، طعن سے زبان کو بند رکھنا چاہیے ۔ اگرچہ بعض معاملات کو اصحاب تاریخ و سیر نے متواتر ہی لکھا کیوں نہ ہو ۔ ایسے معاملات کے مطالعہ سے اگرچہ طبیعت میں نفرت و کدورت اور دل میں نفرت پیدا ہوئے بغیر چارہ نہیں ، تاہم چشم پوشی اور کف لسان کرنا چاہیے ۔ حوالہ درج ذیل ہے ١_( تكميل الايمان ( فارسی ) ، شیخ عبد الحق محدث دھلوی ، تحت " و نكف عن ذكر الصحابة الا بخير ، ص 169 تا 170 ، ناشر : ڈاکٹر محمد عبد الرحمن غضنفر مدیر الرحیم اکیڈمی ، کراچی ، طبع ١٤٢١ه‍ .............................................. تكميل الايمان مترجم ، شیخ عبد الحق محدث دھلوی ، تحت " خلفاء اربعہ کی فضیلت ، تحت " مسلک اہل سنت و جماعت ، ص 176 تا 177 ، مطبوعة مكتبه نبويه ، گنج بخش روڑ لاھور ، طبع ١٩٨٠ء
  10. عظمت و شان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ از امام ابن حجر الھیتی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 974ھ مجتھد وقت کروڑوں حنبلیوں کے پیشواء امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا ایک شخص کہتا ہے میں سیدنا معاویہ کو کاتب وحی نہیں مانتا نہ ہی میں انکو خال المومنین سمجھتا ہوں کیونکہ معاویہ نے زبردستی تلوار اٹھائی آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ انتہائی گھٹیا قول ہے ایسی قوم سے بچا جائے گا نہ ہی انکے ساتھ مجلس اختیار کی جائے گی اور انکے اس مکروہ عمل کو لوگوں سے بیان کیا جائے گا۔۔۔ حوالہ درج ذیل ہے فتح الالہ شرح مشکوۃ للاامام ابن حجر ہتیمی جلد 10ص 665 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
  11. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو بکر محمد بن عبد الله بن محمد بن عبد الله بن احمد المعروف ابن العربی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی۵٤٣ه‍ سوال : اگر یہ کہا جائے کہ کیا صحابہ کرام میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے افضل اور کوئی آدمی نہ تھا جو خلیفہ بنایا جاتا ؟ جواب : تو ہم کہیں گے بہت تھے لیکن حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ میں چند خصلتیں جمع ہوگئیں تھیں ایک تو یہ کہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے شام اور اس کے تمام ملحقہ علاقے ان کی تحویل میں دے دیے تھے اور بلاشرکت غیر ان پر قابض تھے اور یہ اس لیے کہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے ان کی حسن سیرت کو دیکھ کر پرکھ لیا تھا ۔ اور آپ اسلامی مملکت کی حفاظت اور سرحدوں کی نگرانی بڑی اچھی طرح فرماتے تھے فوج کی تربیت اور دشمن پر غالب آنے کے ڈھنگ جانتے اور لوگوں کی سیاست اچھی طرح فرماتے تھے اور ان کی سمجھداری کے متعلق صحیح حدیث میں گواہی ملتی ہے ۔ وہ آپ کی خلافت کی شہادت ام حرام کی حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ کچھ لوگ رسول الله ﷺ کی امت میں سے بحیرہ اخضر کے وسیع سمندر میں اس طرح جہازوں پر بیٹھے ہوں گے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر بیٹھتے ہیں اور یہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوا ۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ ولایت کے مدارج مختلف ہوں ایک ولایت خلافت ہو اور ایک ولایت ملوکیت اور ولایت خلافت چار خلفاء کرام کے لیے ہو اور ولایت ملوکیت کی ابتداء حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے ہو ۔ اور الله تعالی نے حضرت داود علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے حالانکہ آپ ہر معاويہ سے بہتر ہیں ۔ فرمایا : اور الله تعالی اس کو ملک اور حکمت عطا فرمائی ۔ تو الله تعالی نے نبوت کو ملک سے تعبیر فرمایا ۔ تو تم ان احادیث کی طرف توجہ نہ کرو جن کی سندیں اور متن کمزور ہیں ۔ اور اگر حالات پر غور کرنے کا موقع مل جاتا تو الله تعالی ہی بہتر جانیں شاید جمہور کی رائے کچھ اور ہوتی لیکن حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے لیے اس طریقہ سے بیعت ہوگئی جیسے الله تعالی نے چاہا اور اس طریقہ پر ہوئی جس کا رسول الله ﷺ نے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ کی مدح فرماتے ہوئے خوش ہو کر صلح کی امید رکھتے ہوئے اظہار فرمایا تھا : کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے الله تعالی اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروا دے گا ۔ اور علماء نے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت درست ہے نہیں؟ تو یہ مسئلہ اس حد تک نہیں ہے جتنا کہ عام لوگوں نے اس کو سمجھ رکھا ہے اور ہم نے اس کو اس کے مقام پر بیان کر دیا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے العواصم من القواصم ، للقاضی ابى بكر بن العربي ، تحت " مزايا معاوية و سيرة الممتازة ، ص 137 تا 142 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع خامس ٢٠١١ء
  12. شان و عظمت حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی رحمة الله علیہ متوفی 1079ھ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمة الله علیہ کے تیسرے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی رحمة الله علیہ ہیں ۔ جن کے بارے میں مجدد الف ثانی رحمة الله علیہ نے فرمایا : میری یہ بات یاد رکھ کہ تو اپنے وقت کا قطب ہوگا ۔ اور حق تعالی نے آپ کو " عروة الوثقٰی " کا خطاب دیا ۔ ( ۱ )_حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی رحمة الله علیہ اپنے مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں کہ : ابو ذر اور ذہبی رحمہما الله نے حضرت سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما سے مرفوع روایت کی ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوم ہوگی جن کو روافض کا نام دیا جائے گا وہ اسلام سے رفض ( روگردانی و ترک ) کریں گے ۔ پس تم ان کو قتل کرو کیونکہ بیشک وہ مشرکین ہیں ۔ اور دارقطنی نے حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی رضی الله عنہ سے اور انہوں نے حضور نبی کریم صل الله تعالی علیہ والہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صل الله تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میرے بعد ایک قوم آئے گی جو بد زبان ہوگی ان کو رافضی کہا جائے گا پس اگر تو ان کو پائے تو قتل کر پس بیشک وہ مشرکین ہیں ۔ انہوں ( حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی رضی الله عنہ ) نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم ان میں کیا علامت ہوگی ؟ آپ صل الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا : وہ تیرے بارے میں ان باتوں کا ضافہ کریں گے جو تجھ میں نہیں ہیں ۔ اور سلف ( پہلے لوگوں ) پر طعن کریں گے اور اس ( دار قطنی ) نے دوسرے طریق ( سند ) سے بھی اسی کی مثل روایت کیا ہے اور اسی طرح ایک اور طریق سے بھی روایت کیا ہے اور اس روایت سے یہ الفاظ زیادہ ہیں اور وہ اپنے آپ کو ، اہل بیت کے ساتھ منسوب کریں گے حالانکہ وہ ایسے نہیں ہیں اور ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ حضرت سیدنا امیر المٶمنین ابو بکر و عمر بن خطاب رضی الله عنہم کو سب کریں گے ( برا کہیں گے ) ۔ حوالہ درج ذیل ہے مکتوبات معصومیہ مع سیرت مبارکہ ، خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی ، جلد 1 مکتوب نمبر 64 ص 168 ، مطبوعه ادارہ مجددیہ ناظم آباد کراچی ، طبع 1986 ء سرور کائنات فخر موجودات علیہ افضل الصلوات اور آپ صل الله علیہ والہ وسلم کی صحبت کی برکت سے صحابہ کرام ( رضوان الله تعالی علیہم اجمعین ) کمال درجہ کے زہد و تبتل ( مخلوق سے قطع تعلق کر کے الله تعالی کی طرف متوجہ ہونا ) توکل ، انقطاع ، ترک ، صبر قناعت اور ان کے مانند دیگر اوصافِ کمال سے موصوف ہوئے ہیں ۔ اور ان کی صورت و حقیقت ( ظاہر و باطن ) و قلب و قالب میں یہ نسبت اور کمال پورے طور پر سرایت کئے ہوئے تھا ، تمام امتیں خواہ کتنی ہی کوشش و سعی کریں اس بلند درجہ تک نہیں پہنچ سکتیں اور ان عظیم امور میں صحابہ کرام ( رضوان الله تعالی علیہم اجمعین ) کی برابری نہیں پاسکتیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے مکتوبات معصومیہ ، خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی ، مترجم صوفی نثار الحق مجددی سیفی ، جلد 2 مکتوب نمبر 34 ص 65 ، مطبوعه ادارہ مجددیہ ناظم آباد کراچی ، طبع 1986 ء _آٹھواں سوال : یہ جو شرح دیوان اور کتبِ تواریخ میں مشہور ہے کہ جب حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ نے بعض لوگوں کی عداوت کو دیکھ لیا تو پانچوں نمازوں کے بعد پانچ اشخاص پر کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ وغیرہ پر لعنت کرتے تھے ۔ اور وہ لوگ بھی اس خبر کے سننے کے بعد پانچ شخصوں پر کہ حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ و حضرت حسنین کریمین و عبد الله بن عباس و مالک اشتر رضی الله تعالی عنہم ہیں پانچوں نمازوں کے بعد لعنت کرتے تھے یہاں تک کہ خلفائے بنی امیہ میں یہ مزموم فعل ہمیشہ ( جاری ) رہا اور وہ لوگ خطبہ میں اہل بیت پر لعنت کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ حضرت سیدنا امیر المٶمنین عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ نے اس کو دور کیا اور یہ آیت " اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِا الْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ" الایة ( سورت 16 آیت 9 ) ترجمه : بیشک الله تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ۔ کو اس کی جگہ مقرر فرمایا ۔ آیا یہ ناپسندیدہ واقعہ حقیقت میں ہوا تھا یا نہیں ؟ جواب : حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ جو کہ سراپا رحمت تھے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کسی ادنی مسلمان کو لعنت کریں ، چہ جائیکہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو لعنت کریں جو کہ مدنی تاجدار صل الله علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے ، مدنی تاجدار صل الله علیہ والہ وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے اور حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی ال مرتضی کرم الله وجہہ نے ان کی اور ان کی جماعت کی شان میں فرمایا : إخواننا بغوا علینا لیسوا کفرة و لا فسوقة لما له‍م من التاویل " ترجمه : وہ ہمارے بھائی ہیں انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ، وہ نہ کافر ہیں نہ فاسق کیونکہ ان کے لیے کچھ تاویل ہے جب وہ حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ اس جماعت سے کفر و فسق کی نفی فرماتے ہیں تو وہ کسی مسلمان کو لعنت کیوں کرتے ؟ دین اسلام میں کسی شخص حتی کہ کافر فرنگ کو بھی لعنت کرنا عبارت کا کام نہیں ہے ۔ پس حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ اس لعنت کو پانچوں نمازوں کے بعد جو کہ محل ذکر و دعا ہے اپنی دشمنی کی وجہ سے ورد کیوں بناتے ، ان لوگوں نے حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ کے نفس کو جو کہ نہایت کامل فنا و اطمینان کے ساتھ متصف تھا اور انانیت و خودی سے رہائی حاصل کر چکا تھا اپنے امّاره ( سرکش ) نفسوں کی طرح جو کہ کینہ و بغض و عداوت کے ساتھ موصوف ہیں خیال کر لیا ہے کہ اس قسم کا بہتان و افترا ان حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ فنا فی الله و فنا فی محبته رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم کے اعلی درجہ تک پہنچے ہوئے تھے اور اپنی جان و مال کو سرورِ دین و دنیا صل الله علیہ والہ وسلم پر فدا کر چکے تھے وہ خدائے تعالی جلّ و علا کے دشمنوں اور سرورِ دین و دنیا صل الله علیہ والہ وسلم کے دشمنوں پر کہ جنہوں نے طرح طرح کی سختیاں اور ایذائیں سرورِ دین و دنیا صل الله علیہ والہ وسلم کو پہنچائی ہیں لعنت کرنے کو اپنا ورد کیوں نہ بناتے اور اپنے دشمنوں کو لعنت کیوں کرتے ؟ حالانکہ " لما لھم من التاویل " ان کے لیے کچھ تاویل ہے ۔ کا جملہ دشمنی کی نفی کرتا ہے اور اس بات پر دلیل ہے کہ یہ لڑائیاں اور جھگڑے عداوت و بغض کی وجہ سے نہیں تھے بلکہ تاویل و اجتہاد کی رو سے تھے جو کہ ملامت کا مقام نہیں ہیں چہ جائیکہ لعنت کا مقام ہو ، اگر کسی کو سبّ ( گالی دینا ) و لعنت کرنے میں حسنِ عبادت کا معنی ہوتے تو ابلیس لعین و ابو جہل و ابو لہب و کفارِ قریش کو جنہوں نے قسم قسم کے ظلم و ایذا رسولِ خدا صل الله علیہ والہ وسلم کو پہنچائیں اور دین متین کی طرح طرح کی اہانت کی ہے لعنت کرنا اسلام کے واجبات میں سے ہوتا ، جب یہ بات نہیں ہے تو وہ بات بھی نہیں ہے ۔ تاجدار سرور کائنات صل الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جب تو شیطان کو لعنت کرتا ہے تو وہ کہتا ہے تو نے ملعون کو لعنت کی اور جب تو اس سے الله تعالی کی پناہ مانگتا ہے تو وہ کہتا ہے تو نے میری پیٹھ توڑ دی ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان کو سبّ ( گالی ) مت کرو اور اس کے شر سے الله تعالی کی پناہ مانگو ۔ پس معلوم و واضح ہوگیا کہ یہ بات حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ پر بہتان و افترا ہے ، پس نقل کرنے والے نے جو حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ و حضرت حسنین کریمین و غیرہم رضی الله عنہم پر لعنت کرنے کو اس لعنت پر متفرع کیا ہے حضرت سیدنا معاویہ رضی الله عنہ پر افترا ہے ۔ پس یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ " آیا حقیقت میں یہ واقعہ ہوا تھا یا نہیں ؟ اگر ہوا تھا تو حضرت سیدنا معاویہ رضی الله عنہ وغیرہ پر لعنت کرنا کیوں جائز نہیں ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو کشاف کی عبارت کا محمل کیا ہوگا ۔ میں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا کیونکہ اہل سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں طعن جائز نہیں اور یہ افترا ان کے حق میں طعن ہے ، کوئی صحیح روایت بھی اس بارے میں نہیں ہے ، اہل تاريخ کا قول ثابت ہو جانے کی صورت میں اس بارے میں کیا سند ہے ، دین کا مدار اہل تاريخ کے قول پر نہیں رکھا جاسکتا ، اس جگہ حضور سیدی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ( رضی الله تعالی عنہم ) کا قول معتبر ہے نہ کہ اہل تاريخ کا قول ۔ اور کشاف کی عبارت جو کہ نقل کی ہے ، حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ یا حضرت سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کا نام اس عبارت میں لکھا ہوا نہیں ہے اور وہ عبارت ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ ان دونوں بزرگوں میں سے کسی ایک نے دوسرے پر لعنت کی ہو ، عبارت بالکل واضح ہے ، ہمارے مطلب کے ساتھ کچھ بھی تضاد نہیں رکھتی جو اس کا محمل تلاش کیا جائے ، ہاں خلفائے بنی امیہ نے کئی سال تک برسرِ منبر اہل بیت کو سب و لعن کیا اور حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ نے اس کا قلع قمع کیا ، " جزاہ الله سبحانه عنا خیر الجزاء " یعنی الله سبحانہ ان کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔ لیکن حضرت معاویہ رضی الله عنہ کا ان میں شامل ہونا ناقابل تسلیم ہے ، کس قدر قباحت ہوگی ، اگر حضرت سیدنا معاویہ رضی الله عنہ ملعون و مطعون ہوں گے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت جو ان مخالفتوں اور لڑائیوں میں ان کے ساتھ شریک تھی اور ان میں سے بعض عشرہ م بشرہ ہیں ملعون و مطعون ہوں گے اور ان اکابر رضی الله عنہم کو طعن کرنا اس نصف دین میں طعن کا موجب ہوگا جو ان کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے اور کوئی بھی مسلمان اس کو جائز قرار نہیں دیگا ۔ میرے مخدوم ! جس مسئلہ کو ہم بیان کر رہے ہیں اس میں دو مذہب ہیں : مذہب اہل سنت و جماعت و مذہب شیعہ ۔ ( ۱ )_ مذہب شیعہ خلفائے ثلاثہ و معاویہ وغیرہم رضی الله عنہم کو سبّ کرنا ( برا کہنا ) ہے ، اور وہ کہتے ہیں کہ سرور عالم صل الله علیہ والہ وسلم کے بعد چند ایک کے سوا تمام اصحابِ پیغمبر مرتد ہوگئے تھے ، ( ۲ )_اور اہل سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ سرور عالم صل الله علیہ والہ وسلم کے اصحاب رضی الله عنہم کو خوبی کے بغیر یاد نہیں کرنا چاہیے اور ( ان میں سے ) کسی ایک کے ساتھ بھی برا نہیں ہونا چاہیے ، " من احبھم فبحبی احبھم و من ابغضھم فببغضی ابغضھم " یعنی جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کے باعث ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ ان کے آپس کے لڑائی جھگڑوں کو نیک وجوہ پر محمول کرنا چاہیے اور ( ان کو ) خواہشِ نفس و تعصب سے پاک سمجھنا چاہیے ۔ امام نووی رحمة الله علیہ شارح مسلم نے کہا ہے کہ اصحاب کرام رضی الله عنہم ان باہمی لڑائی جھگڑوں میں تین گروہ تھے ، ایک جماعت نے اجتہاد کے ذریعے حقیقت کو حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ کی جانب پایا تھا ان کے لیے اجتہاد پر عمل کرنا اور حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ کی امداد کرنا واجب تھا اور دوسری جماعت نے اجتہاد کے ذریعے حقیقت کو مخالف جانب میں معلوم کیا تھا اس جماعت کے لیے توقف ہی واجب تھا ، پس ہر ایک نے اپنے اجتہاد کے موافق عمل کیا اور طعن و ملامت ان سب سے دور کر دیا گیا ہے ، ھذا ( یہ ہے اس مسئلہ کی تفصیل ) لیکن حضرت سیدنا امیر المٶمنین علی المرتضی کرم الله وجہہ اور ان کے موافقین اجتہاد میں صحیح رائے پر تھے دوسری جانب کے حضرات خطا پر تھے مگر چونکہ یہ خطا اجتہادی خطا ہے ( اس لئے ) ملامت و طعن سے پاک ہے اور ایک درجہ ثواب رکھتی ہے اور صحیح رائے والا مجتہد دو درجہ ( ثواب مستحق ہے ) ۔ امام شافعی رحمة الله علیہ نے فرمایا : " تلك دماء طه‍ر الله عنه‍ا ایدینا فلن طه‍ر عنه‍ا اللسنتنا " ( یہ وہ خون ہیں جن سے الله تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے پس ہمیں چاہیے کہ اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھیں ) ۔ یہ عبارتِ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ خطا کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے اور ( ان کو ) اچھائی کے بغیر یاد نہیں کرنا چاہیے ، جب دونوں مذہب معلوم ہوگئے تو جو لوگ کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ برے ہیں اور طعن کرتے ہیں اگرچہ وہ دوسرے اصحاب کے ساتھ اچھے ہوں وہ اہل سنت و جماعت سے خارج ہیں اور اگر اس مسئلہ میں اہل سنت کے مذہب کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو ان کے عقائد کی جو معتبر و مستند کتابیں ہیں ان کی طرف رجوع کریں اور شاذ و ضعیف اقوال کی طرف توجہ نہ کریں اور شیعہ بھی اس جماعت سے اس وقت تک خوش نہیں ہوں گے جب تک خلفائے ثلاثہ رضی الله عنہم کو سبّ نہ کریں پس یہ لوگ نہ سنی ہیں نہ شیعہ ، انہوں نے تیسرا مذہب اختراع کیا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے مکتوبات معصومیہ ، خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی ، مترجم صوفی نثار الحق مجددی سیفی ، جلد 2 مکتوب نمبر 36 ص 70 تا 73
  13. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از خواجہ محمد فضل الله مجددی فاروقی رحمة الله علیہ و اجته‍اد بودند و خطائیکه از راہ اجته‍اد واقع شود از ملامت دو راست زبان را جزبذکر خیر ایشاں نباید کشود و سلامت خودرا این بائید دید اور دونوں طرف کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین اپنے اپنے اجتہاد پر کاربند تھے اور اجتہادی خطاء قابل گرفت نہیں بلکہ باعث ثواب ہے لہذا صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی ہستیوں کو اپنی زبان کی زد میں نہ لائیں اور ان کو ذکر خیر سے یاد کریں ۔ عمدة المقامات ترجمه مع عمدة الجوابات ، خواجہ محمد فضل الله مجددی فاروقی ، تحت الرابع اسد الله الغالب مطلوب کل طالب امیر المٶمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی الله تعالی عنه ، جلد 1 ص 28 قومی کتب بازار کشمیری لاہور حضرت بیوفائی لشکر خود دیدہ باوی صلح کردو خلافت ، رابوی گزاشته بمدینة منورہ توطن فرمود بالآخر منکوحه اش بحرکت یزید پلید الماس سودہ بخوردنش وہاں پر حضرت امام حسن رضی الله عنہ کو اپنے لشکر کی بے وفائی نظر آئی ۔ تو امام حسن رضی الله عنہ نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے سپرد کی اور صلح کے ساتھ مدینہ منورہ چلے آئے ۔ اور وہیں قیام فرمایا ۔ بالآخر آپ کی منکوحہ الماس نے یزید پلید کی تحریک پر کھانے میں زہر ملا دیا ۔ عمدة المقامات ترجمه مع عمدة الجوابات ، خواجہ محمد فضل الله مجددی فاروقی ، تحت امام ثانی حضرت امام حسن رضی الله تعالی عنه ، جلد 1 ص 31 قومی کتب بازار کشمیری لاہور
  14. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از علامه قاضی عبد الرزاق بھترالوی حطاروی رحمة الله علیہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سب صحابہ سے افضل ہیں ۔ خلفاء راشدین کے فضائل پہلے ہی اسی ترتیب پر تھے جس پر قدرتی طور پر ان کی خلافت کی ترتیب بھی قائم ہوگئی ۔ اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت ابو سفیان ، حضرت ہندہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہم نجباء صحابہ سے ہیں ۔ میں کسی صحابی کو کم درجہ یا زمین کی طرح پست نہیں کہتا بلکہ سب کو آسمانِ رشد کے روشن ستارے دے کر صحابی کی توہین کا مرتکب نہیں ہوتا ۔ یہ سبق مجھے رب تعالی کے ارشاد گرامی سے ملا : " تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ " ( سورة البقره ، ٣ : ٣٥٣ ) ترجمه : یہ رسول ہیں فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر ۔ رب تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے بعض کو بعض سے پست کیا ۔ اگر کوئی شخص کسی نبی کا اسم گرامی ذکر کرکے یہ کہے " فلاں نبی تو زمین ہے " اور دوسرے نبی کا نام لے کر کہے " وہ تو آسمان ہے " تو جس نبی کو زمین کہا ، اس کی شان میں گستاخی کی گئی اور یہی سبق مجھے نبی کریم ﷺ کے ارشاد سے ملا : " عن عمر بن الخطاب قال سمعت رسول الله ﷺ یقول سالت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد ان اصحابك عندی بمنزلة النجوم فی السماء بعضها اقوی من بعض و لکل نور فمن اخذ شئی مما ھم علیه من اختلافه‍م فھو عندی علی ھدی قال و قال رسول الله ﷺ اصحابی کالنجوم فبایه‍م اقتدیتم اھتدیتم " رواہ رزین ، مشکوة مناقب الصحابة ، ص ۵۵۴ ترجمه : حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے میرے بعد اختلاف کے بارے میں پوچھا تو رب تعالی نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد ﷺ! بیشک تیرے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ، جس طرح وہ بعض دوسرے بعض سے قوی ہیں ، اور ہر ایک کو نور حاصل ہے جس نے ان کے اختلاف میں سے کسی پر بھی عمل کیا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا ، رسول الله ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جن کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ نتیجہ واضح ہے سب صحابہ ستاروں کی طرح نورانی ہیں کوئی پست نہیں البتہ بعض بعض سے قوی ہیں ، ستاروں کی راہنمائی حاصل نہ کرنے والا بھی بھٹکا ہوا ہے ، اور اہل بیت اطہار سے محبت نہ کرنے والا ، ان کی محبت کی کشتی میں نہ بیٹھنے والا بھی بھٹکا ہوا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے نجوم التحقیق ، قاضی عبد الرزاق بھترالوی ، تحت سخن اولین ، ص 36 تا 37 ، مطبوعه مکتبہ امام احمد رضا راولپنڈی *شان نزول 😘 یہ آیتہ کریمہ ان منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو ایذا دیتے تھے اور ان کے حق میں بدگوئی کرتے تھے ۔ حضرت فضیل رحمة الله علیہ نے فرمایا : کہ کتے اور سور کو بھی ناحق ایزا دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو ایزا دینا کس قدر بدترین جرم ہے ۔ ( خزائن العرفان ) *حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کو ایزاء دینا حرام ہے 😘 قرآن پاک کے الفاظ کے عموم کے پیش نظر ہوں کہنا پڑے گا کہ کسی صحابی کی شان میں گستاخی کرنا درحقیقت صحابی کو ایزا دینا ہے جو حرام ہے ، حلال نہیں ۔ لہذا حضرت علی رضی الله عنہ کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو وہ منحوس ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ یا کسی اور صحابی کی شان میں گستاخی کرے تو وہ بھی منحوس ہے ، بلکہ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار سے مومنین و مومنات دل و جان سے محبت کرتے ہیں ۔ اس لئے اہل بیت اور صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والا حقیقت میں سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کو ایزاء دے رہا ہے ، جو کھلے گنہ کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ حوالہ درج ذیل ہے نجوم التحقیق ، قاضی عبد الرزاق بھترالوی ، تحت شان صحابہ میں احادیث مبارکہ ، ص 94 ، مطبوعه مکتبه امام احمد رضا راولپنڈی _آئیے! پہلے من گھڑت حدیثوں کو دیکھئے ، اور حدیثیں گھڑنے والوں کی جہالت کو دیکھئے پھر ان کا انجام دیکھئے : " ان النبی ﷺ رأی یزید یحلمه معاوية فقال اھل الجنة یحمل اھل النار " ( ھذہ الحکایة موضوع ) " ترجمه : نبی کریم ﷺ نے یزید کو دیکھا کہ اسے حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے اٹھایا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا : جنتی نے جہنمی کو اٹھایا ہوا ہے ، یہ حکایت من گھڑت ہے ۔ " و کذا ما ذکرہ الشیعة انه رآھما فقال ھما فی النار " ( ای ھذا موضوع ایضا ) " ترجمه : اسی طرح شیعہ من گھڑت حدیث پیش کرتے ہیں : بیشک نبی کریم ﷺ معاویہ اور یزید دونوں کو دیکھا تو آپ نے فرمایا : یہ دونوں جہنمی ہیں ۔ ان دونوں حدیثوں کو وضع کرنے ( گھڑنے ) والوں کی جہالت کو دیکھئے 😘 نبی کریم ﷺ ہجرت کے دس سال مکمل کرنے کے بعد وصال فرما گئے ۔ اس وقت مکمل کیلنڈر نہیں تھا ۔ سن نبوی یا ان ہجری کا حساب ہوت تھا ، محرم سے سال کی ابتداء والا کیلنڈر حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانہ میں جاری ہوا ۔ اس کیلنڈر کے مطابق یزید کی پیدائش دیکھئے : " ولد سنة خمس و عشرین و قیل سے و قیل سبع " ترجمه : یزید کی پیدائش پچیس یا چھبیس یا ستائیس سن ہجری کو ہوئی ۔ یعنی نبی کریم ﷺ کے وصال کے کم از کم ساڑھے پندرہ سال بعد یزید پیدا ہوا ۔ یہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے ۔ تو نبی کریم ﷺ نے معاویہ و یزید کو کیسے دیکھا ؟ *آئیے! احادیث گھڑنے والوں کا انجام دیکھئے 😘 جان بوجھ کر موضوع ( من گھڑت ) حدیثوں کو پیش کرنے والوں کا انجام دیکھئے : " عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله ﷺ بلغوا عنہ ولو آیة و حدثوا عن بنی اسرائیل و لا حرج و من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار " رواہ البخاری ، مشکوة باب العلم ترجمه : حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں : رسول الله ﷺ نے فرمایا : میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیتہ ہی ہو ، اور بنی اسرائیل کے متعلق بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں ، اور جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنایا ۔ " قوله فلیتبوأ ای فلیتخذ منزلة من النار و ھو امر معناہ الخبر " ( مرقاة ) ترجمه : یعنی اس نے جہنم کے مقاموں میں سے اپنے لئے ایک مکان بنالیا اور ساتھ ہی علامه قاری رحمة الله علیہ نے وضاحت بھی فرمائی کہ یہ لفظ اگرچہ امر ہے لیکن معنوی لحاظ پر خبر ہے۔ اس لئے راقم نے خبر کا معنی ہی کیا ہے حوالہ درج ذیل ہے نجوم التحقیق ، قاضی عبد الرزاق بھترالوی ، تحت من گھڑت حدیثوں کو پیش کرنے والے جہنمی ہیں ، ص 105 تا 107 ، مطبوعه مکتبہ امام احمد رضا راولپنڈی لفظ " معاویہ " کا معنیٰ اور علامہ تفتازانی کی کتاب " مختصر المعانی " کی عبارت کی توضیح 😘 معاویہ کے نام پر اعتراض *اعتراض 😘 تم تو معاویہ کی بڑی شان بیان کر رہے ہو حالانکہ معاویہ نام ہی ایسا ہے جو حقارت پر دلالت کررہا ہے . آئیے علامہ تفتازانی کی کتاب " مختصر المعانی " کو دیکھیں , آپ رقمطراز ہیں : " او تعظیم او اھانة کما فی الالقاب الصالحة لذلک مثل علی وھرب معاویة " علم ( نام ) کبھی تعظیم اور اہانت ( توہین ) پر دلالت کرتا ہے , جیسے کہا جاۓ " علی " سوار ہوا اور " معاویہ " بھاگ گیا ( مختصر المعانی , ص 71 ) اسی مثال سے علامہ تفتازانی نے صاحب " تلخیص المفتاح " کے قول " او تعظیم او أھانة " کی وضاحت کی ہے کہ لفظ " علی " مشتق ہے " علو " سے جو عظمت پر دلالت کررہا ہے جس کا نام ہی حقارت پر دلالت کرے وہ ذیشان کیسے ہوسکتا ہے ؟ جواب " والمتبادر ان المراد بعلی و معاویة صاحبا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ولا یخفی مافیه من سواء الادب فی حق سیدنا معاویة رضی اللہ عنه والجرأة علیه بما لا یلیق بمنصبه بل لو حملنا علی غیر ھما لم یخل من سوء الادب لما فیه من الایھام لذا فی دسوقی و تجرید " مختصر المعانی " کی مشہور شروح " تجرید " اور " دسوقی " نے علامہ تفتازانی کے اس قول پر گرفت فرمائی ہے اس لئے کہ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے کہ " علی " اور " معاویہ " سے مراد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں . یہ کوئی مخفی بات نہیں یعنی بہت واضح روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اس میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی پائی جاتی ہے . دسوقی , تجرید علامہ تفتازانی کے منصب کے لائق یہ نہیں تھا کہ اس قسم کی مثال دیتا . اگر " علی " اور " معاویہ " سے مراد عام " علی " اور عام " معاویہ " ہو . یعنی صحابی مراد نہ بھی ہوں تو پھر بھی یہ مثال بے ادبی سے خالی نہیں کیونکہ ان ناموں کو دیکھ کر وہم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ناموں کی بھی یہی کیفیت ہے علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے متعلق کیا کہتے ہیں ولیسوا کفارا ولا فسقة ولا ظلمة لما لھم من التاویل وان کان باطلا فغایة الأمر أنھم اخطأ وافی الاجتھاد وذالک لا یوجب التفسیق فضلا عن التکفیر ولھذا منع علی رضی اللہ عنہ اصحابه من لعن اھل الشام وقال اخواننا بغو علینا " " ( حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے لوگ ) نہ کافر تھے اور نہ ہی فاسق تھے اور نہ ظالم تھے , اسلئے کہ ان کے پاس کوئی نہ کوئی تاویل ( یعنی کوئی نہ کوئی وجہ ) تھی اگرچہ ان کی تاویل باطل تھی لیکن زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ان کی اجتہادی خطا تھی اجتہادی خطاء ( پر ثواب ہوتا ہے ) سے فسق بھی لازم نہیں آتا چہ جائیکہ کفر لازم آۓ اس وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کو اہل شام پر لعنت کرنے سے منع فرما دیا تھا کہ وہ ہمارے بھائی ہی تو ہیں جنہوں نے ہم پر زیادتی کردی . ( شرح مقاصد , المبحث السابع اتفق اھل الحق علی وجوب تعظیم الصحابه , ص 305 ) *آئیے ! ذرا لغات کو دیکھئے 😘 " عوی " الکلب والذئب وابن آوی . کتے کا بھونکنا , بھیڑئیے کا چنگھاڑنا ابن آوی ( بھیڑئیے سے چھوٹا درندہ ) کا چنگھاڑنا . صحابی رسول صل اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کو تم صرف " عوی الکلب " سے ماخوذ کر کے کیوں مراد لے رہے ہو ؟ کیا تمہیں ( عوی الذئب یا عوی ابن أوی یا عوی السبع ) نظر نہیں آتا ؟ جن میں بہادری کا معنی پایا گیا ہے . کیا بھیڑئیے کی چھنگاڑ میں , کیا درندے کی چھنگاڑ میں , کیا شیر کی گرج میں بہادری ہے یا نہیں . ہاں ! ہاں ! " معاویہ " کا معنی بہادر بھی ہے , " معاویہ " کا معنی کمزور بھی ہے . دونوں معانی کو بیک وقت اعتبار کریں تو " اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم " کی تفسیر نظر آۓ گی . جب " عوی " کا معنی باز رکھنا لیا جاۓ , تو اب مطلب ہوگا کہ " معاویہ " اسے کہا جاتا ہے جو اپنے اجتہاد سے کسی کو غلطی پر دیکھے تو اسے باز رکھنے میں سردھڑ کی بازی لگا دے . یہ علیحدہ بات ہے کہ اجتہادی خطا ہی کیوں نہ ہو اس پر ثواب تو ہے گناہ نہیں , گرفت نہیں . کیا اہل لسان نے بغیر سوچے سمجھے یوں ہی نام رکھ دئیے ؟ نہیں بلکہ وہ معانی سے باخبر تھے لغت اور گرائمر کے محتاج نہیں . عجمی حضرات عربی سیکھتے ہیں گرائمر پڑھتے ہیں لغات دیکھتے ہیں تو پھر کچھ بات سمجھتے ہیں ان کا عرب لوگوں پر عربی میں زیادہ ماہر ہونے کا کیا مطلب ؟ *آئیے چند نام دیکھئے 😘 *" عفان "* اگر یہ " عفن " سے لیں تو اس کا معنی ہوگا " بدبودار " اور معنی ہوگا " خراب , بردبار " اور اگر " عفو " سے لیں اور الف و نون زائدتان مانیں تو معنی ہوگا " معاف کرنے والا " کیا کوئی شخص تمام " عفان " نامی لوگوں کو " بدبو دار یا خراب " ہونے والا معنی دے گا ؟ یہ عقل و دانش سے دوری کی بات ہے . *عتبان 😘 " عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ " بدری صحابی ہیں . ان کی شان کے مطابق معنی یہ ہوگا : " کسی کی غلطی سرزنش کرنا , خفگی کرنا " یا معنی یہ ہوگا " کسی کو غلطی پر ملامت کرنا " لیکن یہ معانی صحابی کی شان کے لائق نہیں : " ایک پاؤں پر کودنا , تین ٹانگوں پر چلنا , لنگڑا ہونا , ایک دوسرے سے ناز سے گفتگو کر ا , چوکھٹ کو پھلانگ جانا , چوکھٹ پر چمٹے رہنا . *عابس بن ربیعہ 😘 صحابی ہیں ان کی شان کے مطابق صحیح معنی یہ ہوگا : " ترش رو ہونا " یعنی آپ رضی اللہ عنہ کافروں کے ساتھ ترش روئی سے درپیش آتے , کافر سے بات کرتے تو چیں یہ جبیں ہوکر بات کرتے . لیکن صحابی کی شان کے لائق یہ معانی نہیں : اونٹ کی دم پر مینگنی کا خشک ہوجانا , میلا ہونا " وغیرہ . *ماعز بن مالک 😘 صحابی ہیں ان کی شان کے مطابق معنی یہ ہوگا : " ما امعز رأیه " وہ کس قدر مضبوط راۓ والا ہے " لیکن " ماعز " بکری کی کھال " کو بھی کہا جاتا ہے کیا کوئی شخص حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو بکرا یا بکری کی کھال کہے گا ؟ عقل تمہاری کہاں چلی گئی ؟ *طارق 😘 بن سوید صحابی ہیں , صحابی کی شان کے مطابق یہ معنی ہوگا : " خاموش ہونا , نیچے سر ڈال کر زمین کی طرف دیکھنا , سر جھکا کر چلنا , ہتھوڑا مارنا , یعنی بہادر ہونا , سخت گیر ہونا " . لیکن صحابی کی شان کے لائق نہیں یہ معنی کرنا : " رات کو آنے والا چور کمزور , ٹیڑھی پنڈلی والا ہونا , تاریک ہونا , اوپر نیچے کپڑے پہننا " . *حمار 😘 ایک صحابی کا نام ہے , کیا کوئی شخص یہ کہے گا کہ صحابی کا نام " حمار " تھا اسلئے وہ " معاذاللہ " گدھا تھا . نہیں ! نہیں ! یہ بالکل غلط ہے . ہاں ! البتہ صحابی کی شان کے لائق دو معنی ہیں : " حمر الرجل " غصہ سے بھڑک اٹھا " یا " حمرة " سے لیں جس کا معنی ہے " سرخ " . *خدیجہ 😘 رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں . ان کے علاوہ آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ( کے بطن ) سے ہی ہیں . خدج " ض , ن " خدوجا " چیز کا ناقص ہونا , گھٹیا ہونا . " خدرج صلاته " بعض ارکانِ نی صدفی 25_معاویہ بن یحیی دمشقی . ( الماخوذ من تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی ماز میں کمی کرنا . " خدجت الناقة " اونٹنی کا نا تمام بچہ گرانا . ( المنجد ) آئیے ! لغت کے اعتبار سے ان تمام معانی کو مد نظر رکھئے . پھر فیصلہ کیجئے کیا بظاہر لغت کے تمام معانی میں سے کسی ایک معنی کی وجہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خدیجہ کہا جاسکتا ہے ؟ نہیں ! نہیں ! یقیناً نہیں . کیا آپ کا نام بے معنی ہے کیا آپ کا نام کسی عجمی نے بغیر سوچے سمجھے رکھ دیا ہے . جب ایسا نہیں تو یہی کہا جاۓ گا کہ آپ کا نام عربیوں نے رکھا مرادی مطلب کو مدنظر رکھا کہ یہ بچی " عجز و انکساری " کی چلتی پھرتی تصویر ہوگی . *سودہ 😘 مومنوں کی ماں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ کا نام " حضرت سودہ رضی اللہ عنہا " ہے . کیا ان کا نام " ساد , یسود , سوادا ( نصر , ینصر ) سے لیا ہوا ہے جس کا معنی " سیاہ " ہے . کیا ان کا رنگ سیاہ تھا کیا وہ حبشیہ تھیں کہ ان کا نام ان کے گھر والوں نے " سودہ " رکھا تھا . ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو یقیناً یہ کہنا پڑے گا کہ آپ رضی اللہ عنہا کا نام مندرجہ ذیل معانی کی وجہ سے رکھا گیا : " ساد , یسود , سیادة , سیدودة سودا " ( ن ) " شریف ہونا بزرگ ہونا . ( قومه ) " قوم کا سردار ہونا . شان و شرافت میں کسی پر غالب ہونا . ( المنجد ) حوالہ درج ذیل ہے نجوم التحقیق ، قاضی عبد الرزاق بھترالوی ، تحت " معاویه " کے نام پر اعتراض ، ص 140 تا 146 ، مطبوعه مکتبه امام احمد رضا راولپنڈی ) ( ۵ )_*فیضانِ نامِ " معاویہ " اور نامِ " معاویہ " پر اعتراض کرنے والے پچیس ( 25 ) راویوں کے گستاخ ہیں احادیث مبارکہ کے راویوں میں پچیس ( 25 ) حضرات وہ جن کے اسماء گرامی " معاویہ " ہیں . ان میں تین صحابہ کرام ہیں کچھ تابعین ہیں اور کچھ جلیل القدر مشائخِ حدیث ہیں . کیا ان تمام ناموں والے حضرات کے والدین عربی سے بے خبر تھے کیا سب کے نام اس لئے رکھے گئے تھے کہ یہ بڑے ہوکر تمہارے جیسے منہ پھٹے لوگوں گی بکواس سنیں . جنہیں جب اور کوئی اعتراض کرنے کو موقع نہیں ملتا تو وہ نام " معاویہ " کو لے لیتے ہیں . ( معاذ الله ) یا انہوں نے اس لئے نام رکھے تھے کہ یہ فصیح ہوں گے , بڑے خطیب ہوں گے , بڑے بہادر ہوں گے , کافروں پر سخت ہوں گے , اپنوں پر رحم دل ہوں گے . اور سوچنے کی بات ہے ! کہ اتنے بڑے بڑے جلیل القدر مشائخ نے جب اپنے کئی استادوں سے پڑھا تو انہوں نے بھی اُن کو ان کے نام کی طرف " توجہ " نہ دلائی کہ اس نام کا " معنی " کیا بنتا ہے ؟ آئیے ! " معاویہ " نام والے راویوں کی تفصیل دیکھئے : 1_معاویہ بن اسحاق بن طلحہ بن عبید اللہ التمیمی ابو الازہر کوفی ( تابعی ) ہیں . 2_معاویہ بن جاہمہ سلمی ( صحابی ) ہیں . 3_معاویہ بن خدیج بن جفنہ ان کی کنیت " ابو عبدالرحمن " زیادہ ان پر ابو نُعَیم " بضم النون و فتح العین " مصری کندی کا اطلاق ہوتا تھا , ان کی صحابیت میں اختلاف ہے . مفضل اور ابن حبان نے ان کو صحابی کہا ہے اور ابن اثرم اور حرب نے امام احمد علیہ الرحمہ سے نیان کیا کہ صحابی نہیں تھے . ( واللہ اعلم ) 4_معاویہ بن خدیج کوفی جعفی . ( پہلے جن کا ذکر کیا وہ مصری , کندی ہیں ) 5_معاویہ بن الحَکَم " بفتح الحاء والکاف " سلمی ( صحابی ہیں ) 6_معاویہ بن حکیم بن معاویہ النمیری , شامی . 7_معاویہ بن حیدہ بن معاویہ بن قشیر , قشیری . 8_معاویہ بن سبرة بن حصین السوائی العامری . 9_معاویہ بن سعید بن شریح بن عروہ التجیبی , فہمی . 10_معاویہ بن یحیی طرابلسی , ان کو معاویہ بن یزید کا نام لیا جاسکتا ہے . 11_معاویہ بن ابی سفیان ( حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ) فتح مکہ کے دن بلکہ اس سے پہلے اسلام قبول کیا . ان کی روایات بغیر کسی واسطہ کے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ام المؤمنین حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا ( جو آپ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں ) کے واسطہ سے بھی مروی ہیں . حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کے بعد خلیفہ بنایا . وغیرہ . 12_معاویہ بن سلمہ بن سلیمان نصری , ان کی کنیت ابو سلمہ تھی , دمشق میں بسیرا تھا , کوفی کہلاتے تھے . 13_معاویہ بن سلام بن ابی سلام . 14_معاویہ بن صالح بن حدیر بن سعید بن سعد بن فہر الحضرمی , 15_معاویہ بن صالح بن الوزیر " ان کا نام معاویہ بن عبید اللہ بن یسار اشعری . 16_معاویہ بن عبدالکریم ثقفی . 17_معاویہ بن عمار بن ابی معاویہ الدہنی البجلی الکوفی . 18_معاویہ بن عمرو بن المہلب بن عمرو بن و شبیب الازدی المعنی الکوفی ابو عمر البغدادی . 19_معاویہ بن عمرو ابو المہلب الجرمی , ان کی کنیت ابو نوفل بن ابی عقرب . 20_معاویہ بن غلاب , ان کی کنیت " ابن عمر " . 21_معاویہ بن قرة بن اباس المزنی . 22_معاویہ بن ابی مزود . 23_معاویہ بن ہشام القصار الازدی . 24_معاویہ بن یحیی
  15. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از پیر محمد کرم شاہ الازھری رحمة الله علیہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما کیلئے دعا اب ہم آپ کو سرکار دو عالم ﷺ کی ان دعاؤں سے آگاہ کرتے جو حضرت معاویہ رضی الله کے حق میں مانگیں ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا : " اللھم علمه الکتاب و مکن له فی البلاد وقه العذاب " اے الله! انہیں کتاب کا علم عطا فرما ، ان کو ملک میں تمکین عطا فرما اور اس کو عذاب سے بچا ۔ حضور ﷺ نے دوسری مرتبہ ان کے لئے دعا مانگی : " اللھم اجعله ه‍اديا مه‍ديا " اے الله! ان کو ہادی اور مہدی بنا دے ۔ حضور ﷺ نے ان کے حق میں جو دعائیں کیں وہ قبول ہوئیں ۔ سب سے پہلے صدیق اکبر رضی الله عنہ نے انہیں شام کا والی بنایا ۔ آپ کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے ان کو اس عہدہ پر بحال رکھا ۔ پھر حضرت عثمان رضی الله عنہ کے زمانہ میں شام کے گورنر رہے پھر بیس سال آپ کو شام کی امارت نصیب رہی ۔ جب سیدنا امام حسن رضی الله عنہ نے آپ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو اس وقت سے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ساری مملکت اسلامیہ کے بالاتفاق خلیفہ قرار پائے اور تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی ۔ اب ہم اس موضوع پر کچھ اظہار خیال کرتے ہیں ۔ مانا کی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے حضور ﷺ نے دعائیں فرمائیں وہ قبول ہوئیں لیکن حضرت سیدنا علی مرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ ان کا جنگ و جدال جو مدت دراز تک جاری رہا ، اس کے بارے میں ہمیں کیا نظریہ رکھنا چاہیے ؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اکابر صحابہ کے بارے میں لب کشائی کرنے سے حتی المقدور اجتناب کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ جو کچھ ہوا سب بربنائے اجتہاد تھا اور آپ جانتے ہیں کہ مجتہد جب حسن نیت سے حقیقت پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اگر وہ حقیقت تک پہنچتا ہے تو اس کو اس کے دو ثواب ملتے ہیں اور اگر اس نے خلوص نیت سے حق پر رسائی حاصل کرنے کی پوری سعی کی لیکن وہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکا پھر بھی اس کو اس اجتہاد کا ایک ثواب ملے گا ۔ بہر حال ہم میں سے کسی کو زیب نہیں دیتا کہ سرکار دو عالم ﷺ کے صحابہ کی اس بابرکت جماعت کے بارے میں زبان طعن دراز کرے کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں اس پاکباز جماعت کی شان بیان کی گئی ہے ۔ ترجمه : اور سب سے آگے آگے ، سب پہلے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین اور انصار سے اور جنہوں نے پیروی کی ان کی عمدگی سے ، راضی ہوگیا الله تعالی ان سے اور راضی ہوگئے وہ اس سے ۔ اور اس نے تیار کر رکھے ہیں ان کے لئے باغات بہتی ہیں نیچے ندیاں ، ہمیشہ رہیں گے ان میں ابد تک ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ دوسری جگہ الله تعالی فرماتا ہے ترجمه : ( نیز وہ مال ) نادرا مہاجرین کے لئے ہے جنہیں ( جبراً ) نکال دیا گیا تھا ان کے گھروں سے اور جائیدادوں سے ۔ یہ ( نیک بخت ) تلاش کرتے ہیں الله کا فضل اور اس کی رضا ۔ اور ( ہر وقت ) مدد کرتے رہتے ہیں الله اور اس کے رسول کی ۔ یہی راست باز لوگ ہیں ۔ الله تعالی نے ان دو آیتوں میں ایک تو ان کے سچے ہونے کی تصدیق کی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ الله ان سے راضی ہوگیا وہ الله سے راضی ہوگئے ۔ اس کے بعد کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان میں سے کسی پر زبان طعن دراز کرے ۔ اسے چاہئے کہ ان حضرات کے معاملات کو الله تعالی کے حوالے کر دے جو دلوں کے رازوں کو جاننے والا ہے اور اپنے بندوں کی نظروں پر پوری طرح آگاہ ہے اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان میں جو جنگ و قتال ہوئے ہیں ان کی وجہ بد نیتی نہیں بلکہ اجتہاد ہے ۔ الله تعالی کا ایک اور ارشاد سنئے ترجمه : تم میں سے کوئی برابری نہیں کر سکتا ان کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ( راہ خدا میں ) مال خرچ کیا اور جنگ کی ۔ ان کا درجہ بہت بڑا ہے ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی ۔ ( ویسے ) سب کے ساتھ الله نے وعدہ کیا ہے بھلائی کا پھر مولا کریم فرماتا ہے ترجمه : بلاشبہ وہ لوگ جن کے لئے مقدر ہو چکی ہے ہماری طرف سے بھلائی تو وہی اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے ۔ ان آیات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ کرام جنت میں اور نہیں بخش دیا گیا ہے ۔ ان آیات قرآنی کے بعد اب فرما نبوی سماعت فرمائیں حضور ﷺ نے فرمایا : " الله الله فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا بعدی ۔ فمن سبھم فعلیه لعنة الله و الملئکة و الناس اجمعين لا يقبل الله منه صرفا و لا عدلا " ترجمه : میرے صحابہ کے بارے میں خدا سے دور ۔ میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنا لینا ۔ جس نے ان کو گالی دی ، اس پر الله تعالی ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت برسے ۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام کی شان میں سرور عالم ﷺ کے کثیر التعداد ارشادات ہیں : " نسال الله ان یحیینا و یمیتنا علی محبته‍م و ان لا یجعل لاحدمنه‍م فی عنقنا ظلامة و ان یجعله‍م شفعاءلنا یوم القیامة اٰمین ۔ حوالہ درج ذیل ہے ضیاء النبی ﷺ ، پیر محمد کرم شاہ الازھری ، تحت العنوان " حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما کیلئے دعا ، جلد 5 ص 779 تا 782 ، مطبوعه ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاھور ، طبع الثانی ربیع الثانی ۱۴۲۰ھ _حضور ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! الله تعالی نے اہل بدر کو اور اہل مدینہ کو معاف کر دیا ہے ۔ اے لوگو! میرے صحابہ کے بارے میں ، میرے سسرال کے بارے میں اور میرے دامادوں کے بارے میں میری عزت و تکریم کا خیال رکھا کرو ۔ ایک آدمی نے معافی بن عمران رحمة الله علیہ کو کہا کہ عمر بن عبد العزیز رحمة الله علیہ کا درجہ امیر معاویہ رضی الله عنہ سے بہت بلند ہے ۔ تو انہوں نے کہا حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے ساتھ کسی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ امیر معاویہ رضی الله تعالی عنہ حضور ﷺ کے صحابی تھے ۔ حضور ﷺ کے سسرال سے تھے ۔ آپ کاتب وحی تھے اور الله تعالی کی وحی پر آپ امین تھے ۔ حوالہ درج ذیل ہے ضیاء النبی ﷺ ، پیر محمد کرم شاہ الازھری ، تحت العنوان " صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم… ، جلد 5 ص 992 ، مطبوعه ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاھور ، طبع الثانی ربیع الثانی ۱۴۲۰ھ _حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ قابس بن ربیعہ رسول الله ﷺ سے زیادہ شکل میں مشابہت رکھتا ہے ۔ جب یہ قابس ، امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پاس آئے تو آپ ازراہ ادب کھڑے ہوگئے ، آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور مرغاب کی جاگیر جو بڑی زرخیز تھی وہ ان کو عطا فرمائی کیونکہ وہ شکل و صورت میں رحمت عالمیان ﷺ سے مشابہت رکھتے تھے ۔ حوالہ درج ذیل ہے ضیاء النبی ﷺ ، پیر محمد کرم شاہ الازھری ، تحت العنوان " حضور نبی کریم ﷺ کی اہل بیت ذریت طاہرہ اور امہات المؤمنین کی توقیر و تعظیم ، جلد 5 ص 989 ، مطبوعه ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاھور ، طبع الثانی ربیع الثانی ۱۴۲۰ھ _علامہ سیوطی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ابتدائے بعثت میں ابو جہل نے سیدہ فاطمہ زہراہ رضی الله عنہا کو ایک طمانچہ مارا ۔ آپ نے بارگاہ رسالت میں شکایت کی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ابو سفیان کے پاس جاؤ اور اسے بتاؤ ۔ آپ گئیں ابو سفیان نے سنا حضرت سیدہ کا ہاتھ پکڑا اور ابو جہل کے پاس گیا ۔ حضرت سیدہ کو کہا جس طرح اس نے آپ کو طمانچہ مارا ہے آپ بھی اسے طمانچہ ماریں ۔ اس کو طمانچہ مارنے کے بعد حضرت سیدہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا ۔ حضور ﷺ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے عرض کی الہی! ابو سفیان کے اس فعل کو فراموش نہ کرنا ۔ حوالہ درج ذیل ہے ضیاء النبی ﷺ ، پیر محمد کرم شاہ الازھری ، تحت العنوان " ابو سفیان رضی الله عنہ کے لیے دعا ، جلد 5 ص 790 ، مطبوعه ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاھور ، طبع الثانی ربیع الثانی ۱۴۲۰ھ
  16. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ از مولانا منیر احمد یوسفی صاحب رحمة الله علیہ حوالہ درج ذیل ہے روزنامہ نوائے وقت ، 21 اپریل 2017 ، راولپنڈی/اسلام آباد ، مضمون نگار : مولانا منیر احمد یوسفی ، مکمل مضمون نوٹ : پہلے والا کالم منیر احمد یوسفی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے باقی دو بدمذہبوں کے ہیں ایک کا پتہ نہیں لہذا صرف پہلے کالم کا مطالعہ کریں بدمذہبوں سے علم سیکھنا حرام ہے لہذا گزارش ہے کہ صرف پہلے کام تک محدود رہیں تاکہ بدمذہبوں کو پروموٹ کرنے کا گناہ میرے سر نہ آئے
  17. عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام تقی الدین محمد بن احمد الحسنی الفاسی المکی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۳۲ھ نبی اکرم ﷺ کے کاتبین کی تعداد 42 تھی ان میں چاروں خلفاء ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم تھے ۔ میں کہتا ہوں حافظ عبدالغنی مقدسی رحمة الله علیہ نے ذکر فرمایا : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اس کام کے ساتھ زیادہ وابستہ اور ان سب سے زیادہ خاص تھے ہمارے شیخ عراقی فرماتے ہیں ۔ کہ زید بن ثابت سب سے زیادہ حضور ﷺ سے لکھتے تھے پھر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ۔ انتہیٰ حوالہ درج ذیل ہے العقد الثمين فى تاريخ البلد الامین ، لامام تقی الدین محمد بن احمد الحسنی الفاسی ، تحت " فصل فی کتابه ﷺ ، جلد 1 ص 274 تا 275 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ، طبع ثانى ١٤٠٦ه‍ ١٩٨٦ء آپ ابو عبد الرحمن معاویہ بن ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب القرشی الاموی ہیں ۔ آپ رضی الله عنہ آپ کے بھائی اور باپ فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے ، اور حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ حدیبیہ کے دن مشرف باسلام ہوئے اور اپنے والدین سے اپنا اسلام لانا چھپائے رکھا ۔ آپ اور آپ کے باپ مؤلفة القلوب میں سے تھے پھر اسلام میں حسن و کمال پیدا ہوگیا ۔ اور جنگ حنین میں رسول الله ﷺ کی معیت میں لڑے ۔ اور رسول الله ﷺ نے ھوازن کے مال غنیمت سے انہیں ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عطا فرمائی تھی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ایک کاتبِ وحیِ رسول ﷺ تھے ۔ و آپ کے لیے نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی ، فرمایا : اے الله! اس کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے دوزخ کی آگ سے بچا ۔ اور آپ کے حق میں فرمایا : اے الله! اس کو ہادی مہدی بنا ۔ رواه الترمذى ۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک سو تریسٹھ احادیث روایت کیں جن میں سے بخاری اور مسلم کا چار پر اتفاق ہے چار میں بخاری منفرد ہیں اور پانچ پر مسلم منفرد ہیں ۔ آپ سے حضرت ابو درداء ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت نعمان بن بشیر ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن زبیر رضی الله عنہم جیسے صحابہ کرام کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله ﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سرداری والا کوئی نہیں دیکھا ۔ ان سے عرض کیا گیا : کیا حضرت ابو بکر ، حضرت عمر و حضرت عثمان و حضرت علی رضی الله عنہم بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے؟ فرمایا : بلاشبہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے افضل و بہتر تھے ، لیکن حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان سب سے زیادہ سرداری والے تھے ۔ امام ابن عبد البر فرماتے ہیں ایک بار حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی بارگاہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا تذکرہ کیا گیا ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا : " قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا ۔ جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے سفر شام میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا : معاویہ! عربوں کا کسری ہیں ۔ حوالہ درج ذیل ہے العقد الثمين فى تاريخ البلد الامین ، لامام تقی الدین محمد بن احمد الحسنی الفاسی ، حرف الميم ، من اسمه المطلب ، تحت " معاوية بن أبي سفيان ، جلد 7 ص 227 تا 228 ، رقم : 2477 ، مطبوعة مؤسسة الرسالة ،طبع ثانى ١٤٠٦ه‍ ١٩٨٦ء
  18. عظمت و شان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ از شیخ اسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1401ھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ، اور اولوالعزم صحابہ سے ہیں ، حضرت امیر معاویہ فقیہ یعنی مجتہد ہیں، کاتب وحی ہیں ھادی و مھدی ہیں امام حسن پاک نے اتنی بڑی طاقت کے باوجود حضرت امیر معاویہ کو حکومت کی باگ ڈور سونپ دی اور خود ان کی بیعت کرلی کیا امام حسن رضی اللہ عنہ سے آج کے فسادی اور معتدی لوگ زیادہ جانتے ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ، اور جو صحابہ کرام کے درمیان اختلافات و جنگوں کے واقعات ہیں ان میں تاویلات اور حسن نیات کا قائم رکھنا ضروری ہے اور ان حضرات کے خلافِ شان بکواس کرنا اور طعن زنی کرنا سراسر گمراہی و بے دینی ہے کیونکہ قطعی دلائل کے خلاف اور نصوص قطعیہ کی مخالفت ہوگی........ الخ" انوار قمریہ ملفوضات قمر الدین سیالوی رحمتہ اللہ علیہ جلد 2 صفحہ 76 تا 86
  19. عظمت و شان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ از ابو البرکات سید احمد قادری ناظم دار العلوم حزب احناف متوفی 1398ھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اعلی مرتبہ کے صحابی ہیں کاتب وحی کے عہدہ پر ممتاز رہے ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں لشکر اسلامی کی سپہ سالاری کا منصب آپ کو عطا ہوا رسائل و مناظرے ابوالبرکات مناظرہ معین الدپور سنی و شیعہ صفحہ 406 مطبوعہ فیضان مدینہ پبلیکیشر کامونکی پورے مناظرے کے لیے لنک پر کلک کریںhttps://archive.org/details/RasailWaMunazreAbuAlBarkaat
  20. الحمدللّٰہ امت مُسلمہ کے لیڈر قائد ملت اسلامیہ جگر گوشہ قبلہ امیر المجاہدین صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی صاحب کی نظر بندی میں توسیع کی حکومتی درخواست کو خارج کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے امیر محترم کو رہا کرنے کا حُکم دیا ان شاءاللہ جلد امیر محترم باعزت رہائی پائیں گے
  21. قبلہ سعد حسین رضوی صاحب کو ناموس رسالت ﷺ کے دفاع کی وجہ سے قادیانی نواز یزیدی حکومت نے تین ماہ پہلے نظر بند کردیا تھا آج ہائی کورٹ میں پیشی پر مسکراہٹ نمایاں تھی VID-20210702-WA0044.mp4 VID-20210702-WA0043.mp4 واپسی کے مناظر VID-20210702-WA0051.mp4
×
×
  • Create New...