Jump to content

محمد عاقب حسین

اراکین
  • کل پوسٹس

    84
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    8

سب کچھ محمد عاقب حسین نے پوسٹ کیا

  1. امام خطیب البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا : حدثنا أبو العلاء إسحاق بن محمد التمار في سنة ثمان وأربع مائة، قال: حدثنا أبو الحسن هبة الله بن موسى بن الحسن بن محمد المزني المعروف بابن قتيل بالموصل، قال: حدثنا أبو يعلى أحمد بن علي بن المثنى التميمي، قال: حدثنا شيبان بن فروخ الأبلي، قال: حدثنا سعيد بن سليم الضبي، قال: حدثنا أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كثرت ذنوبك فاسق الماء على الماء تتناثر كما يتناثر الورق من الشجر في الريح العاصف " ( كتاب تاريخ بغداد ت بشار :- 2199 ) انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارے گناہ بہت ہو گئے ہیں تو لوگوں کو پانی پلاؤ تمہارے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جس طرح طوفانی ہواؤں سے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے اسکی سند میں موجود راوی 1 : ابن قتيل المزني مجھول العین ہے 2 : سعيد بن سليم الضبي ضعیف الحدیث ہے . ( تقريب التهذيب :- 2337 ) ہمارے علم و تحقیق کے مطابق اسے کسی دوسری سند سے روایت نہیں کیا گیا. فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  2. یہ ایک طویل روایت کا حصہ ہے مکمل روایت درج ذیل ہے : عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "أرحم أمتي بأمتي أبو بكر, وأقواهم في دين الله عمر, وأشدهم حياءً عثمان, وأقضاهم علي بن أبي طالب, ولكل نبي حواري وحواريي طلحة والزبير وحيثما كان سعد بن أبي وقاص كان الحق معه, وسعيد بن زيد من أحباء الرحمن, وعبد الرحمن بن زيد من تجار الرحمن, وأبو عبيدة بن الجراح أمين الله وأمين رسوله, ولكل نبي صاحب سر وصاحب سري معاوية بن أبي سفيان, فمن أحبهم فقد نجا ومن أبغضهم فقد هلك" أخرجه الملاء في سيرته. ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحیم ابوبکر صدیق اور دین کی باتوں میں سب سے زیادہ قوی عمر اور حیا میں سب سے زیادہ عثمان اور علم قضاء میں سب سے زیادہ علی اور ہر نبی کے کچھ حواری ہوتے ہیں میرے حواری طلحہ اور زبیر اور جہاں کہیں سعد بن ابی وقاص ہوں تو حق انہی کی طرف ہوگا اور سعید بن زید ان دس آدمیوں میں سے ہیں جو الرحمٰن کے محبوب ہیں اور عبدالرحمن بن عوف الرحمٰن کے تاجروں میں سے ہیں اور ابو عبیدہ ابن جراح اللہ اور رسول اللہ کے امین ہیں ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرے راز دار معاویہ بن ابی سفیان ہیں جو شخص ان سب سے محبت رکھے گا نجات پائے گا جو شخص ان سے بغض رکھے گا ہلاک ہوگا رضی اللہ عنھم محب الدین طبری اسے نقل کرنے کے بعد کہتے ہے أخرجه الملاء في سيرته یعنی اسے أبو حفص عمر بن محمد الموصلي،المعروف بالملاء (المتوفی570) نے وسيلة المتعبدين في سيرة سيد المرسلين میں روایت کیا ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَمْ نَذْكُرْ مَنْ لَا يَرْوِي بِإِسْنَادِ - مِثْلَ كِتَابِ وَسِيلَةِ الْمُتَعَبِّدِينَ لِعُمَرِ الملا الموصلي وَكِتَابِ الْفِرْدَوْسِ لِشَهْرَيَارَ الديلمي وَأَمْثَالِ ذَلِكَ - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ دُونَ هَؤُلَاءِ الطَّبَقَاتِ ؛ وَفِيمَا يَذْكُرُونَهُ مِنْ الْأَكَاذِيبِ أَمْرٌ كَبِيرٌ [مجموع الفتاوى:1/ 261] یعنی اس کتاب میں بے سند روایات ہیں اور اس کتاب میں اکثر من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں نوٹ :- اس حدیث کو کئی محدثین نے اپنی اپنی کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ اضافے اور کمی کے ساتھ نقل کیا حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس کو پانچ سندوں سے نقل کیا ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 39/95 ) ( كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 58/401 ) امام ابو یعلی موصلی رحمہ اللہ نے اس کو اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب مسند أبي يعلى - ت السناري 8/62 ) امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب مسند البزار = البحر الزخار 13/259 ) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ( كتاب صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع 4/306 ) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سند صحیح کے ساتھ نقل کیا : ( كتاب سنن ابن ماجه - ت الأرنؤوط 1/107 ) اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند صحیح کے ساتھ ( كتاب سنن الترمذي - ت شاكر 5/644 ) اور اسی طرح درجنوں محدثین نے مگر کسی نے بھی حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ نہیں کیا کہ معاویہ میرے رازداں ہیں حالانکہ امام ابن ماجہ نے حضرت معاذ بن جبل ابی بن کعب بن زید بن ثابت کی فضیلت کا بھی اضافہ کیا لیکن حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ کسی محدث نے باسند یا بے سند نہیں کیا حضرت معاویہ کی فضیلت کا اضافہ اس کتاب میں موجود ہے جو کتاب موضوع من گھڑت روایات کی اکثریت پر مشتمل ہے اور بے سند روایات پر مشتمل ہے لہذا حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کا اضافہ باطل ہے . عدم متابعت و شواہد و سند و معتبر مآخذ کی بنا پر جن تین صحابہ کی فضیلت کا اضافہ سند صحیح سے ثابت ہے وہ درج ذیل ہے سنن ابن ماجہ :- 154 صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں“ فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  3. امام الحافظ ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا: حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا يحيى بن نصر الخولاني، ثنا عبد الله بن وهب، أخبرني يحيى بن أيوب، عن زبان بن فائد، عن سهل بن معاذ، عن أبيه، رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من بر والديه طوبى له زاد الله في عمره» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه " [التعليق - من تلخيص الذهبي]٧٢٥٧ - صحيح ( كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية :- 7257 ) ترجمہ :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے والدین کی عزت کی، اللہ اس کی عمر میں برکت عطا فرمائے"۔ اگرچہ امام حاکم اور امام ذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر اس کی سند میں علت قادحہ موجود ہے سند میں زبان بن فائد اور سهل بن معاذ دونوں ضعیف الحدیث ہیں . اور تعجب کی بات ہے کہ دونوں کو خود امام ذھبی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے . زبان بن فائد المصري عن سهل بن معاذ وعنه الليث وابن لهيعة فاضل خير ضعيف ( كتاب الكاشف للذہبی :- 1610 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ( تقريب التهذيب 1/213 ) اسی طرح سهل بن معاذ کو امام ذہبی اور یحیی بن معین نے ضعیف قرار دیا اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس سے روایت کرنے میں خاص زبان بن فائد کی روایت پر کلام کیا . ہمارے علم کے مطابق کسی دوسرے محدث نے اس کو کسی دوسری سند سے بیان نہیں کیا لہذا یہ حدیث ضعیف ہے ۔ لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنا اور ان کی عزت کرنا یہ دیگر درجنوں صحیح احادیث سے ثابت ہے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہیں : امیر المومنین فی الحدیث سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب الادب المفرد میں پہلی حدیث لائے ہیں الادب المفرد :- 01 صحیح عمرو بن شیبانی، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمیں اس گھر والے نے بتایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ کے رستے میں جہاد کرنا۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے انہی سوالوں پر اکتفا کیا، اگر میں مزید درخواست کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید چیزیں بتا دیتے۔ فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  4. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس اظہر من الشمس جھوٹی روایت کو اپنی الموضوعات میں نقل کیا : «حُضُورُ مَجْلِسِ عَالِمٍ أَفْضَلُ مِنْ صَلاةِ أَلْفِ رَكْعَةٍ وَعِيَادَةِ أَلْفِ مَرِيضٍ وَشُهُودِ أَلْفِ جَنَازَةٍ» عالم کی مجلس میں حاضری ہزار رکعت نماز پڑھنے سے افضل ہزار مریضوں کی عیادت سے افضل اور ہزار جنازوں میں شریک ہونے سے افضل ہے كتاب الموضوعات لابن الجوزي1/223 حافظ ابن جوزی نے اسکو نقل کرکے کہا هذا حديث موضوع اسکی سند میں 1 : محمد بن علي بن عمر المذكر متروک كما قال ابن الجوزي 2 : إسحاق ابن نجيح کذاب ابن جوزی امام احمد سے نقل کرتے ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا ہے اسی طرح امام ذہبی نے بھی اس کو کذاب کہا اور ابن حجر عسقلانی نے بھی موافقت کی 3 : أحمد بن عبد الله الجويباري یہ مشہور احادیث گھڑنے والا راوی ہے . اس کے بارے میں شیخ الاسلام حافظ الدنیا امیر المؤمنین فی الحدیث ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أما الجويباري فإني أعرفه حق المعرفة بوضع الأحاديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد وضع عليه أكثر من ألف حديث جہاں تک تعلق رہا جویباری کا تو میں اسے بہت اچھے سے احادیث گھڑنے کے حوالے سے جانتا ہوں اس ( خبیث ) نے نبی علیہ السلام پر ایک ہزار سے زائد احادیث کو گھڑا ہے . ( كتاب لسان الميزان 1/194 ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور امام ذہبی نے اس کے ترجمے میں اس کی اس جھوٹی روایت کو نقل کرکے بطور ثبوت یہ روایت پیش کی کہ اس نے اس کو وضع کیا ہے جو روایت زیر بحث ہے . چناچہ امام ذہبی فرماتے ہیں ومن طاماته: عن إسحاق ابن نجيح الكذاب ..... قال: حضور مجلس عالم خير من حضور ألف جنازة ...... الخ اور یہ روایت جویباری کی گمراہیوں میں سے ایک ہے جو اس نے اسحاق بن نجیح کذاب سے نقل کی آگے پھر اسی روایت کا ذکر کیا . ( كتاب ميزان الاعتدال 1/107 ) لہذا جب اس روایت کا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو اب اس کی نسبت نبی علیہ السلام کی طرف کرنا حرام ہے فقط واللہ و رسولہ اعلم خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  5. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوپر پیش کی گئی تحقیق میں میں نے اس روایت کو بیان کرنے کی اجازت دی تھی جو کہ میرا تقریباً ایک سال پرانا سابقہ مؤقف تھا میں اپنے اس مؤقف سے رجوع کرتا ہوں کیونکہ یہ روایت شدید ضعیف ہے اور اس کو بیان کرنے میں سلام بن سلم أبو عبد الله الطویل کا تفرد ہے اور یہ راوی چونکہ متروک الحدیث ہے اسی لیے یہ روایت شدید ضعیف ہے اور شدید ضعیف روایت کو شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر ائمہ کے اصول کے مطابق فضائل میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی وگرنہ اسے رد کر دیا جائے گا وہ شرائط ملاحظہ ہوں أَنْ يَكُونَ الضَّعْفُ غَيْرَ شَدِيدٍ، فَيَخْرُجُ مَنِ انْفَرَدَ مِنَ الْكَذَّابِينَ وَالْمُتَّهَمِينَ بِالْكَذِبِ، وَمَنْ فَحُشَ غَلَطُهُ، نَقَلَ الْعَلَائِيُّ الِاتِّفَاقَ عَلَيْهِ ترجمہ: اس کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں امام صلاح الدین علائی رحمہ اللہ نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے [ كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/351 ] [ كتاب القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص255 ] اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ متروک الحدیث راوی کی روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں جاء في تدريب الراوي في شرح تقريب النووي: 1/409 [ وإذا قالوا متروك الحديث أو واهيه، أو كذاب فهو ساقط لا يكتب حديثه ولا يعتبر به ] امام جلال الدین سیوطی تدریب الراوی میں فرماتے ہیں جب کسی راوی کو متروک الحدیث کہا جائے یا واھیات بیان کرنے والا کہا جائے یا کذاب کہا جائے تو وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہ لکھی جائے اور نہ ہی اس پر اعتبار کیا جائے لہذا اس روایت کو تب تک بیان نہیں کر سکتے فضائل میں جب تک کسی دوسری سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں سلام الطویل کا تفرد ٹوٹ جائے محمد عاقب حسین رضوی
  6. بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم کافی عرصے سے اس جھوٹ کو نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے اور اکثر خطباء اور واعظین اس کو بڑے زور و شور سے بیان کر رہے ہیں سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک مفتی صاحب نے اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایک تحریر بھی لکھ دی اور اپنی ایک کتاب میں اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے تھوڑی سی گفتگو بھی کی ہم نے اپنی درج ذیل پی ڈی ایف میں مفتی صاحب کے دلائل کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اس روایت کو اصول محدثین پر موضوع یعنی منگھڑت ثابت کیا تمام احباب اس کا ضرور بضرور مطالعہ فرمائیں اور زیادہ سے زیادہ آگے شیئر کریں تاکہ اس جھوٹ کو نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی طرف منسوب کرنے سے روکا جا سکے منگھڑت حدیث.pdf
  7. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ میــرے صحـابــہؓ کــے معـامـلـے میــں اللہ ســے ڈرو حـدیــثـــــ کــی تحـقیـق اَلصَّـــلٰوةُوَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَاخَـاتَــمَ النَّبِیِّیْــن بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم امام ابنِ حؒبان (المتوفى: 354هـ) نے فرمایا أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوا أَصْحَابِي غَرَضًا مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذ اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ" صحيح ابن حبان حدیث نمبر 7256📓 ترجمہ: عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے [ ھذا حدیث صحیح لغیرہ ] ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ صحیح ابن حبان کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمن الرومي پر جہالت کا الزام ہے جس وجہ سے اس سند کو ضعیف کہا جاتا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزام درست نہیں سب سے پہلے ہم اس راوی کے معروف ہونے پر دلیل دیں گے اور پھر اس کی توثیق پر چنانچہ سید المحدثین امام بخاریؒ فرماتے ہیں مُحَمد بْن الحُسَين بْن إِبْرَاهِيم، حدَّثني أَبي، سَمِعتُ حَماد بْن زَيد، حدَّثنا عَبد اللهِ الرُّومِيّ، ولم يكن رُومِيًّا، كَانَ رجلا منا من أهل خُراسان حسین بن ابراہیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے حماد بن زید سے سنا کہ عبداللہ الرومی جو ہے یہ رومیوں میں سے نہیں بلکہ یہ اہل خراسان میں سے ایک ہے یہ ہے اس راوی کے معروف ہونے کی دلیل 👆 جہاں تک بات رہی توثیق کی تو درج ذیل محدثین نے اس کی توثیق کی امام ابن حبؒان نے ان کو ثقہ کہا ✦ ثقات ابن حبان 5/17 رقم :- 52📕 امام زین الدین قاسمؒ بن قطلوبغا نے کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة یعنی وہ ثقہ راوی جو کتب ستہ میں موجود نہیں اس کتاب میں درج کرکے توثیق کی الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 5/378📓 اور امام عجلیؒ نے بھی اس کو ثقہ کہا ✦ تاريخ الثقات ص284 رقم :- 914📙 مزید یہ کہ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے بھی ثقہ کہا ہے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ راوی کم از کم درجہ صدوق حسن الحدیث پر فائز ہے اور اس کو اس درجہ سے گرانا زیادتی ہوگی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ لوگوں کو اشکال ہو کہ امام الائمہ والمسلمین شیخ الاسلام امام ابن حجرعسقلانیؒ نے تقریب التہذیب میں اس کو مقبول کہا ہے اور وہ اس اصطلاح کا اطلاق لین الحدیث پر کرتے ہیں تو اس اشکال کا بھی جواب دیتے چلتے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا اس کو مقبول کہنا اس کو درجہ صدوق سے نہیں گراتا کیونکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے تو اپنی اصطلاح مقبول کا اطلاق صحیح بخاری کے ثقہ راوی پر بھی کیا ہے مثلاً يحيى بن قزعة ان کو امام ابن حبانؒ نے ثقہ کہا امام ذھبیؒ نے ثقہ کہا مگر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ان کو مقبول کہا جب کہ یہ امام بخاریؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاریؒ ان سے صحیح بخاری میں متصل مرفوع روایات لائے ہیں مثال کے طور پر چند حدیثوں کے نمبر پیش کر دیتا ہوں جن میں امام بخاریؒ ڈائریکٹ ان سے روایت کر رہے ہیں حدیث نمبر :- 4491 ٬ 2602 ٬ 6988 ٬ 4216 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تو ثابت ہوا کہ صحیح ابن حبان کی سند حسن ہے اب چلتے ہیں سنن الترمذی کی سند کی طرف امام ترمذیؒ (المتوفى: 279هـ) نے فرمایا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ» سنن ترمذي حدیث نمبر 3862📘 ترجمہ: عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اس کی سند میں موجود راوی عبد الرحمن بن زياد پر یہ اعتراض ہے کہ یہ مجہول راوی ہے یہ اعتراض بھی حقیقت کے بالکل مخالف ہے یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اس کو امام یحؒییٰ بن معین نے ثقہ کہا✦ اور یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی راوی کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلی درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امام یحییؒ بن معین جرح میں متشدد امام تھے لہذا آپ کی توثیق اعلی درجے کی مقبولیت کی حامل ہے سـير أعـلام النبـلاء للإمام الذهبي 9/183📒 اس کو امام ابن حبؒان نے ثقہ کہا✦ اس کو امام عجلیؒ نے ثقہ کہا ✦ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے ثقہ ✦ كتاب تهذيب التهذيب 6/177📔 کتاب تحریر تقريب التهذيب میں اس راوی سے حتمی فیصلہ یہ بتایا گیا کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی درست اور راجح ہے كتاب تحریر تقريب التهذيب 2/320📙 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تو ثابت ہوا کہ ابن حؒبان کی سند بھی حسن ہے اور ترمذی کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند کو تو خود امام ترمذیؒ نے بھی حسن غریب کہا ہے لہذا یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجے پر فائز ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتب میں صحیح لغیرہ کی تعریف واضح ہے الصحيح لغيرہ هو الحسن لذاته إذا روي من طريق آخر مثله أو أقوى منه وسمي صحيحا لغيره؛ لأن الصحة لم تأت من ذات السند الأول، وإنما جاءت من انضمام غيره له ترجمہ: صحیح لغیرہ وہ ہے جب حسن لذاتہ کو کسی دوسرے طریق ( سند ) کے ساتھ روایت کیا جائے جو اس کی مثل یا اس سے زیادہ قوی ہو تو یہ صحیح لغیرہ ہے اس کو صحیح لغیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صحت سند کی ذات سے نہیں آتی بلکہ اس کے غیر کو اس سے ملانے کی وجہ سے آتی ہے نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر ص34📕 كتاب تيسير مصطلح الحديث ص64📓 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ خــلاصـــــــہ کــــــــلام اصولی طور پر ہم نے ثابت کیا کہ صحیح ابن حبان کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند بھی حسن ہے لہذا جب دو حسن اسناد ایک دوسرے کی مثل موجود ہیں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہے اگر کوئی شخص صحیح ابن حبان کی سند کو ضعیف مانتا ہے اور جامع ترمذی کی سند کو حسن مانتا ہے تو تب بھی یہ حدیث حسن لذاتہ درجے پر فائز رہے گی اور ابن حبان کی سند اس کی شاہد بنے گی اور اگر کوئی شخص دونوں اسناد کو ضعیف کہتا ہے تب بھی یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ پر فائز رہے گی یعنی قابل احتجاج و استدلال رہے گی لہذا کسی طرح بھی اس حدیث کی صحت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی شخص مطلقاً اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو وہ علم و اصول حدیث سے ناواقف ہے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ⇊ تحـقیــق و دعـاگـــو خـادم اہـلسنت و جمـاعت محمــد عـاقـب حسیــن رضــوی ⇊ بــا تصــدیــق فـضيـلــة الشيــخ اســد طحــاوي الحنفـي البـريـلوي غفرالله له عـلامــة زبـيـر احمــد جمـالـوي عفـي الله عنـه ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  8. اکابر و حکیمِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کی مسئلہ عید میلاد النبی ﷺ پر پوری کتاب ایسا سمجھ لیں کہ یہ کتاب دور حاضر کی دیوبندیت کے لیے منہ مانگی موت ہے اس کتاب میں اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں حکیم الامت دیوبند صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید میلاد لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں ہم اسے باعث برکت سمجھتے ہیں اور جس مکان میں عید میلاد منائی جائے اس میں برکت ہوتی ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 4) حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے یومِ ولادت پیر اور تاریخ ولادت بارہ (12) ربیع الاوّل باعث برکت ہیں اس دن و یوم میلاد سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 5) حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے اور تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے ملی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اصل ہیں تمام نعمتوں کی ۔ (اِرشادُالعِبَاد فِی عِیدِ المیلاد صفحہ نمبر 5 ، 6) اور مزید بھی اس کتاب میں بہت کچھ موجود ہے پوری کتاب کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرکے مطالعہ کریں تحریر کے ساتھ پی ڈی ایف اٹیچ کر دیا جائے گا 20929014-irshad-ul-ibad-fi-eid-e-milad-ashraf-ali-thanvi.pdf
  9. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــیــا حنــفــی گــمــراہ فــرقــہ ہــے انــجیــنئر مــرزا کــــی جـہـالـتـــــ کــا رد اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁ مشہور زمانہ فتنہ علمی یتیم جونیئر مرزا جہلمی غنیۃ الطالبین کے حوالے سے اعتراض کرتا ہے کہ اس کتاب میں سیدنا غوث الاعظمؓ نے حنفیہ کو مرجئہ فرقوں میں شمار کیا ہے ان شاءاللہ اس کا رد بلیغ کریں گے ✧✧✧ـــــــــــــــــ{﷽}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مرجئہ کے معنی کیا ہیں مرجئہ کا لفظ ارجاء سے ہے جس کے لغوی معنیٰ موخر کرنا ہیں اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852ھ لکھتے ہیں وَمِنْهُم من أَرَادَ تَأْخِير القَوْل فِي الحكم على من أَتَى الْكَبَائِر وَترك الْفَرَائِض بالنَّار لِأَن الْإِيمَان عِنْدهم الْإِقْرَار والاعتقاد وَلَا يضر الْعَمَل مَعَ ذَلِك مقدمہ فتح الباری ص646📕 کہ بعض کے ہاں ارجاء سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر دخول فی النار [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ] کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں سلطان المحدثین ملا علی قاریؒ 1014ھ فرماتے ہیں ثم المرجئه طائفته قالوا لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعته فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علي شئي من الکبائر شرح فقہ اکبر ص75📔 ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ تو آپ لوگوں کو اس فرقے کا تعارف تو پتہ چل ہی گیا ہوگا اب اصل میں یہ فرقہ حنفیہ نہیں بلکہ فرقہ غسانیہ ہے یعنی غسان ابن عبا الکوفی کے متبعین کو فرقہ غسانیہ کہتے ہیں ان کے عقائد آپ کو اوپر بتائے جا چکے ہیں مزید دیکھ لیں امام عبدالقاھر البغدادیؒ 429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں قال انه يزيد ولا ينقص وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص الفرق بين الفرق ص188📒 ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہؓ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہؓ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت اللہ اور رسول ﷺ کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیر تفصیل کے اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا ================================ اب یہ عقیدہ نہ تو امام ابو حنیفہؓ کا ہے نہ آپ کے متبعین کا دراصل غسان ابن عبا اور اس کے متبعین لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے کہ جو عقیدہ ہمارا ہے امام ابو حنیفہؓ کا بھی یہی عقیدہ تھا اور پھر یہ فرقہ غسانیہ کے نام سے بدل کر حنفیہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس نام سے یہ فرقہ مشہور تھا اسی نام سے اس کو مرجئہ میں شامل کیا ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ اور امام اعظم ابو حنیفہؓ نے تو خود اس عقیدہ کا اپنی کتاب میں رد کیا ہے جو غسان ابن عبا کا تھا امام ابوحنیفہؓ نے اس کا رد اپنی کتاب فقہ الاکبر میں صراحت سے کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا الفقہ الاکبر مع الشرح ص77،78📙 ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا خـــــــلاصــــہ کـــــــلام تو تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ فرقہ مرجئہ کے جو عقائد ہیں وہ نہ تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں نہ آپ کے متبعین کے ہیں بلکہ وہ غسان ابن عبا اور اس کے متبعین کے ہیں ️اور بہت سے مستند علماء کرام نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ یہ عبارت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہیں بلکہ کسی مخالف کی ہے اور غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے مگر اس میں تحریف ہو چکی ہے بہت سے مسائل میں یہ بھی مستند علماء کرام اور محدثین کا موقف ہے انجینئر مرزا اپنے اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے امام اعظمؓ سے ذاتی بغض اور کینہ کی بنا پر یہ بات اور یہ الزام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ پر عائد کیا کہ گویا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حنفیوں کو مرجئہی کہا اور سب سے اہم بات انجینئر مرزا جہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا ہے دار الکتب العلمیہ بیروت وہاں سے شائع ہونے والی غنیۃ الطالبین میں حنفیہ کی جگہ غسانیہ ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 1/186 پھر اسی کتاب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ جب ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؓ کا تعارف کرواتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ کرواتے ہیں وهو مذهب الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان رحمه الله تعالى یہ مذہب ہے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اب انجینئر بتائے بقول انجینئر جن کے فرقے کو اور جن کو وہ مرجیئہ کہہ رہے ہیں ان کو رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام اعظم بھی کہیں گے؟؟ جبکہ وہ خود امام احمد بن حنبلؒ کے مقلد ہیں فقہ میں اپنی پوری کتاب میں انہوں نے اپنے امام کو امام اعظم نہیں کہا۔ ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 2/85 ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ✍️ شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنّت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
  10. امام محمد بن المنکدر کو خاص استثناء بھی حاصل ہے محمد بن منکدر کی مراسیل کو امام ابن عيينة نے قبول کیا ہے یعنی یہ آپ کو خاص استثناء حاصل ہے جیسا کہ سعید بن مسیب اور دیکر کبار تابعین کی مراسیل کو آئمہ نے قبول کیا ہے كتاب تهذيب التهذيب 9/475📙 لہذا اگر اوپر تحریر میں مراسیل کی حجیت کے دلائل کو دیکھنے کے باوجود بھی کوئی وہابی کہے کہ ہم نہیں مانتے تو اب تو اسے ماننا ہی ہوگا کیونکہ محمد ابن منکدر کی مراسیل کو جلیل القدر ائمہ اور محدثین میں سے ایک امام سفیان بن عیینه نے قبول کیا ہے
  11. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ ◉◎➻═•━══→﷽←⁩══•━═➻◎◉ آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓 اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒 اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں ★ محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه ★ أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه ★ أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث ★ الدارقطني :- ضعيف الحديث ★ يحيى بن معين :- له احاديث منكرة ★ ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث ★ أبو بكر البيهقي :- ضعيف روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕 البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙 شعب الایمان للبیہقی 9/508📒 مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓 جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗 ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار اله‍جر📔 اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے ❖◉➻════════════════➻◉❖ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
  12. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــــوئــــی ایـســا گـھـر نـہـیـں جـس کـــے دروازے پـــر مـلــک المــوت عــلیـــہ الســــلام دن میـــــں پـانـچ مـــرتــبـــہ نــــہ آتـــا ہــــو اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ بِسْــــــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْــــــمٰنِ الرَّحــــــِیـــــم آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے ہر بندہ انٹرنیٹ سے مواد اٹھا کر شیئر کرتا ہے بس لوگوں کو نئے نئے واقعات ملنے چاہئیں وہ ان واقعات کی تحقیق بھی نہیں کرتے اور اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لئے جہنم بنا رہے ہیں اسی طرح ایک یہ روایت بھی ہم تک تحقیق کرنے کے لئے پہنچی کہ نبی ﷺ کی طرف منسوب ہے کوئی ایسا گھر نہیں جس کے دروازے پر موت کا فرشتہ دن میں پانچ مرتبہ نہ آتا ہو جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کا رزق پورا ہوگیا تو اس پر موت کا غم ڈال دیتا ہے اور اس پر موت کی وحشت چھا جاتی ہے اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے اس کے گھر والے اس کے ماتم میں اپنے بال کھول دیتے ہیں اپنے چہرے پیٹ کر سرخ کر دیتے ہیں اس مصیبت پر چیخ و پکار کر رہے ہوتے ہیں فرشتہ مرگ کہتا ہے ہلاکت ہو تم پر کیسا خوف اور کیسا غم میں نے تم میں سے کسی کا رزق تو کم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کی موت قریب کی میں تو اسی وقت کسی کے پاس آتا ہوں جب اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے حضور کی طرف منسوب ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر یہ اسے کھڑا دیکھ لیں اور اس کی باتیں سن لیں تو اپنے مردے کو بھول جائیں اور خود رونے لگیں الخ یہ وہ روایت ہے جو بڑا مرچ مصالحے کے ساتھ واٹس اپ گروپس میں بھی شیئر کی جاتی ہے اور انٹرنیٹ کی ویب سائٹس پر بھی موجود ہے آئیے اس کی تحقیق کرتے ہیں ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ روایــت کـــی تحـقیــق درج ذیـــل ہـــے اس جھوٹے قصے کو گھڑنے والا شخص ابن وَدْعَان (المتوفى: 494هـ) ہے جس کا پورا نام محمد بن علي الودعاني ہے یہ خود تو متہم بالکذب ہے مگر اس نے چالیس روایات پر مشتمل ایک نسخہ گڑھا جس کی تصریح امام الائمہ و المسلمین امام ابن حجرعسقلانیؒ نے اور امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے کی پہلے اس کے نسخے کی روایت ملاحظہ ہو جو اس نے اپنی سند سے نکل کی حدثنا الحسن بن محمد بن جعفر الصوفي البغدادي رحمه الله قال: حدثنا القاضي أبو جعفر أحمد بن عبد الله قال:حدثنا أبي قال: حدثنا عبد الله بن مسلم بن قتيبة قال: حدثنا يحيى بن أيوب قال: حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من بيت إلا وملك الموت يقف على بابه في اليوم خمس مرات فإذا وجد الإنسان قد نفد أكله وانقطع أجله ألقى عليه الموت فغشيه كرباته وعمرته علزاته فمن أهل بيته الناشرة شعرها والضاربة وجهها والباكية لشجوها والصارخة قولها، فيقول ملك الموت عليه السلام ويلكم مم الفزع ومم الجزع فما أذهبت لواحد منكم رزقا ولا قربت له أجلا ولا أتيته حتى أمرت ولا قبضت روحه حتى إستأذنت وإن لي فيكم عودة ثم عودة حتى لا يبقى منكم أحدا قال النبي صلى الله عليه وسلم فوالذي نفس محمد بيده لو يرون مكانه ويسمعون كلامه لذهلوا عن ميتهم ولبكوا على أنفسهم حتى إذا أحمل الميت على نعشه رفرفت روحه فوق النعش وهو يناجي أهله ويا ولدي لا تلعبن بكم الدنيا كما لعبت بي، جمعت المال من حله ومن غير حله ثم خلفته لغيري،فالهناة له والتبعة على فا حذروا مثل ما حل بي كتاب الأربعون الودعانية لابن ودعان ص41📓 ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس شخص اور اس کے اس گڑھے ہوئے نسخے کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کیا فرماتے ہیں امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں محمد بن علي بن ودعان القاضي، أبو نصر الموصلي، صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي، وأدركه، وسمع منه، وقال: هالك متهم بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے كتاب ميزان الاعتدال 3/658📒 امام الائمہ المسلمین الشیخ اکبر امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی مشہور اسماء الرجال کی کتاب لسان المیزان میں اس کے ترجمے میں یہی کلام نقل کیا محمد بن علي بن ودعان القاضي أبو نصر الموصلي صاحب تلك الأربعين الودعانية الموضوعة ذمه أبو طاهر السلفي وادركه وسمع منه وقال هالك متهم بالكذب وقال ابن ناصر رأيته ولم أسمع منه لأنه كان متهما بالكذب ترجمہ: یہ چالیس ودعانی روایات کو ایجاد کرنے والا شخص ہے جو موضوع ہیں ابو طاہر سلفی نے اس کی مذمت کی انہوں نے اس کا زمانہ پایا اور اس سے سماع کیا اور یہ کہا کہ یہ ہلاکت کا شکار ہونے والا شخص اس پر جھوٹا ہونے کا الزام عائد ہے مزید فرماتے ہیں ابن نصر کہتے ہیں میں نے اسے دیکھا مگر میں نے اس سے سماع نہیں کیا کیونکہ اس پر جھوٹا ہونے کا الزام ہے كتاب لسان الميزان 5/305📙 علامہ شمس الدين ابن الغزيؒ نے اپنی كتاب ديوان الإسلام میں فرمایا ابن ودعان: محمد بن علي بن أحمد فخر القضاء أبو نصر الموصلي المتهم بالكذب كتاب ديوان الإسلام 4/385📕 امام ابن کثیرؒ بھی البدایہ والنہایہ میں اس کے ترجمہ میں اس نسخے کے بارے میں کہتے ہیں وهي موضوعة كلها وإن كان في بعضها معان صحيحة ترجمہ: اس نسخے میں تمام روایات من گھڑت ہیں اگرچہ ان میں سے بعض کے معنی درست ہیں كتاب البداية والنهاية ط هجر 16/179📔 ◉➻═════════════➻◉ ان تمام ائمہ کرامؒ کی تصریحات سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اس گھڑے ہوئے نسخے میں جو چالیس روایات ہیں وہ موضوع ہیں اور خود اس نسخہ کو اپنی سند سے نکل کرنے والا جو شخص ہے اس کو بھی محدثین نے متہم بالکذب کہا مگر اب جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نسخہ اس نے گھڑا ہے تو یہ راوی کذاب اور واضع الحدیث ثابت ہوگیا ہے جہاں تک بات رہی مذکورہ روایت کی تو اس کی کوئی متابعت مجھے نہیں ملی اور اس کی سند کو نقل کرنے والا وہی شخص ہے جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ہے اور وہ اس نسخے میں اس کو نقل کر رہا ہے جس نسخے کے لئے ائمہ کرام کا کلام ہے کہ وہ گھڑا ہوا ہے لہذا ائمہ کرام کے کلام اور تصریحات سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ روایت موضوع ہے اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت وجماعت محمد عاقب حسین رضوی
  13. ★تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال★ الـســــــوال ↓↓↓↓↓ ☆اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ☆ نماز کی حالت میں ماں کے آواز دینے پر نماز توڑ دینے والی روایت کی تحقیق فرما دیں کیا یہ روایت صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو کیا یہ ہر نماز کے لئے ہے یا کسی نماز کے ساتھ خاص ہے مکمل تفصیل بتا دیں اور کیا باپ کے بلانے پر بھی نماز توڑ سکتے ہیں ؟؟ جزاک اللہ ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ 📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ★وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ★ ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ روایـتــــ کــی مـکمــل تحـقیـق درج ذیـــل ہـــے ⇊ ✍️ یہ روایت متصلاً ہمیں دو قسم کے الفاظوں کے ساتھ ملتی ہے👇 امام بیہقیؒ (المتوفى: 458هـ) نے فرمایا 7497 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، أنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، نا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، نا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ تُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، لَأَجَبْتُهَا: لَبَّيْكِ " يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ ضَعِيفٌ 📓شعب الإيمان 10/284 📒كتاب مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري 1/210 اور جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت مشہور ہے 👇 امام ابن الجوزیؒ (المتوفى: 597هـ) نے فرمایا 25 - أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَ أَبُو بَكْرٍ الْخَيَّاطُ، قَالَ: أَنْبَأَ ابْنُ دُوسْتَ الْعَلَّافُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُنَادِي، قثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قثنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قثنا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُوَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْقَ بْن عَلِيٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ *فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ:* يَا مُحَمَّدُ لَقُلْتُ لَبَّيْكِ " 📙كتاب البر والصلة لابن الجوزي ص57 📕كتاب كنز العمال 16/470 ترجمہ: اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ﷺ ، تو میں جواباً لبیک کہتا ============================ اس حدیث کی سند کا دارومدار ياسين بن معاذ پر ہے جو روایت کرتا ہے عبد الله بن قریر اور وہ روایت کرتے ہیں طلق بن علی سے عبداللہ کے والد کا نام مختلف اسانید میں محرف آیا ہے مرثد ٫ قرین ٫ قوید مگر اصل نام قُرَیر) ہے ) ملاحظہ ہو 👇 📗 الاکمال لابن ماکولا (7/ 84) ============================ ‼️ متصل سند میں یاسین بن معاذ سخت ترین مجروح راوی ہے اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ملاحظہ ہو 👇 ◈ محمد بن إسماعيل البخاريؒ : *منكر الحديث* ◈ مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ : *منكر الحديث* ◈ أحمد بن شعيب النسائيؒ : *متروك الحديث* ◈ أبو بكر البيهقيؒ : *متروك، وضعيف* ◈ أبو حاتم بن حبانؒ البستي : يروى الموضوعات عن الثقات، وينفرد بالمعضلات عن الأثبات، لا يجوز الاحتجاج به خلاصہ یہ ہوا کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے اس کی روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور وہ قابل اعتبار بھی نہیں ❗ مزید اس سند کو نقل کر کے ائمہ نے کیا فرمایا 👇 ◉ امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا 👇 هَذَا مَوْضُوع عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ ياسين 📓 كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/85 ◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع: آفَتُهُ ياسين (قُلْتُ) أخرجه الْبَيْهَقِيّ وَالله أعلم. 📕 كتاب اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250 ◉ امام محمد طاہر الفَتَّنِيؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع قلت أخرجه الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز هُوَ حَدِيث طلق عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ وَفِيه يس بن معَاذ يروي الموضوعات قلت قَالَ الْبَيْهَقِيّ ضَعِيف 📙 كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص202 ‼️ ائمہ جرح و تعدیل و محدثین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ روایت متصلاً ہرگز قابل احتجاج نہیں اور قابل اعتبار نہیں ◉➻═════════════➻◉ ✍️ ہاں مگر اس طرح کی روایت کو مرسلاً بھی دو طرق سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ⇊ 8013 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» 📓 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 8014 - حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: «إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ» 📕 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 📗 شعب الإيمان 10/285 ترجمہ: امام ابن ابی شیبہؒ نے محمد بن المنکدرؒ اور مکحولؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ [ ھذا حدیث مرسل صحیح ] ============================ ‼️ جیسا کہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے البتہ متصلاً جو الفاظ ہیں وہ ہرگز قابل احتجاج اور اعتبار نہیں مرسل حدیث پر مطلقاً ضعیف ہونے کا حکم دور حاضر کے وہابی غیرمقلدین لگاتے ہیں 🌟 جب کہ مرسل تمام صحابہ کرامؓ و تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں حجت ہے البتہ امام شافعیؒ کے ہاں مرسل معتضد حجت ہے ❗ اس موضوع پر جامع اور مفصل تحریر لکھی جا سکتی ہے مرسل کی حجیت پر مگر اختصاراً ایک دلیل ہی عرض کر دیتا ہوں 👇 وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ ترجمہ: علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔ 📓 كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/223 ‼️ جیسا کہ واضح ہوگیا کہ تمام تابعینؒ کا مرسل کی حجیت پر اتفاق تھا اسی طرح مذہب احناف مالکیہ اور حنابلہ کا بھی لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ مرسل حجت ہے اور یہ حدیث مرسل صحیح ہے ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ خـــــــــــــلاصـــــــــــــہ کـــــــــــــــــــلام ✍️ چناچہ پوری تحقیق سے ثابت ہوا کہ جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت متصلاً ملتی ہے وہ صحیح نہیں البتہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے 1 جیسا کہ بتایا گیا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے 👇 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ 2 جی بالکل یہ روایت نوافل نماز کے ساتھ خاص ہے ہاں البتہ فرض نماز بھی اگر پڑھ رہا ہو اور والدین مصیبت میں پکاریں تو پھر یہ حکم فرض کا ہے کہ وہ نماز ترک کر دے اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے اور اگر کسی سخت ضرورت اور مدد کے لیے نہ پکاریں تو فرض نماز توڑنا جائز نہیں اگر نفل نماز پڑھ رہا ہے اور والدین کو معلوم نہیں کہ بیٹا نماز پڑھ رہا ہے تو ان کے پکارنے یا آواز دینے پر نماز توڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور اگر انہیں معلوم ہے تو پھر تلاوت کو بلند کرے یا سبحان اللہ کہہ کر احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے 3 جی بالکل باپ کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا اگر فرض ہو اور سخت مصیبت اور پریشانی میں بلائے تو ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اگر نفل ہو اور ان کو معلوم نہ ہو تو پھر بلائیں تو پھر ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اور اگر ان کو معلوم ہو تو احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے دلیل ملاحظہ ہو 👇 "قلت: لکن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز وبه صرح في الإمداد بقوله: أي: لایجوز قطعها بنداء أحد أبویه من غیر استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لایجوز إلا لضرورة، وقال الطحطاوي: هذا في الفرض، وإن کان في نافلة إن علم أحد أبویه أنه في الصلاة وناداه لا بأس أن لایجیبه، وإن لم یعلم یجیبه قوله: إلا في النفل أي فیجیبه وجوبًا و إن لم یستغث لأنه لیم عابد بني إسرائیل علی ترکه الإجابة وقال ﷺ ما معناه: لو کان فقیهًا لأجاب أمّه، وهذا إن لم یعلم أنه یصلي، فإن علم لاتجب الإجابة لکنّها أولی کما یستفاد من قوله: لا باس" 📓 كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين 1/654 📕كتاب مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص138 📙كتاب حاشية الطحطاوي ص372 ╭┄┅─══════════════─┅┄╮ ༻◉ لبیک یا رسول اللہ ﷺ ◉༺ ╰┄┅─══════════════─┅┄╯ فقـــــــــــــط واللہ ورسولـــــــــــــہٗ اعلـــــــــم ____خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی____★᭄✨🌸
  14. ’’حافظ ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جا رہا تھا۔ میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ہے یا رکھتا ہے تو یوں کہتا ہے: اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد۔ میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ہے؟ (یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔۔میں نے پوچھا یہ درود کیا چیز ہے؟ اس نے کہا، میں اپنی ماں کے ساتھ حج کو گیا تھا۔ میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی) اس کا منہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکھا کہ تہامہ (حجاز) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا۔ اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ میں نے عرض کیا مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد ۔ پڑھا کر۔ (نزہۃ) ۔ ‘‘ [فضائل درود ص ۱۲۳-۱۲۶، تبلیغی نصاب ص ۷۹۳، ۷۹۴) ایسا ہی واقعہ امام قسطلانیؒ نے مسالک الحنفا الی مشارع الصلوٰۃ علی لمصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 164،165 پر نقل کیا ہے،شیخ عبدالرحمٰن اصفوری شافعیؒ کی کتاب نزہۃ المجالس صفحہ 96، امام ابن بشکوال نے القربہ صفحہ96 پر، امام یافعی یمنیؒ نے روض الریاحین میں ، امام اور غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن خان نے کتاب التعویذات صفحہ 67 پر نقل کیا ہے۔ مولانا ذکریا نے فضائل اعمال کا واقعہ نزہۃ المجالس سے نقل کیا اور اس کا حوالہ بھی دیا لیکن غیر مقلدین نے یہ ظاہر کیا کہ یہ واقعہ مولانا زکریاؒ نے خود بنایا ہے۔ غیر مقلدین کو چائیے کہ اگر کسی کتاب سے واقعہ نقل کرنا گستاخی ہے تو علامہ قسطلانی، امام ابن بشکوال، عبدالرحمان صفوری الشافعی، امام یافعی یمنی اور نواب صدیق حسن خان پر بھی گستاخی کا فتوی لگائیں جنہوں نے ایسا ہی واقعہ اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔
  15. ولادت مولا علی امام المحدثین ، ابو حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ ، حدیث کی شہرہ آفاق تصنیف مستدرک میں لکھتے ہیں : آخری بات میں معصب نے وہم کیا ہے حالانکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرک حاکم ج 4 ص 197 طبع پاکستان) امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ مصعب کے اس قول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات میں معصب سے غلطی ہوئی ہے کہ وہ حکیم بن حزام کے علاوہ کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں مانتے حالانکہ متواتر روایات سے خانہ کعبہ میں مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ثابت ہوتی ہے . امام حاکم نے چونکہ مصعب کے قول کا رد کرنا تھا اس لئے مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کا یہاں ذکر کیا اور فضائل والے باب میں ذکر نہیں کیا. قول مصعب کا رد کرنے کے لئے اصل موقع یہی تھا کہ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کا ذکر کر دیا جائے . امام حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہوئی ہے . چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہونا تواتر سے ثابت ہے ۔ (تلخیص المستدرک//ذہبی//ج 4// ص 197//حاشیہ5// طبع پاکستان) امام المحدثین ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف " شرح الشفاء" میں لکھتے ہیں : مستدرک حاکم میں ہے کہ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ (شرح شفاء // ملا علی // ج 1// ص 327// طبع بیروت،چشتی) امام المحدثین ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے محقق و محدث نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو قول متواتر کو قبول کرتے ہوئے مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں قبول کیا ہے ۔ محدث ابن اصباغ مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الصصوص المھمہ میں لکھتے ہیں کہ : مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہ رجب 13 تاریخ کو مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے ۔ (الفصول المھمہ// ابن صباغ مالکی // ص 29// طبع بیروت،چشتی) علامہ حسن بن مومن شبلنجی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف نورالابصار میں لکھتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا زاد بھائی اور تلوار بے نیام ہیں . آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے تیسویں سال جمتہ المبارک کے دن 13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور اس سے پہلے آپ کے علاوہ کعبہ میں کسی ولادت نہیں ہوئی ۔ (نورالابصار// شبلنجی//ص 183//طبع بیروت) برصغیر پاک وہند کے عظیم محدث و فقیہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ازالتہ الخفاء میں لکھتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو مناقب ظاھر ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی . امام حاکم نے فرمایا متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ بے شک امیرالمومنین حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کے اند جنم دیا ۔ (ازالتہ الخفاء// ج 4 // ص 299// طبع بیروت،چشتی) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک اور کتاب قرۃ العینین میں بھی ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں آپ پہلے ہاشمی ہیں جن کی والدہ ماجدہ بھی ہاشمیہ ہیں . آپ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے کسی حصے میں نہیں آئی ۔ (قرۃ العنین بتفضیل الشخین // ص 138// طبع دہلی،چشتی) اھل حدیث عالم جناب نواب صدیق حس خان بھوپالی نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مناقب میں ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں : ذکر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابن عم رسول و سیف اللہ المسلول ، مظہر العجائب و الغرائب اسد اللہ الغالب ، ولادت ان کی مکہ مکرمہ میں اندر بیت اللہ کے ہوئی ، ان سے پہلے کوئی بیت اللہ کے اندر مولود نہیں ہوا ۔ (تکریم المومنین بتویم مناقب الخلفاء الراشدین // نواب صدیق حسن // ص 99 // طبع لاہور) علامہ بھوپالی نے اپنی دوسری تصنیف " تقصار جنود الاحرار ، ص 9 ، طبع بھوپال میں مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں کا ذکر کیا ہے ۔ اہلسنت کے عظیم صوفی عالم علامہ عبد الرحمان جامی اپنی کتاب شواھد النبوت میں لکھتے ہیں : مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی اور بقول بعض مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی ۔ (شواھد النبوۃ // جامی// ص 280// طبع پاکستان،چشتی) مورخ جلیل علامہ مسعودی اپنی تصنیف مروج الذہب میں لکھتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کعبے کے اندر پیدا ہوئے ۔ (مروج الذہب//مسعودی//ج 2// ص 311//طبع بیروت) علامہ عبدالرحمان صفوری الشافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : مولا علی رضی اللہ عنہ شکم مادر سے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر مولا علی رضی اللہ عنہ کے لئے اللہ تعالیٰٰ نے مخصوص فر ما رکھی تھی ۔ (نزہتہ المجالس// ج 2// ص 404//طبع پاکستان،چشتی) اہلسنت کے عظیم محدث حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : محدثین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہے ۔ (مدارج النبوت// عبدالحق محدث دہلوی// ج 2 //ص 531// طبع پاکستان) علامہ گنجی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کفایتہ الطالب میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کو خانہ کعبہ میں تسلیم کیا ہے ۔ (کفایتہ الطالب // گنجی // ص 407// طبع ایران) علامہ سبط ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ علی رضی اللہ عنہ ان کے شکم میں تھے . انھیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ (تذکرۃ الخواص// سبط ابن جوزی// ص 30 // طبع نجف عراق
×
×
  • Create New...