Jump to content

اسد الطحاوی

اراکین
  • کل پوسٹس

    24
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    20

اسد الطحاوی last won the day on 26 اگست 2019

اسد الطحاوی had the most liked content!

3 Followers

About اسد الطحاوی

تازہ ترین ناظرین

1,516 profile views

اسد الطحاوی's Achievements

Contributor

Contributor (5/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Conversation Starter
  • Week One Done
  • One Month Later

Recent Badges

6

کمیونٹی میں شہرت

  1. وبا میں اذان کی حسن لغیرہ روایت پر غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کی طرف سے کیے گئے باطل اعتراضات کا مدلل رد (بقلم:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ) کسی کی طرف سے ہم کو غیر مقلد غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کی تحریر موصول ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسکا رد کر دیں تو ان تک میری تحریر بھیج دی جائے گی تو ہم امن پوری صاحب کے روایات پر ناقص نقد اور خطاوں کو ظاہر کرتے ہوئے انکے محققین کے منہج پر اس روایت کو حسن لغیرہ ثابت کرینگے جن میں البانی صاحب اور اثری صاحب پیش پیش ہیں اختصار کے لیے ہم اثری صاحب کا یہ حصہ نقل کرتے ہیں: محدثین نے راویان کی ثقاہت اور دیگر قرائن کے پیش نظر مقبول حدیث کے چار درجات بنائے ہیں ۔ جنہیں درج ذیل صورتوں میں منقسم کیا جاتا ہے 1) صحیح لذاتہ 2) حسن لذاتہ 3) صحیح لغیرہ 4) حسن لغیرہ حسن لغیرہ کی دوصورتیں ہیں : ضیعف حدیث کی ایک سے زائد سندیں ہو ، ان میں سبب ضعف راوی کا سوءحفظ ، مستور ، اختلاط ، ارسال وغیرہ ہو اور وجہ ضعف راوی کا فسق یا جھوٹ کا الزام نہ ہو ، بشرط کہ اس کی دوسری سندیں ضعف میں اس جیسی یا اس سے مستحکم ہوں یا کوئی ضعیف شاہد یا شواہد اسکے مئوید ہوں کچھ صفحات آگے جا کر اثری صاحب لکھتے ہیں : بعض انتہائی غیر محتاط لوگ یہ رویہ اپناتے ہیں کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث + ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں ، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہو جائے ۔ بزعم خویش حدیث اور اسکے علوم کے بارے میں ان کی معلومات امام ترمذی، امام بیھقی ، حافظ عراقی ، حافظ ابن حجر وغیرہم سے زیادہ ہے اس مضمون کی تفصیل کے لیے دیکھیے (مقالات اثریہ ص 57 حسن لغیرہ ) اب ہم اپنے مضمون کا آغاذ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں جوشرائط انکے گھر سے ثابت ہیں حسن لغیرہ کی کیا اس منہج پر اس باب کی روایات ثابت ہوتی ہیں یا نہیں اللہ ہم سب کو حق اور سچ پر رہتے ہوئے انصاف کے میزان کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کرنے کی توفیق عطاء فرمائے سب سے پہلے جناب اپنے مضمون کی سرخی لگاتے ہیں : وبا کی صورت میں اجتماعی اذان کا کوئی ثبوت نہیں ۔ صحابہ ، تابعین ، تابع تابعین اور ائمہ مسلمین کی زندگیوں میں اس کا ذکر نہیں لہٰذایہ بدعت ہے الجواب : جناب کو یہ ظلم اعظیم کرنے سے پہلے کم از کم تحقیق تو کر لینی چاہیے تھے ایک تو غیر مقلدین کو جس کام سے چڑ ہو اسکو ایک لمحے میں بدعت کہنے سے نہیں چوکتے ہیں یہی حال ان موصوف کا ہے بغیر تحقیق لکھ مارا جناب نے کہ تابعین ، تابع تابعین و سلف سے اجتماعی اذان دینے کا ثبوت نہیں یہ بدعت ہے یہ رد کر رہے ہیں وبا میں اذان دینے کا تو بدعت یہ کہہ رہے ہیں اجماعی اذان کو یہ کیا بات ہے ؟ جی اسکا مطلب یہ ہے کہ کوئی جب انکو صحیح مسلم سے تابعی کی گواہی پیش کریگا کہ نماز کے علاوہ بھی اذان کہنا جائز ہے تو یہ بہانہ بنا سکیں کہ اس میں اجماعی اذان کا ذکر کہا ں ہے ؟ جبکہ آپ اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں اذان دے دیں چلیں یہی تو کریں لیکن کہتے ہیں "پیڑاں ہور تے پھکیاں ہور" یہی حال ادھر ہے انکا ۔ انکو مسلہ یہ ہے کہ آذان سوائے نماز کے علاوہ دینا ثابت نہیں اور ہم انکا رد صحیح مسلم سے ایک تابعی کے اثر سے کر دیتے ہیں تاکہ انکو بدعت کہنے کی غلطی دوبارہ نہ ہو جی محترم اثر صحابہ تو ہیں کہ نماز کے علاوہ آفت کے لیے خوف سے بچنے کے لیے آذان کا حکم ہے پیش کرتا ہوں تھوڑی دیر میں صحیح مسلم کتاب: نماز کا بیان باب: اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں ترجمہ: امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے بنی حارثہ کی طرف بھیجا میرے ساتھ ایک لڑکا یا نوجوان تھا تو اس کو ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا اور میرے ساتھی نے دیوار پر دیکھا تو کوئی چیز نہ تھی میں نے یہ بات اپنے باپ کو ذکر کی تو انہوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔ اس روایت میں یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ تابعی فرما رہے ہیں : ۔۔۔۔۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو۔۔۔۔ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اذان کی مطلق فضیلت کی حدیث سے بھی وبا کے وقت مصیبت اور پریشانی اور قلبی سکونی کے لیے اذان دینے کے لیے فقط یہ ایک حدیث ہی کافی تھی لیکن غیر مقلدین فقہ اور فہم سے بالکل پیدل ہوتے ہیں انکو سند سند کھیلنے کا شوق ہوتا ہے نہ انکو معلوم ہے کہ ایک امر مستحب ہے اس کے لیے کس درجے کی حدیث یا دلیل چاہیے ہوتی ہے بس انکا ایک رٹہ ہے کہ یہ سند ضعیف ہے یہ سند ضعیف ہے ۔۔ تو ان جیسے محقق جو اپنے گھر میں محقق بنے ہوئے ہیں انکو ہم سیکھاتے ہیں رجال کا علم کیا ہوتا ہے اور حدیث کو اپنی کم علمی اور ناقص تحقیق کی بنیاد پر ضعیف سےشدید ضعیف بنانا انکی ناقص تحقیق ہے تو تابعی وہ بھی اتنے کبیر جو حضرت عمر کے دور میں پیدا ہونے والے اور بڑے فقیہ انکا استدلال آگیا تو اب اس امر کو بدعت کہنا غیر مقلدین کا جماعتی تعصب اور ہڈ دھرمی ہے اب آتے ہیں انکی طرف سے کیے گئے روایات کی اسناد پر باطل اعتراضات جس میں انہون نے یہ کوشش کی ہے جتنا ہو سکے اسناد میں اپنی طرف سے ایسا شدید ضعف بیان کیا جا سکے کہ کوئی روایت بھی حسن لغیرہ بننے کے قابل نہ رہے لیکن ہم انکے محققین جیسا کہ ناصر البانی اور اثری صاحب کے منہج پر اس باب میں یہ دو روایات کو حسن لغیرہ کی شرط پر ثابت کرینگے ایک دوسرے سے تقویت حاصل کرنے کے بعد امن پوری صاحب کی طرف سے پہلی روایت پر جرح درج ذیل ہے ۔ v ۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللَّهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ "جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس روز اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے ۔" ّ(المعجم اللکبیر للطبرانی : 257/1) سند سخت ضعیف ہے (یعنی بقول انکے اس روایت کی سند ضعیف جدا ہے ) 1) عبدالرحمٰن بن سعد بن عمار ضعیف ہے ۔ · امام بخاری ؒ فرماتے ہیں : لم یصح حدیثه : اسکی بیان کردہ حدیث ثابت نہیں (التاریخ الکبیر ) · امام یحییٰ بن معین ؒ نے اسکو ضعیف کہا ہے (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم و سند صحیح) · حافظ ذھبیؒ (دیون الضعفاء:2447) نے منکر الحدیث کہا ہے · حافظ ابن حجر ؒ نے( التقریب برقم:3873) نے ضعیف کہاہے 2) بکر بن محمد قرشی کے حالات زندگی نہیں معلوم 3) صالح بن شعیب کی معتبر توثیق نہیں ہو سکی الجواب امن پوری صاحب کی تحقیق میں چند نقائص: ۱۔پہلی غلطی یا خیانت : سند کو ضعیف جدا کہا جب کہ سند میں کوئی متروک ، یا متہم بلکذب روی موجود نہیں ہے ۲۔ سند میں اپنی ناقص تحقیق کی وجہ سے یہ دعویٰ کر دیا کہ صالح بن شعیب البصری کی معتبر توثیق نہیں ہو سکی جبکہ انکو کہنا چاہیے تھا انکو نہیں ملی کیونکہ انکی تحقیق ناقص ہو سکتی ہے لیکن ضروری نہیں انکے علاوہ سب ان جیسے ہوں ۳۔بکر بن محمد بن قرشی کے حالات معلوم نہیں اب ہم انکے ان اعتراضات کا بلترتیب تحقیقی جائزہ لیتے ہیں : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عبدالرحمن بن سعد بن عمار ضعیف ہے جیسا کہ انہوں نے تقریب سے امام ابن حجر عسقلانیؒ کا حوالہ دیا کہ یہ روای ضعیف ہے اس سے ہم کو بھی اختلاف نہیں کہ یہ سند میں ضعیف ہے لیکن ایسے ضعیف راوی سے سند ضعیف جدا کیسے بنتی یہ ہے راز ہم کو یہ بیان کرینگے البتہ ہم انکو انکے محقق اثری صاحب سے آئینہ دکھا دیتے ہیں کہ کونسی روایت شدید ضعیف ہوتی ہیں اور حسن لغیرہ کے لیے تقویت دینے کے قابل نہیں ہوتی انکی شرط درج ذیل ہیں 1. راوی پر جھوٹ کا الزام ہو 2. حدیث شاذ ہو 3. راوی متروک ہو (مقالات اثریہ ص 69) اب دیکھتے ہیں انہون نے جو شروع میں حدیث کے سخت ضعیف ہونے کا دعویٰ کیا وہ اوپر انکے اثری صاحب کی طرف سے بیان کردہ شرائط میں سے کوئی شرط پائی جاتی ہے یا نہیں v محمد بن بکر القرشی کا تعین اور توثیق : بات یہ کہ بکر بن محمد القرشی کا ترجمہ آپکو نہیں ملا توعرض ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر راوی کے شیوخ کا ذکر محدثین کریں یا ہر راوی کے تلامذہ میں سب کا نام لکھا جائے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے تبھی محدثین کسی راوی کے شیوخ میں نام لکھ کر آخر میں و جماعتہ یا خلق کثیر لکھ دیتے ہیں تو راوی کے تعین کے لیے طبقہ بھی دیکھنا پڑتا ہے تو اس سے بھی قررائن واضح ہو جاتے ہیں ہم اللہ اور اسکے رسولﷺ کے فضل سے آپکو جواب پیش کرتے ہیں امام طبرانی اپنے جس شیخ سے یہ روایت پیش کرتے ہیں اسکی سند یوں ہے : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ شُعَيْبٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ: نا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ امام طبرانی کا یہ شیخ بصری ہے اور انہوں نے اپنے شیخ بکر بن محمد القرشی کا نام لیا ہے اور اس طبقے میں ایک راوی موجود ہیں جنکا نام ہے : بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة یہ بصری راوی ہیں اور ثقہ راوی ہیں جیسا کہ امام دارقطنی سے انکے بارے پوچھا گیا تو وہ انکی توثیق کرتے ہیں : 213 - وسألته عن بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة فقال ثقة (سؤالات حمزة بن يوسف السهمي) اور یہ قرشی ہی تھے جیسا کہ امام خطیب بغدادی ایک روایت نقل کرتے ہیں تاریخ میں جسکی سند یوں ہے : أخبرنا بشرى، قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق بن يونس بن إسماعيل المعروف بابن دقيش في سنة اثنتين وستين وثلاث مائة، وحضر ذلك محمد بن إسماعيل الوراق، قال "حدثنا بكر بن محمد بن عبد الوهاب القزاز القرشي، بالبصرة"، ـ ـ قال: بلخ۔۔۔۔۔۔ (تاریخ بغداد ، برقم:4980) اور اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ بھی امام طبرانی کے شیوخ میں بھی ہیں امام طبرانی نے ان سے ڈریکٹ بھی روایات بیان کی ہیں اور کچھ روایات شیخ الشیخ سے بیان کی ہیں انکی کنیت کافی ساری ہیں کچھ محدثین انکو بکر بن محمد العدل کے نام سے لکھتے ہیں کچھ انکو بکر بن محمد ابو عمرو کے نام سے کچھ بکر بن محمد البصری اور کچھ بکر بن محمد البصری الرقشی القزاز کے ساتھ لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ البانی صاحب کو بھی اسکا ترجمہ نہ مل سکا جیسا کہ آپ کو نہیں ملا بر حال بکر بن محمد القرشی البصری القزاز یہی ایک راوی ہی اس طبقے کا ہے اور ثقہ راوی ہے اور اس سند میں بھی یہی راوی ہے اور ان سے امام صالح بن شعیب البصری بھی روایت کرتے ہیں جو کہ امام طبرانی کے شیخ ہیں اور خود امام طبرانی بھی انہی سے روایت کرتے ہیں امام ابن حبان اور دوسرے دیگر محدثین بھی انکے شاگردوں میں آتے ہیں ہمارے قرائن کو رد کرنے کے لیے آپ کوشش کرینگے تو کوئی مضبوط دلیل دیجیے گا ورنہ اہل علم اور رجال کے محققین کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تعین بالکل ٹھیک ہے ان شاءالل تو جناب کا اسکو مجہول کہنا باطل ہے اور یہ راوی ثقہ ہے ۳۔ اعتراض جو انکا تھا کہ صالح بن شعیب کی کوئی معتبر توثیق نہیں ہو سکی یہ بات انکی جہالت پر مبنی ہے اور انکی ناقص تحقیق کہ اس پر انہوں نے دعویٰ کر دیا جبکہ یہ اگر اتنا کہتے کہ انکو نہیں ملی توثیق تو بات اور تھی لیکن اگر یہ دعوے اس طرح سے کرینگے تو ہم پھر انکا رد بھی اسی زبان میں کرینگے کیونکہ انکو بڑا شوق ہے رجال رجال کھیلنے کا اور اپنی من مرضی سے احادیث کو ضعیف سے ضعیف جدا بنانے کا تو انکو سیکھائیں گے کہ رجال کا علم اصل ہوتا کیا ہے اور یہ ایسا علم نہیں جہاں کوئی شریر گھوڑا اپنی مرضی سے پھرتا رہے بلکہ اس علم میں اپنے نفس اور چاہت کو ایک طرف رکھ کے انصاف کے میزان پر بات کرنی ہوتی ہے کیونکہ بات حدیث رسول ﷺ کی ہے اور اور جو اس میں من مانی کریگا تو اسکا رد بھی اسی زبان اور شد میں ہوگا جتنی غلطی بڑی ہوگی v خیر صالح بن شعیب البصری کی توثیق درج ذیل ہے : امام عینی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 1056 - صالح بن شعيب بن أبان الزاهد البصرى: يكنى أبا شعيب، أحد مشايخ أبى جعفر الطحاوى الذين روى عنهم وكتب وحدث، روى عن محمد بن المثنى وغيره، وذكره ابن يونس فى تاريخ الغرباء الذين قدموا مصر، وقال: قدم إلى مصر، وكُتب عنه، وخرج إلى مكة، وتوفى بها فى صفر سنة ست وثمانين ومائتين. صالح بن شعیب بن ابان الزاھد البصری انکی کنیت ابو شعیب تھی یہ امام طحاوی کے مشایخ میں سے ایک تھے ان سے لکھا اور بیان کیا گیا ہے اور ان سے محمد بن المثنی وغیرہ نے روایت کیا ہے امام ابن یونس نے اپنی تاریخ الغرباء میں ذکرکیا کہ یہ مصرف اائے اور جب یہ مصر آئے تو میں نے ان سے لکھا ہے پھر یہ مکہ چلے گئے یہ ۲۸۶ھ میں فوت ہوئے (مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، امام عینی ) امام ابن عبدالبر سے ضمنی توثیق : امام ابن عبدالبر التمہید میں امام مالک بن انس سے ایک روایت نقل کرتے ہیں : "مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الفضل" اسکو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : "لم يقله غير الحنفي عن مالك والله أعلم ولم يتابع عليه وهو أبو علي عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي" کہ امام مالک سے زھری کے حوالے سے یہ راویت اس متن ادرک الفضل کو بیان کرنے میں ابو علی عبیداللہ الحنفی کی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے پھر امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں : "وسنذكر ما للفقهاء في هذا المعنى بعون الله إن شاء الله وقد روى هذا الحديث عن مالك حماد بن زيد" ہم فقھا سے اسکا معنی بھی اللہ کی مدد سے بیان کرینگے اور یہ بھی کہ یہ راویت مالک سے حماد بن زید بیان کرتے ہیں پھر اسکی دلیل دیتے ہوئے امام ابن عبدالبر صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سےسند بیان کرتے ہیں : حدثنا أحمد بن فتح قال حدثنا أحمد بن الحسن الرازي قال حدثنا"أبو شعيب صالح بن شعيب بن! زياد البصري" قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشامي حدثنا حماد بن زيد عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد *أدرك الصلاة** امام ابن عبدالبر یہ روایت مالک کی جو بیان کرتے ہیں اس میں فقط ادرک الصلاتہ لفظ ہے نہ کہ ادراک الفضل پھر امام ابن عبدالبر یہی روایت اپنے دوسرے شیخ سے صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سے بیان کرتے ہیں اس میں بھی وہی لفظ ہے جو اوپر حماد بن زید نے امام مالک سے بیان کیا ہے جسکو صالح بن شعیب روایت کرتے ہیں وحدثنا خلف بن قاسم حدثنا أبو العباس أحمد بن الحسن بن إسحاق بن عتبة حدثنا "أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد" في شوال سنة إحدى وثمانين ومائتين قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشام حدثنا حماد بن زيد عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة هذا هو الصحيح عن حماد بن زيد عن مالك ومن قال فيه عن حماد عن مالك بهذا الإسناد من أدرك ركعة من الصبح الحديث فقد أخطأ امام ابن عبدالبر ابو صالح شعیب بن ابان بن زاھد سے روایت بیان کر کے کہتے ہیں یہی صحیح ہے جسکو حماد بن زید نے نقل کیا ہےامام مالک سے اور جنہوں نے حماد سے مالک سے اسی سند سے ادرک رکعت صبح کی حدیث بیان کی ہے ان سے خطاء ہوئی ہے (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، جلد 7۔ ص 64) امام ابن عبدالبر کا ابو صالح شعیب کی روایت کو باقی تمام صدوق راویان پر مقدم کرنا انکی ثقاہت کے لیے کافی ہے نیز اس پر بھی انکو مسلہ ہو یا معلوم نہیں ضمنی توثیق کے بھی منکر بن جائیں تو انکے سلفی محقق سے بھی توثیق پیش کر دیتے ہیں : سلفیوں کے محقق نے امام الطبرانی کے شیوخ پر ایک کتاب لکھی ہے اس میں ابو صالح شعیب کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے : [496] صالح بن شعيب أبو شعيب الزاهد البصري. حدث عن: بكر بن محمد القرشي، وداود بن شبيب، وعبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، ونافع بن خالد الطاحي. وعنه: أبو القاسم الطبراني بمصر في " معاجمه " ووصفه بالزاهد. مات في صفر سنة ست وثمانين ومائتين. - تاريخ الإسلام (21/ 191). • قلت: (صدوق إن شاء الله) (إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ، المؤلف: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري) اس کتاب کو ابن تیمیہ مکتب والوں نے چھاپا ہے : الناشر: دار الكيان - الرياض، مكتبة ابن تيمية – الإمارات) اتنے دلائل کے بعد بھی کوئی کہے کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول بنانا اور یہ دعویٰ کرنا کہ اسکی معتبر توثیق نہیں ہو سکی یہ سطحی تحقیق کرنے والے بندے کی یہ بات ہو سکتی ہے خلاصہ تحقیق: اس روایت میں فقط ایک راوی ضعیف ہے عبدالرحمٰن بن سعد بن عمار اور باقی اس سند میں سارے ثقہ و صدوق راوی ہیں اور یہ روایت فقط معمولی ضعیف ہے اور حسن لغیرہ بننے کے بالکل قابل ہے اب ایک اور اس قسم کی روایت اگر ثابت ہو جائے جس میں اس جیسا ضعیف راوی ہو ، یا مجہول یا یخطئ راوی ہو تو اس سے تقویت پا کر اس باب میں یہ روایت حسن لغیرہ بن جائے گی ****************** تیسرے نمبر پر انہوں نے حلیة الاولیا ء لابی نعیم اور تاریخ دمشق کے طریق سے روایت لکھی ہے : امن پوری صاحب کا اس روایت کی سند پر نقد درج ذیل ہے ۔ حضرت سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نزل ادم بالهند واستوحش فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا رسول الله مرتين قال ادم من محمد قال اخر ولدك من الأنبياء (حلیةالاولیاء لابی نعیم 107/5، وتاریخ دمشق ، 437/7) 1) روایت ضعیف ہے · حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : · فیه ةتشاهیل : اس مین کئی مجہول ہیں (فتح الباری) 2) علی بن بہرام بن یزید کوفی کی توثیق نہیں مل سکی · حافظ ہیثمی ؒ لکھتے ہیں لم اعرفه : میں اسے نہیں پہچانتا ************************* الجواب : تو جناب نے اس روایت میں صرف ایک علت بیان کی ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اور ہماری تحقیق میں اس کا ترجمہ امام خطیب بغدادی وغیرہ نے بیان کیا ہے لیکن بغیر جرح و تعدیل سے معلوم ہوا اس راوی کی عدالت پر کوئی جرح نہیں ہے اور یہ راوی متابعت اور شواہد میں قابل قبول ہے تو انکے اثری اور انکے البانی کے منہج کے مطابق یہ روایت حسن لغیرہ ثابت ہو چکی ہے پچھلی راویت سے تقویت حاصل کر کے اور پچھلی روایت اس حدیث سے تقویت حاحصل کر کے اب اسکے علاوہ جن روایات پر انہوں نے جروحات کی ہیں اگر کسی میں متروک یا متہم بلکذب رراوی نہ ہوں اور ضعیف ہوں تو وہ سب ان روایات کو تقویت دینگی اور کوئی بھی ثابت نہ ہو ان دو روایات کے علاوہ بھی تو یہ دو ورایات کافی ہو چکی ہیں امید ہے اس تحریر پر مطلع ہونے پر اپنی تحقیق میں فاحش خطاوں سے رجوع کرینگے اور بہت مشکل ہے کہ غیر مقلدین اپنی غلطی تسلیم کر لیں بلکہ خود کوصحیح ثابت کرنے کے چکر میں علم رجال سے کھلواڑ کرنے سے بھی نہیں چوکتے تو معلوم ہوا نماز کے علاوہ اذان دینے پر تابعی کا اثر مسلم سے ثابت ہے اور ان روایات کی روشنی میں مصیبت اور پریشانی اور قلبی سکون کے لیے اذان دینا ثابت ہے اور اس امر کو بدعت کہنا والا علم اور علوم حدیث اور فقہ سے جاہل ہے تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۲۳مارچ ۲۰۲۰
  2. *فن حدیث میں احمد رضا کا مقام اور اعلی ٰ حضرت پردیوبندیوں کے ایک اعتراض کا علمی و تحقیقی جائزہ * *بقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی * ایک مجہولیہ دیوبندی نے اعلیٰ حضرت پر ایک روایت پر حکم تصحیح پر جہالت بھری ایک تحریر لکھی جس پر دیوبندیوں کے ساجد نقلدبندی بھی ایک ٹانگ پر اچھل رہا تھا کہ اس مضمون میں اسکی تحریر سے اقتباس مطابقت رکھتے ہیں تو یہ اسکا بھی رد ہے مجہولیا دیوبندی لکھتا ہے : احمد رضاخان فاضل بریلوی کو رضاخانیت میں امیر المؤمنین فی الحدیث سمجھا جاتا ہے *(المیزان احمد رضا نمبر ص 247)* اور نعیم الدین رضاخانی تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ۔ علم حدیث میں بھی وہ (اعلی حضرت) فرد تھے اپنا ہمتانہ رکھتے تھے علم رجال میں ان کو وہ دستگاہ حاصل تھی کہ ایک ایک راوی کے حالات نوک زباں پر تھے *(اعلی حضرت کا فقہی مقام ص 11)* اپنے وقت کے اس امام بخاری کو فن حدیث میں کیا مہارت تھی آئیے ملاحضہ کرتے ہیں۔ *صحیح حدیث کے نام پر جعلی حدیث* احمد رضا خان سے سوال ہوا: عرض:یہ حدیث ہے *لولاک لما اظھرۃ الربیوبیۃ* احمد رضاخان نے جواب دیا: میں نے حدیث میں نہیں دیکھا ہاں صوفیاء کی کتاب میں آیا ہے *لولاک لما اظھرۃربوبیتی* بایں ہمہ معنی صحیح اور صحیح حدیث کے موافق ہیں صحیح حدیث میں ہے *خلقت الخلق لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا*۔اے میرے حبیب میں نے خلق کو اسلئے پیدا کیاکہ جو عزت ومنزلت تمہاری میرے یہاں ہے میں ان کو پہنچوادوں اور اے میرے حبیب اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو نہ پیدا کرتا *(ملفوظات ص 382 حصہ چہارم رضوی کتاب گھر دہلی)* یہ احمد رضا خان کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صریح جھوٹ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث چہ جائیکہ صحیح ان الفاظ *خلقت الخلق لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا* موجود نہیں۔دعوت اسلامی والوں نے احمد رضا خان کی اصلاح کرتے ہوئے ان الفاظ کو یوں بدل دیا۔ *لقد خلقت الدنیا و اھلھا لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی لولاک ما خلقت الدنیا* اور ترجمے میں بھی اس نئی روایت کے مطابق تحریف کرڈالی ملاحضہ ہو *(ملفوظات حصہ چہارم صفحہ 521)* اور حوالہ مواہب اللدنیہ ج 1 ص 44 کا دیا اول ماخذ کے طور پر مواہب اللدنیہ کا نام سامنے آنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صحیح ہرگز نہیں بہر حال ہم نے احمد رضا کی لاج رکھنے کیلئے اصل ماخذ کی طرف مراجعت کی تو وہاں اس کی کوئی سند نہیں ملی۔ جس حدیث کو احمد رضا خان بڑی دلیری سے صحیح کہہ رہا ہے آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ چنانچہ علامہ سیوطی اس نے اس کو موضوع کہا ہے *(اللآلی المصنوعۃ ص 249* علامہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو موضوع کہا( *الموضوعات لاابن الجوزی ج1 289)* اس مجہولیے دیوبندی کے اعتراضات کو بلترتیب جواب پیش کرتے ہیں : سب سے پہلے جو روایت امام اعلیٰ حضرت نے نقل کی ہے مواھب لدنیہ سے جیسا کہ امام زرقانی نے یہ روایت اما م ابن عساکر کے حوالے سے درج کی ہے اور اس روایت کو امام سیوطی نے موضوع قرار دیا جسکی تفصیل آگے آئے گی لیکن اس سے پہلے امام ملا علی قاری کا بھی حکم پیش کردیں ا س بندی کو 385 - حديث لولاك لما خلقت الأفلاك // قال الصغاني إنه موضوع كذا في الخلاصة لكن معناه صحيح فقد روى الديلمي عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا أتاني جبريل فقال يا محمد لولاك ما خلقت الجنة ولولاك ما خلقت النار * ** وفي رواية ابن عساكر لولاك ما خلقت الدنيا ** * امام ملا علی قاری روایت نقل کرتے ہیں : اے محبوب اگر تم نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت(رب ہونا)ظاہر نہ کرتا اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام ملاع علی قاری امام الصغانی الحنفی کا اس حدیث پر حکم نقل کرتے ہیں موضوع ہونے کا پھر امام ملا علی قاری اپنا حکم پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لیکن اس روایت کا معنی صحیح ہے جیسا کہ دلیمی نے ابن عباس سے مرفوع بیان کیا ہےجسکا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا اے محمد اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا تو نہ جنت پیدا کرتا اور نہ ہی جہنم اور روایت کیا ہے · **اور ابن عساکر نے جسکا مفہوم یہ ہے : (اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا )تو میں دنیا تخلیق نہ کرتا ** * ولولاك يا محمد ما خلقت الدنيا تو اس جاہل مجہولیے صاحب کو چاہیے کہ یہاں امام ملا علی قاری پر بھی ٹھٹہ بازی کرے کہ وہ بھی اس روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے دلیمی اور اسی ابن عساکر والی روایت کو دلیل کے طور پر بیان کیا ہے جب روایت کے معنی صحیح قرار دیے ہیں ملا علی قاری نے تو ظاہری بات ہے جن روایات کا حوالہ دیا ہے ملا علی قاری نے وہ بھی انکے نزدیک صحیح درجے کی ہونگی چونکہ مسندالفردوس اب بغیر اسناد ہے ملا علی قاری کی اس پر نظر ہوگی اب جب جو ٹھٹھہ بازی یہ اعلی حضرت پر کر رہا ہے وہی ملا علی قاری پر بھی لازم کرے گا وگرنہ شرمندی محسوس کر لینی چاہیے اگر آتی ہو ۔۔۔۔۔ اب آتے ہیں امام سیوطی کی طرف کہ انہوں نے اسکو موضوع قرار دیا جو روایت ابن عساکر کے حوالے سے ہے جسکو امام زرقانی ، امام ملا علی قاری اور اعلی حضرت نے قابل استدلال قرار دیا اور صحیح بھی کہا جس میں وہ منفرد نہیں ہے اور امام ابن عساکر نے اس روایت کو باسند نقل کی ہے جسکی سند یوں ہے : أخبرنا أبو يعقوب يوسف بن أيوب بن يوسف بن الحسين بن وهرة (1) الهمذاني (2) بمرو نا السيد أبو المعالي محمد بن محمد بن زيد الحسيني (3) إملاء بأصبهان وأخبرنا أبو محمد بن طاووس أنا أبو القاسم بن أبي العلاء قالا أنا أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله بن عبد الله السمسار أنا حمزة بن محمد الدهقان نا محمد بن عيسى بن حبان المدائني نا محمد بن الصباح أنا علي بن الحسين الكوفي عن إبراهيم بن اليسع عن أبي العباس الضرير عن الخليل بن مرة عن يحيى (4) عن زاذان (5) عن سلمان قال حضرت النبي (صلى الله عليه وسلم) بلخ۔۔۔۔۔ جو کہ طویل روایت ہے لیکن اسکے آخری الفاظ یہی ہیں : ولولاك يا محمد ما خلقت الدنيا اور امام سیوطی نے اس روایت کو موضوعات میں درج کرتے ہوئے اس روایت پر حکم موضوع لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : مَوْضُوع: أَبُو السكين وَإِبْرَاهِيم وَيحيى الْبَصْرِيّ ضعفاء متروكون وَقَالَ الفلاس يَحْيَى كَذَّاب يُحدث بالموضوعات امام سیوطی لکھتے ہیں : موضوع ہے ابو الکین اور ابراہیم اور یحییٰ البصری ضیعف اور متروک ہیں اور افلاس نے یحییٰ کو کذاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ موضوعات بیان کرتا تھا (اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة السیوطی ، ص : ۱۴۹) جب کہ اس روایت پر صریح موضوع کا حکم لگانے میں امام سیوطی سے تسامح ہوا یا اسکو فحش خطاء بھی کہہ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام ملا علی قاری نے بھی امام سیوطی کی اس جرح کو قبول نہ کیا تھا بلکہ اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا تھا صحیح معنی میں تو امام ملا علی قاری نے امام سیوطی کی اس جرح کو رد کیوں کیا ہوگا اسکے دلائل ہم پیش کرتے ہیں اللہ کے فضل سے ۔۔۔ پہلا راوی جس پر امام سیوطی نے اعتراض کیا اسکا نام ہے : ۱۔ محمد بن عيسى بن حيان المدائني يعرف بأبي السكين امام ذھبی نے میزان میں امام حاکم و دارقطنی سے اسکو ضعیف و متروک نقل کیا ہے بغیر سند سے جسکی وجہ سے امام سیوطی نےانکو متروک درجے کا بنا دیا لیکن انکے بارے مختصر سا جائزہ ! ۔امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے ۔امام خطیب بغدادی انکے بارے نقل کرتے ہیں : سمعت البرقاني، يقول: محمد بن عيسى بن حيان المدائني ثقة، وسألت البرقاني عنه مرة أخرى، فقال: لا بأس به سمعت هبة الله بن الحسن الطبري سئل عن ابن حيان، فقال: ضعيف. وسألت هبة الله الطبري عنه مرة أخرى، فقال: صالح ليس يدفع عن السماع، لكن كان الغالب عليه إقراء القرآن اپنے شیخ البرقانی سے نقل کرتے ہیں : کہ میں البرقانی سے سنا محمد بن عیسیٰ بن حیان ثقہ ہے اور پھر سنا کہ اس مین کوئی حرج نہیں ھبتہ اللہ الطبری سے سنا کہ ابن حیان ضعیف ہے اور پھر سنا کہ صالح ہے لیکن اس پر قرآن کی قرت غالب تھی اور امام دارقطنی سے امام خطیب نے فقط ضعف کی جرح ہی نقل کی ہے أَخْبَرَنِي أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ قال: قال أبو الحسن الدّارقطنيّ: الحسن ابن قتيبة ومحمد بن عيسى ضعيفان. دارقطنی کہتے ہیں الحسین بن قتیبہ اور محمد بن عیسیٰ ضعیف ہیں (تاریخ بغداد ، برقم : ۱۱۸۴) لیکن امام ذھبی نے سیر اعلام میں تبھی دارقطنی و حاکم سے متروک کی جرح نقل نہیں کی اور توثیق اور دارقطنی کی یہ جرح نقل کی بس 12 - محمد بن عيسى بن حيان أبو عبد الله المدائني * المحدث، المقرئ، الإمام، أبو عبد الله المدائني، بقية الشيوخ. حدث عن: سفيان بن عيينة، ومحمد بن الفضل بن عطية، وشعيب بن حرب، وعلي بن عاصم، ويزيد بن هارون، وجماعة. حدث عنه: أبو بكر بن أبي داود، وأبو بكر بن مجاهد، وإسماعيل الصفار، وخيثمة الأطرابلسي، وعثمان بن السماك، وحمزة العقبي (1) ، وأحمد بن عثمان الأدمي، وأبو سهل القطان، وآخرون. قال البرقاني: لا بأس به. وقال الدارقطني: ضعيف. قلت: توفي في سنة أربع وسبعين ومائتين، من أبناء المائة. (سیر اعلام النبلاء) خلاصلہ کلام کہ یہ راوی ثقہ و صدوق ہے کوئی جرح مفسر ثابت نہیں اس پر ۲۔دوسرا راوی : إبراهيم بن أبي حية اليسع بن الأشعث، أبو إسماعيل المكي اسکو بھی امام سیوطی نے متروکین و ضعیف راویوں میں شمار کیا انکا مختصر جائزہ ! ۔امام بخاری اور امام ابی حاتم نے اسکو منکر الحدیث قرار دیا ہے جو کہ سخت جرح ہے لیکن امام ابن معین جو کہ متشدد ناقدین میں سے ہیں وہ انکے بارے فرماتے ہیں : حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي - 2] فيما كتب إلي قال أنا (3) عثمان بن سعيد الدارمي قال سألت يحيى بن معين قلت إبراهيم بن أبي حية؟ فقال شيخ ثقة [كبير - 2] . امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن ابی دحیہ شیخ کبیر ثقہ ہے (الجرح والتعدیل ) اور دارقطنی ضعیف مانتے ہیں اور ابن حبان کہتے ہیں میرا قلب اس پر اعتماد کرنے پر راضی نہیں ۔ اور امام ابن عدی نے اسکی صرف ابراہیم سے روایات کو منکر بیان کی ہیں لیکن امام ذھبی اس پر اپنا حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : 275 - إبراهيم بن أبي حية: ويقال: ابن أبي يحيى اليسع. شيخ قتيبة، واهٍ. (المغنی ) امام ذھبی نے انکو واھ یعنی بالکل ہی معمولی ضعیف جسکی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیا جا سکتا اس درجے میں رکھا ہے ۔امام ابن عبدالبر وہ ابراہیم کی روایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہین یہ اثار متواتر متصل صحیح الاسناد سے ثابت ہیں حدثنا إبراهيم بن أبي حية عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأمره أن يقضي باليمين مع الشاهد فهذا ما في حديث جعفر بن محمد وإرساله أشهر وفي اليمين مع الشاهد آثار متواترة حسان ثابتة متصلة أصحها إسنادا (التمہید لا ابن عبدالبر ) خلاصہ کلام یہ کہ اس پر جروحات دو سخت اماموں کی ہیں تو متشد امام سے توثیق بھی صریح ہے اور تبھی امام ذھبی نے اس راوی بالکل کو بالکل کم درجے کے ضعف میں درج کیا ہے واہ کے اور اس سے احتجاج کیا جا سکتا ہے ۳۔تیسرا راوی : یحییٰ بن ابی صالح ہے اور امام سیوطی نے اس راوی کا تعین غلط کیا ہے اور اس راوی پر افلاس سے کذاب کی صریح جرح نقل کی ہے جبکہ میزان میں جس یحییٰ پر جرح ہے وہ یہ ہے : 9639 - يحيى بن ميمون [س، ق] ، أبو معلى العطار. بصري، واه. عن سعيد بن جبير. (1 [كذبه الفلاس. وقال ابن حبان] 1) : يروى عن الثقات ما ليس من أحاديثهم. قلت: بل صدوق. حدث عنه مثل شعبة، وابن علية، واحتج به النسائي. ومات سنة اثنتين وثلاثين ومائة. (المیزان ) امام فلاس نے کذاب قرار دیا ہے اور ابن حبان نے بھی جرح کی ہے لیکن امام ذھبی کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ صدوق ہے اور میری نظر میں یہ راوی وہ نہیں جو اس سند میں ہے بلکہ یہ راوی یحییٰ بن ابی صالح ہے نہ کہ یحییٰ بن میمون جیسا کہ امام بخاری فرماتے ہیں : 3010 - يحيى بن أبي صالح عن أبي هريرة (4) روى عنه الخليل بن مرة. ولي قضاء الري، قاله محمد بن حميد. (تاریخ الکبیر ) اور یہ روایت بھی ان سے بیان کرنے والا خلیل بن مرہ ہے اور امام ابن حبان انکو الثقا ت میں درج کرتے ہیں 6062 - يحيى بن أبي صالح يروي عن أبي هريرة روى عنه الخليل بن مرة (الثقات ابن حبان ) اور امام سفیان نے اس سے روایت لی ہے المصنف عبدالرزاق میں اور یہ حدیث سند حسن سے بالکل کم نے شواہد کی بنیاد پر جیسا کہ مستدرک الحاکم میں سند ضعیف سے ہے کہ آدم علیہ السلام نے نبی کریم کے نام سے توبہ کی اور اللہ نے فرمایا کہ بے شک اگر میں محمد کو پیدا نہ کرتا تو تم کو بھی پیدا نہ کرتا جس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن ضعیف ہے اور امام ذھبی نے اسکے تفرد کی وجہ سے روایت کو موضوع قرا ر دیا جیسا کہ ابن تیمیہ نے بھی اپنی پہلی تصنیف میں اسکو موضوع قرار دیا تھا لیکن اسکی جب صحیح سند پر مطلع ہوئے ابن تیمیہ تو انہوں نے اس روایت پر اپنے حکم سے رجوع کرتے ہوئے اس روایت کو قبول کیا ہے اور اسکو صحیح حدیث کی شرح کا مقام دیتے ہوئے استدلال کیا ہے اوراس روایت کی صحیح سند بھی ابن تیمیہ نے نقل کی اور مستدرک والی کو بھی قبول کیا ابن تیمیہ اپنے فتاوے میں لکھتے ہیں : الشیخ ابو الفرج ابن الجوزی فی (الوفاء بفضائل المصطفیٰ) : حدثنا أو جعفر محمد ابن عمرو، حدثنا أحمد بن سحاق بن صالح، ثنا محمد بن صالح، ثنا محمد ابن سنان العوقي، ثنا إبراهيم بن طهمان، عن بديل بن ميسرة، عن عبد الله بن شقيق، عن ميسرة قال: قلت: يا رسول الله، متى كنت نبياً ؟ قال: (( لما خلق الله الأرض واستوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات ، وخلق العرش،كتب على ساق العرش: محمد رسول الله خاتم الأنبياء، وخلق الله الجنة التي أسكنها آدم وحواء، فكتب اسمي على الأبواب، والأوراق والقباب، والخيام،وآدم بين الروح والجسد،فلما أحياه الله تعالى: نظر إلى العرش فرأى اسمي فأخبره الله أنه سيد ولدك، فلما غرهما الشيطان ، تابا واستشفعا باسمي إليه . ترجمہ: حضرت میسرہ بیان کرتے ہیں کہ مین نے عرض کیا یا رسول اللہ!آُپ کب نبی تھے؟ فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق فرمائی پھر آسمان کی طرف استواء فرمایا اور سات آسمان بنائے اور عرش پیدا فرمایا اور ساق عرش پہ لکھا محمد رسواللہ خاتم الانبیاء اور جنت بنائی جس مین آدم اور حوا علیہما السلام کو ٹھہرایا، پھر دروازوں ، پتوں قبوں اور خیموں پر میرا نام مکتوب فرمایا۔ اس وقت آدم روح و جسد کے درمیان تھے پھر ان میں روح ڈالی تو انہوں نے عرش کی طرف نظر اٹھائی چنانچہ اس پر میرا نام لکھا دیکھا اللہ تعالیٰ نے انکو خبر دی یہ تیری اولاد کا سردار ہے پھر جب شیطان نے ان (حضرت آدم علیہ السلام) کو دھوکا دیا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے اسم گرامی سے بارگاہ الہی میں وسیلہ پکڑا اس روایت کے سارے راوی متفقہ علیہ زبردستہ ثقہ ثبت ہیں کسی ایک پر بھی جرح ثابت نہیں راویان کی مکمل تحقیق کے لیے درج ذیل لنک پر میری تفصیلی پوسٹ دیکھ سکتے ہیں : https://www.facebook.com/ahadeesKaDifaa/posts/345092482809625/ اور اسی روایت لو لاک کو دیوبندیوں کے مولوی عبدالحق حقانی نے بھی اپنے فتاویٰ حقانی لکھا ہے کہ اسکا معنی صحیح ہے جسکا اسکین موجود ہے یعنی دیوبندی نے اپنے مولویوں کو بھی رگڑا لگا دیا ہے اور اسی طرح انکے بنوری ٹاون کے ایک عالم نے بھی اس پر پورا مقالہ لکھا ہے خلاصہ تحقیق: یہ روایت بالکل موضوع نہیں البتہ اسکے ایک دو راویان واہ یعنی لین یا واہ درجے کے کمزور ہیں جو متابعت و شواہد کے قبول ہوتے ہیں اور ابن عساکر کی روایت جسکو امام زرقانی نے نقل کیا جسکو امام اعلیٰ حضرت نے بیان کیا وہ روایت صحیح درجے کی نہیں تو حسن درجے سے بلکل کم نہیں جیسا کہ ہم نے ثابت کیا کیونکہ اسکی شاہد دلیمی میں میں ملا علی قاری نے اور امام حاکم نے بھی اسکی شاہد مستدرک میں اور امام ابن جوزی نے نے اپنی تصنیف میں باسند جید نقل کی ہے جسکو ابن تیمہ نے بھی قبول کیا ہے اور امام سیوطی سے خطاء ہوئی اس پر حکم موضوع لگانے کی اور یحییٰ کاتعین بھی غلط کیا اور افلاس کی جرح بھی غیر ثابت ہے اور امام ذھبی نے بھی اسکو صدوق قرار دیا ہے تو دیوبندیوں ویسے علم رجال میں یتیم ہیں تو انکو چاہیے کہ اپنی حد میں رہہ کر اعتراضات کیا کریں کیونکہ جس چیز کو مذاق بنا کر یہ ٹھٹھہ بازی کر رہے ہیں یہ اعتراض امام ملا علی ، امام زرقانی اور انکے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام حاکم پر بھی جاتا ہے نیز انکے اپنے حقانی مولوی میاں بھی نہیں بچتے ہیں بے شک اللہ اعلحضرت اپنے وقت کے سب سے بڑے صوفی ، محدث اعظم ، فقیہ اور ولی اللہ تھے اللہ انکی قبر پر ہزار رحمتیں نازل کرے اور ہم جیسے کئی فقیر انکے دفاع کے لیے حاضر رہینگے علم حدیث پر انکا دفاع کرنے کے لیے نوٹ : اس دیوبندی جہالت بھرے مضمون پر ساجد نقلبندی بھی اچھل کھود کر رہاتھا تائید میں معلوم ہوا کہ یہ بھی پلاسٹکی محکک بنا ہوا ہے اپنے چیلوں میں اسکے کمنٹ کا اسکرین شارٹ بھی موجود ہے نیچے تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی مارچ ۲۱ ۲۰۲۰
  3. ایک جاہل منکر الحدیث بنام عاطف کی طرف سے مصنف عبدالرزاق پرکیے گئے اعتراضات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (بقلم: اسد الطحاوی الحنفی بریلوی ) ہم سب سے پہلے اس جاہل میاں کے اعتراضات نقل کرتے ہیں پھر بلترتیب اسکا رد کرتے جائیں گے جیسا کہ یہ لکھتا ہے : مطبوعہ مصنف عبد الرزاق تین راویوں سے مجموعہ ہے۔ یعنی تین راویوں سے جمع کردہ ہے : ۱۔ محمد بن یوسف حُذاقی: => اس سے اھل الکِتابَین مروی ہے ۔ ۲۔ محمد بن علی النجّار: => اس سے کتاب البیوع اور اھل الکتاب مروی ہے ۔ ۳۔ باقی ماندہ کتاب اسحاق بن ابراہیم الدَبَری سے مروی ہے ۔ ان تینوں رواۃ کا فردا فردا جائزہ لیتے ہیں : ۱۔ محمد بن یوسف حُذاقی یہ مجہول اور نامعلوم شخص ہے جس کا کوئی اتا پتا نہیں کہ کون تھا اور کیسا تھا ۔ ایسے مجہول اور نامعلوم راویوں کی روایات یا کتب جعلی اور ضعیف ہوتی ہیں ۔ ****** الجواب: اس جاہل نے پھر اپنی جہالت دیکھاتے ہوئے بغیر علم اور مدلل تحقیق کے محمد بن یوسف حذاقی کو مجہول مجہول العین قرار دے دیا جبکہ اس سے بھی احتجاج کیا گیا ہے حدیث و اثار میں علامہ ابن حزم الظاھری نے ایک تصنیف لکھی بنام : حجة الوداع لابن حزم اور اس کتاب کے شروع میں اپنا منہج مقدمے میں بیان کرتے ہوئے علاومہ ابن حذم لکھتے ہیں : ثُمَّ نُثَنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى بِذِكْرِ الْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ بِكَيْفِيَّةِ مَا ذَكَرْنَاهُ نَحْنُ بِالْأَسَانِيدِ الْمُتَّصِلَةِ الصِّحَاحِ الْمُنْتَقَاةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِمَّا بِلَفْظِهِ وَإِمَّا بِلَفْظِ مَنْ شَاهَدَ فِعْلَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، مِنْ أَصْحَابِهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْ جَمِيعِهِمْ، لِيَكُونَ بِبَيِّنَةِ عَدْلٍ وَشَوَاهِدِ حَقٍّ عَلَى صِدْقِ مَا أَوْرَدْنَاهُ بِأَلْفَاظِنَا مِنْ ذَلِكَ. ثُمَّ نُثَلِّثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ مَا ظَنَّ قَوْمٌ أَنَّهُ يُعَارِضُ بَعْضَ هَذِهِ الْآثَارِ الَّتِي اسْتَشْهَدْنَا بِهَا، وَنُبَيِّنُ بِتَأْيِيدِ اللَّهِ تَعَالَى لَنَا أَنَّهُ لَا تَعَارُضَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ بِبَرَاهِينَ ظَاهِرَةٍ لِكُلِّ مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْإِنْصَافِ وَالتَّمْيِيزِ حَاشَا الْفَصْلِ الَّذِي ذَكَرْنَا أَنَّهُ اغْتَمَّ عَلَيْنَا: أَيُّ النَّقْلَيْنِ الْوَارِدَيْنِ فِيهِ هُوَ الصَّحِيحُ وَأَيُّهُمَا هُوَ الْوَهْمُ، فَإِنَّنَا أَوْرَدْنَاهُمَا مَعًا وَمَا عَارَضَهُمَا أَيْضًا، ابن حزم لکھتے ہیں : اب ان شاءاللہ اس (مسلے ) کے حوالے سے جتنی احادیث وارد ہیں انکو ذکر کرینگے اور جو متصل اسانید الصحیحیہ ہیں جو نبی کریمﷺ تک اسی کو ہم بیان کرینگے یا تو الفاظ کے ساتھ بیان کرینگے یا ایسے الفاظ کے ساتھ کہ انکےشواہد ہونگے انکے لیے ، اور اسی کے بعد ہم وہی ذکر کرینگے جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں ایسی کوئی احادیث نہیں ہیں بعض لوگ کہتے ہیں ان صحیح احادیث کو بعض روایات سے تعارض ہے تو ہم اسی کو ذکر کرینگے کہ انکے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے (یعنی تطبیق دینگے ) بلکہ بالکل صحیح ہے (المقدمہ المصنف ابن حذم ص ۱۱۳) خلاصہ یہ کہ : صحیح متصل اسانید ذکر کرینگے، الفاظ ہی کے ساتھ، یہ ان الفاظ کے الفاظ کے ساتھ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا مشاہدہ کیا ہے، صحابہ میں سے ،عادل (راویوں پر مشتمل ) آور شواہد حقہ کے ساتھ اور تعارض کو دور کرینگے۔ اب محمد بن یوسف الحذاقی سے ابن حزم نے اپنی تصنیف میں درجنوں جگہ روایات بیان کی ہیں اور استدلال بھی کیا ہے اور کوئی نقد بھی نہیں کیا سند کے حوالے سے 234 - وَهَكَذَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَشْوَرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: كَانَ عَطَاءٌ يَكْرَهُ الطِّيبَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، كَانَ يَأْخُذُ بِشَأْنِ صَاحِبِ الْجُبَّةِ، وَكَانَ شَأْنُ صَاحِبِ الْجُبَّةِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالْآخِرَ، فَالْآخِرُ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ [ص:244] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ. هَذَا نَصُّ كَلَامِ ابْنِ جُرَيْجٍ. فَإِنْ تَعَلَّقُوا فِي كَرَاهَةِ الطِّيبِ بِمَا: اس روایت کو بیان کر کے ابن حذم اسکو نص قرار دے رہے ہیں ابن جریج کی طرف سے استدلال کرتے ہوئے جبکہ سند میں محمد بن یوسف الحذاقی ہی ہے جو عبدالرزاق سے بیان کرنے والے ہیں اسی طرح پھر الحذاقی کے طریق سے عبدالرزاق سے اور روایت نقل کرتے ہیں: 269 - كَمَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ الْكَشْوَرِيِّ، عَنِ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: سُئِلَتْ عَنِ الْمُحْرِمِ يَمُوتُ، قَالَتِ: اصْنَعُوا بِهِ كَمَا تَصْنَعُونَ بِمَوْتَاكُمْ پھر الحذاقی سے دوسرا اثر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے مطابق اخذ کیا ہے امام مالک ، اور فقہا کی جماعت نے وَبِهِ إِلَى عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِالْجُحْفَةِ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَأَخَذَ ابْنُ عُمَرَ رَأْسَهُ وَقَمَّصَهُ وَعَمَّمَهُ وَلَفَّهُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، قَالَ: هَذَا يَقْطَعُ إِحْرَامَهُ حِينَ تُوُفِّيَ، وَلَوْلَا أَنَّا مُحْرِمُونَ؛ أَمْسَسْنَاهُ طِيبًا، وَبِهَذَا يَأْخُذُ مَالِكٌ وَجَمَاعَةٌ مِنْ فُقَهَاءِ الْأَمْصَارِ، وَخَالَفَهُمْ آخَرُونَ پھر آخر والوں نے مخالفت کی ہے پھر انکی دلیل دیتے ہوئے روایت لکھتے ہیں : 271 - كَمَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنِ ابْنِ خَالِدٍ، عَنِ الْكَشْوَرِيِّ [ص:273]، عَنِ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ مُعْتَمِرًا، مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَمَاتَ بِالسُّقْيَا، وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَلَمْ يُغَيِّبْ عُثْمَانُ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُمْسِسْهُ طِيبًا، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ 272 - وَبِهِ إِلَى عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: تُوُفِّيَ عُبَيْدُ بْنُ يَزِيدَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلَمْ يُغَيِّبِ الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ رَأْسَهُ، وَبِهَذَا أَخَذَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَجُمْهُورُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، وَأَصْحَابُ الظَّاهِرِ، پھر الحذاقی کے طریق سے ہی روایت نقل کر کے امام شافعی اور جمہور اصحاب الحدیث و اہل ظاھر کی دلیل قرار دیتے ہیں اور اسکے بعد پھر تطبیق دیتے ہیں اور ایک اور بھی خوبصورت دلیل پیش کر دیتے ہیں اسی ہی کتاب سے : 406 - حَدَّثَنَا حُمَامٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاجِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكَشْوَرِيُّ،** حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْحُذَاقِيُّ، **حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،** حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ**، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: بَيْنَا وَأَنَا وَاقِفٌ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعَرَفَةَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ شَعْرُهُ يَفُوحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَمُحْرِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا هَيْئَتُكَ بِهَيْئَةِ مُحْرِمٍ، إِنَّمَا الْمُحْرِمُ الشَّعِثُ الْأَغْبَرُ الْأَذْفَرُ، قَالَ: إِنِّي قَدِمْتُ مُتَمَتِّعًا، وَكَانَ مَعِي أَهْلِي، وَإِنَّمَا أَحْرَمْتُ الْيَوْمَ، فَقَالَ عُمَرُ عِنْدَ ذَلِكَ: لَا تَتَمَتَّعُوا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ، فَإِنِّي لَوْ رَخَّصْتُ فِي الْمُتْعَةِ لَهُمْ لَعَرَّسُوا بِهِنَّ الْأَرَاكَ، ثُمَّ رَاحُوا بِهِنَّ حُجَّاجًا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: فَكَانَ مَاذَا؟ وَحَبَّذَا ذَلِكَ، قَدْ طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ، وَلَا خِلَافَ فِي أَنَّ الْوَطْءَ مُبَاحٌ قَبْلَ الْإِحْرَامِ بِطَرْفَةِ عَيْنٍ، وَهَذَا يُبَيِّنُ أَنَّ هَذَا مِنْ عُمَرَ رَأْيٌ رَآهُ، وَلَا حُجَّةَ فِي ذَلِكَ ابن حزم الحذاقی سے باروایت عبدالرزاق سے جو وہ اپنے شیخ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے شیخ حماد بن ابی سلیمان سے اور وہ اپنے شیخ ابراہیم النخعی سے اور وہ اپنے شیخ الاسود سے وہ حضرت عمر فاروق سے ایک اثر بیان کرتے ہیں جسکو بیان کرنے کے بعد علامہ ابن حزم فرماتے ہیں : یہ کیا تھا؟؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج پر تشریف لے گئے۔؎پھر صبح کی ،اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ احترام سے ذرا قبل وطی یعنی ہمبستری کرنا مباح ہے اس سے واضح ہوا کہ یہ عمر کی اپنی رائے تھی جو اس نے قائم کی تھی۔۔اس میں کوئی حجت نہیں۔ (حجة الوداع ابن حذم، برقم :۴۰۶) اس کتاب میں وارد بعض روایات و اثار کا رد بھی کیا ہے ابن حذم نے سند و متن کی وجہ سے جیسا کہ ایک روایت پر کہتے ہیں : وَأَمَّا الرِّوَايَةُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، فَإِنَّمَا رَوَاهُ الْمُرَقِّعُ الْأَسَدِيُّ، وَهُوَ مَجْهُولٌ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَسُلَيْمَانُ أَوْ سُلَيْمٌ، هَذَا بِالشَّكِّ وَهُوَ أَيْضًا مَجْهُولٌ، فَلَا تَعَلُّقَ لَهُمْ بِشَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الرِّوَايَةِ أَصْلًا ابی زر کی روایت جس کی سند مین مذکور الاسدی ہے جو کہ مجہول ہے ، اور موسی بن عیبدہ جو کہ ضعیف ہے اور سلیمان یا سلیم جس مین شک ہے نام کی وجہ سے وہ بھی مجہول ہے ایک اور جگہ ایک اثر کی صیحت کے بارے لکھتے ہیں : 496 - وَبِهَذَا السَّنَدِ إِلَى وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَبَّيْكَ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ مَعًا» قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: مُصْعَبُ بْنُ سُلَيْمٍ ثِقَةٌ، خَرَّجَ مُسْلِمٌ مِنْ طَرِيقِهِ، وَهُوَ غَيْرُ مُصْعَبِ بْنِ سَلَّامٍ ذَلِكَ ضَعِيفٌ اور یہ سند وکیع کے طریق سے ابن ابی لیلیٰ سے ثابت البنانی سے حضرت انس سے نبی کریم سے ہے اسکے بعد روایت بیان کرنے کے بعد علامہ ابن حذم اپنا تبصرہ کرتے ہیں : مصعب بن سلیم یہ ثقہ ہے اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے طریق سے اور یہ مصعب بن سلام نہیں وہ ضعیف ہے تو معلوم ہوا کہ ابن حذم نے اس کتاب میں اپنے منہج کے مطابق جن روایات سے احتجاج کیا یا تطبیق دی ہیں وہ انکے نزدیک صحیح ہیں اور ثابت روایات ہیں اور جو انکے نزدیک ثابت نہیں تھیں انکی اسناد کا حال بیان کر دیا تو الحذاقی کو مجہول العین کہنا یہ جناب کی جہالت اور علم رجال سے نا واقفی ہے تو یہ بھی صدوق راوی ثابت ہوا اسی طرح امام ابن عبدالبر نے بھی التمہید میں الحذاقی کی عبدالرزاق کے طریق سے روایت کی تخریج کی ہے *******************8 اگلا اعتراض : ۲۔ دوسرا راوی محمد بن علی بن سفیان نجّار بھی مجہول اور نامعلوم ہے۔ تاریخ رجال اس کے حال کے بارے میں خاموش ہے ۔ لہذا یہ دونوں تو مجہول ہیں اور ان کے روایت کردہ تین ابواب غیر ثابت اور ضعیف ہیں۔ **************** الجواب : اس جاہل اعظم کی جہالت پر اسکو ۲۱ توپوں کی سلامی دینی پڑے گی کہ بغیر تحقیق کے اس جاہل نے یہ ڈینگ مار دی کہ تاریخ رجال اسکے بارے خاموش ہے پہلے اسکی اس کذب بیانی کو ثابت کرتے ہیں : امام ذھبی تاریخ السلام میں اس راوی کے بارے فرماتے ہیں : 581- محمد بْن عليّ بْن سُفْيَان الصَّنْعانيّ النّجّار. أبو عبد الله. سمع: عبد الرّزّاق. روى عَنْهُ: محمد بْن حمدون الْأَعْمَش، وأبو عوانة. تُوُفِّيَ فِي رمضان سنة أربع وسبعين. ورّخه ابنُ عُقْدة، وقَالَ: بلغني أنّه مات وله مائة سنة وشهران أو ثلاثة. محمد بن علی بن سفیان النجار اسکی کونیت ابو عبداللہ ہے اس نے امام عبدالرزاق سے سماع کیا ہے اور اس سے محمد بن احمد امام الاعمش اور امام ابی عوانہ (اپنی الصحیح المسند ) میں روایت کیا ہے (تاریخ الاسلام الذھبی) اس سے تین بڑے امام روایت کرتے ہیں لیکن یہ جاہل اعظم المروف عاطف کہتا ہے کہ رجال کی کتب خاموش ہیں بلکہ یہ خود اندھا ہے ورنہ کتب خاموش نہیں ہیں اور دوسری بات کہ اس جاہل اعظم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر راوی کی صریح توثیق ملے تو راوی سے احتجاج ہوگی اور کوئی قرائن یا ضمنی توثیق سے راوی کی توثیق ثابت نہیں ہو سکتی ؟ پہلے اس جاہل کو سمجھاتے ہیں کہ ضمنی توثیق بھی قابل قبول ہوتی ہے : ۱۔ امام ذھبیؒ امام ذھبیؒ راوی کی توثیق کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الثة : من وثقة کثیر ولم یضعف ، ودونه : من لیم یوثق ولا ضعف فان خرج حدیث ھذا فی الصحیح فھو موثق بذالک، وان صحح له مثل الترمذی وابن خذیمة فجیدا ایضا ، وان صحح له کالدارقطنی ، والحاکم ، احواله: حسن الحدیث ثقہ: وہ ہوتا ہے جس کو (محدثین و ناقدین)ثقہ کہیں ، اور اسکی تضعیف کی ہی نہ گئی ہو ، اور اس سے کم درجے میں وہ راوی ہے جس کی نہ توثیق کی گئی ہو اور نہ تضعیف ، تو پس ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین (بخاری ومسلم) میں ہو تو اس وجہ سے وہ اسکی توثیق ہوگی، اور اگر اسکی حدیث کی تصحیح امام ترمذی ، اور امام ابن خذیمہ جیسے محدثین کر دیں تو وہ بھی اسی ہی طرح جید ہوگی اور اگر امام دارقطنی ، و حاکم جیسے اسکی حدیث کی تصحیح کر دیں تو کم از کم وہ حسن الحدیث درجے کا راوی ہوگا (الموقظة فی علم مصطلح الحدیث ، ص ۷۸) ۲۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ امام حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اخرج ابن حبان فی الصحیحه من طریق ابی سلام عنه احادیث صرح فیھا بالتحدیث کہ امام ابن حبان نے اپنی صحیح (ابن حبان) میں (راوی) ابو سلام کی روایت لی ہے جو کہ اس چیز کی متقاضی ہے کہ انکے نزدیک ابو سلام (راوی) ثقہ ہیں (تعجیل المنفعة بزوائد رجال الائمة الاربعة 703) اسی طرح متقدمین میں امام حاکم مقدمہ المستدرک میں فرماتے ہیں : وانا استعین اللہ علی اخراج احادیث رواتہا ثقات ، قد احتج بثملھا الشیخان رضی اللہ عنہھما او احدھما ، وھذا شرط الصحیح عند کافة فقھا ء اھل الاسلام امام حاکم فرماتے ہیں : اگر صاحب صحیح جیسا کہ شیخین اور ان جیسے محدثین کسی حدیث سے احتجاج کریں یا اسکو صحیح کہیں وہ (راویان )بھی ثقات میں سے ہوتے ہیں (المقدمہ المستدرک ، ص۲) یعنی محدثین و ناقدین کی تصریحات ہیں کہ ایسا راوی جسکو مصنف اپنی صحیح میں لے لے اور اس پر کوئی جرح نہ ہو تو ایسا راوی ثقہ یا صدوق ہوتا ہے یا کوئی ناقد کسی راوی کی منفرد روایت سے احتجاج کرے تو بھی اس روایت کے تمام رواتہ کی توثیق ہوتی ہے اب وہ مصنفین جنہوں نے اپنی کتب میں صحیح احادیث کا التزام کیا ہے صحیحین کے علاوہ جیسا کہ الصحیح ابن حبان ، الصحیح مسند ابی عوانہ ، الصحیح ابن خذیمہ ، وغیرہ اور مستخرج ابی عوانہ کے بارے میں امام ذھبی امام ابی عوانہ کا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : صاحب (المسند الصحيح ؛الذي خرجه على (صحيح مسلم) ، وزاد أحاديث قليلة في أواخر الأبواب. صاحب مسند الصحیح (ابی عوانہ ) نے روایات لی ہیں صحیح مسلم کی شرائط پر اور اسکے اخری ابواب میں کم روایات وارد کی ہیں (سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۴ ، ص ۴۱۷) یعنی امام ابی عوانہ نے بھی اپنی مسند میں صحیح روایات کا التزام کیا ہے صحیح مسلم کی شرائط پر جن روایات کو امام مسلم نے نہ لیا تھا اسی طرح یہی اصول وہابیہ کے متشدد محقق البانی بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ لکھتا ہے ؒ وکذالك وثقة کل من صحح حدیثه اما اخرجہ ایاہ فی الصحیح مسلم ، و ابی عوانة او بالنص علی صحته لاترمذی البانی صاحب ثقہ راوی کی فصل میں لکھتے ہیں : اور اسی طرح ان تمام محدثین نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے ہے جنہوں نے اسکی حدیث کی تصحیح کی چاہے وہ اسکی حدیث کو صحیح میں روایت کرنے کی صورت میں ہو جیسا کہ صحیح مسلم ، اور صحیح ابی عوانہ یا اس (راوی) کی روایت پر صراحت کے ساتھ حکم ہو امام ترمذی کا (سلسلہ احادیث الصحیحة، ص ۱۶) ((نوٹ : یہ یاد رہے امام ترمذی تحسین حدیث میں متساہل تھے اپنے منفرد منہج کی وجہ سے لیکن امام ترمذی حدیث کی تصحیح میں بالکل متساہل نہیں تھے لیکن اکثر جہلاء کو دیکھا ہے کہ وہ امام ترمذی کو مطلق متساہل سمجھتے ہوئے انکی تصحیح کا بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں غیر مقلدین مین بھی کچھ ایسے ہیں تو وہ اپنے البانی صاحب کی بات پر غور کریں )) اب امام ابی عوانہ سے پیش کرتے ہیں ثبوت کہ انہوں نے اس راوی : محمد بن علی بن النجار کی روایات کی تخریج کی ہے 5106 - ** حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ** ، قَالَ: أنبا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَجْلَى الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، وَكَانَ الْأَرْضُ حِينَ ظَهَرَ عَلَيْهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُسْلِمِينَ، 6020 - **حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، وَأَبُو الْأَزْهَرِ، قَالَا: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ**، قَالَ: أنبا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِشَاهِدٍ وَيَمِينٍ» وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ كَانَ أَبَاهُ وَأَخَاهُ رَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ ) : مستخرج أبي عوانة) امام ابی عوانہ نے تو اسکی ساری روایات امام عبدالرزاق سے تخریج کی ہیں اور یہ شاگرد ہی صرف امام عبدالرزاق کا تھا تو معلوم ہوا کہ یہ راوی صدوق درجے کا ہے اسکو مجہول العین کہنا عاطف مجہولیے کی جہالت اور علم رجال سے جہالت ہے ************************ اسکا اگلا اعتراض : ۳۔ اس کا تیسرا راوی اسحاق بن ابراہیم دَبَری ہے جس سے مصنف کا اکثر حصہ مروی ہے ۔ => اسحاق بن ابراہیم کے بارے میں : ۱۔ ابن عدی نے کہا : عبد الرزاق سے روایت کرنے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی ۔ یہ بہت چھوٹا تھا جب اس کا باپ اسے عبد الرزاق کے پاس لاتا تھا ، پھر وہ کہتا پھرتا تھا کہ ہم نے عبد الرزاق پر پڑھا ہے ۔ جب کہ پڑھتا کوئی اور تھا یہ تو صرف وہاں موجود ہوتا تھا ، اور اس نے عبد الرزاق سے منکر حدیث بیان کی ہے {الكامل: ٣٣٨/١} => یعنی پڑھتا کوئی اور تھا لیکن یہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کہتا پھرتا کہ میں پڑھ کر سناتا تھا الجواب : جاہل جی نے یہاں جہالت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ابن عدی کا کلام ایک تو مبہم ہے اور صیغہ مجہول ہے کہ کن کے نزدیک اسکی حیثیت نہیں سمجھی جاتی ہے ؟ اور باقی جو یہ ابن عدی نے لکھا ہے یہ کہتا کہ عبد الرزاق پر پڑھا ہے لیکن پڑھتا کوئی اور تھا ۔۔۔۔ وہ اور کون بندہ تھا ؟ وہی تو الدبری کا والد تھا جو کہ عبدالرزاق کے ثبت شاگردوں میں سے ایک تھے اور الدبری اپنے والد کی موجودگی میں مصنف عبدالرزاق کی تصنیف کو پڑھتے تھے لیکن اس جاہل کو یہ سمجھ نہیں آئی ہے کہ محدثین نے تخصیص کی ہے کہ جو روایات الدبری نے اپنے والد کی مدد سے عبدالرزاق پر انکی تصنیف کی روایات قرات کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں اور اسکا سماع بھی بالکل صحیح ہے لیکن جو روایات عبدالرزاق سے الدبری نے ایسی بیان کی ہیں جو المصنف میں درج نہیں تو وہ روایات میں الدبری اپنے والد کے بغیر سنتا رہا بعد از اختلاط عبدالرزاق سے جس میں نکارت پیدا ہوئی گئی تھی اسکی تفصیل آگے آئے گی ****************** اسکا اگلا اعتراض: ۲۔ ابن صلاح نے کہا : مجھے طبرانی کی سند سے جو احادیث ملی ہیں جنہیں اسحاق بن ابراہیم نے عبد الرزاق سے بیان کی ہیں، میں انہیں سخت منکر سمجھتا ہوں۔ پس اس معاملے کا جائزہ لینے کےبعد معلوم ہوا کہ عبد الرزاق سے دَبَری کا سماع بہت آخر کا ہے ، ابراہیم حَرْبی نے کہا ہے کہ عبد الرزاق کی موت کے وقت دَبَری چھ یا سات سال کا تھا {مقدمة ابن صلاح: ٣٩٦} روایت سننے کے لیے ۵ سال تک کی عمر کافی ہوتی ہے اور جبکہ یہ راوی راجح قول کے مطابق ۱۰ سال کا تھا اور اس نے کتاب کا سماع کیا تھا عبدالرزاق سے اپنے والد کی موجودگی میں جس میں تو کچھ بھی مسلہ نہیں ہوتا ہے ************** الجواب: اور یہاں اس جاہل جی نے ابن صلاح سے الدبری تک کوئی متصل سند بھی بیان نہیں کی ہے بقول اسکے ابن صلاح کے خواب میں آکر یہ بات بیان کی تھی یا یہاں یہ ابن صلاح کی بات بغیر سند مان لیگا ؟ اگر مان لیگا تو اور محدثین کی آراء کو تسلیم کرنے میں اسکو کیا موت پڑتی ہے جیسا کہ اسکی منافقت آگے عیاں کرونگا *********** اسکا اگلا اعتراض : ۳،۔ ذہبی نے کہا : یہ آدمی صاحب حدیث نہیں تھا ، اسے تو صرف اس کے باپ نے حدیثیں سنائی تھیں جنہیں اس نے محفوظ کر لیا ، اس نے عبد الرزاق سے اس کی تصانیف بھی تب سنی ہیں جب کہ وہ سات سال کا تھا ، لیکن اس نے عبد الرزاق سے منکر احادیث روایت کی ہیں ، جس میں تردد واقع ہوتا ہے کہ ، آیا یہ منکرات اس کی طرف سے ہیں یا یہ عبد الرزاق سے معروف ہیں {ميزان الاعتدال: ١٨١/١} ************* الجواب : اس جاہل اعظم نے یہاں لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے اور امام ذھبی کا مکمل موقف تک بیان نہیں کیا دوسری کتب سے اور نہ ہی میزان کا موقف صحیح سے بیان کیا ہے امام ذھبی نے جو یہ فرمایا کہ اس نے ۷ یا ۱۰ سال کی عمر میں اپنے شیخ عبدالرزاق سے انکی کتاب سنی تھی اسکی تفصیل یہ ہے کہ ا اس سے پہلے وہ عبدالرزاق کی روایات پر الدبری مطلع اپنے والد کےطریق سے تھے لیکن جب وہ ۱۰ سال تک ہوئے تھے تو انکے والد نے عبدالرزاق پر انکے سامنے روایات بیان کر کے انکو بھی سامع بنا دیا کہ یہ ڈریکٹ بھی عبدالرزاق سے انکی وہ روایات جو انکی تصنیف میں ہیں وہ بیان کر سکتے ہیں اور جو امام ذھبی نے فرمایا ہے کہ اسکی روایات جن میں منکرات ہیں اس میں معلوم نہین غلطی کس کی ہے وہ تصانیف کے علاوہ ہیں نہ کہ تصانیف والی راویات بھی ان میں شامل ہیں امام ذھبی کے کلام کو سمجھنے کے لیے انکی دوسری تصنیف تاریخ الاسلام میں انکا موقف سمجھا جا سکتا ہے وہ لکھتے ہیں : 135- إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم بن عبّاد [2] . أبو يعقوب الدَّبَرِيُّ اليماني الصَّنْعَانيّ. سَمِعَ مصنّفات عبد الرزاق سنة عشرة باعتناء والده إِبْرَاهِيم، وكان صحيح السّماع. ومولده على ما ذكر الخليلي سنة خمسٍ وتسعين ومائة. روى عنه: أبو عوانة في «صحيحه» ، وَخَيْثَمَة الأَطْرَابُلُسيّ، وَمحمد بن عبد الله التقوي، وَمحمد بن محمد بن حمزة، وأبو الْقَاسِم الطَّبَرَانيّ، وجماعة. وَتُوُفِّي سنة خمسٍ وثمانين بصنعاء [3] قَالَ ابن عَدِيّ: استصغر في عبد الرزاق، أحضره أبوه عنده وَهُوَ صغير جدًا، فكان يَقُولُ: قرأنا على عبد الرزاق قراءة غيره، وحدّث عنه بأحاديث منكرة . قُلْتُ: ساق له حديثًا واحدًا من طريق ابن أنعم الإفريقي يحتمل مثله، فأين الأحاديث الذي [2] ادّعى أنّها له مناكير. كُتبًا، فَإِذَا جاء كما سمعها. وَقَالَ الحاكم: سألت الدَّارَقُطْنيّ عن الدَّبري أيدخل في الصحيح؟ قَالَ: أي والله، هُوَ صدوق، ما رأيت فيه خلافًا. امام ذھبی فرماتے ہیں کہ الدبری نے امام عبدالرزاق کی تصانیف کو سنا ہے دس سال کی عمر میں اپنے والد کے زریعے اور انکا سماع بالکل صحیح ہے (تصانیف کا ) ابی عوانہ نے اپنی صحیح میں ان کی تخریج کی ہے (یہ توثیق ہے ) اور امام طبرانی اکثر روایات انہیں سے بیان کرتے ہیں دارقطنی نے انکی توثیق کی ہے کہ انکی صحیح روایات لی جائے امام ابن عدی کی جرح جو انہوں نے الکامل میں الدبری پر کی ہے اسکا رد کیا ہے امام ذھبی نے یہ کہتے ہوئے کہ انکو سوائے اس طریق کے علاوہ اور کوئی منکر نہ ملی (تاریخ الاسلام ) اور ایسے ہی امام ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں الدبری کو صدوق قرار دیتے ہوئے دفاع کیا اور ابن عدی کا رد کیا اب ہم یہ حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ابن عدی کا رد امام ذھبی نے کیوں کیا اسکی دلیل پیش کرتے ہیں ابن عدی نے جیسا کہ ابن عدی نے الکامل میں جس روایت کو بنیاد بنا کر الدبری پر الزام لگایا ہے کہ وہ سند منکر ہے اور اسکو الدبری نے وضعہ کیا ہے وہ بالکل باطل ہے اور فقط اس ایک روایت کے اور کوئی منکر روایت نہ ملی ابن عدی کو اور ابن عدی نے اسکا الزام الدبری پر لگا دیا جبکہ یہ روایت امام خلیلی نے اپنی الارشاد میں نقل کی ہے جسکی سند الدبری سے ہے : 107 - حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ جَدِّي، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَلَمَةَ، وَأَبِي، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَعْرَابِي، بِمَكَّةَ , قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيُّ، بِصَنْعَاءَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ إِلَّا بِجَوَازِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ لِفُلَانٍ ابْنِ فُلَانٍ , أَدْخِلُوهُ جَنَّةً عَالِيَةً , قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ» تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِيِّ , وَالدَّبَرِيُّ بِهِ مَشْهُورٌ وَ امام خلیلی پہلے یہ روایت الدبری کے طریق سے عبدالرزاق سے بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس میں تفرد ہے عبدالرزاق کا الثوری سے اور الدبری مشہور ہے (اس روایت کے ساتھ ) اسکے بعد امام خلیلی آگے لکھتے ہیں : حدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُزَكِّي النَّيْسَابُورِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمْدُونَ بْنِ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ النَّجَّارِ الصَّنْعَانِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِثْلَهُ پھر امام خلیلی نے دوسری متصل سند سے یہی روایت علی بن النجار سے بھی بیان کی ہے عبدالرزاق سے یعنی الدبری اس روایت کو عبد الرزق سے بیان کرنےمیں منفرد نہین تو ابن عدی کا الدبری پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا باطل ہے تبھی امام خٰلیلی نے عبدالرزاق کا ثوری سے تفرد بیان کیا ہے کیونکہ الدبری کی متابعت محمد بن علی بن نجار نے کر رکھی ہے (الإرشاد في معرفة علماء الحديث) ************** اسکا اگلا اعتراض : ۴۔ اصل میں عبد الرزاق کے بارے میں احمد بن حنبل کا قول ہے کہ : عبد الرزاق ہمارے پاس دو سو ہجری سے قبل آیا تھا تو اس کی نظر صحیح تھی، پس جس نے اس سے اس کے اندھے ہونے کے بعد احادیث سنی ہیں وہ ضعیف ہیں ، اور ان احادیث پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی {تاريخ ابو زرعة دمشقي: ١١٦٠، سوالات ابن هاني: ٢٢٨٥} ا ب جیسے کے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسحاق بن ابراہیم نے عبد الرزاق کا آخری زمانہ پایا ہے تو اس کی عبد الرزاق سے بیان کردہ روایات ضعیف ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جائے گی ۔ ***************** الجواب : اس جاہل نے پھر وہی جہالت دیکھائی اوپر خود تسلیم بھی کرتا ہے ابن عدی کے حوالے سے اور ہم نے دلائل سے ثابت کیا کہ اسکا عبدالرزاق پر انکی لکھی ہوئی تصانیف پڑھنا ثابت ہے اپنے والد کی مدد سے عبدالرزاق کی تصانیف تب لکھی تھی جب عبدالرزاق صحیح تھے انکے نابینا ہونے کے بعد بے شک ان سے منفرد رروایات میں سماع جو ہوگا الدبری کا وہ بے شک ضعیف ہے لیکن جو تصانیف قرات کی عبدالرزاق پر اپنے والد کے ساتھ جو کہ عبدالرزاق کے ثبت شاگرد ہیں اس میں کیسا ضعف ثابت کرنے کی یہ کوشش کر رہا ہے ؟ اسی لیے اس جاہل کو معلوم ہی نہیں کہ یہ ثابت کیا کر رہا ہے *************** اسکا اگلا اعتراض : اسحاق بن ابراہیم کے بارے میں صرف چار سو ہجری کے عالم دارَقُطنی کا کلام ملتا ہے جسے توثیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کلام کو ابو عبد اللہ الحاکم نے نقل کیا کہ: => حاکم نے کہا: میں نے دارقطنی سے اسحاق دَبَری کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: صَدوق (یعنی سچا) تھا۔ میں نے اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں دیکھا۔ اس کے بارے میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ : یہ ان رجال میں سے نہیں تھا جن کی یہ شان ہوتی ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ: میں اسے صحیح (یعنی مستدرک) میں داخل کروں؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ {سوالات الحاكم: ٦٢} => لیکن دارقطنی کا یہ کلام تین وجوہات کی باعث لائق التفات نہیں: ۱۔ انہوں نے صدوق کہا ہے جس سے راوی مطلقا ثقہ و قابل احتجاج ثابت نہیں ہوتا۔ کتب رجال میں کئی صدوق و سچے راوی ہیں جو منکر الحدیث ہیں اور اسحاق دَبَری میں ان میں سے ایک ہے ۔ ۲۔ پھر دارقطنی کا کہنا کہ انہیں اس میں اختلاف معلوم نہ ہو سکا۔ تو یہ ان کا مبلغ علم ہے ۔ جب کہ ان سے قدیم عالم ابن عدی نے اس کی حیثیت کو واضح کر دیا تھا۔لہذا دارقطنی کے کلام کی کوئی حیثیت نہیں۔ غالبا دارَقُطنی کی مصنف عبد الرزاق کی بچانے کی کوشش ہے۔ ۳۔ دارَقُطنی سے سوال کرنے والا ابو عبد اللہ الحاکم صاحب مستدرک ہے۔ یہ شدید وہمی تھا جس نے اپنی کتب میں راویوں اور روایات کے معاملے میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ یہاں بھی پتا نہیں کون اسحاق تھا جسے اس نے دَبَری بنا دیا ۔ =< لہذا اسحاق بن ابراہیم خود بھی ضعیف و منکر الحدیث ہے اور عبد الرزاق سے اس کا سماع اختلاط کے بعد کا ہے اس لیے عبد الرزاق سے اس کی روایات منکر ہیں ۔ ************* الجواب : امام حاکم سے امام دارقطنی کی توثیق کو باطل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ پلاسٹکی محکک میاں لکھتا ہے کہ : امام درقطنی سے بیان کرنے والے توثیق امام حاکم ہین وہ متساہل ہیں انہون نے کوئی اور اسحاق سمجھا ہوگا اور دارقطنی کا یہ کہنا کہ اس میں اختلاف نہیں جانتا اس پر جو بے ہودہ اعتراض کیے یہ اسکی جہالت مطلق کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت ہے ۱۔ پہلی جہالت اسکی یہ ہے کہ اسکو یہ معلوم نہین امام حاکم کا تساہل صرف مستدرک تک محدود ہے کیونکہ وہ انہوں نے زندگی کے بالکل اخری دور میں لکھی تھی ۲۔ امام حاکم کا مستدرک میں تساہل روایات کی تصحیح تک بھی محدود ہے نہ کہ روایان کی تصحیح میں ۳۔ تیسری بات امام حاکم نے یہ توثیق سوالات الدارقطنی میں بیان کی ہے جو مستدرک سے بہت پہلے کی تصنیف ہے اور رجال کی توثیق کی کتاب ہے پھر یہ جاہل یہ اندھی گھماتا ہے کہ امام حاکم کو معلوم ہی نہیں کہ یہ کون سا اسحاق ہے اس جاہل کو چاہیے تھا کہ امام حاکم کی مستدرک دیکھ لیتا جس میں عبدالرزاق سے اسحاق الدبری کی روایات کی تخریج کی ہے امام حاکم نے اور امام ذھبی نے بھی تلخیص میں تصحیح کی ہے باقی امام دارقطنی کی توثیق کو کہتا ہے سوائے ۴۰۰ ہجرکے کے امام کے علاوہ کوئی توثیق نہیں اس جاہل کو یہ بھی نہیں معلوم جس امام سے یہ جرح کی دلیل لے رہا ہے اور جسکی توثیق رد کر رہا ہے دونوں ہم عصر امام رہے ہیں ابن عدی کی بات پر یہ ایک ٹانگ پر ناچ رہا تھا ابن عدی (المتوفى: 365هـ)ہیں اور امام دارقطنی : (المتوفیٰ 385ھ) ہیں جبکہ امام دارقطنی علل کے ماہر اور متقن امام ہیں اسکے بعد اسکی تحریر میں کوئی بات نہین بچی جسکا جواب دیا جائے باقی جہالت بھری باتوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں اور اسکا رد میں تھوڑی نرمی برتی ہے کیونکہ یہ اس قابل بھی نہیں کہ اسکا تفصیلی رد لکھا جائے اور نہ ہی میرے خیال میں اسکی پوسٹ کا رد لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے نئے نمونے مارکیٹ میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں اسکی تحریر اتنی بے ہودہ اور منہج محدثین اور علم رجال سے خالی ہے کہ جسکی کوئی مثال نہیں خلاصہ تحقیق : عبدالرزاق کے تینوں شاگر د صدوق و حسن الحدیث ہیں اور الدبری کا سماع عبدالرزاق کی تصانیف کا صحیح السماع ہے اور اسکے علاوہ اسکو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جن اماموں سے یہ جرح و تعدیل کے آدھے ادھورے اقوال پیش کر رہا تھا اسکو یہ معلوم ہی نہیں کہ کتب کو قبول کرنے کا منہج کیا ہے ہر کتاب کے لیے صحیح سند کا ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ جس کتاب کو متواتر سے قبول کیا جائے اور اسکو منسوب کیا جائے اہل علم کی طرف سے مصنف کی طرف یہ بات اسکو سند کی حاجت سے آزاد کر دیتی ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی النکت علی ابن صلاح میں فرماتے ہیں : کہ کتاب کو قبول کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم سے لیکر مصنف تک کتاب کی سند جید رجال پر مشتمل یعنی امام نسائی کی کتاب کے لیے اس بات کی ضروری نہیں کہ ہم سے لیکر امام نسائی تک اسکی سند جید ہو بلکہ اہل علم کا کسی مصنف کی طرف کتاب کو منسوب کرنا مشہور کرنا اس چیز کے لیے کافی ہے کہ یہ کتاب مصنف کی ہے (النکت علی ابن صلاح ، ابن حجر ) یہ منکر حدیثوں کو یہ کتابوں کا رد کرنے کا موقع بھی بر صغیر میں زبیر زئی نے دیا تھا کیونکہ کتب پر صحیح الاسناد کی شرط پہلی بار زبیر زئی نے لگائی اسکی وجہ سے منکرین حدیث کو بھی بہانا مل گیا اہلسنت کی مشہور کتب پر وار کرنے کا تحقیق دعاگو : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۱۹ مارچ ۲۰۲۰
  4. حضرت عمر ؓ سے مروی ترک رفع الیدین پر امام ابوزرعہؒ، امام حاکمؒ (الشافعی)اورامام بیھقیؒ (الشافعی)کی طرف سے وارد اعتراضات کا رد ہم نے پچھلی پوسٹ میں امام شعبیٰ سے مروی اثر کو بیان کیا تھا کہ وہ کبیر تابعی تھے اور ترک رفع الیدین کے مذہب پر تھے اور اس مسلے میں محدثین کا اختلاف بھی نہیں ہے کہ امام شعبی ترک رفع الیدین کے قائل تھے جیسا کہ امام بغوی السنہ میں فرماتے ہیں : وَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلا عِنْدَ الافْتِتَاحِ، يُرْوَى ذَلِكَ عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَالنَّخَعِيِّ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ، وَاحْتَجُّوا بِمَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «أَلا أُصَلِّي بِكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلا أَوَّلَ مَرَّةٍ» (شرح السنہ ، امام بغوی ، جلد ۳، ص ۲۴) امام بغوی ؒ فرماتے ہیں : ایک طرف قوم کا مذہب یہ ہے کہ کہ نماز میں رفع الیدین نہیں کیا جائے گا سوائے شروع کے یہی وارد ہے امام الشعبی ، امام ابراہیم النخعی ، اور یہی قول ہے امام ابن ابی لیلی ، امام سفیان الثوری اور اصحاب الرائے یعنی(امام اعظم و صاحبین) اور انکا احتجاج اس روایت سے ہے جو عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ میں تم کو ایسی نماز پڑھ کر نہ دیکھاوں؟ جو نبی پاک نے ہم کو پڑھائی ، پھر (ابن مسعود) نے رفع الیدین نہیں کیا سوائے شروع کے اور امام شعبی کا یہ عمل متعدد اسناد صحیحیہ سے ثابت ہے جیسا کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں : 2444 - حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا» (مصنف ابن ابی شیبہ، برقم: ۲۴۴۴) امام ابن مبارک (متفقہ علیہ) بیان کرتے ہیں اشعت(صدوق) سے اور وہ (شعبی) کے بارے کہتے ہیں کہ وہ رفع الیدین صرف شروع کی تکبیر میں کرتے تھے اور پھر نہ کرتے (سند حسن) دوسری سند : امام ابن ابی شیبہؒ امام الشعبیؓ کے اثر کی ایک اور سند بھی بیان کرتے ہیں جو یوں ہے 2454 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ» قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: «وَرَأَيْتُ الشَّعْبِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَأَبَا إِسْحَاقَ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ» امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں : مجھے یحییٰ بن آدم (صحیحین کا راوی) وہ حسن بن عیاش(صحیحین کا راوی) وہ عبدالملک بن ابجر(متفقہ علیہ) سے بیان کرتے ہیں امام عبدالملک کہتے ہیں : میں نے حضرت امام الشعبیؓ ، امام ابراہیم النخعیؓ اور امام ابو اسحاق السبیعیؓ کو دیکھا وہ سوائے شروع میں نماز کے افتتاح کے پھر رفع الیدین نہیں کرتے تھے (وہ سند جید صحیح) امام شعبی سے مروی اثر کو ضعیف آج تک کسی ایک نہ محقق نہ کسی امام نے کہا ہے لیکن ایک شافعی محقق صاحب نے اس بحث سے نقل کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ امام عبدالملک سے مروی جو اثر مروی ہے حضرت عمر بن الخطابؓ کے بارے میں یہ شاز ہے اور عبداملک نے اوثق کی مخالفت کی ہے جیسا کہ یہ دعویٰ امام حاکم اور انکی تقلید میں امام بیھقی کا ہے اور یہی اعتراض امام ابو زرعہ سے بھی وارد ہے اور ہم اسکا انصاف سے جائزہ لیتے ہیں کہ اس اثر کے بارے میں شوافع محدثین سے خطاء ہوئی ہے اور احناف محدثین و فقہا کا موقف اس بارے میں صریح ہے لیکن ہم پہلے اس روایت کے متن پر ان تینوں محدثین کے اعتراض تمام نقل کر کے پھر احناف محدثین و فقہا کا جواب پیش کر کے اپنا تجزیہ انصاف سے پیش کرینگے ۱۔سب سے پہلے امام ابو زرعہ کا موقف پیش کرتے ہیں : 256 - وسألت أبي وأبا زرعة عن حديث رواه يحيى بن آدم (2) ، عن الحسن بن عياش، عن ابن أبجر (3) ، عن الأسود (4) ، عن عمر: أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود: هل هو صحيح؟ أو يرفعه (5) حديث الثوري (6) ، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم (7) ، عن الأسود، عن عمر: أنه كان يرفع يديه في افتتاح الصلاة حتى تبلغا منكبيه، فقط؟ فقالا: سفيان أحفظ وقال أبو زرعة: هذا أصح. يعني: حديث سفيان، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عمر (علل الحدیث لا ابن ابی حاتم) امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد اور امام ابو زرعہ سے سوال کیا کہ : جو حدیث ہے جسکو روایت کرتے ہیں یحییٰ بن آدم وہ الحسن بن عیاش وہ عبدالملک بن ابجر وہ (یہاں ابراہیم راوی کو ذکر نہیں کیا گیا) وہ الاسود سے اور وہ حضرت عمر ؓ سے کہ : وہ صرف شروع کی تکبیر میں رفع الیدیین کرتے تھے پھر نہ کرتے کونسی روایت صحیح ہے ؟ اور اس کو وارد کیا ہے سفیان الثوری نے بھی کہ حضرت بطریق متصل سند سے الاسود سے : کہ حضرت عمرؓ نماز میں افتتاح رفع الیدین سے کرتے یہاں تک کہ ہاتھ کندھوں تک پہنچتے اور سفیان زیادہ بڑے حافظ ہیں اور اما م ابو زرعہؒ نے فرمایا کہ یہ (سفیان) کی روایت زیادہ صحیح ہے ۔ ۲۔امام بیھقی ؒ امام حاکم سے اس اثر پر جرح نقل کرتے ہیں : قال ابو عبداللہ الحافظ ھذہ روایة شاذة تقوم بہا الحجة، ولا یعارض بہا الاخبار الصحیحة الماثورة عن طاوس بن یسان عن ابن عمر ان عمر کان یرفع الیدیه فی الرکوع ، و ند رفع الراس منه وقد روی سفیان الثوری ھذا الحدیث بعینه عن الذبیر بن عدی ولم یذکر فیه ثم لم یعود امام حاکم فرماتے ہیں : یہ روایت شاذ ہے اور حجت بنانے کے لائق نہیں ہے اور اسکے معارض اخبار صحیحیہ میں وارد ہے جس میں الماثور وہ طاوس سے وہ ابن عمر اور حضرت عمر کے بارے بیان کرتے ہیں : کہ وہ رفع الیدین رکوع جاتے اور آتے کرتے تھے اور سفیان نے اس حدیث کو روایت کیا ہے زبیر بن عدی سے اور اس میں دوبارہ ہاتھ نہ اٹھانے کا ذکر نہیں ہے اور اس میں امام بیھقی کی موافقت ہے اور امام حاکم کی بات کی دلیل وہ روایت دی ہے جسکو امام عبدالرزاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے جو کہ یوں ہے 2532 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ: «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِنَكَبَيْنِ» (المصنف عبدالرزاق برقم: ۲۵۳۲) الجواب: اب سب سے پہلے ہم دو روایات کے متن پیش کرتے ہیں جو مصنف عبدالرزاق نے اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے اسکو متن یوں ہے أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ: «كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَى الْمَنْكِبَيْنِ حضرت عمر رفع الیدین کندوں تک کرتے تھے اور جو دلیل ہماری ہے جسکو امام ابن ابی شیبہ اور امام طحاوی نے اپنی اسناد صحیحیہ سے نقل کیا ہے اسکا متن یہ ہے جو متن امام ابن ابی شیبہ کا ہے وہ یوں ہے 2454 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ» اسکا متن یوں ہے کہ : امام الاسود کہتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ نماز ادا کی ہے وہ کہیں بھی رفع الیدین نہیں کرتے تھے نماز میں سوائے نماز کے افتتاح کے وقت اور جو امام طحاوی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے اسکے الفاظ یوں ہے كَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ , قَالَ: ثنا الْحِمَّانِيُّ , قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ , ثُمَّ لَا يَعُودُ الاسود کہتے ہیں : میں نے دیکھا عمر بن خطاب کو کہ وہ اول تکبیر کے وقت رفع الیدین کرتے تھے پھر نہ کرتے اب علل کے محدثین روایات کے الفاظ پر بحث کرتے ہیں یا مفہوم پر ؟ اگر یہ کہا جائے کہ علل کے امام حدیث کے متن کے الفاظ پر بحث کرتے ہیں اگر یہی بات ہے پھر تو امام طحاوی کی سند بھی صحیح ہے اور اسکا متن الفاظ کے اعتبار سے مختلف ہے لیکن مفہوما ایک جیسی ہے اگر الفاظ مختلف بیان کرنے پر روایات شاز و منکر بن جائیں پھر تو اس اصول سے امام طحاوی و امام عبدالرزاق کی روایت جو مفہاما ایک جیسی ہے لیکن الفاظ کی تبدیلی کی وجہ سے شاز و منکر بن جائے گی جو کہ کبھی ہو نہیں سکتا اب آتے ہیں کہ علل کے امام رویات کو منکر و شاز مفہوم کے اعتبار سے کہتے ہیں کہ کوئی ثقہ اوثق کے خلاف متن میں ایسی زیادتی و کمی کرے کہ روایت کا آدھا متن ایک جیسا ہو اور اگلے متن میں مخالفت ہو جائے جس سے روایت کا متن میں تبدیلی آجائے یا تعارض پیدا ہو جائے اوثق کی رروایات کے خلاف جبکہ یہاں یہ دونوں حالتیں نہیں ہے جیسا کہ امام حاکم نے امام سفیان الثوری کی جس روایت کو دلیل بنایا ہے یہ روایت متنا ہی اور باب کی ہے اسکا تعلق دوسری روایت سے بالکل ثابت ہی نہیں سوائے اسکے کہ ان دوروایات کی اسناد ایک جیسی ہے جو کہ حتمی دلیل نہیں کہ یہ روایت ایک ہے کیونکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ایک تو یہ تصریح ہے کہ الاسود کہتے ہیں میں نے خود حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی ہے یا انکو دیکھا ہے اور اس روایت میں رفع الیدین کس مقام پر کرنے کی تصریح ہے اور کس مقام نہ کرنے کی دلیل ہے اور جو روایت مصنف عبدالرزاق کے طریق سے ہے اس میں یہ تصریح ہے کہ رفع الیدین کرنا کہاں تک ہے ؟ آیا کندھوں تک یا کانوں کی لو تک ؟ کیونکہ محدثین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ رفع الیدین کرنے کے لیے ہاتھوں کو بلند کتنا کیا جائے ؟ (یہ علیحدہ باب ہے اور رفع الیدین نماز میں کن کن مقامات پر کرنا چاہیے ؟(یہ علیحدہ باب ہے ) تو فقط سند ایک ہو جانے سے امام ابو زرعہ نے سفیان کی روایت کو اصح کہا (لیکن عبد الملک کی روایت کو ضعیف نہ کہا ) جبکہ امام حاکم نے اس روایت کو پہلے معارض بنایا ایک اور روایت سے پھر دوسری علت سفیان الثوری کی روایت کی وجہ سے پیش کی ہے لیکن دونوں روایات کا نہ ہی شروع کا متن ایک جیسا ہے نہ ہی الفاظ اور نہ ہی مفہوم ایک جیسا ہے اسی طرح امام طحاوی نے جو بات ذکر کی ہے وہ بھی ہمارے استدلال کی تائید کرتی ہے چناچہ محدث الوقت و فقیہ العصر امام الطحاوی فرماتے ہیں: 1364 - كَمَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ , قَالَ: ثنا الْحِمَّانِيُّ , قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ , ثُمَّ لَا يَعُودُ , قَالَ: وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ , وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلَانِ ذَلِكَ " قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ , وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ , وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ إِنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ , فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ , قَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ أَفَتَرَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ خَفِيَ عَلَيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ , وَعَلِمَ بِذَلِكَ مَنْ دُونَهُ , وَمَنْ هُوَ مَعَهُ يَرَاهُ يَفْعَلُ غَيْرَ مَا رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ , ثُمَّ لَا يُنْكِرُ ذَلِكَ عَلَيْهِ , هَذَا عِنْدَنَا مُحَالٌ. وَفَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ هَذَا وَتَرَكَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُ عَلَى ذَلِكَ , دَلِيلٌ صَحِيحٌ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ الْحَقُّ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ خِلَافُهُ امام طحاوی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ حضرت عمررضی اﷲعنہ جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ کیونکہ ***اس کا دارمدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ ** اور وہ قابل اعتماد وپختہ راوی ہے۔ جیساکہ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اﷲﷺرکوع اور سجدے میں ہاتھ اٹھاتے ہوں اور عمربن خطاب رضی اﷲعنہ کو معلوم نہ ہواوردوسروں کو معلوم ہوجائےجو ان سے کم صحبت والے ہوں۔ اور آپ کے ساتھی آپ کو ایسا فعل کرتے دیکھیں جو جناب رسول اﷲﷺ نے نہ کیا ہوپھروہ اس کا انکار نہ کریں۔ ہمارے نزدیک تو یہ بات ناممکنات میں سےہے۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ کا یہ عمل اور اصحابِ رسول اﷲﷺکا رفع یدین کو چھوڑنا اس بات کی پکی دلیل ہے کہ یہ ایسا حق ہے کہ کسی عاقل کو اس کے خلاف کرنا مناسب نہیں۔ (شرح معانی الاثار للطحاوی) پہلا نقطہ یہ ہے کہ امام طحاوی نے اس روایت کا دارومدار جس راوی پر بنایا ہے وہ الحسن بن عیاش ہے اور صحیحین کا متفقہ راوی ہے اس سے معلوم ہوا امام طحاوی نے سفیان والی روایت جو کہ کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کے بارے ہے اس روایت کا عدم ذکر کیا ہے کیونکہ انکے نزدیک بھی سفیان والی روایت اس باب کی ہے ہی نہیں جبکہ امام حاکم و شوافع سفیان والی رویت کی سند ایک ہونے کی وجہ سے یہ دو مختلف اوقات و متن کی روایات کو ایک بنا دیا جو کہ انکا استدلال بالکل غلط ہے اب ہم اپنی تائید امام الزيلعي جنکے بارےشوافع کہتے ہیں کہ یہ انصاف پسند محدث تھے اور تعصب سے پاک تھے وَاعْتَرَضَهُ الْحَاكِمُ: بِأَنَّ هَذِهِ رِوَايَةٌ شَاذَّةٌ لَا يَقُومُ بِهَا حُجَّةٌ، وَلَا تُعَارَضُ بِهَا الْأَخْبَارُ الصَّحِيحَةُ عَنْ طَاوُسٍ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ2 أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ بِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ: لَمْ يَعُدْ، ثُمَّ رَوَاهُ الْحَاكِمُ، وَعَنْهُ الْبَيْهَقِيُّ بِسَنَدِهِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ أَنَّ عُمَرَ3 كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرِ، انْتَهَى. قَالَ الشَّيْخُ: وَمَا ذَكَرَهُ الْحَاكِمُ فَهُوَ مِنْ بَابِ تَرْجِيحِ رِوَايَةٍ لَا مِنْ بَابِ التَّضْعِيفِ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إنَّ سُفْيَانَ لَمْ يَذْكُرْ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ فِيهِ: لَمْ يَعُدْ، فَضَعِيفٌ جِدًّا، لِأَنَّ الَّذِي رَوَاهُ سُفْيَانُ فِي مِقْدَارِ الرَّفْعِ، وَاَلَّذِي رَوَاهُ الْحَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ فِي مَحَلِّ الرَّفْعِ، وَلَا تَعَارُضَ بَيْنَهُمَا، وَلَوْ كَانَا فِي مَحَلٍّ وَاحِدٍ لَمْ تُعَارَضْ رِوَايَةُ مَنْ زَادَ بِرِوَايَةِ مَنْ تَرَكَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ أَبُو مُحَمَّدٍ هُوَ أَخُو أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، قَالَ فِيهِ ابْنُ مَعِينٍ: ثِقَةٌ، هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ عَنْهُ، وَقَالَ عُثْمَانُ بن سعيد الدرامي: الْحَسَنُ. وَأَخُوهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ كِلَاهُمَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ وَالْأَمَانَةِ، وَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: كِلَاهُمَا عِنْدِي ثِقَةٌ. (نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي، جلد ۱ ، ص ۴۰۱) امام زیلعی فرماتے ہیں : اعتراض کیا ہے حاکم نے کہ یہ روایت شاذ ہے اور اس کو حجت نہیں بنایا جا سکتا ہے جیسا کے اسکے مخالف خبر میں حضرت عمر سے رفع الیدین کرنا آیا ہے اور جو سفیان کی حدیث ہے زبیر بن عدی سے اس میں لم یعد یعنی دوبارہ ہاتھ نہ اٹھانے کا ذکر نہیں ہے اور پھر امام زیلعی نے امام بیھقی کی سند سے سفیان والی روایت نقل کی ہے اسکے بعد فرماتے ہیں : حاکم نے جو ذکر کیا ہے یہ ترجیح کے معاملے سے ہے نہ کہ روایت کو ضعیف بنانے کے جیسا کہ انکا قول ہے : سفیان نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اس میں ثم لایعود کے الفاظ نہیں ہے یہ بات ضعیف جدا ہے کیونکہ امام سفیان الثوری کی روایت میں رفع الیدین کی مقدار کا ذکر ہے اور جبکہ عبدالملک کی روایت جو ہے یہ رفع الیدین کے محل یعنی اسکے مقام کے تعلق سے ہے یہ دونوں علیحدہ باب کے تعلق سے ہیں اگر اسکو ایک ہی واقعہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی متن میں تعارض نہیں ہوتا ہے (جیسا کہ دعویٰ ہے شوافع کا ) کیونکہ ایک ثقہ راوی نے ایک ہی وقعے میں ایک نے رفع الیدین کی مقدار کا ذکر کیا اور دوسرے ثقہ راوی نے رفع الیدین کا محل یعنی مقام ذکر کیا ہے پھر بھی متن میں تعارض نہیں ہے اسکے بعد امام زیلعی نے بھی الحسن بن عیاش (جو متفقہ علیہ صحیحیں کا راوی ہے اسکی توثیق پیش کی ہے) اہم بات آپ کے شافعی امام دقیق العید الشافعی کا بھی موقف بھی یہی ہے کہ یہ روایت اور باب کی ہے اب تو آپکے گھر سے بھی گواہی آگئی ہے اور امام زیلعی نے بھی تائید کی ہے امام دقیق العید کی خلاصہ: امام حاکم نے روایت کی سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ رفع الیدین حضرت عمر سے ثابت ہونے کی وجہ سے اسکو شاز بنایا اور جو امام ابورعہ و امام حاکم و بیھقی نے سفیان کی روایت کو اسکے مخالف بیان کیا ہے اور شاذ کہا ہے یہ انکی خطا ہے کیونکہ شاذ روایت تب ہوتی ہے جب روایت کے متن میں تطبیق نہ دی جا سکے اور روایت اوثق کے خلاف مفہوما ہو جبکہ یہاں ایسی بات نہیں ہے اور امام طحاوی کا کہنا کہ الحسن بن عیاش کا مدار پر یہ حدیث ہے اور وہ ثقہ و حجت ہے انکی بات بالکل صحیح ہے کیونکہ حضرت عمر سے رفع الیدین کا ترک بیان کرنے میں یہی منفرد ہیں واللہ اعلم دعاگواسد الطحاوی الجواب : یہاں ایک بات جو عرض ہے ایک تو امام ابو زرعہ نے ترک رفع الیدین کے اثر کو ضعیف نہیں کہا بلکہ سفیان سے مروی طریق کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے لیکن بنیادی بات جو نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ ہے جتنے بھی محدثین بشمول امام ابو زرعہ وغیرہ نے اس روایت میں جو کلام کیا ہے انہوں نے فقط سند کا ایک جیسے ہونے کی وجہ سے یہ استدال کیا ہے کہ سفیان الثوری (جنکی سند بالکل ایک جیسی ہے امام عبدالملک کی سند کے) تو یہ روایت ایک ہی ہے لیکن امام عبدالملک (متفقہ علیہ) سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ امام سفیان نے جو متن بیان کیا ہے اس میں ثم لایعود کے الفاظ نہیں ہیں امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں پہلے ایک باب قائم کرتے ہیں : إِلَى أَيْنَ يَبْلُغُ بِيَدَيْهِ کہ ہاتھ کہان تک اٹھانے ہیں اور امام وکیع کے حوالے سے سفیان سے یہ روایت لاتے ہیں 2413 - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، «أَنَّ عُمَرَ، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الصَّلَاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ» اس متن میں امام عبدالرزاق حضرت عمر کا ایک فعل بیان کر رہے ہیں (مصنف ابن ابی شیبہ) اسکے بعد پھر ایک اور باب قام کرتے ہیں : مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ کہ نماز مین تکبیر اول کے بعد رفع الیدین نہ کرنا پھر پھر عبدالملک والی روایت لے کر آتے ہیں 2454 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ» جبکہ اس متن میں حجرت الاسود تصریح کر رہے ہیں کہ میں نے خود نماز پڑھی حضرت عمر کے ساتھ اور انکو دیکھا یہ یاد رہے جو ترک رفع الیدین والی روایت ہے اس میں الحسن بن عیاش لازمی ہے اور جو منکبین والی روایت ہے اسکو روایت کرنے والا صرف امام سفیان الثوری ہے (مصنف ابن ابی شیبہ) جیسا کہ امام عبدالرزاق نے بھی سفیان الثوری سے منکبین یعنی مقدار کی روایت ہی بیان کی ہے 2532 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ: «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِنَكَبَيْنِ» (مصنف عبدالرزاق) اب ہم امام ابو زرعہ کا کلام پیش کر کے ثابت کرتے ہیں کہ امام ابو زرعہ کو جو روایت ملی ہے اسکی سند میں مسلہ ہے باقی ان تک جن راویان سے متن پہچنا وہ بالکل غیر ثابت ہے 256 - وسألت أبي وأبا زرعة عن حديث رواه يحيى بن آدم (2) ، عن الحسن بن عياش، عن ابن أبجر (3) ، عن الأسود (4) ، عن عمر: أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود: هل هو صحيح؟ أو يرفعه (5) حديث الثوري (6) ، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم (7) ، عن الأسود، عن عمر: أنه كان يرفع يديه في افتتاح الصلاة حتى تبلغا منكبيه، فقط؟ فقالا: سفيان أحفظ. ایک تو سند جو بیان کی گئی ہے اس میں نہ ہی زبیر بن عدی ہے نہ ہی ابراہیم النخعی ہے اور متن میں یوں ہے کہ ان کان یرفع الیدین فی اول تکبیر ثم لایعود جبکہ یہ متن بالکل کہیں نہیں کہ متن ان کان سے شروع ہو رہا ہو یہ روایت ہمیشہ رائت یا صلف مع سے شروع ہوتی ہے یعنی امام الاسود حضرت عمر کو دیکھنے یا انکے ساتھ ہونے کی تصریح کرتے ہیں دوسری بات جو روایت انکو سفیان کے طریق سے پہنچی ہے اسکا متن یون ہے عن عمر ان کان یرفع یدیہ فی افتتاح الصلاتہ حتی تبلغنا منکبینہ امام ابو زرعہ نے سند سفیان سے شروع کی ہے اور سفیان سے یہی روایت بیان کرنے والے ایک امام عبدالرزاق ہیں دوسرے امام ابن ابی شیبہ ہیں تیسرے اما م وکیع ہیں جو سارے کے سارے اوثق ہیں ابو زرعہ سے ان میں کسی نے بھی سفیان والے طریق میں افتتاح والا متن ذکر نہیں کیا جس سے مغالطہ ہوا ہوگا ابو زرعہ کو کیونکہ ابو زرعہ نے اپنے شیخ کا نام نہیں لیا کہ کن طریق سے ان تک روایت پہنچی بیشک وہ ثقہ ہونگے ا سے ہم کو اختلاف نہیں جبکہ ہمارے سامنے وہ راویان ہیں جو ابو زعہ سے اوثق ہیں تو انکے شیخ کا درجہ تو جو ہوگا ہوگا یعنی حضرت عمر افتتاح نماز مین رفع الیدین کرتے یہان تک کہ ہاتھ کندھوں تک پہنچ جاتے
  5. *تابعی الکبیر امام شعبیٰ عاعمر بن شرحیل جنکے بارے معروف ہے کہ انہون نےتقریبا ۵۰۰ صحابہ کرام کی ذیارت کی وہ ترک رفع الیدین کے قائل تھے اور یہ امام ابی حنیفہ کے اکبر شیخ تھے* امام شعبی کا تعارف: 113 - الشعبي عامر بن شراحيل بن عبد بن ذي كبار وذو كبار: قيل من أقيال اليمن، الإمام، علامة العصر، أبو عمرو الهمداني، ثم الشعبي. مولده: في إمرة عمر بن الخطاب، لست سنين خلت منها، فهذه رواية. وعن أحمد بن يونس: ولد الشعبي سنة ثمان وعشرين وقال محمد بن سعد : هو من حمير، وعداده في همدان. قلت: رأى عليا -رضي الله عنه- وصلى خلفه. وسمع من: عدة من كبراء الصحابة. وحدث عن: سعد بن أبي وقاص، وسعيد بن زيد، وأبي موسى الأشعري، وعدي بن حاتم، وأسامة بن زيد، وأبي مسعود البدري، وأبي هريرة، وأبي سعد، وعائشة، وجابر بن سمرة، وابن عمر، وعمران بن حصين، والمغيرة بن شعبة، وعبد الله بن عمرو، وجرير بن عبد الله، وابن عباس، وكعب بن عجرة، وعبد الرحمن بن سمرة، وسمرة بن جندب، والنعمان بن بشير، والبراء بن عازب، وزيد بن أرقم، وبريدة بن الحصيب، والحسن بن علي، وحبشي بن جنادة، والأشعث بن قيس الكندي، ووهب بن خنبش الطائي، وعروة بن مضرس، وجابر بن عبد الله، وعمرو بن حريث، وأبي سريحة الغفاري، وميمونة، وأم سلمة، وأسماء بنت عميس، وفاطمة بنت قيس، وأم هانئ، وأبي جحيفة السوائي، وعبد الله بن أبي أوفى، وعبد الله بن يزيد الأنصاري، وعبد الرحمن بن أبزى، وعبد الله بن الزبير، والمقدام بن معد يكرب، وعامر بن شهر، وعروة بن الجعد البارقي، وعوف بن مالك الأشجعي، وعبد الله بن مطيع بن الأسود العدوي، وأنس بن مالك، ومحمد بن صيفي، وغير هؤلاء الخمسين من الصحابة امام شعبیٰ یہ حضرت عمر بن خطاب کے دور میں ۲۱ ھ کو پیدا ہوئے اسکے بعد امام ذھبی کہتے ہیں : میں کہتا ہون انہوں نے حضرت علی کو پایا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور کئی عدد کبیر صحابہ سے سماع کیا ہے پھر اسکے بعد امام ذھبی کثیر صحابہ جو جلیل القدر اور مشہور و معروف صحابہ تھے اسکے بعد لھکتے ہیں وغير هؤلاء الخمسين من الصحابة کہ یہ ۵۰ صحابہ کرام ہیں آگے امام ذھبی ابن عساکر کے حوالے سے سند کے ساتھ نقل کرتے ہین : روى: عقيل بن يحيى، حدثنا أبو داود، عن شعبة، عن منصور الغداني، عن الشعبي، قال: أدركت خمس مائة صحابي، أو أكثر، يقولون: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي امام شعبیٰ فرماتے ہیں : کہ میں نے پانچ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی۔ اسکے بعد امام ذھبی الفسوی کے حوالے سے صحیح سند سے لکھتے ہیں : الفسوي في (تاريخه (4)) : حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا ابن شبرمة، سمعت الشعبي يقول: ما سمعت منذ عشرين سنة رجلا يحدث بحديث إلا أنا أعلم به منه، ولقد نسيت من العلم ما لو حفظه رجل لكان به عالما. امام حمیدی سفیان سے اور وہ امام شعبی سے سنا ہے کہ : امام شعبی کہتے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں پھر امام ابن عساکر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال ابن ابی لیلیٰ : كان إبراهيم صاحب قياس، والشعبي صاحب آثار امام ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ ابراہیم النخعی صاحب قیاس یعنی مجتہد تھے اور امام شعبیٰ صاحب آثار یعنی آثار صحابہ کے بڑے عالم ہیں اور امام شعبیٰ کی وفات ا۱۰۳ سے ۱۰۹ ھ کے درمیان وفات ہوئی (سیر اعلام النبلاء) امام ذھبی انکا ذکر تذکرہ حفاظ میں یوں کرتے ہیں : 76- 11/ 3ع- الشعبي علامة التابعين أبو عمرو عامر بن شراحيل الهمداني الكوفى من شعب همدان: مولده في أثناء خلافة عمر في ما قيل كان إماما حافظا فقيها متفننا ثبتا متقنا وكان يقول: ما كتبت سوداء في بيضاء وروى عن علي فيقال مرسل وعن عمران بن حصين وجرير بن عبد الله وأبي هريرة وابن عباس وعائشة وعبد الله بن عمر وعدى بن حاتم والمغيرة بن شعبة وفاطمة بنت قيس وخلق وعنه إسماعيل بن أبي خالد وأشعث بن سوار وداود بن أبي هند وزكريا بن أبي زائدة ومجالد بن سعيد والأعمش وأبو حنيفة وهو أكبر شيخ لأبي حنيفة وابن عون ويونس بن أبي إسحاق والسرى بن يحيى وخلق قال أحمد العجلي مرسل الشعبي صحيح لا يكاد يرسل الا صحيحا. الشعبی تابعین میں علامہ تھے یہ حضرت عمر کے دور خلافت میں ۲۱ھ کو پیدا ہوئے یہ امام حافظ فقیہ یعنی مجتہد متقن ثبت تھے انہوں نے حضرت علی ، عمران بن حصین، جریر بن عبداللہ ، ابی ھریرہ، ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عبداللہ بن عمر ، عدی بن حاتم ، مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام ابی حنیفہ یہ اما م ابو حنیفہ کے بڑے کبیر شیخ تھے ، اور ابن عون ، یونس بن ابی اسحاق ، وغیرہ ہیں اور امام عجلی کہتے ہیں شعبی کی مراسل صحیح کے علاوہ روایت نہ کرتے (تذکرہ الحفظ امام ذھبی) امام ابن ابی شیبہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں : 2444 - حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا» (مصنف ابن ابی شیبہ، برقم: ۲۴۴۴) امام عبداللہ بن مبارک الحنفیؒ فرماتے ہیں اشعت کے حوالے سے : امام شعبی (نماز) میں اول تکبیر میں رفع الیدین کرتے پھر نہ کرتے تھے سند کی تحقیق: سند کا پہلا راوی : امام ابن ابی شیبہ امام ابن ابی شیبہ متفقہ علیہ ثقہ ہیں سند کا دوسرا راوی: امام عبداللہ بن مبارک متفقہ علیہ ثقہ متقن سند کا تیسرا راوی : اشعت بن سوار یہ حسن الحدیث راوی ہے امام ذھبی کے نزدیک یہ لین ہے اور حسن الحدیث جبکہ امام ابن حجر کے نزدیک یہ ضعیف ہے لیکن اس پر کوئی خاص جرح مفسر نہین ہے اور امام ذھبی کا موقف صحیح ہے نیز اسکی متابعت بھی ثابت ہے جو کہ بعدمیں ذکر ہوگی پہلے اس پر توثیق پیش کرتے ہیں 1385 - أشعث بن سوار الكندي الكوفي، قاله مروان، وقال علي بن المديني هو مولى لثقيف، وهو الأثرم، سمع الشعبي ونافعا روى عنه الثوري، وقال لي ابن أبي الأسود سمعت عبد الرحمن بن مهدي قال سمعت سفيان يقول أشعث أثبت من مجالد ، قال شعبة حدثني أشعث الأفرق، قال أحمد: الأفرق النجار امام بخاری امام ابن مہدی کے حوالے سے اما م سفیان الثوری سے نقل کرتے ہیں کہ اشعت مجالد سے یہ ثبت ہے (التاریخ الکبیر ، امام بخاری) 440- أشعث بن سوار الكندي عن الشعبي وطائفة وعنه هشيم وابن نمير وخلق صدوق لينه أبو زرعة توفي 136 م ت س ق (امام ذھبی الکشف میں کہتے ہیں کہ صدوق ہے اور امام ابو زرعہ نے کمزور قرار دیا ہے (الکشف) 3 - (ابن سوار الكندي) أشعث بن سوار الكندي الكوفي الأفرق التوابيتي النجار روى عن عكرمة والشعبي وابن سيرين روى له مسلم تبعا وروى له الترمذي والنسائي وابن ماجة ضعفه النسائي وقواه غيره وقال ابن عدي لم أجد له حديثا منكرا وقال ابن خراش هو أضعف الأشاعثة وقال الدراقطني يعتبر به وتوفي سنة ست وثلاثين ومائة (الكتاب: الوافي بالوفيات امام ابن خلیل بن ایبک فرماتے ہیں : امام مسلم نے انکو متابعت میں لیا ہے ، امام ترمذی امام ابن ماجہ نے اور امام نسائی نے انکی تضعیف کی ہے اور قوی بھی اور امام ابن عدی کہتے ہیں مین اسکی کوئی بھی منکر روایت پر مطلع نہیں ہوسکا ابن خراش(رافضی ) نے تضعیف کی اور امام دارققطنی کہتے ہیں معتبر ہے المؤلف: صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ) 57- قُلْت لأبي دَاوُد: "أشعث1 وإسماعيل بْن مُسْلم2 أيهما أعلَى؟ قَالَ: إِسْمَاعِيل دُونَ أشعث وأشعث ضعيف" . قَالَ أَبُو دَاوُدَ: سمعت يَحْيَى بْن معين يَقُول: "كَانَ أَشْعَث بْن سَوَّار يرى القدر". امام ابی داود نے اشعت کو ضعیف قرار دیا ہے اور ابی داود کہتے ہین یحییٰ بن معین سے سنا ہے کہ اشعت بن سوار اس میں قدری خیالات تھے (سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل) 951- أشعث بن سوار 1: "م, ت, س, ق" الكندي, الكوفي, النجار, التوابيتي, الأفرق. وهو الذي يقال له: صاحب التوابيت, وهو أشعث القاص. وهو مولى ثقيف, وهو الأثرم وهو قاضي الأهواز. روى له مسلم متابعة. وقد حدث عنه من شيوخه: أبو إسحاق السبيعي. وكان أحد العلماء على لين فيه. امام ذھبی فرماتے ہیں: اپنی آخری تصنیف سیر اعلام میں کہ امام مسلم نے اسکو متابعت میں لیا ہے یہ علماء میں سے تھے لیکن ان میں کمزوری (معمولی) تھی (سير أعلام النبلاء) 41 - أشعث بن سوار الكندي (م ت س) : عن الشعبي وغيره حسن الحديث قال أبو زرعة لين وضعفه وقال النسائي امام ذھبی کہتے ہیں کہ اشعت یہ حسن الحدیث ہے اور ابو زرعہ نے انکو کمزور قرار دیا ہے اور امام نسائی نے تضعیف کی ہے (ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق، امام ذھبی) وأشعث بن سوار الكوفي، يعتبر به، وهو أضعفهم، روي عنه شعبة حديثًا واحدًا امام دارقطنی کہتے ہیں : کہ یہ معتبر ہے اور اس میں ضعف ہے موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله) وأشعث بن سوار قد روى عنه أبو إسحاق السبيعي، وشعبة وشريك ولم أجد لأشعث فيما يرويه متنا منكرا إنما في الأحايين يخلط في الإسناد ويخالف امام ابن عدی کہتے ہیں : مجھے اس کی کوئی منکر روایت نہیں ملی البتہ یہ اسناد بیان کرنے میں مخالفت کر جاتا (الکامل فی الضعفاء) رواه الطبراني في الأوسط، وفيه أشعث بن سوار، وهو ثقة، وفيه كلام. امام ہیثمی کہتے ہیں اشعت یہ ثقہ ہے لیکن اس پر کلام ہے (غیر مفسر) (مجمع الزوائد) 150) عن أشعث بن سوار عن ابن أشوع عن حنش. وهذا إسناد لا بأس به فى المتابعات , فإن حنش بن المعتمر صدوق له أوهام , وابن أشوع اسمه سعيد بن عمرو بن أشوع , وهو ثقة من رجال الشيخين. وأشعث بن سوار , فيه ضعف من قبل حفظه , وروى له مسلم متابعة. البانی اشعت سے مروی ایک روایت کے بارے کہتا ہے : اس سند میں کوئی حرج نہیں ہے متابعت میں اشعت بن سوار اس کے حافظے میں کمزوری ہے امام مسلم نے اسکو متابعت میں لیا ہے یعنی البانی اسکو متابعت میں قبول کرتا ہے اور امام مسلم کا حوالہ بھی دیتا ہے (إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل) حدثنا ابن حماد، قال: حدثنا عباس ومعاوية، عن يحيى، قال: أشعث بن سوار ضعيف. حدثنا عبد الله بن أحمد الدورقي، قال: سمعت يحيى بن معين يقول أشعث بن سوار الأفرق كوفي ثقة. امام ابن عدی نے اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے کہ امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں اشعت ضعیف ہے (غیر مفسر جرح ) اور غالبا یہ انکے عقیدے قدری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ابن معین سے قدری کی جرح امام ابی داود نے بیان کی ہے یحییٰ بن معین سے پھر امام ابن عدی صحیح سند سے بیان کرتے ہیں کہ امام الدروقی کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن معین سے سنا کہ اشعت بن سوار یہ کوفی ثقہ ہے (الکامل فی الضعفاء) معلوم ہوا کہ یہ سند حسن سے بالکل کم درجے کی نہیں ہے اس پر جرح غیر مفسر ہے اور متشدد محدثین نے بھی اسکی توثیق کی ہے نیز جن سے جرح ہے انہی سے توثیق بھی مروی ہے معلوم ہوا اسکی تضعیف میں بہت حد تک اختلاف تھا اور امام ذھبی کی بات صحیح ہے کہ یہ حسن الحدیث ہے لیکن اس مین کمزوری ہے اور متابعت و شواہد میں تو اسکی روایت لینے میں بالکل حرج نہیں جیسا کہ البانی سے اوپر ثبوت پیش کیا ہے اب اسکی متابعت پیش کرتے ہیں : **************** 2454 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ» قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: «وَرَأَيْتُ الشَّعْبِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَأَبَا إِسْحَاقَ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ» امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں مجھے یحییٰ بن آدم(ثقہ) نے حسن بن عیاش(ثقہ) سے اور وہ عبدالملک(ثقہ) سے اسکے بعد آگے مکمل سند بیان کر کے امام ابن ابی شیبہ ایک روایت بیان کرتے ہین ، اور روایت کے ختم کرکے امام عبدالملک کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام عبدالملک کہتے ہیں : میں نے امام شعبی(کبیر تابعی) ، امام ابو اسحاق السبیعی(کبیر تابعی) اور ابراہیم النخعی(کبیر تابعی) تینوں کو دیکھا وہ صرف نماز کے شروع میں رفع الیدین کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ) اس روایت میں ہم نے حدیث کو دلیل نہیں بنایا بلکہ امام عبدالملک کے قول کو بیان کیا ہے کہ انہوں نے خود حضر ت امام شعبی سمیت امام ابراہیم النخعی اور امام ابو اسحاق السبیعی کو دیکھا نماز مین صرف شروع میں رفع الیدین کرتے تو ہم سند بھی امام ابن ابی شیبہ سے امام عبدالملک تک کی تحقیق پیش کرتے ہیں سند کا پہلا راوی: یحییٰ بن آدم یہ امام ابن ابی شیبہ کا شیخ ہے 204 - يحيى بن آدم بن سليمان الأموي مولاهم * (ع) العلامة، الحافظ، المجود، أبو زكريا الأموي مولاهم، الكوفي، صاحب التصانيف، من موالي خالد بن عقبة بن أبي معيط. وثقه: يحيى بن معين، والنسائي. قال أبو عبيد الآجري: سئل أبو داود عن معاوية بن هشام، ويحيى بن آدم، فقال: يحيى واحد الناس (1) . وقال أبو حاتم: ثقة، كان يتفقه (2) . وقال يعقوب بن شيبة: ثقة، كثير الحديث، فقيه البدن، ولم يكن له سن متقدم، سمعت عليا يقول: يرحم الله يحيى بن آدم، أي علم كان عنده! وجعل علي يطريه. وسمعت عبيد بن يعيش، سمعت أبا أسامة يقول: ما رأيت يحيى بن آدم قط إلا ذكرت الشعبي - يريد: أنه كان جامعا للعلم امام ذھبی انکے بارے میں سیر اعلام میں کہتے ہیں : العلامہ ، حافظ صاحب تصانیف ہیں امام یحیٰ بن معین نے انکو ثقہ قرار دیا اور امام نسائی نے بھی ثقہ قرار دیا امام ابی حاتم نے انکو ثقہ قرار دیا وغیرہ (سیر اعلام النبلاء) دوسرا راوی :الحسن بن عیاش ہے 12795 - الحسن بن عياش مولى بنى أسد أخو أبي بكر بن عياش من أهل الكوفة يروي عن الثوري وزائدة روى عنه عبد الرحمن بن أبي حماد الكوفي ابن حبان نے ثقات میں درج کیا (الثقات ، ابن حبان) 304 - الْحسن بن عَيَّاش بن سَالم الْأَسدي ثِقَة امام عجلی نے ثقات میں درج کیا (الثقات ، عجلی) حدثنا عبد الرحمن أنا ابن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: الحسن بن عياش أخو أبي بكر بن عياش ثقة. حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي - 1] فيما كتب إلي قال نا عثمان بن سعيد [الدارمي - 1] قال قلت ليحيى [بن معين - 2] الحسن بن عياش أخو أبي بكر بن عياش كيف حديثه؟ فقال: ثقة. قلت هو أحب إليك [أو - 1] أبو بكر؟ فقال: هو ثقة وأبو بكر ثقة. قال عثمان [بن سعيد - 1] : أبو بكر والحسن ليسا بذاك في الحديث وهما من اهل الصدق والامانة. امام یحیٰ بن معین نے کہا الحسن بن عیاش یہ ابی بکر عیاش کا بھائی ہے اور ثقہ ہے پھر ابن معین سے دوسری توثٰیق الدارمی کہتا ہے کہ میں نے ابن معین سے پوچھا کہ الحسن بن عیاش کا حدیث مین کیا حال ہے ؟ فرمایا ثقہ (الجرح والتعدیل) تیسرا راوی : عبدالملک ہے : 905 - عبد الْملك بن أبجر ثِقَة قَالَه أَحْمد امام ابن شاہین نے ثقات میں درج کیا (الثقات ، ابن شاہین) 1025- عبد الملك بن أبجر5: كان عبد الملك بن أبجر "ثقة، ثبتًا في الحديث، صاحب سنة) امام ابن عجلی نے ثقات میں درج کیا (الثقات العجلی) نا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد [بن محمد - 1] بن حنبل فيما كتب إلى قال سألت أبي عن ابن ابجر فقال: بخ ثقة. [ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: عبد الملك بن ابجر ثقة - 2] . نا عبد الرحمن قال سمعت أبي وأبا زرعة يقولان: ابن ابجر احب الينا من اسراءيل. امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابی حاتم سے بیان کرتے ہیں : عبدالملک بن ابحبر ثقہ ہے یحییٰ بن معین نے فرمایا ثقہ ہے اور یہی ابو زرعہ سے سنا کہ عبد الملک یہ مجھے اسرایل سے زیادہ محبوب ہے (الجرح والتعدیل) اس تمام تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام شعبیٰ جنہوں نے ۵۰۰ صحابہ کرام کی زیارت کی ہے وہ بھی ترک رفع الیدین کے قائل تھے تحقیق: دعاگواسد الطحاوی الحنفی البریلوی
  6. جی قبلہ ہم نے سند پر نہیں متن میں نکارت کا ثبوت دیاتھا اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو ابن الحکم کے متن مین نکارت ابھی موجود ہے الفاظ کے ساتھ اور یونس بن عبدالاعلیٰ کے الفاظ تبدیل ہیں اور ابن عبدالحکم کی الانتفاء میں انہی سے مروی واقعے میں وہ الفاظ موجود نہیں ہیں اس پر امام ذھبی کا فیصلہ صحیح ہے جو سیر اعلام میں نقل کیا ہے ۔۔۔ اور جو آپ نے متابعت پیش کی ہے اس سے مفہوما نکارت ختم ہو جاتی ہے
  7. *مروان کا علی پر سَبّ و شَتم ایک ضعیف روایت کا رد * راوی عمیر بن اسحاق کی توثیق کے دلائل کا علمی جائزہ: تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ابن سعد کی روایت ہے: أخْبَرَنا إسمَاعِيل بن إبراهِيم (ابن عُلَيّة)، عَنْ عَبد الله بن عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بنِ إِسْحَاقَ قال: كَانَ مَرْوَانُ أَمِيْرًا عَلَيْنَا سِتَّ سِنِيْنَ، فَكَانَ يَسُبُّ عَلِيًّا كُلُّ جُمُعَةٍ عَلَى الْمِنْبَرِ، ..... ترجمہ: عُمیر بن اسحاق کہتے ہین: مروان چھ سال تک ہم پر (معاویہ کی طرف سے) گورنر رہا، وہ ہر جمعے کو منبر پر حضرت علیؓ پر سَبّ و شَتم کرتا تھا، پھر سعید بن العاص ؓ گورنر بنے، وہ دو سال تک گورنر رہے، وہ گالی گلوچ نہیں کرتے تھے، پھر انہیں معزول کرکے دوبارہ مروان کو گورنر بنایا گیا تو وہ پھر سبّ و شتم کیا کرتا تھا۔ حضرت حسنؓ جمعہ کے دن نبی کریمؐ کے حجرے میں آکر بیٹھے رہتے تھے، اور جب نماز کھڑی ہوتی تو آکر شامل ہوجاتے (تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں)۔ مگر مروان اِس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اُس نے حضرت حسنؓ کے گھر میں قاصد کے ذریعے ان کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ اِن گالیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ: "تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اُس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے، تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے!" حضرت حسنؓ نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اس کے پاس جا اور اس سے کہہ دے کہ: "خدا کی قسم، میں تجھے گالی دےکر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہوگی۔ اگر تُو سچا ہے تو اللہ تجھے تیرے سچ کی جزا دے، اور اگر تُو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بَلند ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" قاصد نکلا تو حُسینؓ سے اس کی ملاقات ہوگئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حُسینؓ نے فرمایا کہ تُو اسے یہ بھی کہنا کہ: "اے مروان، تُو ذرا اپنے باپ اور اُس کی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار، تو اپنے کندھوں پر اُس شخص کو اٹھاتا ہے جس پر رسولُ اللہؐ نے لعنت کی ہے۔" (یعنی تجھ پر رسولُ اللہؐ نے لعنت کی ہے) (الطبقات الكُبرٰى لِابن سعد: 1/ 399-400/ 370) ہم نے پچھلی پوسٹ میں اس روایت پر اپنی جو تحقیقات پیش کی تھیں انکے اہم نقطے یہاں بیان کرتے ہیں پہلے! ۱۔ اسکا بنیادی راوی عمیر بن اسحاق مجہول ہے ۲۔ امام ابن معین سے اسکی توثیق انکے ایک شاگرد جو قدیم نہیں وہ بیان کرتے ہیں ابن معین سے ۳۔جبکہ امام ابن معین کے قدیم اور امام ابن معین کی زیادہ صحبت پانے والے امام الدوری نے امام ابن معین سے اس راوی پر جرح ہی بیان کی ہے اور یہ بات متفقہ ہے کہ امام ابن معین کے اقوال میں اختلاف آجائے تو فوقیت امام الدوری سے مروی اقوال کو دی جاتی ہے یہ مسلہ متفقہ ہے اور باقی ہم نے تمام دلائل اسکے مجہول ہونے پر ثابت کیے تھے جسکےجواب میں کچھ لوگوں نے کمنٹس میں اسکی توثیق کے وہی غیر معتبر دلائل دے کر ایک ٹانگ پر اچھلنے لگ گئے ہم ان کے سب دلائل باری باری نقل کر کے تسلی بخش جواب دینگے (اللہ اور رسول ﷺ کے کرم سے) ۱۔ مخالفین سب سے پہلی توثیق جو پیش کرتے ہیں وہ امام نسائی (متشدد) سے کہ انہوں نے عمیر بن اسحاق کے بارے کہا کہ لا باس بہ اور انکی توثیق معتبر ہوگی کیونکہ وہ متشدد ہیں اور امام مزی نے یہ توثیق امام نسائی سے منسوب کر کے لکھی ہےنیز انہوں نے کتاب کے مقدمے میں دعویٰ کیا ہے کہ جب کسی ناقد کی طرف قول منسوب کر کے لکھیں گے تو انکے نزدیک اس قول کی سند محفوظ ہوگی الجواب : عرض ہے بعد والے جمہور محدثین نے امام مزیؒ کے اس دعوے پر کوئی اعتبار نہیں کیا ہےسوائے چند مقامات پر وہ بھی قرائن کے سہارے ورنہ بعدوالے امام ذھبی اورامام ابن حجرعسقلانی نے بھی اس کلیے کو تسلیم نہیں کیا ہے اندھی دھند جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے کیونکہ راوی کے مجہول یا ثقہ ہونے کا فیصلہ جب متاخرین محدثین ناقدین کے اقوال دیکھتے ہیں تو جمہور کی رائے دیکھتے ہیں اسکے مطابق اور تہذیب الکمال کے راویان کے بارے میں ایسے بے سند اقوال آجائیں تو تائید میں ہوں تو انکو قبول کرلیتے ہیں لیکن جب ایسا مجہول راوی جسکے بارے میں جمہور محدثین اسکے بارے میں جہالت کا فیصلہ دیں کہ یہ مجہول ہے اور تہذیب الکمال میں امام مزی بےشک کسی متشدد امام جیسا کہ امام نسائی یا امام دارقطنی سے کسی راوی کی توثیق لکھ دیں بے سند تو قول کو امام ابن حجر عسقلانی اور امام ذھبی اور دیگر ائمہ ناقدین بھی رد کر دیتے ہیں جسکی ایک مثال یہاں بیان کرتے ہیں: امام مزی تہذیب الکمال میں ایک راوی نافع بن محمود کے بارے لکھتے ہیں : 6369 - ر د س: نافع بن مَحْمُود بن الربيع ، ويُقال: ابن ربيعة الأَنْصارِيّ من أهل إيلياء. رَوَى عَن: عبادة بْن الصامت (ر د س) . رَوَى عَنه: حرام بن حكيم الدمشقي (ر س) ، ومكحول الشامي (رد) . ذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب "الثقات" (1) . روى له الْبُخَارِيّ فِي " القراءة خلف الإمام"، وفي أفعال العباد"، وأَبُو دَاوُدَ، والنَّسَائي.؎ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ (2) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمَّارٍ، فَوَافَقْنَاهُ فِيهِ بِعُلُوٍّ، وذَكَرَ فِيهِ قِصَّةً. ورَوَاهُ النَّسَائي (3) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمَّارٍ، ولَمْ يَذْكُرْ مَكْحُولا فِي إِسْنَادِهِ. ورواه أبو داود (4) من وجه آخَرَ عَنْ مَكْحُولٍ وحْدَهُ، وذَكَرَ الْقِصَّةَ.؎ (تہذیب الکمال برقم:۶۳۶۹) اور امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس تفصیل میں مذید اور توثیق بھی شامل کی ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں اس راوی کے بارے میں کہ : ذكره بن حبان في الثقات وقال الدارقطني لما أخرج الحديث هذا حديث حسن ورجاله ثقات وقال ابن عبد البر نافع مجهول. (تہذیب التہذیب برقم : ۷۳۸) اب امام ابن حجر کے سامنے نافع بن محمود کی توثیق ابن حبان اور امام دارقطنی سے بھی ثابت تھی جس میں امام دارقطنی نے نافع کی منفرد روایت کو حسن اور اسکے سارے رجال کو ثقات قرار دای جس میں یہ راوی موجود تھا تو جتنی توثیق ثابت ہو رہی ہے امام ابن حبان اور امام دارقطنی سے نیز الکاشف میں امام ذھبی نے بھی اسی وجہ سےاسکو ثقہ قرار دیا اتنی توثیق دیکھنے کے بعد امام ابن حجر نے تب بھی نافع بن محمود کو حسن الحدیث درجے کا بھی راوی نہیں تسلیم کیا ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں اسی راوی کے بارے فیصلہ دیتے ہیں: 7082- نافع ابن محمود ابن الربيع ويقال اسم جده ربيعة الأنصاري المدني نزيل بيت المقدس مستور من الثالثة ر د س (تقریب التہذیب برقم ۷۰۸۲) جبکہ امام ابن حجر نے امام ذھبی ، امام دارقطنی اور امام ابن حبان ان سب کی توثیق کو غیر معتبر قرار دیا ہے کیونکہ اس راوی کے مجہول ہونے کی طرف زیادہ محدثین سے اور ابن حبان رجال میں متساہل تھے اور امام دارقطنی حدیث کی صحیح میں بعض اوقات متساہل ہیں تو امام ابن حجر نے یقین نہ کیا اسکے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں جیسا کہ ھانی بن ھانی امام مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں : 6548 - بخ د ت ص ق: هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي (1) . رَوَى عَن: علي بن أَبي طالب (بخ دت ص ق) . رَوَى عَنه: أبُو إسحاق السبيعي (بخ دت ص ق) ولم يرو عنه غيره. قال النَّسَائي: ليس به بأس. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات" (2) . روى له الْبُخَارِيّ في "الأدب" والنَّسَائي في " خصائص علي"، وفي مسنده، والباقون سوى مسلم. امام مزی نے اسکی توثیق ابن حبان سے پیش ، اور امام نسائی سے لیس با س کی توثیق پیش کی نیز امام بخاوری کا اسکو الادب اور امام نسائی کا اسکو خصائص علی میں ان سےروایت لینے کے بارے ذکر کیا ہے لیکن اس میں بھی امام نسائی کی توثیق شامل ہے لیکن دیکھیے امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کے بارے تقریب میں کیا فیصلہ دیا ہے 7264- هانئ ابن هانئ الهمداني بالسكون الكوفي مستور من الثالثة [الثانية] بخ 4 (تقریب التہذیب) امام ابن حجر نے نسائی اور ابن حبان اور امام نسائی اور امام بخاری سے اسکی روایت نقل کرنےکو بھی کوئی دلیل نہیں بنایا بلکہ اسکو مستور قرار دیا ہے نوت: امام ابن حجر عسقلانی نے جمہور محدثین سے ھانی بن ھانی کی توثیق ثابت ہونے پر اس مسلے سے رجوع کر لیا تھا لیکن امام مزی سے مروی اسکی توثیق پر اعتماد نہ کیا تھا بلکہ جمہور محدثین کی اپنی کتب سے جب تک ھانی کی توثیق ثابت نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں مسلہ یہ نہیں کہ امام نسائی کی توثیق نقل کر دی امام مزی نے تو بس یہ اٹل کلیہ بن گیا کہ یہ توثیق اب امام نسائی سے ثابت بھی ہو گئی اور وہ متشدد تھے تو بس اب مجہول نہیں ہو سکتا راوی جبکہ امام مزی کے نزدیک سند محفوظ ہے لیکن اور محدثین نے نہیں دیکھی تو اما م مزی کی بات پر یقین ہیں کیا جا سکتا الا اسکے کہ تائید میں امام مزی سے مروی اقوال پیش کیے جائیں کیونکہ محدثین کی محدث کی ایسی سند کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں جس میں محدث یہ کہے حدثنا ثقہ رجل ، یا حدثنا الشیخ الثقہ وغیرہ۔۔۔۔ کیونکہ راوی مجہول ہے لیکن کیا معلوم جو اسکے نزدیک ثقہ ہو لیکن اس پر کسی اور امام کی جرح مفسر ہو تو ایسی صورت میں راوی مجہول ہی رہے گا اور مجہول صیغے سے توثیق بھی مجہول رجل کی قبول نہ ہوگی اور یہی حال امام مزی کے قول کا ہے کہ انکی نظر میں محفوظ ہے لیکن ہم کو نہیں معلوم اور سب سے اہم نقطہ امام مزی نے جو عمیر بن اسحاق کی توثیق نقل کی ہے بغیر سند سے یہ امام نسائی کی کتب میں اس راوی کے بارے جو امام نسائی کی تصریح ہے اسکے بھی خلاف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م مزی کو یہ توثیق منسوب کرنے میں تسامع ہوا یا انکی سند میں ضرور خرابی ہوگی اب ہم ثبوت پیش کرتے ہیں کہ امام نسائی نے اس راوی کے بارے میں اپنی لا علمی کا مکمل اظہار کیا ہے اپنی ایک نہیں تین تین کتب میں ۱۔امام نسائی السنن الکبریٰ میں اسکی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں : 8695 - أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ بِشْرٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ مَبْعَثًا فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «كَيْفَ وَجَدْتَ نَفْسَكَ؟» قَالَ: «مَا زِلْتُ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّ مَنْ مَعِي خَوَّلَ لِي، وَايْمُ اللهِ مَا أَعْمَلُ عَلَى رَجُلَيْنِ مَا دُمْتُ حَيًّا» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: عُمَيْرُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَا لَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ ابْنِ عَوْنٍ، وَنُبَيْحٌ الْعَنَزِيُّ لَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ (السنن الكبرى نسائی) امام نسائی عمیر بن اسحاق کی روایت بیان کر کے فرماتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ عمیر بن اسحاق سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت کرتا ہو۔ اسی طرح امام نسائی نے اپنی دوسری تصنیف مجموعہ رسائل فی علوم الحدیث میں عمیر بن اسحاق کے بارے وہی اپنی لا علمی کا بیان کرتے ہوئے اسکے ترجمے میں لکھتے ہیں : 8 - عُمَيْر بن إِسْحَاق لَا نعلم أحدا روى عَنهُ غير عون (مجموعة رسائل في علوم الحديث) کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ عمیر بن اسحاق سے سوائے ابن عون کے کوئی روایت کرتا ہو اور پھر امام نسائی نے اپنی تیسری تصنیف جس میں انہوں نے اس راوی کو ان راویان میں شمار کیا جن سے سوائے ایک کہ اورکوئی روایت ہی نہیں کرتا اور وہاں بھی امام نسائی نےاسکے بارے میں وہی لا علمی کا اعلان کیا ہے عمير بن إسحاق لا نعلم أحدا روى عنه غير بن عون (تسمية من لم يرو عنه غير رجل واحد)۔ تو معلوم ہوا امام نسائی جو متشدد امام ہیں اورعلل میں امام مسلم کے درجے کے برابر کے امام ہیں جب وہ اس راوی کے بارے میں لاعلمی کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انکو سوائے اس سے ابن عون کے علاوہ کوئی اور روایت کرنے کا علم ہی نہیں اس سے وہ کیسے ایسے راوی کو لا باس بہ کہہ سکتے ہیں جبکہ انہوں نے اس سے مروی روایت کو نہ ہی اپنی السنن المتجبی میں داخل کی جن انہوں نے صحیح روایات کا التزام کیا تھا تو معلوم ہوا امام نسائی سے نہ ہی اسکی توثیق معتبر طریقے سے ثابت ہے اور بلکہ امام نسائی کی کتب سے اس راوی پر امام نسائی کی لا علمی ہی ثابت ہے اگلا اعتراض : کہ امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے اور اپنی صحیح میں بھی روایت کیا ہے تو عرض ہے امام ابن حبان نے اس راوی کو اپنی صحیح میں لیا ہے تو یہ ضمنی توثیق سے صرف اتنا ثابت ہوگا کہ یہ راوی متابعت و شواہد میں قبول ہے نہ کہ منفرد روایت میں جیسا کہ مسند احمد کے محقق شیخ شعیب الارنووط نے انکے بارے فیصلہ دیا ہے : علامہ شعیب نے صحیح ابن حبان کی تحقیق میں عمیر بن اسحاق سے مروی منفرد روایت کو اسی وجہ سے حسن الحدیث مانا ہے کہ امام ابن حبان نے ثقات میں درج کیا ہے اور امام نسائی نے لا باس بہ کہا ہے وغیرہ لیکن جب انہوں نے اپنی مدلل تحقیق کی اور جب جمہور متقدمین و متاخرین سے اس راوی کے بارے میں اقوال درج کیے تو اس طرف اپنا فیصلہ دیا ہے کہ روایت منفرد ہو تو اسکی روایت بالکل قبول نہ ہوگی چناچہ وہ مسند احمد کی روایت نمبر : ۷۴۶۲ کے حاشیے میں اسکی منفرد روایت کے بارے لکھتے ہیں : إسناده ضعيف، تفرد به عمير بن إسحاق اور اسکےبارے میں تمام اقوال نقل کرکے کہتے ہیں : والقول الفصل فيه أن حديثه يقبل في المتابعات والشواهد، وما انفرد به فضعيف، ولذا قال الحافظ في "التقريب": مقبول، أي: عند المتابعة، وإلا فلين الحديث. (مسند احمد جلد ۱۲، ص ۴۲۸) ترجمہ: ان قسم کے اقوال کا حاصل یہ ہے کہ اسکی(عمیر بن اسحاق) کی روایت قبول کی جائے گی متابعت اور شواہد میں اور جس میں اسکا تفرد ہوگا وہ ضعیف ہوگی یہی وجہ ہے کہ امام حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں اسکو مقبول قرار دیا ہے اور انکے نزدیک یہ متابعت میں قبول ہوتا ہے ورنہ لین الحدیث ہوتا ہے اگلا اعتراض : کہ امام ہیثمی نے اسکو مجمع الزوائد میں ثقہ قرار دیا ہے الجواب: تو عرض ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے ابن حبان اور امام مزی کی کتاب پر یقین کرتے ہوئے ثقہ قرار دیا ہے لیکن انہوں نے امام ابن معین سے عمیر بن اسحاق کی تضعیف کو بھی راجح مانتے ہوئے قبول کیا ہے جیسا کہ وہ ایک روایت پر حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح خلا عمير بن إسحاق وثقه ابن حبان وغيره وضعفه ابن معين وغيره (مجمع الزوائد برقم:۹۰۲۵) یعنی اسکو روایت کیا ہے امام طبرانی نے اور اسکے رجال صحیح کے ہیں سوائے عمیر بن اسحاق کے جسکو ثقہ امام ابن حبان نے قرار دیا ہے اور ضعیف امام ابن معین وغیرہ نے اب ہم پیش کرتے ہیں وہ دلائل متقدمین و متاخرین سے کہ جمہور اس راوی سے بالکل نا واقف تھے امام خطیب بغدادی: عمیر بن اسحاق کی مثال عبد اللہ بن عون کے علاوہ ان سے کوئی روایت. نہیں کرتا اور انکے علاوہ جن خلق کثیر کا ذکر ہم نےجو کیا ہے. ان میں سے بہت کم ہی ایسے ہیں جن سے جھالت مرتفع ہوتی ہے جس سے ایک سے زیادہ دو راوی روایت کرے جو علم کے ساتھ مشھور ہو , ومثل عمير بن إسحاق لم يرو عنه سوى عبد الله بن عون , وغير من ذكرنا خلق كثير تتسع أسماؤهم , وأقل ما ترتفع به الجهالة أن يروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشهورين بالعلم كذلك (الكفاية في علم الرواية) امام عقیلی اور امام مالک بن انس : امام عقیلی فرماتے ہیں : کہ امام مالک بن انس سے پوچھا گیا کہ عمیر بن اسحاق کے بارے تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا سوائے اسکے کہ ان سے روایت کیا گیا ہے سوائے ابن عون کے پھر امام ابن معین کے قدیم اور زیادہ صحبت والے شاگرد عباس الدوری فرماتے ہیں کہ عمیر بن اسحاق کسی قابل نہیں ہے لیکن اسکی روایت لکھی جائے (نوٹ: امام ابن معین کے اقوال پر بحث آخر میں ہوگی) 1333 - عمير بن إسحاق أبو محمد حدثنا زكريا بن يحيى قال: حدثنا أبو موسى محمد بن المثنى قال: حدثني محمد بن عبد الله الأنصاري قال: حدثني رجل، قال: قلت لمالك بن أنس: من عمير بن إسحاق؟ قال: لا أدري، إلا أنه روى عنه، رجل لا نستطيع أن نقول، فيه شيئا، ابن عون. حدثنا محمد بن عيسى قال: حدثنا عباس قال: سمعت يحيى قال: عمير بن إسحاق لا يساوي شيئا، ولكنه يكتب حديثه (الكتاب: الضعفاء الكبير) المؤلف: أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) امام احمد بن حنبل: امام عبداللہ بن احمد اپنے والد امام احمد سے پوچھتے ہیں عمیر ابن اسحاق کے بارے تو وہ کہتے ہیں ان سے ابن عون نے روایت کیا ہے تو میں نے کہا کہ ان سے کوئی اورحدیث ابن عون کےعلاوہ بھی کوئی روایت کرتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے کہ کہ امام مالک سے بھی اسکے متلعق سوال ہو ا تھا تو انہوں نے کہا کہ میں اس کو نہین جانتا ہوں اور پھرامام احمد نے فرمایا کہ وہ مدینی تھے (نوٹ:یہ بات بہت اہم ہے کہ عمیر بن اسحاق اہل مدینہ کا ہے اور امام مالک بن انس جیسا اپنے وقت کا محدث اعظم ان سے نا واقف تھے ) 4441 - سألته عن عمير بن إسحاق فقال حدث عنه بن عون فقلت له حدث عنه غير بن عون فقال لا ثم قال سألوا مالكا عنه فقال لا أعرفه قال أبي وهو مديني (الكتاب: العلل ومعرفة الرجال المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) امام ابن سعد : خود امام ابن سعد نے طبقات میں اس راوی کا ترجمہ بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں : کہ عمری بن اسحاق اہل مدینہ والوں میں سے تھے اور بصرہ بھی جاتے اور ان سے روایت کیا ہے بصریوں میں سے ابن عون وغیرہ نے اور ان سے اہل مدینہ میں سے کسی نے کچھ بھی روایت نہین جبکہ عمیر بن اسحاق حضرت ابو ھریرہ سے بیان کرتے ہیں (نوٹ: یہ بات اہم ہے کہ یہ اہل مدینہ سے تھے لیکن اہل مدینہ میں سے کوئی بھی اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا تھا اس میں یہ شک بھی پیدا ہو تا ہے کہ کہیں یہ اہل تشیع میں سے نہ ہو یا رافضی ہو کہ اہل مدینہ جو اسکے علاقے کے تھے وہ اس سے اجتناب کرتے ) عمير بن إسحاق كان من أهل المدينة، فتحول إلى البصرة فنزلها، فروى عنه البصريون، ابن عون وغيره، ولم يرو عنه أحد من أهل المدينة شيئا، وقد روى عمير بن إسحاق عن أبي هريرة وغيره (الكتاب: الطبقات الكبرى المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اب آتے ہیں اگلے اعتراض پر کہ امام ابن معین نے انکو ثقہ قرار دیا ہے امام ابن ابی حاتم لکھتے ہیں : نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلى قال أنا عثمان بن سعيد قال قلت ليحيى بن معين عمير بن اسحاق كيف حديثه؟ فقال ثقة. کہ عثمان بن سعید الدارمی کہتے ہیں کہ : میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ عمیر بن اسحاق کا حدیث میں کیسا حال ہے ؟ فرمایا ثقہ ّ(الجرح والتعدیل ) الجواب: عرض یہ ہے کہ اما م ابن معین سے یہ قول امام ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اسکے بارے میں لا علمی بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں : 2074 - عمير بن اسحاق أبو محمد مولى بنى هاشم سمع ابا هريرة وعمرو ابن العاص والحسن بن علي روى عنه ابن عون ولا نعلم روى عنه غير ابن عون سمعت أبي يقول ذلك امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں :کہ ان سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت نہیں کرتا اور بس اتنا سنا اپنے والد سے اب آتے ہیں امام ابن معین کے قول کی طرف : امام ابن معین سے عمیر کی توثیق بیان کرنے والے امام ابن معین کے غیر مستقل شاگرد امام عثمان بن سعید الدارمی ہیں اور امام ابن معین سے اس پرجرح بیان کرنے والے شاگرد قدیم اور زیادہ صحبت پانے والے مستقل شاگرد امام الدوری ہیں اور اس بات پر محدثین کا اتفاق ہے کہ امام ابن معین کے اقوال میں اختلاف کی صورت میں اما م الدوری کی طرف رجوع کیا جائےگا اور جو انہون نےروایت کیا ہوگا اسکو فوقیت ہوگی امام امام الدوری اپنی کتاب تاریخ ابن معین مین کیا لکھتے ہیں : 4209 - سَمِعت يحيى يَقُول كَانَ عُمَيْر بن إِسْحَاق لَا يُسَاوِي شَيْئا وَلَكِن يكْتب حَدِيثه قَالَ أَبُو الْفضل يَعْنِي يحيى بقوله إِنَّه لَيْسَ بِشَيْء يَقُول إِنَّه لَا يعرف وَلَكِن بن عون روى عَنهُ فَقلت ليحيى وَلَا يكْتب حَدِيثه قَالَ بلَى (تاریخ ابن معین روایہ الداوی) کہ مین نے امام ابن معین سے سنا کہ عمیر بن اسحاق کسی قابل نہیں ہے اسکی روایت لکھی جائے اور ابو فضل کہ جب وہ کسی کے بارے کہیں کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے اسکا مطلب ہوتا ہے وہ انکو نہیں جانتے پہچانتے لیکن ان سے تو ابن عون روایت کرتے ہیں تو میں نے پوچھا ابن معین سے کہ کیا میں اسکی حدیث نہ لکھون ؟ تو فرمایا ہاں اب اس آخری عبارت سے یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ امام ابن معین لکھنے کا کہہ رہے ہیں ہاں سے یا نہ لکھنے کا لیکن کیونکہ پچھلی عبارت موجود ہے تو یہاں امام ابن معین یکتب حدیثہ کے بارے میں ہاں کا جواب ہی دے رہے ہیں کہ اسکی روایت لکھی جائے اور جب کسی راوی کے بارے مین یکتب حدیثہ آجائے تو اسکی روایت متابعت و شواہد میں قبول ہوتی ہے یہ تو بالکل سیدھی سی بات ہے اور ثقہ کے الفاظ کیونکہ ابن معین کے غیر مستقل شاگرد نے بیان کیے ہیں اور معلوم نہیں کہ امام ابن معین کیسے ایک ایسے راوی کو ثقہ قرار دے سکتے ہیں ؟ جبکہ انکے ہم عصر امام احمد بن اسکو نہ جانتے ہوں ، خود انکا مستقل شاگرد بھی یہی بیان کرے ، اور امام مالک جو ان سے بہت پہلے کے ہین اور اہل مدینہ میں سے تھے وہ بھی اسکے بارے نہ جانتےتھے تو امام ابن معین تو قلیل الروایت والے کو ثقہ کہتے ہی نہیں بلکہ لیس بشئی کہہ دیتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ۲،۳ روایت والے کو ثقہ جیسی صریح توثیق کر دیں یہ امام ابن معین کے منہج کے خلاف عبارت معلوم ہو رہی ہے کیونکہ امام الدوری نے امام ابن معین سے اپنی کتاب میں ایک اور بات بھی بن عون کی عمیر بن اسحاق کے حوالے سےکہی ہے جو کہ ہے : 3353 - سَمِعت يحيى يَقُول قد حدث بن عون عَن قَوْلهم لم يحدث عَنْهُم غَيره عُمَيْر بن إِسْحَاق ومسكين الْكُوفِي وَأبي مُحَمَّد عبد الرَّحْمَن بن عبيد (تاریخ ابن معین روایت الدوری) میں نے یحی سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عون نے انکے اقوال سے وہ بیان نقل کیا ہے جو کہ دیگر نقل نہیں کرتے مطلب ابن عون ان تین حضرات سے تنہا روایت کرتے ہیں ان سے سب روایت کرنے کرنے میں منفرد ہیں جبکہ بقول ابن سعد اہل مدینہ نے عمیر سے کچھ بھی بیان کرنے سے توقف کیا ہے امام ابن عدی: وہ بھی انکو الضعفاء میں درج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اسکی روایت (متابعت و شواہد) میں لکھنی چاہیے وہ بھی سیرمیں وعمير بن إسحاق لا أعلم يروي عنه غير بن عون، وهو ممن يكتب حديثه وله من الحديث شيء يسير. (الکامل فی الضععفاء) اگلا اعتراض : کہ امام حاکم نے انکی روایت کو اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذھبی نے موافقت کی ہے الجواب: پہلی بات یہ ہے کہ صحیحین کے شیخین نے اس سے کوئی روایت لی نہیں ہے اجتیہاد میں اور امام ذھبی نے بھی موافقت کر دی اس سے معلو م ہوا کہ امام ذھبی کو یہاں تسامع ہوئے ہیں جیساکہ انکے مستدرک میں تسامہات پر کتاب لکھی جا چکی ہے اورانہوں نے مستدرک کی تلخیص میں اپنے رجال کی کتب میں حکم کے خلاف باتیں لکھ دیں تو اس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ امام ذھبی کے نزدیک عمیر بن اسحاق کا کیا مقام ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ یہاں واقعی تسامع ہے امام ذھبی : المغنی فی الضعفاءمیں عمیر بن اسحاق کی توثیق کو وثق کے الفاظ سے غیر معتبر قرار دیا ہے جو کہ ہماری بات کی تائید ہے اور امام ابن معین سے بیان کیا ہے کہ یہ کسی قابل نہین ہے 4735 - س / عُمَيْر بن إِسْحَاق شيخ ابْن عون وثق وَقَالَ ابْن معِين لَا يسواي حَدِيثه شَيْئا (المغنی فی الضعفاء امام ذھبی) اور اسی طرح میزان الاعتدال میں بھی امام ذھبی نے عمیر بن اسحاق کی امام نسائی اور ابن حبان سے توثیق نقل کرتے ہوئے بھی اسکی توثیق کو غیر معتبر قرار دے دیا ہے جس بات پر مخالف ایک ٹانگ پر ناچ رہے تھے امام ذھبی نے بھی اس توثیق کو غیر معتبر قرار دے دیا ہے وہ میزان میں لکھتے ہیں : 6485 - عمير بن إسحاق [س] . وثق. ما حدث عنه سوى ابن عون. وقال يحيى بن معين: لا يساوى حديثه شيئا، لكن يكتب حديثه. هذه رواية عباس عنه. وأما عثمان فروى عن يحيى أنه ثقة. وقال النسائي وغيره: ليس به بأس. روى عن المقداد بن الأسود، وعمرو بن العاص، وجماعة. (میزان الاعتدال امام ذھبی) خلاصہ تحقیق: عمیر بن اسحاق کو ابن حبان (متساہل ) نے ثقات میں درج کیا اور روایت بھی لی اور امام حاکم (متساہل ) نے ضمنی توثیق کی اور امام مزی نے امام نسائی سے (غیر معتبر) توثیق منسوب کی ہے اور ہم نے ثابت کیا دلائل سے کہ امام ابن حبان متساہلین میں سے ہیں اور امام حاکم متفقہ تو انکی ضمنی توثیق کا کوئی فائدہ نہیں اور امام نسائی نے خود اپنی تین تصانیف میں عمیر بن اسحاق کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سوائے ابن عون کے اور کوئی روایت نہین کرتا اور باقی امام ابن معین سے مروی توثیق امام ابن معین کے مقدم شاگرد اور مستقل امام الدوری سے مروی قول کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاز ہے کیونکہ مقدم اما م الدوری کا قول ہوگا محدثین کے تحت اور عمیر بن اسحاق کو مجہول کہنے والے مندرجہ ذیل امام ہیں ۱۔ امام مالک بن انس ۲۔ امام یحییٰ بن معین ۳۔ احمد بن حنبل ۴۔ امام عقیلی ۵۔امام ابی حاتم ۶۔ اما م ابن عدی ۷۔ امام خطیب بغدادی ۸۔امام ابن سعد ۹۔ امام ذھبی ۱۰۔امام ابن حجر عسقلانی ۱۱۔علامہ شیخ شعیب الارنووط تو اتنے جمہور محدثین تو متقدمین سے ایسے راوی سے انجان تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امام ابن معین جو کسی راوی کی توثیق آسانی سے نہیں دیتے وہ ایک دو روایت کرنے والے کو ثقہ کہہ دیں اور جمہور محدثین متقدمین سے متاخرین تک اس سے لا علم ہی رہے اور سوائے ابن عون سے اسکو کوئی بیان نہیں کرتا اور امام ابن معین کی تصریح ہے کہابن عون عمیر سے وہ روایت بیان کرتا ہے جو انکے علاوہ باقی سب توقف کرتے ہیں اور امام ابن سعد کا بھی یہی کہنا ہے تحقیق: دعا گو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
  8. جناب نے دو متابعت بیان کی ہے وہ تو بالکل اسکے متن کے برعکس اور حقیقت کے بالکل منافی ہے جیسا کہ اس سے متن میں اضطراب پیدا ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے پچھلے راوی کو بھی ضعیف نہیں کہا تھا فقط اسکی نکارت کی طر ف نظر کی تھی لیکن اسکی متابعت آپ نے پیش کی ہے لیکن سند میں بہت ہی زیادہ باطل الفاظ موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے راویوں نے اپنے من پسند الفاظ ملا کر واقعے کو چٹخارے دار بنانے کی کوشش کی ہے اور مناظرے اور مخالف کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا محدثین کے ہاں عام بات تھی کیونکہ وہ ان واقعات کو بیان کرنے میں روایت حدیث جیسی احتیاط نہیں برتتے تھے ۔۔۔ اب آتے ہیں آپکے پیش کیے گئے متن کی طرف آپکی پیش کی گئی سند صحیح میں امام شافعی امام محمد بن الحسن کے حوالے سے فرماتے ہیں : مَا كَانَ يَنْبَغِي لِصَاحِبِنَا أَنْ يَسْكُتَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ: کہ ہمارے امام (ابی حنیفہ) خاموش نہیں ہوتے اور تمہارے امام (مالک) بولتے نہیں اسکے بعد آپکے پیش کیے گئے متن میں جو الفاظ خطرناک ہیں وہ یہ ہیں قُلْتُ: فَنَشَدْتُكَ اللَّهَ، أَتَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَكَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ، كَانَ جَاهِلا بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: نَعَمْ:امام شافعی کہتے ہیں : میں نے کہا میں آپکو اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ آپکے امام یعنی ابی حنیفہؓ کہ وہ کتاب اللہ یعنی قرآن قریم کے جاہل تھے؟ محمد بن حسن نے کہا : ہاں جبکہ امام ابی حنیفہ کو قرآن سے جاہل بتایا جا رہا ہے اس متن میں یہ متعصب راویان کا کمال نہیں تو کیا ہو سکتا ہے ؟ مزید آگے آپکی پیش کردہ متن میں ہے : قُلْتُ: وَكَانَ جَاهِلا بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَاهِلا بِاخْتِلافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ، قَالَ: نَعَمْ. امام شافعی فرماتے ہیں : میں نے کہا کہ آپکے امام (ابی حنیفہ) حدیث رسول سے جاہل تھے ؟ اوار اختلاف اصحاب رسولﷺ س ےجاہل تھے ؟ امام محمد نے فرمایا: جی ہاں اب کوئی انصاف پسند بندہ یہ واقعہ پڑھ کر بہت ہی آسانی سے دیکھ سکتا ہے کہ اس واقعے کا پہلے متن میں تو امام ابو حنیفہ کو امام مالک سے کم علم ثابت کیا لیکن اس متن میں تو پورا رگڑا لگا دیا امام اعظم پر انکو کتاب اللہ ، حدیث رسول اور اختلاف اصحاب یعنی آثار کا بھی جاہل بنا دیا اور ظلم یہ کہ یہ بات امام محمد بن الحسن الشیبانی سے قبول کروائی جا رہی ہے متن میں جنکی ساری عمر فقہ حنفی کی تدوین اور تصانیف اور اصول مدون بیان کرنے میں گزری اور جنہوں نے اپنی زندگی میں امام مالک کے رد پر کتب تصنیف کی وہ اگر امام ابو حنیفہ کو امام مالک کے سامنے جاہل مانتے تو انکی ساری دوسری کتب باطل ثابت ہوئیں جس میں وہ اثار اور احادیث بیان کر کے امام اعظم کے استدلال کو مقدم کرتے ہیں تو معلوم ہوا امام محمد کی کتب نہیں بلکہ یہ واقعہ ہی باطل ہیں اپنے موقف کو مذید پختہ کرنے کے لیے ہم آپکو یہ واقعی ایک اور سند سے عبدالحکم ہی سے بیان کرتے ہیں جس میں الفاظ بالکل مختلف اور متن بھی مختصر لیکن اس میں ایک ایسی چیز بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مناظرہ کی نوبت آئی ہی نہیں تھی بلکہ امام محمد نے سوال کیا بھی ہوگا تو امام محمد نے جب یہ کہا کہ ہمارے امام چپ نہیں رہتے اور آپکے امام بولتے نہیں (قیاس اور اجتیہاد نہیں کرتے) تو امام شافعی کی تصریح ہے کہ مجھے غصہ آگیا ، اور غصے میں کہے گئے الفاظ حق نہیں ہوتے ہیں نیز کوئی یہ کہے کہ انکی موافقت امام محمد نے کی ہے تو امام محمد نے انکے غصے کو ٹھنڈا کرنے یا واقعے کو مذید بڑھنے کے اجتناب کے لیے موافقت کی ہو چونکہ راویان جیسے جیسے اس واقعے کے تبدیل ہوتے متن سارا تبدیل ہوتا جاتا ہے لیجیے الانتفاء کا متن : أخبرنا خلف بن قاسم نا قاسم بن محمد قال نا خالد بن سعد قال نا عثمان بن عبد الرحمن قال نا إبراهيم بن نصر قال سمعت محمد بن عبد الله بن عبد الحكم يقول سمعت الشافعي يقول قال لي محمد بن الحسن صاحبنا أعلم من صاحبكم يعني أبا حنيفة ومالكا وما كان على صاحبكم أن يتكلم وما كان لصاحبنا أن يسكت قال فغضبت وقلت نشدتك الله من كان أعلم بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم مالك أو أبو حنيفة قال مالك لكن صاحبنا أقيس فقلت نعم ومالك أعلم بكتاب الله تعالى وناسخه ومنسوخه وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم من أبي حنيفة فمن كان أعلم بكتاب الله وسنة رسوله كان أولى بالكلام خلف بن قاسم بیان کرتے ہیں : امام شافعی کا یہ بیان نقل کیا ہے : ایک مرتبہ امام محمد نے مجھ سے کہا ہمارے استاد تمہارے استاد سے بڑے عالم تھے ، ان کی مراد امام ابو حنیفہؓ اور امام مالک تھے کیونکہ تمہارے استاد بولتے نہیں تھے اور ہمار ےاستاد خاموش نہیں ہوتے تھے ، امام شافعی کہتے ہیں : مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا : آپکو اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں سنتکا بڑا عالم کون تھا ، امام مالک یا امام ابو حنیفہؓ؟ تو امام محمد نے کہا : امام مالک پھر امام محمد نے کہا : لیکن ہمارے استاد زیادہ اجتیہاد و قیاس کرنے والے تھے میں (شافعی) نے کہا :ٹھیک ہے لیکن امام مالک اللی کیتا اور ناسخ و منسوخ ، اور رسول کی سنت (حدیث) میں امام ابو حنیفہ سے زیادہ بڑے امام تھے اور جو شخص اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کے بارے میں زیادہ علم رلکھتا ہے وہ کلام کرنے کا زیادہ حقدار ہوتا ہے اس واقعے کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعہ کچھ حقیقت کے نزدیک ہے اور اس میں امام محمد نے نہ ہی قرآن کی لا علمی اور ناسخ و منسوخ میں امام شافعی سے موافقت کی ہے اور امام شافعی نے چونکہ امام ابو حنیفہ کو کتاب اللہ اور حدیث رسول میں کم مانا امام مالک سے لیکن چونکہ امام شافعی امام ابو محمد سے اپنی زندگی کے ابتدائی دور جس میں انکی عمر ۲۰ سال بھی مشکل سے تھی تب ملے تھے اور امام شافعی نے جب امام محمد کی شاگردگی کے بعد انکی کتب جو کہ انکا بیان ہے ایک اونٹ برابر وزن کے لیا تھا جب انکو پڑھا پھر وہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ تمام لوگ (سمیت امام مالک کے) فقہ میں اہل عراق(یعنی امام ابو حنیفہ و صاحبین) کے بچے ہین اور اہل عراق سے مراد صرف اور صرف فقیہ امام ابو حنیفہ ہی مشہور تھے اگر کوئی کہے سفیان الثوری تو اسکا انصاف سے جواب یہ ہے کہ وہ حدیث کے زیادہ بڑے ماہر تھے لیکن فقہ میں امام سفیان نے امام ابی حنیفہ کی ہی زیادہ تر موافقت کی ہے اور فقہ میں سفیان الثوری امام محمد و امام یوسف کے بھی ہم پلہ نہ تھے امید ہے جناب کو شوافع راویان کی بیان کردہ حکایات کا علم ہو گیا ہوگا۔۔۔۔ کہ کیسے کیسے الفاظ تبدیل کر کے اپنے شیخ اور پھر انکے شیخ کی عزت بڑھا دیتے لیکن اللہ انکو معاف کرے جب تعصب اور مقابلے بازی اور مناظرے کی بات آجائے تو دونوں طرف سے ایسا ہوتا ہے
  9. جناب اس پوسٹ میں مجھ سے غلطی ہوئی تھی سند پڑھتے ہوئے مجھ سے خطاء ہو گئی تھی جو کہ میں یہاں تصحیح کر دیتا ہوں اپنے فیسبک پیج کمنٹس میں تصحیح کی تھی لیکن یہاں تصحیح کرنا بھول گیا تھا آپ نے آج ٹیگ کیا تو بیان کر دیتا ہوں امام عقیلی نے الضعفاء الکبیر میں جو امام شعبہ سے لعنت کی جرح کی سند لکھی ہے وہ پچھلی سند جرح جو کہ انہوں نے امام مالک سے نقل کی تھی جس میں ولید بن مسلم تھا سند وہاں سے متصل ہے جیسا کہ امام عقیلی نے پہلے امام ابو حنیفہ پر اپنی سند جو کہ متصل ہے اس سے امام ابو حنیفہ پر جرح نقل کی ہےجسکی سند و متن کچھ یوں ہے (جو دارالکتب العلمة کا ہے) حدثنا عبد الله بن أحمد قال: حدثنا إبراهيم بن عبد الرحيم، حدثنا أبو معمر، حدثنا الوليد بن مسلم قال: قال لي مالك بن أنس: يذكر أبو حنيفة ببلدكم؟ قال: قلت: نعم , قال: ما ينبغي لبلدكم أن تسكن. اسکے بعد امام عقیلی امام شعبہ سے جو جرح نقل کی ہے اسکی سند یوں ہے : وقال: حدثنا أبو بكر الأعين قال: حدثنا منصور بن سلمة أبو سلمة الخزاعي قال: سمعت حماد بن سلمة , وسمعت شعبة يلعن أبا حنيفة. امام عقیلی نے اگلی سند قال کے صیغے سے لکھی ہے جسکی ضمیر امام عبداللہ بن احمد کی طرف تھی اور میں نے غلطی سے اسکو ولید بن مسلم پر لٹا دی جبکہ امام ولید بن مسلم امام عقیلی اور امام عبداللہ بن احمد سے بھی پہلے کہ محدث اور امام شافعی کے ہمعصر ہیں جبکہ یہ قال سے مراد امام عبداللہ بن احمد ہیں لیکن مسلہ یہ ہے کہ الضعفاء کے نسخوں میں اختلاف ہے سند میں بھی اور متن میں بھی جیسا کہ الضعفا الکبیر کے ایک نسخے میں سند کچھ یوں ہے حدثنا محمد بن ابراہیم بن جناد ، قال حدثنا ابو بکر الاعین قال: حدثنا منصور بن سلمة ابو سلمة الخزاعی ، قال:سمعت حماد بن سلمة یلعن ابا حنیفة و سمعت شعبة یلعن ابا حنیفة یعنی ایک نسخے میں سند عبداللہ بن احمد سے شروع ہو رہی ہے اور وہ ابو بکر الاعین سے بیان کر رہے ہیں جبکہ دوسرے نسخے میں سند محمد بن ابراہیم جناد سے شروع ہو رہی ہے اور وہ ابو بکر الاعین سے بیان کر رہے ہیں اور یہاں تعین نہیں ہو سکتا ہے کہ اصل اور صحیح سند کونسی والی ہے ؟ لیکن چونکہ امام عبداللہ بن احمد ہی ابو بکر الاعین کے شاگرد خاص جیسا کہ وہ اکثر روایات اپنے شیخ ابو بکر الاعین سے بیان کرتے رہتے ہیں اور کتاب السنہ جس میں زم ابی حنیفہ کا باب کسی فاسق نے ڈال دیا جبکہ اسکے ۶ نسخے ہیں اور ۵ نسخوں میں زم ابی حنیفہ کا باب ہی نہیں ہے لیکن صرف ایک نسخے میں ابی حنیفہ پرجروحات کاباب باندھا گیا ہے ہم نے جب اس کتاب میں رجوع کیا کہ شاید اس میں یہ جرح موجود ہو کیونکہ امام عبداللہ بن احمد ابو بکر الاعین کے شاگرد ہیں اور کسی فاسق نے جب انکی کتاب میں ابی حنیفہ کے خلاف جروحات ڈال دی جو دوسری کتب میں موجود ہوتی ہیں تو یہ جرح بھی کتاب السنہ جو منسوب ہیں امام احمد کی طرف اس میں موجود ہے لیکن اسکے متن میں ایک ایسا بنیادی فرق ہے جو عیاں کرتا ہے کہ الضعفاء الکبری میں جو متن ہے وہ باطل ہے یا اسکے متن میں تحریف کی گئی ہے جیسا کہ الضعفاء کے کتاب کے محقق نے حاشیے میں تصریح کی ہے کتاب السنہ میں اسکی سند اور متن کچھ یوں ہے 345 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ الْأَعْيَنَ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، «يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ» ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَكَانَ شُعْبَةُ " يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں عبداللہ بن احمد سے حدثنی سے ابو بکر الاعین ہے اور وہ منصور سے اور وہ حماد بن سلمہ سے منصور کا سننا بیان کر رہے ہیں کہ حماد بن سلمہ ابی حنیفہ پر طعن کرتے تھے اور آگے ہے کہ ابو سلمہ نے کہا کہ شعبہ بھی ابی حنیفہ پر طعن کرتے یہاں کان کا لفظ ہے سمعت کا نہیں اور چونکہ اس کتاب میں تحریف کی گئی دوسری کتب سے سند چوری کر کے اس کتاب میں لکھی گئی ہیں تو تحریف کرنے والے نے سند تو امام عبداللہ سے ویسی لکھی ہے اور متن بھی وہی لکھا جو کہ اسکو دوسری کتب میں ملا ہوگا جس سے ثابت ہو ا کہ الضعفاء والی کتاب میں متن میں غلطی ہے کہ سمعت شعبہ لکھا گیا ہے اور یہ غلطی اصولی طور پر بھی ثابت ہے کیونکہ منصور بن سلمہ کا سماع امام شعبہ سے ثابت ہی نہیں ہے کسی نے بھی انکے شیوخ میں امام شعبہ کا نام نہیں لکھا ہے جیسا کہ امام ابن حجر نے تہذیب میں انکے ترجمے میں لکھا ہے : 538- "خ م مد س - منصور" بن سلمة بن عبد العزيز بن صالح أبو سلمة الخزاعي الحافظ البغدادي روى عن عبد الله بن عمر العمري ويعقوب بن عبد الله العمي وعبد الرحمن بن أبي الموال ومالك وسليمان بن بلال والوليد بن المغيرة المعافري وحماد بن سلمة وعبد العزيز بن عبد الله بن أبي سلمة الماجشون وعبد الله بن جعفر المخرمي وخلاد بن سليمان وبكر بن مضر وغيرهم روى عنه أحمد بن حنبل ومحمد بن أحمد بن أبي خلف وحجاج بن الشاعر ومحمد بن إسحاق الصغاني ومحمد بن عبد الرحيم البزاز ومحمد بن عامر الأنطاكي أبو بكر بن أبي خيثمة وأبو أمية الطرسوسي وعباس بن محمد الدوري وغيرهم قال أبو بكر الأعين عن أحمد أبو سلمة الخزاعي من مثبتي أهل بغداد (تہذیب التہذیب) اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کہیں بھی شعبہ کا ذکر نہیں ہے امام یحییٰ بن معین کا سماع نہیں ہے جو منصور بن سلمہ کی توثیق کرتے ہیں تو منصور بن سلمہ کا سماع امام شعبہ سے کیسے ثابت ہے جبکہ یہ اتنے بڑے اور مشہور امام ہیں کہ محدثین انکا نام منصور کے شیوخ میں لکھنے سے بالکل نہ چوکتے یہی وجہ ہے کہ امام شعبہ سے امام یحییٰ بن معین توثیق بیان کرتے تھے اور بڑا فخر کرتے تھے کیونکہ امام شعبہ اور امام ابو حنیفہ کے آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے اور دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہتی تھی جسکا ذکر امام ابن معین کی کتب التاریخ میں بروایت الدوری ملتا ہے باقی رہا مسلہ یہ ہے کہ حماد بن سلمہ تو لعنت کرتے تھے ابی حنیفہ پر اور اما م شعبہ کا نام تو بیان کرتے ہیں تو اسکا جواب یہ ہے کہ حماد بن سلمہ اور امام ابی حنیفہ یہ دونوں امام حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد تھے دونوں ہم عصر تھے اور حماد بن سلمہ امام ابی حنیفہ سے غضب کا تعصب بلکہ دشمنی رکھتا تھا اور امام ابی حنیفہ لوگوں کے سامنے طعن اور بدعائیں دیتا تھا ۔۔ اور امام ابن معین کو جب لوگ حماد بن سلمہ کی شکایات کرتے تو وہ حماد بن سلمہ کی مذمت کرتے تھے ۔۔۔ جیسا کہ سوالات ابن الجنید میں درج ہے : (181) قال أبو داود النحوي سليمان بن معبد ليحيى بن معين:حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: سمعت حماد بن سلمة يقول: أعض الله أبا حنيفة بكذا وكذا، لا يكني، فقال ابن معين: «أساء أساء» . سلیمان بن مبعد نے امام یحییٰ بن معین سے کہا : مسلم بن ابراہیم نے ہم سے کہا انہوں نے حماد بن سلمہ کو کہتے ہوئے سنا : اللہ ابو حنیفہ کی فلاں فلاں چیز کاٹ دے اور یہ بات کنایتہ نہیں کہی گئی تو امام ابن معین فرماتے تھے اس نے برا کہا برا کہا جب ایسا غضب کا دشمن ابی حنیفہ پر طعن لعن کریگا تو اس میں کونسی حیرانگی ہے نیز امام شعبہ کے طرف یہ بات تعصب اور دشمنی میں منسوب کر سکتا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اسکی تائید الکامل ابن عدی کی روایت کردہ تعدیل سے ہوتی ہے جو انہوں نے باسند صحیح اپننی الکامل میں نقل کی ہے امام شعبہ سے کہ وہ امام ابو حنیفہ کے لیے حسن الرائے کے قائل تھے اور یہ بات امام شعبہ سے انکا مستقل شاگرد شبابہ بیان کر رہے ہیں
  10. *شمشادنامی غیر کے مقلد کی کا دعویٰ کہ امام اعظم اما م مالک سے ہر علم میں کم تھے اور اسکی پیش کردہ دلیل پر تحقیقی نظر* غیر کا مقلد پہلے ایک روایت جو کہ امام شافعی سے منسوب ہے اسکو نقل کرنے سے پہلے ایک پھکی بنا کر لکھتا ہے : امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ؟؟ امام شافعی رحمہ اللہ کا اصول فقہ کا بانی سمجھا جاتاہے اب اس بانی اصول الفقہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ہوتا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں: امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس، قلت: على الإنصاف؟ قال: نعم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم يعني مالكاً، قلت: فمن أعلم بالسنة؟ صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم. قلت : فأنشدك بالله من أعلم بأقاويل أصحاب محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قلت: فلم يبق إلا القياس والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الأصول فعلى أي شيء يقيس؟!!!! [الجرح والتعديل موافق 1/ 12 واسنادہ صحیح] ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا: کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہما اللہ میں سے زیادہ جانکار کون ہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا انصاف کے ساتھ بتلادوں؟ محد بن حسن نے کہا: جی ہاں۔ امام شافعی کہتے ہیں پھر میں نے کہا اللہ کے واسطے بتاؤ قران کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟ محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ قران کے زیادہ جانکار تھے۔ اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا : اچھا یہ بتاؤ حدیث کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟ محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے زیادہ جانکار تھے۔ اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اب باقی بچا قیاس تو قیاس انہیں قران وحدیث ہی پر ہوتا ہے پس جو شخص (ابوحنیفہ) اصول یعنی قران و حدیث سے ناواقف ہو وہ قیاس کس پر کرے گا؟؟؟ گھوپو پھر روایت پر اپنا خلاصہ بھی لکھتا ہے کہ : اس پورے کام میں غورکریں گے توصاف معلوم ہوتا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ حدیث (نصوص کتاب وسنت) کا جانکار ہوگا، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قران و حدیث میں کم علم کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی امام مالک رحمہ اللہ سے کمزور بتلایا ہے الجواب: اس غیر کے مقلد شمشاد نامی کو چاہیے تھا کہ یہ کہتاکے امام الحسن بن شیبانی ؒ جو خود حنفی ہیں وہ امام اعظم کو امام مالک سے ہر علم میں کم سمجھ رہے ہیں جبکہ متن میں بھی اقرار تو امام محمد بن حسن کر رہےہین امام شافعی نے تو اپنے منہ سے کچھ نہ بولا لیکن اس جاہل کو متن سمجھنے کی بھی تمیز نہیں اور اگر ہوگی بھی تو اس نے بات امام شافعی کی طرف لٹا دی ہے خیر اب ہم اسکا تحقیقی جواب پیش کرتے ہیں اس روایت کا متن ہی اس روایت کو باطل بنانے کے لیے کافی ہے امام محمد بن الحسن الشیبانی جو امام اعظم ابو حنیفہؒ کے شاگرد بنے پھر مدینہ امام مالکؒ کے پاس ۳ سال تک رہے اور انکی الموطا یاد کی ہے پھر وہ امام اعظمؒ کی شاگردی اختیار کی واپس آکر اور اپنی وفات تک فقہ حنفی کی تدوین کرتے رہے انہوں نے فقہ حنفی کی تائید اور تدوین میں سب سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امام اعظم معاذاللہ قرآن کا علم بھی حدیث کا علم اور اثار کا علم بھی نہیں رکھتے تو اللہ انکو امت کا سب سے بڑا فقیہ امام کیسے بنا دیا ؟ دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی جو خود موطا روایت کرتے ہیں امام مالک سے وہ بھی نیچے امام ابو حنیفہ ؓ سے مروی اثار لکھ کر کہتے ہیں ہمارا اس پر عمل ہے وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امام مالک ہر علم میں امام اعظم سے مقدم ہیں ؟ نیز امام محمد بن الحسن الشیبانی نے تو امام مالک کے رد پر مکمل کتاب تصنیف کی ہے جسکا نام انہوں نے الرد علی اہل مدینہ کے نام سے لکھی اگر وہ انکو ہر علم میں مقدم سمجھتے تو امام اعظم کی تائید اور دفاع میں امام مالک کے خلاف کتاب کیسے لکھتے ؟؟ امام شافعی کا فیصلہ! امام شافعی ؒ تو خود اپنے تما م تمام شیوخ جن میں امام مالک بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد بن الحسن الشیبانی الحنفیؒ نے کیا ہے (تاریخ اسلام و سند صحیح ) امام شافعی تو امام محمدبن الحسن کو اما م مالک پر فوقیت دیتے تھے وہ کس طرح یہ سمجھتے ہوں کہ : امام ابو حنیفہ امام مالک سے ہر علم میں کم ہیں نیز پھر اما م محمد بن الحسن کا بھی یہی کہنا ہو؟ نیز اسکو امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب آداب مناقب میں نقل کیاہے اور اس میں امام ابن ابی حاتم نے تعصب کی وجہ سے امام شافعی سے انکی زندگی کے آغاز میں امام اعظم اور صاحبین کے خلاف کہے گئے اقوال زیادہ نقل کیے اور اما م شافعی کی طرف سے امام اعظم کی مداح و ثناء میں اقوال نہ ہونے کے برابر لکھے ہیں اور اسی کتاب میں سند صحیح کےساتھ موجود ہے کہ امام شافعی کہتے ہیں رائے یعنی قیاس کوئی چیز ہے تو اس میں تمام لوگ اہل عراق (یعنی امام اعظم و صاحبین ) کے سب بچے ہیں پھر اپنی زندگی کے آخری حصے میں تھے تو کہتے تھے کہ : فقہ میں تما م لوگ بال بچے ہیں اہل اعراق (یعنی امام اعظم و صاحبین) کے امام اعظم تو فقہ کے باب مین سب کو امام اعظم و صاحبین کے بال بچے سمجھتے تھے وہ کیسے امام مالک کو مقدم کر سکتے تھے فقہ میں امام ابو حنیفہ پر ؟ جبکہ انکے نزدیک تو امام محمد بن الحسن الشیبانی بھی اما م مالک سے مقدم تھے فقہ کے باب میں اوردوسری بات امام مالک خود امام ابو حنیفہ کو بے نظیر فقیہ مانتے تھے اسی کتاب آداب الشافعی میں امام ابن ابی حاتم با سند صحیح سے لکھتے ہیں کہ : امام شافعی نے اما م مالک سے پوچھا کہ آپ نے امام ابو حنیفہ کو دیکھا ہوا ہے ؟ تو امام مالک نے کہا بیشک میں نے اسے دیکھا ہوا اسکے پاس دلائل کا اتنا انبار ہوتا ہے وہ ایک مٹی کے ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہے تو کئی دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں امام مالک کا امام عظم کے بارے یہ مشہور قول بھی ابن ابی حاتم نے ہضم نہ ہوا اور پیٹ میں مروڑ اٹھے جسکے بائث انہوں نے لکھا کہ امام مالک کی مراد تھی کہ امام ابو حنیفہ غلط ہونے پربھی ڈٹے رہتے (معاذاللہ استغفار) جبکہ امام اعظم کا اپنا قول صحیح سند سے ثابت ہے وہ کہتے ہیں اے ابو یوسف: تم میرے منہ سے نکلی ہر بات نا لکھ لی کروکیونکہ میں اکثر اپنے اقوال سے رجوع کر لیتا ہوں صبح ایک فیصلہ ہوتا ہے تو رات کو رجوع کر چکا ہوتاہوں نتیجہ: اس سے معلوم ہوا کہ اما م اعظم بہت محتاط اور دلائل پر گہری نظر رکھنے والے امام تھے کہ انکو اپنے اجتیہاد کے خلاف کوئی روایت مل جاتی تو فورا اپنا قیاس رد کر دیتے اور روایت کو قبول کر لیتے اور دوسرا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ اما م اعظم اپنے تمام شاگردوں کو اپنی اجازت سے لکھواتے تھے بغیر اجازت امام ابو یوسف کو بھی لکھنے سے منع فرما دیتے یہی وجہ ہے کہ امام اعظم اپنے کسی بھی فیصلے پر جب مدلل تحقیق کر چکے ہوتے تو تب لکھواتے یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں باقی فقہ کی طرح اقوال میں تکرار نہیں ہے اب آتے ہیں اسکی سند کی طرف: اسکی سند بظاہر صحیح ہے لیکن بظاہر ہر سند صحیح ہونے سے متن صحیح نہیں ہو جاتا ہے اہل علم جو اصول حدیث جانتے ہیں وہ یہ بات خوب سمجھتے ہیں تو ہم اس روایت کی سند میں متعدد علتیں پیش کرتے ہیں : ۱۔یہ واقعہ جو مناظرے کا ہے امام شافعی اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کا اسکو بیان کرنے والا فقط ایک راوی ہے جس پر اس قصے کا دارومدار ہے اور اسکا نام ہے محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم یہ خود امام مالک کے مذہب پر تھا اور امام شافعی کے بھی اور متشدد بھی تھا اسکا ترجمہ بیان کرتےہوئے امام ابن ایبک الصفدی (المتوفیٰ ۷۶۴ھ) کیا فرماتے ہیں دیکھتے ہیں : ابن عبد الحكم الشافعي محمد بن عبد الله بن عبد الحكم بن أعين بن ليث الإمام أبو عبد الله المصري الفقيه أخو عبد الرحمن وسعد لزم الشافعي مدة وتفقه به وبأبيه عبد الله وغيرهما روى عنه النسائي وابن خزيمة وثقه النسائي وقال مرة لا بأس به وكان الشافعي معجبا به لذكايه وحرضه على الفقه وحمل في محنة القرآن إلى بغداذ ولم يجب ورد إلى مصر وانتهت إليه رياسة العلم في مصر له تصانيف منها أحكام القرآن والرد على الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة والرد على أهل العراق وأدب القضاة توفى سنة ثمان وستين (الكتاب: الوافي بالوفيات ،المؤلف: صلاح الدين خليل بن أيبك الصفدي (المتوفى: 764هـ) امام ابن ایبک نے انکے بارے میں فرماتے ہیں : کہ ابن عبدالحکم یہ فقیہ تھے ان سے امام نسائی ، ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے امام نسائی کہتے تھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے پھر امام ابن ایبک آگے لکھتے ہیں انہوں نے کافی تصانیف بھی لکھی ہیں اور انہوں نے بنام احکام القرآن لکھی ہے ۲۔اور انہوں نے خود اما م شافعیؒ کے رد میں کتاب لکھی ہے جسکا نام تھا الرد علی الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة یعنی امام شافعی پر ان مسائل میں رد جس میں انہوں نے قرآن اور سنت کی مخالفت کی ہے (استغفار ) یہ ہے وہابیہ کی منافقت کیا یہ اب بقول اس راوی کے امام شافعی کو قرآن و حدیث کا مخالف سمجھیں گے ؟؟ چونکہ پہلے دور میں کیا ہوتا تھا محدثین جب کسی مجتہد کے فتوے کو سمجھ نہ پاتے اور انکے فتوے کو بظاہر ایک روایت کے خلاف سمجھ لیتے تو فورا یہ فتویٰ ٹھوک دیتے تے یہ تو قرآن و حدیث کے خلاف ہے بجائے ان سے یہ پوچھنے یا تحقیق کرنے کے کہ : مخالف کی دلیل کیا ہے اور جو روایت انکے پاس ہے کیا وہ مخالف کے منہج کے مطابق قابل قبول ہے بھی یا نہیں خیر آگے چلتے ہیں اما م ابن ایبک آگے لکھتے ہیں : ۳۔ انہوں نے ایک اور کتاب لکھی تھی الرد علی اہل العراق (یعنی امام اعظم و صاحبین) تو ایسے راوی جو اتنا متعصب ہو جو خود امام شافعی اور امام اعظم و صاحبین کے رد میں کتب لکھ چکا ہوتو ایسے متعصب راوی کی روایت پر کون یقین کر سکتا ہے ؟ کیونکہ ایسا متعصب راوی جس سے عداوت رکھتا ہے وہ ضرورالفاظ ایسے بیان کرتا ہے جس سے متن پورا کا پورا تبدیل ہو جاتا ہے اسکا ایک ثبوت اسی راوی ہی سے پیش کرتے ہیں جو کہ اس نے امام شافعی سے ایک ایسی بات بیان کی جسکی وجہ سے امام ربیع بن سلیمان جو امام شافعی کے کبیر شاگرد تھے انہوں نے اس راوی کو کذاب قرار دیتے ہوئے اما م شافعی پر اسکا بہتان لگانے کا اقرار کیا اوراسی وجہ سے امام ابن الجوزی بھی اسکو کذاب مانتے تھے امام ربیع بن سلیمان کی جرح کی وجہ سے لیکن چونکہ یہ جمہور محدثین کے نزدیک متفقہ ثقہ ہے تو محدثین نےتصریح کی ہے کہ یہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی نقل کرنے یا بیان کرنے میں کیونکہ امام ابن خزیمہ نے اسکے حفظ پر کلام کیا ہے کہ اسناد میں اسکا ضبط اچھا نہ تھا جیسا کہ آگے بیان ہوگا اس وجہ سے امام نسائی نے بھی اسکے مطلق فتویٰ دیا کے اس کےبارے میں جھوٹ کا اقرار نہیں کی جا سکتا ہے امام ذھبیؒ نے تزکرہ الحفاظ میں بھی اس راوی یعنی محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم کو شامل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قلت له كتب كثيرة منها الرد على الشافعي وكتاب أحكام القرآن ورد على فقهاء العراق وغير ذلك مات في سنة ثمان وستين ومائتين رحمه الله تعالى. (الكتاب: تذكرة الحفاظ المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں کہتا ہوں اس نے کافی کتب لکھی تھیں جن میں ایک الرد علی الشافعی وکتاب احکام القرآن اوردوسری ورد علی فقہا العراق لکھی (نوٹ: یہ متصب اور مخالف پرست ہونے کی نشانی ہے ) اب ہم ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اس راوی نے امام شافعی سے کونسی ایسی روایت بیان کی ہے جس پر امام ربیع بن سلیمان نے اسکو قسم کھا کر کذاب قرار دیا تھا : چناچہ امام ابن حجر عسقلانیؒ تہذیب التہذیب میں اس راوی کے ترجمے میں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ : وقال الذهبي في الميزان قال ابن الجوزي كذبه الربيع ورده الذهبي بأنه صدوق ثم نقل كلام النسائي وغيره فيه انتهى وابن الجوزي نقل ذلك من كلام الحاكم حيث نقل في علوم الحديث عن طريق بن عبد الحكم قصة مناظرة الشافعي مع محمد بن الحسن في ما يناسب إلى أهل المدينة من تجويز إتيان المرأة في الدبر وهي قصة مشهورة فيها احتجاج الشافعي لمن يقول بالجواز قال فقال الربيع لما بلغه ذلك كذب محمد والله الذي لا إله إلا هو لقد نص الشافعي على تحريمه في ستة كتب وقد أوضحت في مواضع أخر أنه لا تنافي بين القولين فالأول كان الشافعي حاكيا عن غيره حكما واستدلالا ولو كان بعض ذلك من تصرفه فالباحث قد يرتكب غير الراجح بخلاف ما نقله الربيع فإنه في تلك المواضع يذكر معتقده نعم في آخر الحكاية قال والقياس أنه حلال وقد حكى الذهبي ذلك أيضا وتعقبه التحريم كذا قال ولم يفهم المراد فإن في الحكاية عمن قال بالتحريم أن الحجة قول الله تعالى فمن ابتغى وراء ذلك الآية فدل على الحصر في الإتيان في الفرج فأورد عليه لو أخذته أو جعله تحت إبطها أو بين فخذيها حتى انزل لكان حلالا بالاتفاق فلم يصح الحصر ووجه القياس أنه عضو مباح من امرأة حلال فأشبه الوطء بين الفخذين وأما قياسه على دبر الغلام فيعكر عليه أنه حرام بالاتفاق فكيف يصح ثم قال الذهبي وقد حكى الطحاوي هذه الحكاية عن بن الحكم عن الشافعي فأخطأ في نقله ذلك عنه وحاشاه من تعمد الكذب وقد تقدم الجواب عن هذا أيضا (تہذیب التہذیب) امام ذھبی نے میزان میں کہا ہے کہ ابن جوزی نے یہ امام حاکم کے کلام سے نقل کیا ہے جیسے کہ امام حاکم نے علوم الحديث میں طریق بن عبد الحکم سے ایک مناظرے کا قصہ امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کے بارے میں نقل کیا ہے جو کہ اہل مدینہ کی طرف منسوب ہے عورتوں کے پیچھے حصے سے جماع کرنے کے بارے میں مشھور قصہ ہےا س میں امام شافعی کا ان لوگوں کے بارے میں احتجاج ہے جو جواز کے قائل ہیں جب ربیع کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا اس محمد(بن عبداللہ الحکم) نامی شخص نے جھوٹ بولا ہے للہ کی قسم جسکے سوا کوئی معبود نہیں امام شافعی کا اسکو حرام کہنے پر 6 کتب میں نص موجود ہےاور یقینا میں نے واضح کیا ہے کئی جگہوں پر کہ اپ ان اقوال کو ایک دوسرے کے متنافی نا کہے ایک تو امام شافعی اسے دلیل پکڑنے میں (مستدل بنانے میں) اور حکم لگانے میں دوسرے سے حکایت نقل کر رہے ہیں ناکہ خود سے بتا رہے ہیں اگرچہ بعض باتیں انکی تصرف سے ہیں پس بحث کرنے والا غیر راجح قول کا ارتکاب کرتا ہے بخلاف ربیع کے نقل کےکیونکہ وہ ان جگہوں پر معتقد ہو کر بھی نقل کررہا ہے تو آپ نے دیکھ سکتے ہیں کہ اس راوی جو کہ ثقہ توتھا فقیہ بھی تھا لیکن یہ اسناد یا متن میں کچھ ایسی گڑبڑ کر دیتا تھا کہ روایت کا مکمل متن اور مطلب تبدیل کر کے رکھ دیتا تھا یہی وجہ ہے کہ اسکی یہ باتوں کو محدثین نے تسامع میں درج کیا ہے نہ کہ اسکو کذاب قرار دیا اسی طرح خود امام ذھبی میزان کے بارے یہی روایت امام شافعی نے نقل کر کے لکھتے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے (نوٹ: جس طرح اما م ذھبی نے اسکا اما م شافعی سے عجیب و غریب متن کے ساتھ روایت کرنے کو متن قرار دیا ہے ویسے ہی ہم اوپر اسکا بیان کردہ امام شافعی سے امام محمد بن الحسن کے ساتھ ایک اور مناظرے کا قصہ متن کے لحاظ سے منکر ثابت کر آئے ہیں ) لیکن محدثین نے بھی اس واقعے پر اپنا کلام ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بات حقیقت کے منافی ہے جیسا کہ امام ذھبیؒ ہی نے خود سیر اعلام میں اس واقعے کا تعقب کیا ہے اور اسکو رد کرتےہوئے اپنا خوبصورت فیصلہ بیان کیا ہے : امام ذھبی سیر اعلام میں ابن الحکم سے اس واقعے کا کچھ حصہ ذکر کرکے اسکا تعقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قلت: وعلى الإنصاف؟ لو قال قائل: بل هما سواء في علم الكتاب، والأول أعلم بالقياس، والثاني أعلم بالسنة، وعنده علم جم من أقوال كثير من الصحابة، كما أن الأول أعلم بأقاويل علي، وابن مسعود، وطائفة ممن كان بالكوفة من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فرضي الله عن الإمامين، فقد صرنا في وقت لا يقدر الشخص على النطق بالإنصاف - نسأل الله السلامة -. (سیر اعلام النبلاء جلد ۸ ،ص ۱۱۲) میں کہتا ہوں ! انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کتاب اللہ کا علم ہونے کے حوالے سے یہ دونوں حضرات برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ، پہلے والے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ)قیاس کے بارے میں زیادہ علم رکھتے ہیں اور دوسرے صاحب (یعنی امام مالک )سنت کا زیادہ علم رکھتے ہیں انکے پاس صحابہ کے اقوال کا بہت سارا ذخیرہ ہے اور جیسا کہ پہلے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ) کے پاس حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کفہ میں موجود صحابہ کرام کے اقوال کے بارے میں زیادہ علم موجود ہے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں اماموں سے راضی ہو۔ ہم ایک ایسے وقت میں آگئے ہیں جس میں آدمی انصاف کے ساتھ برنے کی قدرت ہی نہیں رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں تو امام ذھبی ؒ نے خود اس بات کارد کرتے ہوئے انصاف کا دمن پکڑتے ہوئے اپنا فیصلہ دیا ہے کہ : امام مالک اور امام اعظم ابو حنیفہ علم قران میں برابر تھے یہ کہا جائے گا اور اجتیہاد اور مسائل میں امام اعظم کو مقدم کیا امام ذھبی نے اور احادیث کے مختلف طریق اور اقوال پر امام مالک کو مقدم کیا لیکن اس بھی تخصیص کرتے ہوئےامام اعظم کے بارے میں فرمایا کہ : امام ابو حنیفہ حضرت علی ، حضرت ابن مسعود اور اہل کوفی کی جماعت کے اقوال اور روایات کے حافظ تھے کیا وہابی ہر رویت میں امام ذھبی کاحکم پیش کرتے ہیں کیا اس بات پر امام ذھبی سے اتفاق کریں گے ؟ یا ان پر بھی بدعتی اور حنفی ہونے کا الزام لگائیں گے ؟ جبکہ امام ذھبی نے علم حدیث کی بنیاد کرنےوالے حضرات میں امام ابو حنیفہ کو بھی شامل کیا ہے اللہ ہم کو غیر مقلدین کے فتنے سے محفوظ رکھے اور ہم سلف اور صالحین محدثین اور فقہا کا دفاع ان گندے انڈے غیر مقلدین سے کرتے رہیں گے ا *دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی*
  11. جناب آپکی طر ف سے تفصیل دینے کا شکریہ۔ لیکن امام احمد اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں یہ بات مطلق طور پر بالکل صحیح نہین بلکہ انہوں نے ضعیف راویان سے بھی روایتیں لی ہیں اپنی مسند میں اور کچھ پر انکی خود کی بھی جرح ہیں۔۔۔ اور یہ کلیہ ہے کہ عام طور پر امام احمد ثقہ سے لیتے ہیں لیکن ضرور ثقہ سے لیتے ہیں ایسی بات نہیں ۔ جیسا کہ امام شعبہ تھے
  12. باقی جو یہ حدیث ہے : 1133 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَهْدِيٍّ الزَّهْرَانِيُّ قثنا أَبِي قثنا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا مَعَ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَلَمْ يَجِدْ مَجْلِسًا، فَتَزَحْزَحَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ أَجْلَسَهُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسُرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا صَنَعَ ثُمَّ قَالَ: «أَهْلُ الْفَضْلِ أَوْلَى بِالْفَضْلِ، وَلَا يَعْرِفُ لِأَهْلِ الْفَضْلِ فَضْلَهُمْ إِلَّا أَهْلُ الْفَضْلِ» . اس میں وہی الحسن بن علی البصری راوی ہے ضعیف اس سے اگلی روایت 1134 - حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى حَمْزَةُ بْنُ دَاوُدَ الْأُبُلِّيُّ بِالْأُبُلَّةِ قثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ النَّهْدِيُّ الْكُوفِيُّ قثنا كَادِحُ بْنُ رَحْمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَلِيٌّ أَخُو رَسُولِ اللَّ اور 1135 - حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى حَمْزَةُ، قثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ، قثنا كَادِحٌ قَالَ: نا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِي آخِرِهِ: «عَلِيٌّ أَخِي، وَصَاحِبُ لِوَائِي» ان دونوں روایات کا مرکزی راوی ابو یعلی حمزہ بن ابی داود ہے جو کہ متروک ہے اسکی کوئی تعدیل نہیں سوائے جرح کے 1107 - حمزة بن داود بن سليمان بن الحكم، أبو يعلى المؤدب. • قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن حمزة بن داود بن سليمان بن الحكم بن الحجاج بن يوسف المؤدب، أبي يعلى بالأبلة؟ فقال: ذاك لا شيء. (278) . (میزان الاعتدال)
×
×
  • Create New...