Jump to content

Rana Asad Farhan

اراکین
  • کل پوسٹس

    73
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    24

سب کچھ Rana Asad Farhan نے پوسٹ کیا

  1. اسکی سند میں ایک راوی عمر بن اسحاق بن ابراھیم ہے جو کہ مجہول ہے۔۔۔ جسی وجہ سے اس پر وہابیہ اعتراض کرتے ہیں ۔۔ اسکی توثیق درکار ہے
  2. 22950- من عشق فعف ثم مات مات شهيدا (الخطيب عن عائشة) أخرجه الخطيب (12/479) . 22951- من عشق فكتم وعف فمات فهو شهيد (الخطيب عن ابن عباس) أخرجه الخطيب (6/50) . 22952- من عشق وكتم وعف وصبر غفر الله له وأدخله الجنة (ابن عساكر عن ابن عباس) أخرجه ابن عساكر (43/195) 1. حقی، اسماعیل، تفسير روح البيان، ج ‏8، ص 100؛ تفسير بيان السعادة في مقامات العباده، ج ‏2، ص 355؛ التفسير المعين للواعظين و المتعظين، المتن، ص 238؛ در این تفسیر ذیل آیه 23 سوره یوسف، این روایت را از کنزالعمال چنین نقل می‌کند: النبي (صلی الله علیه و آله): من عشق فعف ثم مات مات شهيدا؛ «كنز العمال، خ 6999»؛ در شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید هم که اشاره فرمودید به این صورت نقل شده: «قد جاء فی الحديث المرفوع من عشق فكتم و عف و صبر فمات مات شهيدا و دخل الجنة» ؛ شرح‏ نهج‏ البلاغة، ج 20، ص 233. 2. مَنْ عَشِقَ شَيْئاً أَعْشَى بَصَرَهُ وَ أَمْرَضَ قَلْبَهُ فَهُوَ يَنْظُرُ بِعَيْنٍ غَيْرِ صَحِيحَةٍ وَ يَسْمَعُ بِأُذُنٍ غَيْرِ سَمِيعَةٍ قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَهُ وَ أَمَاتَتِ الدُّنْيَا قَلْبَهُ وَ وَلِهَتْ عَلَيْهَا نَفْسُه‏ ... (نهج‏ البلاغة، خطبه 109). 3. آلوسی، محمود، روح المعاني فی تفسير القرآن العظيم، ج‏ 9، ص 201 .*گستاخ رسول اور منکرین حدیث کے لفظ عشق پر ہرزہ سرائی کے پس پردہ حقائق* اس لفظ پر تنقید کا مقصد امت مسلمہ کے مسلّمہ اکابرین اور آئمہ کرام پر طعن و تشنیع کر کے امت مسلمہ میں انکی محبت اور احترام کو کم کرنا مقصود ہے اس میں کافی حوالے موجود ہیں کہ امت مسلمہ کے جید علماءکرام نے اس لفظ کو تواتر کے ساتھ استعمال کیا اور احادیث میں بھی یہ لفظ وارد ہوا لیکن حدیث کے منکر اور گستاخ رسول احادیث کو پس پشت ڈال کر اپنی قیاس آرائیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو سراسر زیادتی ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ انکے پاس ماں بہن کی چادر کے پیچھے چھپنے کے علاوہ کوئی قیاس تک موجود نہیں یہ امت مسلمہ میں ایموشنلی بلیک میلنگ کے زریعے امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سب سے پہلے ہم اس لفظ کو احادیث مبارکہ سے پیش کریں گے پھر اس لفظ عشق کے عربی لغت میں معنی دیکھیں گے پھر ان معنوں کو ہم اس احادیث کے مطابق چیک کریں گے اسکے بعد ہم اسلاف امت کے اقوال پیش کریں گے اسکے بعد امت مسلمہ کے مستندشعراکےاقوال پیش کرکےسب سے آخر میں تبصرہ کرکے گستاخ رسول اورمنکرین حدیث کا مکمل ردکریں گے ان شاء اللہ سب سے پہلی بات کہ اگر یہ لفظ عشق حدیث میں اچھائی کے معنوں میں جگہ لے لیتا ہے تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے تاویل باطلہ سے اس میں عیب پوشی نہیں کرنی چاہئے جبکہ بقول منکرین حدیث یا گستاخوں کے یہ لفظ عشق معیوب ہے تو اس لفظ پر گرفت بنتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کے اکابرین نے ہمیشہ اسلام کی اساس کو برقرار رکھا اور جہاں جہاں کوئی خرابی دیکھی فوراً گرفت کی لہزا پہلی بات تو اس لفظ عشق کا حدیث میں تعریفی معنوں میں آنا ہی اسکے عیبوں کو پاک کر دیتا ہے مگر پھر کوئی اعتراض کرے تو اسے اکابرین یا اسلاف سے پہلے حدیث کو ضعیف اسکے بعد اس لفظ کی اسلاف سے گرفت ثابت کرنا ہوگی اب ہم آپکے سامنے وہ احادیث پیش کرتے ہیں جو مختلف سندوں اور واسطوں سے مختلف مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جن سے ماں بہن کی چادر کے پیچھے چھپنے والے بے نقاب ہوسکیں گے ان شاء اللہ پہلی حدیث بروایت خطیب بغدادی حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں کہ *من عشق فعف ثم مات مات شہیدا* جسکو عشق ہوا پھرﮨﮯ۔ پاک دامن رہتے ہوئے مر گیا تو وہ شہید ہوا جہاں اس حدیث میں محبت کی انتہاء(عشق) کا زکرکیاگیاوہاں ہی ایک اورحدیث میں آتا ہے *بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ *من عشق فکتم وعف فمات فھو شہید* جس کو کسی سے عشق ہوا اور اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مر گیا وہ شہید ہے (الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 175 طبع مصر) جب ہم نے یہ حدیث کچھ گستاخوں کے سامنے پیش کی تو انھوں نے اپنے ایک خود ساختہ امام سے اسکو رد کرنے کی کوشش کی کہ یہ احادیث ضعیف ہیں جبکہ امام سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے اسکو نقل کیا بعض میں کلام کیا جنھیں گستاخ کیش کر رہے تھے جبکہ اس آدھی عبارت کے بعد کی عبارت پیش کرنا انھیں اور انکے خودساختہ امام کو ہضم نہ ہوئی جسکی وجہ سے آدھی عبارت کو چھوڑ دیا آئیں ہم آپکے سامنے مکمل عبارت پیش کرتے ہیں امام نے بعض میں کلام ضرور کیا مگر کچھ اسانید کو برقرار رکھا کہ وہ ضعیف نہیں اور اس میں ایک سند کو تو مکمل اور واضح طور پر *وھو سند صحیح* کہا (مقاصد حسنہ صفحہ 420) اسکے علاوہ ایک اور جگہ ایک حدیث کے بارے میں امام سخاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی رحمۃاللہ علیہ اور امام ویلمی رحمۃاللہ علیہ نے بھی روایت کیا وہ حدیث یہ ہے *من عشق فعف فکتم فصبر فھو شہید* جس کو کسی سے عشق ہو گیا اور وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید مرا امام سخاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی متعدد اسناد اور طریقوں سے روایت کیا (مقاصد حسنہ صفحہ 419-420 طبع مصر) اب اہل علم جانتے ہیں کہ اگر حدیث ضعیف بھی ہو تو مختلف اسانید کی وجہ سے اسکا ضعف دور ہو جاتا ہے جبکہ اس میں تو پھر بھی ایک صحیح حدیث موجود ہے جس میں کوئی ضعف نہیں جسکا محور اور مرکز ہی محبتوں کی انتہاء عشق ہے اب ہم عشق کا معنی و مفہوم بیان کریں گے عشق ﺷﺪﯾﺪ ﺟﺬبہ ﻣﺤﺒﺖ، ﮔﮩﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ، ﻣﺤﺒﺖ، ﭘﯿﺎﺭ۔ کو کہتے ہیں اب ہم ایک مستند حوالے کے ساتھ عشق کی کیفیات بیان کرتے ہیں عشق میں ایک عاشق پانچ مختلف حالتوں کا شکار ہوتا ہے یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عاشق کے عشق کی انتہاء پانچ مرحلوں تک ہوتی ہے ﺩﺭﺟﮧ ﺍﻭﻝ ﻓﻘﺪﺍﻥِ ﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺩﻝ ﮐﺎ اپنے معشوق کی طرف لگا دینا، ﺩﺭجہ ﺩﻭﻡ ﺗﺎﺳﻒ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﺷﻖ ﺑﯿﺪﻝ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺳﻒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺩﺭجہ ﺳﻮﻡ ﻭﺟﺪ : ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﺁﺭﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﺩﺭﺟﮧ ﭼﮩﺎﺭﻡ ﺑﮯ ﺻﺒﺮﯼ، ﺩﺭﺟﮧ ﭘﻨﺠﻢ ﺻﯿﺎﻧﺖ، ﻋﺎﺷﻖ ﺍﺱ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺑﺠﺰ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ، ﻋﺸﻖِ ﺣﻘﯿﻘﯽ۔ ‏( ﻣﺼﺒﺎﺡ ﺍﻟﺘﻌﺮﻑ، 176) ایک عاشق اپنے معشوق ﮐﮯ ﻋﯿﻮﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺣﺲ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮﺟﺎتا ہے ۔ ‏( ﺍﻟﻘﺎﻣﻮﺱ ﺍﻟﻤﺤﯿﻂ ، ﺝ : 1 ، ﺹ : 909 ‏) ﻟﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﯾﮩﯽ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ‏( ﺝ : 10 ، ﺹ : 251 ‏) ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻮﮨﺮﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺼﺤﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ‏( ﺝ : 4 ، ﺹ : 1525 ‏) ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﻓﺎﺭﺱ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﻘﺎﯾﯿﺲ ﺍللغۃ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﻋﺸﻖ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﻮ ﭘﮭﻼﻧﮕﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ۔ ‏( ﺝ : 4 ، ﺹ : 321 ، ﻃﺒﻊ : ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻔﻜﺮ ‏) ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺍﻟﻌﺰ ﺷﺮﺡ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻃﺤﺎﻭﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﺸﻖ ﺍﺱ ﺑﮍﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﯽ ﮨﻼﮐﺖ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ علامہ اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشا ہے لب بام ابھی اسکے علاوہ اسی عشق کے بارے میں مولانا رومی فرماتے ہیں *ہر کراہ زعشق جامہ چاک شد اوز حرص وعیب کلبی باک شد* جسکے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا وہ ہر عیب اور لالچ سے پاک ہوگیا* ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر ہم ان گستاخوں اور منکرین حدیث کے پروپیگنڈے کو مان لیتے ہیں تو سوچیں کہ ہم نے کیا کھویا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ 1)ہم نے حدیث کے الفاظ پر تنقید کی 2)ہم نے حدیث کے اعزازی لفظ کو عیب دار مانا 3)ہم نے آئمہ کے اقوال کو رد کیا 4) ہم نے اسلاف پر تنقید کی 5) ہم نے قیاس کو حدیث سے اچھا جانا 6) ہم نے منکرین حدیث کے اس نقطہ نظر کو تقویت دی کہ حدیث کے واسطے قابل اعتبار نہیں 7) ہم نے گستاخوں کو آئمہ پر جرح کرنے کا موقع دیا 8) ہم نے امت کے اجماع کو پس پشت ڈالا 9)ہم نے اس تواتر کا انکار کیا جسکی بنیاد 1400 سال پہلے رکھی گئی خدارا اب بھی وقت ہے جاگو امت مسلمہ جاگو اور اپنی صفوں میں ان لوگوں کو پہچانو جو انجانے میں آپکا ایمان برباد کر رہے ہیں اب اس عشق کے لفظ کی آڑ میں آپکو ان اوپر بیان کردہ 9 گناہوں کا انجانے میں ارتکاب کروا رہے ہیں خدارا پہچانو انکو اگر اس عشق کی پاکیزگی اور امت میں تواتر کو تفصیل کے ساتھ لکھا جائے تو ایک مکمل رسالہ بن جائے ہم نے مختصراً کچھ چیدہ چیدہ پوائنٹس آپکے سامنے پیش کیے تاکہ آپکے سامنے ان گستاخ اور حدیث کے منکروں کو بے نقاب کیا جائے دراصل امت مسلمہ میں منکرین حدیث اور گستاخ ہیں تو آٹے میں نمک کے برابر لیکن امت مسلمہ کو گمراہ کرنے اور شیطان پرست بنانے میں اہم کردار اداکر رہےہیں انکی خواہش ہے کہ امت مسلمہ کے سامنے اکابرین امت اور سلف صالحین کو داغدار ثابت کیا جائے جسکی آڑ لے کر تمام آئمہ محدثین پر جرح کی جائے اور امت مسلمہ کے دلوں میں انکے لیے موجود عزت کو ختم کیا جائے پوسٹ کی طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو ہم آپکو بتاتے کہ ان گستاخوں اور منکرین حدیث کے اس لفظ پر اعتراض کے پیچھے کتنے مزموم مقاصد چھپے ہیں انکا مقصد علماء اسلام کے مستند اور معتبر اسلاف کے کردار کو داغدار ثابت کر کے انکے اقوال کو پس پشت ڈالنا ہے 100-150 پہلے تک امت مسلمہ میں میں قرآن اسکے بعد حدیث اسکے بعد آئمہ کے اقوال کو درجہ دیا جاتا تھا ان لوگوں کے اس طرح کے پروپیگنڈوں کے بعد آئمہ کے کردار کو داغدار بنا کر اور خطاؤں کے پتلے ثابت کرکے انکو پس پشت ڈال دیا گیا اور نعرہ لگایا کہ ہمارے نزدیک صرف قرآن و حدیث ہے ہم صرف اور صرف قرآن و حدیث کے پیروکار ہیں اسکے بعد منکرین حدیث کو موقع ملا اور انھوں نے حدیث کے واسطوں پر جرح کر کے احادیث کو بھی پس پشت ڈال دیا اب انکا کہنا ہے کہ وہ صرف قرآن کے ماننے والے ہیں آئمہ کے کردار کو داغدار بنانے کے لیے انسان خطا کا پتلا کا جواز پیش کیا وہیں اس طرح کے جاہلانہ اعتراض کرکے اپنے اس موقف کو تقویت دینے کی کوشش کی لیکن ازل سے ابد تک رحمٰن کےبندوں نے ہمیشہ شیطان کے بندوں کو بے نقاب کیا جو ہدایت کے متمنی تھے وہ ہدایت پا گئے اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رہے اور جو نفس پرستی کے متمنی اور نفس پرستی کی طرف مائل تھے وہ شیطان کے جال میں پھنس کر رہ گئے اللہ پاک کی ذات سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام امت مسلمہ کو ان شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے اور اپنی اپنے محبوب کی اپنے اولیاء کی اپنے صلحاء کی ناموس پر ہمیں پہرہ دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے
  3. ap ne jo link die hen wo open ni ho rhe ravio ki siqa tauseeq k lye
  4. جزاک اللہ توحیدی صاحب اپکا نمبر مل سکتا ہے بعض اوقات کچھ عربی عبارات کا مسلہ ہو جاتا ہے مجھے تو آپ سے مدد حاصل ہو جایا کرے گی ۔
  5. حضرت بلال نے اپنی زندگی کبھی بھی اس عمل کو ترک نہ کیا ۔ اور نہ انکو نبی نے روکا نہ کسی صحابی نے کہ وہ آزان سے پہلے قریش کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ تو ہم بھی صحابی کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے اب کسی ایک قوم کلئے دعا تو نہیں کرتے بلکہ نبی کی زات پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اور اس کو نہ آزان کا حصہ سمجھتے ہیں نہ ہی فرض۔ لیکن اسکو ہر روز اور ہر آزان سے پہلے یا بعد میں پڑہنے میں کوئی حرج نہیں بس اسکی حثیت مستحب ہے۔ جیسا حضرت بلال دعا کرتے تھے آزان سے پہلے ترک کیے ہمیشہ پڑہتے تھے ۔۔۔۔۔ مگر نہ فرض نہ سنت بلکہ مستحب سمجھ کر ۔
  6. جناب جیسا کہ یہان لفظ بدعت استعمال کیا گیا ہے وہ بری بدعت پر استعما کیا گیا ہے ۔ اور قرآن مین اللہ نبی پر درود و سلام پڑہنے کا حکم دیتا ہے لیکن وقت کو متعین کرنے کی قید نہیں لگائی۔ تو آزان سے پہلے یا بعد میں پڑہے میں کوئی مسلہ نہیں کیوں کہ اس کی مخالفت نہیں آئی نہ قرآن میں اور نہ حدیث میں۔ باقی رہا کہ آزان سے پہلے یا بعد میں درود پڑہنا اچھا ہے یا برا تو اسکا تسلی بخش جواب لیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔
  7. اہل خبیث اس طرح کی مبہم جرح جو جھوٹی حسد کینا لوگوں کی پھیلائی ہوئی لوگوں کو دیکھا کر پریشان کرتے ہیں۔ وہابیون کے بڑے ملاوں نے ان بکواسوں کا رد پہلے ہی کر دیا۔ انکے گھر کی گواہی اس طرح کی حسد و کینا کی بنیاد پر پھیلائی گئی باتوں کا رد امام ابن عبدالبر نے کر دیا تھا۔ مزید اگر وہ تنگ کرے اور نہ مانے تو اس وہابی کو اسکے اپنے گھر سے بہت سی شہادتیں دے دینگے جیسی ایک پہلے پیش کر دی گئی
  8. مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالاجات یہ کتاب میرے پاس موجود تھی۔ جزاک اللہ
  9. جی مجھے معلوم ہے یہ ثقہ راوی ہے۔ لیکن میں ثبوت کے ساتھ پوسٹ بنانی ہیں۔ اگر آپ کہیں تو میرے پاس یہ عبارتیں اصل کتاب کے سکین پیچ ہیں میں وہ بھی اٹیچ کر سکتا ہوں
  10. سب بھائیوں کو سلام۔ مجھے مندردہ زیل عبارات کے ترجمے چاہئیں۔ ۷۲ – مُحَمَّد بن الْفضل عَارِم ثِقَة حجَّة اخْتَلَط بِأخرَة لَكِن مَا ضرّ ذَلِك حَدِيثه محمد بن الفضل عارم ثقه و حجت است.اخر عمرش اختلاط پیدا کرد اما این ضرری به روایاتش نمیزند. الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم صفحه ۱۶۲ . المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: ۷۴۸هـ) المحقق: محمد إبراهيم الموصلي الناشر: دار البشائر الإسلامية – بيروت – لبنان الطبعة: الأولى، ۱۴۱۲هـ – ۱۹۹۲م عدد الأجزاء: ۱ ------------------------------ وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.وهو ثقة. وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.وهو ثقة.قلت: فهذا قول حافظ العصر الذي لم يأت بعد النسائي مثله، فأين هذا القول من قول ابن حبان الخساف المتهور في عارم، فقال: اختلط في آخر عمره وتغير حتى كان لا يدرى ما يحدث به، فوقع في حديثه المنا كير الكثيرة، فيجب التنكب عن حديثه فيما رواه المتأخرون، فإذا لم يعلم هذا من هذا ترك الكل، ولا يحتج بشئ منها.قلت: ولم يقدر ابن حبان أن يسوق له حديثاً منكرا، فأين ما زعم؟ ميزان الاعتدال في نقد الرجال جلد ۴ صفحه ۸ . المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: ۷۴۸هـ) تحقيق: علي محمد البجاوي الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان الطبعة: الأولى، ۱۳۸۲ هـ – ۱۹۶۳ م عدد الأجزاء: ۴ ------------------------------- قلت: هذا غلو، وإسراف من ابن حبان، فقد روى عنه البخاري الكثير في الصحيح، وأحمد بن حنبل، وعبد بن حميد، والناس، واحتج به مسلم. وقال فيه الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر، وهو ثقة. فهذا معارض لقول ابن حبان، والله أعلم. الكتاب: المختلطين العلائي صفحه ۱۱۷ . المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: ۷۶۱هـ) المحقق: د. رفعت فوزي عبد المطلب، علي عبد الباسط مزيد الناشر: مكتبة الخانجي – القاهرة الطبعة: الأولى، ۱۴۱۷هـ – ۱۹۹۶م عدد الأجزاء: ۱ -------------------------- وقد أشار الأئمة إلى تشدده وتعنته في الجرح صحيح ابن حبان جلد ۱ صفحه ۳۶٫ ------------------------------ فهذا فصل نافع في معرفة ثقات الرواة الذين تكم فيهم بعض الأئمة بما لا يرد أخبارهم وفيهم بعض اللين وغيرهم أتقن منهم وأحفظ فهؤلاء حديثهم إن لم يكن في أعلى مراتب الصحيح فلا ينزل عن رتبة الحسن ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق صفحه ۲۷ . المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: ۷۴۸هـ) المحقق: محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني الناشر: مكتبة المنار – الزرقاء الطبعة: الأولى، ۱۴۰۶هـ – ۱۹۸۶م عدد الأجزاء: ۱ ------------ قد احتوى على ذكر الكذابين الوضاعين ثم على ذكر المتروكين الهالكين ثم على الضعفاء من المحدثين والناقلين ثم على الكثيري الوهم من الصادقين ثم على الثقات الذين فيهم شيء من اللين أو تعنت بذكر بعضهم أحد من الحافظين ثم على خلق كثير من المجهولين ۱۲۸ – سعيد بن زيد أخو حماد الكتاب: ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق صفحه ۸۵ -------------- ۵۳۱۱ – أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ مولى الجعفيين فحجة إِمَام… المغني في الضعفاء جلد ۲ صفحه ۵۵۷٫ (هـ) سعيد بن زيد أخو حماد (۲: ۱۳۸/ ۳۱۸۵). – (هـ): مختلف فيه والعمل على توثيقه. الكتاب: لسان الميزان جلد ۹ صفحه ۳۱۰٫ المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: ۸۵۲هـ) المحقق: عبد الفتاح أبو غدة الناشر: دار البشائر الإسلامية الطبعة: الأولى، ۲۰۰۲ م عدد الأجزاء: ۱۰، العاشر فهارس سعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ دِرْهَمٍ وَكَانَ ثِقَةً، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ، وَمَاتَ، قَبْلَ أَخِيهِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ الكتاب: الطبقات الكبرى جلد ۷ صفحه ۲۸۷ . المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: ۲۳۰هـ) المحقق: إحسان عباس الناشر: دار صادر – بيروت الطبعة: الأولى، ۱۹۶۸ م عدد الأجزاء: ۸ و در کتاب : إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال دیگر توثیقات این راوی امده است: وخرج أبو عوانة حديثه في صحيحه، وكذلك الحاكم، وحسنه أبو علي الطوسي. وقيل لأبي حاتم: يحتج بحديثه؟ قال: يكتب حديثه. وسئل أبو زرعة عنه فقال: سمعت سليمان بن حرب يقول: ثنا سعيد بن زيد، وكان ثقة. وقال ابن سعد: روي عنه وكان ثقة،ومات قبل أخيه. وذكر أبو الوليد في كتاب «الجرح والتعديل»: قال أحمد بن علي بن مسلم: قال أبو جعفر الدارمي: ثنا حبان بن هلال، ثنا سعيد بن زيد،وكان حافظا صدوقا. قال العجلي: بصري ثقة. وفي كتاب ابن الجوزي: وثقه البخاري وقال الصدفي: حدثني سعيد بن عثمان، قال: سمعت ابن السكري يقول، وسألته عن سعيد بن زيد (ابن أخي) حماد، فقال: بصري ثقة. و ذكره ابن خلفون في الثقات. الكتاب: إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد ۵ صفحه ۲۹۵ . المؤلف: مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: ۷۶۲هـ) المحقق: أبو عبد الرحمن عادل بن محمد – أبو محمد أسامة بن إبراهيم الناشر: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر الطبعة: الأولى، ۱۴۲۲ هـ‍‍ – ۲۰۰۱ م عدد الأجزاء: ۱۲ قلت: وهذا إسناد حسن , رجاله كلهم ثقات , وفى سعيد بن زيد ـ وهو أخو حماد بن زيد ـ كلام لا ينزل به حديثه عن رتبة الحسن إن شاء الله تعالى., وقال ابن القيم فى ” الفروسية ” (۲۰) : ” وهو حديث جيد الإسناد “ الكتاب : إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل جلد ۵ صفحه ۳۳۸٫ المؤلف : محمد ناصر الدين الألباني (المتوفى : ۱۴۲۰هـ) إشراف: زهير الشاويش الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت الطبعة: الثانية ۱۴۰۵ هـ – ۱۹۸۵م عدد الأجزاء: ۹ ================ ۶۴۳۶ – عمرو بن مالك [عو] النكرى، عن أبي الجوزاء. ۶۴۳۷ – وعمرو بن مالك [عو] الجنبي. عن أبي سعيد الخدري وغيره، تابعي – فثقتان. عمرو بن مالک النکری و عمر بن مالک الجنبی.هر دو ثقه هستند. ميزان الاعتدال في نقد الرجال جلد۳ صفحه ۲۸۶ . ۲۵۵ – ۴: عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، أَبُو يَحْيَى، وَقِيلَ: أَبُو مَالِكٍ. [الوفاة: ۱۲۱ – ۱۳۰ ه] بَصْرِيٌّ صدُوقٌ، رَوَى عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ الرَّبَعِيِّ. تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام جلد ۳ صفحه ۴۷۶ [۱۲۲۳] عمرو بن مالك النكري أبو مالك والد يحيى بن عمرو وقعت المناكير في حديثه من رواية ابنه عنه وهو في نفسه صدوق اللهجة مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار صفحه ۲۴۴ ۶۴۳۵ – عمرو بن مالك [ق] الراسبي البصري لا النكرى. هو شيخ. حدث عن الوليد بن مسلم. ضعفه أبو يعلى. وقال ابن عدي: يسرق الحديث. وتركه أبو زرعة. وأما ابن حبان فذكره في الثقات . ميزان الاعتدال في نقد الرجال جلد ۳ صفحه ۲۸۵ ==================== ۱۵۲- “ت – عمرو” بن مالك الراسبي۱ الغبري أبو عثمان البصري …ذكره بن حبان في الثقات وقال يغرب ويخطىء مات بعد الأربعين ومائتين قلت وقال بن عدي منكر الحديث عن الثقات ويسرق الحديث وسمعت أبا يعلى يقول كان ضعيفا ثم ساق له حديثين وقال وله غير ما ذكرت مناكير وبعضها سرقة انتهىإلا أنه قال في صدر الترجمة عمرو بن مالك النكري فوهم فإن النكري متقدم على هذا این راوی ) گفته است عمرو بن مالک النکری . ( پس این عمل وی ) وهم او می باشد زیرا عمرو بن مالک النکری متقدم بر این راوی (عمرو بن مالک الراسبی ) می باشد . تهذيب التهذيب جلد ۸ صفحه ۹۵ . =============== (وَعَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ) : قَالَ الْمُؤَلِّفُ: وَهُوَ أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَزْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، تَابِعِيٌّ مَشْهُورُ الْحَدِيثِ، سمِعَ عَائِشَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَابْنَ عُمَرَ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح جلد ۱۱ صفحه ۹۵٫دارالکتب العلمیة. وْس بن عبد الله هو أبو الجَوْزاء أوس بن عبد الله …سمع عائشة، وابن عبَّاس، وابن عمرو بن العاص جامع الأصول في أحاديث الرسول جلد ۱۲ صفحه ۱۸۳ . --------------------------- وَقَالَ لَنَا مُسَدد: عَنْ جَعفَر بْنِ سُليمان، عَنْ عَمرو بْنِ مَالِكٍ النُّكرِي، عَنْ أَبي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: أَقَمْتُ مَعَ ابْنِ عَبّاس، وَعَائِشَةَ، اثْنَتَيْ عَشَرَةَ سَنَةً، لَيْسَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إلاَّ سألتُهم عَنْها.قَالَ مُحَمد: فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ. قال شيخنا الحافظ أبو الحسين يحيى بن علي أسعده الله وإدراك أبي الجوزاء هذا لعائشة رضي الله عنها معلوم لا يختلف فيه وسماعه منها جائز ممكن لكونهما جميعا كانا في عصر واحد… قال البخاري في إسناده نظر قلت ومما يؤيد قول البخاري رضي الله عنه ما رواه محمد بن سعد كاتب الواقدي وكان ثقة عن عارم عن حماد بن زيد عن عمرو بن مالك عن أبي الجوزاء قال جاورت ابن عباس في داره اثنتي عشرة سنة فذكره ولم يذكر عائشة. من غرر الفوائد المجموعة جلد ۱ صفحه ۳۳۹٫ والقول بأنه لم يسمع من عائشة يفتقر إلى دليل، وهو مفقود هنا. این سخن که ابی الجوزا از عایشه حدیث نشنیده است فاقد دلیل است و نزد ما مفقود است. صحیح ابن حبان جلد ۵ صفحه ۶۵٫ ============ جلد جواب دیجئے گا۔
  11. اس حدیث کو حسب عادت وہابی اگر ضعیف کہنے کی کوشیش کرے تو کہ ثبوت ہے خود وہابیوں کے شیخ حافظ زبیر علی زئی کے نزدیک یہ حسن اور ناضر البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
  12. یہ حدیث ہے جس میں نبی نے فرمایا اللہ نے آدم علیہ سلام کو کہا کہ یہ تیرا بیٹا اول و آخر ہے۔ یعنی نبوت اور مرتبے میں یہ اول ہے اور اسکی آمد دنیا میں تمام انبیا کے بعد ہوگی۔ نبی کا ضہور آخر میں ہوا۔ لیکن انکو نبوت تو تمام انبیا سے پہلے مل گئی تھی
  13. ان تمام محدثین پر وہابی بدعت کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے بلکہ انکو امام کہتے ہیںَ اور یہ آخر میں وہابیوں کے شیخ شوکانی بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بدعت کی اقسام ہوتی ہیں۔ وہابی منافقت چھوڑکر ان محدثین کی پیروی کریں۔ یا منافقت نہ دیکھائیں ان پر بدعتی کا فتویٰ لگوا دیں اپنے ملاوں سے۔
  14. اور وقت کی بچت کے لئے مزید اور ان محدثین کے کتابوں کا حوالہ اور نام لکھ دیے ہیں۔ میرا خیال ہے اتنے ثبوت کافی ہوںگے۔۔۔ اگر آپ کا واسطہ کسی وہابی سے ہے تو پہلے آپ اسکو ان کے گھر سے یہ ثبوت پیش کریں۔ اور فتویٰ مانگیں وہا بیوں کا فتاوہ
  15. مجھے اس حدیث کی صیحت کا نہیں پتہ۔ پر آپ یہ جان لو کہ یہ حدیث عقائد کے مطلق نہیں بلکہ نبی کی فضیلت کے بارے میں ہے۔ اور محدثین و مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ فضائل اور ترغیب و ترتتیب میں ضعیف احادیث مقبول ہوتی ہیںَ
  16. بالکل جو صفحہ میں نے دیکھایا۔ اس میں قطب الدین احمد بھی اور ساتھ آگے شاہ ولی اللہ بھی لکھا ہے۔ خیر جو آپ کو چاہئے جو وہ آپ کو مل گیا۔
  17. امام نسائی نے نعیم بن حماد کے بارے میں کہا کے غیر ثقہ ہے۔ امام دارقتنی نے اسکو کثر الوہم شخص کہا جس کو بات میں وہم لگنے کی بیماری ہو۔ اور امام ابو الفتح الازدی نے کہا کہ یہ سنت کی تقویت میں حدیثیں گھڑتا تھا۔ اب ایسے کزاب شخص کی بات کون مانے گا؟؟ وہابی ہر بات کی سند کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اس مسلے میں اپنی آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں۔ منافقت کا جواب نہیں انکا۔۔۔ نعیم بن حماد سنت کی تقویت میں حدیثیں بنالیتے تھے اور امام ابو حنیفہؒ کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایات بناتے تھےاور امام ابن المبارک نے بھی اسکو ضعیف کہا۔
  18. غیر مقلدین نے امام بخاریؒ کا حوالہ دیا کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کو مرجئہ فرقہ میں شمار کرتے ہیں لیکن اسی کتاب کے حاشیہ میں حاشیہ نگار نے اس کا جواب دے دیا ہے کہ ” نعیم بن حماد امام ابو حنیفہؒ پہ طعن کرتے تھے اور ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جتنی بھی روایات ہیں وہ سب جھوٹ ہیں، امام یحیٰ بن معین کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ حدیث میں ثقہ تھے”( تاریخ الکبیر،حاشیہ صفحہ 81،جلد8) تو حاشیہ نگار نے امام بخاریؒ کے اعتراض کی مکمل وضاحت کر دی۔ اس کے علاوہ غیر مقلدین کے مشہور عالم ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ ”امام ابو حنیفہؒ کو مرجئی کہنا ان پہ بہتان ہے اور امام بخاریؒ کے اعتراض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نعیم بن حماد سنت کی تقویت میں حدیثیں بنالیتے تھے اور امام ابو حنیفہؒ کی عیب گوئی میں جھوٹی حکایات بناتے تھے جو کہ سب جھوٹی ہیں، نعیم بن حمادؒ کی شخصیت ایسی نہیں کہ ان کی روایات کی بناء پہ امام ابو حنیفہؒ جیسے بزرگ کی بدگوئی کی جائے۔”(تاریخ اہلحدیث، صفحہ ،62،63،64) تو امام بخاریؒ کے اعتراض کا جواب خود غیر مقلدین کے عالم نے دےد یا۔ امام بخاری یہ قول جس راوی سے نقل کر رے ہیں اسکا نام نعیم بن حماد ہے۔ اس راویی کے جھوٹے کزاب ہونے کا ثبوت آپکو میں نے وہابیوں کے اکابر سے دے دیا
  19. اپ اُن سے پہلے حوالہ باسند ماںگیں۔ اور اسک سکین پیج کا مطالبہ کریں۔ کیوںکہ اسی بات امام بخاری سے کیسے منسوب کر سکتے ہیں وہ بغیر حوالے سے۔؟ جبکہ امام بخاری کے دادا استادہیں امام ابو حنیفہ۔ جبکہ امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں لکھا ہے کہ مینے اپنی صییح بخاری میں ان شیوخ سے حدیث لی جن کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان میں زبان اور دل کے اقرار کے ساتھ عمل بھی شامل ہے جبکہ امام ابو حنیفہ کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف دل اور زبان کے اقرار کرنے میں شامل ہو جاتا ہے۔ عمل نا ہو تو انسان فاسق و فاجر ہو جاتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا ۔ اس اختلاف کی بنا پر امام بخاری نے ابو حںیفہ سے حدیث نہیں لی۔ جب وہ خود یہ بات لکھ گئے تو جھوٹ وہابیہ منسوب کرتے ہیں انکی طرف۔(امام بخاری نے اپنی کتاب میں ابو حنیفہ کا نام نہیں لیا)
×
×
  • Create New...