Jump to content

bhattionline

اراکین
  • کل پوسٹس

    53
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ bhattionline نے پوسٹ کیا

  1. As salam ua likum scan pages to tb zrorat pada na bhay jab oper ki tahrir sa bad a wafat madad mangna ka kahin sabot dia ho. shah abdul aziz ki ibarat to wesa he khilaf jate ha. kyo k unho na kaha asi imdad ambia na dosra logo sa mangi ha.... ab saf zahir ha ambia na zinda logo sa imdad mangi ha... kis foat shuda sa imdad mangi ambia na? kise sa ni ... to zahir hoa k shah abdul aziz ki murad k khilaf apne murad bnay gay ha. sabot bad a wafat madad mangna ka hona chahya
  2. As salam ua likum masla ya ha k kise imam k naqal kr dena sa he to sab thk ni ho jata. wahabiat or bralviat ko zahan sa nikal kr he ap soch la. kya har har bat jo kise bhe mufasir na naqal ki ha ap us ko hamasha qabol kra ga? imam ibn kaseer na likha k mashor ha... unho na ya kb kaha k sahi ha? ma to ya malom krna chah rha ho k is ki sahi sanad kaha majod ha. baki imam ibn e kaseer ki tafseer majod ha.. ap bhe us ma sab likha hoa kbhe kabol ni kra ga. is lia is ki sanad sahi chahya mujha. agr nhe ha to bhe bta da حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۴ ۔ ۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں : من فھم ھذا من سلف الأمة وأئمة الإسلام، فاذكر لنا عن رجل واحد من الصحابة أو التابعين أو تابعي التابعين أو الأئمة الأربعة، أو غيرھم من الأئمة وأھل الحديث والتفسير أنه فھم العموم بالمعني الذي ذكرته، أو عمل به أو أرشد إليه، فدعواك علي العلماء بطريق العموم ھذا الفھم دعوي باطلة ظاھرة البطلان ”اسلاف امت اور ائمہ اسلام میں سے کس نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے؟ ہمیں صحابہ کرام، تابعین عطام، تبع تابعین، ائمہ اربعہ یا اہل حدیث و تفسیر میں سے کسی ایک شخص سے بھی دکھا دو کہ اس نے اس آیت سے وہ عموم سمجھا ہو جو تم نے ذکر کیا ہے یا اس نے اس پر عمل کیا ہو یا اس کی طرف رہنمائی کی ہو۔ تمہارا سارے علمائے کرام کے بارے میں اس آیت میں یہ عموم سمجھنے کا دعویٰ کرنا صریح باطل اور جھوٹا دعویٰ ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 321) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا آغاز یوں فرمایا کہ : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ﴾ (النساء 64:4) ”ہم نے ہر رسول کو اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ کے پاس آ جائیں۔۔۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اطاعت نبوی کا نام ہے، اسی لیے اس اطاعت کی طرف نہ آنے والے کی مذمت کی گئی۔ جبکہ آج تک کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ گناہگار پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور اپنے لیے استغفار کی درخواست کرنا فرض ہے۔ اگر یہ اطاعت نبوی پر مبنی کام ہے تو بہترین زمانوں والے مسلمان (صحابہ وتابعین وتبع تابعین ) کیا اس حکم کی نافرمانی کرتے رہے؟ اور کیا اس حکم کی بجاآوری ان غالیوں اور نافرمانوں نے کی ؟ اس آیت کریمہ کے متعلق ہم علامہ فہامہ، محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ (م : ۱۲۵۲۔۱۳۲۶ ھ) کی فیصلہ کن گفتگو پر بات کو ختم کرتے ہیں۔ ایک شخص احمد بن زینی دحلان (م : ۱۳۰۴ ھ) نے اسی مسئلے پر الدررالسنية في الرد علي الوھابيةنامی ایک رسالہ لکھا تھا، علامہ موصوف نے اس کا بھرپور علمی ردّ کیا۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں : أقول: في هذا الاستدلال فساد من وجوه: الأول : إن قوله : دلت الآية على حث الأمة على المجيء إليه صلى الله عليه وسلم، ماذا أراد به ؟ إن أراد حث جميع الأمة فغير مسلم، فإن الآية وردت في قوم معينين كما سيأتي، وليس هناك لفظ عام حتى يقال : العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص المورد، بل الألفاظ الدالة على الأمة الواقعة في هذه الآية كلها ضمائر، وقد ثبت في مقره أن الضمائر لا عموم لها، ولذا لم يتشبث أحد من المستدلين بهذه الآية على القربة من التقي السبكي والقسطلاني وابن حجر المكي بعموم اللفظ، حتى إن صاحب الرسالة أيضاً لم يذكره. وأما ما قال صاحب الرسالة تبعاً للتقي السبكي والقسطلاني وابن حجر المكي من أن الآية تعم بعموم العلة، ففيه أنه على هذا التقدير لا يكون الدليل كتاب الله بل القياس، وقد فرض أن الدليل كتاب الله، على أن المعتبر عند من يقول بحجة القياس قياس المجتهد الذي سلم اجتهاده الجامع للشروط المعتبرة فيه المذكورة في علم الأصول، وتحقق كلا الأمرين فيما نحن فيه ممنوع، كيف وصاحب الرسالة من المقلدين، والمقلد لا يكون من أهل الاجتهاد، مع أن الاجتهاد عند المقلدين قد انقطع بعد الأئمة الأربعة، بل المقلد لا يصلح لأن يستدل بواحد من الأدلة الشرعية، وما له وللدليل ؟ فإن منصبه قبول قول الغير بلا دليل، فذكرُ صاحب الرسالة الأدلة الشرعية هناك خلاف منصبه، وإن أراد حث بعض الامة فلا يتم التقريب. و الثاني : أن صاحب الرسالة جعل المجيء إليه صلى الله عليه وسلم الوارد في الآية عاماً شاملاً للمجيء إليه صلى الله عليه وسلم في حياته، وللمجيء إلى قبره صلى الله عليه وسلم بعد مماته، ولم يدر أن اللفظ العام لا يتناول إلا ما كان من أفراده، والمجيء إلى قبر الرجل ليس من أفراد المجي ء إلى الرجل، لا لغة ولا شرعا ولا عرفا، فإن المجي إلي الرجل ليس معناه إلا المجيء إلى عين الرجل، ولا يفهم منه أصلاً أمر زائد على هذا، فإن ادعى مدع فهم ذلك الأمر الزائد من هذا اللفظ، فنقول له: هل يفهم منه كل أمر زائد، أو كل أمر زائد يصح إضافته إلى الرجل، أو الأمر الخاص أي القبر ؟ والشق الأول مما لا يقول به أحد من العقلاء. فإن اختير الشق الثاني يقال: يلزم على قولك الفاسد أن يطلق المجيء إلى الرجل على المجيء إلى بيت الرجل وإلى أزواجه، وإلى أولاده، وإلى أصحابه، وإلى عشيرته، وإلى أقاربه، وإلى قومه، وإلى أتباعه، وإلى أمته، وإلى مولده، وإلى مجالسه، وإلى آباره، وإلى بساتينه، وإلى مسجده، وإلى بلده، وإلى سككه، وإلى دياره، وإلى مهجره، وهذا لا يلتزمه إلا جاهل غبي، وإن التزمه أحد فيلزمه أن يلتزم أن الآية دالة على قربة المجيء إلى الأشياء المذكورة كلها، وهذا من أبطل الأباطيل. وإن اختير الشق الثالث فيقال: ما الدليل على هذا الفهم ؟ ولن تجد عليه دليلاً من اللغة والعرف والشرع، أما ترى أن أحداً من الموافقين والمخالفين لا يقول في قبر غير قبر النبي صلى الله عليه وسلم إذا جاءه أحد أنه جاء ذلك الرجل، ولا يفهم أحد من العقلاء من هذا القول أنه جاء قبر ذلك الرجل. فتحصل من هذا أن المجيء إلى الرجل أمر، والمجيء إلى قبر الرجل أمر آخر، كما أن المجيء إلى الرجل أمر، والمجيء إلى الأمور المذكورة أمور أخر، ليس أحدها فرداً للآخر. إذا تقرر هذا فالقول بشمول المجيء إلى الرسول: المجيء إلى الرسول والمجيء إلى قبر الرسول، كالقول بشمول الإنسان الإنسان والفرس، وهذا هو تقسيم الشيء إلى نفسه وإلى غيره، وهو باطل بإجماع العقلاء، وهكذا جعل الاستغفار عنده عاماً شاملاً للاستغفار عند القبر بعد مماته، مع أن الاستغفار عند قبره ليس من أفراد الاستغفار عنده. فإن قلت: لا نقول إن المجيء إليه صلى الله عليه وسلم شامل للمجيء إليه في حياته وللمجيء إلى قبره بعد مماته حتى يرد ما أوردتم، بل نقول إن المجيء إليه شامل للمجيء إليه في حياته الدنيوية المعهودة والمجيء إليه في حياته البرزخية، ولما كان المجيء إليه في حياته البرزخية مستلزماً للمجيء إلى قبره ثبت من الآية المجيء إلى قبره صلى الله عليه وسلم الذي هو المسمى بزيارة القبر. قلنا: لا سبيل إلى إثبات الحياة البرزخية من لغة ولا عرف، فلا يفهم من هذا اللفظ – بحروف اللغة والعرف – إلا المجيء إليه في حياته الدنيوية المعهودة، فلا يكون المجيء إليه في حياته البرزخية فرداً للمجيء إليه بحسب اللغة والعرف، إنما تثبت الحياة البرزخية ببيان الشرع، لكن يبقى الكلام في أن كون المجيء إليه في حياته البرزخية فرداً من المجيء إليه هل يثبت من الشرع أم لا ؟ وعلى مدعي الثبوت البيان . سبکی نے قبر نبوی پر جا کر استغفار طلبی کے لیے قرآن کریم کی سوره نساء کی ایک آیت (۶۴) سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال کئی وجہ سے غلط ہے۔ (1) سبکی نے کہا ہے کہ اس آیت میں امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نہ جانے لفظ امت سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر انہوں نے ساری امت مراد لی ہے تو یہ ناقابل تسلیم بات ہے کیونکہ یہ آیت تو مخصوص لوگوں کے لیے نازل ہوئی تھی اور اس میں کوئی ایسا عام لفظ بھی نہیں جس کے پیش نظر یہ کہا جا سکے کہ خاص سبب نزول کا نہیں، بلکہ لفظ کی عمومیت کا اعتبار ہو گا۔ اس آیت کریمہ میں امت پر دلیل بننے والے جتنے بھی الفاظ ہیں، وہ سب ضمیریں ہیں اور خود باقرارِ سبکی یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ ضمیروں میں عموم نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت سے استدلال کرنے والوں، مثلاً تقی سبکی، قسطلانی اور ابن حجر مکی، میں سے کسی نے بھی لفظ کی عمومیت کو دلیل نہیں بنایا، حتی کہ اس صاحب رسالہ (ابن دحلان) نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ البتہ اس نے سبکی، قسطلانی اور ابن حجر مکی کی نقالی میں یہ کہا ہے کہ اس آیت کا حکم اپنی علت کے عام ہونے کی وجہ سے عام ہے۔ لیکن اس صورت میں اس کی دلیل قرآن کریم نہیں، بلکہ ذاتی قیاس ہے۔ اس نے سمجھ یہ رکھا ہے کہ اس کی دلیل قرآن کریم ہے، حالانکہ قیاس کی حجیت کے قائل لوگوں کے نزدیک وہ قیاس معتبر ہے جو ایک تو نصوصِ شرعیہ کے خلاف نہ ہو، دوسرے اس میں وہ تمام معتبر شرائط موجود ہوں جو کتب علم اصول میں مذکور ہیں۔ یہ قیاس ان دونوں باتوں پر پورا نہیں اترتا۔ اس کی بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ ابن دحلان مقلد ہے اور مقلد اجتہاد کر ہی نہیں سکتا ۔ پھر مقلدین کے نزدیک ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمدبن حنبل) کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مقلد کے لیے شرعی دلائل سے استدلال کرنا جائز ہی نہیں۔ مقلد کا دلیل سے کیا واسطہ ؟ اس کا کام تو بس کسی امتی کے قول کو بلا دلیل تسلیم کرنا ہے۔ صاحب رسالہ کا منصب اس کو شرعی دلائل سے استدلال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بات تو اس وقت ہے جب وہ اس آیت سے ساری امت مراد لے۔ اگر وہ کہے کہ اس آیت میں بعض امت مراد ہے، تو اس کا مقصود پورا ہی نہیں ہوتا۔ (2) ابن دحلان نے مذکورہ آیت کریمہ میں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کو عام قرار دیا ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آنا، دونوں کو شامل کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آ سکی کوئی بھی عام لفظ صرف اور صرف ان چیزوں کے لیے عام ہوتا ہے جو اس لفظ کے تحت داخل ہوتی ہیں۔ کسی شخص کی قبر پر آنا لغوی، شرعی اور عرفی کسی بھی طور پر اس شخص کے پاس آنے کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے پاس آنے کا مطلب صرف اور صرف اس کی ذات کے پاس آنا ہوتا ہے۔ اس سے زائد کچھ سمجھنا قطعاً غلط ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زائد بھی کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ تو ہمارا اس سے سوال ہے کہ اس لفظ میں ہر زائد چیز شامل ہو گی یا وہ ہر زائد چیز جس کا تعلق اس شخص سے ہو گا یا صرف قبر ہی ؟ پہلی بات، یعنی ہر زائد چیز کو عموم میں شامل کرنے کے بارے میں کوئی ذی شعور آدمی نہیں کہہ سکتا۔ اگر دوسری بات اختیار کی جائے، یعنی اس شخص سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس عموم میں شامل ہیں، تو اس فاسد قول سے یہ لازم آئے گا کہ کسی کے گھر آنے سے، اس کی بیوی کے پاس آنے سے، اس کی اولاد کے پاس آنے سے، اس کے دوستوں کے پاس آنے سے، اس کے خاندان کے پاس آنے سے، اس کے رشتہ داروں کے پاس آنے سے، اس کی قوم کے پاس آنے سے، اس کے پیروکاروں کے پاس آنے سے، اس کی امت کے پاس آنے سے، اس کی جائے پیدائش پر آنے سے، اس کی نشست گاہوں پر آنے سے، اس کے کنوؤں پر آنے سے، اس کے باغات میں آنے سے، اس کی مسجد میں آنے سے، اس کے علاقے، اس کی گلیوں اور اس کے محلوں میں آنے سے اور اس کی ہجرت گاہ میں آنے سے، اس کی ذات کے پاس آنا مراد ہے۔ ایسی بات تو کوئی جاہل اور بددماغ ہی کر سکتا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آنا، آپ کی ذات کے پاس آنے کے مترادف ہے۔ تو اسے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی مذکورہ چیزوں کے پاس آنا بھی آپ ہی کے پاس آنا ہے اور یہ ابطل الاباطتل ہے۔ اگر وہ شخص کہے کہ میں تیسری چیز کو اختیار کرتا ہوں، یعنی میں صرف قبر مبارک پر آنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے پاس آنے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ تو اس سے پوچھا جائے گا: تمہارے پاس اس فہم کی کیا دلیل ہے؟ اس پر آپ کو لغت، عرف اور شریعت سے کوئی دلیل نہیں ملے گی۔ اس موقف کے موافقین و مخالفین میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی امتی کی قبر پر جانے سے مراد صاحب قبر کے پاس جانا ہے۔ کوئی عاقل کسی کی قبر پر جانے کو صاحب قبر کے پاس جانا نہیں سمجھتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کسی شخص کے پاس جانے اور اس سے تعلق رکھنے والی ان مذکورہ چیزوں کے پاس جانے میں فرق ہے، اسی طرح کسی شخص کے پاس جانا اور بات ہے، جبکہ اس کی قبر پر جانا اور بات۔ ان میں کوئی بھی چیز دوسری چیز کا مترادف نہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ کی قبر پر آنے، دونوں کو شامل کرنا گویا انسان میں انسان اور گھوڑے، دونوں کو شامل کرنا ہے۔ اس سے تو کسی چیز کو اپنے اور غیر میں تقسیم کرنا لازم آتا ہے۔ عقل مندوں کے ہاں ایسا کرنا باطل ہے۔ یہی کام ابن دحلان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر استغفار کرنا، آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کی ذات کے پاس آنے اور آپ کی وفات کے بعد قبر مبارک کے پاس آنے، دونوں صورتوں کو شامل کر دیا ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس استغفار کرنا، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر استغفار کرنے کے مترادف نہیں۔ اگر یہ لوگ کہیں کہ ہم یہ اعتراض لازم ہی نہیں آنے دیتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی حیات مبارکہ میں آنا اور آپ کی وفات کے بعد آنا ہے، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی دنیوی زندگی میں آنا اور آپ کی برزخی زندگی میں آنا ہے۔ جب برزخی زندگی میں آپ کے پاس آنا اسی صورت ممکن ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آئیں، یعنی زیارت قبر نبوی کریں، تو اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر استغفار کرنا جائز ہے۔۔۔ تو ہم عرض کریں گے کہ لغت و عرف کے اعتبار سے آیت کریمہ یہی بتاتی ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ہی میں آنا ہے۔ کیونکہ لغت و عرف کسی بھی اعتبار سے برزخی زندگی میں آپ کی قبر مبارک کے پاس آنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے مترادف نہیں۔ برزخی زندگی تو شریعت کے بیان کرنے سے ثابت ہو گئی، البتہ یہ بات باقی رہ گئی کہ شریعت میں اس برزخی زندگی میں آنا، دنیوی زندگی میں آنے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟ اور اس کا ثبوت مدعی ہی کے ذمے ہے۔۔۔ ‘‘ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:28۔31) ya is ayat pa kuch kalam ha..is bara ma kya kaha ga? Ek Taweel Hadees Me Hai Ke Log Hazrat Umar رضي الله عنه Ke Zamany Me Qahet Me Mubtela Hue To Ek Shakhs Nabi Kareem ﷺ Ki Qabr e Mubarak Per Aaya Or Arz Ki.... Ya Rasulallah ﷺ Apni Ummat Ke Liye Barish Ki Dua Kijye Pas Aap ﷺ Uske Khawb Me Tashreef Laye Or Use Bataya Ke Unhen Barish Se Seraab Kiya Jayga Pas Isi Trah Huwa......!!!! ( Yani Barish Hui) [is hadees k bara ma ya kalam kia jata ha: is pa kuch arz kra] عن مالك الدار، قال : وكان خازن عمر على الطعام، قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له : عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب ! لا آلو إلا ما عجزت عنه. ”مالک الدار جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقرر تھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث ) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر ميرا اسلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی ) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ صحابی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے اللہ ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر یہ کہ عاجز آ جاؤں۔“(مصنف ابن أبي شيبه:356/6، تاريخ ابن أبي خيثمه:70/2، الرقم:1818، دلائل النبوة للبيھقي:47/7، الاستيعاب لابن عبدالبر:1149/3، تاريخ دمشق لابن عساكر:345/44، 489/56) تبصره : اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ : (1) اس میں (سلیمان بن مہران) الاعمش ”مدلس“ ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا نقبل من مدلس حديثا حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت ……. ”ہم کسی مدلس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کر دے۔“(الرسالة للإمام الشافعي،ص:380) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا يكون حجة فيما دلس. ”مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ (الكامل لابن عدي:34/1، وسنده حسن) حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) کہتے ہیں : وممن ذھب إلی ھذا التفصیل الشافعی وابن معین و ابن المدینی. ”جو ائمہ کرام اس موقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی کے نام شامل ہیں۔“ (فتح المغيث:182/1) حافظ علائی رحمہ اللہ (۶۹۴۔۷۶۱ھ) اسی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : الصحيح الذي عليه جمھور إئمة الحديث والفقه والأصول. ”یہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر جمہور ائمہ حدیث و فقہ و اصول قائم ہیں۔“ (جامع التحصيل،ص:111) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں : وقالوا: لا يقبل تدليس لأعمش. ”اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش كی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔“ (التمھيد:30/1) علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں : إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه. ”بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔“ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث:219) اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔ (2) مالک الدار ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (384/5) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ اس کے بارے میں حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه. ”میں اسے نہیں جانتا۔“ (الترغيب والترھيب:29/2) حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم أعرفه. ”میں اسے نہیں پہچان سکا۔“ (مجمع الزوائد:123/3) اس کے صحابی ہونے پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ کرام میں ذکر کرنا صحیح نہیں۔ نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البداية والنھاية: 167/5) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابة:484/3) کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا ان کا علمی تسامح ہے۔ ان کی یہ بات اصولِ حدیث کے مطابق درست نہیں۔ صرف حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہا اللہ کا اسے صحیح کہنا بعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے صحیح کہا ہوا ہے اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ضعیف کہا ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی تدلیس کی مضرت کے بارے میں لکھتے ہیں : وعندي أن إسناد الحديث الذي صححه ابن القطان معلول، لأنه لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا، لأن الأعمش مدلس، ولم يذكر سماعه من عطاء، وعطاء يحتمل أن يكون ھو عطاء الخراساني، فيكون فيه تدليس التسوية بإسقاط نافع بين عطاء وابن عمر. ”میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے، وہ معلول (ضعیف) ہے، کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء، خراسانی ہوں، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور سیدنا ابن عمر کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔“ (التلخيص الحبير:19/3) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قال علي بن المديني: قال يحيی بن سعيد: قال سفيان وشعبة: لم يسمع الأعمش ھذا الحديث من ابراھيم التيمي، قال أبو عمر : ھذه شھادة عدلين إمامين علي الأعمش بالتدليس، وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه، وربما كان بينھما رجل أو رجلان، فلمثل ھذا وشبھه قال ابن معين وغيره في الأعمش : إنه مدلس. ”امام علی بن مدینی نے امام یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام شعبہ اور سفیان نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تيمی سے نہیں سنی۔ میں (ابن عبدالبر) کہتا ہوں کہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہوتی تھی۔ بسا اوقات ایسے لوگوں سے اعمش دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔ اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے۔“ (التمھيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد:32/1) تنبیہ: (تاریخ طبری:98/4) اور حافظ ابن کثیر کی (البدایہ والنہایہ:71/7) میں ہے: حتي أقبل بلال بن الحارث المزني، فاستأذن عليه، فقال : أنا رسول رسول الله إليك، يقول لك رسول الله. ”بلال بن حارث مزنی آئے، انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا: میں آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں۔۔۔“ یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ : (1) شعیببن ابراہیم رفاعی کوفی ”مجہول“ راوی ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وشعيب بن إبراھيم ھذا، له أحاديث وأخبار، وھو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيره، وفيه بعض النكرة، لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل علي السلف. ”اس شعیب بن ابراہیم نے کئی احادیث اور روایات بیان کی ہیں۔ یہ فن حدیث میں معروف نہیں۔ اس کی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں، پھر بھی ان میں کچھ نکارت موجود ہے، کیونکہ ان میں سلف صالحین کی اہانت ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:7/5) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه جھالة اس میں جہالت ہے۔ (ميزان الاعتدال:275/2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وفي ثقات ابن حبان (309/8) : شعيب بن ابراھيم من أھل الكوفة، يروي عن محد بن أبان البلخي (الجعفي) ، روي عنه يعقوب بن سفيان، (قلت) فيحتل أن يكون ھو، والظاھر، أنه غيره ”ثقات ابن حبان میں ہے کہ : شعیب بن ابراہیم کوفی، محمد بن ابان بلخی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان سے روایت کیا ہے۔ (میں کہتا ہوں) ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہراً یہ کوئی اور راوی لگتا ہے۔“ (لسان الميزان:145/3) (2) سیف بن عمر راوی باتفاق محدثین ’’ضعیف، متروک، وضاع‘‘ ہے۔ اس کی روایت کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔ (3) اس کا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی ”مجہول“ ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : مجھول الحال. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (لسان الميزان:122/3) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو ”موضوع و منکر“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : لا يعفرف. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:667/2) IS k bara ma ya kalam ha.... zra is pr gor kra سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے: اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان ) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں ) ، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔ (صحيح البخاري:137/1،ح:1010) شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : ۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں : ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔ (فتح الباري:497/2) بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے، کیونکہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔ محدثین کرام اور فقہائے امت نے اس حدیث سے ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ مراد لیا ہے۔ جب اسلاف امت اس سے فوت شدگان کا وسیلہ مراد نہیں لیتے تو آج کے غیر مجتہد و غیر فقیہ اہل تقلید کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حدیث کا ایک نیا معنی بیان کریں ؟ تصریحات محدثین سے عیاں ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنے کا معنی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ کو اس دعا کا حوالہ دیا جاتا کہ اے اللہ ! تیرا نبی ہمارے حق میں تجھ سے دعا فرما رہا ہے، لہٰذا اپنے نبی کی دعا ہمارے بارے میں قبول فرما کر ہماری حاجت روائی فرما دے! کسی ایک ثقہ محدث یا معتبر عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی ذات کا وسیلہ ثابت کرتا ہو۔ فائدہ نمبر ۱ ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کے لیے دعا کا کہا تو انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کی : اللھم إنه لم ينزل بلاء الا بذنب، ولم يكشف إلا بتوبة، وقد توجه القوم بي إليك لمكاني من نبيك۔ ”اےاللہ ! ہر مصیبت کسی گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ ہی اس سے خلاصی کا ذریعہ بنتی ہے۔ لوگوں نے میرے ذریعے تیری طرف رجوع کیا ہے، کیونکہ میں تیرے نبی کے ہاں مقام و مرتبہ رکھتا تھا۔“ (تاريخ دمشق لابن عساكر: 359،358/26، فتح الباري لابن حجر:497/2، عمدة القاري للعيني:32/7) تبصرہ: لیکن یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کو گھڑنے والا محمد بن سائب کلبی ہے جو کہ ’’متروک‘‘ اور کذاب ہے۔ نیز اس میں ابوصالح راوی بھی ’’ضعیف‘‘ اور مختلط ہے۔ اس کی سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔ زبیر بن بکار کی بیان کردہ روایت کی سند نہیں ملی۔ فائدہ نمبر ۲ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس واقعے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں : اللھم إنا نتقرب إليك بعم نبيك ونستشفع به، فاحفظ فينا نبيك كما حفظت الغلامين لصلاح أبيھما۔ ”اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے چچا کے ساتھ تیرا تقرب حاصل کرتے ہیں اور ان کی سفارش پیش کرتے ہیں۔ تو ہمارے بارے میں اپنے نبی کا اس طرح لحاظ فرما جس طرح تو نے والدین کی نیکی کی بنا پر دو لڑکوں کا لحاظ فرمایا تھا۔“ (الاستيعاب:92/3، التمھيد:434/23، الاستذكار:434/2) تبصرہ: یہ بے سند ہے، لہٰذا قابل اعتبار نہیں۔ فائدہ نمبر ۳ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: استسقي عمر ابن الخطاب عام الرمادة بالعباس بن عبدالمطلب، فقال : اللھم! ھذا عم نبيك العباس، نتوجه إليك به، فاسقنا، فما بر حوا حتي سقاھم الله قال : فخطب عمر الناس، فقال: أيھا الناس! إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرى للعباس ما يري الولد لوالده، يعظمه، ويفخمه، ويبر قسمه، فاقتدو أيھا الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم في عمه العباس، واتخذوه وسيلة إلي الله عزوجل فيما نزل بكم۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت والے سال ) میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کی۔ انہوں نے یوں فریاد کی : اے اللہ ! یہ تیرے (مکرم) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (معزز) چچا عباس ہیں۔ ہم ان کے وسیلے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو ہم پر بارش نازل فرما۔ وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بارش سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا ہے کہ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ فرمایا: اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی نظریہ رکھتے تھے، جو ایک بیٹا اپنے، باپ کے بارے میں رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا فرماتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرو۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔ (المستدرك للحاكم:334/3،ح5638، الاستيعاب لابن عبدالبر:98/3 ) تبصرہ: اس روایت کی سند سخت ترین ’’ضعیف ‘‘ ہے۔ اس میں داؤد بن عطاء مدنی راوی ’’ضعیف ‘‘ اور ’’متروک ‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ لفظ بھی ثابت نہیں۔ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ليس بالقوي، ضعيف الحديث، منكر الحديث ”قوی نہیں ہے، ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے۔“ نیز امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔ (الجرح و التعديل:421/3) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الكبير للعقيلي:35/2، وسنده صحيح) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ (سوالات البرقاني للدارقطني:138) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ليس بشيء۔ ”یہ ناقابل التفات ہے۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:241/3) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وفي حديثه بعض النكرة۔ ”اس کی حدیث میں کچھ بگاڑ موجود ہے۔“ (الكامل:87/3) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ (تلخيص المستدرك:334/3) پھر ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس میں دعا کے وسیلے کا ذکر ہے اور دعا ہمارے نزدیک مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ غرضیکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث میں جس وسیلے کا ذکر ہے، وہ صرف اور صرف دعا کا وسیلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ان سے یہ استدعا کی تھی کہ آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ان کی اس دعا کا حوالہ دیا کہ تیرے نبی کے چچا بھی ہمارے لیے دعاگو ہیں، لہٰذا ہماری فریاد کو سن لے۔ یہی مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ اس حدیث سے قطعاً فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا۔ یہ ایسی دعا ہے جس پر سب صحابہ کرام نے خاموشی اختیار کی، حالانکہ یہ مشہور و معروف واقعہ تھا، یوں یہ ایک واضح سکوتی اجماع ہے۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کے ساتھ دعاء استسقاء کی تو اسی طرح دعا فرمائی۔ اگر صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح آپ کا وسیلہ لیتے جس طرح آپ کی زندگی میں لیتے تھے، تو وہ ضرور کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کا کیونکر وسیلہ دیں اور ان کے وسیلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے برابر کر دیں جو کہ ساری مخلوقات سے افضل اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ آپ کی دعا اور سفارش کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ کسی اور کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک نیک شخص کی دعا کا وسیلہ جائز تھا، اس کی ذات کا نہیں۔ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م : ۷۳۱ ۔ ۷۹۲ ھ) فرماتے ہیں : وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه، يطلبون منه أن يدعو لهم، وهم يؤمنون على دعائه، كما في الاستسقاء وغيره، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر رضي الله عنه – لما خرجوا يستسقون -: اللهم ! إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا. معناه: بدعائه ھو ربه، وشفاعته، وسؤاله، ليس المراد أنا نقسم عليك به, أو نسألك بجاهه عندك, إذ لو كان ذلك مراداً، لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس ”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، یعنی آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقاء (بارش طلبی کی دعا) وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اے اللہ ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔ اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔ یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و منزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔“ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص: ۲۳۸،۲۳۷) ثابت ہوا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث سے توسل بالذات والاموات کا بالکل اثبات نہیں ہوتا۔
  3. As salam ua likum kya Al azkar book wale rivayat ki sannat mil skte ha? is pr atraz ha k is rivayat ko imam navi na al azkar ma bila sanad zikr kia ha... or kya bila sanad batain hujjat ho skte ha? As salam ua likum Al azkar ki trha imam ibn kaseer na bhe is rivayat ko bila sanad zikr kia ha.... is rivayat ki sanad ka pta chal skta ha kya? Moajjam al sayokh la ibn a asakr (page 600) ma is rivayat ki sanad majod ha.. lakin us ma majod 4 logo ka pta he ni k wo kon ha.... kya deen k lia na malom log he rah gay ha.... kya is haqayat ki koy sahi sanad majod ha? or jo imam qartabi ki tafseer sa qissa pash kia ha us pa ya atraz kia jata ha is ka ravi hasam bin adi kazzab or matrok ravi ha. is ka kya jwab ho ga?
×
×
  • Create New...