-
کل پوسٹس
362 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
54
سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا
-
سرکار ﷺ زنا کرنے کی کتنی تحقیق فرماتے تھے اس حدیث سے دیکھ لو اور یہ جناب ہیں کہ بے دلیل قول لئے پھر رہے ہیں قاتل ثابت کرنے کے لئے۔ عن أبي ھریرة أنه قال أتی رجل من المسلمین رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه فتنحّٰی تلقاء وجھه۔ فقال له یارسول اﷲ! إني زنیتُ فأعرض عنه حتی ثنی ذلك علیه أربع مرات۔فلما شھد علی نفسه أربع شهادات دعاہ رسول اﷲ ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال: (فھل أحصنت؟) قال: نعم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ :(اذھبوا به فارجموہ) ''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس شخص نے آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔'' حضورؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے دوبارہ کہا: ''اے اللہ کے رسول ﷺ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔'' آپﷺ اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے۔ اس نے چار دفعہ اپنی بات دہرائی، پھر جب اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ''تو پاگل تو نہیں ؟ بولا: 'نہیں !' پھر آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ وہ بولا: 'جی ہاں ' (میں شادی شدہ ہوں ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لے جاکر سنگسار کردو۔'' (صحیح مسلم رقم 1691) عن جابر بن عبد اﷲ قال: جاء ت الیهود برجُلٍ وامرأة منهم زنیا، قال:(ائتوني بأعلم رجلین منکم) فأتوہ بابنَي صُورِیا، فنشدهما (کیف تجدان أمر هذین في التوراة؟) قالا: نجد في التوراة إذا شهد أربعة،أنہهم رَأوا ذکرہ في فرجها مثل المِیل في المکْحُلَة رُجِمَا، قال:(فما یمنعکما أن ترجموها؟) قالا: ذهب سلطانُنا، فکرهنا القتل،فدعا رسولُ اﷲ ﷺ بالشهود فجاء وا بأربعة فشهدوا أنهم رأوا ذکرہ في فرجها مثل المیل في المکحلة، فأمر النبي ﷺ برجمها۔ '' حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کوجنہوں نے زنا کیا تھا، یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے لوگوں میں سے دو زیادہ جاننے والے میرے پاس لاؤ۔وہ صوریا کے دونوں بیٹوں کو لے آئے۔ آپﷺ نے ان دونوں کو قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے کہا: ہم تورات میں یہ حکم پاتے ہیں کہ جب چار گواہ گواہی دیں کہ اُنہوں نے مرد اور عورت کے زنا کو اس طرح دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں تو وہ رجم کیے جائیں گے۔آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تم لوگ ان دونوں کو رجم کیوں نہیں کرتے؟وہ بولے : ہماری حکومت نہیں رہی، اس لیے ہمیں کسی کو قتل کرنا برا معلوم ہوتا ہے۔پھر نبی ﷺ نے چار گواہ طلب کیے تو وہ چار (عینی) گواہ لے آئے جنہوں نے مرد اور عورت کو اس طرح زنا کرتے دیکھا جیسے سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے ،پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔'' (سنن ابی داود رقم 4452) خود دیکھ لو شریعت میں زنا ثابت کرنے کے لئے کتنے سخت شرائط رکھی ہیں تو بتاو قاتل ثابت کرنے کے لئے کتنی زیادہ سخت شرائط ہوں گی؟؟ اس لئے ان احادیث رسولﷺ کے سامنے رکھ کر کہو کیا ان احادیث کی شرائط پر تمہاری پیش کردہ باتیں پہنچ رہی ہیں؟؟ خود اپنے ایمان سے جواب دو ضدی کو چھوڑ دو اب۔ اس لئے کسی کو قاتل کہنا تو آسان ہے لیکن اسے شریعت کے اصولوں سے ثابت کرنا بڑا مشکل ہے کیونکہ شریعت دلائل کی تحقیق کرتی ہے پھر جا کر فیصلہ کرتی ہے اور بنا دلیل کے تو شریعت بات بات تسلیم نہیں کرتی ایسے سنگین معاملات میں۔ باقی آپ بنا کسی دلیل کے قاتل کہتے رہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اللہ کو تم خود جواب دو گے کہ تم نے کس دلیل کے بنا کہا پھر وہ دلیل کو ثابت کرنا پڑے گی وہاں تمہارے یہ پوسٹرز چیکانے سے کام نہیں ہو گا۔ اس لئے ابھی بھی وقت ہے اللہ عزوجل سے توبہ کر کے اپنی آخرت کو سنبھال لو اور پھر تا وفات ان کاموں میں نہ پڑوں جن کا حساب تم سے ہونا ہی نہیں ہے۔ اللہ عزوجل ہم کو ہر وقت توبہ کرنے والوں میں شمار فرمائے۔ آمین والسلام
-
ارے جناب امام دارقطنی کے قول کا جواب ہو چکا آپ نے اس جواب نہیں دیا؟ امام ذہبی کے قول کا جواب دیا گیا جناب نے اس کا بھی جواب نہیں دیا؟؟ ابن کثیر اور ابن عبدالبر اندلسی کے قول کی دلیل ہے تو پیش فرما دیں ؟؟ کیونکہ بنا کسی صحیح دلیل کے کسی کو قاتل کہنا شرعا درست نہیں۔ علامہ سلمی نے اپنی بات نہیں کی بلکہ امام دارقطنی کا قول ہی ان سے روایت کیا ہے اس لئے ان کو الگ شمار کرنا درست نہیں۔ نورالدین طالب نے ذاتی کوئی بات نہیں بلکہ اس نے صرف حاشیہ سندھی تحقیق کر کے چھپوائی ہے۔ اس لئے خدا را تحقیق سے کام لیں ہمیں بتائیں شریعت میں قاتل ثابت کرنے کے لئے کتنے گواہ رکھے ہیں کیا آپ کے پاس صحیح سند سے عینی گواہ کی گواہی موجود ہے تو پیش کریں ورنہ ایسی بے دلیل اقوال کو شریعت خود تسلیم نہیں کرتی میاں۔
-
پہلے تو یہ حوالہ وہابی سلفی کا ہے جو ہمارے لئے حجت نہیں اور دوسری بات یہ ہے اس میں وہی پرانی روایات ہیں جن کا ہم کئی بار رد کر چکے ہیں۔ ارے بھائی کتب بدل بدل کر وہی پرانی روایات کیوں پیش کر رہے ہو جن کا ہم کئی بار رد کر آئے ہیں؟؟ اگر پیش کرنی ہے تو کوئی نئی روایت پیش کرو ورنہ لاجواب ہونا تو ثابت ہو چکا ہے جناب پر۔
-
آپ کی پیش کردہ تحریر میں کوئی حوالہ نہیں ہے دیکھ سکتے ہیں جب کہ ہماری تحریر میں ہم نے دو حوالے دیئے ہیں زئی کی کتب کے۔ اس لیے جناب ہم تصدیق کر کے ہی کسی کی تحریر پوسٹ کرتے ہیں کیونکہ حوالہ کی ذمہ داری حوالہ دینے والے پر ہوتی ہے۔ باقی میں نے یہ دعوی کیا نہیں کہ یہ میری خود کی لکھی ہوئی تحریر ہے میں تو اس تحریر کی اصل کتب سے تصدیق کر کے ہی اسے پوسٹ کیا ہے تاکہ حوالہ مانگنے پر اصل کتاب دیکھائی جا سکے۔ میں نے اوپر والے کمنٹ کو ایڈٹ کر کے اصل کتب کے صفحات لکھا دیئے ہیں تاکہ دیکھنے میں جناب کو آسانی ہو۔
-
ارے جناب اس تحریر کی تصدیق کر کے ہی پوسٹ کی ہے کیونکہ اس تحریر میں زئی کا کوئی حوالہ نہیں لکھا ہوا جب کہ خود ہم نے اس تحریر کو زئی کی دو کتب میں پایا پھر اس تحریر کو موازنہ کیا کہ اس میں کوئی کم بیشی تو نہیں ہے جب سب تصدیق ہو گی تو پھر میں نے اسے پوسٹ کیا ورنہ میں آپ کی طرح نہیں کیونکہ ہم ہر حوالہ لگانے کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔ باقی اتنی بڑی تحریر جب زئی کی مل گی تو مجھے خود سے ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں تھی باقی میں نے یہ تحریر آپ کی پیش کردہ سائٹ سے نہیں لی بلکہ زئی علی زئی کے حوالے سے ایک آفیشل سائٹ ہے وہاں سے لی ہے۔جس کا سکرین شاٹ یہ ہے۔ باقی آپ نے جو روایات پیش کی تھی زئی ان ان سب کا ذکر کیا ہوا ہے۔ لیکن زئی نے اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہوا ہے مکمل روایات کو بیان نہیں کیا ہوا اس لئے آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔
-
بھائی ہم نے تو کب کا چھوڑا ہوا ہے یہ جناب تو جھوٹ منسوب کر دیتے ہیں کبھی امام ذہبی پر تو کبھی کن پر اب ہم پر۔ جب کہ ہم نے ان کو کہا ہے علماء اہل سنت کی کتب پر بات کریں اور جو اصول وضوابط پر صحیح ہو وہی روایت پیش کریں تاکہ ہم تو مان سکیں۔ کبھی منقطع قول لے آتے ہیں کبھی ضعیف روایت لے آتے ہیں اب تو حد ہو گی ہے وہابیوں کے حوالے زبردستی ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں جب کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں وہابیوں کی کتب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں اس لئے ان کے حوالے ہمیں نہ دیا کریں لیکن جناب ہیں کہ ان سے نکل ہی نہیں رہے۔ خیر علمی و تحقیقی باتیں سب موجود ہیں سب دیکھ سکتے ہیں کہ جناب کی ہم نے کتنی غلطیوں کی نشان دہی کی جناب نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا پھر بعد میں وہی پوسٹرز پھر چپکا دیتے ہیں ہم خود ایک ہی روایت کا بار بار جواب دے کر تھک گے ہیں۔ اس لئے آئندہ وہی پرانی روایت ہوئی تو ہم نے وہی پرانی بات پیسٹ کر دینی ہے کیونکہ جواب تو پہلے دئیے جا چکے ہیں اب یہ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں اور کچھ نہیں کر رہے۔
-
زئی کا حوالہ یہ ہے کہ اس نے تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے مکمل عبارات اوپر ہیں یہاں زئی کی آخری بات پیش کر رہا ہوں خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (توضیح الاحکام ج 2 ص 477) اب خود زئی سے پوچھو ایک طرف روایات کو ضعیف قرار دے چکے ہو اور دوسری طرف بنا کسی صحیح سند سے حضرت ابوالغادیہ کا قاتل بھی کہتے ہو ؟؟ کہیں زئی پاگل تو نہیں تھا خود کہتا ہے ضعیف روایات پر عمل جائز نہیں دوسری طرف روایات کو ضعیف بھی کہتا ہے اور پھر قاتل بھی کہتا ہے حیرت ہے زئی پر بھی۔ باقی زئی کا جو ہم حوالہ دیا تھا کہ اس نے تینوں اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے وہ ہم نے پیش کر دیا ہے اس لئے اب ہم سے نہ لڑیں زئی سے جا کر لڑیں۔ زئی کا ہم نے اس کی کتب سے جواب دیا ہے کہ اس نے تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے اب زئی کس وجہ سے قاتل کہتا ہے یہ اس سے پوچھ لو ورنہ ضعیف روایات تو زئی کے لئے حجت نہیں تو بنا صحیح سند کے حضرت ابوالغادیہ کے قاتل ہونے کی بات کیسے کر دی ہے؟؟ یہ بات اس کی قبر پر مراقبہ کر کے اس کی روح سے پوچھیں ۔
-
یہی تو آپ سے سوال ہے کہ جب زئی نے تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے تو پھر قاتل کہنے میں کوئی سی صحیح روایت پیش کی ہے جب زئی کا حوالہ یہ ہے تینوں روایات کو ضعیف کہنے میں کیا ابو الغادیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوزخی ہیں؟ تھے؟ سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ قاتل عمار وسالبه فى النار عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے : [السلسلة الصحيحة 18/5۔ 20 ح 2008 ] یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔ دیکھئے : [مسند احمد 76/4 ح 16698 و سنده حسن ] کیا یہ صحیح ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں ؟ (حافظ طارق مجاہد یزمانی) الجواب : الحمدلله رب العالمين و الصلوٰةوالسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد : جس روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے، اس کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے : ① ليث بن أبى سليم عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه… . إلخ [ ثلاثةمجالس من الامالي لابي محمد المخلدي 1/75۔ 2، السلسلة الصحيحة 18/5، الآحادو المثاني لابن ابي عاصم 102/2 ح 803 ] یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، ◈ بوصیری نے کہا: ضعفه الجمهور ” جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ زوائد ابن ماجه : 208، 230 ] ◈ابن الملقن نے کہا: وهو ضعيف عند الجمهور ” وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ [خلاصة البدر المنير : 78، البدر المنير : 104/2 ] ◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : ضعيف كوفي [ كتاب الضعفاء : 511 ] ② المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ] یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52] ◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا : كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ] امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔ ③ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ] اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا: وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… . عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں : ➊ ابوحفص : مجہول۔ ➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔ امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (توضیح الاحکام ج 2 ص 477) اب زئی نے یہاں تینوں روایات کو ضعیف قرار دیا ہے تو حضرت ابوالغادیہ کے قاتل ہونے پر کون سی صحیح سند پیش کی ہے جب کہ ضعیف روایات خود زئی کے لئے حجت نہیں اوپر حوالہ دے چکا ہوں خود اسی کے اصول سے اس کے موقف کا رد کیا ہے۔
-
ہم نے یہاں بات کی تھی کہ زئی نے روایات کو ضعیف قرار دیا ہے جس کا حوالہ ہم دے چکے ہیں اب بھی دے دیتے ہیں جناب کو زئی کا اسناد پر موقف یہ ہے دیکھ لو: کیا ابو الغادیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوزخی ہیں؟ تھے؟ سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ قاتل عمار وسالبه فى النار عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے : [السلسلة الصحيحة 18/5۔ 20 ح 2008 ] یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔ دیکھئے : [مسند احمد 76/4 ح 16698 و سنده حسن ] کیا یہ صحیح ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں ؟ (حافظ طارق مجاہد یزمانی) الجواب : الحمدلله رب العالمين و الصلوٰةوالسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد : جس روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے، اس کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے : ① ليث بن أبى سليم عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه… . إلخ [ ثلاثةمجالس من الامالي لابي محمد المخلدي 1/75۔ 2، السلسلة الصحيحة 18/5، الآحادو المثاني لابن ابي عاصم 102/2 ح 803 ] یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، ◈ بوصیری نے کہا: ضعفه الجمهور ” جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [ زوائد ابن ماجه : 208، 230 ] ◈ابن الملقن نے کہا: وهو ضعيف عند الجمهور ” وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ [خلاصة البدر المنير : 78، البدر المنير : 104/2 ] ◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : ضعيف كوفي [ كتاب الضعفاء : 511 ] ② المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنه … إلخ [المستدرك للحاكم 387/3 ح 5661 وقال الذهبي فى التلخيص : عليٰ شرط البخاري و مسلم ] یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے عن کی وجہ سے ضیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل [ ص106] کتاب المدلسین لا بی زرعۃ ابن العراقی [ 24] اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی [ 20] التبیین لأسماء المدلسین للحلبی [ ص29] قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی [ 2/52] ◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا : كان سليمان التيمي يدلس ” سلیمان التیمی یدلیس کرتے تھے۔“ [ تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 3600 ] امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ”صحیح علیٰ شرط الشیخین“ نہیں کہا جا سکتا۔ ③ أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ] اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا: وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… . عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في النار والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں : ➊ ابوحفص : مجہول۔ ➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔ امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ (اوپر دیکھ لیں میاں کیا زئی نے تینوں روایات کی تضعیف نہیں کی ہوئی؟؟ کیا یہ ہم نے جھوٹ بولا ہے) (الحدیث شمارہ نمبر 31 ص 26) (توضیح الاحکام ج 2 ص 477) باقی زئی نے جو یہ لکھا ہے: تنبیہ : ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی نے اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے : [الاصابة 151/4 ت 881، ابوالغادية الجهني] وما علينا إلا البلاغ یہ بات خود اسی کے اصول سے باطل ہے کیونکہ ایک تو صحیح سند نہیں دی سب کو اس نے ضعیف قرار دیا ہے جب ضعیف قرار دیا ہے تو قاتل کیسے ثابت ہوتا ہے؟؟ جب کہ زئی صاحب خود ضعیف روایت کے حکم پر لکھتے ہیں: "علمائے کرام کا دوسرا گروہ ضعیف روایات پر عمل کا قائل نہیں چاہے عقائد و احکام ہوں یا فضائل مناقب اور اسی گروہ کی تحقیق راجح ہے۔" (مقالات ج 2 ص 270) آخر میں زئی صاحب لکھتے ہیں : "اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ہماری غلطی ثابت کر دے تو اعلانیہ رجوع کرتے ہیں۔" (مقالات ج 2 ص 283) اب ہم نے یہاں زئی کی غلطی کی نشان دہی کر دی ہے ایک طرف سب روایات کو ضعیف قرار دیا ہے اور دوسری طرف بنا دلیل کے قاتل کہہ دیا ہے پھر کہتے ہیں ضعیف پر عمل نہیں کرنا چاہیے لہذا زئی تو اب زندہ نہیں اگر ہوتا اس کو یہ پتہ چلتا تو ضرور رجوع کرتا اس بات سے۔ واللہ اعلم
-
ہاں تو جناب ہم نے روایات کی تضعیف کا کہا ہے کہ زئی نے تضعیف کی ہوئی ہیں جن کی شعیب الارنووط ، مقبل بن ہادی اور البانی نے تصحیح و تحسین کی ہوئی ہیں۔ اس کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں لیکن جناب ہم اس میں زئی کا ذاتی موقف کی کہا بات کی ہے کیا زئی کے اصول سے اس کا ذاتی موقف ثابت ہوتا ہے ذرا بتائیں؟؟ جب اس کے نزدیک تینوں روایات ضعیف ہیں؟؟
-
ایک بات سات کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اسی بات کا ہم کئی بات تحقیقی رد کر چکے ہیں جن کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ارے میاں ایک ضعیف روایت ساتھ تو کیا لاکھ کتب میں ہو وہ ضعیف رہتی ہے اور وہ ایک ہی حوالہ رہتا ہے باقی اس کو کتب میں نقل کرنے سے نئی روایت نہیں بن جاتی۔ الحمدللہ جناب نے کوئی بھی نئی بات نہیں کی وہی پرانی روایت پیش کی جن کا ہم پہلے جواب دے چکے ہیں لیکن اب کی بار کتب اور تھیں لیکن روایت وہی پرانی تھی۔ لگتا ہے یہی ضعیف روایت ہی جناب کی کل کائنات ہے۔ جناب کے تمام دلائل کا رد کیا جا چکا ہے کوئی نئی بات ہو تو کریں پرانی روایات کو کتب بدل بدل کر پیش نہ کریں کیونکہ ان کاجواب پہلے ہو چکا ہے۔ شکریہ
-
ارے جناب یہ کوئی نیا حوالہ نہیں وہی پرانی روایت ہے لیکن اس میں ہم نے پہلے نشان دہی کر دی تھی کہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے لیکن جناب اس کا جواب نہیں دیا پھر اسے دوبارا پوسٹ کر دی ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ نیا حوالہ ہے ارے میاں پوسٹر بنانے سے پہلے پڑھ بھی لیا کرو غور سے۔ اب جناب آپ پر لازم ہے اس راوی کی توثیق پیش کریں جمہور ائمہ اہل سنت سے؟؟
-
پھر وہی پرانی روایت پوسٹ کر دی بس اب کی بار البانی آگیا ہے روایت وہی ہے جس کا ہم پہلے جواب دے چکے ہیں۔ چلیں البانی سے پوچھ کر دیں کہ اس روایت کو صحیح کہا ہے تو کیا کلثوم بن جبر کا سماع حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کیا ثابت ہے؟؟؟ اگر ثابت ہے تو جناب البانی کے مقلد ہیں تو ثابت کریں سماع ورنہ امام ذہبی نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے سیر اعلام النبلاء میں اس کا اوپر حوالہ دے چکا ہوں پہلے۔ اور فقیل کہنے والا راوی کون ہے جب کہ یہ مجہول کا صیغہ ہے تو پھر اس کی سند کیسے صحیح ہے؟؟ اب البانی کی طرف سے جناب پر جواب دینا لازم ہے ۔
-
تو ہم بھی اسی خلیفہ راشدکے بیٹے رضی اللہ عنہما کی صلح پر قائم ہیں اس لئے یہ باتیں اپنے پاس رکھے ہیں ہمیں نہ بتائیں۔ باقی ہم بنا کسی تحقیق کسی کو کیسے قاتل مان لیں ؟؟ کیا شریعت میں بنا دلیل کے کسی کو قاتل کہا جا سکتا ہے؟؟ ان سب حوالہ جات کے اوپر جواب دیئے جا چکے ہیں ان کو پھر پوسٹ کر دیا ہے حیرت ہے تھوڑی ہمت کریں جو ہم نے ان حوالہ جات کا تحقیقی طور پر جو رد کیا ہے ان کا جواب تحریر کر کے پوسٹ کریں ورنہ ان کو دوبارہ پوسٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
-
ہر صحابی جو ایمان کی حالت میں فوت ہو وہ یقینا جنتی ہے یہ سپاہ صحابہ کا نعرہ نہیں بلکہ جمہور اہل سنت کا نعرہ ہے اور اسے ناصبیت کہنا یہ رافضیوں کی حرکت ہے جب کہ رافضیوں کے کفریات سے اللہ بچائے۔ ابن ملجم کو ابن حزم اندلسی نے اجتہاد خطاء قرار دیا ہے ابن حزم ہمارے نزدیک گمراہ ہے اس کے نظریات بہت خراب تھے یہ بات جناب کو پہلے بتا چکے ہیں۔ نبی ﷺ کی دوسری حدیث بھی وہ صلح والی وہ بھی پڑھ لیں اور ساتھ یہ بھی ہے کہ جس نے مجھے (ایمان کی حالت میں )دیکھا اسے جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی (مفہوما) تو ساری احادیث کو جمع کر کے بات کیا کریں ایک حدیث پر بات کریں گے تو بہت سی ٹھوکریں کھائیں گے۔
-
جب آپ کے نزدیک یزید کو امیرالمومنین کہنے والے لعنتی کافر و مردود ہیں تو ان کی کتب کے حوالوں کو کیوں گلے لگایا ہوا ہے کہیں یہ دوغلی پالیسی نہیں آپ کی؟؟ ایک جگہ کافر لعنتی کہتے ہیں پھر ان کے حوالے ہمیں دیتے ہیں ۔ ارے جناب کچھ ائمہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تابعی کہا ہے صحابی نہیں کہا کیونکہ ان کے منہج کے مطابق ان کی عمر کم تھی جب سرکار ﷺ کی وفات ہوئی؟؟؟ امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے لشکر کا فوجی قرار دیا ہے جب اس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیا؟؟ امام ذہبی نے یزید کو جنتی لشکر میں شمار کیا ہے اور ناصبی بھی لکھا ہے؟؟ اس کے علاوہ اور کچھ بھی ہے تو کیا آپ ان حوالہ جات کو مان لو گے کیا؟؟ یقینا نہیں مانو گے کیونکہ یہ ان ائمہ کے تسامحات ہیں اور یہ جمہور اہل سنت کا موقف نہیں ہے اس لئے ہم ائمہ کے تسامحات کو نہیں مانتے لیکن ان کا ادب ضرور کرتے ہیں اور ان کے تسامحات کو ادب کے دائرہ میں رہ کر دلیل سے ان کی تردید کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی ہم نے ایسا ہی کیا ہے کیونکہ ان ائمہ نے اپنی بات کی کوئی دلیل پیش نہیں کی تو بنا کسی دلیل کے کسی کو قاتل کہنا اصولا و شرعا بھی درست نہیں۔ باقی جن وہابیوں کے ان کی اسناد کو صحیح یا حسن کہا ہے ان کی حقیقت ہم نے اوپر بیان کر آئے ہیں اور ان کی تحقیق میں جو نقص بتائے ہیں آپ نے ان کا ابھی تک جواب نہیں دیا۔ کچھ وہابی اس کی تصحیح کرتے ہیں تو کچھ تضعیف بھی کرتے ہیں اس لئے وہابیوں کی بات وہابیوں تک رہنے دو ہمیں پیش نہ کریں۔ اہل سنت کا دعوی اس لئے کہ ہم اہل سنت کے اصول وضوابط کے مطابق ہی بات کرتے ہیں اگر کسی امام کی جمہور اہل سنت کے اصول وضوابط سے بات ہو گی تو ہم ان کا تسامح قرار دیں گے اور ان کی بات کی دلیل کے ساتھ ادبا تردید کر دیں گے اور یہ بات علماء اہل سنت میں راجح ہے۔
-
وہ اس لئے کہا ہے کیونکہ آپ سلفیوں کے اس وقت مقلد بنے ہوئے ہیں تو سلفی یزید کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں تو پھر یہاں کیوں نہیں مانتے ؟؟ پھر ہمیں سلفیوں کے حوالے کیوں دے رہے ہیں؟؟ جب سلفی آپ کے نزدیک ناصبی ہیں تو ناصبیوں کے حوالے ہمیں کیوں دے رہے ہیں ذرا بتائیں؟؟ جب کہ آپ نے ہی انہی ناصبیوں کی کتب کے پوسٹرز بنائے ہوئے ہیں حیرت ہے؟؟ جب یزید آپ کے نزدیک کافر ہے تو سلفی جو یزید کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں تو وہ کیسے آپ کے نزدیک مسلمان ہیں؟؟ اور پھر ان کے حوالے ہمیں کیوں دیے جارہے ہیں اس کا ذرا جواب دیں؟؟ یزید کے کفر پر علماء اس طرح محتاط ہیں کہ ان کو کفر کی قطعی دلیل نہیں ملی اگر آپ کے پاس یزید کے کفر پر قطعی دلیل ہے تو پیش فرما دیں؟؟ باقی یزید کے فاسق و فاجر پر علماء اہل سنت کا اجماع ہے۔
-
ارے بھائی کیا امام معصوم تھے کیا ان سے تسامح نہیں ہوتے؟؟ ذرا بتائیں؟؟ ارے بھائی آپ نے صحیح سند کہاں پیش کی ہے بلکہ وہابیوں کی تصحیح شدہ سند پیش کیں جن کا ہم علمی اور اصول حدیث کے مطابق جواب دیا ہے لیکن بعد میں آپ نے ہماری ایک بات کا جواب نہیں دیا اوپر ساری تحریرات موجود ہیں ایک بھی سند کا جواب نہیں دیا جن کا ہم رد کیا ہے بس پوسٹر چپکا دیتے ہو فلاں نے یہ کہا فلاں نے وہ کہا ہے۔ ارے بھائی ہمیں فلاں سے نہیں آپ سے دلیل چاہیے آپ نے ان باتوں کو اصول حدیث کی روشنی میں ثابت کرنا ہےکہ یہ کس طرح صحیح ہے اور یہ اصول پر اتر رہی ہے بات؟؟ کیا ہم نے آپ کو شیعہ کتب کے حوالے دیئے ہیں جو آپ ہمیں سلفیوں کی کتب کے حوالے دے رہے ہیں؟؟ آج سلفیوں کے حوالے دے رہے ہیں کل دیوبندیوں کے دو گے پھر کسی انگریز کے دو گے یہ کیا اصول ہے آپ کا؟؟ کیا ہم نے آپ کو نصیری شیعہ کے حوالے دیے ہیں کیا؟؟ نہیں نا؟ آپ کی بحث اہل سنت کی کتب پر ہے تو براہ مہربانی اہل سنت کی کتب پر بات کریں اور سلفیوں کو جب میں مانتا ہی نہیں تو میں ان کے حوالوں کا کیا کروں گا ذرا بتائیں؟؟ جیسے آپ کے نزدیک شیعہ کتب کے حوالے حجت نہیں اسی طرح دیوبندی اور وہابی کتب کے حوالے ہم پر حجت نہیں۔ اس لئے احتیاط کریں کیونکہ ہم سلفی و دیوبندی کتب کے حوالہ جات کے جواب دینے ذمہ دار نہیں۔
-
ارے جناب کون سا غیر مناسب رویہ اختیار کیا ہے ذرا بتائیں؟؟ نا مناسب رویہ تو آپ نے اپنایا ہوا ہے ہم نے کہا تحریر کر کے لکھیں تاکہ فائدہ ہو آپ سے درخواست کی پوسٹ نہ چپکائیں منع کرنے کے باوجود بھی چپکاتے رہتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ غیر مناسب طریقہ یہ ہے کہ جس پوسٹر کا ہم پہلے جواب دے آتے ہیں اس کو پھر دوبارا چپکا دیتے ہیں اور اس میں جو ہم نقص نکالتے ہیں اس کا بھی جواب نہیں دیتے ہو۔
-
جی بھائی صحیح کہا ہے آپ نے ہر بندہ اپنی اصل کی طرف لوٹتا ہے اور یہ جناب اب سلفیوں کی طرف نکل پڑے ہیں جب ہم ان کو سلفیوں کے حوالے دیں گے یزید پر تو وہاں سے پھر بھاگیں گے۔ یہ جناب اصولی طور پر لاجواب ہو چکے ہیں بس وہی پرانی کاپی پیسٹ اور پرانے پوسٹرز چیکا رہے ہیں جن کا کئی دفعہ تحقیقی جواب دیا جا چکا ہے۔ اس لئے اب یہ مزید وہی پرانے پوسٹرز چیکائیں گے تو ایڈمنز حضرات اور موڈریٹرز حضرات سے درخواست ہے کہ اس بات کا نوٹس لیں اور ان کو کہیں کہ کوئی نئی بات کریں جن کا جواب پہلے ہو چکا ہو ان کو پھر نہ چپکائیں ورنہ اصول کے مطابق ہم جواب دینے کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ والسلام
-
ہم نے صرف مقبل کی تصحیح کا آئینہ زئی سے دیکھایا کیونکہ جس کو اپنی جماعت کے عالم نہیں مانتے اسے ہمیں کیوں پیش کر رہے ہیں؟؟ باقی زئی کا کیا موقف ہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہے اور نہ زئی ہمارے لیے حجت ہے۔ اس لیے سلفیوں سے نکل کر اہل سنت کے علماء کی طرف آئیں اور اصول و قواعد کے مطابق بات کریں صرف پوسٹرز نہ چپکائیں۔
-
کتابیں وہی پیش کرنا جو ہم جن کو مانتے ہوں اور ان کی بات بھی اصول و قواعد سے ہمارے نزدیک درست ہو ورنہ ضعیف اور بے سند اقوال کتب میں ہیں لیکن وہ ہمارے نزدیک حجت نہیں ہیں۔ زئی نے ساری روایات کو ضعیف قرار دیا ہے اب آخر میں جو اس نے لکھا ہے وہ بات خود اسی کے اصول سے صحیح نہیں ہے جب روایات ضعیف ہیں تو قتل کیسے ثابت ہوتا ہے۔ باقی زئی میرے لیے حجت نہیں ہے نہ ہی اس کی تحقیق کا قائل ہوں کیونکہ جناب نے مقبل کا حوالہ دیا تصحیح کا تو ہم نے زئی کا حوالہ دیا کہ وہ اسے روایت ضعیف سمجھتا ہے باقی ہمیں وہابیوں کی باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ باقی جو بھی بات کریں یا حوالہ دیں تو اس کی دلیل آپ سے مانگی جائے گی۔
-
تو اصول کے مطابق دیکھائیں نا ورنہ ایسے تو کوئی نہیں مانتا ورنہ کتب میں تو بہت کچھ لکھا ہوا ہے تو سب کو ایسے مان لیں کیا؟؟ امام دارقطنی نے کوئی دلیل دی ہے تو پیش کریں؟؟ جب امام زہری جیسے تابعی کی مرسل روایت حجت نہیں محدثین کے نزدیک تو امام دارقطنی کا بنا دلیل کے قول کیسے حجت ہوگا؟؟ کیا امام دارقطنی جنگ صفین میں تھے؟؟ اگر تھے تو بتائیں؟؟ امام دارقطنی کیا معصوم ہیں کیا ان سے تسامح نہیں ہو سکتے؟؟ امام دارقطنی اجتہاد کر سکتے ہیں رواۃ کی توثیق پر لیکن کسی کے قاتل ہونے پر اجتہاد نہیں کر سکتے کیونکہ قاتل ثابت کرنے کے لئے شریعت نے عینی گواہ رکھے ہیں۔ باقی علامہ سلمی نے کوئی بات نہیں کی وہی امام دارقطنی کے قول کو ان سے روایت کیا ہے اس لئے یہاں امام دارقطنی کی صرف بات ہے ۔ تو وہابیوں کی تحقیق اتنا پیاری ہے تو یزید کو بھی امیرالمومنین مان لیں کیونکہ وہ اسے امیرالمومنین مانتے ہیں۔ ہمیں وہابیوں کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے میاں اگر تمہیں ضرورت ہے تو اپنے پاس رکھو ان کی تحقیق۔ میرے لئے کوئی بھی وہابی حجت نہیں ہے زئی کا حوالہ اس لئے دیا ہے کیونکہ جس روایت کو مقبل نے صحیح کہا ہوا تھا زئی نے اسے ضعیف کہا ہوا تھا اس لئے آئینہ دیکھایا ہے جناب کو۔ باقی نہ زئی نہ ہی مقبل اور نہ کوئی وہابی میرے لئے کوئی حجت ہے۔ اس لئے وہابی حوالوں سے گریز کریں