Jump to content

Raza Asqalani

اراکین
  • کل پوسٹس

    362
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    54

سب کچھ Raza Asqalani نے پوسٹ کیا

  1. اس کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں امام ذہبی کے حوالے سے لیکن جناب نے یہاں وہابی تحقیق پیش کی ہے تو جواب بھی وہابی سے دیتے ہیں۔ زئی اس روایت کے کہتا ہے: أبو حفص و كلثوم عن أبى غادية قال… . فقيل قتلت عمار بن ياسر و أخبر عمرو بن العاص فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : أن قاتله و سالبه فى النار“إلخ [طبقات ابن سعد 261/3 و اللفظ له، مسند احمد 198/4، الصحيحة 19/5 ]اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا:وهٰذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم… .عر ض ہے کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتله و سالبه فى النار والی روایت بھی صحیح ہے۔ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :فقيل… . إلخ پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”بے شک اس (عمار ) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ “اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی فقيل کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ في الناروالی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ”إسنادہ صحیح“ نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کر رہے ہیں :➊ ابوحفص : مجہول۔➋ کلثوم بن جبر : ثقہ۔امام حماد بن سلمہ رحمہ الله نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انہوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔خلاصہ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ ۔۔۔ اس بات کا حوالہ پہلے چکا ہوں لیکن پھر وہی بات پوسٹ کر دی ہے۔ اس کے علاوہ اس روایت میں محشی نے خود بتایا ہے کہ اسے ایک راوی کا ترجمہ و توثیق نہ مل سکی اور ایک راوی کی توثیق دینا بھی بھول گیا ہے خود دیکھ لو اپنے پوسٹر میں ہم نے نشان دہی کر دی ہے۔ ارے میاں کسی کا قول نقل کرنا لازمی نہیں ہوتا ہے کہ وہ بات ان کے نزدیک حجت ہو۔ باقی امام ابن معین کے قول کی دلیل بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سند ہے اور نہ ہی امام ابن معین جنگ صفین میں تھے کیونکہ وہ ان سے ایک صدی بعد پیدا ہوئے اس لیے ایسے اقوال کے بارے میں امام شعبہ اور امام ابن مبارک کا قول پیش کر چکا ہوں اس لئے مزید اس طرح اقوال پیش کرنے سے گریز کریں جن نہ سند ہوتی ہے اور نہ دلیل ہوتی ہے۔
  2. اس کتاب کا حاشیہ حمدی عبدالمجید سلفی نے لکھا ہے اس نے بھی وہی حوالہ دیا ہے امام ہیثمی کا اس نے بھی نئی کوئی بات نہیں کی۔ امام ہیثمی کی بات کا جواب اوپر ہو چکا ہے کیونکہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی ہے اور یہ صحیح حدیث کے رجال میں سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ ثقہ ہے۔
  3. امام مسلم کا جواب دے دیا ہے امام شعبہ اور امام بن مبارک کے اقوال سے جناب دیکھ لیں۔ باقی مقبول راوی کے بارے میں میں نے کسی وہابی کی بات پیش نہیں کی بلکہ خود امام ابن حجر عسقلانی کا منہج دیکھایا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب تقریب التہذیب کے مقدمہ میں لکھا ہے۔ جب اصل مصنف سے بات ثابت ہو جائے تو پھر اور لوگوں کی رائے کا کچھ فائدہ نہیں۔ باقی محدث فورم ہم بھی موجود ہیں جو ہمارا وہابیوں کے ساتھ ٹکڑا ہوتا رہتا ہے اس لئے اس طرح کی باتوں کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک وہابی نے یہ تحریر بھی پوسٹ کی تھی اس لیے اصل بات وہی ہے جو امام ابن حجر عسقلانی نے کتاب تقریب التہذیب کے مقدمہ میں لکھی ہے۔
  4. ارے جناب ہم نے دیکھ لیے ہیں جناب کے محققین حضرات کو ارے جناب جب ہم تمہارے محققین حضرات کی تحقیق کے نقص نکالتے ہیں تو ان کے جوابات دینے کے بجائے پھر وہی روایت اور وہی بے سند اور بے دلیل اقوال کتب بدل بدل کر پیش کرتے رہتے ہو حیرت ہے۔ اس لئے اب کی بات ہمت کرو کرکے کوئی نئی بات لے آئے ہو جب کہ یہ سب پرانی باتیں ہو گی ہیں اس لئے اب ہم بھی وہی پرانے جواب پوسٹ کر دیتے ہیں جناب کی پرانی پوسٹرز پر کیونکہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ایک بات کا باربار جواب دیتے رہیں۔ شکریہ
  5. پہلےتو اس کتاب پر مصنف کا نام صالح یوسف معتوف لکھا ہوا ہے تو امام عینی کیسے؟؟ اگر جناب کہیں گے کہ امام عینی کی کتاب مغانی الاخیار سے نقل کی گی تو جناب کو غور سے پڑھ لینا تھا کیونکہ امام عینی نے ذاتی بات نہیں کی ہے بلکہ امام ابن عبدالبر اندلسی کی عبارت نقل کی ہے قال ابوعمرو کہہ کر اور جناب نے امام ابن عبدالبر اندلسی کی عبارت کو امام عینی کی عبارت بنا دی حیرت ہے۔ باقی امام ابن عبدالبر اندلسی کا موقف پہلے بھی بیان کر دیا تھا اب پھر بیان کر دیتے ہیں۔ امام ابن عبدالبر اندلسی کا قول تمام صحابہ کرام کے لئے یہ ہے: "أجمع أھل الحق من المسلمین و ھم اھل سنۃ والجماعۃ علی أن الصحابة كلهم عدول " مسلمانوں میں سے تمام اہل حق جو اہل سنت و جماعت ہیں کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں (الاستیعاب لابن عبدالبر بھامش الاصابۃ ج 1 ص 38) اس لئے جناب ایک بے سند اور بے دلیل بات کو پکڑے ہوئے ہیں جب کہ یہاں امام ابن عبدالبر اندلسی نے اہل حق کا اجماع لکھ دیا ہے لیکن جناب یہاں منکر بنے ہوئے ہیں بڑی حیرت کی بات ہے۔ اس کے علاوہ یہ بے سند اور بے دلیل قول ہے ایسے اقوال کے بارے میں امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقل ہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) اور امام ابن مبارک فرماتے ہیں : مثل الذی یطلب امر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلاسلم اس شخص کی مثال جو اپنے دینی معاملہ کو بغیر سند کے طلب کرتا ہے اس شخص کی طرح ہےجو بغیر سیڑھی کےچھت پر چڑھنا چاہتاہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص12)
  6. امام مسلم 200 ہجری کے بعد پیدا ہوئے اور جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی ہے تو تقریبا 167 سال کا فاصلہ درمیان کا اور امام مسلم نے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل کے طور پر سند بیان نہیں کی اس لئے ایسے اقوال کے بارے میں امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقل ہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) اور امام ابن مبارک فرماتے ہیں : مثل الذی یطلب امر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلاسلم اس شخص کی مثال جو اپنے دینی معاملہ کو بغیر سند کے طلب کرتا ہے اس شخص کی طرح ہےجو بغیر سیڑھی کےچھت پر چڑھنا چاہتاہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص12) ایسے بے سند اور بے دلیل قول خود محدثین کے نزدیک حجت نہیں تو ایسے استدلال کرنا عجیب ہے جناب۔ ملا علی قاری 900 ہجری کے بعد پیدا ہوئے اور جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی ہے تو تقریبا 867 سال کا فاصلہ درمیان کا اور ملاعلی قاری نے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل کے طور پر سند بیان نہیں کی اس لئے ایسے اقوال کے بارے میں امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقل ہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) اور امام ابن مبارک فرماتے ہیں : مثل الذی یطلب امر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلاسلم اس شخص کی مثال جو اپنے دینی معاملہ کو بغیر سند کے طلب کرتا ہے اس شخص کی طرح ہےجو بغیر سیڑھی کےچھت پر چڑھنا چاہتاہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص12) ایسے بے سند اور بے دلیل قول خود محدثین کے نزدیک حجت نہیں تو ایسے استدلال کرنا عجیب ہے جناب۔
  7. اس سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر راوی کو ساقط کر دیا گیا ہے جب کہ امام بخاری دوسری سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام ذکر کیا ہے لگتا ہے کتابت یا پرنٹ کی غلطی ہے جب کہ دوسری سند میں پوری وضاحت ہے جو یہ ہے: حدثنا عبد الله حدثنا محمد حدثنا قتيبة ثنا مرثد بن عامر العنائي حدثني كلثوم بن جبر قال «كنت بواسط القصب في منزل عنبسة بن سعد القرشي وفينا عبد الأعلى بن عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر القرشي فدخل أبوغادية قاتل عمار بصفين» (تاریخ الاوسط للبخاری ج 1 ص 38) اس کے علاوہ یہی روایت المعجم الکبیر لطبرانی میں ہے جس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر کا نام موجود ہے جس سے واضح ہو گیا ہے تاریخ الاوسط سے راوی کا نام ساقط ہے۔ حدثنا علي بن عبد العزيز وأبومسلم الكشي قالا ثنا مسلم بن إبراهيم ثنا ربيعة بن كلثوم ثنا أبي قال كنت بواسط القصب عند عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر فقال: «الآذان هذا أبوغادية الجهني فقال عبد الأعلى أدخلوه فدخل وعليه مقطعات له رجل طول ضرب من الرجال كأنه ليس من هذه الأمة فلما أن قعد قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يمينك قال نعم خطبنا يوم العقبة فقال «يأيها الناس ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا نعم قال: اللهم اشهد. قال «لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض قال: وكنا نعد عمار بن ياسر من خيارنا قال فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى إذا كان من الصفين طعن رجلا في ركبته بالرمح فعثر فانكفأ المغفر عنه فضربه فإذا هورأس عمار قال يقول مولى لنا أي كفتاه قال فلم أر رجلا أبين ضلالة عندي منه إنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ما سمع ثم قتل عمارا (المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 363 رقم 912) اور دوسری سند میں خود مجہول راوی موجود ہے۔ ثنا أحمد بن داود المكي ثنا يحيى بن عمر الليثي ثنا عبد الله بن كلثوم بن جبر قال سمعت أبي قال كنا عند عنبسة بن سعيد فركبت يوما إلى الحجاج فأتاه رجل يقال له أبوغادية الجهني يقول وشهدت خطبته يوم العقبة «إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض حتى إذا كان يوم أحيط بعثمان سمعت رجلا وهويقول «ألا لا تقتل هذا فنظرت إليه فإذا هوعمار فلولا من كان من خلفه من أصحابه لوطنت بطنه فقلت: اللهم إن تشاء أن يلقينيه فلما كان يوم صفين إذا أنا برجل شر يقود كتيبة راجلا فنظرت إلى الدرع فانكسف عن ركبته فأطعنه فإذا هوعمار» (المعجم الطبرانی 22 ص 363 رقم 913) اس میں سمعت رجلا کا لفظ موجود جس سے واضح ہو رہا ہے یہ بات مجہول سے سنی گی ہے۔ اور عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر تو مجہول ہے اس پر بات ہو چکی ہے پہلے۔ پہلی سند پر اوپر بات ہو چکی ہے کہ اس میں ایک راوی ساقط ہے۔ دوسری سند میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر مجہول راوی موجود ہے جس سے واضح ہو گیا ہے اوپر والی سند میں اس راوی کا نام چھوٹ گیا ہے لیکن دوسری سند میں موجود ہے اس لئے اس صحیح قرار دینا علمی جہالت ہے اور کچھ نہیں۔
  8. ارے جناب امام بخاری نے اس میں کہاں توثیق کی ہے ذرا ہمیں تو دیکھائیں؟؟ اس لیے سکرین شارٹ دینے سے پہلے تحقیق کرلیا کرو ورنہ ہر بار شرمندگی اٹھاؤ گے
  9. ارے میاں پھر شعیب الارنووط اور بشار عواد کی کتاب کے حوالے ۔ ارے میں سلفیوں کی کتب سے ہم سے بہتر کون جانتا ہے اس لئے یہ دھوکے کسی اور کو دینا۔ اس میں بھی بھی شعیب الارنووط اور بشار عواد نے توثیق کی دلیل کسی امام سے نہیں دی بلکہ وہی امام ابن حبان کی تقلید کی ہے جو خود توثیق میں متساہل ہیں اس لئے ایسی توثیق تو اصولا درست نہیں ہے۔ اس لئے جناب کو جناب کے پوسٹر کی حقیقت بتاتے ہیں۔
  10. جناب نے مفت میں پوسٹر لگا دیئے ہیں جناب کو امام ابن حجر عسقلانی کے منہج کا پتہ نہیں ۔ میاں تمہارے سارے پوسٹر مقبول لفظ پر ہیں تو اس لئے ایک ہی جواب دیتا ہوں خود امام عسقلانی سے کہ جب وہ مقبول لفظ لکھتے ہیں تو ان کے نزدیک کیا بات ہو تی ہے اس لئے امام عسقلانی تقریب التہذیب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:السادسۃ : من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث. رواة کا چھٹا طبقہ وہ ہے جس میں راوی کی کم احادیث ہوں، اور اس پر ایسی جرح نہ ہو جس سے اس کی حدیث متروک ہو، ایسے راوی کی طرف "مقبول" کے لفظ سے اشارہ ہے جب کہ اس کا کوئی متابع ہو ورنہ وہ لین الحدیث ہے۔ (تقریب التہذیب ) اس لنک سے کتاب کی عبارت دیکھ لو https://archive.org/details/FP22198/page/n80 اس لئے جناب کے پوسٹر ہی جناب کا رد کر رہے ہیں ایسا راوی بنا متابعت کے ضعیف ہوتا ہے۔
  11. یہ توثیق کا کون سا درجہ ہے ذرا حوالہ تو دو ائمہ حدیث کی کتب سے ؟ ویسے اس کتاب میں کوئی توثیق کا لفظ موجود نہیں ہے۔ امام ابن حبان مجہولین کی توثیق میں متساہل مشہور ہیں ائمہ حدیث کے نزدیک اس لئے جن راوی کی توثیق کے بارے میں وہ منفرد ہوں تو اس وقت ان کی توثیق حجت نہیں ہوتی یہ جناب کے علم میں بھی ہے پھر بھی حوالے دیئے جا رہے ہیں حیرت ہے۔
  12. جناب نے مفت میں پوسٹر لگا دیئے ہیں جناب کو امام ابن حجر عسقلانی کے منہج کا پتہ نہیں ۔ میاں تمہارے سارے پوسٹر مقبول لفظ پر ہیں تو اس لئے ایک ہی جواب دیتا ہوں خود امام عسقلانی سے کہ جب وہ مقبول لفظ لکھتے ہیں تو ان کے نزدیک کیا بات ہو تی ہے اس لئے امام عسقلانی تقریب التہذیب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:السادسۃ : من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث. رواة کا چھٹا طبقہ وہ ہے جس میں راوی کی کم احادیث ہوں، اور اس پر ایسی جرح نہ ہو جس سے اس کی حدیث متروک ہو، ایسے راوی کی طرف "مقبول" کے لفظ سے اشارہ ہے جب کہ اس کا کوئی متابع ہو ورنہ وہ لین الحدیث ہے۔ (تقریب التہذیب ) اس لنک سے کتاب کی عبارت دیکھ لو https://archive.org/details/FP22198/page/n80 اس لئے جناب کے پوسٹر ہی جناب کا رد کر رہے ہیں ایسا راوی بنا متابعت کے ضعیف ہوتا ہے۔
  13. ارے میاں فن اسماء الرجال کی گہرائی ہم نے جناب کی دیکھ لی ہے اس لئے بہتر ہے اس پر بات نہ کریں کیونکہ جناب کو پتہ نہیں چلتا ائمہ حدیث کے منہج کا۔ باقی امام ہیثمی امام ابن حبان کے منہج پر چلتے ہیں اس لئے امام ابن حجر نے تو اپنے استاد امام ہیثمی کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اس لیے تو تقریب التہذیب میں ثقہ نہیں کہا بلکہ مقبول کہا ہے۔ اور مقبول وہ راوی ہوتا ہے جس کی روایات بنا متابعت کے ضعیف سمجھی جاتی ہیں ۔ باقی امام ہیثمی کے اس طرح کے تسامحات پر ایک کتاب لکھی گی اس میں دیکھ لینا انہوں کتنے ضعیف و متروک رواۃ کی سند کو صحیح و حسن قرار دیا ہے ۔ اس لئے جب دلائل نہیں ہوتے تو ہر بندہ اسی طرف بھاگتا ہے کہ کسی طرح ان کی یہ بات پوری ہو جائے لیکن تحقیق کے میدان میں بھاگنا مشکل ہوتا ہے اس لئے حوصلہ رکھیں ایسے تھوڑی بھاگنے دیں گے جناب کو۔ امام ہیثمی کے تسامحات پر یہ کتاب پڑھ لو جناب کو افاقہ ہو جائے گا اور لکھنے والا بھی جناب کا سلفی پیارا ہے۔ القول الجلي في تحسينات الهيثمي
  14. ارے میاں ہمیں اللہ عزوجل کا خوف اور قبر کی شام کی وجہ سے تو بنا دلیل کے کسی پر قتل کا الزام نہیں لگا رہے جب گواہ اور ثبوت اور دلائل مضبوط نہ ہو تو ہم ایسے کسی کو قتل کا الزام لگا دیں تو اس کا جواب تو ہم سے اللہ لے گا نا کیوں کہ ہم سے سوال کیا جائے گا کہ جب تمہارے پاس مضبوط دلائل نہیں تھے تو الزام کیوں لگایا؟؟؟ اس لئے بھئی ہم اپنی انا کی ضدی میں نہیں آتے بلکہ ہر خبر پر خود تحقیق کرتے ہیں پھر جا کر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ بات درست ہے یا نہیں۔ باقی امام داقطنی کا جواب امام شعبہ اور امام ابن مبارک کے قول سے دے دیا تھا لیکن جناب نے ہمت نہیں کی اس کے جواب دینے کی۔ باقی امام بن عبدالبر اور ابن کثیر کی کتب سے اسی بات کا جواب دے تھا کیونکہ ان کا خود کا موقف اپنی بات کے خلاف اس لئے میاں ائمہ حدیث کو پاگل نہ کہیں کیونکہ وہ بھی انسان تھے معصوم نہ تھے۔ اس لئے ان کا احترام لازم ہے لیکن ان کی ہر بات کی بھی تحقیق کی جائے گی پھر جاکر فیصلہ کیا جائے گا ۔ باقی شعیب الارنووط مقبل بن ہادی وغیرہ تمہیں مبارک ہوں ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
  15. ارے جناب اس میں کیا نئی بات تھی وہی پرانی روایات تھیں جن کا پہلے جواب دے دیا اب کی بار صرف کتابیں بدل رہے ہو جب کہ روایات تو ہی ہیں پھر فائدہ ایسے حوالے دینے کا؟؟ جن کے اقوال پیش کیے ہیں ان کا رد بھی ائمہ حدیث سے اور خود انہی ائمہ سے کیا ہے پھر ایسے اقوال پیش کرنے کا فائدہ؟؟ ارے میاں آپ نے کوئی صحیح روایت پیش کرنی تھی جو ابھی تک ناکام ہو پیش کرنے میں۔ اور اس کے علاوہ جس بات کا ہم رد کرتے ہیں ان کا ایک بھی جواب نہیں دیا ابھی تک !!! اس لیے جناب کے پاس کوئی دلائل ہوتے نہیں بس وہی پرانی روایات پیش کرتے رہتے ہو کتابیں بدل بدل کے جن کا ہم تحقیقی اور اصولی کئی بار جواب دے چکے ہیں ۔ اس لئے اگر پھر وہی پرانی روایات پھر پوسٹ کیں تو میں جواب دینے کا ذمہ دار نہیں ہوگا کیونکہ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں ایک ہی روایت کا بار بار جواب دیتا رہوں۔ ایڈمنز اور موڈریٹرز حضرات اس بات کا نوٹس لیں ایک ہی روایت پیش کی جارہی ہے کتابیں بدل بدل کر جن کا ہم کئی بار جواب دے چکے ہیں۔
  16. (اول) ابن کثیر 700 ہجری میں پیدا ہوا اور جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی یا 663 سال کا فاصلہ ہے اور اس قول کی کوئی سند یا دلیل بھی پیش نہیں کی گی۔ (دوم) ایسی بے دلیل باتوں اور بے سند باتوں کے بارے میں امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقلہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) (سوم) ابن کثیر کا خود عمل اس بات کے خلاف ہے ابن کثیر لکھتا ہے: والصحابة كلهم عدول عند أهل السنة والجماعة اہل سنت کے نزدیک سارے صحابہ کرام عادل ہیں (اختصار علوم الحديث، ص:220-222) (الباحث الحثیث:18) لہذا خود اسی امام کا رد ہو گیا ہے جس سے حوالہ دیا ہے۔
  17. ہم نے جناب سے امام عبدالبر اندلسی کے قول کی دلیل مانگی تھی جناب نے دلیل نہیں اور ان کا بے دلیل قول پوسٹ کر دیا۔ (اول) اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ امام عبدالبر اندلسی 37 ہجری میں جنگ صفین میں نہیں تھے اس لئے وہ عینی گواہ نہیں ہیں۔ (دوم) اسے بے دلیل و بے سند قول کے بارے میں امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقلہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) (سوم) امام ابن عبدالبر اندلسی کا قول تمام صحابہ کرام کے لئے یہ ہے: "أجمع أھل الحق من المسلمین و ھم اھل سنۃ والجماعۃ علی أن الصحابة كلهم عدول " مسلمانوں میں سے تمام اہل حق جو اہل سنت و جماعت ہیں کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں (الاستیعاب لابن عبدالبر بھامش الاصابۃ ج 1 ص 38) اس لئے خود اسی امام کے قول سے جناب کو جواب مل گیا ہے۔
  18. مجھے تو بہت ہنسی آ رہی ہے جناب کی علمی قابلیت پر ارے جناب کیا سوچ کر یہ صفحات پوسٹ کیے ہیں کبھی احادیث کے علل کا پتہ بھی کیا ہوتے ہیں؟؟ ارے میاں امام ابوحاتم اس میں یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کی سند کو صرف حسن بن دینار نے روایت کیا ہے یہ اور میں کوئی تصحیح نہیں کی اور حسن بن دینار متروک اور متہم بالکذب راوی ہے اس بات کا حوالہ پیچھے دے چکا ہوں۔ یہ کتاب جناب کے لئے کوئی فائدہ مند نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے ۔ باقی اس کا حاشیہ وہابی کا ہے اس میں موجود روایات کا پہلے جواب دے چکا ہوں۔
  19. میاں یہ حاشیہ وہابیوں کا ہے جسے نشان لگایا ہوا ہے یہ امام ابن ابی حاتم کا نہیں ہے اور جو حاشیہ میں وہابی نے جتنی روایات لکھی ہوئی ہیں ان کا جواب ہم پہلے جناب کو دے چکے ہیں جس کا جواب ابھی تک جناب نے نہیں دیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے وہی پرانی روایات ہیں جس کا پہلے جواب ہو چکا ہے بس تم کتابیں بدل بدل کے وہی پرانی بات دوہرا رہے ہو اور کچھ بھی اس میں نیا نہیں ہے۔
  20. اس روایت کے رواۃ ثقات ہیں لیکن سند منقطع ہے کیونکہ اس سند میں کلثوم بن جبر کا سماع حضرت عمروبن العاص سے ثابت نہیں ہے اس امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں منقطع قرار دیا ہے۔ جس کی عبارت اور صفحہ اوپر دے چکا ہوں۔ یہ بھی وہی پرانی روایت ہے جس کا پہلے کئی بار جواب دے چکا ہوں اسے بس کتاب بدل بدل کر پوسٹ کیا جارہا ہے اور کچھ نہیں ہے بس
  21. پہلی بات یہ ہے یہاں امام ہیثمی نے سند کی تصحیح نہیں کی بس یہ کہا ہے اس کے رجال الصحیح (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ اس میں عبدالاعلی بن عبداللہ بن عامر یہ مجہول راوی ہے اور یہاں امام ہیثمی نے امام ابن حبان کی وجہ سے ایسا کہا ہے کیونکہ امام ہیثمی کا منہج بھی امام ابن حبان والا ہے کیونکہ امام ابن حبان اس راوی کو ثقات میں درج کیا ہے لیکن امام حبان جمہور محدثین کے نزدیک مجہولین راویوں کی توثیق کرنے میں متساہل ہیں اس لئے ان کا کسی راوی کی توثیق میں منفرد ہونا قبول نہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے اصولی طور پر کیونکہ اس میں ایک مجہول راوی ہے۔ اس روایت کا جواب پہلے دے دیا گیا تھا اب پھر اسے پوسٹ کر دیا گیا بس کتاب بدل دی گی ورنہ روایت اور سند وہی ہے۔
  22. ہم نے جناب سے کلثوم بن جبر کی توثیق نہیں مانگی تھی بلکہ حضرت عمرو بن العاص سے سماع کی تحقیق پوچھی تھی جس کا جناب نے جواب نہیں دیا اور مزے کی بات جناب نے اوپر الجرح والتعدیل کی عبارت پیش کی ہے اس میں بھی کلثوم بن جبر کے شیوخ میں حضرت عمرو بن العاص کا نام نہیں ہے اور وہ عبارت یہ ہے: 926 - كلثوم بن جبر أبو محمد البصري والد ربيعة بن كلثوم روى عن ابى غادية مسلم بن يسار وسعيد بن جبير روى عنه عبد الله بن عون وحماد بن سلمة وعبد الوارث ومرثد بن عامر وابنه ربيعة بن كلثوم سمعت ابى يقول ذلك، نا عبد الرحمن انا عبد الله بن احمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلى قال سمعت ابى يقول كلثوم بن جبر ثقة، نا عبد الرحمن قال ذكره ابى عن اسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال كلثوم بن جبر ثقة. اس لئے تو کہتا ہوں جناب تحقیق سے کام نہیں لیتے بس جو ہمارا اعتراض ہوتا ہے اس کا جواب نہیں دیتے اوروں کو لے آتے اصل بات کی طرف آتے نہیں ہیں۔
  23. ارے جناب ہم نے کہیں بھی کلثوم بن جبر کو ضعیف کہا ہی نہیں تو یہ حوالے دینے کا فائدہ؟؟ اگر کہیں کلثوم بن جبر کو ضعیف کہا تو اس کا ثبوت پیش کرو؟؟ ہم نے صرف یہ کہا ہے کلثوم بن جبر کا سماع حضرت عمرو بن العاص سے ثابت نہی ہے جسے جناب نے ابھی تک ثابت نہیں کیا اور مفت میں کلثوم بن جبر کی توثیق کے حوالے دے ڈالے جن کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا اس بات سے۔
  24. امام ذہبی کے قول کا رد خود انہی کی کتاب سیر اعلام النبلاء سے دیکھا چکے ہیں اس لیے اس پر بات کرنے کا فائدہ نہیں میاں۔ باقی آپ نے جناب کو امام دارقطنی کا قول کا جواب دے دیا پھر اسے پوسٹ کر دیا کیونکہ امام دارقطنی نے اپنے قول کی دلیل کی کوئی متصل سند بیان نہیں کیونکہ امام دارقطنی جنگ صفین میں عینی گواہ موجود نہیں اس لیے اس بات کے جناب کے امام شعبہ قول کا پیش کرتے ہیں: امام شعبہ فرماتے ہیں: کل حدیث لیس فیہ حدثنا او اخبرنا فھو خل و بقل ہر ایسی روایت جس میں حدثنا یا اخبرنا ( یعنی ہمیں فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی) نہ ہو تو وہ کچرے ہوئے گھاس کی طرح بیکار ہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص13،المدخل فی اصول الحدیث للحاکم، ص17الکامل فی ضعفاءالرجال ج 1 ص 107) خود امام ابن مبارک فرماتے ہیں : مثل الذی یطلب امر دینہ بلا اسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلاسلم اس شخص کی مثال جو اپنے دینی معاملہ کو بغیر سند کے طلب کرتا ہے اس شخص کی طرح ہےجو بغیر سیڑھی کےچھت پر چڑھنا چاہتاہے۔ (ادب الاملاء والاستملاء ص12) خود دیکھ لو بے دلیل اور بے سند اقوال کی کیا اہمیت ہوتی ہے محدثین کے نزدیک امید ہے اب پھر ایسے اقوال پیش نہیں کرو گے۔
  25. ارے جناب امام ذہبی کا آخری موقف و رجوع ان کی آخری کتاب سیر اعلام النبلاء سے کئی بار دیکھا چکا ہوں جناب نے اس بات کا جواب دینا تو دور پھر وہی میزان الاعتدال کے پوسٹر کو بار بار چپکا رہے ہیں ارے جناب میزان الاعتدال امام ذہبی کی آخری کتاب نہیں ہے بلکہ سیر اعلام النبلاء ہی آخری کتاب ہے اس لئے سیر اعلام النبلاء نے امام ذہبی نے سند کو منقطع قرار دیا پھر اس کے بعد اپنی پرانی عبارت بھی نہیں لکھی جس سے واضح ہوتا ہے انہوں نے رجوع کر لیا تھا ورنہ آخری کتاب میں اپنی میزان الاعتدال والی بات لکھتے لیکن انہوں نے نہیں لکھی۔ باقی سیر اعلام النبلاء کی عبارت اور صفحہ پیچھے دے چکا ہوں اس لئے اس کا جواب ابھی تک آپ نے نہیں دیا اس لئے اس کا جواب دیں پہلے۔
×
×
  • Create New...