Jump to content

M Afzal Razvi

مدیر
  • کل پوسٹس

    395
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    62

سب کچھ M Afzal Razvi نے پوسٹ کیا

  1. الله کی عطا سے انبیاء علیہ السلام اجسام کے ساتھ بھی ایک سے زیادہ جگہ موجود ہو سکتے ہیں .حضرت امام عبدالوہاب الشعرانی فرماتے ہیں: اور معراج کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک جسم ایک وقت میں دو مکانوں میں حاضر ہو سکتا ہے جیسا کہ آپ صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے اولاد آدم کے ساتھ نیک بختوں میں اپنے آپ کو ملاحظہ فرمایا جب کہ آپ صلی الله تعالٰی علیہ وسلم حضرت آدم کے ساتھ پہلے آسمان پر ملے تھے۔ جیسا کہ گزرا اور اسی طرح حضرت آدم و موسٰی علیہما السلام اور ان کے علاوہ دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ حالانکہ بلاشک و شبہ وہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام زمین میں اپنی قبروں کے اندر ہیں دراں حالیکہ وہ آسمانوں میں بھی سکونت رکھتے ہیں۔ حضور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے مطلقاً اس طرح فرمایا کہ میں نے آدم کو دیکھا موسٰی علیہم السلام کو دیکھا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔ روح کی قید کے ساتھ مقید فرما کر یہ نہیں فرمایا کہ میں نے آدم علیہ السلام کی روح کو دیکھا( جس سے ثابت ہوا کہ آپ (صلی الله تعالٰی علیہ وسلم) نے بعینہ ان انبیائے کرام علیہم الصلوة و السلام کو ہی دیکھا نہ کہ صرف ان کی روح یا مثال کو) پھر آپ (صلی الله تعالٰی علیہ وسلم) نے چھٹے آسمان پر موسٰی علیہ السلام کے ساتھ گفتگو فرمائی حالانکہ موسٰی علیہ السلام اپنی قبر کے اندر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ جیسا کہ مسلم کی حدیث میں وارد ہوا ہے۔انتہائی افسوس اور تعجب اس کہنے والے پر جو یہ کہتا ہے کہ ایک جسم بیک وقت دو مکانوں میں نہیں ہو سکتا(اے کہنے والے) ذرا یہ تو بتا کہ اس قول کے ہوتے ہوئے تیرا ایمان اس حدیث پر کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر تو مومن ہے تو تجھے مان لینا چاہیئے اور اگر عالم ہے تو پھر اعتراض نہ کر اس لئے کہ علم تجھے اس اعتراض سے روکتا ہے اور تجھے حقیقت حال کا علم ہی نہیں اس لئے کہ یہ علم حقیقتہ الله تعالٰی کو ہی ہے اور تیرے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ تو اس حدیث میں یہ تاویل کرے کہ جو انبیائے کرام زمین میں ہیں وہ ان کے غیر ہیں جنہیں آپ صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے آسمانوں میں دیکھا۔ اس لئے کہ حضور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے رایت موسٰی کہ میں نے موسٰی کو دیکھا مطلقاً فرمایا ہے اسی طرح باقی انبیائے کرام کے متعلق جنہیں آپ نے (صلی الله تعالیٰی علیہ وسلم ) آسمانوں میں دیکھا(یہ نہیں فرمایا کہ آسمانوں میں ان کے غیر کو دیکھا) تو حضور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے جن کو موسٰی فرمایا اگر وہ بعینہ موسٰی نہ ہو تو ان کے متعلق یہ خبر دینا کہ وہ موسٰی ہیں جھوٹ ہو گا۔(العیاذبالله تعالٰی) (الیواقیت والجواھر ص ٣٦٩،٣٦٨)
  2. Imam Abu Hanifa Rehmatullah pe pesh ki jani wali Sari jarah Bekaar hy Aur ye Najdiyon Ki Jahalat hy.Warna Jarah Kis Imam Pe Nahi hy.
  3. Hairat hy Mujhy Apny Sunni Logon pe Jo Na Badmazhabon k aitraazat ko sahih se parhty hain aur Na khud Us pe Ghor-o-fikar karty hain.. Is Aitraaz mein toh khud wahabi Najdiyon ka Mazhab jhoota Sabit ho jata hy.. Agar Arab-o-Hijaz mein Biddat, Shirak nahi hoga Toh Najdiyon k Mujadid Ibn Abdul Wahab Najdi Kharji ne Wahan k Musalmano ka Qatl-e-Aam Kun kiya..?? Kun wahan k logon k Bnaye Mazraat ko shaheed kar diya gya..?? Najdi Toh Khud Bakty hain k Wahan shirak aam ho chuka tha , Hmary Najdi Shaikh Ne Wahan Iska Safiya kiya..?? Tab Unhy ye Hadees kun yad nahi ati hy..??
  4. Mera khayal hy ap is ayat , phir hadees aur usk bad wahabi ki sharha parhain apki confusaion door ho jaye gi..
  5. Is Ayat ki tafseer Shayd apko Jild # 11 mein mily gi.. link jild # 11 https://archive.org/details/smallTibyanUlQuranVol11
  6. Wa Alikum salam.. Tibyan-ul-Quran jild # 7 http://s595909773.online-home.ca/KB/tibyanul%20quran7/WQ.pdf Jild # 8 http://s595909773.online-home.ca/KB/tibyanul%20quran%208/wqb.pdf jild # 9 http://s595909773.online-home.ca/KB/tibyanul%20quran%209/WQ.pdf Jild # 10 http://s595909773.online-home.ca/KB/tibyanul%20quran%2010/wqb.pdf
  7. Bhai is ayat mein Lafz "ادری" k Ma'ani mein agy kafi wazahat hy.. Isk ilawa bhi isk jawab aur tafseel hy, jin mein se aik uper bhai ne btayai k ye Mansookh hy. ap Mazeed Tafseel k liye Ghulam rasool saeedi sahib ki Tafseer tibyan-ul-Quran ka mutalia karain.. aur in_sha_Allah Ham Is pe tafseel k sath scan pages k sath post krain gy..
  8. Is Tarjumy mein Imam Zehbi ki tehqeeq ko bhi shamil kiya gaya hy. Aur Hashiye mein un Kitabon ka Hawala bhi diya gya hy jin wo hadees majood hy..
  9. المستدرک للحاکم اردو جلد 1 http://www.mediafire.com/file/jr3lo4reg2i2ya9/Jild+1+%28Low+Quality%29.pdf جلد 2 http://www.mediafire.com/file/t99re0nqk82s129/Jild+2+%28Low+Quality%29.pdf جلد 3 http://www.mediafire.com/file/rrd1yog3eev5gy1/Jild+3+%28Low+Quality%29.pdf جلد 4 http://www.mediafire.com/file/dlca9ku06d3i3gp/Jild+4+%28Low+Quality%29.pdf جلد 5 http://www.mediafire.com/file/lth8uyu58vpllyx/Jild+5+%28Low+Quality%29.pdf جلد 6 https://mega.nz/#!DkwSjBzQ!TMq7afZiUppNvJ3x50f1bOt0zExMFc2UubkXdGn3EdA
  10. اعتراض: غیر مقلد زبیر زئی لکھتا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت میں علت قادحہ یہ ہے۔کہ حسین الجعفی اور ابو اسامہ کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم ہے جیسا کہ امام بخاری ، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی اور دیگر جلیل القدر محدثین کی تحقیق سے ثابت ہے۔ حافظ دارقطنی، حافظ ابن القیم اور بعض علماء کا یہ کہنا کہ یہ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ہی ہے لیکن ان کی تحقیق کبار علماء کی تحقیقات کے مقابلے میں قابلِ سماعت نہیں ۔لہٰذا یہ روایت عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (فضائل درودوسلام ص ٦٦) یعنی زبیر زئی کہنا چاہتا ہے۔۔ ١-اس روایت میں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم ہے اور جنہوں نے عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر لکھا ان سے خطا ہوئی۔ ٢-حسین الجعفی کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں کیونکہ حسین الجعفی کا اس سے سماع ثابت نہیں۔ جواب: اس علت کا جواب ملت اسلامیہ کے بے شمار محققین نے پر زور طریقے سے دیا ہے۔ ١-امام سخاوی فرماتے ہیں۔ لیکن امام دارقطنی نے اس علت کا رد کیا ہے اور کہا کہ حسین کا ابن جابرسے سماع ثابت ہے۔ اور اسی طرف خطیب بغدادی کا رجحان ہے۔ (القول البدیع ١٦٣) ٢-امام مجد الدین فیروزآبادی فرماتے ہیں۔ ‎بہتر یہ ہے کہ وہی موقف اختیار کیا جائے جو کہ امام ابوداؤد اور امام نسائی نے اختیار کیا ہے کیونکہ ان کی شان بلند اور وہ اسناد کے حال کو معترضین سے بہتر جانتے ہیں اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں(کہ ابن جابر سے حسین کا سماع ثابت ہے)امام ابن حبان وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ (الصلات والبشر في الصلاة على خير البشر ٤٩) ٣-ابن تمییہ کے شاگردِ خاص جناب علامہ ابن القیم نے تحریر کیا ہے: اور اس علت کا جواب کئی وجوہ سے دیا گیا ہے۔ اول یہ کہ حسین بن علی الجعفی نے عبدالرحٰمن بن یزید بن جابر سے سماع کی صراحت کی ہے۔ ابن حبان نےاپنی صحیح میں کہا۔ہم کو حدیث بیان کی ابن خزیمہ نے ان سے بیان کی ابوکریب نے انہوں نے کہا ہمیں بیان کی حسین بن علی نے انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی عبدالرحمن بن یزید بن جابر نے پس ان سے سماع کی صراحت ہے اور معترضین کا یہ کہنا کہ یہاں ابن جابر نہیں بلکہ ابن تمیم ہے اور راوی کو غلطی لگی کہ اس نے ابن جابر کا گمان کیا یہ بات بہت بعید ہے۔ کیونکہ حسین جیسے نقادو متبحرفن پر باوجود دونوں (ابن جابروابن تمیم) سے سماع حاصل ہونے اس کا مشتبہ رہنا عقل سے دور ہے۔ (جلاء الأفهام ٧٩،٨٠) ٤-حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: محدث عظیم امام میرک نے فرمایا کہ اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا اور امام حاکم نے اس کی تصحیح کی اور امام ابن حجر نے صحیح علی شرط بخاری کے الفاظ زیادہ کیے اور اس کو روایت کیا امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں امام نووی نے فرمایا اس کی سند صحیح ہے اور منذری نے کہا اس میں دقیق علت ہے جس کی طرف امام بخاری نے اشارہ کیا ہے اور اس کو میرک نے نقل کیا ہے۔ امام ابن دحیہ نے فرمایا کہ صحیح ہے عادل راوی عادل سے روایت کر رہا ہے اور جس نے یہ کہا کہ یہ منکر یا غریب ہے ایک خنفیہ علت کے سبب تو اس کی یہ بات بالکل لغو ہے کیونکہ امام دارقطنی نے اس علت کا رد کیا ہے۔ (مرقات ج ٣‘ ص ٤١٠) ٥-امام احمد بن حجر الھیتمی المکی فرماتے ہیں: اور دوسری صحیح روایت میں ہےاس شخص کے خلاف کہ جس نے اس میں طعن کیا ہے کہ جس کا ابن حزیمہ و ابن حبان اور حاکم نے اپنی اپنی صحیح میں اخراج کیا ہےاور امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اور امام بخاری کی شرط پر ہے لیکن انہوں نے اس کا اخراج نہیں کیااور امام نووی نے اذکار میں اس کو صحیح کہا ہے اور منذری نے اس کو حسن کہا اور امام ابن دحیہ نےکہا کہ یہ صحیح ہے اور محفوظ ہ عادل عادل سے روایت کر رہا ہے اور جس نے کہاکہ یہ منکر یا غریب ہے خنفیہ علت کے سبب سے تو اس نے بے کار کلام کیا ہے کیونکہ اس کو دار قطنی نے رد کیا ہے۔ (الجوھر المنظم ص ٤٢) ٦- تنبیہ: امام ابو حاتم کی جرح اصل میں ابو اسامہ پر تھی کہ اس نے ابن جابر سے نہیں سنا بلکہ ابن یمیم سے سنا اور غفلت سے ابن تمیم کی بجائے ابن جابر کہہ دیا اگرچہ حسین جعفی بھی ابن تمیم سے روایت کرتا ہے لیکن اس کا دونوں سے سماع ثابت ہے مگر ابو اسامہ کا صرف ابن تمیم سے ہے۔ بعض حضرات نے اس نکتہ کو نہ سمجھا اور وہ دونوں پر جرح کرنے لگے جیسا کہ ابن عبدالھادے نے کہاہے۔ ابو عبدالله محمد بن احمد بن عبدالھادی شاگرد ابن تمییہ نے کہا ہے: اور ان کا کہنا کہ حسین جعفی عبدالرحمن بن یزید بن تمیم سے روایت کرتا ہے یہ غلط قول ہے کیونکہ یہ روایت حسین نے عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے کی ہے اور ابو اسامہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم سے روایت کرتا ہے اور وہ اس کے دادا کے نام میں غلطی کر جاتا ہے اور کہتا ہے ابن جابر۔میں کہتا ہوں یہی بات حافظ ابوالحسن نے فرمائی ہے اور یہ زیادہ اقرب اور صحت کے زیادہ مشابہ ہے کہ حسین الجعفی ابن جابر سے روایت کرتا ہے اور جو ابن تمیم سے ذکر کرتا ہے وہ ابواسامہ ہے اور عبدالرحمن کے دادا کے نام میں غلطی کر جاتا ہے جیسا کہ اکثر محدثین نے فرمایاہے۔ پس یہ حدیث جس کو حسین نے ابن جابر نے انہوں نے ابوالاشعث سے انہوں نے اوس سے روایت کی۔یہ صحیح روایت ہے کیونکہ اس کے تمام رواة مشہور بلصدق و امانت اور مشہور بالثقاہت وعدالت ہیں اس لیے محدثین کی جماعت نے اس کی تصیح کی ہے جیسا کہ ابن حبان حافظ عبدالغنی مقدسی ابن دحیہ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات اور نہیں لائے۔اس کا کلام جس نے اس پر کلام کیا ہے اور امام ابو حاتم رازی نے جو علل میں بیان کیا ہے وہ صرف ابو اسامہ کی روایت کی تضعیف کرتا ہے حسین جعفی کی روایت کی تضعیف نہیں کرتا۔ (الصارم المنکی ٢٠٩،٢١٠) نتیجہ: اس روایت میں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ہی ہے نہ کہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم۔۔ حسین جعفی کا عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر سے سماع ثابت ہے۔ امام ابو حاتم رازی نے جو علل میں بیان کیا ہے وہ صرف ابو اسامہ کی روایت کی تضعیف کرتا ہے حسین جعفی کی روایت کی تضعیف نہیں کرتا۔ پس ثابت ہوا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس میں کوئی خرابی نہیں۔
  11. Wa Alikum salam.. Apk Sawal ka jawab isi forum k link pe yahan tafseel se diya gya hy.. http://www.islamimehfil.com/topic/2235-alcohol-wali-perfume/
  12. سیدنا عبد اللہ بن عمر کے شاگردرشید ابو عبد اللہ نافع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ابن عمر وطی فی الدبر کو جائز سمجھتے تھے،بلکہ انھوں نے تو عبد اللہ بن عمر سے اس کی حرمت کو روایت کیا ہے۔محدث کبیر جناب امام نسائی ابن عمر کے بارے رقم طراز ہیں: عن أبي النضر أنه قال لنافع مولى عبد الله بن عمر قد أكثر عليك القول أنك تقول عن بن عمر إنه أفتى بأن يؤتى النساء في أدبارها قال نافع لقد كذبوا علي ولكني سأخبرك كيف كان الأمر إن بن عمر عرض المصحف يوما وأنا عنده حتى بلغ نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم قال يا نافع هل تعلم ما أمر هذه الآية إنا كنا معشر قريش نجيء النساء فلما دخلنا المدينة ونكحنا نساء الأنصار أردنا منهن مثل ما كنا نريد من نسائنا فإذا هن قد كرهن ذلك وأعظمنه وكانت نساء الأنصار إنما يؤتين على جنوبهن فأنزل الله تعالى نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم ابو نظر سے مروی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمر کے غلام نافع سے کہا:تیرے بارے میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ تو ابن عمر اس سے ان کا یہ فتوی بیان کرتا ہے کہ عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنا جائز ہے۔ نافع نے جواب دیا:بلاشبہ انھوں نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے،بلکہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ(حقیقت میں) مسئلہ کیا تھا: ایک دن میری سامنے عبد اللہ بن عمر نے مصحف(قرآن مجید) کھولا،یہاں تک کہ وہ اس آیت پر پہنچے(نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) اور پوچھا: اے نافع! کیا تو جانتا ہے کہ اس آیت میں کیا بیان ہوا ہے؟بے شک ہم قریشی لوگ جیسے چاہتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے،لیکن جب ہم مدینےآئے اور انصاری عورتوں سے شادیاں رچائیں تو ہم ان سے بھی اسی طریقے سے جماع کرنا چاہا جیسے ہم اپنی عورتوں سے کرتے تھے،انصاری عورتوں نے اسے ناپسند کیا اور بہت غلط سمجھا،انصاری عورتوں پہلو کے بل جماع کیا جاتا تھا تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتمتمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ) سنن النسائي الكبرى ( 8978 ) سنده حسن . عن سعيد بن يسار قال قلت لابن عمر إنا نشتري الجواري فنحمض لهن قال وما التحميض قال نأتيهن في أدبارهن قال أف أو يعمل هذا مسلم سعید بن یسار سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا:ہم لونڈیاں خرید کر لاتے ہیں تاکہ ہم ان سے تحمیض کریں،عبد اللہ بن عمر نے پوچھا کہ یہ تحمیض کیا ہے؟ تو سعید بن یسار نے بتایا کہ ہم ان سے دبر میں جماع کرتے ہیں،یہ سن کر عبد اللہ بن عمر کہنے لگے کہ بڑے افسوس کی بات ہے! کیا کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے؟ سنن النسائي الكبرى : 8978 ) سنده صحيح ،الدارمي :1/260 )الطحاوي شرح المعاني :3/41) حافظ ابن کثیر سعید بن یسار کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ((وهذا إسناد صحيح ونص صريح منه بتحريم ذلك فكل ماورد عنه مما يحتمل فهو مردود إلى هذا المحكم )) ( التفسير 1/265 ( اس روایت کی سند صحیح ہے اور عبد اللہ بن عمر کی جانب سے اس فعل کے حرام ہونے پر صریح نص ہے،لہذا ان کےاس صریح حکم کے ہوتے ہوئےہر احتمال والی بات کو رد کر دیا جائے گا۔ امام ذہبی اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وقد جاءت رواية أخرى عنه بتحريم أدبار النساء وما جاء عنه بالرخصة فلو صح لما كان صريحا بل يحتمل أنه أراد بدبرها من ورائها في القبل وقد أوضحنا المسألة في مصنف مفيد لا يطالعه عالم إلا ويقطع بتحريم ذلك )) ( السير 5/100) و انظر ( السير 14/128) بلاشبہ عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کے حرام ہونے کی روایت بھی مروی ہے،اور ان سے جو جماع فی الدبر کے جواز کے بارے منقول ہے اگر چہ وہ صحیح ہے مگر اس میں صراحت نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ دبر میں آنے سے ان کی مراد دبر کے پیچھے سے قبل میں آنا ہے،ہم نے اس مسئلے کی وضاحت ایک ایسی مفید کتاب میں کردی ہے جو بھی عالم اسے کتاب کا مطالعہ کرے گا وہ اس فعل ضرور حرام کہے گا۔'' عبد اللہ بن عمر سے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے راویوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا ہے،عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم بن عبد اللہ نے بھی اس معاملے میں نافع کی تردید کی ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کی طرف اس فعل شنیع کی نسبت غلط ہےاور یہ سب راویوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے،علامہ طحاوی سالم اور نافع کے اختلاف کو بیان کرنے کے لیے یہ روایت لے کرآئے ہیں: عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَنْ يُحَدِّثَهُ بِحَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: " أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا فِي إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ، فَقَالَ سَالِمٌ: كَذَبَ الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: أَخْطَأَ، إِنَّمَا قَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْتَيْنَ فِي فُرُوجِهِنَّ مِنْ أَدْبَارِهِنَّ "(شرح معانی الآثار:42/3،المخلصیات، أبو طاهر المخَلِّص:353/2، الطبري في «تفسيره» (2/394) جناب موسی بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس کے والد نے سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ وہ اسے نافع کی وہ حدیث بیان کرے جسے وہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کو جائز کہتے تھے،تابعی جلیل جناب سالم بن عبد اللہ یہ سن کے کہنے لگے : اس بندے(نافع) کو غلطی لگی یا اس سے خطا ہوئی ہے،عبد اللہ بن عمر نے صرف یہ کہا ہے:عورتوں سے دبر کی جانب سے فرج میں جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  13. Kazb E Bari K Akiday Pe Deobndio Ka Tafsir E Naeemi Pe Aitraz ka jawab. http://www.islamimehfil.com/topic/24514-kazb-e-bari-k-akiday-pe-deobndio-ka-tafsir-e-naeemi-pe-aitraz/
  14. Lafz (أَبِي) siraf Walid k hi liye istamal nahi hota hy.. Chacha k liye bhi istamal howa hy, Balky Hmary Aaqa ki Waziha ahadees majood hain jin mein (أَبِي) Chacha k liye bola gya hy.. Hadees ka urdu aur English Tarjuma Wahabi mutarjim se..
  15. Bhai Imam Ahmad Raza khan rehmatullah ne Fakhr-e-Jahan Kehny ko siraf be_Ma'ani likha hy.. Aur Na hi isy ghalt kaha aur na Is se mana kiya k aisa likhna gunah.. Baqi jo hawaly agar unk scan pages hon toh Laga dain , us se daikha ja saky k Wahan puri baat kiya hy.. Bhai 1 baat yad rakhna Jahan Aaqa ki zaat ki baat hoti hy, Wahan pe Sunni Qayas K ghory nahi doraty wahabiyon ki tarha, Intizar krain apko iska in_Sha_Allah ilmi jawab dalail k sath diya jaye ga..
  16. toh Ye post lagana Banti..?? Is se ap kiya sabit karna chahty..? Chief of Army Staff ne toh Meelad_ul_Nabi bhi mnaya tha..? Phir usy hujjat mano gy kiya..??
  17. Adeel Salafi sahib ye kiya hy..? Wesy thread toh Band nahi howa, Albata Ap Logon ki Copy_Paste khatam ho gyi hy..
  18. Sunni bhaiyo kitna Acha Hota Agar Ap Loag Tafseer Rooh_ul_Ma'ani k us se agly pages bhi read kar lety Jahan se Tawasul k munkireen ne Aitraaz kiya hy k Aya Sari baat yahi hy Us tafseer mein ya kuch aur bhi kaha gya hy.. Allama Alusi hanafi Rehmatullah k Bety wahabi ho gaye aur tehreefat ki, wo aik alag masla.. Magar Bgair Tehqeeq Direct keh dyna k wo tafseer ham pe hujjat nahi.. ye toh bhaiyo Wahabiyon ka tareeqa hy.. Aik bhai ne Tafseer Naeemi se Aitraaz naql kiya k Sahib Tafseer rooh_ul_Maani waly Waseely k sakht munkir thy..per Bhai Jin sunni ulma ne Isi Tafseer se Waseely k isbaat pe dalail diye hain wo..? phir Tafseer naeemi mein bhi sunniyon ka ikhtilaaf hy k unk bety ne Kahan Se likhna shuru ki agy se..
  19. محدث شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں سورة البقرہ میں آیت وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ کے تحت لکھتے ہیں۔ فقہاء کرام نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔اس کے بعد شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں۔ کہ معتزلہ کے مذہب میں بندہ کا عمل بندہ کی پیداوار ہے۔الله تعالی نے اس کے عمل کا اجر مقرر کیا ہے۔یہ اجر بندے کا حق ہے،ایسا حق کہ جو حقیقی ہے۔ یہ مذہب معتزلیوں کا ہے لہذا فقہاء کرام نے اس کے استعمال سے منع کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب کا عکس۔۔
×
×
  • Create New...