Banda ager Kisi Gunah se Tauba karle, to Allah ki rahmat itni wasee hai kay us se us par muakizah nahi hota. Neez, ager gunah aisa ho kay jis ki bina par dosre bhi gunah mai mubtala hogaye toh ager woh us kay matahat hain to Sharai hudud ke ander rehtay huay sakhti se un ko rokay. Aur ager aisa nahi, toh apni istataat kay mutabiq un ko us burai se mana karde, phir ager woh ruk jayen, to fabiha. Warna, dosre afraad kay fail ka gunah un hi kay sar par ho ga, is taaib shaks par nahi.
maslan ek singer tauba karta hai, to us ko chahyey kay apnay fans ko yeh bata de kay mai nay is buray kaam se tauba karli hai. Lihaza, aap bhi is se bachay aur meray ganay jis kay pass hon woh us ko delete kardein.
Aisay hi ek suwal ka jawab Imam Ahmed Raza se talab kia gay toh aap nay farmaya:
مسئلہ ۹: از ڈونگر گڑھ ضلع رائے پور سنٹرل پرونسس مرسلہ شیخ حسین الدین احمد صاحب ۸/ شعبان ۱۳۱۳ھ
زید شراب پیتاہے اور زید عمرو کو ورغلا کر شراب پلائی وہ بھی پینے لگا تھوڑے عرصہ میں زید تائب ہوا اور قطعا شراب چھوڑ دی مگر عمر وپیتا رہا، تو کیا عمرو کے موأخذہ میں زید بھی پکڑا جائے گا، اگر پکڑا جائے گا تو زید کے بچنے کی کون سی صور ت ہے؟ بینوا توجروا
الجواب: سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شیئ بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر، سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فورا چھوڑدے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے جو چارہ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلا نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، ربا سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھورڈینا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے جو مال جس جس سے چینا ، چرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تصدق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگرتصدق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔
شرح فقہ اکبر میں ہے : قدنصوا علی ان ارکان التوبۃ ثلثۃ الندامۃ علی الماضی والا قلاع فی الحال والعزم علی عدم العود فی الاستقبال ھذا ان کانت التوبۃ فیما بینہ وبین اﷲ کشرب الخمر واما ان کانت ھما فرط فیہ من حقوق اﷲ کصلٰوۃ وصیام وزکوٰۃ فتوبتہ ان یندم علی تفریطہ اولا ثم یعزم علی ان لایعود ابداء ولو بتاخیر صلاۃ عن وقتہا ثم یقضی مافاتہ جمیعا وان کانت مما یتعلق بالعباد فان کانت من مظالم الاموال فتتوقف صحۃ التوبۃ منہا مع ماقدمناہ فی حقوق اﷲ تعالٰی علی الخروج عن عہدۃ الاموال وارجاء الخصم بان یتحلل عنہم ایردھا الیہم اوالی من یقوم مقامہم من وکیل او وارث وفی القنیۃ رجل علیہ دیون لاناس لایعرفہم من غصوب اومظالم اوجنایات یتصدق بقدر ھا علی الفقراء علی عزیمۃ القضاء ان وجدھم مع التوبۃ علی اﷲ تعالٰی فیعذر انتہی وان کانت المظالم فی الاعراض کالقذف والغیبۃ فیجب فی التوبۃ فیہا مع قدمناہ فی حقوق اﷲ تعالٰی ان یخبرا صحابہا بما قال من ذٰلک ویتحلل منہم فان تعذر ذٰلک فلیعزم علی انہ متی وجدھم تحلل منہم فان عجزبان کان میتا فلیستغفراﷲ والمرجو من فضلہ وکرمہ ان یرضی خصمائہ من خزائن احسانہ فانہ جواد کریم رؤف رحیم ۱؎ اھ ملتقطا۔
اہل علم نے تصریح فرمائی ہیے کہ توبہ کے ارکان تین ہیں (۱)گزشتہ جرم پر ندامت یعنی نادم وشرمسار ہونا (۲)موجودہ طرز عمل کو درست رکھنا اور گناہ کا ازالہ وبیخ کنی کرنا (۳) آئند کے لئے گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا، یہ اس وقت کا کام ہے جبکہ توبہ بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو، جیسے شراب نوشی، لیکن اگر اس نے حقوق اللہ میں کوتاہی کی اور ان سے توبہ کرنا چاہے جیسے نماز ،روزے اور زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی کی تو اس کے لئے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کو تاہی پر نادم ہو پھر پختہ ارادہ کرے کہ آئندہ ان کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہیں لے گا اور انھیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا، پھر تمام ضائع کردہ حقوق کی قضا کرے اور اگر ضائع کردہ حقوق کا تعلق بندوں سے ہو تو صحت تو بہ اس پر موقوف ہے جس کو ہم نے پہلے حقوق اللہ کے ضمن میں بیان کردیا ہے کہ اس کی صورت میں اموال کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا اور مظلوم کو راضی کرنا ضروری ہے جن کا مال غصب کیا گیا، وہ انھیں واپس کیاجائے یا ان سے معاف کرایا جائے اور وہ متعلقہ افراد موجود اوربقید حیات نہ ہوں تو ان کے ورثاء متعلقین اور قائم مقام افراد و وکلاء کے ذریعے اموال کی واپسی او ر معافی عمل میں لائی جائے، قنیہ میں ہے اگر کسی شخص پر لوگوں کے قرضہ جات مثلا غصب، مظالم، اورجنایات کی قسم سے ہوں اور توبہ کرنے والا ان متعلقہ افراد کو نہیں جانتا پہچانتا تو اتنی مقدارفقراء ومساکین میں قضا کی نیت سے خیرات کردے، اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں توبہ کرنے کے باوجود اگر ان افراد کو کہیں پالے تو ان سے معذرت کرے (یعنی ان سے معافی مانگے اھ )اگر مظالم کا تعلق عزت وغیرہ سے ہو جیسے کسی گمراہ کو گالی دینا، غیبت کرنا، تو ان میں وجوب توبہ اس شرط سمیت جو ہم نے حقوق اللہ کے ضمن میں بیان کئے ہیں یہ ہے کہ جو کچھ اس نے ان کے بارے میں کہا انھیں اس جرم پر اطلاع دے اور ان سے معافی مانگے، اگر یہ مشکل ہو تو پختہ ارادہ کرلے کہ جب بھی انھیں پائے گا تو ضرور معذرت کرے گا، اگر اس طریقہ سے بھی عاجز ہوجائے یعنی مظلوم وفات پاگیا ہو تو پھر اللہ تعالٰی سے بخشش مانگے، اور اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے قوی امید ہے کہ وہ مظلوم مرحوم کو اپنے جو دواحسان کے خزانوں میں سے دے کر راضی کردے گا اور دونوں میں صلح کر ادے گا کیونکہ وہ بے حد سخی، کرم کرنے والا۔ انتہائی شفقت فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ انتخاب کردہ عبارت مکمل ہوگئی۔
(۱؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر التوبۃ وشرائطہا مصطفی البابی مصر ص۵۹۔۱۵۸)
بھائی اپ اس کتاب کا مطالعہ کریں https://ia902700.us.archive.org/5/items/MiladunNabiYaWafatunNabi/Miladun-Nabi-Ya-Wafatun-Nabi.pdf
دیوبندی فتویٰ. سرکار کی تاریخ ولادت ١٢ ربیع الاول ہے
http://www.islamimehfil.com/topic/21757-12-rabi-ul-awal-youm-e-wafat-nahi%DB%94-deobandi-fatwa/
جو خاوند اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا وہ یقیناً گناہ گار ہے. الگ گھر مانگنا آپ کا حق ہے . بہتر ہے کہ ان مسائل میں گھر کے بڑوں سے رجوع کیا جائے اور افہام و تفہیم سے مسئلہ کو حل کیا جائے