
Khalil Ahmadi
اراکین-
کل پوسٹس
4 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
سب کچھ Khalil Ahmadi نے پوسٹ کیا
-
حیاتِ عیسیٰؑ کے قائلین ’’ختم نبوت‘‘کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں ’’ہم لفظی اور حقیقی ہر معنی میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبییّن تسلیم کرتے ہیں اور بادب اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جرأت کرتے ہیں کہ مُنکرینِ حدیث کے سوا ہمارے تمام مخالف فرقوں کے علماء آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان معنوں میں خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتے۔ وہ یہ کہنے کے باوجود کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں یہ متضاد ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ کو نہ تو جسمانی لحاظ سے ختم فرما سکے نہ ہی رُوحانی لحاظ سے۔ آپ ؐ کے ظہور کے وقت ایک ہی دوسرا نبی جسمانی لحاظ سے زندہ تھا مگر افسوس وہ آپ ؐ کی زندگی میں ختم نہ ہو سکا آپؐ وفات پاگئے لیکن وہ زندہ رہا اور اَب تو وصالِ نبوی ؐ پر بھی چودہ سَو برس گزرنے کو آئے لیکن ہنوز وہ اسرائیلی نبی زندہ چلا آرہا ہے۔ ذرا انصاف فرمائیے کہ خاتَم کے جسمانی معنوں کے لحاظ سے حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک دونوں میں سے کون خاتَم ٹھہرا۔ پھر یہی علماء رُوحانی لحاظ سے بھی عملاً مسیح ناصری ؑ ہی کو خاتَم تسلیم کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم فیض رسانی کے لحاظ سے بھی مسیح ناصری ؑ کی فیض رسانی کو ختم نہ فرما سکے۔ دیگر نبیوں کے فیض تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے اور نجات کی دوسری تمام راہیں بند تھیں۔ ایک مسیح ناصری ؑ زندہ تھے مگر افسوس کہ ان کے فیض کی راہ بندنہ ہو سکی۔ یہی نہیں ان کی فیض رسانی کی قوت تو پہلے سے بھی بہت بڑھ گئی اور اُس وقت جبکہ اُمّتِ محمدیہ آنحضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی عظیم الشان قوتِ قدسیہ کے باوجود خطرناک رُوحانی بیماریوں میں مُبتلا ہو گئی اور طرح طرح کے رُوحانی عوارض نے اُسے گھیر لیا تو براہِ راست آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قُدسیہ تو اِس اُمّتِ مرحومہ کو نہ بچا سکی ہاں بنی اسرائیل کے ایک رسُول کے مسیحی دَموں نے اُسے موت کے چنگل سے نجات دلائی اور ایک نئی رُوحانی زندگی عطا کی۔ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کیا صریحاً اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھنے والے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو افاضۂ فیض کے لحاظ سے بھی سب نبیوں کا ختم کرنے والا نہیں سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نبی جو اُس وقت زندہ تھا اُس کی فیض رسانی کی قوت کو بھی آپ ؐ ختم نہ فرما سکے بلکہ نعوذ باﷲ وہ اِسرائیلی نبی اِس حال میں فوت ہؤا کہ اُمّتِ محمدیہ کا آخری رُوحانی مُحسن بن چُکا تھا۔ غور فرمائیے! کہ کیا جسمانی اور رُوحانی دونوں معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم النّبییّن تسلیم نہیں کیا جارہا؟ کیا یہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح گُستاخی نہیں؟ کیا یہ آیت خاتم النّبییّن کی رُوح کو سبوتاژ کرنے کے مترادف نہیں؟ اور پھر بھی یہ دعویٰ ہے کہ احمدی خاتم النّبییّن کے مُنکر اور ہم خاتم النّبییّن کے قائل بلکہ محافظ ہیں۔ کیا دُنیا سے اِنصاف بالکل اُٹھ چکا ہے؟ کیا عقل کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا؟ کیا اِس قضئے کو عَدل کے ترازو پر نہیں تولا جائے گا بلکہ محض عددی اکثریت کے زور پر حق و باطل اور اُخروی نجات کے فیصلے ہوں گے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ خدا ہر گز نہ کرے کہ ایسا ہو۔ لیکن ایسا اگر ہو تو پھر تقویٰ اﷲ کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں اسے جنگل کا قانون کہا جاتا اور کیوں اِس نااِنصافی کے لئے اﷲ اور رسول ؐ کے مقدّس نام استعمال کئے جاتے ہیں۔ ویرانے کا نام کوئی اچھا سا بھی رکھ لیں ویرانہ ویرانہ ہی رہے گا۔ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم مطلق طور پر آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور تاویلیں کر کے ایک اُمّتی اور ظِلّی نبی کے آنے کی راہ نکال لیتے ہو اور اِس طرح ختمِ نبوت کو توڑنے کے مُرتکب ہو جاتے ہو۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ایسے اُمّتی نبی کا اُمّتِ محمدیہ ہی میں پیدا ہونا جو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا کامل غلام ہو اور اپنے ہر رُوحانی مرتبے میں سَرتا پا آپؐ ہی کے فیض کا مرہونِ منّت ہو ہر گز آیت خاتم النّبییّن کے مفہوم کے منافی نہیں کیونکہ فانی اور کامل غلام کواپنے آقا سے جُدا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اِس بات کے مکلّف ہیں کہ اپنے اس مؤقف کو قرآنِ حکیم سے، ارشاداتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے، اقوالِ بزرگانِ اُمّت سے اور محاورہئ عرب سے ثابت کریں اور اِس سلسلہ میں ایک سیر حاصل بحث آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے مگر اس سے پہلے ہمیں رخصت دیجئے کہ ہم اُن لوگوں کا کچھ محاسبہ کریں جو ہم پر مُہرِنبوت کو توڑنے کا اِلزام لگاتے ہیں کہ خود ان کے عقیدہ کی حیثیت کیا ہے۔ وہ بظاہر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو مطلقاً بلا شرط و بِلا اِستثناء ہر معنٰی میں آخری نبی مانتے ہیں اور آپ ؐ کے بعد کسی قسم کے نبی کی بھی آمد کے قائل نہیں لیکن ساتھ ہی اگر پوچھا جائے تو یہ اقرار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ”سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو ضرور ایک دن اِس اُمّت میں نازل ہوں گے”۔ جب آپ ان پر یہ جرح کریں کہ ابھی تو آپ نے یہ فرمایا تھا کہ آنحضورؐ مطلقاً، بِلااستثناء ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر اَب آپ کو یہ اِستثناء قائم کرنے کا حق کیسے مِل گیا؟ تو اس کے جواب میں اِنتہائی بے معنی اور بے جان تاویل پیش کرتے ہیں کہ وہ چونکہ پہلے نبی تھے اِس لئے ان کا دوبارہ آنا ختمِ نبوت کی مُہر کو توڑنے کا موجب نہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ موسوی شریعت ساتھ لے کر آئیں گے؟ تو جواب مِلتا ہے نہیں بلکہ وہ بغیر شریعت کے آئیں گے۔ پھر جب پوچھا جائے کہ اس صورت میں اوامرونواہی کا کیا بنے گا؟ کس بات کی نصیحت فرمائیں گے اور کِس سے روکیں گے تو ارشاد ہوتا ہے کہ پہلے وہ اُمّتِ محمدیہ کے ممبر بنیں گے پھر اس شریعت کے تابع ہو کر نبوت کریں گے۔ مزید سوالات کے جوابات ان کے اختیار میں نہیں کہ آیا مسیح ناصری ؑ کو شریعتِ محمدیہ کی تعلیم علماء دیں گے یا براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ ان کو قرآن، حدیث اور سُنّت کا عِلم دیا جائے گا لیکن یہ امر تو اس جِرح سے قطعاً ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو مطلقاً آخری نبی نہیں مانتے بلکہ یہ استثناء رکھتے ہیں کہ ایسا نبی جو پُرانا ہو صاحبِ شریعت نہ ہو اُمّتی ہو اور لفظاً لفظاً شریعتِ محمدیہ کا تابع ہو اور اسی کی تعلیم و تدریس کرے مُہرِ نبوت کو توڑے بغیر بعد ظہورِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آسکتا ہے۔ ہم اہلِ عقل و دانش اور اہلِ انصاف سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ایسا اعتقاد رکھنے والے کے لئے کسی بھی منطق یا انصاف کی رُو سے یہ کہنا جائز ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا۔‘‘ (محضرنامہ ۔ صفحہ29تا32)
-
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر: 1۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔ 2۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔ 3۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔ 4۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔ 5۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔ 6۔ پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔ 7۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟ قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت 6) میں فرمایا ’’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبیین ہوا اور وہی خاتم النبیین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ 8۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ترجمہ :۔ کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔ (تفسیر القرآن الحکیم جزء 5 صفحہ 247) ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔ تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے: ترجمہ :۔ ’’ مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔ (تفسیر الدر المنثور جزء2 صفحہ 226) دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت 19)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔ حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کُلُّ مُؤْمِن صِدِّیْقٌ وَ شَہِیْدٌ‘‘ (الدر المنثور الجزء 6 صفحہ 176) کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔ پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔ 9۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔
-
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان فرماتے ہیں:۔ ۔ ’’ہمارے ہادی اور سیّد مولیٰ جناب ختم المرسلین نےمسیح اوّل اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔ظاہر فرمایا ہے کہ مسیح اوّل اور مسیح ثانی کے حلیہ میں بھی فرق بیّن ہو گا۔چنانچہ مسیح اوّل کا حلیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کی رات میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ درمیانہ قد اور سرخ رنگ اور گھنگروالے بال اور سینہ کشادہ ہے دیکھو صحیح بخاری صفحہ489 لیکن اسی کتاب میں مسیح ثانی کا حلیہ جناب ممدوح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ گندم گوں ہے اور ا س کے بال گھنگر والے نہیں ہیں اور کانوں تک لٹکتے ہیں .اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ دونوں ممیز علامتیں جو مسیح اول اورؔ ثانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہیں کافی طور پریقین نہیں دلاتیں کہ مسیح اول اورؔہے اور مسیح ثانی اور ان دونوں کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے جو باعتبار مشابہت طبع اور روحانی خاصیت کے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب و اذکرفی الکتاب مریم) (توضیح مرام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 59)