Jump to content

abdulwahab

اراکین
  • کل پوسٹس

    60
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    8

سب کچھ abdulwahab نے پوسٹ کیا

  1. الهداية الكبرى ص159 الحسين بن حمدان الخصيبي ولدت فاطمة (عليها السلام) من أمير المؤمنين (عليه السلام): الحسن والحسين ومحسنا سقطا وزينب وام كلثوم وكان اسمها آمنة، وولدت الحسن والحسين من فخذها الأيمن وام كلثوم وزينب من فخذها الأيسر. ومثله ما روي عن وهب بن منبه ان مريم ولدت عيسى (صلوات الله عليه) من فخذها الأيمن ====================================== عيون المعجزات ص 51 حسين بن عبد الوهاب وروي ان فاطمة عليها السلام ولدت الحسن والحسين من فخذها الايسر وروى ان مريم (ع) ولدت المسيح (ع) من فخذها الايمن ============================================ بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار (عليهم السلام) ج 43 ص( 256 ) 34 - عيون المعجزات للمرتضى: روي أن فاطمة ولدت الحسن والحسين من فخذها الايسر، وروي أن مريم ولدت المسيح من فخذها الايمن، ============================================ نام کتاب: مدينة المعاجز ج3 : سيد هاشم البحراني صفحه: 390 قال السيد: وروي أن فاطمة - عليها السلام - ولدت الحسن والحسين من فخذها الايسر. وروي أن مريم - عليها السلام - ولدت المسيح - عليه السلام - من فخذها الايمن ========================================= الخصائص الفاطميه ج 2 الشيخ محمد باقر كجورى ص53 و الحسين من فخذها الأيسر، و روي أن مريم ولدت المسيح من فخذها الأيمن. ================================= الكوثر في احوال فاطمة بنت النبي الاطهر ج 7 سيد محمد باقر موسوى أنّ فاطمة عليهاالسلام ولدت الحسن عليه السلام والحسين عليه السلام من فخذها الأيسر. و روي: أنّ مريم ولدت المسيح من فخذها الأيمن
  2. تفسیر عیاشی میں جناب امام محمد باقر سے منقول ہے کہ کوئ مومن یا کافر نہیں مرتا اور قبر میں نہیں رکھا جاتا یہاں تک کہ اسکے اعمال جناب رسول خدا ﴿ص﴾ اور جناب امیر المومنین اور سلسلہ بی سلسلہ جناب صاحب العصر تک پیش نہ ہو جائیں۔ ترجمہ مقبول، سورہ توبہ ، ص ۳۲۳
  3. پس وصیت فرمود ای خواهر گرامی ترا سوگند میدهم کر چون من از تیغ اهل جفا بعالم بقا رحلت نمایم گریبان چاک مکنید و رو مخراشید و واویلاه مگریید. (ملاباقر مجلسی متوفی 1110هـ, جلاءالعیون ج 2 ص553 مطبوعه کتاب فروشی اسلامیه تهران 1398 هـ) پس دیگر بار اهل بیت رسالت و پردگیان سرادق عصمت و طهارت را وداع نمود و ایشان را بصبر و شکیبای امر فرمود و بعده مثوبات غیر متناهی الهی تسکین داد و فرمود که چادر ها بر سر گیرید و آمادهء لشکر مصیبت بلا گردید و بدانید که حق تعالی حافظ و حامی شما است و شمارا از شر اعدا نجات میدهد و عاقبت شمارا بخیر میگرداند و دشمنان شمارا بانواع بلاها مبتلا می سازد و شمار را به عوض این بلاها دردنیا و عقبی بانواع نعمتها و کرامتها می نوازد دست از شکیبای بر مدارید و کلام ناخوشی بر زبان مدارید که موجب نقص ثواب شما گردد.(ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ ,جلاءالعیون ج 2 ص 576, مطبوعه کتاب فروشی اسلامیه تهران,1398 هـ) پس سکینه دختر آن حضرت چادر از سر کشید و گفت ای پدر بزرگوار تن به مرگ داده و مارا به کی میگذاری آن امام مظلوم گریست و فرمود ای نوردیده من هر که یاوری ندارد یقین مرگ را بر خود قرار میدهد ای دختر یاور هرکس خدا است و رحمت خدا دردنیا و عقبی از شما جدا نخواهد شد صبر کنید بر قضاهای خدا شکیبای ورزید که بزودی دنیا فانی منقضی میگردد و نعیم ابدی آخرت زوال ندارد (ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ,جلا العیون ج2 ص 575,مطبوه کتاب فروشی اسلامیه تهران, 1398 هـ) و فرمود که ای خواهر باجان برابر, حلم و بردباری پیشه خود کن وشیطان را بر خود تسلط مده و بر قضای حق تعالی صبر کن و فرمود که اگر می گذاشتند مرا با استراحت خود را بلکه نمی افکندم زینب خاتون گفت این بیشتر دل مارا مجروح می گرداند که راه چاره از تو منقطع گردیده و بضرورت شربت ناگوار مرگ را مینوشی و مارا غریب و بیکس و تنها درمیان اهل نفاق و شقاق می گذاری پس دستهای خودرا بلند کرد و گلگونه خود را خراشید و مقتع را از سر کشید و گریبان طاقت چاک کرد و بی هوش افتاد آن امام غریب برخواست و آب بر روی خواهر گرامی خود پاشید چون بهوش باز آمد گفت ای خواهر نیک اختر از خدا بترس و مقضای حق تعالی راضی شود بدانکه همه اهل زمین شربت ناگوار مرگ را می چشند و اهل آسان باقی نمی مانند و بجز ذات مقدس حق تعالی همه چیز در معرض زوال وفناست او همه را مییراند و بعد از مردن مبعوث می گرداند و او منفرد اس در بقا و برادر و مادر من شهید شدند وهمه از من بهتر بودند و حضرت رسول خدا (صلی الله علیه و اله و سلم) که اشرف خلایق بود در دنیا نماند و رحلت فرمود و بسیاری از این مواعظ پسندیده برای آن نوردیده بیان فرمود پس وصیت فرمود که ای خوهر گرامی ترا سوگند میدهم که چون من از تیغ اهل جفا بعالم بقا رحلت نمایم گریبان چاک مکنید و رو مخراشید و واویلا مگویید (ملا باقر مجلسی متوفی 110هـ ,جلاءالعیون ج2 ص 553, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران, 1398 هـ) ابن بابونه به سند معتبر از امام محمد باقر روایت کرده است که حضرت رسول در هنگام وفات خود بحضرت فاطمه فرمود ای فاطمه چون بمیرم روی خود را برای من مخراش و گیسوی خود را پریشان مکن واویلاه مگو و نوحه گران را مطلب. (ملاباقر مجلسی متوفی 1110هـ, حیات القلوب ج 2 ص 687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران) فرات بن ابراهیم بسند معتبر از جابر انصاری ورایت کرده است که رسول خدا در مرض آخر خود با حضرت فاطمه گفت(الی قوله) ای فاطمه برای پیغمبر گریبان نمی باید برید و روی نباید خراشید و واویلا نباید گفت و لیکن بگر آنچه پدر تو در وفات ابراهیم فرزند خود گفت که چشمان می گریند و دل بدردی اید. (ملا باقر مجلسی متوفی 110 هـ,حیات القلوب ج 4 ص687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران) ام حکیم دختر حارث بن هشام که زن عکرمه پسر ابوجهل بود گفت یا رسول الله آن کدام معروفست که خدا گفته است معصیت تو در آن نکنیم حضرت فرمود در مصیبت طپانچه بر روی خود مزنید و روی خود را مخراشید و موی خود را مکیند و گریبان خود را چاک نکنید و جامه خود را سیاه مکنید وواویلا مگریید پس براین شرطها حضرت بایشان بیعت کرد. (ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ , حیات القلوب ج2ص640,مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران) روایت کرده است از امام محمد التقی که امیر المومنین فرمود روز من و فاطمه بخدمت خضرت رسول (ص) رفتیم و آنحضرت بسیار میگریست عرض کردم پدرومادرم فدای تو باد یا رسول الله چه چیز سبب گریه تو شده است؟ فرمود یا علی شب که مرا به آسمان بردند چند زنی از امت خود را در عذاب شدید دیدم و گریه من برای اشانست (الی قوله) آنکه بصورت سگ بود و آتش درد برش می کردند خواننده و نوحه کنند و حسود بوده. (ملا باقر مجلسی متوفی 110هـ,حیات القلوب ج2ص293-292, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران) پھردوسری بار اہل بیت رسالت اور خاندان اہل طہارت کو آپ نے الوداع کہا اور ان کو صبر اور ضبط کا حکم فرمایا اور اللہ تعالٰی کے غیر متناہی اجر و ثواب کے ساتھ تسلی دی اور فرمایا کہ اپنے سر پر چادر رکھو اور رنج و مصیبت کے لشکر کے لیے تیار ہو جاؤ ، اور جان لو کہ اللہ تعالٰی تمہارا حامی اور حافظ ہے۔ وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہاری آخرت اچھی کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو مختلف بلاؤں میں مبتلا کرے گا اور تم کو ان مصیبتوں اور بلاؤں کے عوض آخرت میں عزت اور اجر سے نوازے گا۔ خبردار صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور بے صبری کا کلام زبان پر نہ لانا ۔ اس سے تمہارے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔ پھر آپ کی صاحبزادی حضرت سکینہ نے دوپٹہ سر سے اتارا اور کہا ۔ اے ابا جان ، آپ مرنے کے لیے جارہے ہیں۔ مجھ کو کس پرچھوڑ کر جا رہے ہیں۔ امام مظلوم روئے اور فرمایا ، اے نور چشم جس کا مددگار نہیں ہوتا وہ بالیقین اپنے لیے موت سمجھ لیتا ہے۔ اے بیٹی ، ہر شخص کا خدا مددگار ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالٰی کی رحمت تم سے جدا نہیں ہو گ ی۔ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا اور صبر کو اختیار کرنا، عنقریب دنیا فانی ختم ہو جائے گی اورآخرت کی ابدی نعمتوں کو زوال نہیں ہوگا۔ حضرت امام حسین نے حضرت زینب سے فرمایا ، اے میری بہن ، میری جان کے برابر، حلم و بردباری کو اختیار کریں اور اپنے اوپر شیطان کو قبضہ نہ دیں۔ اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر صبر کریں، اور فرمایا اگر یہ لوگ مجھ کو آرام سے رہنے دیتے تو میں ہلاکت کو اختیار نہ کرتا۔ حضرت زینب نے کہا اس بات سے تو ہمارا دل زخمی ہوتا ہے کہ آپ کے لیے اب کوئی چارہ کال نہیں ہے اور مجبوری کی وجہ سے ناپسندیدہ موت کا شربت پی رہے ہیں، اور ہم کو مخالفین اور منافقین کے درمیان بے یار و مددگار تنہا مسافرت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت زینب نے ہاتھ بلند کر کے رخسار نوچنا شروع کیا اور دوپٹہ سر سے اتار دیا ، گریبان چاک کیا اور بے ہوش ہو گئیں۔ امام نے اپنی بہن پر پانی چھڑکا اور ان کو ہوش میں لائے اور جب ہوش میں آگئٰں تو فرمایا ، اے بہن خدا سے ڈرو، اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر راضی ہو اور یہ جان لو کہ تمام زمین والوں نے ایک دن مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے ، سوا اللہ تعالٰی کے ہر چیز فنا ہے۔ وہ سب کو مارے گا اور مارنے کے بعد پھر زندہ کرے گا ، وہ باقی رہنے میں منفرد ہے ، یرے بھائی اور مان جو مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہو گئے اور رسول اللہ ﴿ص﴾ جو تمام مخلوق سے افضل تھے ، وہ بھی دنیا میں نہ رہے اور دار البقا کی طرف رحلت فرما گئے اور اپنی بہن کو بہت نصیحتیں کیں اور یہ وصیت کی کہ اے میری میزز بہن۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقا میںرحلت کر جاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا۔ ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنی وفات کے وقت حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جب میں وفات پا جاؤں تو میرے لیے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا، اپنے بالوں کو نہ بکھیرنا اور واویلا نہ کہنا، اور نوحہ والوں کو نہ بلانا۔ فرات بن ابراہیم نے سند معتبر کے ساتھ جابر انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنے آخری مرض میں حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جان لو کہ پیغمبر کے لیے گریبان پھاڑنا نہیں چاہیے ، اور چہرہ نہیں چھیلنا چاہیے اور واویلا نہیں کہنا چاہیے ، لیکن وہ جو تمہارے والد نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر کہا تھا کہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل میں درد ہے۔ عکرمہ بن ابوجہل کی زوجہ ام حکیم بنت ہارث بن ہشام نے پوچھا ، یا رسول اللہ وہ کون سی نیکی ہے جس کے متعلق اللہ نے یہ کہا ہے کہ ہم اس میں آپ کی نافرمانی نہ کریں۔ حضرت نے فرمایا ، مصیبت میں اپنے چہرے پر طمانچے نہ مارو، چہرے کو نہ چھیلو، اپنے بال نہ نوچو، اپنے گریبان کو چاک نہ کرو۔ اپنے کپڑوں کو سیاہ نہ کرو، واویلا نہ کرو، پس ان شرطوں پر آپ نے ان عورتوں سے بیعت لے لی۔ امام محمد تقی سے روایت ہے کہ امیر المومنین نے فرمایا کہ ایک روز میں اور فاطمہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ کی خدمت میں گئے اور آنحضرت ﴿ص﴾ بہت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﴿ص﴾، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ کے اس رونے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی، جس رات مجھے آسمان پر لے گئے میں نے اپنی امت کی چند عورتوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا اور میرا رونا انہی کی وجہ سے ہے۔ ﴿پھر آپ نے ان عورتوں کے بیان میں فرمایا﴾ جو عورت کتے کی صورت میں تھی ، اور اس کی دبر میں آگ ڈال رہے تھے، وہ چلانے والی ، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔
  4. یہ کچھ شیعی روایات میں نے اکٹھی کی ہیں ماتم کے حوالے سے ، فیس بک پر اپ لوڈ کی تھیں۔ سوچا یہاں بھی اپ لوڈ کر دوں تاکہ ایک جگہ جمع ہو جائیں۔
  5. در كتاب علل الشرايع و بشاره المصطفى و مناقب به سندهاى معتبر از ابو ذر و ابن عباس روايت كرده‏اند كه: چون جعفر طيار در حبشه بود، براى او كنيزى به هديه فرستادند و قيمت او چهار هزار درهم بود، چون جعفر به مدينه آمد آن كنيزك را براى برادر خود امير المومنين عليه السلام به هديه فرستاد، و آن كنيزك خدمت آن حضرت را مى‏كرد، روزى حضرت فاطمه عليها السلام به خانه در آمد ديد سر على عليه السلام در دامن آن كنيزك است، چون آن حالت را ملاحظه نمود متغير گرديد پرسيد: آيا كارى كردى با او؟ حضرت امير فرمودند: نه به خدا سوگند اى دختر محمد كارى نكردم، الحال آنچه مى‏خواهى بگو تا بجا آورم. گفت: مى‏خواهم مرا رخصت دهى كه به خانه پدرم روم، حضرت امير فرمود : رخصت دادم، پس فاطمه چادر بر سر كرد و برقع افكند و متوجه خانه پدر بزرگوار خود گرديد. پيش از آنكه فاطمه به خدمت حضرت برسد، جبرييل از جانب خداوند جليل بر او نازل شد و گفت: حق تعالى تو را سلام مى‏رساند و مى‏فرمايد: اينك فاطمه به نزد تو مى‏آيد براى شكايت على، از او در باب على چيزى قبول مكن. چون فاطمه عليها السلام داخل شد، حضرت رسول صلى الله عليه و آله و سلم فرمود كه: به شكايت على آمده‏اى؟ گفت: بلى به رب كعبه، پس فرمود: برگرد بسوى على و بگو: به رغم انف خود راضيم به آنچه كنى، پس برگشت به خدمت على عليه السلام و سه مرتبه گفت: به رغم انف خود راضيم به آنچه رضاى تو در آن است علل الشرائع اوربشارہ مصطفٰی اور مناقب میں حضرت ابو ذر اور حضرت ابن عباس سے بسند معتبر مروی ہے کہ جب جعفر طیار حبشہ میں تھے، وہاں ان کو ایک کنیز ھدیہ میں دی گئ جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی۔ جب جعفر مدینہ واپس آئے تو انہوں نے وہ کنیز علی بن ابی طالب کو ہدیہ کر دیاکہ خدمت کرے گی۔ ایک دن حضرت فاطمہ آئیں تو دیکھا کہ اس کی گود میں حضرت علی کا سر ہے۔ جب آپ نے یہ دیکھا تو رنجیدہ ہوئیں اور کہا اے ابو الحسن آپ نے اس سے کچھ کیا؟ انہوں نے کہا کہ اے بنت محمد۔ خدا کی قسم کچھ بھی نہیں کیا تم کیا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے باپ کے گھر جاؤں۔ آپ نے کہا جاؤ۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ حضرت فاطمہ نے اپنی چادر سر پر ڈالی اور برقعہ پہنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلیں۔ ادھر حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور آپ سے یہ کہتا ہے کہ فاطمہ آپ کے پاس علی کی شکایت لے کر آ رہی ہیں۔ آپ علی کے متعلق ان کی کوئ شکایت تسلیم نہ کریں۔ اتنے میں حضرت فاطمہ پہنچ گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم علی کی شکایت لے کر میرے پاس آئ ہو؟ انہوں نے کہا ہاں رب کعبہ کی قسم۔ آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی خوشی کے لئے مجھے یہ ننگ و عار قبول ہے۔ پس حضرت فاطمہ واپس آئیں اورتین بار کہا کہ اے ابو الحسن آپ کی خوشی کے لئے مجھے یہ ننگ و عار قبول ہے۔ جلاء العیون ، ص ۲۳۰، فصل ششم
  6. ائمہ میں سے جو کسی ایک کا انکار کر دے، تو اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔ اس کی کئ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ؛ مخالفین ﴿یعنی سنیوں﴾ پر لعن طعن کرنا، ان سے برات کا اظہار کرنا، ان پر کثرت سے سب و شتم کرنا، ان پر تہمتیں باندھنا، اور ان کی غیبت کرنا روایات سے ثابت ہے کیونکہ وہ اہل البدع والریب میں سے ہیں۔ بلکہ ان کے کفر میں کوئ شک و شبہ نہیں۔ سید حسین شہرودی فرماتے ہیں وقد دلّت الرواية الصحيحة على التخصيص فان الافتراء على المبتدع ليس حراماً لمصلحة أهم، فان الشارع يريد ان يبتعد الناس عنه وعن أفكاره المنحرفة بأي صورة ممكنة. صحیح روایت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بدعتیوں پر افتراء باندھنا حرام نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک بہت اہم مصلحت ہے۔ کیونکہ شارع یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس ﴿بدعتی﴾ سے اور اس کے منحرف افکار سے دور رہیں ، چاہے کسی صورت میں ہو۔
  7. بد زبان شیعہ ملا مجلسی ائمہ اربعہ کے بارے میں بکواس کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
  8. اے مسلمانوں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ام المومنین ہیں یا ام الشرور؟
  9. سید حسن ابطحی ، اہلِ تشیع کا آیت اللہ، اپنی کتاب ’’انوار الزہرا‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت فاطمہ رضي الله عنها کو سجدے کرنا واجب ہے اور سجدوں میں سو مرتبہ ( يا مولاتي يا فاطمة أغيثيني ) پڑهنا واجب ہے‘‘ انوار الزہرا ، ص ۴۵ ملا مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھتا ہے کہ امام علی بن حسین سے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے متعلق پوچھا گیا ، تو فرمایا کہ وہ دو کافر ہیں، اور جو ان سے محبت رکھے ، وہ بھی کافر ہے۔ بحار الانوار ج ۲۸ ص ۱۹۹ محمد طاہر بن محمد حسین القُمی ملعون اپنی کتاب ’’الأربعين في إمامة الأئمة الطاهرين‘‘ میں لکهتا ہے کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) كافرة ہے اور جہنم کی آگ کے مستحق ہے۔ الأربعين في إمامة الأئمة الطاهرين ص615
  10. ہم اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جس کے کام پختہ عقل پرمبنی هوں اور عقل کے خلاف فیصلے نہ کرے ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جو خداپرستی انصاف اور دین داری کی ایک مضبوط وبلند عمارت بنائے اور خود ہی اپنے ہاتهہ سے اس کو برباد کردے اور یزید ، معاویہ ، اور عثمان اور ان جیسے بدمعاش لوگوں کو امیر بنادے ملا باقر مجلسی المجوسی اپنی کتاب ’’روضۃ المتقین‘‘ میں بکتا ہے معاویہ (رض) اور عائشہ (رض) دین سے خارج ہیں، اور وہ ہرگز مسلمانوں میں سے نہیں ہیں، اور یہ انکار انکے کفر کے اسباب میں سے ہے۔ روضۃ المتقین ج ۲ ص ۲۱۸
×
×
  • Create New...