Jump to content

algimi99

اراکین
  • کل پوسٹس

    1
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

سب کچھ algimi99 نے پوسٹ کیا

  1. sab shia parh lain ab bhi na mano tou jahanami tou pehle hi ho. متعہ کی تعریف اور اس کے احکام متعہ اس عقد کو کہتے ہیں جس میں مقررہ معاوضہ سے معینہ مدت کے لئے کسی عورت کو قضاء شہوت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس عقد کے لیے نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ ممنوعہ عورتوں کے لیے تعداد کی کوئی قید ہے۔ نہ نفقہ،نہ سکنٰی،نہ نسب، نہ میراث۔ ایلاء،ظہار، طلاق اور عدت،متعہ اس سب سے آزاد ہے۔ جہاں فریقین راضی ہوئے،مدت اور اجرت طے ہوئی وہیں جنسی تسکین کا عمل شروع ہوگیا واضح رہے کہ شیعہ حضرات اس آیت سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ سورة النساء - آیت نمبر:24 وَٱلۡمُحۡصَنَـٰتُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ إِلَّا مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَـٰنُڪُمۡ*ۖ كِتَـٰبَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ*ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٲلِڪُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٲلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَـٰفِحِينَ*ۚ فَمَا ٱسۡتَمۡتَعۡتُم بِهِۦ مِنۡہُنَّ فَـَٔاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً۬*ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيمَا تَرَٲضَيۡتُم بِهِۦ مِنۢ بَعۡدِ ٱلۡفَرِيضَةِ*ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمً۬ا (٢٤) ........... اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۲۴) ( النساء:4 - آيت:24 ) تفسیر النساء:24 تفسیر معارف القرآن، مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق : حلّتِ متعہ پر امامیہ کے استدلال کا جواب حضرات امامیہ نے جوازِ متعہ پر قرآن کی ل آیت سے استدلال کیا ہے۔ امامیہ حضرات کہتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نے متعہ کر لیا ہے ان کو اس کی اجرت ادا کرو اور یہ استدلال متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ اوّلاً اس لیے کہ متعہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مدت متعین ہو اور اس آیت میں تعین مدت کا اصلاً ذکر نہیں ہے.: یہ نکاح مستقلاً ہو، محض شہوت رانی کی غرض سے نہ ہو۔ اس سے نکاحِ متعہ کی حرمت ثابت ہوئی۔۔لٰہذا"استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرنا صحیح نہیں ہے۔اصل میں یہ لفظ"استمتاع" سے ماخوذ ہے جس کا معنٰی ہے نفع حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا اور آیت کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ جن بیویوں سے تم عمل زوجیت کرکے جسمانی نفع حاصل کرلیا ہے، انہیں ان کا پورا مہر ادا کرو، ثانیاً اس آیت میں سے پہلے اور بعد کی آیات میں نکاح کا بیان اور اس کے احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ اب درمیان میں اس آیت کو متعہ پر محمول کرنے سے نظم قرآن کا اختلال اور آیات کا غیر مربوط ہونا لازم آئے گا۔ ثالثاً اس آیت سے متصل پہلی آیت میں فرمایا:"وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ "(النساء 24) یعنی محرمات کے سوا باقی عورتیں تمھارے نکاح کے لیے حلال کردی گئی ہیں،تم مہر دے کر اس سے فائدہ اٹھاؤ بشرطیکہ تم انہیں حصن بناؤ اور سفاح نہ کرو۔ حصن کا معنٰی ہے:قلعہ، یعنی عورت سے نفع اندوزی تب حلال ہے جب وہ تمہارے نطفہ کی حفاظت کے لیے قلعہ بن جائے اور متعہ سے عورت قلعہ نہیں بنتی، ہر ہفتہ دوسرے کے پہلو میں ہوتی ہے،اسی وجہ سے متعہ سے نسب محفوظ نہیں رہتا،اب اگر"فما استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرلیا جائے تو قرآن کریم کی دو متصل آیتوں میں کھلا تصادم لازم آئے گا کہ پہلی آیت سے متعہ حرام ہوا اور دوسری آیت سے حلال اور قرآن کریم اس تضاد کا متحمل نہیں ہے۔ رابعاًسفاح کا معنٰی ہے: محض قضاء شہوت اور نطفہ گرادینا اور مطلب یہ ہے کہ عورت سے نفع اندوزی حلال ہے، بشرطیکہ تمہارا مقصد محض قضاء شہوت اور جنسی تسکین نہ ہو بلکہ اولاد کو طلب کرنا مقصود ہو اور ظاہر ہے کہ متعہ سوائے قضاء شہوت اور جنسی تسکین کے اور کچھ مقصود نہیں ہوتا۔ پس متعہ جائز نہ رہا اور جب اس آیت سے متعہ حرام ہوا تو اس سے اگلی آیت میں حلّت متعہ کا معنی کرنا باطل ہوگا۔ حرمت متعہ صحاحِ اہل سنت سے امام بخاری اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں: عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن متعۃ النساء یوم خیبر۔ (بخاری ج2 ص606) حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمادیا۔ غزوہ خیبر کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن کے لیے متعہ پھر مباح ہوا،اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے متعہ کو منسوخ فرمادیا، چنانچہ امام مسلم اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں: عن ابی سلمۃ قال رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام او طاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نھا عنھا و باسناد اخر قال یایھاالناس انی قد کنت اذنت لکم فی الاستمتاع من النساء وان اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیامۃ (مسلم ج1 ص 451) ابی سلمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن متعہ کرنے کی اجازت دی تھی،پھر اس سے منع فرمادیا اور دوسری روایت میں ہے: اے لوگو! میں نے تمھیں پہلے عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے اس کو ممنوع فرمادیا ہے۔ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن عبد الله بن نمير ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبد العزيز بن عمر ‏ ‏حدثني ‏ ‏الربيع بن سبرة الجهني ‏ ‏أن ‏ ‏أباه ‏ ‏حدثه ‏ ‏أنه كان مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فقال يا أيها الناس ‏ ‏إني قد كنت أذنت لكم في ‏ ‏الاستمتاع ‏ ‏من النساء وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا ربیع بن سبرہ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ سو جس کے پاس کوئی ان میں کی ہو تو چاہئے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ صحيح مسلم ، کتاب النکاح ، نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ النكاح احادیث صحیحہ میں حرمت متعہ کی بکثرت روایات موجود ہیں، لیکن ہم نے طوالت کی وجہ سے ان دو حدیثوں پر اکتفاء کیا ہے۔ رواجِ متعہ اور حضرت عمر متعہ زمانہ جہالت کی قبیح رسموں میں سے ایک رسم تھی۔ اسلام نے جس طرح تدریجی عمل کے ذریعہ دوسری برائیوں کو رفتہ رفتہ ختم کیا،اسی طرح متعہ کو بھی فتح مکہ کے بعد حرام کر دیا اور کتاب و سنت میں اس کی حرمت کے دلائل پوری وضاحت سے ساتھ موجود ہیں۔ حضرت عمر نے جس طرح شریعت کے دوسرے قوانین پر سختی سے عمل کرایا،شراب و زنا پر حدود جاری کیں،چوروں کے ہاتھ کاٹے،جھوٹے گواہوں کو سزائیں دیں،اسی طرح آپ نے پوری شدت و تندہی سے حرمت متعہ کی بھی تبلیغ اور تنفیذ کی۔ جو لوگ بے علمی اور غفلت کی بناء پر متعہ کرتے رہتے تھے انہیں سخت الفاظ سے تنبیہ اور تہدید کی۔جس طرح حضرت ابوبکر نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو للکارا اور سختی سے ان کا محاسبہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کے شارع ہیں،اسی طرح حضرت عمر نے متعہ کرنے والوں کو بروقت ٹوکا اور اپنے دور ِ خلافت میں حدودِ الٰہی کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔پس حضرت عمر بھی حضرت ابوبکر کی طرح شارع نہیں مبلغ تھے۔ کچھ شیعہ متعہ پر , غیر مقلدوں کے تراویح کے مسئلے پر اعتراضات کی طرح, بے وقوفانہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ممانعت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے کی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں جب ایک عام بدو خلیفہ کی چارد کھینچ کر پوچھ سکتا ہے کہ یہ دو چادریں* کیسے آئیں ۔۔۔ تو اتنے کبار صحابہ نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ ان کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کر رہے ہوں ؟؟؟ اور کبار اصحاب کی ایک بہت بڑی اکثریت چپ سادھے رہے ؟؟؟ متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ اسلام میں متعہ کا کوئی تصور نہیں ہے اور اللہ اور اس کے رسول برحق نے متعہ کو حرام کردیا ہے،اللہ کا سلام ہو حضرت عمر پر جنہوں نے حرمت متعہ کو نافذ کرکے اور اس پر عمل کراکے ملت اسلامیہ کو ایک مکروہ غلاظت سے محفوظ کرایا ہے۔ یہ متعہ ہی کا تصور تھا جس نے مسلمانوں میں کسبیوب کے رواج کو جنم دیا،اسی اصطلاح نے بازارِ حسن کو تحفظ دیا اور متعہ کی آڑ میں عصمت فروشی کا چور دروازہ کھول دیا۔ آج قوم کے سارے سہارے ختم کردیئے جائیں اور ہر وہ قانون جس سے جنسی کجی کو تقویت ملتی ہو مٹا دیا جاے۔ مسئلہ متعہ کا وجود فحاشی کے فروغ کا ضامن ہے۔ فاروقِ اعظم کی ایمان افروز شخصیت پر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں جنہوں نے حرمت متعہ کی تبلیغ اور تنفیذ کرکے سفینہ ملت کو معصیت کے گرداب سے نکالا۔ آج اس معصیت زدہ اور پنجہ شہوت میں اسیر قوم کو پھر فاروقی بصیرت کی ضرورت ہے۔ کلینی نے لکھا ہے: ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے (اصول کافی ص:٢٠٦) جب شیعہ نے خلافت ہی سے انکار کر دیا تو متعہ جو فتح مکہ کے بعد قیامت تک حرام قرار دیے جانے کے بعد باقاعدہ قانونی طور پر اور سختی سے حضرت عمر نے عمل درآمد کیا ہو وہ اس کو کیوں کر مانے گا۔ متعہ کی تعریف اور اس کے احکام متعہ اس عقد کو کہتے ہیں جس میں مقررہ معاوضہ سے معینہ مدت کے لئے کسی عورت کو قضاء شہوت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس عقد کے لیے نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ ممنوعہ عورتوں کے لیے تعداد کی کوئی قید ہے۔ نہ نفقہ،نہ سکنٰی،نہ نسب، نہ میراث۔ ایلاء،ظہار، طلاق اور عدت،متعہ اس سب سے آزاد ہے۔ جہاں فریقین راضی ہوئے،مدت اور اجرت طے ہوئی وہیں جنسی تسکین کا عمل شروع ہوگیا واضح رہے کہ شیعہ حضرات اس آیت سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ سورة النساء - آیت نمبر:24 وَٱلۡمُحۡصَنَـٰتُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ إِلَّا مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَـٰنُڪُمۡ*ۖ كِتَـٰبَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ*ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٲلِڪُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٲلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَـٰفِحِينَ*ۚ فَمَا ٱسۡتَمۡتَعۡتُم بِهِۦ مِنۡہُنَّ فَـَٔاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً۬*ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيمَا تَرَٲضَيۡتُم بِهِۦ مِنۢ بَعۡدِ ٱلۡفَرِيضَةِ*ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمً۬ا (٢٤) ........... اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۲۴) ( النساء:4 - آيت:24 ) تفسیر النساء:24 تفسیر معارف القرآن، مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق : حلّتِ متعہ پر امامیہ کے استدلال کا جواب حضرات امامیہ نے جوازِ متعہ پر قرآن کی ل آیت سے استدلال کیا ہے۔ امامیہ حضرات کہتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نے متعہ کر لیا ہے ان کو اس کی اجرت ادا کرو اور یہ استدلال متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ اوّلاً اس لیے کہ متعہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مدت متعین ہو اور اس آیت میں تعین مدت کا اصلاً ذکر نہیں ہے.: یہ نکاح مستقلاً ہو، محض شہوت رانی کی غرض سے نہ ہو۔ اس سے نکاحِ متعہ کی حرمت ثابت ہوئی۔۔لٰہذا"استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرنا صحیح نہیں ہے۔اصل میں یہ لفظ"استمتاع" سے ماخوذ ہے جس کا معنٰی ہے نفع حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا اور آیت کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ جن بیویوں سے تم عمل زوجیت کرکے جسمانی نفع حاصل کرلیا ہے، انہیں ان کا پورا مہر ادا کرو، ثانیاً اس آیت میں سے پہلے اور بعد کی آیات میں نکاح کا بیان اور اس کے احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ اب درمیان میں اس آیت کو متعہ پر محمول کرنے سے نظم قرآن کا اختلال اور آیات کا غیر مربوط ہونا لازم آئے گا۔ ثالثاً اس آیت سے متصل پہلی آیت میں فرمایا:"وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ "(النساء 24) یعنی محرمات کے سوا باقی عورتیں تمھارے نکاح کے لیے حلال کردی گئی ہیں،تم مہر دے کر اس سے فائدہ اٹھاؤ بشرطیکہ تم انہیں حصن بناؤ اور سفاح نہ کرو۔ حصن کا معنٰی ہے:قلعہ، یعنی عورت سے نفع اندوزی تب حلال ہے جب وہ تمہارے نطفہ کی حفاظت کے لیے قلعہ بن جائے اور متعہ سے عورت قلعہ نہیں بنتی، ہر ہفتہ دوسرے کے پہلو میں ہوتی ہے،اسی وجہ سے متعہ سے نسب محفوظ نہیں رہتا،اب اگر"فما استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرلیا جائے تو قرآن کریم کی دو متصل آیتوں میں کھلا تصادم لازم آئے گا کہ پہلی آیت سے متعہ حرام ہوا اور دوسری آیت سے حلال اور قرآن کریم اس تضاد کا متحمل نہیں ہے۔ رابعاًسفاح کا معنٰی ہے: محض قضاء شہوت اور نطفہ گرادینا اور مطلب یہ ہے کہ عورت سے نفع اندوزی حلال ہے، بشرطیکہ تمہارا مقصد محض قضاء شہوت اور جنسی تسکین نہ ہو بلکہ اولاد کو طلب کرنا مقصود ہو اور ظاہر ہے کہ متعہ سوائے قضاء شہوت اور جنسی تسکین کے اور کچھ مقصود نہیں ہوتا۔ پس متعہ جائز نہ رہا اور جب اس آیت سے متعہ حرام ہوا تو اس سے اگلی آیت میں حلّت متعہ کا معنی کرنا باطل ہوگا۔ حرمت متعہ صحاحِ اہل سنت سے امام بخاری اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں: عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن متعۃ النساء یوم خیبر۔ (بخاری ج2 ص606) حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمادیا۔ غزوہ خیبر کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن کے لیے متعہ پھر مباح ہوا،اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے متعہ کو منسوخ فرمادیا، چنانچہ امام مسلم اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں: عن ابی سلمۃ قال رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام او طاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نھا عنھا و باسناد اخر قال یایھاالناس انی قد کنت اذنت لکم فی الاستمتاع من النساء وان اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیامۃ (مسلم ج1 ص 451) ابی سلمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن متعہ کرنے کی اجازت دی تھی،پھر اس سے منع فرمادیا اور دوسری روایت میں ہے: اے لوگو! میں نے تمھیں پہلے عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے اس کو ممنوع فرمادیا ہے۔ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن عبد الله بن نمير ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبد العزيز بن عمر ‏ ‏حدثني ‏ ‏الربيع بن سبرة الجهني ‏ ‏أن ‏ ‏أباه ‏ ‏حدثه ‏ ‏أنه كان مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فقال يا أيها الناس ‏ ‏إني قد كنت أذنت لكم في ‏ ‏الاستمتاع ‏ ‏من النساء وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا ربیع بن سبرہ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ سو جس کے پاس کوئی ان میں کی ہو تو چاہئے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ صحيح مسلم ، کتاب النکاح ، نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ النكاح احادیث صحیحہ میں حرمت متعہ کی بکثرت روایات موجود ہیں، لیکن ہم نے طوالت کی وجہ سے ان دو حدیثوں پر اکتفاء کیا ہے۔ رواجِ متعہ اور حضرت عمر متعہ زمانہ جہالت کی قبیح رسموں میں سے ایک رسم تھی۔ اسلام نے جس طرح تدریجی عمل کے ذریعہ دوسری برائیوں کو رفتہ رفتہ ختم کیا،اسی طرح متعہ کو بھی فتح مکہ کے بعد حرام کر دیا اور کتاب و سنت میں اس کی حرمت کے دلائل پوری وضاحت سے ساتھ موجود ہیں۔ حضرت عمر نے جس طرح شریعت کے دوسرے قوانین پر سختی سے عمل کرایا،شراب و زنا پر حدود جاری کیں،چوروں کے ہاتھ کاٹے،جھوٹے گواہوں کو سزائیں دیں،اسی طرح آپ نے پوری شدت و تندہی سے حرمت متعہ کی بھی تبلیغ اور تنفیذ کی۔ جو لوگ بے علمی اور غفلت کی بناء پر متعہ کرتے رہتے تھے انہیں سخت الفاظ سے تنبیہ اور تہدید کی۔جس طرح حضرت ابوبکر نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو للکارا اور سختی سے ان کا محاسبہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کے شارع ہیں،اسی طرح حضرت عمر نے متعہ کرنے والوں کو بروقت ٹوکا اور اپنے دور ِ خلافت میں حدودِ الٰہی کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔پس حضرت عمر بھی حضرت ابوبکر کی طرح شارع نہیں مبلغ تھے۔ کچھ شیعہ متعہ پر , غیر مقلدوں کے تراویح کے مسئلے پر اعتراضات کی طرح, بے وقوفانہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ممانعت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے کی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں جب ایک عام بدو خلیفہ کی چارد کھینچ کر پوچھ سکتا ہے کہ یہ دو چادریں* کیسے آئیں ۔۔۔ تو اتنے کبار صحابہ نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ ان کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کر رہے ہوں ؟؟؟ اور کبار اصحاب کی ایک بہت بڑی اکثریت چپ سادھے رہے ؟؟؟ متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ اسلام میں متعہ کا کوئی تصور نہیں ہے اور اللہ اور اس کے رسول برحق نے متعہ کو حرام کردیا ہے،اللہ کا سلام ہو حضرت عمر پر جنہوں نے حرمت متعہ کو نافذ کرکے اور اس پر عمل کراکے ملت اسلامیہ کو ایک مکروہ غلاظت سے محفوظ کرایا ہے۔ یہ متعہ ہی کا تصور تھا جس نے مسلمانوں میں کسبیوب کے رواج کو جنم دیا،اسی اصطلاح نے بازارِ حسن کو تحفظ دیا اور متعہ کی آڑ میں عصمت فروشی کا چور دروازہ کھول دیا۔ آج قوم کے سارے سہارے ختم کردیئے جائیں اور ہر وہ قانون جس سے جنسی کجی کو تقویت ملتی ہو مٹا دیا جاے۔ مسئلہ متعہ کا وجود فحاشی کے فروغ کا ضامن ہے۔ فاروقِ اعظم کی ایمان افروز شخصیت پر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں جنہوں نے حرمت متعہ کی تبلیغ اور تنفیذ کرکے سفینہ ملت کو معصیت کے گرداب سے نکالا۔ آج اس معصیت زدہ اور پنجہ شہوت میں اسیر قوم کو پھر فاروقی بصیرت کی ضرورت ہے۔ کلینی نے لکھا ہے: ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے (اصول کافی ص:٢٠٦) جب شیعہ نے خلافت ہی سے انکار کر دیا تو متعہ جو فتح مکہ کے بعد قیامت تک حرام قرار دیے جانے کے بعد باقاعدہ قانونی طور پر اور سختی سے حضرت عمر نے عمل درآمد کیا ہو وہ اس کو کیوں کر مانے گا
×
×
  • Create New...