Jump to content

AqeelAhmedWaqas

مدیر
  • کل پوسٹس

    463
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    107

سب کچھ AqeelAhmedWaqas نے پوسٹ کیا

  1. فرض، واجب اور سنت مؤکدہ پڑھنا لازم ہے۔ سنت غیر مؤکدہ (اور نفل) پڑھنا لازم نہیں، مگر پڑھ لینا چاہیے۔ اگر صرف فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ پڑھے جائیں (یعنی سنتِ غیرِ مؤکدہ اور نفل نہ پڑھیں) تو کوئی گناہ نہیں ہے (لیکن سنتِ غیرِ مؤکدہ اور نفل کے ثواب سے محرومی ضرور ہے)۔
  2. Already answered. http://www.islamimehfil.com/topic/24523-deobandi-aetaraz-agle-pichle-gunah-muaaf-ka-tarjuma-ahlesunnat-ulema-ne-bhi-kya/#entry103974
  3. کتاب: متعہ کی شرعی حیثیت مع آئینہ شیعہ نما آن لائن مطالعہ اور ڈاؤن لوڈ لنک لنک مزید متعلقہ ٹوپکس
  4. یوٹیوب پر علی مرزا کذاب کے رد میں اور بھی کئی ویڈیوز موجود ہیں۔ یہ دو ویڈیوز مزید ایڈ ہو گئی ہیں۔ جس بھائی کے پاس وقت ہو تو وہ مزید جوابات کی ویڈیوز اپلوڈ کر دے۔
  5. سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی طرف سے تو کچھ نہیں کہا، بلکہ ایسا مضمون تو احادیث مبارکہ میں دیا ہوا ہے، اسی کو ذکر فرما دیا۔ طوالت کے خوف سے بعض مقامات پر صرف فہرستِ کتاب سے متعلقہ بحث ہائی لائٹ کر دی ہے، جسے اسی کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرکے یا آن لائن باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔ (اسمیں کوئی مسئلہ ہو تو بتا دیجئے گا)۔ امام ترمذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے امامِ حدیث نے تو اسے حسن کہا ہے۔ جاہل معترض کی بات کی کیا اوقات ہے!۔ معترض کی علمی لیاقت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ حدیثِ غیر صحیح سے اسکا جعلی ہونا مراد لیتا ہے!۔ جامع الترمذی کا مقام و مرتبہ بھی ذہن میں رہے۔ اس حدیث شریف سے ملتے جلتے الفاظ کی اور احادیث بھی موجود ہیں۔ محققین نے اسے قبول بھی کیا ہے مثلاََ مزید ملاحظہ ہو!۔ بالفرض یہ حدیث ضعیف ہو تو بھی حدیث ضعیف فضائل میں مقبول ہے۔ معترض جاہل کو ان امام صاحب کا نام درست لینا نہیں آتا، اور صرف ایک قول نقل کر کے اس پر تفریع بٹھانے کے چکر میں ہے۔ اسے بغض و عناد کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال امام ابن الجَعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب یہ بات درست نہیں ہے۔ ملاحظہ ہوں انہی امام صاحب کی مسند میں سے احادیث پاک کہ گستاخِ صحابہ پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کو برا بھلا نہ کہو (وغیرہ)۔ انہی امام صاحب کی توثیق کرنے والے ائمہ کرام کے اقوال ملاحظہ ہوں۔ اگرچہ ان امام صاحب پر بھی جرح کی گئی ہے (جیسے اور ائمہ کرام پر کی گئی) لیکن انکی اتنی زبردست توثیق و تعدیل کے مقابل اسکی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ مجرحین و معدلین کی اسی بحث کا خلاصہ ملاحظہ ہو۔ اب ان ائمہ و محدثین کا ذکر ہوگا جنہوں نے امام ابن الجعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے احادیث لی ہیں۔ اس سے انکا اعلیٰ مقام و مرتبہ ظاہر و باہر ہوتا ہے۔ غیرمقلدین نے (اپنی عادت کے ’’خلاف‘‘) انہیں ثقہ مانا ہے۔ پہلے اس اعتراض کا جواب ملاحظہ ہو۔ جاہل معترض نے اپنی تقریر میں جس طرح کہا کہ (مفہوم) ’’ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’بطورِ طنز‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فقہیہ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت پانے والا کہا ہے جیسے ہم کسی کو غلط کام کرنے پر کہہ دیتے ہیں کہ اسے چھوڑ دو! اسے نہیں پتہ کیا!‘‘ تو یہ اس بدباطن کا مکر ہے۔ ملاحظہ ہوں اقوالِ علماء و ائمہ کہ ان اعلیٰ ہستیوں کا اس معاملے میں کیا کہنا ہے۔ محترم بھائی صاحب!۔ کسی پر ’’لعنت بھیجنے یا لعنتی کہنے‘‘ کے حوالے سے یہ پڑھ لیں۔ ان شاء اللہ عزوجل پوری بات سمجھ آ جائے گی۔ اس ضمن میں یزید پلید علیہ ما علیہ پر لعنت وغیرہ کی بحث بھی ذکر کی گئی ہے (سیدنا امام غزالی رحمہ اللہ کے حوالے سے) تو اسکا مختصر مگر جامع بیان مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہے۔ کذاب مفتری کی اس تقریر میں ویسے تو بہت سی غلط باتیں ہیں، لیکن چند اہم کا رد کر رہا ہوں۔ خُمس کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ جو مال سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عزوجل عنہ اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو دیتے تھے، وہ خمس نہیں تھا جیسا معترض نے کہا۔ نیچے تفصیل ملاحظہ فرما لیں کہ خمس کس وقت تک دیا جاتا رہا۔ ۔’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا‘‘ کے حوالے سے ۔’’رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دعائے ضرر دی‘‘ کے حوالے سے احتیاط!۔ ۔’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عزوجل عنہ نے شرائطِ صلح کی خلاف ورزی کی‘‘ کے حوالے سے ۔’’رسول اللہ شفیع المذنبین ﷺ کی دعا قبول نہیں ہوئی‘‘ کے حوالے سے
  6. نام کتاب: دشمنانِ امیر معاویہ کا علمی محاسبہ Read and/or Download نام کتاب: فضائلِ امیر معاویہ اور مخالفین کا محاسبہ Read and/or Download
  7. محترم عَبدُاللہ یوسُف بھائی صاحب!۔ مختصر جواب پیش خدمت ہے (تفصیلی جواب اوپر والی کتاب میں دیا گیا ہے)۔
  8. اس روایت میں گناہ کا لفظ نہیں آیا بلکہ خطا کا ذکر ہے (اگرچہ اور روایات وغیرہ میں صورتاََ گناہ کا ذکر آیا ہے)۔ حقیقتِ گناہ کو تفصیلاََ سمجھنے کیلئے اس ٹاپک کو دیکھ لیجئے گا۔ https://www.google.com/url?q=http://www.islamimehfil.com/topic/23343-%25D8%25A7%25D9%2586%25D8%25A8%25DB%258C%25D8%25A7%25D8%25A6%25DB%2592-%25DA%25A9%25D8%25B1%25D8%25A7%25D9%2585-%25DA%25A9%25DB%258C-%25D8%25B9%25D8%25B5%25D9%2585%25D8%25AA-%25DA%25A9%25DB%2592-%25D9%2585%25D8%25AA%25D8%25B9%25D9%2584%25D9%2582-%25D8%25A8%25D8%25B1%25DB%258C%25D9%2584%25D9%2588%25DB%258C%25D9%2588%25DA%25BA-%25DA%25A9%25D8%25A7-%25D8%25A7%25D8%25AE%25D8%25AA%25D9%2584%25D8%25A7%25D9%2581/&sa=U&ved=0ahUKEwi79LbEu-TSAhVjJJoKHUtdC5IQFggGMAE&client=internal-uds-cse&usg=AFQjCNEFV6oSIVXElXc7BdBoUZfLvnpjqA دئیے گئے امیجز کو ملاحظہ فرمائیں، ان میں مختصر طور پر جواب دیا گیا ہے۔ اوپر آپ نے پڑھ لیا ہے کہ سیدہ حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے بھول کر(یا دیگر وجوہات کی بنا پر) ایسا کیا تو انکے اس فعل میں حقیقتِ گناہ نہ رہی۔ یہ بھی خیال رہے کہ معصوم صرف انبیاء کرام علیھم السلام اور ملائکہ ہیں۔ قتل صرف قابیل نے کیا تھا (ہابیل نے نہیں)۔ اعتراض کا جواب ملاحظہ ہو۔
  9. قطعی عقائد میں اختلاف نہیں ہے۔ فروع میں اختلاف ہے اور یہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید کی ایسی شان ہے کہ ایک ایک آیت کی کئی کئی تفاسیر ہیں، اور وہ بھی بلا دلیل نہیں بلکہ دلائل قاہرہ کی بنیاد پر۔ انفرادی اختلاف کی حقیقت سمجھنے کیلئے خاصی تحقیق کی ضرورت ہے اور بظاہر واقع اختلاف میں اکثر راہِ تطبیق موجود ہوتی ہے جہاں تک رسائی کیلئے تقویٰ و مہارت درکار ہے جیسا کہ علماء کرام کی کتب سے ظاہر ہے۔ مفسرین کے مختلف طبقات ہیں اور اگر انہوں نے اپنی تفاسیر میں ضعیف و موضوع روایات لکھی ہیں تو انکا مقصد ان روایات کی صحت تسلیم کرنا نہیں بلکہ یا تو انہوں نے اسے قاری کے ذمے چھوڑا (کہ وہ خود مختلف روایات کو ایک دوسرے سے الگ کرے) یا کسی اور فائدہ کے پیش نظر (مثلاََ موضوع یا ضعیف روایات کو ایک جگہ جمع کرنا تاکہ مراجعت میں آسانی رہے وغیرہ)۔ تسامحات البتہ موجود ہیں۔
  10. محترم بھائی صاحِب!۔ خط کشیدہ عبارات ملاحظہ فرما لیں۔ آخری دو تفاسیر میں بحث کا خلاصہ بیان ہوا ہے، اسے ڈبل ریڈ لائنز سے ظاہر کیا گیا ہے۔
  11. جامع الترمذی کی اس حدیث پاک کی وجہ سے یہ اختلاف نہیں ہے۔ اسکی تفصیل نیچے آئےگی۔ جاہل روافض کی عقل پر ماتم کا مقام ہے کیونکہ اس حدیث پاک سے تو صحابۂ کرام علیھم الرضوان کے تقویٰ اور احتیاط کے کمال کا علم ہوتا ہے۔ بسم اللہ نہ لکھنے کا اصل سبب تفسیر قرطبی وغیرہ میں ایسی روایت کی وجہ امام قرطبی علیہ الرحمہ نے خود وجہ بیان فرما دی ہے (دیکھیں خط کشیدہ عبارت) کہ علماء نے سورۃ التوبۃ کے اول سے بسم اللہ ساقط ہونے کے ’’سبب‘‘ میں اختلاف فرمایا ہے، نہ کہ سقوط و عدم سقوط میں۔ ۔’’جب سورۃ التوبۃ کا ابتدائی حصہ ساقط ہوا تو‘‘ کے حوالے سے تفسیر قرطبی میں پانچ وجوہات کے تحت روایات لائی گئی ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ روایت کا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ جب سورۃ التوبۃ کا کچھ حصہ منسوخ ہوا تھا تو اس (منسوخ شدہ حصے) کے ساتھ لکھی ہوئی بسم اللہ بھی لکھی اور پڑھی نہ گئی۔ اور جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سورۃ کی (موجودہ) پہلی آیت لے کر آئے تھے تو ساتھ میں تسمیہ نہیں لائے تھے اور نہ رسول اللہ نبی پاک ﷺ نے اسکے ساتھ بسم اللہ لکھنے کا حکم فرمایا تھا (اور چند اور وجوہات بھی ہیں جن کا ذکر تفسیر قرطبی و کبیر وغیرہ میں ہے)۔ اس روایت کے معنی میں دیگر احتمالات بھی ہیں مگر روافض کا دعویٔ تحریف ثابت نہیں ہو پائے گا۔ اس حوالے سے روافض کے دعویٰ کا رد
  12. آپکے اس سوال کا جواب اسی اوپر والی پوسٹ کے امیج میں دیا گیا ہے۔ نیچے دوبارہ ملاحظہ ہو (خط کشیدہ عبارت)۔ جی ہاں! بچہ غلام ہوتا تو حد لگائی جاتی (اگرچہ اختلاف ہے)۔ ۔(لیکن اب غلاموں کا تصور باقی نہیں رہا)۔ حد السرقہ (چوری کی شرعی سزا کے طور پر ہاتھ کاٹنا وغیرہ) جاری کرنے کیلئے کچھ شرائط ہیں، جن کا تفصیلی بیان بہار شریعت وغیرہ میں موجود ہے۔ ان شرائط میں سے ایک کا ذکر آپ نے کیا ہے، باقی وہیں سے پڑھ سکتے ہیں۔
  13. معترض نے (غلط ترجمہ کیساتھ ساتھ) پوری عبارت کا ترجمہ پیش نہیں کیا کیونکہ ساتھ ہی اس حکم شرعی کی وجہ بھی مذکور ہے۔ اس سے پوچھیں کہ اپنا اعتراض دلیل شرعی سے ثابت کرے۔
  14. محترم بھائی صاحب!۔ نقل کردہ حدیث شریف میں خط کشیدہ عبارت پر غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ نبی پاک ﷺ نے ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو بطورِ سزا یا کسی اور وجہ سے نہیں مارا بلکہ وہ از راہِ شفقت اور دفعِ وسوسہ کیلئے تھا اور اظہارِ مقامِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عزوجل عنھا بھی مقصود تھا کہ وسوسہ تک کو ان پاک نفوس پر حاوی نہیں ہونے دیا جاتا۔ شفیع المذنبین رحمۃ اللعٰلمین خاتم النبیین آقا کریم علیہ التحیۃ و التسلیم کے نورانی دست اقدس کی برکات میں سے ہے کہ محض اسکے ’’لگنے‘‘ سے ہی وساوس تک دور ہو جاتے ہیں۔ سبحان اللہ عزوجل۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ خود اُم المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عزوجل عنھا کی زبانی سنیں معترض کے الزام کا رد ۔ ۔ ۔ تعجب ہے معترض کی عقل پر کہ خود ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا جن کو رحمت عالم رسول اللہ ﷺ نے سینۂ مبارکہ پر اپنے دست رحمت سے (از راہِ شفقت و دفع وسوسہ) ’’مارا‘‘ وہ کیا فرماتی ہیں!۔ جاہل معترض اگر محبوبۂ رسولِ خدا سیتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عزوجل عنھا پر اس حوالے سے اعتراض کرے کہ ’’انکا یہ ماننا تھا کہ رسول اللہ ﷺ انکی باری میں کسی اور ام المومنین کے ہاں تشریف لے گئے ہیں‘‘ تو اسکا جواب بھی پڑھ لیں کہ وہ محض ایک وسوسہ تھا جس پر شرعاََ کوئی باز پرس بھی نہیں مگر انکا مقام و مرتبہ ایسا عالیشان ہے کہ نور من نور اللہ رسول اللہ ﷺ نے وسوسہ تک کو ان میں پنپنے نہیں دیا!۔ سیدہ ام المؤمنین خود کیا فرماتی ہیں، وہ دیکھ لیں۔
  15. Please check your PM (Personal Messenger). Is topic main wahabi k aitraz ka jawab dy dia gia hay. Apko mazeed is mas'ala main jo samajh nahi aa rahi, uska hal apko PM kar diya hay.
  16. جی، فرق ہے۔ ہم نے اس وہابی کی پیش کردہ حدیث پاک کے خلاف نہیں لکھا۔ وہابی صاحب سے اسکے اس قول کی دلیل لیجئے کہ ’’چاہے انزال نہ بھی ہو، باکرہ سے جماع کرنے والے شخص پر غسل واجب ہو جائے گا جبکہ اسکی بکارت زائل نہ ہو‘‘۔ اسی ٹاپک کی پوسٹ نمبر۲ میں دئیے ہوئے دوسرے امیج کو دیکھ لیں۔ بات شروع ہی یہیں سے ہوئی ہے کہ بکارت مانع ہے مرد و عورت کی ختنہ گاہوں کے ملاپ سے۔ اسکی وجہ سے فرج میں دخولِ حشفہ ممکن نہیں اور بکارت کا باقی رہنا عدمِ دخول کی دلیل ہے۔ ایسی صورت میں جب تک انزال نہ ہو، کس دلیل سے وہابی صاحب مرد پر غسل کو واجب ٹھہرا رہے ہیں؟
  17. محترم بھائی صاحب!۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ دعاؤں کیلئے بہت زیادہ شکریہ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو دین و دنیا میں کامیاب فرمائے (آمین)۔ جواب کو بغور پڑھ لیں کیونکہ اس مسئلے کے کافی پہلو ہیں جن کا سمجھنا ضروری ہے۔
×
×
  • Create New...