Jump to content

AqeelAhmedWaqas

مدیر
  • کل پوسٹس

    463
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    107

سب کچھ AqeelAhmedWaqas نے پوسٹ کیا

  1. کتاب:۔ شاہراہِ اہلسنت بجواب شاہراہِ بہشت صفحہ:۔ ۵۲۱ تا ۵۳۱ مؤلف:۔ ابو کلیم محمد صدیق فانی
  2. ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہے عقائد کے باب میں نہیں کونسے عقائد کے باب میں معتبر نہیں ہے؟ اور ہمارا استمداد کا عقیدہ کس باب میں آتا ہے؟؟ ان میں اکثر کا تعلق وسیلہ سے ہے یا ظاہری طور پر اسمتداد سے ہے جو ہمارا موضوع ہی نہیں واقعی آپکو ابھی تک موضوع کا ہی پتہ نہیں ہے۔ یہ ’’ظاہری طور پر‘‘ استمداد کیا ہوتی ہے؟؟ حضرت عمرو بن سالم رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ سمجھتے تھے یا مستقل متصرف؟؟
  3. لیکن عملی طور پر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی النجم: ۳۸ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں اٹھاتی سندوں اور روایات کے علاوہ آپ کا دارومدار اور کس چیز پر ہے ؟؟؟؟ قرآن مجید فرقانِ حمید پر نہیں ہے؟؟ اقوالِ امام پر نہیں ہے؟؟ آپ کے اصولِ حدیث پر ہرگز نہیں ہے۔ دوسرے جملہ کا جواب اوپر ہو گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہوا۔ باقی جو آپ نے امجیز لگائے ہیں اس کا میرے سے کیا تعلق ؟ بالکل آپ سے ہی تعلق ہے۔ جب آپ کے نزدیک جرح مقدم ہے تو میری پیش کردہ روایات کے جواب بھی دیں۔ خود امام بخاری ایک ہی راوی پر جرح بھی فرما رہے ہیں اور پھر اس سے روایت بھی کر رہے ہیں۔ کیا انکو جرح کا تعدیل پر مقدم ہونا پتہ نہیں تھا؟؟؟ مجھے تو ابھی تک یہی مجرد روایت ہی نظر آ رہی ہے آپکی نظر کا علاج بھی موجود ہے۔ پچھلے پیج پر جا کر کلکِ رضا بھائی کی اسی پوسٹ جہاں سے معاملہ شروع ہوا تھا، کو ایک بار پھر دیکھیں۔ امام زرقانی کی ان توضیحات کو دیکھ لیں دیکھ چکے ہیں ، اسی لیے تو جواب بصورتِ امیجز اوپر دیا گیا ہے۔ آپ ہمارے پیش کردہ حوالوں کو غور سے پڑھ ہی نہیں رہے ہیں۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ امام زرقانی کی توضیحات پر آپکو جو اعتراض ہے، واضح طور پر لکھیں۔ اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا یا یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔ جب بات ہو شرک کی تو اس وقت صرف ہمارے فعل سے استدلال کیا جاتا ہے اور ہماری نیت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ، اب نیت و ارادہ کا دخل کیسے تسلیم کر لیا گیا؟؟ (آپ سے یہ بات اس لیے کہی جا رہی ہے کہ آپ ’’غیر مقلدین کی سی روش‘‘ والی بات سے خود کو بری نہیں کہہ رہے)۔ آپ یہ بھی بتائیں کہ آپ کسی کے نیت و ارادے پر کیسے مطلع ہوں گے؟؟ ہم تو کہتے ہیں کہ فی الواقع مدد مانگنا ہی مقصود تھا اور یہی بات آپ اپنی پوسٹ نمبر ۹ میں ان الفاظ میں تسلیم کر چکے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے تو ثابت ہوا کہ سامنے اشعار کا پڑھا جانا آپکو واضح طور پر تسلیم ہے (اور دور سے ’’پڑھا جانا‘‘ بھی جناب نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ سے پلٹا کھاتے ہوئے تسلیم کیا ہے اپنی پوسٹ نمبر ۲۳ میں اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی آپکی اس بات سے اس کے علاوہ کیا ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث غیر ضعیف ثابت ہوجائے (جو ہو چکی) تو آپ مان لیں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں رہتے ہوئے ہی حضرت عمرو بن سالم رضی اللہ عنہ کی وہ بات سن لی تو اسکا یہ مطلب ہوا کہ وہ بات مدینہ شریف سے دور رہتے ہوئے ہی حضرت عمرو بن سالم رضی اللہ عنہ نے کہی تھی!!۔ آپ اشعار کا ترجمہ پیش کردیں ، اس سے خود ہی ثابت ہو جائے گا کہ ان کا مقصد آخر تھاکیا!!!۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ان کے اضطراب کا اظہار تھا تو پہلے اپنے اس خیال کو ثابت تو کریں اور اگر اسی پر بلا دلیل اصرار ہے تو بھی ہمیں کیا نقصان؟ کیونکہ اس طرح تو پھر بھی ثابت کہ صحابۂ کرام اپنے اضطراب میں رسول اللہ ﷺ سے ہی مدد مانگتے تھے اور ان کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ ہمارا طریقہ ہے۔ امام ابن حجر نے جس روایت کو حسن موصول کہا ہے وہ روایت ہی اور ہے اور اس میں راجز کے مدینہ شریف ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھنے کا ذکر ہے اس سے ہمیں کیا نقصان ہے؟؟ آپ اشعارِ مذکورہ کا ترجمہ پیش کریں اور ثابت ہو جائے گا کہ صحابۂ کرام مصیبت کے وقت کس سے مدد طلب کرتے تھے۔ اس میں آپکو کیا خاص بات لگتی ہے کہ اشعار سامنے پڑھے گئے یا دور سے؟؟؟ پڑھے تو گئے ناں۔ دور سے پڑھنا اگر روایت ضعیف سے مروی ہی مانو تو بھی ظنی عقائد میں ہمارا موقف ثابت ہوگا۔ تقویتہ االایمان کا میں جواب دہ نہیں ہوں آپ نے اسکا جواب تو نہیں دیا کہ ’’آپ غیر مقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘ تو اس بات کا جواب آپ کو دینا پڑے گا۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ آپ پورا چھپتے بھی نہیں اور سامنے آنا بھی جناب کو گوارا نہیں۔ بات تو امام ابن حجر کے سکوت کی ہے چاہے اسی روایت پر فتح الباری میں سکوت کریں یا کسی اور کتاب میں اور جن پر ان کا سکوت ہے ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔ ایسی روایت جو وہ فتح الباری میں بھی لا رہے ہیں اور الاصابہ میں بھی ، جرح دونوں جگہ نہیں کی۔ دیگر محدثین کے حوالے سے بھی لا رہے ہیں اور ان کی اسناد پر بھی جرح نہیں کی۔ روایت کا مستقیم ہونا بھی ثابت ہے اور تعدیل کا تقدم بھی ۔ ۔ اب آپکا دعویٰ آپ ہی کے ذمے۔ جبکہ جرحِ مبہم کا نامقبول ہونا ہی آپکے ہاں مقبول ہے۔ اور بخاری پرستی بھی آپ کے بقول آپ میں نہیں تو بخاری کا انہیں منکر الحدیث کہنے پر روشنی ڈالتے جائیں۔ تعدیل مقدم ہے جب جرح و تعدیل متعارض ہوں (ورنہ اوپر پیش کیے گئے امیجز کا جواب دیں) اور آپ نے اکثر جگہ جرحِ مبہم کا سہارا لیا۔ اورآپ کو راوی پر جرح نظر آتی ہے ، تعدیل نہیں!!۔ آپ نے میرے تمام سوالوں کے جواب نہیں دئیے اور نہ میری آخری پوسٹ کو صحیح طرح پڑھا۔آپ اپنی پہلی روش بدلیں کیونکہ آپ کو ابھی تک اصل نزاعی امر کا علم ہی نہیں ہے۔ خواہ مخواہ وقت کے ضیاع کا باعث نہ بنیں۔ آپ اپنا موقف پیش کریں غیر محتمل انداز میں کہ مقربینِ خدا سے استمداد شرعاََ جائز ہے یا نہیں چاہے وہ قریب ہوں یا دور؟ پہلے اسی بات کے متعلق اپنا نظریہ بتائیں۔ جب تک اس بات کا اور میرے پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے ، میری اور آپکی بحث یہیں رکی رہے گی۔ میں ثابت کر چکا ہوں کہ ۱ آپ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان اشعار کا پڑھا جانا مان چکے (آپکی پوسٹ نمبر ۹)۔ ۲ آپ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں دور سے ان اشعار کا پڑھا جانا بھی مان چکے بشرطیکہ ضعفِ روایت نہ رہے (آپکی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳)۔تو ہم نے روایت کا غیر ضعیف ہونا ثابت کر دیا۔ ۳ ہمارا مقربینِ خدا تعالی سے استمداد کا نظریہ ظنی ہے اور اس کے اثبات کے لیے تو محض عدمِ ممانعت ہی کافی ہے (میری لاسٹ پوسٹ)۔ ۴ آپ کو ابھی تک اصل مبحث کا پتہ ہی نہیں ہے ، اسی لیے تو کبھی بحثِ معجزہ میں پڑ جاتے ہیں (آپکی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳)اور کبھی کرامت کی بحث میں (آپکی پوسٹ نمبر ۲۹)۔ ۵ نفئ استمداد میں آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے (ورنہ میرے مطالبے (میری لاسٹ پوسٹ) پر پیش کرتے)۔ ۶ آپ کے بقول زیادہ تکنیکی بحث بھی نہیں ہونی چاہیے (آپکی پوسٹ نمبر ۲۵) تو اب آپکا راویوں پر جرح کرنا آپ کی اپنی پالیسی کے خلاف ہے۔ ۷ آپ کا مقصد اس سب سے کوئی تحقیق حق نہیں ہے کیونکہ آپ نے اگر اس روایت کو ضعیف ہی سمجھا تھا تو دیگر بہت سے ذرائع سے اسکی تقویت ہم نے بیان کر دی ، آپ نے جرح پیش کی تو ہم نے تعدیل سامنے لا کر رکھ دی ، اگر آپ تحقیق کی راہ پر ہوتے تو ہمارے دلائل کو دلائل سے رد کرتے مگر آپ دلیل کی بجائے ادھر ادھر پھرنے میں مصروف ہیں۔ اور اگر روایت ضعیف ہی مانتے تو بھی ظنی عقائد میں اسے کیوں معتبر نہیں مانا جا سکتا جبکہ ہم نے اسی حوالے سے ادلہ سے استمداد کا اثبات سامنے رکھا ہے۔ ۹ آپ خود کو ’’غیر مقلدین کی سی روش‘‘ سے ہٹانا نہیں چاہتے ورنہ زبانی کلامی ہی کچھ اس پر کہہ دیا ہوتا۔ ۱۰ آپ اس روایت سے معجزہ (آپکی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳) اور اپنی ایک اور پوسٹ میں فعلِ صحابی کو کرامت مان چکے (آپکی پوسٹ نمبر ۲۹) تو اس سے بھی ہمارا نظریہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ (کیونکہ آپکو یقیناََ معجزہ و کرامت کی حقیقت کا بھی علم نہیں ہے)۔ ویسے بھی قبلہ علامہ سعیدی صاحب اب آپ کو دیکھیں گے اور خاص میرا آپکو جواب دینا لازم نہیں۔
  4. بات صرف اتنی سی تھی کہ میں نے اس روایت کو ضعیف کہا تو آپ اس روایت کی صحت ثابت کر دیتے لیکن بجائے اس روایت کی صحت ثابت کرنے کے آپ کو اپنے سوالات پر اصرار ہے ۔ مان گئے جناب کہ زیادہ تکنیکی باتیں آپ نے خود شروع کیں۔ یہ بھی مان لیا کہ میرے سوالات واقعی موضوع سے ریلیٹڈ ہیں روایت کی صحت ثابت کرنے کے آپ کو اپنے سوالات پر اصرار ہے لیکن شاید آپ بات کو گھما پھرا کر اصل بات سے دور رہنا چاہتے ہیں تو میں حتی الوسع آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دئے دیتا ہوں تاکہ آپ کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے ۔ شاید کے لفظ سے ظاہر کہ آپ اپنی رائے میں متذبذب ہیں۔ پہلے ہی جواب دے دئیے ہوتے ، تو ایک دو پوسٹس کم ہو جاتیں!۔ بہانہ آپ ڈھونڈتے ہیں ، کبھی بحث معجزہ ، کبھی کرامت ، کبھی زیادہ تکنیکی باتوں سے رکنے کا کہہ کر!۔ جرح اور تعدیل کے حوالے سے چار اقوال ہیں اب زیادہ تکنیکی باتیں کیوں برداشت کرلیں؟ ان اقوال میں سے پہلا قول زیادہ مشہور ہے تو آپکا جرح مبہم پیش کر کے روایت کے ضعیف ہونے کا قول آپ کی اپنی بات سے جواب پا گیا!۔ یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ جروحات کا غالب حصہ مفسر نہیں ہے یہ انکو مضر جن کا دارومدار محض روایات اور انکی سندوں پر ہے۔ آپکا یہ جواب آپکے پہلے استدلال کو باطل کرنے کو کافی ہے۔ جب کسی راوی پر جرح بھی ہو اور تعدیل بھی تو اس حوالے سے جمہور علما، و محدثین کے نزدیک جرح مقدم ہو گی میں خود تو اس پر ابھی کلام نہیں کرتا ، آپ نیچے دئیے گئے امیجز کو ملاحظہ فرمائیں اور اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا اب تک ’’آپ غیر مقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔اس کے بعد بھی ’’بخاری پرستی‘‘ کا کیا کہیں گے؟ جب ایسا ہو جائے گا تو ردعمل بھی سامنے آ جائے گا یعنی ایک بار پھر ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ ’’پورا چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔ میرا یہ قول بطور فرض کے ہے کہ فرض کیا ایسا ہی ہے تو اس کی توجیہ یہ ہو گی آپ کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ مبحث آخر ہے کیا!۔ آپ کی دلیل زیادہ فعل صحابی پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فعل صحابی کے تعین میں ہی ابہام ہے امام زرقانی کی توضیحات دیکھ لیں واقعی ہماری دلیل فعل صحابی ہی تھی لیکن مجرد یہ روایت نہیں۔ لیکن اگر معجزۂ رسول یا کرامتِ صحابی کو دلیل بنایا جائے تو بھی ہمیں کچھ نقصان نہیں ہے۔ امام زرقانی علیہ الرحمہ کا آپ بار بار حوالہ دے رہے ہیں تو اُن کے حوالے سے جو بات آپکو درست نہیں لگ رہی ، بادلیل بتائیں۔ اول تو ایسا ہو گا نہیں کہ علت دور ہو جائے لیکن باالفرض ایسا ہو بھی جائے تو روایت متن کے اندر بھی ایسی کوئی واضح بات نہیں ہے محض قیاسات ہیں علت تو ختم ہو چکی ، علامہ سعیدی صاحب کی پوسٹ دیکھ لیں۔ ’’متن‘‘ والی بات خود آپ کا قیاسِ نامقبول ہے، ورنہ دلیل سے بتائیں۔ اس لئے کہ تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے جس روایت سے آپ قیاسات کر رہے ہیں وہ سندا بھی ضعیف ہے سند تو مستقیم ثابت ہو چکی اور امام بزار کی سند تو حسن ہے!۔ دیگر اجلہ محدثین کے نام نظر نہیں آرہے؟ پچھلے پیج پر پوسٹ نمبر ۵ میں سے دیکھو۔ اور اگر ضعیف بھی ہو تو ہمیں اس سے جو نقصان ہوگا ، اسکی وضاحت آپ کے ذمے ہے۔ حضرت عمر کی کرامت ہی ہوئی اس سے بھی ہمارا موقف ثابت ہوتا ہے۔ حضرت عمر نے قاصدوں اور ڈاک کا نظام جو نظام بنایا تھا اس کم از کم خود استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی بس نگاہ اتھاتے اور کسی بھی محاذ جنگ کو ملاحظہ فرما کر ہدایات جاری کر دیا کرتے آپ تقویۃ الایمان میں مذکور اس حدیث کے حوالے سے بتا دیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ڈاک کا نظام کیوں جاری فرمایا جبکہ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ان اسباب سے بالکل قطع تعلق ہو جاتے ، سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مبارک افعال والی آپکی بات کا جواب میں دے دوں گا۔ اور جہاں تک بات ہے امام ابن حجر کے فتح الباری میں سکوت کی تو انہوں نے جن احادیث و روایات پر فتح الباری میں سکوت کیا ہے، ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔ یہ آپ کو کس نے کہا کہ انہوں نے صرف فتح الباری میں اسے پیش کیا ہے؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ اس روایت کو ضعیف ہی کہنے پر مصر ہیں تو بھی ہمارا موقف صحیح ثابت ہوگا کیونکہ ضعیف احادیث فضائل اعمال میں بالاتفاق معتبر ہیں۔ اور اگر اس ضعیف روایت سے آپ کے ہاں فعل صحابی ثابت نہیں ہوتا تو معجزہ کا اثبات آپ کو بالاتفاق قبول ہے اور یہ بھی ہمارے موقف کی صحت پر دال ہے۔ اور ضعیف روایت چند طرح سے تقویت بھی تو پا جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو:۔ اب ہم روایت کا چند طرق سے آنا تو بتا چکے ہیں۔ بزار کی سند دیکھیں ، دیگر ائمہ کی روایت بھی دیکھ لیں۔ مزید یہ امیجز بھی دیکھیں، کیا ان سب سے ہماری مذکورہ حدیث قوی نہیں ہو سکتی؟؟؟:۔ اورہماری حدیث مبارکہ شریعت مطہرہ سے ہرگز نہیں ٹکراتی تو اس طرح بھی قوی ہونی چاہیے۔ شریعت مطہرہ اسکی حمایت میں ہی ہے ، ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ مخالفین تک استمداد کے قائل ہیں ، چند حوالے دیکھیں:۔ آپکی ایک اور غلط فہمی کہ ایسی روایات سے عقائد کا ثبوت نہیں ہوتا۔ تو عرض یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تمام عقائد قطعی ہوتے ہیں ، ظنی کوئی نہیں ہوتے؟؟ اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ نفئ نظریۂ استمداد پر قطعی دلائل قائم فرما دیں۔ میں اپنے امام اہلسنت اور شیخِ محقق کے حوالے سے ثابت کرتا ہوں کہ ہمارا استمداد کا نظریہ یا عقیدہ قطعی تو نہیں ہے تو اس کے اثبات کے لیے قطعی دلائل کا مطالبہ کیوں؟؟ غرض آپ جو راہ اختیار کریں پھر بھی ہمارا نظریہ ہرگز غلط ثابت نہیں ہوتا جبکہ اس کے جواز کے لیے تو عدم منع کافی ہے۔
  5. بات کو آپ خود بحث برائے بحث کی طرف لے جا رہے ہیں وہ تو نظر آ رہا ہے کہ کون موضوع سے فرار چاہ رہا ہے۔ اور ایسے سوال پوچھ رہے ہیں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ یہ بھی آپکی ذاتی رائے ہے۔ ورنہ ثابت کریں کہ میرے سوال غیر متعلقہ ہیں۔ جرح کی بات کس نے شروع کی؟ اور جب آپ سے اسی جرح پر بات شروع کی گئی تو اب ’’غیر متعلقہ‘‘ کیوں کہنے لگے؟ اپنے بارے میں جتنا بتانا ضروری تھا وہ بتا دیا ۔ تو آپکے دعوی استغراق کا کیا ہوا؟ اب بات تو دلائل کی ہے جس میں ذاتیات کی ضرورت نہیں ہے ہم جب دلائل کی بات کریں تو آپ ’’زیادہ تکنیکی‘‘ باتوں سے رکنے کا کہہ دیتے ہیں۔ میں نے تکنیکی باتوں کا انکار نہیں کیا صرف زیادہ تکنیکی باتوں سے گریز کا مشورہ دیا تھا کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ خود آپ نے جرح شروع کی تھی ، ہم نے تو آپ سے صرف اسی جرح کے حوالے سے چند باتوں کی تشریح مانگی مگر جواب اب تک نہیں آیا۔ اور یہ ’’تکنیکی‘‘ و ’’زیادہ تکنیکی‘‘ کی تقسیم کہاں سے لے آئے ہیں؟ میں نے حدیث کے راویوں پر کچھ جرح پیش کی تھی لیکن آپ سوائے اس بات کہ اگر حدیث کا ضعیف نہ ہونا ثابت کر دیا جائے تو ۔۔ پر ہی ہیں جناب! مان ہی گئے کہ ’’زیادہ تکنیکی‘‘ باتیں خود انہوں نے چھیڑی ہیں۔ ہمارے ’’اگر حدیث کا غیر ضعیف ہونا ثابت ہو جائے تو‘‘ پر رہنے کی وجوہات:۔ ۔۔۔ آپ ہماری پوچھی گئی باتوں کا جواب نہ دے کر خود موضوع سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳ میں خود اقرار کیا کہ ’’اگر غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو بھی اس سے صحابہ کرام کا استمداد کا قائل ہونا کہیں ثابت نہیں ہوتا‘‘ تو جب آپ کے نزدیک اس سے ہمارا نظریہ ثابت ہی نہیں ہوگا اگر یہ غیر ضعیف ثابت بھی ہو جائے ، پھر آپ اسکے راویوں پر ’’جرح‘‘ کیوں بیان کر رہے ہیں؟؟ کیا ہمارا اور آپ کا اس ٹاپک میں اختلاف معجزۂ رسول میں ہے یا باب استمداد میں؟؟ ایک دفعہ پھر میں اپنے سوالات دہرائے دیتا ہوں اور(بہ اضافہ قلیل):۔ ۔۔۔ جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟ ۔۔۔ جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟ ۔۔۔ اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟ ۔۔۔ جوازِ استمداد میں (آپ کے نزدیک غیر صحیح) ہماری دلیل فعلِ صحابی (دور سے اشعار پڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنا) تھی یا قدرتِ رسول (مدینۂ منورہ میں ہی رہتے ہوئے تین دن کی مسافت سے آواز بھی سننا، صحابی کا علم بھی ہونا، اس کے قبیلے کا بھی جان لینا، اسکا مقصد بھی معلوم ہونا وغیرہ)؟؟؟؟ ۔۔۔ اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ آپ کے عدم قبولِ استمداد کی علت ضعف روایتِ مذکورہ ہے۔ یعنی آپکا انکارِ استمداد معلول بہ علت ہے تو جب علت ہی نہ رہے گی پھر بھی آپ کے نزدیک اثباتِ استمداد کیوں نہ ہوگا؟؟ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳ میں خود اقرار کیا کہ ’’اگر غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو بھی اس سے صحابہ کرام کا استمداد کا قائل ہونا کہیں ثابت نہیں ہوتا‘‘ تو جب آپ کے نزدیک اس سے ہمارا نظریہ ثابت ہی نہیں ہوگا اگر یہ غیر ضعیف ثابت بھی ہو جائے ، پھر آپ اسکے راویوں پر ’’جرح‘‘ کیوں بیان کر رہے ہیں؟؟ کیا ہمارا اور آپ کا اس ٹاپک میں اختلاف معجزۂ رسول میں ہے یا باب استمداد میں؟؟ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۹ میں کہا کہ حضرت عمر کی اس کرامت کو کلیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے تو عرض یہ ہے کہ آپ بار بار بھول جاتے ہیں یا راہ فرار اختیار کرتے ہیں کیونکہ بحث آپ استمداد میں کر رہے ہیں اور بات معجزہ کرامت کی شروع کر دیتے ہیں۔ اور اب ساتھ یہ بھی بتائیں کہ کرامت سے ثبوت کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ رہا آپکا یہ دعویٰ کہ ایک جزئی واقعہ کو کل پر منطبق کرنا عجیب بات ہے تو عرض یہ ہے کہ پہلے تو اسے جزئی واقعہ ثابت کریں ، پھر یہ ثابت کریں کہ اس واقعہ کو کل پر منطبق کرنا شرعا ناجائز ہے ، اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتائیں کہ کیا ہر عجیب بات شرعا درست نہیں ہوتی؟؟ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۹ میں لکھا اور آپ سے اس ایک روایت کی صحت ثابت نہیں ہورہی تو میں کہتا ہوں کہ پہلے پوچھی گئی باتوں کا جواب دو، ہم بھی حدیث کی صحت ثابت کر دیں گے۔ آپ بار بار حدیث کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ خود ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے رہے۔ اسے بھی دیکھتے جائیے پھر!۔ جب تک آپ پوچھی گئی باتوں کا جواب نہیں دیں گے تب تک ہم بھی رکے رہیں گے اسی پوائنٹ پر۔
  6. شیعوں کی معتبر کتاب سے ۔(یہ بھی شیعوں کا ایک دھوکہ ہے۔ یہ بات سب کو تسلیم ہے کہ ناجی جماعت اہلسنت ہی ہے۔ اسی لیے بدمذہب ٹولے خود کو ناکام کوششوں سے اہلسنت کہنے کہلوانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ مگر یہ سب جانتے ہیں کہ اہلسنت یا سواد اعظم کون ہیں۔ جنہیں اس دور میں مسلک اعلیحضرت کا پیرو گردانا جاتا ہے اور جو صحابہ و اہلبیت کے سچے غلام، اولیاء کی تعظیم کرنے والے اور بعینہ وہی عقائد رکھتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے ہیں۔ بدمذہبوں کا خود کو اہلسنت کہلوانا ایک لحاظ سے اہلسنت و جماعت کے ناجی جماعت ہونے کی ہی دلیل ہے)۔
  7. اس میں جواب دینے والی کیا بات ہے ؟ آپ کو حق سچ جاننے سمجھنے میں دلچسپی شاید نہیں ہے کیونکہ آپ نے زحمت ہی نہ کی کہ معلوم تو کرلیں کہ کون کیا بات کر رہا ہے!۔ وہ بات میں نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۰ میں آپ کو کہی تھی۔ کچھ نہیں کا تعلق ان ہی معلومات سے ہے جو مجھ سے پوچھی گئی تھیں اور کچھ نہیں استغراق عرفی کے سینس میں ہے اور کافی حد تک کا یہی مفہوم ہے کہ حتی الوسع بات وہیں کی وہیں ہے اب بھی۔ میرا کہنے کا مقصد محض اتنا تھا کہ کھل کر سامنے آئیں اور چوری چھپے وار کرنے سے گریز کریں۔ میرے بھائی زیادہ تکنیکی باتوں میں نہ جائیں کیوں کہ اس معاملے میں بھی علما، جرح و تعدیل کی آرا مختلف ہیں ہمیں آرڈر دے دیا کہ ’’زیادہ تکنیکی‘‘ باتوں میں نہ جائیں۔ آپ یہ بتائیں کہ ان ’’تکنیکی باتوں‘‘ کی بحث کس نے چھیڑی تھی اس ٹاپک میں؟؟ اگر ’’تکنیکی باتیں‘‘ گوارا نہیں تو اس میدان میں اترے ہی کیوں؟؟۔ پھر کہتے ہیں جناب کہ ’’علما جرح و تعدیل کی آرا مختلف ہیں‘‘ اس سے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟ اختلاف کی صورت میں کسی مسئلہ کا حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا کیا؟ اور آپ نے جو ’’تکنیکی باتیں‘‘ کی ہیں سندِ حدیث پر ، ان میں علما کا اختلاف یاد کیوں نہیں رہا جو آپ جزم کے ساتھ حکم چلانے لگے ’’کہ فلاں امام نے اسے فلاں کتاب میں ضعیف کہا ہے‘‘۔ ہم جب کوئی متعلقہ سوال اٹھائیں تو جناب کی نظر اختلافِ علما پر جا ٹکتی ہے اور خود یک طرفہ اقوال کو اپنے دعوی کی سند بناتے وقت اختلافِ علما کو ایکدم بھول جاتے ہیں!!۔ میرے بھائی اس طرح کے جوابات بطور فرض کے ہوتے ہیں تو ہم نے کب کہا کہ یہ آپکا برہانی کلام ہے؟؟؟ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں یہ موقف اپنایا کہ ’’وہ اشعار دور سے نہیں پڑھے گئے‘‘ مگر پوسٹ نمبر ۲۱ اور ۲۳ میں جناب نے بعد دفعِ ضعفِ روایت یہ مان لینے کا اقرار کیا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ہوں گے (اسی لیے تو یہ لکھا:۔آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی )۔ باقی آپکے اعتراضات کا جواب میں صرف اسی صورت دوں گا جب آپ میرے سوالات کے جوابات دے دیں گے۔ کیونکہ آپ ایک بات پر ٹکتے ہی نہیں ہیں اور بحث برائے بحث کے دلدادہ ہیں۔ ہمارا وقت اتنا غیر قیمتی نہیں ہے کہ آپکا بحث برائے بحث کا شوق پورا کرنے میں صرف ہو۔ آپکو متعلقہ گفتگو کرنی ہے تو اسی ترتیب سے چلیں جیسے ٹاپک چل رہا تھا ، ورنہ اس ٹاپک کو یہیں چھوڑ دیں۔
  8. عرض یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی ہو لوگ اسکے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیںاس کا پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ مزید آپ ان آڈیو فائلز کو سماعت فرمائیں۔ اسی حوالے سے فتاویٰ امجدیہ شریف کے چند صفحات (نیچے دئیے گئے) بھی پڑھیں۔ Imam ka Aqeeda Na-Maloom 1.mp3 Imam ka Aqeeda Na-Maloom 2.mp3 Imam ka Aqeeda Na-Maloom 3.mp3 Imam ka Aqeeda Na-Maloom 4.mp3 Imam ka Aqeeda Na-Maloom 5.mp3 ۔دوسری عرض یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت میں بعد میں شامل ہوا اور اب اپنی نماز مکمل کر رہا ہے تو کیا اس صورت میں بھی جماعت ہو جاۓ گی اسے تفصیل سے لکھیں۔ اور آخری بات یہ کہ اگر کوئی سنن یا نوافل ادا کر رہا ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہو گا یا یہ کہ بعد میں آنے والے کو علم نہیں کہ وہ کیا ادا کر رہا ہے یعنی فرض یا سنت ۔۔ایسے میں کیا کیا جاۓ چند باتیں ذہن میں رکھیں کہ:۔ (بشرطیکہ دیگر کوئی شرعی خرابی نہ پائی جائے) ۔۔۔ نفل پڑھنے والا فرض پڑھنے والے کی اقتدا کر سکتا ہے۔ ۔۔۔ فرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والے کی اقتدا نہیں کر سکتا۔ مزید مسائل کو مثال سے سمجھیں۔ اس مثال میں زید پہلے سے نماز پڑھ رہا ہوگا اور عمر بعد میں آئے گا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ زید قابلِ امامت ہے اور زید کی نماز عمر کے مذہب پر صحیح ہے اور دیگر کوئی شرعی خرابی موجود نہیں ہے تو:۔ اگر کسی طریقے سے پتہ چل جائے کہ زید وہی فرض پڑھ رہا ہے جو عمر نے پڑھنے ہیں تو عمر کو اپنے فرض پڑھنے میں اسکی اقتدا کرنا درست ہے۔ اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ زید وہی فرض پڑھ رہا ہے جو عمر نے پڑھنے ہیں تو اب عمر اپنے فرض اسکی اقتدا میں نہیں پڑھ سکتا۔ اگر زید فجر یا مغرب کے فرضوں کے علاوہ دوسری نماز کے فرض پڑھ رہا ہو تو عمر بنیت نفل اسکی اقتد کر سکتا ہے بشرطیکہ نفل پڑھنا اس وقت منع نہ ہو (نیچے وہ ۱۲ اوقات بتا دئیے گئے ہیں جن میں نفل پڑھنا منع ہے)۔ اگر زید نفل پڑھ رہا ہو تو عمر بنیتِ نفل اسکی اقتدا کر سکتا ہے جبکہ اس وقت نفل پڑھنا منع نہ ہو اور تداعی نہ پائی جائے یا تداعی کا ظنِ غالب نہ ہو۔ (تداعی کے ساتھ نفل پڑھنا اس وقت بالاتفاق مکروہ ہے جب امام کے کم از کم چار مقتدی ہوں اور بالاختلاف (مکروہ یا غیر مکروہ ہونے میں اختلاف) اس وقت ہے جب امام کے کم از کم تین مقتدی ہوں اور اگر تین سے کم مقتدی ہوں تو بالاتفاق بغیر کراہت کے جائز ہے)۔ جیسے آپ نے ذکر فرمایا کہ ہر آنے والا پہلے سے موجود شخص کی اقتدا شروع کر دیتا ہے تو عرض یہ ہے کہ ایسی صورت میں نفل پڑھتے ہوئے شخص کی اقتدا نہ کیجائے ورنہ بعد میں آنے والے لوگوں کی شمولیت سے تداعی کیساتھ نفل پڑھنا لازم آئے گا جو کہ (کم از کم چار مقتدی ہونے پر) بالاتفاق مکروہ ہے)۔
  9. نجدیوں کی کتب معتبرہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  10. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ جناب!۔ کچھ دلائل نیچے دئیے جا رہے ہیں معتبر کتاب ’’اہلسنت کی پہچان‘‘ سے۔ اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کریں تو ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ اہل ایمان کو یہی کافی ہیں جبکہ ہٹ دھرم بدعتی کیلئے دفتروں کے دفتر بھی ناکافی!۔
  11. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ یہ نجدی غیر مقلد کا چیلنج ہمیں نہیں، درحقیقت اپنے ٹولے کے بانیوں کو ہے۔ جیسا کہ پوری پوسٹ دیکھ کر آپکو معلوم ہو جائے گا۔ ترمذی شریف میں یہ حدیث موجود ہے اور اسمیں ’’اصحاب الحدیث‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ، جس کا مطلب گروہِ محدثین ہے۔ نجدیوں کی عیاری ہے کہ ایک تو خود کو اہلحدیث کہا اور ساتھ میں مذکورہ الفاظ ’’اصحاب الحدیث‘‘ سے اپنا ٹولہ مراد لے لیا۔ ۔۔۔ عرض یہ ہے کہ نجدی غیر مقلد خود کو دھوکے سے اہلحدیث کہتے کہلواتے ہیں کیونکہ انکا یہ نام ’’اہلحدیث‘‘ انگریز کا عطیہ ہے بوسیلۂ بٹالوی غیر مقلد تاکہ یہ وہابی کہلوانے سے بچ سکیں اور ایک نئے نام سے عوام کو گمراہ کر سکیں!۔ تو جب یہ درحقیقت اہلحدیث ہیں ہی نہیں پھر انکا دعویٰ کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟؟ اور ان کے خود کو اہلحدیث کہنے کہلوانے سے یہ اصحاب الحدیث میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے (جیسا کہ انکا منکرِ ضروریاتِ دین ہونا مخفی نہیں ہے)۔ اب ہم نجدیوں کے نزدیک معتبر کتاب کا حوالہ پیش کرتے ہیں جس سے ثابت ہو جائے گا کہ نام ’’اہل حدیث‘‘ بطورِ مذہب استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ بھی کہ نجدی اس کے کیا معنی لیتے ہیں۔ رہی بات نجدی کے چیلنج کی تو جیسا میں نے پہلے لکھا ہے کہ انکا چیلنج ہمارے بجائے خود نجدیوں کے ٹولے کے بانیوں کو ہے۔ اس حوالے سے صرف ابنِ تیمیہ کی کتاب سے جو پیش کیا جا رہا ہے ، وہ کافی ہے ہمارے مؤقف کو ثابت کرنے اور نجدیوں پر حجت قائم کرنے کیلئے۔ چند اہم نتائج اسی ایک کتاب کے تین صفحات سے یہ سامنے آتے ہیں:۔ ۔۔۔ ابن تیمیہ نے بھی اہلسنت و جماعت کو برحق مانا ہے۔ ۔۔۔ اہلسنت سے کٹنے والا گمراہ بدعتی ہے۔ ۔۔۔ نجات کا معیار اہلسنت میں شمولیت ہے۔ ۔۔۔ اصحاب الحدیث کا مسلک بھی اہلسنت و جماعت ہے (تو گویا ابن تیمیہ بھی اصحاب الحدیث کو مذہب اہلحدیث کا پیرو ماننے سے بیزار ہے اور اصحاب الحدیث (جسے نجدی ’’اہل حدیث‘‘ کہہ رہا ہے) ابن تیمیہ کے نزدیک بھی کوئی مذہب نہیں ہے)۔ معترض کا دعویٰ یہ تھا کہ ’’جنتی جماعت صرف اہلحدیث ہے‘‘۔ خود ابنِ تیمیہ نے عقیدۂ واسطیہ میں اپنے لاڈلے معترض کو یہ کہہ کر دھتکار دیا ’’امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے ایک کے علاوہ سب کے سب جہنمی ہوں گے۔ اور وہ مستثنی فرقہ اہل سنت ہیں‘‘۔ سچ ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا!!۔
  12. سوال ’یا محمد‘‘ کہنا مطلقاََ نا جائز ہے یا کس صورت میں جائز ہے؟’’ (فتاوی رضویہ اور فتاوی امجدیہ وغیرہ میں یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ایسا کہنا مطلقا منع ہے) جبکہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے شرح صحیح مسلم جلد ہفتم میں کافی دلائل سے اسکا جواز ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے کافی احادیث بھی پیش کی ہیں۔ اور مفتی اقتدار نعیمی نے فتاوی العطایہ میں بھی اسکا جواز لکھا ہے۔ جواب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہمارے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے نام پاک سے ندا کرنے کی اجازت نہیں۔ قرآن وحدیث میں جو وارد ہوا ہے ، وہ ہمارا کلام نہیں ہے۔ ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم مطلقاََ حضور ﷺ کو ان کے نام پاک سے ندا نہیں کر سکتے۔ واللہ ورسولہ اعلم ، عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔۔۔Darul Ifta Ahle Sunnat <[email protected]> 10:54 AM۔۔۔
  13. آپ نے ان کا جواب نہیں دیا ۔’’آپ بجائے غیر جانبدارانہ تحقیق کے غیرمقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔ ۔’’محترم کشمیر خان صاحب کے اعتراضات آپ پر اب بھی قائم ہیں‘‘۔ میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں ایک طرف آپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا‘‘ اور ساتھ ہی یوں کہہ دیا کہ ’’کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں‘‘۔ ’’کچھ نہیں‘‘ کا مقابل ’’کافی حد تک‘‘ بنتا ہے؟؟ تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو فی الحال اتنا بتائیں کہ ۔۔۔ جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟ ۔۔۔ جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟ ۔۔۔ اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟ ہو جائے تواسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی سبحان اللہ!۔ یعنی اگر یہ حدیث غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے معجزہ مان لیں گے۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر ابھی کیلئے صرف اتنا ہی:۔ ۔۔۔ آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟ ۔۔۔ جناب! اس ٹاپک میں آپ استمداد پر اعتراض (یا نفی) کر رہے تھے یا معجزہ پر؟؟ آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ پائے کہ آپکا یہ کلام خلط مبحث ہے۔ ۔۔۔ جوازِ استمداد میں (آپ کے نزدیک غیر صحیح) ہماری دلیل فعلِ صحابی (دور سے اشعار پڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنا) تھی یا قدرتِ رسول (مدینۂ منورہ میں ہی رہتے ہوئے تین دن کی مسافت سے آواز بھی سننا، صحابی کا علم بھی ہونا، اس کے قبیلے کا بھی جان لینا، اسکا مقصد بھی معلوم ہونا وغیرہ)؟؟؟؟ آپ بیچ راہ میں یہ بھول گئے کہ ہماری دلیل آخر تھی کیا اور ٹاپک کیا تھا!۔ ہم نے کب اپنا مؤقف قدرتِ رسول سے ثابت کیا ہے جو آپ اسے مان کر ہم پر احسان کرنے چلے ہیں!۔ لیکن اس روایت سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو Kilk-e-Raza نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ آپ کے عدم قبولِ استمداد کی علت ضعف روایتِ مذکورہ ہے۔ یعنی آپکا انکارِ استمداد معلول بہ علت ہے تو جب علت ہی نہ رہے گی (جیسے آپ نے ’’اگر‘‘ سے فرض کیا) پھر بھی آپ کے نزدیک اثباتِ استمداد نہ ہوگا!!۔ عجیب اُلٹی منطق ہے آپکی۔ آپ نے قدرتِ رسول و معجزۂ رسول کے زاویے سے تو مان لیا اگر روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو۔ مگر اصل بات کو نظر انداز کر دیا کہ صحابئ رسول کے عمل مبارک سے کیا کیا امور ثابت ہوں گے اگر یہ روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے!!!!!۔ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں۔
  14. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مذکورہ کتاب اور اس کے مصنف کے متعلق ناچیز کو علم نہیں ہے۔ خلفاء اربعہ کی خلافت ، شیخین (یعنی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق اور سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما) کی افضلیت اور ختنین (یعنی سیدنا حضرت عثمان غنی اور سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنھما) کی محبت ضروریاتِ اہل سنت میں سے ہیں۔ ضروریاتِ اہلسنت کا منکر اہلسنت و جماعت سے خارج ہے (مگر کافر نہیں ہے)۔ سیدنا حضرت عثمان غنی ذی النورین رضی اللہ عنہ کی سیدنا حضرت علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم پر افضلیت ضروریات اہلسنت و جماعت میں سے نہیں ہے بلکہ ثابتاتِ محکمہ میں سے ہے۔ یہی کچھ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ غلامِ رسول قاسمی علیہ الرحمہ نے اپنی کتابِ لاجواب ’’القواعد فی العقائد‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ امیجز نیچے ملاحظہ فرمائیں۔ فتاویٰ رضویہ شریف کی عبارت کو سمجھنے کیلئے متقدمین اور متاخرین کی اصطلاحات کو جاننا ضروری ہے۔ متقدمین کے ہاں وہ شخص شیعہ (یا متشیع) ہے جو سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کو افضلیت دے یا ان دونوں خلفاء کرام کے درمیان اس مقام پر سکوت کرے ۔ وہ شخص متقدمین کے نزدیک رافضی (غالی شیعہ) ہے جو سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی شیخین کریمین رضی اللہ عنھما پر افضلیت کا عقیدہ رکھے۔ متقدمین اس شخص کو غالی رافضی کہتے ہیں جو شیخین کریمین رضی اللہ عنھما سے بغض رکھے یا ان پر سب و شتم کرے (یعنی تبرا بکے)۔ متاخرین کی اصطلاح میں شیعہ اور رافضی کا ایک ہی معنی لیا جاتا ہے۔ اسے آپ ان دو کتابوں کے امیجز سے دیکھ سکتے ہیں:۔ القواعد فی العقائد تذکرۃ المحدثین فتاوی رضویہ شریف کی عبارت کا امیج نیچے دیا جا رہا ہے۔ اب اسے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ شیعوں رافضیوں کے متعلق احکام جاننے کیلئے اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کا رسالہ مبارکہ ’’رد الرفضہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ http://www.scribd.com/doc/109358958/Radd-ur-Rifza-%D8%B1%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%81%D8%B6%DB%81#scribd
  15. محترم جناب منعم عطاری صاحب۔ اس کے لیے اصل فتویٰ دیکھنا پڑے گا۔ ۔ آپ اوپر دیئے گئے لنکس والی کتابیں پڑھیں خصوصا دو قومی نظریہ اور پاکستان۔ ویسے تو اس حوالے سے نیٹ پر دیگر کئی کتب موجود ہیں مگر آسانی کی خاطر اس لنک پر موجود کتابیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔(ان میں سے چند کتابوں کے کل مضامین سے اتفاق لازمی نہیں)۔ http://ghulamenabi786.blogspot.com/2013/12/books-on-tareekh-e-pakistan-page-1.html
  16. 2 Qaomi Nazriya aor Pakistan Download Book: (3.99 MB) http://books.nafseislam.com/temp_download/download_books.php?book_id=891&book=do-qomi-nazriya-aur-pakistan Ameer-e-Millat Aor Tahreek-e-Pakistan Download Book: (12.9 MB) https://archive.org/download/AmeerEMillatAurTahreekEPakistan/Ameer-e-Millat-Aur-Tahreek-e-Pakistan.pdf ان کے علاوہ بھی نیٹ پر دوسری بہت سی کتابیں اسی حوالے سے موجود ہیں۔ سرچ کر کے ڈاؤن لوڈ فرمائیں اور زیر مطالعہ لائیں۔
  17. Download Book: (2.12 MB) http://books.nafseislam.com/temp_download/download_books.php?book_id=101&book=mazaraat-par-phool-daalna-kaisa-hai
  18. Download Book: (36.4 MB) http://books.nafseislam.com/temp_download/download_books.php?book_id=812&book=fiqh-e-islami
  19. Download Book: (32.1 MB) http://books.nafseislam.com/temp_download/download_books.php?book_id=2467&book=nizam-e-mustafa-mein-jaheiz-ka-tasawwur
  20. Download Book: (15.8 MB) https://archive.org/download/AlAqaidENasafiKiSharahAqaidEAhleSunnat/Al-Aqaid-e-Nasafi-Ki-Sharah-Aqaid-e-Ahle-Sunnat.pdf
  21. http://www.islamimehfil.com/topic/10731-tahreek-e-pakistan-main-ulama-e-kiram-ka-kirdar/
×
×
  • Create New...