Jump to content

Musaffa

اراکین
  • کل پوسٹس

    44
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    1

سب کچھ Musaffa نے پوسٹ کیا

  1. Musaffa

    حمد باری تعالیٰ

    حمد باری تعالیٰ از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
  2. Musaffa

    حمدِ باریِ تعالیٰ

    حمدِ باریِ تعالیٰ از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُوہی صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تُوہی دلوں سے رنج و الم کو نکالتا ہے تُوہی نفَس نفَس میں مَسرّت بھی ڈالتا ہے تُوہی وہ جنّ و انس و مَلک ہوں کہ ہوں چرند و پرند تمام نوعِ خلائق کو پالتا ہے تُوہی بغیر لغزشِ پا تو ڈبو بھی سکتا ہے پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تُوہی تُو ہی تو مُردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے گُلوں کے جسم میں خوشبوئیں ڈالتا ہے تُوہی ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تُوہی نجات دیتا ہے بندوں کو ہر مصیبت سے شکم سے مچھلی کے زندہ نکالتا ہے تُوہی جو لوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تُوہی
  3. Musaffa

    My Introduction

    Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi M.A.UGC-NET, Ph.D (born1979) A young Naat poet, research scholar and author of above 38th books of Sunni world. My Books And Articles All Online Works of Our Team
  4. کلام رضا بریلوی میں علمی اصطلاحات کی ضیا باریاں ٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی اما م احمد ضا محدثِ بریلوی کی شخصیت اور ان کے فکر وفن پر کچھ خامہ فرسائی کرنا مجھ جیسے کم علم اور بے بضاعت کا کام ہرگز نہیں ، ہاں! آپ کے عقیدت مندوں کی صف میں شامل ہونا باعثِ صد افتخار سمجھتے ہوئے یہ چند سطریں سپردِ قرطاس کرنے کی طالب علمانہ کوشش کررہا ہوں ۔ امام احمدرضا محدث بریلوی کی نعت گوئی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے کئی محققین نے پی ۔ ایچ ۔ ڈی ۔ اور ایم۔ فل، جیسی باوقار ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اعلا حضرت نے نعت گوئی کے میدان میں جو اجلے اور روشن نقوش ثبت فرمائے ہیں آج فضاے نعت میں اپنے شہبازِ فکر و نظر کو پرواز کرانے والے بیش تر شعراے کرام محسوس یا غیر محسوس طور پر آپ کی کہیں نہ کہیں تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ امام احمد رضا کی فکر رسا نے نعت گوئی میں ایسے خوب صورت اور دل کش گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جس کی مثیل و نظیر کسی دوسرے نعت گو کے یہاں نہیں ملتی ۔مفخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت اور تعظیم و توقیر کے اعتبار سے تو آپ کے کلام کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہے اس کا کوئی جواب نہیں پیش کیا جاسکتا بل کہ اگر میں یہ کہوں کہ عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کا اسمِ شریف اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ نعت گوئی میں عقیدے و عقیدت کی نور افزا پرچھائیوںکے ساتھ آپ کے کلام میں جہاں فکر و فن ، جذبہ و تخیل اور متنوع شعری و فنی رچاو کے دل نشین تصورات ابھرتے ہیں ۔ وہیں آپ کے نعتیہ نغمات میں اکثر اشعار مصطلحاتِ علمیہ اور تلمیحاتِ دینیہ سے ایسے مالامال ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے عالمانہ فہم و فراست کی ضرورت ہے۔آج جب کہ تعلیمی معیار بالکل گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں سطحی تعلیم دی جارہی ہے ایسے عالم میں امام احمدرضا بریلوی کے علمی و فنی خوبیوں سے آراستہ و مزین اشعار ہم جیسے کم علموں کی سمجھ سے ورا ہوتے جارہے ہیں ، مثلاً یہ شعر دیکھیں ؎ مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب اس کی ممکنہ تشریح و توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ہم علم ہیئت سے واقف ہوں اور علم نجوم پر بھی گہری نظر ہو اور بروج و میزان اور حمل وغیرہ کے خواص سے آگاہی اور علمِ موسمیات کا بھی درک ہوتب ہی ہم اس شعر سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔اس شعر میں مہر- سورج ، میزان- آسمان کے بارہ برجوں میں سے ساتواں برج ، حمل - دنبے کی شکل کا ایک آسمانی برج ، شبِ دے - اکتوبر کے مہینے کی رات … جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے امام احمدرضا کہتے ہیں کہ عرب ِ مقدس کی بارش اکتوبر کے مہینے کی رات میں اگر ایک قطرہ ہی گرادے تو سورج اگر برجِ میزان میں چھپا ہو تو وہ وہاں سے نکل کر برجِ حمل میں آکر چمکنا شروع ہوجائے گااور خشک سالی کا نام و نشان مٹ جائے گاجو کہ عرب کے چاند سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبتِ پاک کی برکت کا ظہور ہی ہے، علاوہ ازیں یہ شعر خاطر نشین کریں ؎ بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا اس شعر کو بھی سمجھنے کے لیے علمِ نجوم کی اصطلاحات سے واقفیت حددرجہ ضروری ہے ، اس شعر میں امام احمد رضا کے خامۂ گل رنگ نے رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے علمِ نجوم کا استعمال کرتے ہوئے بارہ برجوں کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ جب بھی چاند کی بارہ تاریخ آتی ہے تو آسمان کا چاند بارہویں کے چاند یعنی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت (۱۲؍ ربیع الاول) کی خوشی اور نسبت سے جھک جھک کر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آداب و سلامی بجا لاتا ہے اور نہ صرف چاند بل کہ دائرۂ فلک کے بارہ برجوں اسد، ثور، جدی، جوزہ،حمل، حوت، دلو، سرطان، سنبلہ، شرف، عقرب ،میزان کا ہر ہر ستارا بھی جھک جھک کر حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتا ہے اور بہ زبانِ حفیظؔ جالندھری یوں کہتا ہے کہ ؎ ترے آنے سے رونق آگئی گل زارِ ہستی میں شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربانی ترا در ہو ، مرا سر ہو ، مر ادل ہو ، تر اگھر ہو تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدِ طولانی ہوسکتا ہے بعض حضرات یہاں معترض ہواٹھیںکہ نعت جیسی صنف میں ان علمی اصطلاحات کا لانا کیا معنی ؟ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ امام احمدرضا کے دورکا یہ مزاج تھا کہ شعرا اپنے اشعار میں جذبات وخیا لات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے تجربے اور علمی اصطلاحات کو جگہ دیتے تھے اور اس عہد میں ایسے اشعار کو بہ آسانی سمجھنے والے لوگ بھی تھے جو کہ فی زمانہ مفقود ہیں۔ آج سوداؔ ، ذوق ؔاور مومن ؔکے قصائد، عزیزؔ لکھنوی کے مناقب، حضرت محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ قصیدے اور ان کی تشابیب ، اوردبیرؔ کے مراثی اور ان میں پائی جانے والی تلمیحات اور مذہبی روایات آج ہمارے لیے معمہ اور چیستاں بن کر رہ گئی ہیں ، جاننا چاہیے کہ اس کا سبب محض ہمارا سطحی نظامِ تعلیم ہے ۔اس لیے ایسے افکارِ عالیہ اور اصطلاحاتِ علمیہ سے سجے سنورے اشعار کو فہم نہ کر پانے کی بنیاد پر ایسا اعتراض کرنا کہ ان کو اشعار میں نظم کرنے کی کیاضرورت تھی ادبِ عالیہ کے گراں قدر جوہر پاروں سے صرفِ نظر اور اپنی علمی بے مایگی پر پردہ ڈالنے کی سعیِ نامشکور ہے ۔ دراصل امام احمدرضا بریلوی نے اپنے کلام کے حوالے سے دنیا بھر کے علوم و فنون کا فن کارانہ اور عالمانہ استعمال کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے قلم بند فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی نعت گوئی سے علوم و فنون کو بھی نعتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم میں مصروف کردیا ہے ۔ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کاجو نت نئے اور جدت و ندرت سے مملو اظہاریہ آپ کے کلام میں ملتا ہے وہ باوجود تلاش و تفحص دیگر شعر اکے یہاں کم نظر آتا ہے یہ امر امام احمد رضا جیسے عاشقِ صادق کا امتیازی وصفِ خاص ہے ۔ امام احمدرضا کی شاعری کا مقصد محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات ادا کرنے والوں کی مذمت اور تردید کرنا ہے ، چناں چہ ارشادِ عالی ہے کہ ؎ زمین وزماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے چنیں و چناں تمہارے لیے بنے دوجہاں تمہارے لیے دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے دشمنِ احمد پہ شدت کیجیے ملحدوں کی کیا مروت کیجیے شرک ٹھہرے جس میں تعظیمِ حبیب اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے اللہ جل شا نہ اور اس کے فرشتے رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں کائنات کا ہر ذرّہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہے حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں جہاں ذکرِ خدا جاری ہے وہاں وہاں ذکرِ مصطفی بھی ہوتا ہے حضرتِ رضا بریلوی کا خامۂ گل ریز اور فکرِعشق آمیز جب نعت نگاری کی طرف مائل ہوتی ہے تو آپ کا کمالِ علمی گہر افشانی کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نت نئے گل بوٹے اس شان سے کھلا تا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، میدانِ نعت میں آپ کے علمی اصطلاحات سے آراستہ ومزین اشعار صفحۂ قرطاس پر ہماری مشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کرنے لگتے ہیں ۔ امام احمد رضا کی فکرِ رسا نے فضاے نعت میں پرواز کرتے ہوئے انوکھی معنی آفرینی اور جدت و ندرت کی لہلہاتی فصل اگائی ہے اس پر شرح و نقد کرنا مجھ جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں ذیل میں کلامِ رضاسے علمی اصطلاحات پر مشتمل اشعار اور ان کے نیچے اس علم کا عنوان بلا تبصرہ درج کیا جارہا ہے اہل علم ان اشعار سے لطف لے سکتے ہیں ؎ پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتا کیا کہ یوں بے سہیم و قسیم و عدیل و مثیل جوہرِ فردِ عزت پہ لاکھوں سلام غایت و علت سبب بہر جہاں تم ہو سب تم سے بَنا تم بِنا تم پہ کروروں درود (علمِ فلسفہ) وہ گراں سنگیِ قدرِ مِس وہ ارزانیِ جود نوعیہ بدلا کیے سنگ و لآلیِ ہاتھ میں (علمِ فلسفۂ نظری) بارہوں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستار نور کا سعدین کا قران ہے پہلوے ماہ میں جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے دنیا ، مزار ، حشر ، جہاں ہیں غفور ہیں ہر منزل اپنے چاند کی منزل غُفر کی ہے نبوی ظِل علوی برج بتولی منزل حسنی چاند حسینی ہے چمکنا تیرا (علم نجوم ) مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب ہیں عکسِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل سیاہی مائل اس کی چاندنی ہے قمر کا یوں فلک مائل ہے یاغوث طلاے مہر ہے ٹکسال باہر کہ خارج مرکزِ حامل ہے یا غوث (علمِ ہیئت) زبانِ فلسفی سے خَرق و اِلْتِیام اسرا بنایا دورِ رحمت ہاے یک ساعت تسلسل کو محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ قدرت کا نظر آتا ہے اس وحدت میں کچھ انداز کثرت کا ممکن میں یہ قدرت کہاں ، واجب میں عبدیت کہاں حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا ، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے فرشتے خدم رسولِ حشم تمام امم غلام کرم وجودوعدم حدوث و قدم جہاں میں عیاں تمہارے ( فلسفۂ مابعد الطبعیات) محیط و مرکز میں فرق مشکل ، رہے نہ فاصل خطوطِ واصل کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو محیط کی چال سے تو پوچھو ، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے ( فلسفۂ مابعد الطبعیات و علمِ ہندسہ) کیا لکیروں میں ید اللہ خط سرو آسا لکھا راہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں (علمِ ہندسہ) ذرے مہرِ قدس تک تیرے توسط سے گئے حدِّ اوسط نے کیا صغرا کو کبرا نور کا تم سے خدا کا ظہور ، اُس سے تمہار اظہور لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں دُرود سببِ ہر سبب ، منتہاے طلب علّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام (علمِ منطق) ترا منسوب ہے مرفوع اس جا اضافت رفع کی حامل ہے یاغوث (علمِ معانی و نحو) درودیں صورتِ ہالہ محیطِ ماہِ طیبہ ہیں برستا امتِ عاصی پہ اب رحمت کا پانی ہے اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم یاخدا! جلد کہیں نکلے بخارِ دامن نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن حسنی پھول حسینی ہے مہکنا تیرا (علمِ موسمیات) نبوی خور علوی کوہ بتولی معدن حسنی لعل حسینی ہے تجلا تیرا کوہ سرمکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا (علمِ ارضیات و معدنیات) رشحاتِ رضابریلوی سے اس قبیل کے اور بھی درجنوں اشعار اخذ کرکے سجائے جا سکتے ہیں ، اس مختصر سے مضمون میں اتنی ہی مثالوں پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔ وگر نہ علم و فضل کے اس بحرِ ناپیدا کنار کی کماحقہ شناوری کا حق ادا کرنا مجھ جیسے مبتدی کے لیے ہرگز ممکن نہیں ۔ یہاں اشعار اور ان کے نیچے علوم و فنون کے نام درج کردیے گئے ہیں تاکہ اہلِ علم و فہم اس کی گہرائی و گیرائی تک رسائی حاصل کرکے کلامِ رضا بریلوی میں علمی مصطلحات کی جو ضیا باریاں ہیں ان سے کیف و سرور حاصل کریں ۔حضرت امام ہی کے ایک شعر پر تشطیر کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں ؎ ’’ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم‘‘ دنیاے علم و فن میں ہے شان تیری محکم عشقِ شہِ دنا کے دریا بہادیے ہیں ’’جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں‘‘ ۱۱؍رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ/ ۱۲؍ اگست ۲۰۱۱ء بروز جمعہ
  5. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Hazrat Umme Salama Wo Hazrat Zainab Bint Jahash on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/111680709" style="text-decoration: underline;" >Hazrat Umme Salama Wo Hazrat Zainab Bint Jahash</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/111680709/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_74833" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  6. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View A Book By : Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi. on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/116557455" style="text-decoration: underline;" >A Book By : Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi.</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/116557455/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_48973" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  7. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Mufti-E-Aazam Hayat wo Khidmat awr Naatiya Shaeri Ph.D Theses on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/118105771" style="text-decoration: underline;" >Mufti-E-Aazam Hayat wo Khidmat awr Naatiya Shaeri Ph.D Theses</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/118105771/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_81565" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  8. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Urdu Ke Naatia Shayari Mein Imam Ahmad Raza Ke Infaradiat o Ahmiat on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/96926108" style="text-decoration: underline;" >Urdu Ke Naatia Shayari Mein Imam Ahmad Raza Ke Infaradiat o Ahmiat</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/96926108/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_45621" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  9. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Rahat ul Quloob fe Moolid il Mehboob on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/120924402" style="text-decoration: underline;" >Rahat ul Quloob fe Moolid il Mehboob</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/120924402/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_17413" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  10. حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدحامدرضا خاں ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی، مالیگاؤں (عرس حامدی 1434ھ پر ایک نذرانہ) اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی کی ذاتِ ستودہ صفات سے کون واقف نہیں ۔ آپ کو عالم اسلام کی عظیم المرتبت شخصیات میں شمار کیا جاتاہے۔ آپ کی وجہ سے شہر بریلی کو وہ شہرت و مقبولیت ملی کہ آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت اپنے آپ کو بریلوی کہنے اور کہلوانے پر فخر محسوس کرتی ہے ۔ آپ کے گھرانے میں 1292ھ میں ایک یوسفِ جمال اور صاحبِ عظمت و کمال ہستی کی ولادت ہوئی جس کانام امام احمدرضا نے محمد حامدرضا رکھا، فاضل وافضل ، عالم و اعلم اور کامل واکمل بزرگ باپ نے بہ نفس نفیس اس کی تعلیم و تربیت فرماکر اسے صاحبِ فضل و کمال بنایا ۔ مارہرہ شریف کی مقدس ترین خانقاہ کے ایک عارف کامل حضور سید شاہ ابوالحسین احمدنوری مارہروی قدس سرہٗ سےانھیں نورِ معرفت اور فیض روحانی ملا اور اس طرح جمال ظاہری و باطنی سے منور و مجلا ہوکر وہ امت محمدیہ و شریعت مصطفویہ علی صاحبہاالصلاۃ والتسلیم کی خدمت میں مصروف ہوئے ۔ علماے وقت اور فضلاے عصر نے اُن کی عظمتوںکو تسلیم کیا ۔ فضل ربانی نے اُن کو " حجۃ الاسلام " کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ یعنی حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ حامدرضا خاں کی حیثیت سےآپ نے اکنافِ عالم میں شہرت پائی۔1311ھ/1894ھ میں 19 سال کی عمر میں درس نظامی سے فارغ ہوئے ۔ 1323ھ/1905ء میں حج بیت اللہ شریف اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کی ۔عارف کامل حضور سید شاہ ابوالحسین نوری میاں کے علاوہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے 13 سلاسل طریقت میںاجازت حاصل کی۔ 1326ھ/1908ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی کے مہتمم ہوئے ۔ 1354ھ/ 1936ء میں اسی دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدرالمدرس کے منصب پر فائز ہوئے۔ 17 جمادی الاول 1362ھ/ 23 مئی 1943ء کو 70 سال کی عمر میں عین حالتِ نماز دوران تشہد10 بج کر 45 منٹ پر آپ نے وصال فرمایا۔ نماز جنازہ آپ کے قابل فخر شاگرد و خلیفہ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قدس سرہء نے پڑھائی۔ حجۃ الاسلام حضرت شاہ محمد حامدرضا خاں بریلوی بڑے متبحر عالم، بہترین معلم ، طلبہ پر نہایت ہی شفیق و مہربان تھے۔ وہ مایۂ ناز خطیب بھی تھے، انھوں نے ملک گیر دورے کیے ۔ رشد و ہدایت اور تبلیغ دین کا کام بڑے ہی احسن انداز میں فرمایا۔ خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو ان کی خدمات دینیہ پر ناز تھا۔ برصغیر ہند وپاک کے چھوٹے چھوٹے قصبات اور دیہی علاقوں میں آپ نے دورے کیے اور دین و سنیت کی ترویج و اشاعت فرمائی۔ حضور حجۃ الاسلام مولانا حامدرضاخاں بریلوی علیہ الرحمہ زبان و ادب پر بھی بڑی دسترس رکھتے تھے۔ آپ کو شعر و سخن سے بھی لگاو تھا۔ عربی ، فارسی اور اردو میں آپ نے بڑے بہترین اشعار کہہ ہیں۔ حمد و نعت و منقبت کے علاوہ دوسری اصناف میں بھی اشعار آپ کے یہاں ملتے ہیں۔ تاریخ گوئی میں تو آپ کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔چند شعر ملاحظہ فرمائیں جن میں محبت و عقیدت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب صورت پرچھائیاں منعکس ہوتی نظر آتی ہیں ؂ شکیب دل قرارجاں محمد مصطفیٰ تم ہو طبیب دردِدل تم ہو مرے دل کی دوا تم ہو تمہارے حسن رنگین کی جھلک ہے سب حسینوں میں بہاروں کی بہاروں میں بہارِ جاں فزا تم ہو پڑا ہوں میں ان کی رہ گزر میں پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا دل و جگر فرش رہ بنیں گے یہ دیدۂ عشق خرام ہوگا چاند سے ان کے چہرے پر گیسو مشک فام دو دن ہے کھلا ہوا مگر وقت سحر ہے شام دو اب تو مدینے لو بلا گنبد سبز دو دکھا حامد و مصطفیٰ ترے ہند میں ہیں غلا م دو حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کو ارد و نثر و نظم کے علاوہ عربی اور فارس نثر و نظم پر بھی کمال حاصل تھا۔ آپ کی عربی دانی کے کئی واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ دوسرے حج و زیارت 1342ھ کے موقع پر آپ کی عربی دانی کو دیکھتے ہوئے حضرت شیخ دباغ اور سید مالکی ترکی نے یوں خراج تحسین پیش کیا: "ہم نے ہندوستان کے اطراف و اکناف میں حجۃ الاسلام جیسا فصیح و بلیغ دوسرا نہیں دیکھا جسے عربی زبان میں اتنا عبور حاصل ہو۔" اسی طرح اعلیٰ حضرت کی کئی عربی کتابوں کا تعارف بھی آپ نے عربی میں قلم بند فرمایا نیز عربی کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ علاوہ ازیں آپ نے تصنیفی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کی کئی علمی یادگاریں اہل ذوق کے لیے باعث مطالعہ ہیں ۔ "الصارم الربانی علی اسراف القادیانی " یہ قادیانیوں کے رد پر عالم اسلام کا پہلا رسالہ ہے ، جو حجۃ الاسلام ہی کے قلم حق رقم سے نکلا۔ الدولۃ المکیہ، حسام الحرمین کے اردو تراجم ، حاشیہ ملا جلال، مقدمہ الاجازات المتینہ، نعتیہ مجموعہ ، مجموعہ فتاویٰ ، اور بیشتر کتب پر تقاریظ آپ نے قلم بند فرمائیں۔ حضور حجۃ الاسلام مولاناحامدرضا بریلوی نے مختلف مذہبی اور سیاسی تحریکوں کے طوفانوں کا کڑا مقابلہ کیا ۔ مثلاً قادیانی تحریک ، تحریکِ خلافت ، تحریکِ ترکِ موالات، تحریکِ شدھی سنگھٹن، تحریکِ ہجرت، تحریکِ مسجد شہید گنج وغیرہ وغیرہ۔ 1354ھ/1935ء میں آپ نے الجمیعۃ العالیۃ المرکزیہ ،مرادآباد کے تاریخی اجلاس میں جو فاضلانہ خطبہ دیا اس سے ان کی بے مثال فکر و تدبر کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کے خطبۂ صدارت کے ایک ایک لفظ پر اگر غور کیا جائے توظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک خطبہ نہیں بلکہ فلاحِ ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک ایسا دستورالعمل ہے کہ اگر اس کے مطابق مسلمانان ہند نےاپنے رہوارِ زندگی کو مہمیز کیا ہوتا تو آج ہماری حالت ہی کچھ اور ہوتی ۔ مسلمان معاشی ، تعلیمی ، تجارتی غرض یہ کہ ہر قسم کے دینی و دنیاوی امور میں کسی سے پیچھے نہ رہتا ۔ ذیل میں آپ کے خطبۂ صدارت کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں جس میں ملازمت کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے صنعت و حرفت اور تعلیم و تجارت پر زور دیا ہے: "ہمارا ذریعۂ معاش صرف نوکری اور غلامی ہے اور اس کی بھی یہ حالت ہے کہ ہندونواب مسلمان کوملازم رکھنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ رہیں گورنمنٹی ملازمتیں ان کا حصول طولِ امل ہے۔اگر رات دن کی تگ و دو اور ان تھک کوششوں سے کوئی معقول سفارش پہنچی تو کہیں امیدواروں میں نام درج ہونے کی نوبت آتی ہے ۔ برسوں بعد جگہ ملنے کی امید پر روزانہ خدمتِ مفت انجام دیا کرو اگر بہت بلند ہمت ہوئے اور قرض پر بسر اوقات کرکے برسوں کے بعد کوئی ملازمت حاصل بھی کی تو اس وقت تک قرض کا اتنا انبار ہوجاتاہے کہ جس کو ملازمت کی آمدنی سے ادانہیں کرسکتے ۔" (خطبۂ حجۃ الاسلام،ص 51/52) اس کے بعد نوکری پر تجارت اور صنعت و حرفت کا یوں اظہار کیا: " ہمیں نوکری کاخیال چھوڑ دینا چاہیے ، نوکری کسی قوم کومعراجِ ترقی تک نہیں پہنچا سکتی ، دست کاری اور پیشے و ہنر سے تعلق پیدا کرنا چاہیے۔" (خطبۂ حجۃ الاسلام،ص 51/52) اسی خطبۂ صدارت میں آپ نے تعلیم نسواں پر بھی کافی زور دیا بلکہ لڑکیوں کی تعلیم اور اس کی فلاح و ترقی کے لیے بھی آپ بے حد کوشاں رہے۔ آپ کے خیال میں صنفِ نازک کی بقا و استحکام نیز اس کی تعلیم و تربیت میں ہی قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ آپ نےاس خطبے میں ملتِ اسلامیہ کی سیاسی بیداری پر بھی زور دیا۔ مسلمانوں کی ہمہ جہتی ترقی کوممکن بنانے کے لیے کئی ملک گیر دورے بھی کیے۔ آپ کے ٹھوس تاثرات اور تجاویز جو آپ نے مختلف اجلاس اور کانفرنسیس میں پیش فرمائے ان کو پڑھ کراس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سینے میں ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کا کیسا درد موجزن تھا۔ آپ کی متنوع صفات شخصیت کے جملہ پہلووں کا احاطہ اس مضمون میں ناممکن ہے ۔ مختصر یہ کہ آپ نےتاعمر ملت اسلامیہ کی ترقی و استحکام ، نیز اہل سنت و جماعت کے تحفط و بقا کے لیے اپنے آپ کو متحرک و فعال رکھا ۔حضور حجۃ الاسلام کے ذکرِ خیر میں آپ کے حسن و جمال کا تذکرہ نہ کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا چناچہ عرض ہے کہ آپ کا حُسن ظاہری ایسا دل کش و پُرکشش تھا کہ جو دیکھتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا ۔بلکہ کئی غیرمسلموںنے محض آپ کے جمال جہاں آرا کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت و صداقت پر ایمان لائے۔ آپ کے جمالِ جہاں افروز کے کئی واقعات مشہور ہیں ۔ آپ کے مرید خاص و خلیفہ ٔ مفتی اعظم و حضرت ضیا ء الدین مدنی حضرت علامہ سید ظہیر احمد زیدی علیہ الرحمہ حضور حجۃ الاسلام کے حسن جہاں تاب سے متعلق اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کرتے ہیں : "24صفر المظفر (1358ھ ) کو میں نماز عشا سے فراغت پاکر مزار مبارک سے متصل مسجد کی فصیل پر کھڑا تھا کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے شاہزادہ زیب سجادہ و خلیفہ مجاز زبدۃ العارفین ، عالم علوم شریعت واقف طریقت حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ حامدرضا خاں نعت خوانانِ سرکار علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے جلو میں برابر والی سڑک سے آستانۂ مبارکہ کی سمت جاتے ہوئے گذرے اچانک میری نگاہ حضرت پر پڑی ۔ اللہ اکبر! حسن و جمال کاوہ منظر دیکھا کہ ہوش و حواس سلامت نہ رہے۔ حُسنِ عقیدت کا کوئی سوال نہیں جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں کہ اس خاندان سے میرا کوئی ربط و تعلق نہ تھا نہ پہلے سے اس خاندان کے افراد سے میری کوئی ملاقات و معرفت تھی۔ عرس رضوی میں حاضری کا بھی پہلا موقع تھا اس سے قبل کبھی کسی اور بزرگ کے عرس میں حاضری کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا اس لیے جو کچھ عرض کررہا ہوں اس میں نہ کوئی مبالغہ ہے نہ غلط بیانی بلکہ اظہار حقیقت ہے عین الیقین ہے بلکہ حق الیقین ہے ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت حجۃ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نعت خوانوں کے جلو میں ہیں نعت خوانوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہےاور نور کا ایک ستون ہے جو آسمان سے زمین تک آپ کے قد و قامت کا احاطہ کیے ہوئے ہے انوار قدسیہ اورحسن و جمال کا ایسا ہوش رُبا نظارہ تو کیا اس کا عشر عشیر اور اقل اقیل بھی آج تک میری نگاہ بلکہ میرے تصور سے کبھی نہیں گذرا تھا اس نظارہ ہی سے وارفتگی کا وہ عالم پیدا ہوا کہ صبر وقرار نہ رہا ۔ مرزا غالب نے اپنے شعر میں غالباً اسی کیفیت کی ترجمانی کی ہے کہ ؂ جب وہ جمالِ دل فروز ، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردہ میں منہ چھپائے کیوں " حضرت علامہ سید ظہیر احمد زیدی علیہ الرحمہ اس وقت مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی سٹی ہائی اسکول میں لکچرار تھے ۔ دوسرے روز حضرت حجۃ الاسلام کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر سلسلہ قادریہ میں داخل ہوئے جب کہ وہ خود ساداتِ زیدیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا گھرانا خود بھی اہل طریقت و شریعت میں بڑا باثر مانا جاتا تھا۔ حضور حجۃ الاسلام کے حسن و جمال کا تذکرہ ہو اور حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی علیہ الرحمہ کا ذکر نہ کیا جائے تو بات نامکمل تسلیم کی جائے گی۔حضرت حجۃ الاسلام کے جمال جہاں آرا نے ہی آپ کو دنیاوی تعلیم ترک کرنے پر مجبور کیا انجمن حزب الاحناف لاہور کے تاریخی سالانہ اجلاس میں جب آپ نے حضور حجۃ الاسلام کا چہرۂ زیبا دیکھا تو اتنے متاثر اتنے متاثر ہوئے کہ بے قراری اور بے تابی کا یہ عالم ہواکہ سب کچھ ترک کرے حضرت کے ساتھ بریلی آگئے اور دینی علوم و فنون کاایسا سرچشمہ بن گئے کہ آج بر صغیر ہندوپاک کے علما کی ایک بڑی تعدا د آپ کے خوشۂ علمی سے اکتساب فیض کررہی ہے۔ حسنِ ظاہری و باطنی کے اس حسین سنگم کو جس نے بھی دیکھا وہ دیکھتا ہی رہا ۔ آپ کی شخصیت میں بڑی عاجزی اور انکساری تھی۔ آپ ایسے متواضع اور خلیق تھے کہ اپنے تو اپنے بے گانے بھی ان کی بلندد اخلاقی کے قائل اور معترف تھے۔ آپ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔ علمی وتبلیغی کاموں سے فرصت پاتے تو ذکرِ الٰہی ودرود وسلام کی کثرت کرتے ۔ آپ کے جسم اقدس پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا جس کا آپریشن ناگزیر تھا ۔ ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا تو منع فرمادیا ۔ اور صاف کہہ دیا کہ میں نشے والاٹیکہ نہیں لگواوں گا۔ عالم ہوش میں تین گھنٹے تک آپریشن چلتا رہا ۔ درود شریف کا ورد کرتے رہے اور کسی درد و کرب کا اظہار نہ کیا ڈاکٹر آپ کی ہمت اور استقامت و تقویٰ شعاری پر ششدر رہ گئے۔ اللہ کریم سے دعاہے کہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
  11. بدرالقادری مصباحی فکرِ اقبال کے حسین و جمیل مظہر ڈاکٹرمحمد حسین مُشاہد ؔ رضوی مولانا بدرالقادری مصباحی کا شمار ممتاز دانش ور عالمِ دین،بلند پایہ محقق، مایۂ ناز ادیب،بے مثل واعظ اور عظیم مبلغ و داعیِ دین میں ہوتا ہے۔آپ کی ذات ہمہ جہت خوبیوں کی حامل ہے۔دورِ حاضر کے بریلوی علما میں آپ منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔موصوف اردو نثر نگاری میں بلندمقام رکھتے ہیں۔آپ کا اسلوب بہت ہی عمدہ اور دل نشیٖن ہے۔آپ کی ولادت گھوسی،ضلع اعظم گڑھ میں ۱۹۵۰ء کو ہوئی،تعلیم و تربیت عصری درس گاہ کی بجاے صرف جامعہ اشرفیہ عربی یونی ورسٹی مبارک پور میں ہوئی۔ ۱۹۷۸ء سے آپ دیارِ مغرب ہالینڈ کی سر زمین پر مذہبِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ جہاں ’’نداے اسلام‘‘نامی ماہ نامہ اردو اور انگلش زبانوں میں بیک وقت آپ کی ادارت میں جاری ہے۔آپ کا اشہبِ قلم نثر و نظم دونوں میدانوں میں یکساں رواں دواں ہے ۔ نثری شہ پارے ۳۵ سے متجاوز ہیں تو شعری کتب ۱۵ سے زائد۔آپ نے شاعری کی جملہ اصناف میں کامیاب طبع آزمائی کی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر آپ کی اصلاحی و انقلابی نظموں کا مجموعہ ’’الرحیل‘‘ ہے۔آپ کی نظموں میں شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کے افکار و تخیل اور رنگ و آہنگ کی ایسی آمیزش ہے کہ اس پر اصل میں اقبالؔ کے اشعار کا شبہ ہونے لگتا ہے۔پورا مجموعۂ کلام ’’الرحیل‘‘ اقبالؔ کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔چند مثالیںنشانِ خاطر فرمائیں ؎ شورِ تکبیر سے کونین لرز جاتے تھے تو نے افسوس ! کہاں دیکھی و ہ ضربِ مضراب تو چمکتا تھا صداقت کا ستارا بن کر عدل و انصاف کی کشتی کا کنارا بن کر درس دیتا تھا مساوات کا تو عالم کو اپنی ہی زلفوں کے اب روتا ہے پیچ و خم کو تعلیم فقط وضع بدل دیتی تو کیا غم ہے یاں رخِ الحاد پہ افکار کا دھارا غرناطہ و اسپین را اقبالؔ بزارد بدرؔ ارضِ فلسطیٖن و مقاماتِ ہدارا جل رہا ہے قبلۂ اوّل تمہارا آگ میں اور تم کھوئے ہوئے ہو زندگی کے راگ میں مولانا بدرالقادری مصباحی استاذ الاساتذہ حافظِ ملّت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کے قابل فخر شاگردہیں یہ انھیں کی خوشہ چینی کا فیض ہے کہ مولانا بدرالقادری مصباحی اتنی گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ مولانا کی ایک تاریخی نظم جس کا عنوان ہے ’’حافظِ ملّت‘‘اس کے چند بند خاطر نشین ہوں جو اقبالؔ کے رنگ و آہنگ سے مملو ہے ؎ یہ کون اُٹھا ہندِ شمالی کی زمیں سے علم اور حقایق کی سنبھالے ہوئے قندیل سدرہ کے مکینوں سے سنا بدرؔ نے اک راز ہونے کو ہے اب آرزوئے شوق کی تکمیل مظلومیتِ قوم کا رُخ دیکھنے والی سرمستِ تحیر یہ زمیں بوس نگاہیں پوشیدہ نہیں مردِ خدا بیٖں کی نظر سے اے قوم تری زندگی و موت کی راہیں افکار پہ ماضی کا دَرَخشَندہ زمانہ آنکھوں پہ مچلتی ہوئی تاریخِ کہن ہے میدانِ عمل میں یہ جواں مرد امنگیں پیری میں تھکن ہے نہ کوئی ضعفِ بدن ہے مولانا بدرالقادری مصباحی خوابِ غفلت کے نشّے میں چور قومِ مسلم کو بیدار اور باہوش دیکھنا چاہتے ہیں اور امتِ بیضا کی زبوں حالی پر تڑپ اٹھتے ہیں امتِ مسلمہ کے تئیں آپ کا گہرا کرب و غم دیکھنا ہوتو یہ اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎ اے مری قوم! تجھے عظمتِ رفتہ کی قسم تجھ میں سوئے ہوئے احساسِ شکستہ کی قسم غیرتِ دیں کا مرقع تھی کبھی تیری سرشت آج کیوں قعرِ مذلّت ہے تری جائے نشست تو نے اوصافِ کہن کھو کے جہاں کھو ڈالا بیچ دی اپنی خودی عزمِ جواں کھو ڈالا کیا مِلا عظمتِ اسلام کو رُسوا کرکے چند ٹکڑوں کے لیے دین کا سودا کرکے ہے مسلمان تو پھر شانِ مسلمانی لا اہلِ ایماں ہے توکردار بھی ایمانی لا تُو بگولوں کی طرح اُٹھا تھا ویرانوں سے اس ارادے سے کہ ٹکرائیں گے طوفانوں سے اب یہ عالم ہے کہ تُو خود کو بھُلا بیٹھا ہے مایۂ عزتِ مسلم کو لُٹا بیٹھا ہے امتِ مسلمہ کی تاریخ بڑی روشن اور تاب ناک ہے۔ درِ خیبر کو بھی ہم نے ہی اکھاڑا ،دریاوں کی روانی میں موجوں سے بے خطر ہوکر اپنے گھوڑے بھی ہم نے ہی دوڑائے ،اجنبی ملک پر جاکر اپنی کشتیوں کو جلانے کے بعد ہر ملک ملکِ ماست کہ مِلکِ خدائے ماست کا نعرہ بھی ہم نے ہی لگایا اور ع نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر…اسلامی شوکت و اقتدار کا پرچم لہرایا۔ اور یہی علاقے اس ذلت و نکبت کے بھی امیٖن ہیں کہ بغداد کی تاتاریوں نے اینٹ سے اینٹ بجائی،غرناطہ کا سقوط ہوااور جس راہ سے طارق فاتحانہ شان سے گئے تھے اسی سے چھ لاکھ مسلمان نہایت بے سروسامانی کے عالم میں ملک بدر ہوئے اور کوئی ان پر آنسو بہانے والا بھی نہ تھا۔ ماضی کی روشن تاریخ کے مقابل آج ہمارا حال بالکل برعکس ہے ہم اُن جاں باز سرفروش مجاہدین کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہماری شریانوں میں بہتا ہوا خون جو کبھی جذبۂ جہاد سے گرم تر رہا کرتا تھا آج بالکل سرد ہے نکبت و خواری کے دلدل میں دھنسنا ہمارا مقدر بنتا جارہا ہے بدرالقادری مصباحی جیسے حساس طبیعت کے حامل فرد پر اس خواری و نکبت کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ یوں گویا ہوتے ہیں ؎ اپنی تاریخ کو جو قوم بھُلا دیتی ہے صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے تو نے دریا کی روانی پہ حکومت کی ہے یعنی ہر آنی و فانی پہ حکومت کی ہے تیرے ہی گھوڑوں کی ٹاپوں کے اثر سے ہمدم مدتوں لرزے میں یورپ کی فضا تھی پیہم بُودجانہ سی وہ اسلام سے اُلفت نہ رہی اُمِّ عمارہ سی تابندہ محبت نہ رہی کوہِ طارق پہ نہ اب طارقِ ذی شاں ہی رہا اندلس کا نہ وہ موسا سا نگہباں ہی رہا پانی پت اب بھی ہے ابدالی کی تلوار نہیں اب کسی رن میں تری تیغوں کی جھنکار نہیں تیرا جب تک رہا قبضۂ شمشیر پہ ہاتھ رحمتِ ربِّ دوعالم رہی تیرے ساتھ اور جب تو نے وہ دستورِ عمل چھوڑ دیا رحمتِ خالقِ مطلق نے بھی رُخ موڑ لیا مایوسیوں کے ایسے گہرے اندھیرے میں بدرالقادری مصباحی کی فکر ی جولانی امید و بیم کی کرن تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے ؎ بازوئے مسلمِ خستہ ابھی کم زور نہیں یہ جو اُٹھ جائے تو اس سے کوئی شہِ زور نہیں آج بھی ہم اُفقِ دہر پہ چھا سکتے ہیں ہم جو چاہیں تو تشدّد کو مٹا سکتے ہیں اور اس ضمن میں ہمیں کون سا کام کرنا پڑے گا ؟ کیسی قربانی دینی ہوگی؟ اس کا پیغام دیتے ہوئے نوجوانانِ ملت ِاسلامیہ سے خطاب کرتے ہیں کہ ؎ کردے بے پردہ مساوات کی تنویروں کو توڑ دے بندشِ آلام کی زنجیروں کو سُرخ روئی کے لیے سرکو کٹانا ہوگا زندگی کے لیے ہستی کو مٹانا ہوگا مولانا بدرالقادری مصباحی شاعری کو محض اپنی طبعی تسکین یا تکمیلِ ذوق کے لیے اپنانے کو معیوب تصور کرتے ہیںان کی شاعری محض شاعری نہیں بل کہ حیات افروزی ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ افرادِ قوم کی زندگی کے مدو جزر میں شاعری سے ایک باخبر ناخدا کاکام لیاجانا چاہیے اور عظمتِ لوح و قلم کی سودے بازی سے کوسوں دور رہتے ہوئے گرمیِ تقریر اور شوخیِ تحریر سے گریز کرتے ہوئے معنی و مطالب کے موتیوں کی مالا پرونا چاہیے اور مَے توحید اور بادۂ عشقِ سرور صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو سرشار رکھنا چاہیے ؎ ہے فضائے دہر پہ الحاد و لادینی محیط عظمتِ لوح و قلم کی سودے بازی عام ہے اے جواں! صدق و صفا عدل و مروّت کی قسم پھر جہاں میں ذوالفقارِ حیدری کا کام ہے خوب صورت ہے لفافہ اور اندر کچھ نہیں شوخیِ انشا ہے گر تو گوہرِ معنا بھی لا دیں ، کتابِ فلسفہ کے خشک مزعومے نہیں پی مَے توحید عشقِ سرورِ دانا بھی لا مولانا بدرالقادری مصباحی نے رومانی شاعروں کے عیش و عشرت اور رامش و رنگ کی محفل کو درہم برہم کرکے رگِ ہستی کو چھیڑا ہے اپنے ساز کے تار سے ایسے نغمات ا لاپے ہیں اور اس انداز سے نغمہ سرائی کی ہے کہ ان کے مطالعہ سے ذہنوں میں انقلاب پیدا ہوتا ہے اور خوابیدہ دلوں میں بیداری کی لہر دوڑنے لگتی ہے ؎ میں مسلمان ہوں حق بات پہ مرنے والا بادۂ صبر سے ہنس ہنس کے گزرنے والا خوں چکاں گردشِ آلام کے جھونکے آئیں ہر طرف ظلم و تباہی کی گھٹائیں چھائیں بدلیاں مینہ کی جگہ سنگِ ستم برسائیں میں نہیں پھر بھی صداقت سے مکرنے والا کوئی کہہ دے یہ ذرا جاکے ستم گاروں سے مجھ کو وحشت نہیں کچھ خون کے فوّاروں سے کھیلتا آیا ہوں میں تیغوں کی جھنکاروں سے ڈوب کر اپنے لہو میں ہوں اُبھرنے والا میں جو جیتا ہوں تو غازی کا لقب پاتا ہوں خلد میں بعد شہادت کے پہنچ جاتا ہوں جان دے کر بھی حیاتِ ابدی پاتا ہوں اور ہوگا وہ کوئی موت سے ڈرنے والا مولانا بدرالقادری مصباحی داعی ومبلغِ اسلام ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل ہیں۔ آپ شاعری کے ذریعہ قومِ مسلم کو بیدار کرکے پوری دنیا میں عظیم اسلامی انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے یہاں تصنع اور لفاظی کی کوئی قیمت نہیں آپ کی پاکیزہ فکر،اصلاحِ اُمّت و انقلاب کی سچی تڑپ،اسلام کی تبلیغ کا جذبۂ بیکراں آپ کے کلام کے حقیقی عناصر ہیں آپ شاعرسے پہلے ایک مسلمان ہیں اس لیے آپ کے نظریات بھی اعلا ہیں ’’حقائق‘‘ عنوان کے تحت الرحیل کے پیش لفظ میں خود لکھتے ہیں : ’’ چوں کہ شاعر سے پہلے میں ایک مسلمان ہوں اور بلاتقسیم ملک و وطن ،وحدتِ کلمہ کی بنیاد پر دنیا کاہر مسلمان میرا اپنا بھائی ہے۔ میری قوم ’خیرِ امت‘ ہونے کے باعث تہذیبِ انسانی کے لیے نہ صرف رہِ نمائی کے لایق ہے بل کہ بلا شرکتِ غیرے ’واحد حق دار‘ ہے اور اقدارِ اسلامی ہی ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اسلام زندۂ جاوید دین ہے اور صرف اسی کے اصولوں میں جہاں داری و جہاں بانی کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لیے میرایہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں عظیم اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر زبان کے مسلمان شاعر پر بھی اپنے گرد و پیش کو ’انقلابی رحلت‘ کے لیے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی ولولہ پیدا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے‘‘۔(الرحیل ص ) مولانا بدرالقادری مصباحی کے ’’حقایق ‘‘ کے ان جملوں کی روشنی میں ’’الرحیل ‘‘کو پرکھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی ولولہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور قوم و ملت کو نسخۂ تعمیرِ امت عطا کیا ہے۔ یہ مولانا کا عجز ہے کہ آپ الرحیلؔ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ’’نہ میںاس کے ذریعہ ادبی شہ پاروں میں کسی عظیم اضافہ کا مدعی ہوں‘‘۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ الرحیلؔ جیسے صنائع و بدائع اور شعری و فنی محاسن سے لبریز ، ترجمانِ حقیقت فکرِ اقبال سے مزین مجموعۂ کلام کو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ…… الرحیلؔ شعری دنیا کے ادبی شہ پاروں میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔ الرحیلؔ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی جوش و ولولہ پیدا کرنے کیلئے صوتِ انقلاب ہے۔ الرحیلؔ اصلاحِ امت اور انقلاب و بیداری کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔ الرحیلؔ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کوچ کرنے کی بانگِ درا ہے۔ لاریب! الرحیلؔ گم گشتگانِ راہ کے لیے نشانِ مقصود تک رسائی کا وسیلہ ہے۔ اور شاعرِ محترم فکرِ اقبال کے حسین و جمیل مظہر ہیں ۔ ٭٭٭
  12. علامہ حسن رضابریلوی کی نعتیہ شاعری ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی،مالیگاؤں نعت اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور،معظّم،محترم اور محبوب وپاکیزہ صنف ہے۔اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہوچکا تھا۔قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جابجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرماکر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشاہے۔صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات،اہلِ بیتِ اطہار،تابعین،تبع تابعین،ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین،اغواث،اقطاب،ابدال،اولیا،صوفیہ،علمااور بلاتفریق مذہب و ملّت شعراوادباکاایک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔ ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔طوطیِ ہندحضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہاجاتاہے۔امیر خسروؔ فارسی زبان وادب کے ماہر تھے۔آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،فخرِ دین نظامی،غلام امامؔ شہید،لطف علی لطفؔ بدایونی،کفایت علی کافیؔ ،کرامت علی شہیدیؔ ،احمد نوریؔ مارہروی،امیر مینائی،بیدمؔ شاہ وارثی،نیازؔ بریلوی،آسیؔ غازی پوری،محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اوراردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔ امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی ۔۔۔ اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔آپ کے نعتیہ دیوان’’ذوقِ نعت‘‘میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی،تشبیہات، اقتباسات،فصاحت وبلاغت،حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب،حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد ،لف و نشر مرتب و لف ونشر غیر مرتب ،تجانیس،تلمیحات،تلمیعات،اشتقاق،مراعاۃ النظیروغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی۔۔۔ اس دیوان میں نعت کے ضروری لواز م کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے۔آپ کا پورا کلام خود آگہی،کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہوکر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کرکے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کرکے اپنے آپ کو متعصب مؤرخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔موصو ف لکھتے ہیں۔ ’’سخنورِ خوش بیاں،ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضاخاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی۔۔۔ ۔۔۔ نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔ یہاں یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضابریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا ،یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہوگا،گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔ ’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔‘‘(ماہنامہ قاری،دہلی ، امام احمد رضا نمبر ،اپریل ۱۹۸۹ ء ،مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر،از: کالیداس گپتا رضا ،ص ۴۵۶)۔ استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کاکلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی‘‘علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہواتھا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت،از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی،مطبوعہ،مکتبۂ مشرق ،بریلی،ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے)۔ اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہورہے ہیں۔اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ؂ نام تیرا ، ذکر تیرا تو ترا پیارا خیال ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہوگیا یہ پیاری ادائیں ، یہ نیچی نگاہیں فدا جانِ عالم ہے اے جانِ عالم یہ کس کے روے نکو کے جلوے زمانے کو کررہے ہیں روشن یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا اللہ کرے وقار آقا علامہ حسن رضا بریلوی کا روئے سخن نعت گوئی سے قبل غزل گوئی کی طرف تھا۔مگر جب آپ نے اپنے برادرِ اکبر امام احمد رضا بریلوی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں انقلاب برپا ہوگیا،دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دبی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر اُبھر گئی اور آپ نعتیہ شاعری کے میدان کے ایک ایسے عظیم ترین شہسوار بن گئے کہ جلد ہی ’’اُستاذِ زمن‘‘ کے لقب سے دنیاے شعر وادب میں پہچانے جانے لگے۔امام احمد رضا بریلوی کی اس نظرِ عنایت کا انھیں بھی اعتراف ہے ۔’’ذوقِ نعت‘‘ میں ایک مقام پر اپنے برادرِ معظّم کے حق میں یوں دعا کی ہے ؂ بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضاؔ سے بھلا ہو الٰہی جنابِ رضاؔ کا میرے خیال میں’’ حدائقِ بخشش‘‘ کے اشعارِ آبدار کے معنی ومفہوم کے فہم میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا مطالعہ نا گزیر ہے ۔حدائقِ بخشش جہاں فکر و تخیل کا ایک بحرِ بیکراں اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں ذوقِ نعت اس بحرِ بیکراں کی غواصی کے ذریعہ حاصل کردہ صدف سے نکالے گئے قیمتی موتیوں سے پرویا ہوا خوشنما ہار ہے اور اس کے اشعار فکرِ رضا کے سہل انداز میں شارح و ترجمان ہیں ؂ قرآن کھارہا ہے اسی خاک کی قسم ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئی نام بھی مصطفی ہوا تیرا قمر اک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا زمانہ پہ روشن ہیں طاقت کسی کی وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی علامہ حسن رضا بریلوی کا نعتیہ کلام شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور تمام تر فنّی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع،فکر کی ہمہ گیری،محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جابجا ملتے ہیں۔آپ کے کلام میں اندازِبیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی بھی،معنی آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ آہنگ بھی،استعارہ سازی بھی ہے، پیکر تراشی بھی ،طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی ،کلاسیکیت کا عنصر بھی ہے،رنگِ تغزل کی آمیزش بھی ،ایجاز و اختصاراور ترکیب سازی بھی ہے،عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی ؂ لبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں ہو مجھے تارِ نفَس ہر خطِ مسطر کاغذ کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن تمہارے در پہ رہ جاوں جو سنگِ آستاں ہوکر آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو اونچی ہوکر نظر آتی ہے ہر اک شَے چھوٹی جاکے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا شاعری میں ایجاز واختصار کلام کی ایک بڑی اور اہم خوبی ہے۔اس میں علامہ حسن رضا بریلوی کو کافی ملکہ حاصل تھا ۔مشکل اور طویل مضامین کو سہل انداز میں ایک ہی شعر میں کہہ کر گزر جانا آپ کے مسلم الثبوت شاعر ہونے کی واضح اور روشن دلیل ہے ؛مثالیں خاطر نشین ہوں ؂ گناہ گار پہ جب لطف آپ کا ہوگا کِیا بغیر کِیا بے کِیا ہوگا کیا بات تمہارے نقشِ پا کی ہے تاج سرِ وقار آقا بت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے مل مل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو اسی طرح کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی اور شعر میں بلاغت بھرنے کے لیے ترکیب سازی کی بڑی اہمیت ہے۔شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں تراکیب اہم رول ادا کرتی ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کے نعتیہ کلام میں جہاں تمام ادبی و فنّی محاسن موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہت ہی دل کش اور نادر نمونے ملتے ہیں ؂ اس مہک پر شمیم بیز سلام اس چمک پر فروغ بار دُرود زخم دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیٖم روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس اے نظمِ رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع تو نے ہی اسے مطلعِ انوار بنایا زمیں کے پھول گریباں دریدہ غمِ عشق فلک پہ بدر ، دل افگارِ تابِ حسنِ ملیح صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال غرض سبھی ہیں نمک خوارِ بابِ حسنِ ملیح اگر دودِ چراغِ بزمِ شہ چھو جائے کاجل کو شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کے کلام کی خصوصیات پر اگر قلم کو جنبش دی جائے تواس متنوع خوبیوں اور محاسن سے لبریز کلام کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے۔کیوں کی آپ کی شعری کائنات کے کما حقہٗ تعارف کے لیے ایک عظیم دفتر درکار ہے۔اسی لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اجمالی جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔ مالکِ کون ومکاں باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ مطلق جل شانہٗ نے مجبور و بے کس نہیں بل کہ مالِک ومختار بناکر اس خا ک دانِ گیتی پر مبعوث فرمایاہے۔آقا و مولا صاحبِ اختیار ہیں اور آپ کے کمالات ارفع و اعلا ہیں ،اس طرح کے اظہار سے ’’ذوقِ نعت ‘‘ کے اوراق مزین و آراستہ ہیں ؂ ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا تمہیں ہو مالکِ مِلکِ خدا خاص وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے محبوب کیا مالک و مختار بنایا کیوں نہ ہو تم مالکِ مِلکِ خدا مُلکِ خدا سب تمہارا ہے ، خدا ہی جب تمہارا ہوگیا سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا و المرسلین ہیں ۔آپ کے اوصاف و کمالات ،شمائل و فضائل اس قدر ارفع و اعلا،افضل و بالا ہیں کہ اس میں دوسرے انبیا آپ کے شریک نہیں اور خداوندِ قدوس سے آپ کو سب سے زیادہ قربت حاصل ہے ؂ شریک اس میں نہیں کوئی پیمبر خدا سے ہے جو تجھ کو واسطہ خاص تمام بندگانِ خدا ہر ہر کام میں اپنے خالق و مالک جل شانہٗ کی مرضی و مشیت کے طلب گار ہیں۔مگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جومرضی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بھی خوش نودی و رضا ہے۔نقاشِ ازل جل شانہٗ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ پیشانی پر یہ بات بہ خطِّ قدرت ازل ہی میں تحریر فرمادی تھی ؂ قدرت نے ازل میں یہ لکھا ان کی جبیں پر جو ان کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو ایک عاشق کی یہ سب سے بڑی آرزو اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے محبوبِ رعنا ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے روئے منور کی زیارت نصیب ہوجائے ۔علامہ حسنؔ رضا بریلوی جامِ روے جاناں کی تشنگی رکھتے ہیں اور آپ کی یہ تشنگی اتنی فزوں تر ہے کہ اگر نزع کے وقت حورانِ خلد آکر آپ کے آگے جام پر جام لنڈھائیں بھی تو آپ ان کی طرف نگہِ التفات کرنے کی بجاے اپنا رُ خ دوسری جانب پھیر لیں گے ؂ دے اس کودمِ نزع اگر حور بھی ساغر منھ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو عاشق چاہتا ہے کہ سرورِ انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں سے دل منور و مجلا ہوجائے اور ہمہ وقت اس میں مدینے کی یاد رچی بسی رہے ؂ رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مرا دل بنے یادگارِ مدینہ لالہ و گل کی نکہتوں اور گلستانوں کے رنگ و بہار پر صحرائے مدینہ کو اس طرح فوقیت دی جارہی ہے ؂ رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند صحراے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند علامہ حسنؔ رضا بریلوی آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک کی خواہش و تمنا کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں یوں دعا گو ہیں ؂ مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے خدایا دکھادے بہارِ مدینہ صحرائے مدینہ کے حصول کے بعد جنت اور بہارِ گلشن کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کو صحراے مدینہ کے آگے یوں ہیچ بتایا ہے ؂ خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا جب زاہد عاشق کو جنت کے باغوں کا پھول دے کر اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جنت کے لالہ و گل کو محبوبِ دل نواز ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہرِ رعنا کے خوش نما کانٹوں کے آگے بے وقعت سمجھتے ہوئے زاہد کو اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ؂ گلِ خلد لے کے زاہد تمہیں خارِ طیبہ دے دوں مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے علامہ حسنؔ رضا بریلوی کو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تڑپ اور لگن ہے کہ اس دنیا سے جاتے وقت بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان پر ترانۂ نعت جاری رہے ؂ خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رخصت زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی موت کے بعد مدینۂ طیبہ کا غبار بننے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کوچہ میں دفن ہونے کی ایمانی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں ؂ مری خاک یارب نہ برباد جائے پسِ مرگ کردے غبارِ مدینہ مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے عاشق کی نظر میں روزِ محشر کا انعقاد صرف اسی لیے ہوگا کہ اس دن محبوبِ خدا( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی کیوں کہ آپ اس روز عصیاں شعاروں اور گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے ؂ فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی عاشق کہتا ہے کہ مجھے میدانِ محشر میں کوئی خوف نہیں ہوگا کیوں کہ یہ آقا و مولا میرا شفیع ہے ؂ خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے جب کہ اس کے برعکس منکرینِ شفاعت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ایک ایک کا منھ تکتے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے ؂ حشر میں اک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدوٗ آفتوں میں پھنس گئے تیرا سہارا چھوڑ کر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی محافل میں پڑھے جانے والے بہت سارے میلاد نامے’’ذوقِ نعت‘‘ ہی کے ہیں وہ تمام کے تمام شعری کمال کے اعلا نمونے ہیں۔چند اشعار خاطر نشین ہوں ؂ فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے زمینِ خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ جھکالائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض کہ وہ ماہِ دل آرا اَب زمیں پر آنیوالاہے وہ مہر مِہر فرما وہ ماہِ عالم آرا تاروں کی چھاوں آیا صبحِ شبِ ولادت خوشبو نے عنادل سے چھڑائے چمن و گل جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا علامہ حسنؔ رضا بریلوی کایہ کمالِ شاعری ہے کہ آپ ایک لفظ کو ایک معنی پر ایک شعر میں اس پُرکاری اور ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ تکرار کا نقص نہیں بل کہ تخیل کا حسن پیدا ہوجاتا ہے مثلاً ؂ ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے نکالی ہے تو آنیوالوں کی حسرت نکالی ہے علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری میں کلاسیکیت اور تغزل کارنگ حد درجہ غالب ہے۔نعت کے اعلا ترین تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو یک جا کرکے سلامت روی کے ساتھ گذر جاناعلامہ حسنؔ رضا بریلوی کی قادرالکلامی کی بیّن دلیل ہے۔ذیل میں برنگِ تغزل آپ کے چیدہ چیدہ اشعار خاطر نشین فرمائیں ؂ مرے دل کو دردِ الفت ، وہ سکون دے الٰہی مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی روشن ہے ان کے جلوۂ رنگیں کی تابشیں بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح ہوا بدلی گھرے بادل کھلیں گل بلبلیں چہکیں تم آئے یا بہارِ بے خزاں آئی گلستاں میں کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی آنکھیں ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال زینتوں سے ہے حسینانِ جہاں کی زینت زینتیں پاتی ہیں جلوے تری زیبائی کے جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حسنِ ملیح اپنا ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہے ہم کو تو وہ پسند جسے آئے تو پسند دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت مٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے پڑے ہوئے تو زرِ رہِ گذار ہم بھی ہیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضیٰ ،حضرت امام حسین وشہدائے کربلارضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم،حضرت خواجہ غریب نواز،حضرت شاہ اچھے میاں و شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔ علاوہ ازیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ایک نظم بہ عنوان’’کشفِ رازِ نجدیت‘‘لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے،اسی طرح اس دیوان میں مسدّس منظومات ،نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔جہانِ لوح وقلم اور دنیاے سنیت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسن ؔ بریلوی کے نام چند صفحات تحریرکرکے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کی وسیع ترشعری کائنات کے تعارف کاحق ادا کررہاہوں ،بل کہ خدائے لم یزل کی طرف سے ملنے والی اس رحمتِ بے پایاں اور ثوابِ عظیم میں خود کو شریک کررہاہوں جواُلفتِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میں ڈوبے ہوئے’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کو پڑھ کر گناہ گاروں کی قسمت میں ارزاں کردیا جاتا ہے۔ (ماہ نامہ کنزالایمان ،دہلی جلد نمبر ۳،شمارہ نمبر ۱۱ ،ستمبر ۲۰۰۱ء/جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ،صفحہ۳۸/۴۲)
  13. سرزمین ہند کے عظیم عالم خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی جن کی تبلیغی مساعی سے دنیا کے تمام براعظم فیض یاب ہوئے پیش کش: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی دنیاے اسلام کی عظیم ترین اور نام ورشخصیت اما م احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ کے شاگردوںاور خلفا ے کرا م میں ہر کوئی چندے آفتاب اور چندے ماہ تاب تھا۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب "بہار شریعت" کے مصنف مولانا امجد علی اعظمی، علم ہیئت و فلکیات کے اتھاریٹی ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری ، مفسر قرآن علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبۂ دینیات حضرت پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری، اوردیگر تلامذہ و خلفا کہ جن کی فہرست طویل ہے ہر کوئی علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھا۔ پیشِ نظر مضمون میں امام احمد رضا بریلوی کےایک ایسے شاگردِ رشید اور خلیفۂ ارشد کا ذکر مقصود ہے کہ جن کی تبلیغی مساعیِ جمیلہ سے نہ صرف ایشیائی ممالک فیض یاب ہوئے اور ہورہے ہیں بل کہ دنیا کے سبھی براعظموں میں بسنے والے انسانوں کو آپ نے اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا ۔ آج دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا جو عظیم الشان جدید ترین نظام قائم ہے بلامبالغہ اس کے اولین قائد و سرخیل مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ( والد ماجد علامہ شاہ احمدنورانی علیہ الرحمہ) کی ذات ہے۔ آپ کی سوانح حیات مطالعہ کرنے کے بعد اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت15 رمضان المبارک 1310ھ بمطابق3 اپریل 1892ء کومیرٹھ میں ہوئی اور وفات22 ذی الحجہ 1374ھ بمطابق22اگست 1954ء کو مدینۂ منورہ میںہوئی اور ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں جنت البقیع شریف میں تدفین عمل میں آئی۔ مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون کے ماہر تھے۔ آپ نے اٹاوہ کالج سے انٹر نس اور میرٹھ سے بی۔ اے کیا تھا۔ آپ کو عربی ، فارسی ، اردو ، فرنچ ، جاپانی ، ملایااور چینی زبانوں پرعالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔ 1915ء میںحجازِ مقدس پہنچے ۔ واپس آکر اعلیٰ حضر ت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ کی مریدی میں شامل ہوئے ۔ منازل سلوک طے کیںاور خلافت و اجازت حاصل کیں ۔ امام احمدرضانے اپنی مشہورِ زمانہ طویل نظم "الاستمداد " میں آپ کا ذکر اس طرح کیا ہے ؂ عبد علیم کے علم کو سُن کر جہل کی بہل بھگاتے یہ ہیں امام احمدرضا قدس سرہٗ کے علاوہ آپ نے شیخ احمدالشمس (مراکش) اورشیخ السنوسی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا ۔ آپ نے اپنی زندگی کا طویل حصہ تبلیغ دین میں بسر فرمایا۔1919ء سے 1954ء تک یورپ ، افریقہ ،اور امریکہ کے متعدد ممالک اور ریاستوں میں جاکر اسلام کی روشنی پھیلاتے رہے ۔ جہاں گئے مساجد، مکاتب، مدارس ، کتب خانے ، ہسپتال ، یتیم خانے ، اور تبلیغی مراکز قائم کرتے گئے۔ آپ نے 1951ء میں خصوصی طور پر پوری دنیا کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ جن میں قابل ذکر ممالک انگلستان ، فرانس ، اٹلی، برٹش گیانا ، مڈغاسکر، سعودی عرب، ٹرینی ڈاڈ، امریکہ، کینیڈا، فلپائن ، سنگا پور، ملیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سیلون وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ برما، انڈوچائنا، چین ، جاپان، ماریشیش ، جنوبی و مشرقی افریقہ کی نوآبادیات، سری نام ، ملایا، عراق ، اردن ،شام ، مصر، فلسطین وغیرہ وغیرہ ممالک کی مختلف ریاستوں، شہروں ، دیہات اور قصبات وغیرہ کادورہ کیا اور اسلام کی تبلیغ فرمائی اور فکر رضا کو عام کیا۔ ان دوروں میں آپ نے تمام مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور ہرزبان میں اسلام کا لٹریچر شائع کیا ۔ آپ کی تبلیغی کوششوں سے دنیا کی مشہور شخصیات میں بورینو کی شہزادی Gladys Palmerماریشیش کے فرانسیسی گورنرMerwat ٹرینی ڈاڈ کی ایک خاتون وزیر Murifl Donawa مشرف بہ اسلام ہوئے ۔آپ کی علمی و روحانی شخصیت سے محمدعلی جناح ، مراکش کے غازی عبدالکریم ، فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی ، اخوان المسلمین کے سربراہ حسن البناء ، سیلون کے آنریبل جسٹس ایم مروانی ، کولمبو کے جسٹس ایم ٹی اکبر، سنگاپور کے ایس دتّ، اور مشہور انگریز ی ڈرامہ نویس اور فلسفی جارج برناڈشا جیسی مشہور ہستیاں بے حد متاثر تھیں۔ 7اپریل 1935ء کو ممباسہ جنوبی افریقہ میں جارج برناڈشا سےعلامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی ملاقات ہوئی۔ آپ نے برناڈشاکے مختلف سوالات کے جوابات اس انداز سے دیئے کہ دنیا کاعظیم فلاسفر آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آنے لگا۔ آپ نے اسلام اور عیسائیت کے اصولوں کا تقابلی جائزہ تاریخ، سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں اس طرح بیان کیا کہ برناڈ شاپھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ: "عبدالعلیم! تم جو کہہ رہے ہو وہی اسلام ہے تو مستقبل میں جو مذہب حکومت کرے گا وہ اسلام ہی ہوگا۔"( ماخوذ: ماہ نامہ ترجما نِ اہل سنت ، کراچی ، شمارہ محرم و صفر 1992ھ ) حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے تعلیماتِ اسلامیہ کو عام کرنے کے لیے ہر پہلو پر توجہ فرمائی۔ متعدد مساجد تعمیر کرائیں۔ جن میں سے حنفی مسجد کولمبو، سلطان مسجد سنگا پور، اور مسجد ناگریا جاپان، زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ عربی یونی ورسٹی ملایا، پاکستان نیوز مسلم ڈائجسٹ، ٹرینی ڈاڈمسلم اینول (جنوبی افریقہ ) کی بنیاد آ پ ہی نے رکھی۔ 1949ء میں سنگاپور میں تنظیم بین المذاہب کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد ڈالی اور تمام دنیا کے عیسائی ، یہودی ، بدھ مت اور سکھ مذاہب کے پیشواوں کو اکٹھاکرکے لادینیت اور لامذہبیت کے خلاف ایک تحریک چھیڑی، تمام مذاہب کے پیشواوں کی مشترکہ کانفرنس میں آپ کو ہزاکزیٹینڈ ایمی نینس His Exaited Eminunce کا خطاب دیا گیا ۔ نیز مصر میں تنظیم بین المذاہب الاسلامیہ کے نام سے مختلف مکاتب فکر کی ایک تنظیم قائم کی ۔ 1965ھ/1946ء میں حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ رابطۂ اسلامیۂ ہند کے وفد کے رئیس اور ملایا، جنوبی و مشرقی افریقہ اور جزائر شرقیہ کے مندوب کی حیثیت سے سعودی عرب تشریف لے گئے اور سعودی نجدی حکومت کی طرف سے حجاج پر عائد کردہ غیر ضروری ٹیکسوں کے خاتمے کے لیے سخت احتجاج کیا ۔ حجاج کی سہولت کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے اجلہ علماے کرام کے ساتھ حکومت سعودیہ کے عمائدین بالخصوص عبدالعزیز بن سعود سے سخت مذاکرات کیے جن کے خاصے اثرات مرتب ہوئے اور سعودی نجدی حکومت نے غیر ضروری ٹیکسوں کو ختم کردیا اور حجاج کے لیے سہولیات میں اضافہ کا یقین دلایا۔ ان مذاکرات کی پوری تفصیل عربی میں شائع ہوئی تھی جس کاابتدائیہ اخوان المسلمین (مصر)کے بانی حسن البناء نے لکھاتھا۔ اور حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی خدماتِ جلیلہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ، موصوف لکھتے ہیں کہ : " اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دوسال ہوئے ہماری ملاقات ارضِ مقد س میں بیت اللہ شریف کے پاس صاحبِ فضیلت مبلغِ اسلام الشیخ محمد عبدالعلیم صدیقی سے ہوئی (کچھ عبارتوں کے بعد) ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ فضیلت استاذ شیخ محمد عبدالعلیم صدیقی کو تمام مسلمانوں کی طرف سے جزاے خیر دے، آمین۔"(تذکرۂ اکابر اہل سنت ص 238/240مکتبۂ قادریہ لاہور) میرٹھ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ کو برما مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے لیے تجویز کیا گیا اس کانفرنس میں آپ نے جو معرکہ آرا خطبۂ صدارت ارشاد فرمایا وہ معلومات افزااور انقلاب آفریں تھا جس کی صداے بازگشت برما ،ملایا، سیلون اور انڈونیشیا کے گوشے گوشے میں سنی گئی ۔ اس وقت کے حالات نے مجبور کیا اور آپ جذبۂ حب الوطنی اور خدمت دین کے جذبات سے مغلوب ہوئے تو سیاسی اور قومی تحریکات میں شامل ہوگئے ۔ تحریک خلافت کے اس دور میں جب کہ انگریزوں کے خلاف زبان کھولنا مشکل ترین امر تھا۔ آپ نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی وغیرہ علماکے شانہ بشانہ ایک عرصے تک کام کرتے رہے ۔ جب خلافت تحریک اپنے اصولوں سے منحرف ہوئی تو آپ نے علاحدگی اختیار کرلی ۔ تحریک خلافت کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی عروج کو ختم کرنے کے لیے مہاسبھائیوں نے پہلی بار یوپی اور دیگر صوبہ جات ِ ہند میں جب شدھی کا جال پھیلانا شروع کیا تو آپ نے اپنے مرکز روحانیت بریلی شریف کی سرپرستی میں آل انڈیا جماعت رضاے مصطفی ٰ کی زیر اہتمام حضور مفتی اعظم علامہ شاہ مصطفیٰ رضا نوری ؔ بریلوی کی قیادت میں ہر جگہ شدھی تحریک کا تعاقب کیا اور فتنۂ ارتداد کے اس پر آشوب عہد میں ہر جگہ تبلیغی مراکز قائم کیے ۔ بمبئی، کرناٹک، احمد آباد ، سوراشٹر وغیرہ میں آپ نے ایسی قیادت فرمائی کہ ان جگہوں پر مسلمان شدھی کی لعنت سے محفوظ ہوئے۔ بمبئی کے دورانِ قیام آپ نے پونہ میںایک نیشنل ہائی اسکول قائم کی جس کا الحاق نیشنل یونی ورسٹی علی گڑھ سے کرایا۔ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کو 1923ء میں سیلون کے مسلمانوں نے دعوت دی آپ وہاں پہنچے اس وقت وہاں کے مسلمانوں میں کافی انتشار و افتراق تھا۔ آپ نے مسلمانوں کے منتشر شیرازے کو امام احمد رضا کے پیغام عشق رسول(ﷺ) کے سہارے محبت رسول (ﷺ) کی بنیاد پر متحدکردیا ۔ مختلف جماعتوں کو توڑ کر سیلون کے مسلمانوں کی ایک مرکزی جماعت تشکیل دی ۔ آپ کی علمی و روحانی شخصیت سے متاثر ہوکر اس وقت سیلون کے ایک عیسائی وزیر مسٹر ایف کنگ ہن بیری نے اسلام قبول کرلیا ۔ 1924ء میں جب کہ دنیا کے بیش تر اسلامی ممالک سیاسی بحران سے دوچار تھے ان ایام میں آپ مکۂ مکرمہ میں قیام پذیر تھے۔ مکہ کی حکومت نے آپ سے" مسلم کانگریس یروشلم "کی کارروائیوں میں شرکت کی التماس کی ۔ آپ اس کانفرنس میں تشریف لے گئے اوراسلامی ممالک کو ان کے فرض منصبی سے باخبر کرتے ہوئے دوٹوک لہجے میں کہا کہ اسلام دشمنوں کی سازشوں کو ناکام کیے بغیر اور غیر وں پر انحصاری کیفیت کو دور کیے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ سیلون کے مسلمانوں کے شدید اصرار پر آپ دوبارہ وہاں پہنچے ، دین کی تبلیغ فرمائی رشد وہدایت کی محفلیں آراستہ کیں۔ 1928ء میں سیلون سے ایک انگریزی اخبار "کوکبِ اسلام " کا اجرا فرمایا ، اس اخبار کی ادارت موش ہے میسجد کے سپرد فرمائی۔ جنھوں نے اس ذمے داری کو بہ حسن و خوبی نبھایا ۔ اُس وقت پورے عالم اسلام میں "کوکبِ اسلام" نامی اِس انگریزی اخبار کو بڑے شوق و ذوق سے پڑھا جاتا تھا۔ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے جنوبی و مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب کہ دنیا کے مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ ان پر دوسرے مذاہب کے اثرات غیر محسوس طور پر مرتب ہوتے جارہے تھے۔ آپ نے طویل عرصہ تک برما، سیام ، انڈونیشیا، فرانس ، انڈوچائنا، ملایا، چین ، جاپان اور سنگاپور میں قیام فرمایااور دنیا کے دیگر مذاہب کو دعوتِ اسلام دی ۔ قادیانیوں کی مشنریوں کے اثرات کو یک سر ختم کرنے کی کوشش مسلسل جاری رکھی ۔ اپنے مرشد گرامی امام احمدرضا کی قادیانیت کے رد پر لکھی ہوئی کتب کو ان علاقوں میں خوب عام کیا اور خود بھی کتب و رسائل تصنیف فرمائے۔ کرسچن مشنریز نے جن ہزارہا مسلمانوں کو عیسائی بنالیاتھا آپ نے ان کو بڑے خلوص کے ساتھ اسلام کی دعوت دی اور اپنے سچے مذہب کے بارے میں بتایا ان میں سے بیش تر نے دوبارہ اسلام قبول کرلیا ۔ آپ کی سوانح میں لکھا ہے کہ اس قیام کے دوران آپ نے 18ہزار مسلمانوں کو جنھیں عیسائی بنا لیا گیا تھا از سر نو کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا یا ۔ برما میں آپ نے "انجمن نوجوانان برما" کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ۔ مالے پینانگ کوالالمپور میں مسلمان آپ پر جاں نثار کرتے تھے۔سنگا پور کے قیام کے دوران آپ نے یہاں سے مشہور انگریزی رسالہ "دی اسلام" جاری فرمایا ۔ملایا میں آپ نے اپنے ایک لائق و فائق شاگرد سید ابراہیم الشگوف کو "آل ملایا مشنری سوسائٹی " کاصدر بنایا ، مذکورہ سوسائٹی کی بنیاد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے خود رکھی تھی۔ یوروپی ممالک کے دورے میں آپ کے بیانا ت اور لیکچرز کو سننے کے لیے علوم جدیدہ کے ماہرین ، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ ، سا ئنسدانوں ، فلسفیوں اور دہریوں نے خاصی دل چسپی کا مظاہر ہ کیا ۔ اور آپ سے اِن لوگوں نے تاریخی ملاقاتیں کیں، عالمانہ مباحثے کیے ۔ الحمدللہ ! آپ کے سامنے اکثر محققین کو سر تسلیم خم کرنا پڑا ۔ اور بیش تر نے اسلام بھی قبول کیا۔ جنوبی افریقہ کے دورانِ قیام جب آپ" ویٹ واٹرس رینڈ یونیورسٹی" میں خطبات و تقاریر کے بعد زنجباز ، دارالسلام اور ممباسہ تشریف لے گئے تو مشہور مغربی مفکرجارج برناڈشا سے ملاقات ہوئی ، جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے ۔ یہاںسےجب آپ فرانس گئے تو آپ کی ملاقات وہاں کے گورنر مسٹر مرواٹ سے ہوئی اسلام اور عیسائیت کے مختلف اصولوں پر تبادلۂ خیالات کے بعد اس نے حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کرلیا ۔ اسی کے توسط سے آپ نے مراکو کے مشہور لیڈر غازی عبدالکریم سے جیل میں ملاقات کی اور یہاں سے نیوزی لینڈ اور وہاں سے آسٹریلیا کا دورہ کیا ۔ نیوزی لینڈ میں اپنے عزیز شاگرد مسٹر ایچ عباسی کو تبلیغِ دین کا کام سپرد کیا اور آسٹریلیامیں مشہور فاضل ڈاکٹر محمد عالم کو مبلغِ دین بنایا۔ 1936ء میں ایک بار پھر جنوبی مشرقی ایشیا کا دورہ کیا ۔ اس وقت آپ فرانسیسی چین اور چین میں تبلیغِ دین کا کام انجام دے رہے تھے۔ آپ کے خطبات سننے کے لیے لاکھوں مسلمان، یورپین، چینی اور جاپانی اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ آپ نے شنگھائی اور پیکنگ میں ایک عرصہ تک قیام کیا۔ جاپان کے مشہور شہر کعب کی جامع مسجد کمیٹی نے آپ کو دعوت دی ، جاپانی مسلمان آپ کے بیانات کے دل دادہ تھے۔ جاپان کی "اورینشیل کلچرل سوسائٹی، ٹوکیو" نے آپ کو خاص طور پر مدعو کیا اور تقریریں کروائیں۔ یہاں سے آپ حسن البناء (بانی اخوان المسلمین) کی دعوت پر مصر گئے۔ پورے مصر میں آپ نے عربی میں خطبات دئیے ۔ مصر کے بعد سیریا، عراق ، لبنان، اور بعد میں ترکی تشریف لے گئے۔ ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے بعد آپ پھر یورپ گئے۔ روم میں مشہور شہر وٹی کان سٹی جو پاپاے روم کاصدر مقام ہے وہاں قیام کیا۔ یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں تقریر کرتے رہے ۔ پاپاے روم سے ملاقات ہوئی ۔ پاپاے روم نے آپ کو ایک عرض داشت بھی پیش کی اور آپ نے بھی اسے دعوت دی کہ دنیا بھر میں پھیل رہے کمیونزم کے سیلاب کے خلاف میری مہم میں شامل ہو کر خدا کی وحدانیت اور اس کے وجود کی تبلیغ کی جائے۔ روم میں قیام کے بعد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ اسپین ، پرتگال ، جرمنی اور ہالینڈ تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد پھر انگلستان کے دورے پر روانہ ہوئے وہاں سے امریکہ کا رُخ کیا جہاں آپ کی آمد کا بڑی شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔ مشرقی امریکہ کے مفتیِ اعظم حضرت عبدالرحمٰن لسٹر نے آپ کی شاگردی اختیار کی ۔ شکاگو کے دورانِ قیام 8 امریکی مسلمان ہوئے۔ ایک دن نیویارک کے سٹی ہال میں عالمانہ خطاب فرمایا۔ جلسہ برخاست ہونے کے بعد 92امریکیوں نے اسلام قبول کیا۔ جن میں مشہور سائنس داں جارج اینٹن بیوف اور ان کی بیگم بھی شامل ہیں۔ واشنگٹن میں مختلف علمی اداروں میں لیکچرز کے دوران 36 انگریز جو کالجوں میں پروفیسر تھے مع اہل و عیال کے مسلمان ہوئے۔ میجی گن یونیورسٹی کے ہونہار ماہر تعلیم عبدالباسط نعیم نے بھی آپ کی شاگردی اختیار کی اور حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں ایک میگزین The Islamic World and U.S.A جاری کیا جو اب بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے ۔ جنوبی امریکہ میں بھی آپ نے اسلام کی تبلیغ فرمائی سرینام کی انجمن "سرینام مسلم اسوسی ایٹ" آپ ہی کی یادگار ہے۔ کینیڈا میں گیارہ علمی اداروں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آپ نے لیکچرز دئیے ۔اومٹن ، کوبیک، اور مونٹریل میں ایک عرصہ تک قیام کیا۔ امریکہ کے دورانِ سفر میں برٹش ویسٹ انڈیز بھی تشریف لے گئے۔ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کے قائم کردہ چنداہم ترین ادارے جو گرم جوشی سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں آج بھی مصروفِ عمل ہیں وہ یہ ہیں۔ حنفی مسجد کولمبو، مسجد ناگریا جاپان، سلطان مسجد سنگاپور، عربک یونی یورسٹی ملایاوغیرہ،۔ مشہور رسائل و جرائد و اخبارات دی مسلم ڈائجسٹ ڈربن جنوبی افریقہ، اسٹار آف اسلام سیلون، پاکستان نیوزجنوبی افریقہ، اسلامک ورلڈ اینڈ یو ایس اے امریکہ، اور دیگراسکولیں ،لائب ریریاں ، تبلیغی ادارے اور سوسائٹیاں ہزاروں سے متجاوز ہیں جو اس وقت بھی دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت میں مصروف ہیں جن کے سرخیل و پیشوا حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور مصنف بھی، آپ کی تصانیف میں ہائی وائی لاگ وتھ برناڈشا، اِن پریچول کلچر اِن اسلام، مسلم رول اِن سائنٹفک ڈسکوریز، ردّقادیانی ، ذکر حبیب ، جوانی کی حفاطت، کتابِ تصوف، اسلام اور اشتراکیت، معجزہ مذہب اور سائنس کی نظر میں،امن کا پیغام وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ الحاصل یہ کہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پہنچے اور اسلامی سوسائٹیاں ، مساجد، مداراس ، مکاتب، علمی ادارے ، اسکول ، کالج ، مشنریاں ، لائب ریریاں ، یتیم خانے ، وغیرہ قائم کیںاور ہزاروں جلسوں اور کانفرنسوں میں خطاب کیا ۔ سائنس اور فلسفہ کے ماہرین اور یونیورسٹیوں کے فضلا سے معرکہ آرا علمی و مذہبی مباحثے کیے ۔اسلامی لٹریچر ہر ملک کی زبان میں شائع کراتے رہے ۔ لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا جن میں بہت سے آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہیں اور بہ حیثیت مبلغ کام کررہے ہیں۔ خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کو عمر بھر کی اِس دینی و اسلامی خدمت کا صلہ یوں ملا کہ آپ کو 22 ذی الحجہ 1374ھ بمطابق22اگست 1954ء کو مدینۂ منورہ میںوفات نصیب ہوئی اوراسلام کے اس مقدس صدیقی فرزندِسعید کو یہ سعادت میسر آئی کہ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں جنت البقیع شریف میں دفن ہوئے جس خاک کی خوشبو لیے تاعمر سرگرداں رہا پائی وہیں آسودگی عبدالعلیمِ قادری صدیقۂ صدیق کے قدموں کی جنت پاگیا صدیقیت سچی تری عبدالعلیمِ قادری ( حاصل مطالعہ کتب: تذکرۂ علماے اہل سنت، تذکرۂ اکابر اہل سنت ، خلفاے اعلیٰ حضرت ، حاشیہ الاستمداد ، جادہ و منزل، امام احمدرضا اربابِ علم و دانش کی نظر میں ، ماہ نامہ ترجمان اہل سنت ،کراچی کے چند شمارے ، ماہ نامہ استقامت کانپور کے چند شمارے) 22 ذی الحجہ 1433ھ /8 نومبر 2012ء بروز جمعرات
  14. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View BooksofAlahazrat by AbdulMubeen Nomani on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/95686069" style="text-decoration: underline;" >BooksofAlahazrat by AbdulMubeen Nomani</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/95686069/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_21731" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  15. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Kashkol e Faqeer e Qadri on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/129024444" style="text-decoration: underline;" >Kashkol e Faqeer e Qadri</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/129024444/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_79034" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
  16. http://<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Tazmeen Br Qaseeda e Merajia on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/129418359" style="text-decoration: underline;" >Tazmeen Br Qaseeda e Merajia</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/129418359/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_38098" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
×
×
  • Create New...