Jump to content

Ahmad Lahore

اراکین
  • کل پوسٹس

    103
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    14

سب کچھ Ahmad Lahore نے پوسٹ کیا

  1. حق صاحب! اندھا دھند عبارتیں نقل کرنے کے بجائے آپ خود جواب دیں تو زیادہ بہتر ہو گا، کیونکہ ضروری نہیں کسی عبارت کا جو مفہوم آپ سمجھیں اس کا مقصود اصلی وہی ہو۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جس عبارت کو آپ اپنے حق میں پیش کریں وہ آپ کے حق میں واقعتا ہو بھی۔ مثال کے طور پر آپ فرماتے ہیں کہ جب سب مذاہب ایک بات پر متفق ہیں، تو اختلاف کس بات کا؟ اس کے حق میں آپ نے امام نووی علیہ الرحمہ کا قول پیش کیا ہے جس میں ہے کہ "اور ان کے علاوہ دوسرے سب اس پر متفق ہیں" جبکہ شیخ محقق علیہ الرحمہ کی جو عبارت آپ نے اپنے تئیں اپنے حق میں پیش فرمائی تھی، اس میں تو ہے کہ "مگر بعض علماء نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند آواز سے پڑھنا حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعلیم کی خاطر تھا" کیوں جناب؟ کیا آپ کے نزدیک "سب کا اتفاق ہونا" اور "بعض علماء کا کہنا" مشترک المعنی ہیں؟ ہمیں بھی اس لغت کا نام بتائیے جس میں "تمام" اور "بعض" کا ایک ہی معنی بیان کیا گیا ہو۔ اور اگر ایسی کوئی لغت نہ مل پائے تو پھر اس عقدے کو آنجناب ہی حل فرما دیں کہ امام نووی اور شیخ محقق کے مبینہ موقف میں یکسانیت آپ کو کیونکر نظر آئی؟ امید ہے وضاحت فرمائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ امام نووی علیہ الرحمہ کے بارے میں آپ نے نقل فرمایا کہ وہ جہر کو منسوخ مانتے ہیں اور یہ کہ جہر تھوڑے عرصہ کے لیے بوجہ تعلیم تھا، مگر شیخ محقق علیہ الرحمہ کا موقف تو یہ ہے کہ "اور حق یہ ہے کہ اوقات مختلف ہیں۔ کبھی ذوق حضور اخفاء میں ممد ہوتا ہے اور کبھی جہر میں شوق اور گرمی بڑھتی ہے اور ذکر بالجہر بلاشبہ مشروع ہے"۔ براہ مہربانی اس الجھن کو بھی آپ ہی دور فرما دیجئے کہ جس بات کو، بقول آپ کے، امام نووی علیہ الرحمہ منسوخ مانتے ہیں، اسی کو شیخ محقق علیہ الرحمہ بلاشبہ مشروع قرار دیتے ہیں، تو یہ دونوں موقف یکساں کس طرح ہو گئے کہ آپ ایک کی تائید میں دوسرے کو پیش فرما رہے ہیں؟ علامہ عینی علیہ الرحمہ کی عبارت مجھے بھولی نہیں، مگر اس کے بارے میں ابھی مجھے کلام ہی نہیں، میں تو فقط امام نووی اور شیخ محقق کے بارے میں عرض گزار ہوں جن کے اقوال پیش کر کے موافقت کا دعوی کرنے کا کارنامہ آپ نے انجام دیا۔ اب اس بارے میں کچھ تشفی ہو تو باقی باتوں پر گفتگو کا سوچا جائے۔ اور یہ جو آپ نے لکھا کہ "جب احناف اور شوافع کا موقف ایک تو اختلاف کس بات کا؟ شیخ علیہ الرحمہ کیا حنفی نہ تھے؟" تو جناب عالی! پہلے آپ امام نووی اور شیخ محقق کے موقف کی یکسانیت ثابت تو کیجئے، اوپر کے سوالات کا جواب دے کر۔ اگر کامیاب رہے تو پھر اس سوال کی گنجائش ہی نہ رہے گی، اور اگر ناکام رہے تب تو یہ سوال خود آپ کے سامنے آن کھڑا ہو گا، کجا آپ ہم سے پوچھیں۔
  2. جناب حق اکانوے کم چار ہزار صاحب! افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج تک کی بحث میں آپ نے ناحق ہی اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کیا ہے۔ کم از کم اپنا موقف پیش کرنے یا کسی پر اعتراض جڑنے سے پہلے تھوڑا غور تو کر لینا چاہئے۔ آپ کا دعویٰ کیا تھا، مگر اس پر دلائل آپ نے کیا پیش فرمائے؟ ان کے مابین عدم مطابقت کیا آپ کو واقعی نظر نہیں آتی؟ اس پر مستزاد آپ کا طرز استدلال۔ صرف ایک مثال پیش خدمت ہے، اسی سے باقی کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے کہا کہ بریلوی حضرات جو دلائل پیش کر رہے ہیں ابن حزم نے انہی دلائل کی روشنی میں ذکر بالجہر کو جائز کہا ہے۔ اس کے بعد ابن حزم کے استدلال کو غلط قرار دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ اس کا جواب امام نووی نے امام شافعی کے حوالے سے یہ دیا ہے کہ یہ ذکر تھوڑا عرصہ صرف تعلیم کے لیے تھا۔ اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے شیخ محقق شاہ عبدالحق علیہ الرحمہ کا مندرجہ ذیل موقف آپ تلاش کر لائے کہ اور یہ حدیث ذکر بالجہر کے متعلق صریح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ مگر بعض علماء نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند آواز سے پڑھنا حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعلیم کی خاطر تھا اور امام نووی نے مہذب میں کہا ہے کہ اس دعا میں بھی اور دوسری دعاؤں میں بھی افضل یہی ہے کہ امام ہو یا منفرد آہستہ پڑھے مگر یہ کہ تعلیم کی ضرورت پڑے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جہر کو اسی پر حمل کیا گیا ہے۔ اور جب دعائیں یاد ہو جائیں تو اس وقت آہستہ پڑھنا ہی افضل ہے۔ اور حق یہ ہے کہ اوقات مختلف ہیں۔ کبھی ذوق حضور اخفاء میں ممد ہوتا ہے اور کبھی جہر میں شوق اور گرمی بڑھتی ہے اور ذکر بالجہر بلاشبہ مشروع ہے۔ تو جناب! ذرا وضاحت فرمائیے کہ آپ نے یہ عبارت آخر کیا سوچ کر نقل فرمائی؟ یعنی اس میں آپ کو اپنے موقف کے حق میں کیا بات نظر آ گئی؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس عبارت میں شیخ محقق علیہ الرحمہ نے خود اپنا موقف کیا بیان فرمایا؟ اور وہ موقف امام نووی علیہ الرحمہ سے منسوب کردہ موقف کے مطابق ہے یا مخالف؟ اگر مطابق ہے تو کس طرح؟ اور اگر ان دونوں میں اختلاف ہو، تو احناف کے نزدیک کون سا موقف راجح ہونا چاہئے؟ اگر شیخ محقق کا موقف اس رائے کے خلاف ہو جو آپ نے امام نووی علیہ الرحمہ سے منسوب کی، اور کوئی شیخ محقق علیہ الرحمہ کے موقف کی تائید کرے، ایسے شخص پر آپ ابن حزم سے موافقت کی پھبتی تو نہیں کسیں گے؟
  3. عبد الوہاب صاحب یہ تو فرمائیے کہ خود آپ نماز تراویح کس طرح ادا کرتے ہیں؟ گھر میں یا پھر مسجد میں باجماعت؟ اور کیوں؟
  4. ابن عبدالوہاب صاحب نماز تراویح ہمارے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔ تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ماہ رمضان میں تراویح کس طور ادا فرماتے تھے؟ سوال سمجھ تو گئے ہوں گے، مگر مزید وضاحت کیے دیتا ہوں اوّل۔ تمام رمضان باجماعت مسجد میں؟ یا پھر دوم۔ گھر میں انفرادی طور پر؟
  5. آپ نے کہا کہ آپ نے صرف استحباب کی تعریف پوچھی ہے، کسی فعل کو استحباب ثابت کرنے کو نہیں کہا۔ میرے خیال میں یا تو آپ نے اپنی پیش کردہ پوسٹ کو ماسوائے عنوان کے پڑھا ہی نہیں، یا پھر پڑھنے کے باوجود آپ اسے سمجھ نہیں پائے، ورنہ ایسا نہ لکھتے۔ ویسے یہ کسی فعل کو استحباب ثابت کرنےکو کیا ہوتا ہے؟
  6. بہت خوب جواب دیا آپ نے۔ اب ذرا اس بات کی بھی وضاحت فرما دیجئے کہ کیا ہر وہ چیز جو اس وقت موجود نہ تھی، مطلقاً ناجائز ہے یا پھر کوئی استثنائی صورت بھی ہو سکتی ہے؟
  7. عبد الوہاب صاحب! قرآن کی کس آیت یا نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کون سی حدیث میں عید میلاد النبی کو ناجائز یا بدعت کہا گیا ہے؟ آسان سا سوال ہے نا؟ تو ذرا جلدی سے جواب دے دیجئے۔
  8. جس اصول کے تحت کسی فعل کا استحباب ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کے بریلویں کو چیلنج فرمایا، خود اسی اصول کے تحت ایک فعل کو مباح قرار دے دیا۔ حماقت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔
  9. ڈاکٹر شاہد محمود کے مطابق مولوی عبدالعزیز اور اس کی بیوی نے داعش کے امیر ابوبکر بغدادی کی بیعت کر لی۔ اس شخص کا داعش کی حمایت کرنا تو ویسے بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور قوم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح اس خارجی نے پشاور سانحے کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔ مگر اس سب کے باوجود ناصرف یہ ملک میں دندناتا پھر رہا ہے، بلکہ ٹی وی چینلز پر اس کے اور اسی جیسے دہشتگردوں کے دیگر حمایتیوں کے تجزیے اور تبصرے بھی نشر کئے جا رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عزب کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلّم، مگر وہ اس مسٔلے کا صرف ایک پہلو ہے، دیگر اہم ترین پہلو نظر انداز کر کے ہم دہشتگردی کی اس لعنت سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ اس وقت ہمارا حال ان احمق دیہاتیوں جیسا ہے جو کتا نکالے بغیر کنواں پاک کرنے میں لگے تھے۔
  10. اہل علم حضرات کی خدمت میں استدعا ہے کہ سمارٹ علی بھائی کے سوال کے جواب میں ضرور کچھ ارشاد فرمائیں۔
  11. ہمارے مبلغِ توحید کہاں تو چومکھی لڑ رہے تھے، دنیا بھر کے بریلوی علما کو جواب کے لیے للکار رہے تھے، فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے، اور کہاں یہ صورتحال کہ اپنے بھاری بھرکم دلائل کے انبار کے انبار چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ اچانک ہی غائب ہو گئے، اپنے پیچھے کتنے ہی سوالات و اعتراضات کو تشنہ چھوڑا، اور اپنے عمل سے اپنی ذات و نظریات کو غریق ملامت فرمایا، موجب فضیحت ٹھہرایا۔ نہ تو حد سے بڑھی خوش گمانی ہی انہیں روک پائی، نہ اختلاف کو حل کرنے کا نیک جذبہ اور نہ ہی شوقِ تکفیرِ مخالفین۔ یوں تو تحریر کا ایک ایک حرف موصوف کی قابلیت اور مجتہدانہ صلاحیت پر شاہد ہے، مگر بعض نکات خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر اہل اسلام کی تکفیر اور ان پر الزام شرک ثابت کرنے کے لیے انہوں نے جو دعوی کیا اور اس پر اچھا خاصا زور قلم صرف کیا، وہ یہ کہ مشرکین عرب اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اس کائنات کو بنانے والا، چلانے والا، زمین اور آسمان سے رزق دینے والا، ہر چیز پر پورا اختیار رکھنے والا، اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ لوگ ناصرف اللہ کی عبادت کرتے تھے بلکہ اسے ہرشے پر قادر بھی مانتے تھے، نفع اور نقصان کا اختیار رکھنے والا اور پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرنے والا بھی جانتے تھے۔ اپنے جھوٹے معبودوں میں مدد کرنے کا اختیار تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے مانتے تھے، اور ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے تھے کہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں۔ بلکہ ایک جگہ تو جناب نے یہاں تک لکھ دیا کہ شرک کے ارتکاب میں بعض مشرکین کی نیت بھی نیک تھی۔ ماشا اللہ، کیا جذبہ محبت ہے۔ اس حکمت عملی پر غور تو فرمائیں جس نے اہل اسلام پر حکمِ شرک ثابت کرنے کے لیے موصوف کو مشرکین عرب کی توحید الٰہی کے اثبات کے حق میں دلائل پیش کرنے پر مجبور کیا۔ ہے نا کمال کی بات۔ اسلام اور عرب کی تاریخ اور قرآن و حدیث سے نابلد کوئی شخص شاید ان دلائل کو پڑھ کر عش عش کر اٹھے اور مشرکین عرب کے نظریہ توحید سے مرعوب بھی ہو جائے۔ مگر ایک مسلمان، جو پورے قرآن پر ایمان رکھنے والا ہے، جب وہ اصل کی طرف رجوع کرتا ہے تو حقائق اسے اس نام نہاد دعوے کی تردید کرتے نظر آتے ہیں جو ضیا بشیر صاحب نے کیا۔ کیونکہ قرآن نے ان مشرکین کے دعووں کو صرف بیان ہی نہیں کیا، واشگاف الفاظ میں ان کی تردید اور ان کا جھوٹا ہونا بھی واضح کیا ہے۔ مثلاً سورہ الانعام کی آیت ۱۰۸ میں فرمان باری تعالیٰ ہے اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔ یونہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کردیئے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتادے گا جو کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان مشرکین کی نظر میں اللہ تعالیٰ کا مرتبہ اپنے جھوٹے معبودوں سے بڑھ کر ہوتا اور وہ اللہ کو ان بتوں کا مالک واقعی سمجھتے تو کیا ان سے چڑ کر ربّ ذوالجلال پر زبان درازی کرتے؟ پس، قرآن نے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو تمام معبودوں کا مالک سمجھنے کے زبانی دعوے میں قطعی طور پر جھوٹے تھے۔ اسی سورہ الانعام کی آیت ۱۳۶ ملاحظہ کیجئے اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ان میں اسے ایک حصہ دارٹھہرایا تو بولے یہ اللہ کا ہے ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شریکوں کا، تو وہ جو ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا کو نہیں پہنچتا اور جو خدا کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے، کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں۔ کیا اس آیت کریمہ نے ان کے ظاہری دعووں کا بطلان ظاہر نہیں کر دیا؟ اس کی تفصیل میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کے حصے کے پھلوں میں سے کچھ پھل بتوں کے حصے میں گر جاتے تو ان کو چھوڑ دیتے، اور اگر بتوں کے حصے کے پھلوں سے کچھ پھل اللہ کے لیے مختص کردہ پھلوں میں گر جاتے تو انہیں چن کر واپس بتوں کے حصے میں رکھ دیتے۔ اسی طرح اگر بتوں کے حصے میں سے کسی چیز کا کچھ حصہ خراب ہو جاتا تو اتنی مقدار میں اللہ کے حصے سے لے کر بتوں کے حصے میں رکھ دیتے۔ یونہی، قحط آ جاتا تو اللہ کے حصے میں رکھی گئی چیزوں کو استعمال میں لے آتے مگر بتوں کے حصے میں رکھی گئی چیزوں کو استعمال میں لانے کو جائز نہ سمجھتے۔ مگر بزعم خویش موحدین کو پھر بھی اصرار ہے کہ مشرکین ان جھوٹے معبودوں کو فقط اللہ کی بارگاہ میں شفیع ہی سمجھتے تھے اور حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی کو۔ اسی معاملے کو ایک اور طرح سے دیکھئے۔ سورہ النحل آیت ۵۷ میں ہے اور اللہ کے لئے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں پاکی ہے اس کو اور اپنے لئے جو اپنا جی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اسی سورہ کی آیت ۵۸ میں ہے اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصّہ کھاتا ہے ۔ دیکھا آپ نے، یہ ہے ان مشرکین کی ذہنی پسماندگی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ان کا رویہ، کہ اپنے لیے تو بیٹی کو باعث ملامت و عار سمجھتے ہیں، اور ربّ ذوالجلال جو اولاد ہی سے پاک ہے، جب اس کے حق میں اولاد تجویز کی تو بیٹیاں؟ چونکہ ضیا بشیر صاحب جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہیں، اور بغیر کچھ بتائے تشریف لے جا چکے ہیں، اس لیے زیادہ تفصیل میں جائے بغیر صرف چند حوالہ جات پر اکتفا کیا گیا۔ مگر کیا اتنے سے ہی ان مشرکین کے دعوے کا بطلان ثابت نہیں ہو جاتا اور اس کے جھوٹ کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ نہیں جاتا؟ اب بھی کوئی ان جھوٹوں کی جھوٹی توحید کے حق میں دلیلیں پیش کرتا پھرے تو اس کی فہم پر شک کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ حیرت ہے ان لوگوں کی عقل پر، کہ قرآن جب مشرکین کے ظاہری دعووں کو بیان فرماتا ہے، تو یہ لوگ ان دعووں کو سچ مان لیتے ہیں، قطع نظر اس بات کے کہ خود قرآن دیگر مقامات پر ان کی تغلیط فرما رہا اور ان کے جھوٹ کو ظاہر کر رہا ہے، مگر جب اہل اسلام اپنے ایمان بالتوحید کا دعوی کرتے ہیں، تو یہ لوگ اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ الٹی گنگا بہنا اور کسے کہتے ہیں بھلا؟
  12. اہلسنت کے اصولوں کو خود ساختہ قرار دینے والے، ان کے ثبوت کے لیے ہمیں قیامت تک کی مہلت عطا فرمانے والے، اللہ تعالیٰ کی مسلّمہ صفات کے حق میں بھی قرآن و حدیث سے دلیل کا مطالبہ کرنے والے ہمارے مہربان کا کہیں کوئی سراغ ملے تو ان سے استفسار کیا جائے کہ ان مذکورہ بالا حضرات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ سب کے سب بریلویوں کے خود ساختہ اصولوں کے اندھے مقلد ہیں؟ مزید یہ کہ ان کے اپنے ہاں اصول و قواعد کا معیار کیا ہے؟ کبھی موقع ملے تو ایک اچٹتی سی نگاہ ادھر بھی ڈال لیجیے گا۔ ایک ہلکی سی جھلک پیش خدمت ہے، ہر عقل و شعور رکھنے والے مسلمان کے لیے عبرت حاصل کرنے کو کافی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا حضرت سعیدی صاحب نے اوپر ذکر کیا۔ اس شخص نے انگریزی زبان میں ایک کتابچہ تحریر کیا ہے جس کا نام ہے Concept of God in Major Religions اس تحریر کا اردو ترجمہ عطا تراب نامی کسی صاحب نے "مجھے ہے حکم اذاں۔اہم مذاہب میں خدا کا تصور" کے عنوان سے کیا ہے جو راولپنڈی سے شائع ہو چکا ہے۔ قدرت باری تعالیٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی تحریر کے صفحہ 18 پر ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتا ہے Some people argue that God can do everything, then why cannot He take human form? If God wishes He can become a human being. But then He no longer remains God because qualities of God and human beings in many respects are completely incompatible. اس کے بعد صفحہ 19 پر اس کی توجیح یوں کرتا ہے Moreover if God takes human form, the same human cannot later become God, since human beings, by definition, do not possess the power to become God. اب اس تحریر کا ترجمہ عطا تراب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے تو وہ انسانی پیکر میں کیوں نہیں ڈھل سکتا؟ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہے تو وہ بشری پیکر میں ڈھل سکتا ہے لیکن پھر وہ خدا نہیں رہے گا کیونکہ خدا اور انسان کی متعدد خصوصیات بہت سے حوالوں سے باہم متضاد اور متناقض ہیں۔ علاوہ ازیں اگر خدا انسانی روپ اختیار کر لے تو پھر یہی انسان خدا نہیں بن سکے گا کیونکہ انسان اپنی تعریف میں ہی ایسا موجود ہے جو خدا بننے کی قدرت نہیں رکھتا۔ انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔ یہ ہے وہابیہ کے نظریات کا حال جو بزعم خویش براہ راست قرآن و حدیث سے اخذ شدہ اصول و قواعد پر مبنی ہیں۔ یعنی ان اللہ علیٰ قل شئی قدیر سے ثابت ہوا کہ خدا چونکہ ہر شے پر قادر ہے، لہذا اگر چاہے تو پیکر انسانی میں بھی ڈھل سکتا ہے، مگر ڈھلتا اس لیے نہیں کہ اگر ایک مرتبہ یہ غلطی کر بیٹھا تو واپس خدا نہیں بن سکے گا۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اللہ تعالیٰ ان گندم نما جو فرشوں کے شر سے امت مسلمہ کو محفوظ و مامون فرمائے۔ آمین۔
  13. وضاحت فرمانے کا بہت شکریہ محمد علی صاحب۔ میرا مقصود بھی بنیادی طور پر اپنی ذات کی طرف سے اظہار عجز کرنا تھا، نہ کہ آپ پر اعتراض۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
  14. جناب ضیا بشیر صاحب! آپ نے جو کچھ لکھا، اگر یہ مذاق ہے تو نہایت ہی بے تکّا، لطافت جس میں نام کو نہیں، اور اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں، تو معاف کیجئے گا یہ کوئی بڑی ہی پرمزاح قسم کی سنجیدگی ہے۔ یعنی پہلے تو آپ کہہ رہے تھے محترم میں چاہتا ہوں کہ ہماری گفتگو کا فیصلہ ہو میں پھر گزارش کر دیتا ہوں یہ ذاتی اور عطائی کی تقسیم کااصول قرآن اور حدیث سے ثابت کر دیں میں مان لوں گا بریلوی مسلک سچا ہے لیکن آپ یہ کر نہیں پائیں گیں۔ لیکن اب فرماتے ہیں میں نے یہ نہیں لکھا اللہ کے اختیارات ذاتی نہیں مجھ پر تہمت نہ لگا ئیں۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے۔ ارے حضرت! جب آپ اپنے منہ سے اللہ کے اختیارات کو ذاتی مان رہے ہیں تو پھر ذاتی عطائی کی تقسیم کے اصول کا مطالبہ دوسروں سے کرنے کا کیا مطلب ہوا بھلا؟ یا پھر صورتحال یوں ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کو ذاتی تو مانتے ہیں مگر کسی اصول کے تحت نہیں۔ تو کیا بےاصولی کے تحت؟؟؟ جیسا کہ عرض کیا، اگر آپ مزاح فرما رہے ہیں تو نہایت ہی بےتکا اور بے روح قسم کا، اور اگر سنجیدہ ہیں تو یہ سنجیدگی عجیب مضحکہ خیز ہے۔ مزید آپ نے اس ناچیز کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا اللہ کے سوا کسی کو الہٰ بنانے کیلئے لازمی نہیں وہ تمام صفات اس ہستی میں مانی جائیں جو اللہ کے لئے ہیں۔ اتنی سی بات آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ حالانکہ میں نے تو بڑے واضح الفاظ میں عرض کیا تھا کہ احمد لاہوری کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بس ایک ہی ہستی ایسی ہے جو الٰہ ہے، اور اسی کی ذات و صفات ہیں جن سے برابری یا شراکت ممتنع بالذات ہے، اور انہی تمام یا ان میں سے بعض یا پھر کسی ایک کی برابری کا عقیدہ باری تعالیٰ کے ساتھ شرک ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ کہیں کہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی، تو کیا کیا جائے۔ چلیں چھوڑیں جناب، آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں گے، مان لیتے ہیں کہ سمجھنے میں ہم سے ہی غلطی ہو گئی، اب ہم کوئی آپ کی طرح ضدی تھوڑے ہی ہیں کہ خوامخواہ ہر بات پر اڑ جائیں۔ لیکن عالی مرتبت! دوسروں پر تو آپ خوب گرج برس رہے ہیں کہ آپ کے سوالوں کے جواب نہیں دیے جا رہے، میرے سوالات کا کیا، جو آج بھی آپ کی نظر کرم کے منتظر ہیں؟ ان کے جواب دینے میں کوئی حرج ہے کیا؟ اور ہاں، اس بات سے بےفکر ہو جائیے کہ میں کسی مسلک کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں ہوں، کیونکہ میرے نزدیک کسی مسلک کے سچا ہونے کے لیے آپ کی سند تصدیق کی سرے سے کوئی حاجت ہی نہیں۔ میں تو فی الحال صرف اس نظریے کی جانچ پرکھ میں مشغول ہوں جسے لے کر آپ تشریف لائے اور میدان مباحثہ میں اندھا دھند چھلانگ دے ماری۔
  15. محترم جناب محمد علی صاحب جہاں تک تعلق ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کو ذاتی نہ ماننے کے قول پر لزوم کفر کا، اس میں کوئی شبہ نہیں اور میں اس بارے میں آپ سے کلّی طور پر متفق ہوں۔ مگر التزام کفر؟؟؟ نہ یہ میرا منصب نہ ہی مجھے اس کی جرات۔ پھر التزام بھی ایسی شخصیت پر جس کے بارے میں تجربہ شاہد کہ اسے درست طریقے سے اپنا موقف بیان کرنے کی مکمل اہلیت تک حاصل نہیں اور وہ خود اس بات کا اظہار بھی کر چکا۔ مثلاً کہاں تو آغاذ میں مطلق اختیار ماننا ہی الوہیت کا اقرار ٹھہرا تھا، اور وہ بھی یہی تو ہے کسی کو الٰہ بنانا جیسے تاکیدی الفاظ کے ساتھ۔ معمولی جرح کے بعد یہ مکمل اختیار بنا، ہر طرح کا، ہر شے کا، ہر شخص پر اختیار میں تبدیل ہوا، پھر اختیار کا مالک ہونا تک پہنچا، یہاں تک کہ بالآخر ملکیت بھی حقیقی لازم ہوئی نہ کہ مجازی۔ جب معاملہ یہ ہو، حکم التزام کیا آسان کام ہے؟ بلکہ میں تو بعد از اتمام حجت بھی خود کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتا اور بیان حکم کو اہل علم ہی پر چھوڑنے کا قائل ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو دولت ایمان سے سرفراز فرمائے اور اپنے فضل سے اس کی حفاظت بھی فرمائے۔
  16. ضیا بشیر صاحب! آپ نے لکھا اسی طرح کا اصول بغیر دلیل کے احمد لاہوری نے بھی پیش کیا۔ معاف کیجئے گا، میں نے کب، کہاں اور کون سا اصول لکھ دیا؟ میں تو بس آپ کی مبلغانہ کاوشوں سے مستفید ہونے کی ناکام کوشش میں ہوں۔ ہاں، اپنی عادت کے مطابق آپ کے پیش کردہ نظریے پر چند اشکالات ضرور پیش کیے، جن کی نوعیت اصولی ہے، مگر یہ کہنا کہ میں نے اپنی طرف سے ابھی تک باقاعدہ طور پر کوئی اصول بلا دلیل پیش کیا، اگر غلط بیانی نہیں تو غلط فہمی ہے،اور غلط فہمی نہیں تو غلط بیانی۔ میرے کسی سوال کے سمجھنے میں البتہ مشکل ہو رہی ہو تو ضرور بتائیے، لیکن انہیں نظر انداز کرنا مناسب نہیں، خاص طور پر جب کہ شوق تبلیغ بھی آپ ہی کو چرایا ہے۔ اس کے بعد آپ نے ایک عجیب بات لکھی کہ احمد لاہوری کا مسلہ یہ ہے کہ وہ الہٰ ہونے کو اللہ ہونے پر قیاس کر رہے ہیں یعنی جو اللہ کے لئے مانتے ہو بالکل وہی کسی اور کے لئے مانو تو شرک ہو گا وہ ہستی الہٰ قرار پائے گی۔ اس میں بیچارے احمد لاہوری کا قصور نہیں، کیونکہ اس نے توحید کا جو سبق پڑھا اور سیکھا اس کی بنیاد کلمہ مبارکہ لا الٰہ الاللہ پر ہے۔ یعنی کوئی الٰہ نہیں، مگر اللہ۔ ایسے میں احمد لاہوری الٰہ ہونے کو اللہ ہونے پر قیاس نہ کرے تو بتائیے کس پر کرے؟ ہو سکتا ہے آپ کی نظر میں کچھ اور بھی ایسی ہستیاں ہوں جن پر قیاس کرتے ہوئے یا جن کو معیار بناتے ہوئے آپ کسی کی الوہیت بارے فیصلہ کرتے ہوں، احمد لاہوری کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بس ایک ہی ہستی ایسی ہے جو الٰہ ہے، اور اسی کی ذات و صفات ہیں جن سے برابری یا شراکت ممتنع بالذات ہے، اور انہی تمام یا ان میں سے بعض یا پھر کسی ایک کی برابری کا عقیدہ باری تعالیٰ کے ساتھ شرک ہو سکتا ہے۔ احمد لاہوری تو یہ زرّیں اصول سمجھنے ہی سے قاصر ہے کہ ذات و صفات میں برابری کسی اور سے ثابت کی جائے یا قیاس اللہ کے سوا کسی اور پر کیا جائے اور شرک باری تعالیٰ سے ثابت ہو جائے۔ ایسی اعلیٰ فہمی آنجناب کو مبارک، احمد لاہوری اس سے جاہل ہی بھلا۔ اس کے بعد آپ نے پرانی باتوں کو دہرایا ہے، اور اپنے دلائل کو ایک مرتبہ پھر سے پیش کر دیا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اگر آپ کے نزدیک کسی بات کو دہراتے رہنے سے اس کی اہمیت یا تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے، تو مجھے اس بات سے اتفاق نہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے جن دلائل کو یہاں دہرایا ہے، انہیں مزید دس، بیس یا پچاس مرتبہ اور بھی لکھ دیں، کوئی فائدہ نہیں۔ وجہ یہ کہ کسی شے کو اپنے تئیں دلیل سمجھنے، اور اپنے کسی دعوے کے حق میں اس کے واقعتا دلیل ہونے میں فرق ہوتا ہے۔ آپ کا قرآن پاک کی آیات مقدسہ یا احادیث مبارکہ نقل کر دینا کافی نہیں، بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ ان سے استنباط کیا کر رہے ہیں۔ یوں تو خوارج نے بھی اپنے دعوے کے حق میں قرآن کی آیت ہی بطور دلیل پیش کی تھی، مگر امیر المومنین جناب علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرما دی کہ انہوں نے اس سے مراد غلط لی۔ یعنی ان کا استنباط غلط تھا۔ آپ کا استنباط درست ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بڑا آسان ہے، وہ یوں کہ میرے پیش کئے گئے سوالات کا تسلی بخش جواب عنایت فرما دیجئے۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوتے دیر نہیں لگے گی، ان شا اللہ۔ آخر میں آپ نے جو لکھا کہ محترم میں چاہتا ہوں کہ ہماری گفتگو کا فیصلہ ہو میں پھر گزارش کر دیتا ہوں یہ ذاتی اور عطائی کی تقسیم کااصول قرآن اور حدیث سے ثابت کر دیں میں مان لوں گا بریلوی مسلک سچا ہے لیکن آپ یہ کر نہیں پائیں گیں۔ کمال ہے۔ اوپر تو آپ کہہ رہے تھے کہ جہاں تک آپ نے بات کی حقیقی اور مجازی ملکیت کی وہ تو سیدھی بات ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے اللہ ہر چیز کا مالک ہے ہمارے پاس جو ملکیت و اختیار ہے وہ عارضی ہے اس کو مجازی کہہ لو۔ اگر وہ سیدھی بات تھی، تو یہاں کون سی ٹیڑھی بات ہے جو یوں متردد ہو رہے ہیں؟ دوسروں سے کیا پوچھتے ہیں جناب، اپنے دل سے فتویٰ لیجئے۔ کیا آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کی ذاتی نہیں سمجھتے؟ دوسری طرف مخلوق کو جو صفات حاصل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سمجھتے ہیں یا پھر ان مخلوقات کی اپنی ذاتی؟ ایمان کی رمق بھی سینے میں اگر باقی ہو تو کسی لمبی چوڑی تفصیل کی حاجت نہیں، نہ ہی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کہیں جانا پڑتا ہے، ہر مسلمان کا قلب بلکہ خود اس کے حق میں گواہی دیتا ہے۔ آپ بھی ایک کوشش کر دیکھئے، ایمان اگر موجود ہے تو مایوسی نہیں ہو گی۔ بالفرض اس کے باوجود بھی تردّد باقی رہے، تو صراحت کے ساتھ صرف اتنا لکھ دیجئے کہ آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذاتی نہیں بلکہ غیر کی عطا کردہ ہیں، اور مخلوقات کی جملہ صفات ان کی اپنی ذاتی ہیں، تاکہ خلاصی ہو اور مزید گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔ اپنے گزشتہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات کے لیے آج بھی منتظر ہوں۔
  17. وعلیکم السلام محمد علی بھائی! صومالین صاحب کے ساتھ آپ کا تجربہ کافی تلخ رہا اور افسوس کہ نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔ آپ نے مگر اپنا دینی فریضہ ادا کیا جس کے لیے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جہاں تک موجودہ موضوع کا تعلق ہے، ضیا بشیر صاحب کے موقف میں موجود چند تضادات کی نشاندہی میں نے کی تھی، جس پر انہوں نے اتنا تو تسلیم کر لیا کہ ان کی جانب سے الفاظ کا چناؤ صحیح نہیں تھا۔ مزید اشکالات، جو اصولی نوعیت کے ہیں، کا کیا جواب دیا جاتا ہے، دیکھتے ہیں۔
  18. چلئے ضیا بشیر صاحب! دھند چھٹنا شروع تو ہوئی، یونہی چلا تو امید ہے منظر مزید واضح ہوتا جائے گا۔ مگر کسی پیش کردہ اشکال کے جواب کے لیے کوئی گزشتہ پوسٹ پڑھنے کا نہ کہئے گا، کیا خبر اس پوسٹ میں آپ نے الفاظ کا چناؤ درست نہ کیا ہو اور معاملہ پھر سے اٹک جائے۔ آپ نے تازہ ترین موقف میں تسلیم کیا کہ الٰہ وہ ہوتا ہے جو نفع نقصان کا مالک ہو۔ اس کے بعد آپ نے ان امور کی طویل فہرست دی ہے جن کے غیر اللہ کے حق میں تسلیم کرنے سے اس کا الٰہ ماننا لازم آتا ہے۔ حالانکہ اس تکلف کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ جب مالک ہونا تسلیم کر لیا، پھر اس کے بعد مزید کس بات کی گنجائش باقی رہی؟ مثال کے طور پر ایک شخص کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ معمولی بخار کا اعلاج کرنے میں مہارت رکھتا ہے، مگر اس کے لیے وہ اذن الٰہی کا محتاج نہیں، بلکہ شفایابی پر بالذات قادر ہے، تو اسے غالباً آپ بھی شرک ہی کہیں گے۔ خود آپ کی اپنی تحریر کی روشنی میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرعون اور امریکہ کو جو اختیار حاصل ہے اس کا ماننا شرک اس لیے نہیں کہ وہاں اختیار کا مالک ہونا نہیں پایا گیا۔ لیکن اسی اختیار کو اگر اذن الٰہی کے تحت نہ مانا جائے تو ایسی صورت میں فرعون اور امریکہ کا نفع نقصان پر اختیار کا مالک ہونا لازم آئے گا اور یہ شرک ہو گا۔ گویا الٰہ وہ ہوتا ہے جو اختیار کا مالک ہو۔ جو کسی کے اذن کا محتاج ہو وہ مالک نہیں ہو گا اور یوں الٰہ بھی نہیں کہلائے گا۔ اس لحاظ سے بعطائے الٰہی کتنا بھی اختیار مانا جائے، جب تک تحت اذن الٰہی رہے گا، حقیقی ملکیت ثابت نہ ہو گی، اور یوں شرک بھی لازم نہ آ سکے گا۔ بالفاظ دیگر اگر کہا جائے کہ الٰہ ماننے کے لیے ذاتی قدرت و اختیار کا پایا جانا ضروری نہیں، تو پھر ذات باری تعالیٰ کے لیے بھی ذاتی قدرت و اختیار کا ماننا ضروری نہ رہا، کہ یہ صفت الوہیت ہی نہیں۔ اور اگر ذات باری تعالیٰ کے لیے ذاتی قدرت اور اختیار کا مالک ہونا لازم مانا جائے تو پھر غیر اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ غیر مستقل اختیار تسلیم کرنا شرک نہیں ہو گا، کہ جب ملکیت نہیں پائی جا رہی تو شرکت و برابری کیسی؟ اور اگر یوں کہا جائے کہ اختیار کا غیر کے اذن کے تحت ہونا الٰہ ہونے سے مانع نہیں، تو اس سے لازم آئے گا کہ ذات باری تعالیٰ کی قدرت و اختیار کا غیر کے اذن کے تحت ہونا بھی ممنوع نہ ہو۔ بصورت دیگر اگر کہا جائے کہ الٰہ ہونے کے لیے اختیار کا کسی کے اذن و منشا کے تحت نہ ہونا لازم ہے، ایسے میں کسی غیر اللہ کے اختیار کو تحت اذن الٰہی ماننے سے شرک ثابت نہ ہو گا، کہ شرط مفقود ہوئی۔ تو فرمائیے کیا آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار کو کسی کا عطا کردہ سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کسی غیر اللہ میں غیر مستقل اور اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ اختیار ماننے سے شرکت و برابری کیسے ثابت ہو گی؟ کیا آپ قدرت و اختیار الٰہی کو غیر کے اذن کے تحت مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو غیر اللہ کا اختیار جو تحت اذن الٰہی ہو، اس کے ماننے سے باری تعالیٰ سے شراکت و برابری کیونکر ہو گی؟ امید ہے سوال آپ کی سمجھ میں آ گئے ہوں گے اور آپ سوچ سمجھ کر ان کے تسلی بخش جوابات عنایت کریں گے۔
  19. جی محترم! دوبارہ وضاحت کی کوشش فرمانے کا بہت شکریہ، مگر اس کا کیا کیجئے کہ اب بھی ڈھاک کے وہی تین پات۔ آپ اس بارے متذبذب ہیں، یا پھر بیان مدعا کے لیے الفاظ کا درست چناؤ نہیں کر پاتے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ نتیجہ مگر یہ کہ بس الجھاؤ ہی الجھاؤ، سلجھاؤ کچھ نہیں۔ اسی ایک لفظ اختیار کو لیجئے، کبھی آپ فرماتے ہیں کہ تھوڑا بہت اختیار تو سب کو حاصل ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی اختیار کے اعتقاد کو شرک قرار دیتے ہیں، اب ایسے میں آپ کی وضاحتوں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ اس تازہ ترین وضاحت کی کوشش میں آپ نے لکھا کوئی کسی کو نقصان پہنچائے یا نفع، اس سے وہ نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا نفع نقصان کا اختیار ہونا اس سے بلند تر چیز ہے۔ اس کے بعد مختلف مثالیں دے کر آپ لکھتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ذریعے آزمائے جاتے ہیں اور کل قیامت کو ہمیں ہر بات کا حساب دینا ہے۔ تو جناب من! جزا و سزا، حساب و کتاب کیا ان اعمال میں ہو گا جن کے کرنے یا نہ کرنے کا ہمیں اختیار ہی نہیں، یا پھر ایسی باتوں پر گناہ و ثواب دیا جائے گا جن کے کر گزرنے یا چھوڑ دینے کا ہمیں اختیار و طاقت دیے گئے؟ آج تک تو یہی سنا تھا کہ گناہ ایسے برے اعمال پر مرتب ہوتا ہے جو اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ کیے جائیں، مگر ہو سکتا ہے میری معلومات ناقص ہوں۔ اور یہ جو آپ نے اوپر ظلم کا تذکرہ کیا، شرعی لحاظ سے کیا ظلم کی ایک تعریف غیر کی ملکیت میں بےجا تصرف نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر یہ بھی آپ ہی بتا دیجئے کہ اس تصرف اور ملکیت کو کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ احمد لاہوری کی کیا مجال ہے جناب کہ امریکہ یا فرعون کو نفع نقصان کا مالک مانے۔ مگر امریکہ اور فرعون کے لیے ظلم کا اختیار تو آپ بھی مانتے ہیں، اگرچہ تھوڑا بہت سہی، جس کا آپ اظہار بھی کر چکے۔ ایسے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہو جاتی کہ خود آپ کے نزدیک محض اختیار ماننا غلط نہیں، بلکہ اسے بعض دیگر شرائط کے ساتھ مقید ماننا۔ اگرچہ اس بات کا اظہار کرنے میں آپ کو تردد ہو۔ مزید برآں، ملکیت بھی حقیقی، نہ کہ مجازی۔ جس طرح آپ نے امریکہ اور فرعون کی عام فہم دنیاوی مثالیں اپنی وضاحت کے حق میں پیش کیں، یہ عاجز بھی عرض کرتا ہے کہ روزمرہ مشاہدے کے مطابق بڑے بڑے ٹھیٹھ موحدین کو دیکھا گیا جو اپنے گھر، گاڑی اور دیگر املاک کے معاملے میں بڑے طمطراق کے ساتھ ملکیت کے خانے میں اپنا اسم مبارک لکھوایا کرتے ہیں، مگر اس دعوی ملکیت کے باوجود ان کی توحید پر رتی بھر آنچ نہیں آنے پاتی۔ تو کیا یہی نہیں کہا جائے گا کہ ان کے نزدیک یہ ملکیت مجازی ہوتی ہے، حقیقی مالک ان اشیا کا وہ اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں۔ یہ مثال اس لیے عرض کی گئی کہ کہیں آپ اس کم علم سے ملکیت حقیقی اور ملکیت مجازی کے الفاظ قرآن حکیم سے دکھانے کا مطالبہ نہ فرما دیں۔ تو جناب، مسٔلہ گھوم کر پھر وہیں آ گیا کہ غیر اللہ میں اختیار، ملکیت، تصرف وغیرہ کا اعتقاد اگر شرک ہے تو پھر ہر حال میں ہونا چاہئے، بغیر کسی استثنیٰ کے۔ اور اگر اس میں کوئی استثنیٰ ہے، تو اس کی نشاندہی مکمل وضاحت کے ساتھ ہونی چاہئے۔ چونکہ صفت الوہیت کا غیر اللہ میں رائی برابر تسلیم کرنا بھی شرک صریح ہے، لہذا یہ تھوڑ اختیار اور زیادہ اختیار کی تقسیم آپ کو کارآمد نہیں۔ نہ ہی مطلق لفظ ملکیت یا تصرف آپ کو مفید، بلکہ ان تمام کی ایسی جامع تعریف جو جواز اور عدم جواز میں فرق کو واضح اور ثابت کرے۔ ورنہ تو آپ اپنے استرے سے اپنا ہی سر مونڈتے رہیں گے، مطلب یہ کہ خود اپنے ہی فتووں کی زد میں آتے رہیں گے۔
  20. جی محترم! میں نے بالکل پڑھا تھا، اور تبھی سوال بھی کیا کیونکہ آپ کی بات اتنی صاف ہے نہیں جتنی آپ نے سمجھی۔ اور پھر احمد لاہوری کے مختصر سوالات کو تو آپ نے چھوا تک نہیں، بلکہ اپنی گزشتہ بات کو دہرا دینے پر اکتفا کیا۔ ابھی دیکھ لیجئے، پہلے تو آپ زرداری و نواز شریف کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں اختیارات کچھ نہ کچھ تو سب کو ملتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو نفع نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں۔ مگر دو ہی سطر بعد یہ بھی فرما دیا کہ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ نفع نقصان کا اختیار رکھتی ہے یہی تو ہے اُس ہستی کو الٰہ بنانا۔ یعنی بقول شاعر، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی (پہلا مصرعہ عمداً ترک کر رہا ہوں، مبادا آپ برا مان جائیں)۔ بہرکیف، آپ کا دعوی عجیب و غریب ہے۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ نفع نقصان کا اختیار رکھتی ہے، یہ اس ہستی کو الٰہ ماننا ہے، یعنی اس کی الوہیت کا اقرار کرنا۔ مگر ساتھ ہی آپ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ اختیارات کچھ نہ کچھ تو سب کو ملتے ہیں، اور لوگ ایک دوسرے کو نفع نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ تو کیا آپ کے ان دو فرامین کو ملانے سے یہ مفہوم نہیں بنتا کہ کچھ نہ کچھ الوہیت سب ہی کو ملتی ہے؟ ضرور یہی مفہوم بنتا ہے۔ تو کیا یہی ہے وہ شاندار عقیدہ جسے منوانے کے لیے یہ سارا زور قلم ہے؟ فرمائیے! آپ کی اپنی سمجھ میں کچھ آیا، یا اب بھی نہیں؟؟
  21. جناب! اگر آپ کی پہلی پوسٹ میں احمد لاہوری کے ان سوالات کا جواب ہوتا جو آپ کی پچاسویں پوسٹ پر وارد ہوئے، تو آپ کو زحمت ہی نہیں دیتا۔ بہرحال، احقاق حق کے دعوے کے باوجود اگر آپ دو ایک مختصر اور سادہ سے سوالات کا جواب دینے سے گریزاں ہیں تو آپ کی مرضی، کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔
  22. گفتگو خاصی طویل ہے، اس لیے مکمل تو نہیں پڑھ سکا مگر بنظر غائر دیکھنے سے چند سوالات ذہن میں پیدا ہوئے جن کے جواب کے لیے ضیا بشیر صاحب سے ملتمس ہوں، امید ہے سرفراز فرمائیں گے۔ پوسٹ نمبر 50 میں آپ لکھتے ہیں جب میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اس کا یہ مطلب نہیں اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا یا کسی کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں حکومت طاقت ہی نہیں۔ چند سطر بعد مزید لکھتے ہیں کوئی کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا دینے سے نفع نقصان کا مالک نہیں بن جاتا ورنہ فرعون کے پاس اختیار نہیں تھے کیا؟؟ نفع نقصان کا اختیار ہونا اس سے بلند تر شے ہے۔ آخری فقرے میں غالباً آپ "اختیار کا مالک" کہنا چاہتے تھے مگر غلطی سے فقط لفظ "اختیار" لکھ دیا کیونکہ ایک ہی وقت میں کسی بات کا اقرار بھی کرنا اور انکار بھی، یہ قابل فہم بات نہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک بھی ارتکاب شرک کے لیے محض اختیار ماننا کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے ملکیت کا اعتقاد کرنا شرط ہے۔ کیونکہ اگر صرف اختیار تسلیم کر لینا شرک ہوتا، تو آپ فرعون کے حق میں اسے تسلیم کر کے خود شرک کا ارتکاب بھلا کیونکر فرماتے؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اختیار دو قسم کا ہے۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہو، یعنی باذن اللہ۔ دوسرا وہ جو یا تو بغیر عطا کے مانا جائے، یا پھر حاصل تو بعطائے الٰہی ہو، مگر بعد از حصول کسی صفت میں موصوف کو ایسا تصرف حاصل ہو جائے جو اذن الٰہی کا محتاج نہ رہے۔ کیونکہ حقیقی ملکیت اسی کو کہیں گے جس میں تصرف ذاتی ہو۔ تو فرمائیے، جس میں کسی اختیار کے حصول اور اس کے استعمال کے لیے اذن الٰہی کو شرط مانا جائے، ایسے اعتقاد کو آپ شرک کہیں گے یا نہیں؟ دوسرے یہ کہ مشرکین مکہ کا شرک غیر اللہ میں باذن اللہ اختیار ماننا تھا یا پھر من دون اللہ اختیار تسلیم کرنا؟ اگر کہیں کہ ان کے مشرک ہونے کی بنیادی وجہ محض اختیار ماننا تھا، اگرچہ باذن اللہ ہو، تو پھر اتنی وضاحت ضرور فرما دیجئے گا کہ محض اختیار تو خود آپ فرعون کے لیے بھی تسلیم کر رہے ہیں، تو کیا آپ بھی شرک کے مرتکب ثابت ہوئے یا نہیں؟
  23. اگرچہ مذکورہ کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں تو مجھے علم نہیں لیکن اس روایت سے متعلق چند گزارشات پیش کر دیتا ہوں، امید ہے آپ انہیں مفید پائیں گے۔ کتاب "تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر" از سید عبدالقادر اربلی میں اس سے ملتی جلتی ایک روایت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: "شیخ ابوالعباس احمد رفاعی سے روایت ہے کہ سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خادم فوت ہو گیا۔ اس کی بیوی آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور آہ و زاری کرنے لگی اور اپنے خاوند کے زندہ ہونے کی التجاء کی۔ سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ نے مراقبہ کیا اور علم باطن سے آپ نے دیکھا کہ ملک الموت نے اس دن جتنی ارواح قبض کی تھیں وہ ان کو آسمان کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آپ نے ملک الموت کو ٹھہرنے کا حکم دیاکہ میرے فلاں خادم کی روح واپس کر دو تو ملک الموت نے جواب دیا کہ میں نے تمام ارواح کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبض کیا ہے اور رب ذوالجلال کی بارگاہ میں پیش کرنی ہیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے خادم کی روح کو واپس کر دوں جس کو میں بحکم الٰہی قبض کر چکا ہوں۔ تب آپ نے دوبارہ کہا مگر ملک الموت نہ مانے۔ ان کے ہاتھ میں ٹوکری تھی جس میں تمام روحیں ڈالی ہوئی تھیں جو اس دن قبض کی تھیں۔ پس آپ نے قوت محبوبیت سے ٹوکری ان سے چھین لی اور تمام روحیں نکل کر اپنے اپنے جسموں میں چلی گئیں۔ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں شکایت کی اور عرض کیا کہ مولیٰ کریم تو جانتا ہے جو میرے اور عبدالقادر کے درمیان تکرار ہوئی کہ اس نے آج مجھ سے تمام ارواح جو قبض کی تھیں چھین لی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ملک الموت بیشک عبدالقادر میرا محبوب ہے، تو نے اس کے خادم کی روح کو واپس کیوں نہ کیا۔ اگر ایک روح واپس کر دیتے تو اتنی روحیں اپنے ہاتھ سے دیتے نہ پریشان ہوتے"۔ اس کے بعد ملاحظہ کیجئے کہ فتاویٰ رضویہ طبع جدید کی جلد ۲۸ صفحہ ۴۱۴ پر ایک سوال اس طرح سے ہے: "تیسرے یہ کہ زنبیل ارواح کی عزرائیل علیہ السلام سے حضرت پیران پیر نے ناراض اورغصہ میں ہوکر چھین لی تھی"۔ اس سوال کے جواب میں اعلٰیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "زنبیل ارواح چھین لینا خرافات مخترعہ جہّال سے ہے ۔سیدنا عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام رسل ملائکہ سے ہیں اوررسل ملائکہ ، اولیاء بشر سے بالاجماع افضل۔ تو مسلمانوں کو ایسے اباطیل واہیہ سے احترام لازم۔ واللہ الہادی الٰی سبیل الرشاد"۔ مزید فتاویٰ رضویہ جلد ۲۹ کے صفحہ ۶۲۹ پر ایک سوال ان الفاظ میں ہے: "دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا، موتٰی کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اُڑ گیا۔ تو آپ کو رحم آیا آپ نے وعدہ فرمایا اور لڑکے کی تسکین کی۔ بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا، جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں آپ نے فرمایا۔ روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بحکم رب العالمین رُوح قبض کی ہے ۔ بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر جھگڑا ہوا۔ آپ نے تھپڑ مارا، حضرت کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اورآپ نے ان سے زنبیل چھین کر اس روز کی تمام رُوحیں جو کہ قبض کی تھیں چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک رُوح چھوڑنے کو کہاتھا تم نے کیوں نہیں چھوڑ ی ہم کو ان کی خاطر منظور ہے اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑدیں تو کچھ مضائقہ نہیں"۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "اور دوسری روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اُس کا پڑھنا اور سُننا دونوں حرام ۔ احمق، جاہل بے ادب نے یہ جانا کہ وہ اس میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کررہا ہے، کسی عالم مسلمان کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوگی کہ معاذ اﷲ اُسے کفر کی طرف نسبت کیا جائے نہ کہ محبوبانِ الہٰی سیدنا عزرائیل علیہ السلام مرسلین ملائکہ میں سے ہیں اور مرسلین ملائکہ بالاجماع تمام غیر انبیاء سے افضل ہیں کسی رسول کے ساتھ ایسی حرکت کرنا توہین رسول کے سبب معاذ اﷲ اس کے لیے باعثِ کفر ہے، اﷲ تعالٰی جہالت و ضلالت سے پناہ دے۔ واﷲ تعالٰی اعلم"۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ یہ روایت من گھڑت ہے۔ اگرچہ تفریح الخاطر معروف کتاب ہے، لیکن محض ایسی کسی کتاب میں نقل ہونا کسی روایت کے درست ہونے کی دلیل نہیں، کہ بعض کتب میں رطب و یابس سب جمع ہو جاتا ہے۔ لہذا "رموز درویش" نامی کسی غیر معروف کتاب میں ایسی روایت کا پایا جانا نہ تو اس کی صحت کی قطعی دلیل ہو سکتا ہے، اور نہ ہمارے خلاف حجت، جبکہ اس روایت کو حضرت بریلوی علیہ الرحمہ صراحتاً باطل قرار دیں اور اس کے بطلان کی علت بھی بیان فرما دیں۔ بلکہ اس روایت کی شناعت تو فتاویٰ رضویہ میں مذکور روایات سے بھی بڑھ کر ہے کہ اس کے آخر میں یہ الفاظ اضافی ہیں کہ "پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شکر کرو انہوں نے تمہیں یہ نہیں کہہ دیا کہ دوبارہ دنیا میں نہ آنا۔ اگر وہ ایسا کہہ دیتے تو پھر تم دوبارہ کبھی بھی دنیا میں نہ جا سکتے"۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔
×
×
  • Create New...