مصطفوی صاحب ۔
١۔کیا قرآن پاک میں زندہ و مردہ کی قید ہے ؟ کہ زندہ اولیاء اللہ سے مدد مانگ لیا کرو اور مردہ سے مانگنا شرک ہے ۔اگر اس قسم کی تقسیم کسی آیت میں ہے تو وہ آیت پیش کیجیے
۔ ۲ کیا بعد الوصال کسی نبی یا ولی کی قریب سے مدد کا عقیدہ شرک ہے کہ نہیں؟جواب دیجیے ۔۔۔۔
۳۔۔
حدیث کے مطابق مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اور دوسری حدیث کے مطابق جب اللہ عزوجل کسی کو اپنا ولی بنا لیتا ہے تو اس کے ہاتھ ،پاؤں ،بن جاتا ہے ۔کماقال علیہ الصلوة والسلام ۔ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھیے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کو اللہ عزوجل روحانی و نورانی طاقتیں عطا فرماتا ہے ۔جس کی وجہ سے بقول امام فخر الدین رازی قریب و بعید سے یکساں دیکھتا ہے ۔تو کیا وصال کے بعد ولایت چھین لی جاتی ہے؟کیا ان کی یہ طاقتیں زایل ہو جاتی ہیں؟ایک عام شخص کو مرنے کے بعد اس قدر قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ قبر میں دفن ہونے کے بعد چالیس قدموں تک اپنے جنازہ پڑھنے والوں کے قدموں کی آواز سنتا ہے ،قبر پرکے اندھیرے سے جب ایک عام آدمی آنے والوں کو دیکھتا پہنچانتا ہے ، قوت بصارت اس قدر ہو جاتی ہے کہ فرشتوں تک کو دیکھ لیتا ہے۔ جب عام آدمی کی یہ صلاحیت ہے تو اولیاء اللہ کی نورانی و روحانی قوت کیا معاذ اللہ ان سے چھین لی جاتی ہے؟
لہذا جب ان کی نورانی و روحانی قوتیں و طاقتیں زایل نہیں ہوتیں تو پھر زندہ مردہ کی تقسیم ہی غلط ٹھہری ۔
۴
اللہ عزوجل نے خود قران پاک میں کہا کہ بے شک تمھارا ولی اللہ ،رسول اور ایمان والے ہیں۔
آپ نے یہ کہا تھا میرا ایک ولی ﴿دوست﴾مر گیا ہے تو کیا میں اس کو مدد کے لیے پکار سکتا ہوں کیونکہ قرآن نے مومنوں کو ایک دوسرے کا ولی کہا۔ تو عرض ہے کہ ہر ایک کا ولی ہونا اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور اختیارات و تصرفات کے لحاظ سے ہے
حدیث قدسی جس میں ہے کہ پھر میں اس کو اپنا ولی بنا لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کوءی اس ولی کامل سے بغض رکھے تو میں اسے اعلان جنگ کرتا ہوں۔۔۔۔تو کیا یہ حکم آپ کے عام ولی ﴿دوست ﴾ پر بھی صادق آتا ہے؟
میں اس کے ہاتھ ،پاؤں ، آنکھ بن جاتا ہوں۔۔۔۔۔ تو کیا اس حدیث کے مصداق آپ کے ولی ﴿دوست ﴾بھی ہیں؟
لہذا اللہ ،رسول ، اولیاء اللہ اور عام مسلمانوں کا ولی ہونا ،ہر ایک کا ولی ہونا اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور اختیارات و تصرفات کے لحاظ سے ہے ۔اللہ عزوجل ،رسول اللہ ، ،اولیاء اللہ اور عام مسلمان ۔لہذا عام مسلمان کی ولایت اور ایک پابند شریعت ولی کامل جس کے فضایل و کمالات کا ذکر خود قرآن و حدیث میں ملتا ہے ان دونوں کو یکساں بتانا کم عقلی ہے۔
۵۔
پھر زندہ مردہ ،کی تقسیم تو آپ تب کرتے جب آپ زندہ اولیاء اللہ سے استمداد کے قایل ہوتے ۔لہذا اگر آپ زندہ کے قاہل نہیں تو مردہ ﴿بقول آپ کے ﴾کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔
بحرحال آپ کوءی ایسی آہت ہی پیش کر دیجیے جس میں زندہ مردہ کی تقسیم پیش کی گی ہو۔لیکن وہ آہت من دون اللہ ،بتوں کے بارے میں نہ ہو اور اس میں کسی قسم کا دوسرا نظریہ یا پہلو بھی موجود نہ ہو بلکہ جو عقیدہ و نظریہ اہل سنت و جماعت کا ہے صرف اسی کا رد ہو۔