Jump to content

Muslampak

اراکین
  • کل پوسٹس

    57
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    3

سب کچھ Muslampak نے پوسٹ کیا

  1. توحیدی بھای آپ نے جو سکین مضمون پوسٹ کیا ہے وہ کون سی کتاب اور مصنف کا ہے ۔کیا وہ کتاب نیٹ پر اپ لوڈ ہے؟
  2. بھاہی Mustafaye جزاک اللہ ۔لیکن ان سوالوں اور اعتراضات کے جوابات یا اس موضوع پر بحث کون سے فارم پر موجود ہے مجھے تو نہیں ملی ۔اگر آپ کو یا کسی بھی بھاہی کو معلوم ہو تو وہ لنک یہاں پوسٹ کر دے۔ شکریہ
  3. آپ کے پوسٹر کا جواب اس سایٹ پر دو ممبرز ناصر نعمان اور تلوار صاحب نے دیا ہے ۔اگر پو سکے تو ان کا مطالعہ کیجیے۔ Senior Member Join Date Dec 2008 Posts 290 Thank 18 Thanked 62 Times in 23 Posts پوسٹر اپ لوڈ ہے ۔نیچے دیکھیے
  4. اسلام علیکم ایک تحریر تقویتہ الایمان کے موضوع پر نظر سے گزری ۔یہاں شیر کر رہا ہوں ۔
  5. میرا مقصد کسی کو بدعتی قرار دینا ہرگز نہیں بلکہ حقایق جاننا ہے ۔یاد رہے کہ یہاں میں جو بھی تحریر پوسٹ کروں اس کے کسی جملے یا فتوے کا میں ہرگز ذمہ دار نہیں بلکہ صاحب تحریر خود ہے۔مجھے بدعت کے بارے میں یہ تحریر حق فارم سے ملی ہے یہاں اس لیے پیسٹ کر رہا ہوں تاکہ اہل علم حضرات اس پر تحقیْی گفتگو کر کے ہمارے سامنے اصل حقایق بیان کریں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی پہلی دلیل "جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا اور جس نے دین میں برا طریقہ نکالا تو اسکو نہ صرف اسکا گناہ بلکہ جو بعد میں اس (برے) عمل کو کرے گا اسکا بھی گناہ اسے ملے گا"(مسلم شریف ، ابن ماجہ، مشکوة شریف باب العلم ص 33) اس حدیث پاک سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا طریقہ ایجاد کرنے پر ثواب ہے اور یہی بدعت حسنہ ہے بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے : اول اس لئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیئے مشکوة جلد 1 ص 30)اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (ملاحظہ ہو ہامش مشکوة ج 1 ص 30)اور حضرت غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیے مشکوة ج 1 ص 31)کی روایتوں میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تمسک بسنتی“یعنی جس نے میری سنت سے تمسک کیا اور مضبوطی سے اس کو پکڑا .اور فرمایا کہ ”من فتمسک بسنتہ خیر“الخ یعنی میری سنت سے تمسک کرنا بہتر ہے . ان روایات سے معلوم ہوا کہ امتی کا کام سنت پر چلنا ہے اس سے تمسک کرنا ہے .سنت جاری کرنا امتی کا کام نہیں رہا حضرات خلفاءراشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کا معاملہ وہ اس بحث سے خارج ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا .سو تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفاءراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو ،کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “(ترمذی ج 2 ص 92 )(ابن ماجہ ص 5)(ابو داود ج 2 ص279) (مسند دارمی ص26)(مسند احمد ج 4 ص 27)(مستدرک ج 1 ص 95) ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو قول اور فعل جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت نہ ہوں تو اس کا کرنا بدعت ہے کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اس کام کو کرتے .اس لئے انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر کام میں گوئے سبقت لے گئے ہیں “ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156) اور خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین کرام اور تبع تابعین کرام کی اکثریت کا کسی کام کو بلا نکیر کرنا یا چھوڑنا بھی حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی پیروی ضروری ہے .اس کے ثبوت میں بھی متعدد حدیثین موجود ہیں ہم اختصار کے ساتھ دواحادیث پیش کررہے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی 32 ھ)سے روایت ہے : حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادتیں قسم سے اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرے گی“ (بخاری ج 1 ص 362) (مسلم ج 2 ص 309) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے نقش قدم پر چلنا)پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر جھوٹ عام ہوجائے گا کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے “ (مسند ابو داود طیالسی ص 7 ) (مستدرک ج 1 ص114)قال الحاکم والذھبی علیٰ شرطھما،مثلہ فی المشکوة ج 2 ص 554 )وفی المرقات راوہ نسائی و اسناد صحیح و موارد الظمآن ص 56) ان صحیح روایات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے ،ان میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیر القرون میں تھی .جھوٹ ان بعد میں آنے والوں میں بکثرت رائج ہوجائے گا .بات بات پر بلا طلب کئے قسم اٹھاتے پھریں گے اور بے تحاشہ گواہی دیں گے . اور اہل بدعت کے اس غلط استدلال کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی روایت میں ”من سن فی الاسلام “کے بجائے یہ الفاظ بھی آئے ہیں ”ایما داع الیٰ ھدیٰ “کہ جس داعی نے ہدایت کی طرف دعوت دی“ (مسلم ج 2 ص 341))(ابن ماجہ ص 19 )(مجمع الزوائد ج 1 ص 168) اسی روایت کے دوسرے طریق پر ہے : ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی“(ابن ماجہ ص 19)(ترمذی ج 2 ص 92)(مشکو? ج 1 ص 30) ایک روایت میں یوں آتا ہے : ”جس نے میری سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی کہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے “(ابن ماجہ ص 19) نیز فرمایا : کہ جو شخص کسی اچھے راستے پر چلا “(ابن ماجہ ص 19) ایک روایت میں ہے : ”جس نے کوئی علم سیکھایا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والے کو اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی “(ابن ماجہ ص 21) ان روایات سے لوگوں کی طرف سے بدعت کے جواز میں پیش کی گئی اس مجمل روایت کی تفصیل اور تشریح ہوجاتی ہے کہ سنت اور طریقہ کا جاری کرنا مراد نہیں بلکہ اس کی طرف دعوت دینا ،اس کی تعلیم دینا ،کسی سنت کو زندہ کرنا ،اور اس پر خود بھی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل کی تلقلین کرنا مراد ہے . اس سے یہ مطلب سمجھنا اور مراد لینا کہ از خود کوئی طریقہ جاری کرنا یقینا غلط ہے. آخری اور اہم بات یہ کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا شریعت میں دلالةً و اشارةً ثبوت موجودد ہو ،اس کے اجراءکرنے میں ثواب ہوگا ،اوروہ وہی فعل ہوگا جس کا داعیہ اور محرک خیر القرون میں موجود نہ ہو بلکہ بعد کو پیش آیااور ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل کے تحت وہ داخل ہو۔چناچہ اسی حدیث میں ”حسنتہً“ کی قید موجود ہے اور اہل سنت کے نزدیک کسی امر شرعی میں حُسن یا قبح نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ شرعیت سے اس کا ثبوت نہ ہو ۔اور بدعات کی تو شریعت نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے ،اس سے بھلا ان کا حسن ہونا کہاں سے اور کیسے ثابت ہوگا ؟ بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی دوسری دلیل اہل بدعت ہر قسم کی بدعات کے جواز پر ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔جس کو مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔۔۔۔چناچہ وہ لکھتے ہیں : ”وقال علیہ السلام ماراہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن“(جاءالحق ص ۱۰۳) یعنی جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے “ اس روایت کو سامنے رکھ کو وہ جملہ بدعات کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان ان کو اچھا سمجھتے ہیں ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوں گی ،اور اچھے کا م پر نہ تو گرفت ہوتی ہے اور نہ گناہ ۔ اس روایت کے متعلق چند ضروری ابحاث ہیں جن کو سمجھنا نہایت ہی اہم ہے ۔ اول : اگر چہ بعض حضرات فقہائے کرام نے اس روایت کو مرفوع بیان کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔چناچہ جمال الدین الزیلعی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 167 ھ) لکھتے ہیں : ”میں نے اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہی پایا ہے “(نصب الرا یہ ج 4 ص133) اور مشہور محدث علامہ الامام صلاح الدین ابو سعیدی العلائی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 741 ھ) فرماتے ہیں : ”مین نے اس روایت کو باوجود طویل بحث و تمحیص اور زیادہ کھوج اور سوال کے حدیث کی کسی کتاب میں کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی مرفوع نہیں پایا ،بلکہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو موقوف قول ہے “(بحوالہ فتح الملہم ج 2 ص 409) اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا ،اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے ۔مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظر انداز کنے کے قابل نہیں ہے ۔جو حیثیت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقینا کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے ،اگر چہ وہ صحیح بھی ہو ۔حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس موقوف قول کو پیش کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :”اس کی سند صحیح ہے “ دوم: اصل بحث یہ ہے کہ ”المسلمون“سے کون سے مسلمان مراد ہیں ؟ اگر ”الف“اور ”لام“اس میں جنس کے لئے ہو تو لازم آئے گا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تہتر فرقے سب کے سب ناجی ہوجائیں کیوں کہ ہر ایک فرقہ ازراہ تدین اپنے معمول کو حسن ہی سمجھتا ہے اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے ”ماانا علیہ واصحابی“ اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “اور ”لام“سے استغراق مراد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس چیز کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوگی ۔تو اس سے ”اجماع اُمت“مراد ہوگی ۔۔۔اور ”اجماع“ کے حسن ہونے میں کیا شک ہے ؟ اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “ اور ”لام“ سے عہد خارجی (علماءاصول کا یہ مسلک ہے کہ اصل الف لام میں عہد خارجی ہے ۔تلویح ص 147 اور ص 160وغیرہ )مراد ہو تو اس سے مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ مراد ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ گروہ اور طبقہ جس چیز کو اچھا سمجھے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہوگی ۔۔۔اور مسلمانوں کا وہ گروہ اولین درجہ پر بفحوائے حدیث ”ماانا علیہ واصحابی“صرف حضرات صحابہ کرام رجوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی ہوسکتا ہے۔۔۔ اور یہی بات صحیح ہے کہ جس چیز کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پسند کریں وہ اچھی ہوگی ۔ اگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت اور ان سے مروی دیگر روایات کو سرسری نظر سے دیکھ لیا جائے تو ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی متعین ہوجاتا ہے ۔ چناچہ امام ابو داود طیالسی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ) نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے : ” اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر کی تو حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے علم کے بموجب رسالت کے لئے چنا اور انتخاب فرمایا ۔پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو انتخاب فرمایا اور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا وزیر بنایا ۔سو جس چیز کو وہ مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو وہ برا سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہوگی “(طیالسی ص 33) (کم و بیش یہی الفاظ مسند احمد میں بھی مروی ہیں ۔الزیلعی ج 4 ص 133 والدرایہ ص 306) اور امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمتہ اللہ علیہ ( المتوفی 405 ھ)صحیح سند کے ساتھ ( جس کی تصحیح پر امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ دونوں متفق ہیں) اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں : ”جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہی ہوگی اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ وہ عند اللہ بھی بری ہی ہوگی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور ان کی خلافت کو اچھا سمجھا ،لہٰذا ان کی خلافت عند اللہ بھی اچھی ہی ہوگی “(المستدرک حاکم ج 3 ص 78) ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کے لفظ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی کی طرف اشارہ ہے ،بلکہ تصریح فرماتے ہیںکہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پاک گروہ ہی مراد ہے ۔ یہی نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی مراد لیتے ہیں بلکہ اُمت کو تاکید فرماتے ہیں کہ وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی خلاف ورزی نہ کریں ۔کیوں کہ ان کی اتباع ہی میں فلاح ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سنت پر چلنا چاہتا ہے وہ وہ ان بزرگوں کے قدم پر چلے جو فوت ہوچکے ہیں کیوں کہ زندہ کبھی فتنہ سے مامون نہیں ہوسکتا ۔وہ لوگ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس اُمت کے نہایت افضل لوگ ہیں اور نہایت بھلے قلوب والے اورر نہایت گہرے علم والے اور نہایت کم تکلف اور کم بناوٹ والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کے قائم کرنے کے لئے انتخاب کیا تھا ۔ان کی فضیلتوں کو پہچانواور ان کے نقش وقدم پر چلو اور جس قدر ہوسکے اپن کے اخلاق اور سیرت کو مشعل راہ بناﺅ کیوں کہ وہ لوگ ہدایت مستقیمہ پر تھے “(رواہ رزین مشکوة ج 1 ص32) اس روایت سے نہایت صراحت اور وضاحت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کا مصداق صرف ”اولٰئک اصحٰب محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم “ہی تھے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے” مااناعلیہ واصحابی “سے تعبیر فرمایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتباع کی تاکید فرمائی اور اس کے خلاف ابتداع کی مذمت کی ہے : ”ہمارے نقش قدم کی پیروی کرو اور اپنی طرف سے بدعتیں مت ایجاد کرو کیوں کہ (دین مکمل ہوچکا ہے اور) تم کفایت کئے گئے ہو“(الااعتصام ج 1 ص 54) اور دوسری طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان لوگوں کی تردید کی اور ان کو مسجد سے نکال دیا جنہوں نے مل کر بلند آواز سے ذکرکرنے کو پسند کیا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کا گذر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا ،جس میں ایک شخص کہتا تھا ۔سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو تو حلقہ نشین لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ ”لاالہ الااللہ“پڑھو تو وہ سو بار تہلیل پڑھتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ” سبحان اللہ “ کہو،تو وہ سنگریزوں پر سو دفعہ تسبیح پڑھتے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان سنگریزوں اور کنکریوں پر کیا پڑھتے تھے؟ وہ کہنے لگے ہم تکبیر ،تہلیل و تسبیح پڑھتے رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا : ”فقال فعدو ا من سیئا تکم فانا ضا من ان لا یضیع من حسنا تکم شئی ویحکم یا امتہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم مااسرع ھلکتم ھٰولاءصحابة بینکم متوافرون وھٰذا ثیا بہ لم تبل واٰ نیتہ لم تکسر (الیٰ ان قال) او مفتحی باب ضلالة“(مسند دارمی ص 38 قلت بسند صحیح ) یعنی تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو ،میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا ۔تعجب ہے تم پر اے اُمت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم ،کیا ہی جلدی تم ہلاکت میں پڑ گئے ہو ۔ابھی تک حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تم میں بکثرت موجود ہیں ،اور ابھی تک جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (آگے فرمایا ) اندریں حالات تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو ۔ غورفرمائیں کہ اُن لوگوں کا یہ فعل جو بظاہر اچھا تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔۔لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس فعل کو ”ماراہ المسلمون حسناً“ کے تحت حسن اور اچھا نہ سمجھا کیوں کہ ان لوگوں کا یہ طریقہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقہ کے خلاف تھا ۔ محترم قارئین کرام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی اہل بدعت کے غلط استدلال کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین ماخوذ : راہ سنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ بدعت کا لغوی معنی مشہور امام لغت ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرازی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 616 ھ )لکھتے ہیں کہ : بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے ،رفعت ارتفاع کا اور خلفت اختلاف کا اسم ہے ۔لیکن پھر بدعت کا لفظ ایسی چیز پر غالب آگیا جو دین میں زیادہ یا کم کردی جائے"(مغرب ج 1 ص 30) علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 503 ھ) لکھتے ہیں کہ " مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو ۔اور شریعت کی سابق مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو"(مفرادت القرآن ص 37) بدعت کا شرعی معنی حافظ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855 ھ) لکھتے ہیں کہ " بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی (عمدۃ القاری ج 5 ص 356) حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے لہذا مذموم ہی ہوگی "(فتح الباری ج 4 ص 219) حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ،اور بہرحال وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دال ہے تو شرعا بدعت نہیں ہے اگر چہ لغۃ بدعت ہوگی"(جامع العلوم و الحکم ص 193) اور بعینہ ان الفاظ سے بدعت کی تعریف علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 889 ھ ) نے شرح اربعین نووی میں کی ہے (الجنہ ص 159 نیز حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدیع السمٰوت " کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔اور لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔(اول)بدعت شرعی جس کے متعلق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ"کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ۔۔۔(دوم)کبھی بدعت لغوی ہوئی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مل کے تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا "نعمت البدعۃ ھٰذا"یہ کیا ہی اچھی نو ایجاد ہے"۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ اور اسی طرح ہر وہ قول جس کو پہلے کسی نے نہ کیا ہو ،اہل عرب ایسے کام کو بدعت کہتے ہیں "(تفیسر ابن کثیر ج 1 ص 161) اس سے قبل کے ہم بعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی وضاحت کریں مناسب ہے کہ ایک اہم نکتہ کی وضاحت آپ حضرات کے سامنے پیش کردی جائے۔ اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی نہیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں : "اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 128) نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41) اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20) شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ) ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود محرک اور سبب کے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا ایسا ہی سنت ہے جیسا کہ آپ کو کسی کام کو کرنا شنت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص آپ کی اس سنت پر عمل نہیں کرتا ،وہ محدثین کرام کی تصریح کے مطابق بدعتی ہوگا۔۔اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام کام جو اہل بدعت کرتے ہیں اس کے داعی اور محرکات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی موجود تھے مگر آپ نے ان کو ترک فرمایا اور آپ کا ان کو ترک فرمانا سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " تمہارے (اس طرح ) ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینہ مبارک سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے "(مسند احمد ج 2 ص 61) حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا(اور یہ دونوں ہاتھ اٹھا رہے ہیں) )(مسلم ج 1 ص 287) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا میں سجع سے بچو کیوں کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام دعا میں سجع نہیں کیا کرتےتھے (صحیح بخاری ج 2 ص 938) آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔ علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102) اور نہرالفائق میں اس کی تصریح موجود ہے کہ مکروہ تحریمی ہے ۔۔۔حضرات فقہائے احناف نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے "لعدم وردود الاثربہ" اس لئے مکروہ ہے کہ اس کے لئے کوئی اثر اور دلیل موجود نہیں ہے اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"(البدائع والصنائع ج 1 ص 295) ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حضرات فقہائے کرام نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے عدم فعل کو ایک مستقل قاعدہ اور ضابطہ سمجھ کر متعدد مقامات میں اس سے استدلال کیا ہے صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"(ہدایہ ج 1 ص 153) آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں ??? علامہ ابراہیم حلبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے "حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"(کبیری ص 433) اور مشہور حنفی امام احمد بن محمد رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں "یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"(الواقعات) بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔لغوی بدعت اور شرعی بدعت لغوی بدعت ہر اُس نو ایجاد کا نام ہے جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ۔۔عام اس سے وہ عبادت ہو یا عادت ۔۔۔۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ،مندوب ،حرام ،مکروہ ،مباح ۔۔۔۔ اور شرعی بدعت وہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئی اور اُس پر قولا” فعلا”،صراحۃ” اور اشارۃ” کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو ۔۔یہی وہ بدعت ہے جس کو بدعت ضلالۃ اور بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔۔ملاحظہ فرمائیں: بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔ایک لغوی بدعت ،اور دوسری شرعی بدعت ۔۔لغوی بدعت ہر نو ایجاد کا نام ہے جو عبادت یا عادت ،اور اسی بدعت کی پانچ قسمیں کی جاتیں ہیں ۔اور دوسری وہ بدعت ہے جو طاعت کی مد میں کسی مشروع امر پر زیادت (یا کمی) کی جائے مگر ہو قرون ثلاثہ کے ختم ہونے کے بعد اور یہ زیادتی شارع کے اذن سے نہ ہو ،اس پر شارع کا قول موجود ہو اور نہ فعل نہ صراحت اور نہ اشارہ اور بدعت ضلالہ سے یہی مراد ہے"(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161) حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : "والتحقیق انھا ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرح فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ(فتح الباری ج 4 ص 219) یعنی تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت ،شریعت کی کسی پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی اور اگر وہ شریعت کی کسی غیر پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ،ورنہ مباح ہوگی اور بدعت پانچ اقسام کی طرف منسقم ہے اس کے قریب قریب عبارت علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے (ملاحظہ ہو عمدۃالقاری ج 5 ص 356) اب اس بات پر غور کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ "مستحسن فی الشرع" کیا ہے اور "مستقبح فی الشرع" کیا ہے? امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ )فرماتے ہیں کہ "بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعت جو کتاب سنت یا اجماع یا کسی صحابی کے اثر کے مخالف ہو ایسی بدعت گمراہی ہے اور دوسری وہ بدعت ہے جو ان میں سے کسی ایک کے مخالف نہ ہو تو ایسی بدعت کبھی اچھی ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھی نو ایجاد اور بدعت ہے"(موافقہ صریح المعقول الصحیح المنقول لابن تیمیہ علیٰ منہاج السنۃ ج 2 ص 128) اس کی پوری تحقیق آپ حضرات ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ مخالفت جیسے قول میں ہوتی ہے اسی طرح فعل میں بھی مخالفت ہوتی ہے۔۔۔جو کام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود داعی و اسباب کے ترک کیا اور خیرالقرون نے بھی اُسے ترک کیا تو وہ یقینا بدعت اور ضلالت ہوگا۔۔۔کیوں کہ وہ کتاب و سنت اور اجماع خیر القرون اور قیاس صحیح کے مخالف ہے۔۔۔ اور جو ان میں سے کسی دلیل میں داخل ہو تو وہ کبھی اچھا ہوگا جس پر ثواب ملے گا اور کبھی مباح ہوگا جس پر نہ ثواب ہوگا یا عقاب۔ اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے بدعت حسنہ اور سیئہ کی تعریف یوں ہوگی ۔۔۔بدعت حسنہ وہ دینی کام جس کا مانع آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد زائل ہوگیا ہو ۔۔۔یا اس کا داعیہ یا محرک اور سبب بعد کو پیش آیا ہو اور کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے اس پر روشنی پڑتی ہو اور ان میں سے کسی دلیل سے اس کا ثبوت ملتا ہو تو وہ بدعت حسنہ اور باالفاظ دیگر لغوی بدعت ہوگی جو مذموم نہیں ہے علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتیں بھی پیش کی جاچکیں ہیں جو اس پر صراحت سے دلالت کرتیں ہیں ۔۔۔۔اور جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ اور بدعت شرعیہ کہلائے گا جو ہر حالت میں مذموم اور ضلالت و گمراہی ہوگا۔۔۔باقی غیر مجتہد کا اجتہاد خصوصا اس زمانہ میں ہرگز کسی بدعت کا حسنہ نہیں قرار دے سکتا ۔۔۔چناچہ حضرات فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ "نصاب الفقہ میں ہے کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کو حضرات مجتہدین نے بدعت حسنہ قرار دیا ہو ۔۔۔اور اگر کوئی شخص اس زمانہ میں کسی چیز کو بدعت حسنہ قرار دے گا تو وہ حق کے خلاف ہے کیوں کہ مصفی میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر بدعت گمراہی ہے"(انتہی)(فتاوی جامع الروایات)(والجنہ ص 60) اسی عبارت سے صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت حسنہ صرف وہی ہوگی جس میں حضرات مجتہدین کا اجتہاد کا فرما ہوگا ،اور اجتہاد اور قیاس صرف اُن احکام و مسائل میں ہی ہوسکتا ہے جو غیر منصوص ہوں اور ان کے دواعی اور اسباب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون میں موجود نہ ہوں بلکہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں ۔۔۔اس نئی تہذیب کے زمانے میں جو شخص بدعت کو حسنہ قرار دیتا ہے اس کا قول سراسر باطل اور مردود ہے۔ (بحوالہ :راہ سنت) اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
  6. بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام مکاتب فکر کے علماء و مناظر حضرات کی خدمت میں نہایت ادب و احترام سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج امت مسلمہ میں ایک بہت بڑا اختلاف و انتشار موجود ہے جس کی ایک بڑی وجہ مسلہ بدعت بھی ہے ۔ہمارے فروعی مسایل میں اختلاف کا اصل سبب مسلہ بدعت ہی ہیں۔لیکن بدعت کی تعریف کیا ہے ؟کون کون سے کام بدعت ہیں؟اس بارے میں تمام مکاتب فکر کی راے و مواقف مختلف ہے۔ مختصرا یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں اس موضوع میں مکمل و تفصیلی گفتگو کا آغاز کیا جاے اور شریعت اسلامیہ کے دلایل کو بیان کیا جاے تاکہ بدعت کی ایک فاینل تعریف سامنے آ سکے۔ میں علماء اہل سنت بریلوی مکاتب فکر ،علماء اہل سنت دیوبندی مکاتب فکر اور علماء اہلحدیث تمام حضرات کو گفتگو کی دعوت دیتا ہوں کہ اس فارم پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔ اور نہیایت ادب و احترام ،اور مواذبانہ لب و لہجے میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا جواب تحریر کریں ۔ لیکن براے کرم یہاں کسی بھی مکاتب فکر کی شخصیت پر طعن و تنقید کا نشانہ نہ بناءے گا اور نہ ہی ذاتیات پر گفتگو کیجے گا۔اگر الزامی جواب بھی دینا ہو تو نہایت مناسب الفاظ میں جواب تحریر کریں ۔ امید ہے کہ میری گزارش پر عمل کرتے ہوے اس موضوع کا آغاز کیا جاے گا۔اللہ ہمیں حق بیان کرنے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماے ۔امین 02.06.2012
×
×
  • Create New...