Jump to content

Muslampak

اراکین
  • کل پوسٹس

    57
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    3

سب کچھ Muslampak نے پوسٹ کیا

  1. حافظ ذہبی کے حوالے کا جواب تو دوبھائی جو کہ خط کشیدہ ہے ۔چلو اگر صرف ابن جوزی نے موضوع کہا ہے تو باقی کسی کا حوالہ دے دو جس نے صحیح ،حسن یا کم از کم ضعیف کہا ہو۔ چلو یہی کہا ہو کہ یہ موضوع نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے۔۔۔۔۔اگر آپ حوالہ پیش کر دیں تو میں قبول کر لو گا۔۔
  2. توحیدی صاحب اگر یہ روایت من گھڑت نہیں تو پھر مطالعہ بریلویت کے ان اینڈر لاینز اعتراضات کا جواب دو ۔
  3. یہ تمام موضوع روایات ہیں ۔اس لیے ان کا الزام محدثین حضرات پر عائد نہیں ہوتا جبکہ احمد رضا خان صاحب پر الزام عائد ہو گا کیونکہ انہوں نے اس کو قبول کیا اور کسی جگہ موضوع نہیں کہا۔
  4. میرے خیال سے یہ احادیث نہیں ہیں۔۔۔۔اور خاص اولیاء کے کا ذکر بھی کسی حدیث میں نہیں ملتا۔
  5. ہاں فتوے تو اسی شخص پر دیا جاے گا جوہوش و حواس میں ایسی بات کہے۔مجذوب یا جس کی عقل گم ہو جاے اس پر فتوے نہیں حضرت ابن تیمیہ ؒ کی تصنیف مجذوب میں بھی میں نے ایسا ہی پڑھا تھا۔اوراگر یہ ان کی طرف غلط منسوب ہے تو پھر ہمیں ان پر اعتراض نہیں ۔ لیکن تھانوی نے تو اس کی تاویل کی ہے لہذا تھانوی تو مجرم ٹھہریں گے ۔ عاصم صاحب ۔کیا آپ میری بات کی تائید کرتے ہیں؟
  6. استغفراللہ العظیم !۔ لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ بھی کلمہ کفر نہیں تو پھر کفر کیا ہے ۔یہ تھانوی تو مجھے پاگل لگتا ہے ۔ حوالے کا سکین پیش کرنا کا بہت بہت شکریہ ۔ میں نے یہ حوالہ ایک کتاب آئینہ اہل سنت سے پیش کیا تھا اور یہ ابو کلیم فانی نامی صاحب کی لکھی ہوئی ہے ۔
  7. کیا تھانوی نے اپنی کتاب السنتہ الجلیہ میں اس کلمے چشتی رسول اللہ معاذ اللہ کو جائزلکھا،تاویل کی یا کفر کہا؟ اور بایزید کے قول میرا جھنڈا رسول اللہ کے جھنڈے سے بلند ہو گا کی تایل کی یا کفر کا فتویٰ دیا؟ سکین میں تھانوی کی جس کتاب کا ذکر ہے اس کا سکین یہاں مل سکتا ہے؟ مجھے یقین نہیں کہ تھانوی جیسے عالم دین صوفیوں کی ایسی باتوں کی تاولیں کریں۔ لہذا اگر یہ صحیح حوالہ ہے تو سکین پیش کرو۔
  8. لیکن صفحہ92میں جن لوگوں کو یہودیوں کی طرح فرقہ کہا گیا ہے ان کی وضاحت صفحہ 98پر کر دی گئی ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو گوشہ نشینی اور ترک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اختیار کر کے شغل برزخ اور نماز معکوس اور ختم اور توشے اور طرح طرح کے نئے ورد اور وظیفہ اور فال نامے گنڈے تعویز اور اتارے اور حاضراتین اور عرس اور قبروں پر مراقبہ اور باجا راگ سننا اور حال لانا ایجاد کیا اور مشائخ کہلائے پھر کسی نے آپ کو چشتی مقرر کیا کسی نے قادری کسی نے نقشبندی کسی نے سہروردی کسی نے رفاعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہاں تو واضح انہوں نے لکھ دی کہ ایسے لوگ مراد ہیں نہ کے کہ کل سلاسل لہذا اس کا کیا جواب ہے؟
  9. توحیدی صاحب آپ کی بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے ۔ ویسے اگر یہ حدیث کسی کتاب میں ہوتی تو کسی نہ کسی قدیم عالم نے لازمی نقل کی ہوتی ذوالفقار حیدریہ نامی کتاب بھی نا معلوم کس کی ہے؟ اگر کسی معتبر محدث یا اکابر کی ہوتی تو بھی حسن ظن کیا جا سکتا تھا بحرحال آپ نے جواب دیا ،آپ کی مہربانی ۔
  10. کیا اس حدیث کا سکین بمع کتاب کے ٹاٹیل پیج مل سکتا ہے؟ اور اس کی صحت کے بارے میں کچھ معلومات مل سکتی ہے کہ یہ صحیح،حسن ،ضعیف ۔۔۔۔ہے؟
  11. جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں خود یہ پڑھ رہے ہیں کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں تو پھر کس طرح جواز پیدا ہوتا ہے کہ جو خود اللہ سے مانگ رہا ہو ہم اس سے مانگیں ؟؟؟؟
  12. بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ سب سے پہلے تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔ جب قرآن و حدیث کے واضح دلایل سامنے آ جاویں تو کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا کہ اپنی تاویلیں پیش کرے ۔ میرا موضوع صرف یہی احادیث تھیں باقی مسلہ حاضرو ناظر ،علم غیب ایک تاویل بحث ہے اس پر گفتگو میرا موضوع نہ تھا ۔ میں نے دونوں فارم پر تمام گفتگو پڑھی اور اس نیتجے پر پہنچا کہ اسلامی فارم کے ممبرز نے موضو ع کے مطابق گفتگو کی۔ اور احادیث مبارکہ پر تسلی بخش جوابات تحریر کیے۔لہذا میں اس مسلے میں ان تمام احادیث کو مانتا ہوں۔ مجھے بہت سارے ممبرز نے دیوبندی قرار دیا ،دیوبندیوں نے بریلوی کہا ۔۔۔۔لیکن میں اہلحدہث ہوں اور وہ بھی ایسا اہلحدیث نہیں جو موجودہ ضدی ومتشدد قسم کے حضرات ہیں بلکہ حق بات جب بالکل واضح ہو جاتی ہے تو اس کو قبول کر کے اس پر ہی اپنا ایمان رکھتا ہوں۔ اللہ ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرماے۔
  13. بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اپنے وعدہ پر قایم ہوں اور عنقریب اپنا فیصلہ یہاں بیان کروں گا۔ لیکن تھوڑا مصروف ہوں اور پھر ماشاء اللہ مزید اس بارے میں دونوں طرف سے دلایل سامنے آ رہے ہیں اس لیے بھی خاموش ہو ں تاکہ دونوں فریقین مکمل دلایل بیان کر دیں ۔ویسے میں اتنا سمجھتا ہوں کہ یقینا اس پلیٹ فارم والے علماء و ممبرز تلوار صاحب والے فارم کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور تلوار صاحب والے فارم والے ممبرز یہاں کے فارم کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں ۔لہذا میں تین دن کے بعد اپنا فیصلہ بیان کر دوں گا اگر دونوں طرف کے ممبرز میں سے کسی نے وضاحت کرنی ہے تو ایک دو دن میں کر دے تاکہ بعد میں کسی کو کوی شکوہ نہ ہو ۔ شکریہ
  14. توحیدی بھاہی ۔جزاک اللہ ۔آپ نے موضوع کے مطابق گفتگو فرمای ہے ۔میں آیندہ کی پوسٹ میں تفصلی تبصرہ و فیصلہ پیش کر دوں گا ۔لیکن ابھی صرف ایک آخری بات کا جواب عنایت کیجیے کہ تلواد صاحب نے جو اخبار الا خیار ،مرقات ، بھر الرایق ،شامی کی عبارتیں پیش کی ہیں ان کا کیا جواب ہے ۔ اگر گویند کہ خطاب حاضر رابودو انحضرت ﷺ دریں مقام نہ حاضر امت پس توجہیہ ایں خطاب چہ پاشد جو ابش آنست کہ چوں وردوایں کلمہ دراصل یعنی شب معراج بصیغہ خطاب بود دیگر تغیرش ندادند دبہ ہماں اصل کذاشتنار (مکتوبات حضرت شیخ بر حاشیہ اخبار الاخیار ۔316)۔اگر کہیں کہ خطاب تو حاضر کوہوتا ہے اور آپ اس مقام میں حاضر نہیں ہیں تو اس خطاب کی توجیہ کیا ہوگی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ کلمہ دراصل معراج میں بصیغہ خطاب وارد ہوا ہے اور اس کو اسی پر برقرار رکھا گیا اور اس میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔یہی بات متعدد کتابوں میں مذکور ہے کہ شب معراج میں یہ خطاب ہوا تھا اور اس کو پرقرار رکھا گیا جیسے مرقات ملاعلی قاری ج1 صفحہ 556، بھرالرائق ج 1 324، و شامی جلد 1 صفحہ478 وغیرہ آپ کے اس جواب کے بعد میری تحقیق اس موضوع پر ختم ہو جاے گی ۔ ایک گزارش کروں گا کہ عربی یا فارسی عبارات پیش کرتے وقت ترجمہ بھی پیش کر دیا کریں تو ہم لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جاے ۔اور ہر خاص و عام مستفید ہو سکے جزاک اللہ
  15. Talvar Senior Member توحید بھاَئئ مجھے یہ جواب دیا گیا ہے ۔تلوار صاحب نے اپنی سایٹ پر یہ جواب دیا ﷽ 1 اور 2 کاتو یہ ہے کہ فن شاعری میں غائب کو بھی حاضر کے صیغے سے خطاب کیا جاتا ہے کیونکہ شاعری میں تخیلات کا بہت دخل ہوتا ہے اسی وجہ سے شاعری سے نہ تو عقائد بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی دلیل لی جاتی ہے۔اور لطیفہ تو یہ ہے کہ شاعری میں صرف حضرت محمد ﷺ کی تخصیص نہیں بلکہ شاعر تو اپنے محبوب، بادِ صبا کو خطاب کرتے ہیں اور کبھی پہاڑوں اور جنگلوں کو، کبھی حیوانات اور پرندوں کو۔ اس میں سے کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ جن کو وہ خطاب کرہے ہیں وہ انکی بات کو سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں بلکہ یہ محض ایک ذہنی پرواز اور تخیلاتی چیز ہے جو فن شاعرمی میں عام پائی جاتی ہے۔ اسی لئے شاعری میں اگر حضرت محمد ﷺ کو حاضر کے صیغے سے خطاب کیا جائے تو کوئی ہرج نہیں کیونکہ ضروری نہیں کہ شاعر حضرت محمد ﷺ کو حاضر ناظر و عالم الغیب سمجھ کر شاعری کر رہا ہو۔ اور پھر یا رسول اللہ ﷺ کہنے میں تو اختلاف نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کو ہر جگہ ہر وقت حاضر ناظر مان کر یارسول اللہ ﷺ کہنے پر ہے جس پر رضاخانی نے کوئی دلیل پیش نہیں ۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے احمد رضا خانی کہتا ہے کہ سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا دل تھا ساجد نجدیا پھر تجھ کو کیا اس بدبودار شعر میں احمد رضا خان نے علمائے نجد تو پھر تجھ کو کیا سے خطاب کیا ہے تو کیا علماء نجد بھی حاضر ناظر ہو گئے ۔ ظاہر سی بات ہےاحمد رضا خان نے تخیل کے طور کر خطاب کیا ہوگا نہ کہ حقیقی حاضر ناظر مان کر۔ اس سے یہ تو ثابت گیا کہ مخلوق میں کسی کو بھی حاظر ناظر مانے بغیر بھی حاضر کے صیغے سے خطاب کیا جا سکتا ہے۔ اب اسی سے یہ بات بھی سمجھیں کہ عشاق بھی تخیل اور عشق کے طور پر یا رسول اللہﷺ کہتے ہیں اس لئے اُن کا کہنا بھی جائز ہوا۔ لیحاظہ ہمارا مدعا رضاخانی کتب سے ثابت شدہ ہے جس پر ایمان لانا احمد رضا کی وسیعت کے مطابق ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ قرآن سے ثبوت اگر حرف ندا یا سے حاضر ناضر ہی مراد ہوتی ہے تو ذیل آیات میں ہامان، یہود، نصاریٰ اور فرعون کے لئے بھی حرف یااستعمال ہوا ہے 1۔ یا ھا مان بن لی صرحا اے ہامان میرے لئے ایک بلند عمارت تعمیر کر 2۔ یا اھل الکتاب لا تغلوانی دینکم اے ہیود و نصاری دین میں تجاوز نہ کرو ایک جگہ فرمایا اے فرعون میرے خیال میں تو ہلاک کردیا جائے گا اسی طرح قرآن میں متعدد مقامات پر(اے کافروں) کے الفاظ موجود ہیں اور حضرت انبیاء عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی وہ تقریریں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں جن میں انھوں نے اپنی قوموں کو خطاب کرتے ہوئے یا قومہ (اے میری قوم) سے تعبیر کیا ہے ۔ کیا ہامان، فرعون، یہود اور جملہ مشرکین و کفار جن کو حرف یا سے خطاب ہے رضاخانی دھرم میں حاضر ناظر ہیں۔ (البتہ احمد رضا نے کشن کنہا کو تو حاضر ناظر مانا ہے ) تو کیا خیال ہے تمام مشریکین کو بھی حاضر ناظر مان لو گے۔ اگر رضاخانی کہیں کہ جسوقت اس قوموں کو خطاب ہوا تھا اسوقت تو وہ موجود تھیں اور اب ہم اسکی حکایت کرتے ہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ اسیطرح آپ " یارسول اللہﷺ" کو سمجھ لیجئے کہ حضرات صحابہ ؓ آپ کی موجودگی میں یہ کہا کرتے تھے اور ہم اسکی حکایت کرتے ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب بھی کوئی حضرت محمد ﷺ کو یا سے خطاب کرے تو یہ ضروری نہیں کہ اُس کا عقیدہ یہ ہو کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو حاضر ناظر مان کر کہہ رہا ہے۔ رضاخانی کو اس کا ثبوت قرآن سے دے دیا ہے حضرت محمد ﷺ کو حاضر ناظر جانے بغیر بھی یا سے خطاب کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ یہ تفصیل سمجھ چکے تو اب ائیں فتوے کی طرف۔ فتویٰ میں اس امر کی تصحی ہے کہ" ان سے براہ راست مانگنے لگے۔ اور ان سے ہی اپنی مشکلات دور کرتے تھے اور ان سے فریاد کرنے لگے"اگر یہ عقائد رکھ کر بولا جائے تو ضرور شرک ہے بصورت دیگر شرک نہیں۔ لیحاظہ اس فتویٰ کو بھی رضاخانیوں کو کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ اس میں انہوں نے شرکیہ عقائد کی قید لگائی ہے تخیل کی نہیں ۔ رضاخانیوں نے نمبر دو میں ایک حدیث بھی پیش کی ہے۔ قطہ نظر حدیث کیسی ہے آیا درست بھی ہے یہ ضعیف اور اگر صحیح بھی مانا جائے تو کیا قرآنی آیات کا معارضہ ہوسکتا ہے یہ نہیں کیونکہ رضاخانیوں کو بھی یہ مسلم ہے کہ قرآنی آیات کے مقابلہ میں خبرِ واحد بھی مفید نہیں چاہئے کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو۔ پھر اس حدیث کا رضاخانیوں کو فائدہ بھی نہیں کیونکہ اس حدیث میں کہیں نہیں لکھا کہ صحابیؓ نے حضرت محمد ﷺ کے حاضر ناظر مان کر یا محمدہ کہا ہو۔ بلکہ صحابی رسول ﷺ نے تو غلبہ عشق کی بنا پر کہا جو ہمارے خلاف نہیں۔ 3 نمبر میں تو رضاخانی نے خود ہتھیار ڈال دئے ہیں اور اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے درود و سلام حضرت محمد ﷺ کو پہنچاتے ہیں۔ لیکن ورثے میں لی جہالت کا رونا رویا ہے۔ اور اعتراض کیا ہے کہ صلوٰۃ و سلام کو بدعت کہا ہے۔ اس جہل کا جواب تو یہ ہے صلوٰۃ و سلام کو جہل نہیں بلکہ صلوٰۃ و سلام کو بدعتی طریقہ سے پڑھنے کو بدعت کہا ہے۔ 4 نمبر کا جواب تو یہ ہے کہ چونکہ التحیات اللہ والصلوات الخ تو اللہ تعالیٰ نے جناب رسول ﷺ کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا السلام علیک ایھاالنبی سلامتی ہو تجھ بر اے نبی چونکہ اس وقت آنحضرت ﷺ خداتعالی کے حضور میں حاضر تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کیا تھا۔ اسلئے آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت اور حضرات صحابہ ؓ کو تعلیم دیتے وقت حرف خطاب کو جس طرح کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے سنا تھا برقرار رکھا شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں اگر گویند کہ خطاب حاضر رابودو انحضرت ﷺ دریں مقام نہ حاضر امت پس توجہیہ ایں خطاب چہ پاشد جو ابش آنست کہ چوں وردوایں کلمہ دراصل یعنی شب معراج بصیغہ خطاب بود دیگر تغیرش ندادند دبہ ہماں اصل کذاشتنار (مکتوبات حضرت شیخ بر حاشیہ اخبار الاخیار 316) اگر کہیں کہ خطاب تو حاضر کوہوتا ہے اور آپ اس مقام میں حاضر نہیں ہیں تو اس خطاب کی توجیہ کیا ہوگی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ کلمہ دراصل معراج میں بصیغہ خطاب وارد ہوا ہے اور اس کو اسی پر برقرار رکھا گیا اور اس میں کوئی تغیر نہ کیا گیا۔ یہی بات متعدد کتابوں میں مذکور ہے کہ شب معراج میں یہ خطاب ہوا تھا اور اس کو پرقرار رکھا گیا جیسے مرقات ملاعلی قاری ج1 صفحہ 556، بھرالرائق ج 1 324، و شامی جلد 1 صفحہ478 وغیرہ قرآن کے ثبوت اس کی قرآن کریم میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ اگر کسی وقت کسی شخصیت اور فرد کو اس کی موجودگی اور حاضری میں خطاب ہوا تھا تو آج بھی حرف یا اور خطاب کی ضمیر سے اسے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو ضمیر خطاب سے یاد کرنے سے اس کا حاضر ناضر ہونا کوئی بھی مراد نہیں لیتا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے جب فرعون کو تبلیغ کی اور فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل کا گستاخانہ الفاظ میں رد کیا تو فرعون کی اس گستاخی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا وانی لا نلمنک یا فرعون مبثورا اور بیشک میں تجھے خیال کرتا ہوں اے فرعون کہ تو تباہ کردیا جائے گا اس آیت میں یا فرعون کے جملہ کو ذہن میں محفوظ رکھئے تاکہ کام آئے۔ آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ، کڑوڑوں کی تعداد میں قرآن کریم پڑھنے والے مسلمان لاظنک کو خطاب کی ضمیر سے ہی پڑھے ہیں لیکن اس سے فرعون کو کوئی بھی حاضر ناظر نہیں سمجھتا۔ ادھر رضاخانی کے اس اشکال کا بھی جواب ہوگیا کہ صحابہ حضور ﷺ کی ظاہری حیات میں حضورﷺ کو حاضر ناظر نہیں مانتے تھے بلکہ جو الفاظ معراج کے موقعہ پر آپ کو ملے تھے انکو انشاء کے طور کہا کرتے تھے۔ ڑضاخانی کے مذید اشکالات کا مختصر جائزہ ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک ایسا فرشتہ ہے جسے اس نے کل مظوقات کی آوازیں سننے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔ وہ فرشتہ میری وفات کے بعد میری قبر پر قیامت تک کھڑا ہوگا پس میرا جو بھی امتی مجھ پر دورود پڑھے گا وہ فرشتہ اس امتی اور اسکے باپ کا نام لے کر عرض کرے گا اے محمد ﷺ آپ پر فلاں بن فلاں نے درود بھیجا ہے۔ اس حدیث کی صحت اسماء رجال سے وضاحت کریں۔ اس کی تشریح پھر کردی جائے گی۔ اگر حدیث صحیح بھی ہو تو یہ قاعدہ رضاخانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ قرآن کی قطعی آیات مبارکہ کے مقابلہ میں خبر واحد اگرچہ کتنی ہے صحیح کیوں نہ ہو قابل قبول نہیں کیا نبیﷺ خود بھی سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن کیسے؟ رضاخانی نے صرف دفعہ القتی کے لئے کچھ ایسے حوالے بھی دئے ہیں جن کا تعلق اس مسلے سے نہیں ہے یہ سب فضول بھرتی ہے اور کچھ نہیں- کیونکہ حضور ﷺ کو باواسطہ فرشتوں کے درود پڑھنے والوں کی آواز پہنچتی ہے۔ ڑضاخانیوں کی کس بات پر یقین کیا جائے رضاخانی کہیں کہتا ہے کہ فرشتہ ہے جو سب مخلوق کی آواز سنتا ہے تو حضرت محمد ﷺ بھی سنتے ہونگے پھر کہتا ہے کہ نہیں فرشتے ہیں جو درود و سلام حضرت محمد ﷺ تک پہنچاتے ہیں کبھی کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خود سلام سنتے ہیں – رضاکانی کہتا ہے کہ صحابہ السلام علی النبی ﷺ کہنے لگے پر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ نے یہ تعلیم فرمانی تھی کہ آپ ﷺ حاضر ناظر نا تھے۔ 5 نمبر پر دفعہ الوقتی کے سوا اور کچھ نہیں اور اگے جو حدیث پیش کی اُس وہ سب غیر مطلق ہیں یہ پھر ہمارے خلاف نہیں کیونکہ باوجود اعلیٰ مرابت آپ ﷺ بشر ہی تھے اور اللہ کے عابد بندے نہ آپ وسیع علم کی وجہ سے اللہ ہو گئے اور نہ ہی آپ ﷺ کو خدائی اختیارات مل گائے۔ نمبر ،6،5 نمبر 5 میں رضاخانی نےاپنے ہی دھرم کا خون کر دیا۔ بڑے مزے سے بولتا ہے کہ مدینہ تشریف لائے جب کہ خود کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ حاضر و ناظر ہیں۔ ارے جب حضرت محمد ﷺ حاضر و ناظر ہیں تو تشریف لانے کا کیا مطلب۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صحابہ نے تو حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری پر نعرہ لگایا تو کیا آپ یا محمد ﷺ کا نعرہ حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری کے ساتھ خاص کرتے ہیں؟ اور جو حدیث پیش کی ہے وہ ہمارے خلاف نہیں کیوں کے حاظر ناظر عقیدہ کے بغیر ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں خود ڑضاخانی کہتا ہے کہ " عشاق رسول کی خوشی کا یہ عالم تھا" نا کہ حاضر ناظر مان کر۔ ایک گزارش اگر میرے اس مضمون میں کوئی بات اکابر کی تحقیق کے خلاف ہو تو میری رائے تو چھوڑا جائے اور مجھے بھی اپنی رائے سے رجوع کرنے والوں میں شمار کریں۔ اگر بشری تقاضے کے تحت اس مضمون میں کوئی لکھائی کی غلطی ہوگئی ہو تو ایڈوانس میں معزرت Last edited by Talvar; Today at 04:26 PM.
  16. تلوار صاحب نے فلحال تو مجھے صرف یہی جواب دیا ۔ لیکن میں نے دوبارہ ان سے کہا ہے کہ مکمل جواب دیجیے ۔لہذا براے مہربانی تھوڑا وقت دیجیے ۔ ان اللہ رفع لی الدنیا کے بارے میں صرف یہی جواب دیا گیا es tabky ki serf vo ravayat kable e qabool hoti hain jo sahi hadees sey mutazad na hon lekin razakhani ney es trf tvaja nahi di باقی میرے بارے میں کوئئ بھی بد گمانی کا شکار نہ ہو۔بس اتنی ہی گزارش کر سکتا ہوں ۔کہ جو حق سامنے آے گا وہی میرا عقیدہ ہو گا۔انشاء اللہ
  17. توحیدی بھائئ ۔جواب تحریر کرنے کا شکریہ ۔ لیکن میرے بارے میں آپ کی راے صحیح نہیں ہے ۔میں یہ سب کچھ خودنہیں کر رہا بلکہ جیسے آپ کے تاثرات میرے بارے میں ہیں ویسے ہی ناصر نعمان و تلوار صاحب والی سایٹ پر ان لوگوں کے بھی ایسے ہی تاثرات میرے بارے میں ہیں۔اگر آپ کو یقین کرنا ہے تو ان کی ویب سایٹ پر جا کر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔ باقی ان کی سایٹ پر بھی مجھ پر غصہ کیا جا رہا ہے بلکہ آپ کی اس سایٹ کے جوابات جب میں وہاں پوسٹ کرتا ہوں تو وہ حضرات بھی آپ کی طرح مجھے ہی کوستے ہیں ۔ باقی میں صرف اسی مسیلہ پر تحقیق کر رہا ہوں اور جب تک آپ دونوں طرف کے دلایل میرے سامنے نہیں آ جاتے اس وقت تک میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے عقاید صحیح ہیں کہ تلوار و ناصر نعمان ۔ لیکن اتنا وعدہ کرتا ہوں کہ جب گفتگو اختتام پذیر ہو گی اس وقت اپنا فیصلہ انصاف و دیانت دار کے ساتھ یہاں پوسٹ کروں گا۔ لہذا براے مہربانی آپ ناراض مت ہوے اور مجھے تحقیق کا موقع فرما کیجیے ۔ آپ کے سوالوں کے جوابات میں ان صاحبان سے لینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ جزاک اللہ ۔
  18. Reason for Edit:Badmazhab aor khas tor par bhagoray Murtad Hammad ke tehreer (Wahabi risalay) ko share na karain.Deoband kay fatway nay murtad Hammad & digar dramay bazon ke haqeeqat zahir kar de hay.
  19. توحیدی بھای جزاک اللہ خیر۔اللہ آپ کوخوش رکھے۔ براے مہربانی اس درج ذیل اعتراض کا جواب بھی تحریر فرما دیجیے اور یہ کون سی حدیث پر اعتراض کیا گیا ؟[دنیا کو اپنی ہتھیلی کی طرح والی حدیث پر؟]۔ تھوڑی وضاحت کر دیجیے ۔ امام طبرانی کی جملہ تصانیف حضرات محدثین کرام کے نزدیک کتب حدیث کے طبقہ ثالثہ میں داخل ہیں اور اس طبقہ کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ "واکثرآں احادیث معمول بہ نزد فقہاءنشدہ اند بلکہ اجماع برخلاف آمہنامنعقد گشتہ "عجالہ نافعہ ص 7۔ لہذاجب تک اس حدیث کی اصول حدیث کی رو سے صحت ثابت نہ کی جائے گی اس سے احتجاج درست نہیں ہے ، اور امام ابو نعیم کی جملہ تالیفات طبقہ رابعہ سے ہیں جن کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ "ایں احادیث قابل اعتماد نیستند کہ دراثبات عقیدہ یا عملے بانہا تمسک کردہ شود"ایضا ص7 جبکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ روایت نہ صرف طبقہ ثالثہ اور رابعہ کی ہے بلکہ ضعیف بھی ہے ۔۔۔۔چناچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ طبرانی کے حوالہ سے یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کے باقی روای تو ثقہ ہیں مگر علیٰ ضعف کثیر فی سعید بن سنان الرھاوی (مجمع الزوائد ج 8 ص287 یعنی اس حدیث میں سعید بن سنان الرھاوی بہت ہی زیادہ ضعیف ہے۔ یہ روایت حلیہ لابی نعیم ج 6 ص 101 میں بھی سعید بن سنان الرھاوی کی سند کے ساتھ مذکور ہے ، امید ہے صاحب مضمون کو سند اور سند کا ضعف دونوں واضح ہوگیا ہوگا۔ باقی میں بھی یہ عرض کروں گا کہ ناصر نعمان اور تلوار صاحب علم غیب یا دیگر کسی موضوع پر بات کرنے کی بجاے صرف اور صرف زیر بحث موضوع اور ان احادیث ہی پر گفتگو کریں ۔تاکہ بحث خلاف موضوع نہ ہو۔
  20. ناصر نعمان بھای نے مزید جواب پوسٹ کیا ہے براے مہربانی اس کے بارے میں وضاحت کر دیجیے ۔ماشاء اللہ گفتگو کافی اچھی اور تحقیقی ہو رہی ہے ۔انشاء اللہ امید ہے کہ بات کسی فیصلہ تک پہنچ جاے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ nasirnoman Senior Member Join Date Dec 2008 Posts 301 Thanks23 Thanked 71 Times in 26 Posts محترم رضا صاحب سب سے پہلے تو آپ سے درخواست ہے کہ ایک تھریڈ میں بیک وقت مختلف موضوعات کو شامل نہ فرمائیں ۔۔۔۔۔یہ طریقہ درست نہیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ آپ ان صاحب مضمون سے یہ پوچھیں کہ اس روایت سے یہ حضرت کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ؟؟؟ شاید آپ کے علم میں ہویا نہ ہو کہ اس حدیث سے احمد رضا صاحب ،مولوی محمد عمر اور احمد یار گجراتی "جمیع ماکان ومایکون"یعنی ذرے ذرے کا کلی علم غیب ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔حالانکہ کلی علم غیب کی عطاءکی نفی میں قرآن کریم اور صحیح احادیث پاک کی متعدد نصوص شاہد ہیں۔۔۔۔۔اور خود احمد رضا صاحب کا اقرار ہے کہ” ان نصوص القراٰن لاتعارض بالاحاد“ [الفیوض المکیہ ص22) یعنی اخبار احاد نصوص قرآن کے معارضہ میں نہیں پیش کی جاسکتیں ۔،،،،جبکہ یہ روایت متواتر تو ایک طرف رہی احاد بھی نہیں ہے ۔ امام طبرانی کی جملہ تصانیف حضرات محدثین کرام کے نزدیک کتب حدیث کے طبقہ ثالثہ میں داخل ہیں اور اس طبقہ کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ "واکثرآں احادیث معمول بہ نزد فقہاءنشدہ اند بلکہ اجماع برخلاف آمہنامنعقد گشتہ "عجالہ نافعہ ص7 لہذاجب تک اس حدیث کی اصول حدیث کی رو سے صحت ثابت نہ کی جائے گی اس سے احتجاج درست نہیں ہے ، اور امام ابو نعیم کی جملہ تالیفات طبقہ رابعہ سے ہیں جن کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ "ایں احادیث قابل اعتماد نیستند کہ دراثبات عقیدہ یا عملے بانہا تمسک کردہ شود"ایضا ص7 جبکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ روایت نہ صرف طبقہ ثالثہ اور رابعہ کی ہے بلکہ ضعیف بھی ہے ۔۔۔۔چناچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ طبرانی کے حوالہ سے یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کے باقی روای تو ثقہ ہیں مگر علیٰ ضعف کثیر فی سعید بن سنان الرھاوی (مجمع الزوائد ج 8 ص287 یعنی اس حدیث میں سعید بن سنان الرھاوی بہت ہی زیادہ ضعیف ہے۔ یہ روایت حلیہ لابی نعیم ج 6 ص 101 میں بھی سعید بن سنان الرھاوی کی سند کے ساتھ مذکور ہے ، امید ہے صاحب مضمون کو سند اور سند کا ضعف دونوں واضح ہوگیا ہوگا، احمد رضا صاحب نے ایک مقام پر کیا خوب کہا ہے کہ "حدیث ماننے اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے کے لئے ثبوت چاہیے بے ثبوت نسبت جائز نہیں اور قول مذکور ثابت نہیں "بلفظہ (عرفان شریعت حصہ سوم ص27 بس یہی کچھ ہمارا کہنا ہے ۔ امید ہے کہ اگر صاحب مضمون کو اپنا مدعا ثابت کرنا ہے تو پھر پہلے اصول حدیث سے اس کی صحت ثابت فرمائیں گے پھر دیگر اصول کر مد نظر رکھتے ہوئے اس روایت سے احتجاج فرمائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے۔آمین بحوالہ "ازالة الریب عن عقیدہ علم غیب" باقی رضا صاحب سے گذارش عرض یہ ہے کہ مسئلہ علم غیب پر تفصیلی بات چیت یہاں اس لنک پر موجود ہے ،،،،لہذا اس تھریڈ میں بحث کو آگے لے کر چلنے کے بجائے آپ سے درخواست ہے کہ پہلے اس لنک پر موجود مسئلہ علم غیب پر تفصیلی بات چیت کا تسلی سے مطالعہ فرمالیں ،شکریہ
  21. توحیدی بھای ۔آپ نے شفقت فرماَئئ۔جزاک اللہ۔ میں صرف اتنی گزارش کروں کا کہ یہاں یہ جو موضوع زہر بحث ہے میں بہت دلچسپی اور باریک نظری سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔اور نہ صرف آپ لوگوں کے بلکہ اہل حق فارم پر موجود تلوار صاحب اور ناصر نعمان صاحب کی تحقیقات اور جواب کا بھی مطالعہ کر رہا ہوں ۔اور امید کرتا ہوں کہ صرف اسی موضوع پر مکمل گفتگو ہو گی ۔ آپ کی شفقت کا بہت بہت شکریہ ۔ اہل ھق فارم پر چند احادیث پر جرح کی گی ہے ۔جس میں پہلی ۔۔ قبر پر موجود فرشتے والی حدیث پر گفتگو کی گی دوسری۔ آسمان سے حور کا اپنے ہونے والے شوہر سے خطاب والی حدیث تیسری تمام دنیا مےرے سامنے ہاتھیلی کی طرح والی حدیث چوتھی جلا افہام کی حدیث بلا واسطہ سنے والی پانچویں دلایل الخیرات والی حدیث اہل محبت کا درد میں خود سنتا ہوں ۔ لہذا اگر آپ ان احادیث کی صحت کے بارے میں تفصیلی گفتگو فرما دیں اور جو اعتراضا ت وارد کیے گے ہیں ان کے جوابات عنایت فرما دیں تو بہت مہربانی ہو گی۔اللہ تبارک تعالیِ ہمیں حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمایں آمین۔
×
×
  • Create New...