Jump to content

Shahid Nazeer

Under Observation
  • کل پوسٹس

    135
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

About Shahid Nazeer

تازہ ترین ناظرین

1,321 profile views

Shahid Nazeer's Achievements

Enthusiast

Enthusiast (6/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

-10

کمیونٹی میں شہرت

  1. ترغیبی مقررین کی تباہ کن ترغیبات ایک مسلم معاشرے میں علمائے دین کی موجودگی میں کسی بھی ترغیبی یا تحریکی مقررین جنہیں عرف عام میں موٹیویشنل اسپیکرز کہا جاتا ہے، کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی کیونکہ قرآن وحدیث سے بڑھکر ایک مسلمان کے لئے کوئی تحریک اور ترغیب نہیںجسے درست طریقے سے عوام الناس تک پہنچانا یعنی کتاب و سنت کے بتائے ہوئے طریقہ پر مسلمان کے نفس لوامہ کو تحریک دے کر اسے نیکی اور اچھائی پر ابھارنا اور آمادہ کرنا، اسکی کردار سازی کرنااور اسے معاشرے کا ایک مفید فرد بنانا علماء کا کام ہےجسے وہ بخوبی اور احسن انداز سے سرانجام دے رہے ہیںلیکن اسے مسلمانان پاکستان اور خصوصاً عالم اسلام کی طالعی برگشتہ (بدقسمتی) کہیے یا ان کےکجی اعمال کا خمیازہ کہ کتاب و سنت سے دوری کے نتیجے نے یہ دن دکھایاکہ مسلمانوں اور صراط مستقیم پر گامزن صحیح العقیدہ علماء کے درمیان حائل خلیج و خلا کو مصنوعی طریقے سے پر کرنے کے لئے تحریکی مقررین کی ایک پوری فوج ظفر موج موجود ہے جو بارش کے بعد خود روگھاس پھوس کی طرح اگ آئی ہے اور جس نے اپنے تئیں مسلمانو ںکی اخلاقی گراوٹ کی اصلاح کرنے ان کی بے مقصد اور بے سمت زندگی کو ایک مفید مقصداور صحیح سمت دینےاور پستیوں سے ایک مرتبہ پھر بلندیوں تک لے جانےکااز خود ٹھیکہ اٹھا لیا ہے۔ ان میں معتدد بہ تعداد مغربی فکر و فلسفہ سے متاثر مقررین کی ہے جو ’’ڈیل کارنیگی‘‘ اور’’ ایم آر کوپ میئر‘‘وغیرہم جیسےدینی علم و بصیرت سے محروم ماہر نفسیات کے طریقوں پر عمل کے ذریعہ مسلمانوں میں پیداہونے والے اخلاقی انحطاط اور عملی بگاڑ کو درست کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ ڈیل کارنیگی کی خودکشی اور اپنے ہی ہاتھو ں اپنی زندگی کاخاتمہ اس کے ان خیالات اور باتوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جن کے ذریعہ وہ دوسرے انسانوں کو ناکامی سے بچانا اور مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا چاہتا تھا۔ اگر تو ڈیل کارنیگی کے خیالات، باتیں اور نفسیاتی حل و علاج جو وہ اپنی کتابوں کےتوسط سے دینا کے سامنے لایااتنے ہی موثر اور کارگر تھے تو خوداس کے کسی کام کیوں نہ آسکےاور کیوں وہ ناامیدی کی گھٹا گھوپ ظلمتوں میں اترکر ایک ناکام ترین انسان کی طرح خودکشی جیسی چیز کے ذریعہ اپنی زندگی کے خاتمہ پر مجبورا ہوا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیل کارنیگی کو خود اپنی ہی بیان کردہ باتوں پر یقین نہیں تھااور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اس کے طریقہ کار اور فکر میں کوئی بڑی کمی اور کوتاہی تھی جسے سمجھنےاور دور کرنے میں وہ ناکام رہا۔راقم کے نزدیک وہ کمی وحی الہی کے علم اور معرفت کافقدان ہے جو کسی کافر کو حاصل نہیں ہوسکتا۔عموماً ڈیل کارنیگی کی شخصیت کے اس تاریک پہلوپر دانستہ بات نہیں کی جاتی اور خودکشی کےاس المیے کوقارئین سے راز میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اسے بیان کرنے سے اس کی کتابوں کا فسوں ، جادواور طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ قاری اسی ایک بات سے اندازہ کرلے کہ ایک ناکام شخص کے خیالات کی جگالی کرنے والےان موٹیویشنل اسپیکرزکی کامیابی کی کتنی توقع رکھی جاسکتی ہے اور ایک مسلم معاشرے کے سدھار میں یہ کیسا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ راقم کا خیال بلکہ یقین یہ ہے کہ یہ لوگ مسلم معاشرے میں اپنے خیالات کے ذریعہ کسی سدھار کے بجائے بگاڑ اور فتنہ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان ترغیبی مقررین میں معدودے چند ایسے اشخاص بھی ہیںجو اسلامی تعلیمات کے سہارے لوگوں کو اچھائی پر ابھارنے کے دعویدار ہیں جبکہ ان کی حیثیت نیم ملاں خطرہ ایمان کی سی ہےیہ مقررین رواجی اور روایتی داڑھیاں رکھ کرسادہ لوح لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کرنے میں سرگرم ہیں۔ان کی اسلامی تعلیمات اور دینی علم سے آگاہی واجبی اور سرسری ہے اور اس پر ستم یہ کہ یہ صاحبان و مہربان خود عالم فاضل ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ اس کی مثال میں ساحل عدیم کا نام پیش خدمت ہے موصوف نوجوان طبقے میں خاصے مشہورہیں اور ہر موٹیویشنل اسپیکر کی طرح بہت چرب زبان اور باتونی ہیںاور کیوں نہ ہوں کہ تحریکی مقررین کا حلقہ اپنی زبان ہی کی کمائی تو کھاتا ہے۔ ساحل عدیم صاحب آئے روز دینی مسائل کی عجیب و غریب تشریحات اور تو ضیحات کرتے پائے جاتے ہیں اور ضعیف، موضوع اور جھوٹی روایات بیان کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اس کی وجہ ان کی بدنیتی نہیں بلکہ ان کا جہل مرکب اور اسلامی کی بنیادی تعلیمات سے ناآشنا ہونا ہے ۔حال ہی میںانہوں نے دجال سے متعلق ایک من گھڑت حدیث بیان کی اور کہا کہ دجال کا ساتھ دینے والوں میں علمائے دین کا گروہ و طبقہ بھی ہوگااس پر مستزاد یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ مستند حدیث ہے۔اس پر مختلف مکاتب فکر کے علماء نے ان کی گوشمالی کی اور اس سنگین غلطی سے عدیم صاحب اور عوام کو بروقت آگاہ کیا لیکن ہر بدنصیب جاہل کی طرح ساحل عدیم صاحب نے بھی اپنی اس غلطی سے رجوع کے بجائے اس پر خاموشی اختیار کی۔ اب انہیں یہ کون بتائے کہ ہر فن کو باقاعدہ سیکھا جاتا ہے اور ہر فن کا ایک ماہر ہوتا ہے جس کی راہنمائی کے بغیر اس فن میں طبع آزمائی کرنانادانی اور بے وقوفی شمار ہوتا ہے۔ صحیح اور ضعیف احادیث کی جانچ اور پرکھ بھی ایک مشکل فن ہےلیکن یہ نادان احادیث کی پرکھ کا سلیقہ اور طریقہ نہ آنے کے باوجود اپنی جہالت دور کرنے کے لئےاس فن کے ماہرین مستند علماء کی جانب رجوع کو اپنی کسر شان سمجھتے ہیں اور اس معاملے میںاپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں بس جو حدیث اپنے خیالات و نظریات کے موافق یا مطابق لگی اس کی اسنادی حیثیت کو جانے بغیر اسے اعتماد کے ساتھ بیان کرنے لگتے ہیں۔ اسی شمار وقطار میں ایک ترغیبی مقرر محمد علی بھی ہیںیہ حضرت بھی اپنی مطلب برآوری کے لئے جھوٹی احادیث بیان کرتے ہیں اور ان کا بھی حلقہ ارادت کافی وسیع ہےموصوف یوتھ کلب نامی ادارے کے ساتھ منسلک ہیںاسی ادارے کے تحت منعقد کئے گئے پروگرام میںانہوں نے نوجوانوں کے ساتھ ایک بیٹھک میںجو کہ ایک خاص مقصد کے تحت بلائی گئی تھی جو نازیبا گفتگو کی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ علمائے کرام جمعہ ، عیدین اور عام خطبات میں جو وعظ و نصیحت کرتے ہیں وہ نعوذباللہ گھسی پٹی ہیں اور موجودہ دور کےنوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں اس میں نوجوانوں نے جو مکالمہ اور مباحثہ کیا اس میں جبرائیل علیہ السلام،جنگ بدر، جنگ احد، واقعہ معراج،طہارت ، زکوۃ اور نماز کے مسائل کے بیان کا یہ کہہ کرتمسخر اڑا گیا کہ ’’ہم بہت سن چکے‘‘ اور طنز کیا گیا کہ علماء ان موضوعات کو باربار دھرانے سے تھکتے نہیں ہیںاور سال کے تین سو پینسٹھ دن یہی گفتگو جاری رہتی ہے جبکہ مسلمان نوجوانوں کی ضروریات کا تقاضہ کچھ اور ہے جسے سمجھنے میں یہ روایتی علماء ناکام ہوچکے ہیں۔بعض نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ بار بار ایک ہی بات اور موضوعات کی یکسانیت کی وجہ سے وہ اکتا چکے ہیں اور انہیں جمعہ کے خطبات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی اب و ہ اس سے احتراز کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ مسجد میں اس وقت جائیں جب وعظ ونصیحت یعنی خطبہ ختم ہوچکا ہواس پر محمد علی صاحب نے انکی تائید و حمایت کی اور عام لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہا کہ سن لیں آج کے نوجوان کیا کہتے ہیں پھر محمد علی صاحب نے نوجوانوں کی اس شکایت کو درست قراردینے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بتایا کہ مجھے بھی نوجوان فون کرکے کہتے ہیں کہ جب ہم علماء کے خطبات سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اسلام میں ہر چیز حرام و ناجائز ہے کیونکہ ہر چیز کے بارے میںمولوی صاحبان یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بھی حرام ہے وہ بھی حرام ہےگویا محمد علی صاحب اس پروگرام کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ زمانے میں علماء کا کردار ختم ہوچکا ہے اور یہ متروک ہو چکے ہیں۔ ساحل عدیم کی طرح محمد علی صاحب بھی اس بات کو شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ دجال کی پکار پرسب سے پہلے لبیک کہنے والے امت مسلمہ کے علماء ہوں گےلہٰذا ان تحریکی مقررین کی عمومی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے دین سے مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کا تعلق توڑنا ان کے درمیان نہ پاٹ سکنے والی خلیج پیدا کرناان کانصب العین اور مطمع نظر ہے اور یہی ان کی کوششوں کا محورو مقصد ہےان ترغیبی مقررین میںعلماء بے زاری کی قدر مشترک ہے اور یہ لوگ اسلام کے نبص شناس ہونےاورخود کو علماء سے برترسمجھنے کے زعم باطل میں مبتلا ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے گمان کے برعکس ان کی فکر اور معلومات دین اسلام سےمستخرج نہیں بلکہ اس کا زیادہ تر حصّہ مغربی فکر و فلسفے سے ماخوذ ہے جس پر اسلام کی خوشنما پرت چڑھا کر یہ مسلم نوجوانوں کے اذھیان میں انڈیلنے میں مصروف عمل ہیں۔ بہرحال ترغیبی مقررین کے طریقہ کار اور ان کے تمام نظریات پر نقدو تبصرہ تو ممکن نہیںلیکن راقم الحروف یہاںان’’ یاراغیار‘‘ مقررین کے ایک نظریے پر بات کرناضروری سمجھتا ہے اس نظریے پر بات کرنے کا انتخاب راقم نے اس لئے کیا ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن اور نہایت دور رس ہیں اور اس پر اگلی نسلوں کے مستقبل کا انحصار ہے۔اور وہ نظریہ ہے بچوں کی جسمانی سزا اور ہر طرح کی تادیب سے کلی انکار اور انحراف جس میں جھڑک ،ڈانٹ اور ہر طرح کاایسا فعل شامل ہے جس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ شرمندگی، خوف یا ڈر محسوس کرتا ہے۔یہ کہتے ہیںکہ بچے کو کسی حال میں بھی ڈانٹیں نہیں، ماریں نہیں نہ ہی کوئی اور سزا دیں بلکہ ہمیشہ اور ہر وقت پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں اور اس سے محبت سے پیش آئیں اور دلیل میں مغربی معاشرے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ محمد زبیر اور وجیہہ زبیر صاحبان موٹیویشنل اسپیکرز ہیںیہ اپنی کتاب میں بڑی مرعوبیت سے لکھتے ہیں: مغرب نے 100سال پہلے بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی عائد کی تھی۔ آج وہاں درجنوں ممالک ایسے ہیں جہاں پولیس اہلکار نظر بھی نہیں آتے...جب ہم بچوں کو آنکھیں دکھاتے ، ڈانٹتے یا مارتے ہیں تو انہیں سکھا رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی تمہاری بات نہ مانے تو آنکھیں دکھائو، اس سے کام نہیں چلے تو چیخو چلائو اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو ہاتھ اٹھائو... اگر صرف یہی بات ہم اپنے بچوں کو سکھانے میں کامیاب ہوجائیں تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں۔(پرورش پر اعتماد بچے کی، صفحہ 33) احساس کمتری میں مبتلا یہ صاحبان اس طرح افسوس کے ساتھ فرمارہے ہیں جیسے یہ کوئی بڑی خرابی ، کمی ،کوتاہی اور غلطی تھی جس سے اہل مغرب نے تو عرصہ ہوا جان چھڑا لی لیکن اہل مشرق اس اصلاح سے پیچھے رہ گئے ۔ دراصل یہ مغرب کےحلق کے اگلے ہوئے نوالے ہیں جنھیں اب وہ چاہتے ہیں کہ مشرق والےبھی چبائیںاور اس کاتلخ اور کڑوہ کسیلا مزہ چکھیں جس کا مزہ اور لطف ایک عرصہ سے مغربی معاشرہ اٹھا رہا ہے۔ بچوں کو تادیب کے لئے مارنے اور ڈانٹنے کو ایک ممنوع فعل اور قابل سزا جرم بنادینے کے بعد مغربی معاشرے کا خاندانی نظام بالکل تباہ و برباد ہوگیا ہےاور نوجوان نسل شتر بے مہار ہوگئی ہےہر طرح کی پابندی اور قدغن ہٹا دینے کے بعد اب وہاں نہ کوئی شرم و حیاباقی ہے نہ اخلاقیات اور نہ ہی کوئی کردار،اس صورت حال نےصرف اپنی فکراور اپنے مفادات کے تحفظ کا رجحان پروان چڑھایا ہے نتیجتاً اس خودغرضانہ رویے نے خونی رشتوں کے لئے مطلوب ادب و احترام اور حقیقی محبت کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ہرفطری جذبے اور احساس کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلاہے اب ہرکسی کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا بوڑھا صرف اپنی مفاد پرستی سے دلچسپی اوراپنی ذاتی زندگی کے عیش وطرب کی فکر ہےوہ اپنی ذات کے حصار میںاس طرح قید ہیں کہ خلاصی اور نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی یعنی خود غرضی کا دور دورہ ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب یہ مغرب زدہ مسلمان ترغیبی مقررین اپنی سادگی یا جہالت اور جانے انجانے میں مغربی خواہشات کی تکمیل میں معاون و مددگارکا کردار ادا کررہے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ جوانی میں قدم رکھتے وقت ہر بچے کی زندگی میں ایسا دور آتا ہے جب وہ بغاوت پر مائل ہوتا ہے اور بری عادتیں اور برے کام اس کے لئے کشش کا باعث ہوتے ہیںاس وقت اس کے راستے کی رکاوٹیں اور نصیحتیں اسے بری لگتی ہیں یہ وہ نازک وقت ہوتا ہے جب بچے کو ان خطرات سے بچانے کے لئے تادیب کی اشد ضرورت ہوتی ہے جبکہ مار کےبجائے پیار کی پالیسی اپنانے پر بچہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میںبچے اسکول لائف ہی کے دوران زنا، منشیات اورمہلک ہتھیاروں کے استعمال کے شوق میں مبتلا اورکم عمری ہی میں ان بد خصلتوں کےعادی ہوجاتے ہیں اس کا بنیادی سبب ہی ڈانٹنے اور مارنے سے احتراز کی حکمت عملی ہے۔ آئے روزترقی یافتہ ملکوں کے اسکولوں میں بچوں کے ہاتھوں فائرنگ سے بچوں اور استادوں کے قتل اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کے حمل کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔مار کو شجر ممنوعہ بنا لینے کا یہی وہ ثمر ہے جو یہ دوست نما دشمن موٹیویشنل اسپیکرز اب مسلم معاشرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن رب تعالیٰ کا صد شکر ہےکہ ہمارے پاس اس مسئلہ سے نپٹنے کےلئے آسمانی اور ربانی ہدایات اوراسلام کی صورت میں ایک لاجواب اور بے مثال لائحہ عمل موجود ہے۔دین اسلام چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے بچوں کی تربیت میں مناسب مارپیٹ کی حمایت، ترغیب اور اجازت دیتا ہے۔ اس دعویٰ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مُرُوْا أوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْع سِنِینَ وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیہَا وَھُم أَبْنَائُ عَشْرِسِنین۔َ (سنن ابی داؤد:۴۹۵) ’’جب تمہاری اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائے توانہیں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو (نماز میں کوتاہی کرنے پر) انہیں سزا دو۔‘‘ اس حدیث میںفرائض کا پابند بنانے کی خاطراور نیکی پر مداوت کا عادی بنانے کے لئے بچے کو جسمانی سزا دینے کا حکم واضح اور صاف طور پر موجود ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض بچے لاتوں کے بھوت ہوتے ہیں اور باتوں سے نہیں سمجھتے ایسے بچوں کا دماغ ٹھکانے لگانے اور ان کی اخلاقی تربیت کے لئے جسمانی سزا ایک مناسب آپشن ہے۔پھر بعض فرمابردار بچے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ بعض معاملات میں انہیں جسمانی سزا کی اشد ضرورت ہوتی ہے وگرنہ انکی اطاعت اور فرمابرداری نافرمانی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث میں تو سزا کا حکم ہےاور سزا کے معنی میںوسعت پائی جاتی ہے سزا کا جسم کے ساتھ لازمی تعلق ہونا ضروری نہیں ہےیعنی سزا غیر جسمانی بھی ہوسکتی ہے تواس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ حدیث میں ’’وَاضْرِبُوھُمْ‘‘ کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں ’’اورانہیں مارو‘‘ یہ الفاظ جسمانی سزا پر ہی بولے جاتے ہیں۔سلف صالحین نے بھی اس سے یہی سمجھا ہے چناچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’باپوں اور ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو ادب سکھلائیں۔ طہارت اور نماز کی تعلیم دیں اور باشعور ہونے کے بعد(کوتاہی کی صورت میں)ان کی پٹائی کریں۔‘‘(شرح السنۃ:۲؍۴۰۷) برائی سے روکناشریعت کی اصطلاح میں’’ نہی عن المنکر‘‘ کہلاتا ہے یہ فریضہ ہر مسلمان مرد اور عورت پرعائدکیا گیا ہے جسےانہیں حسب استطاعت سر انجام دینا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ ’’اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں، نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘(سورہ التوبہ:۷۱) اگر مذکورہ بالا آیت کو بنظر غائر دیکھا جائے تو نیکی کے لئے’’ تلقین ‘‘کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے نیکی کروانے کے لئے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی بلکہ اسے نیکی کی طرف مائل کیا جائے گا جس کے لئے نصیحت اور ترغیب وغیرہ سے کام لیا جائےگا لیکن برائی کے لئے’’ روکنے‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس کے معنی ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بدی اور گناہ سے باز رکھنے کے لئے جس قدر ممکن ہوطاقت کا استعمال کرے گاکیونکہ کوئی بھی چیز اسی وقت رکتی اور ساکن ہوتی ہے جب اس کے خلاف طاقت اور توانائی کا استعمال کیا جائے۔مندرجہ ذیل حدیث قرآن کی اسی آیت کی وضاحت اورتشریح کرتی ہےچناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ.(صحیح مسلم، سنن ابی دائود) جو تم میں سے کوئی برائی دیکھے، تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے کہے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان برائی کو مٹانے کے لئے کتنی اور کیسی طاقت کا استعمال کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے منصب کے مطابق اسے دوسروں پر جتنا اختیار حاصل ہے اتنا ہی وہ اپنی پاور کو استعمال کرےگااوربدی کو مٹانے میں اپناکردار ادا کرےگا۔ مثلاً اگر وہ حکمراں ہے تو اس مقصد کے لئے مختلف سزائیں دے گااور عوام کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے گا لیکن اگر وہ کسی ملک کا حکمران نہیں لیکن کسی کمپنی یا کارخانے کا مالک یا پھر کسی محکمہ کاکوئی افسر ہے تو اپنے اختیارات اور طاقت کو برائی کے خاتمہ کے لئے استعمال کرےگالیکن اگر یہ مناصب اسے حاصل نہیں تو کم ازکم وہ گھر کا سربراہ ضرور ہوگا اور یہی ہمارے دعویٰ اور نظریے کی دلیل بھی ہے کہ جب گھر کا سربراہ اپنے اہل عیال میں کوئی برائی یا کجی دیکھے گا تواسکی اصلاح و درستگی کے لئے اپنی طاقت استعمال کرے گااور اسکی طاقت کے دائرہ اختیار میں مار پٹائی، تادیب اور جسمانی سزا بھی شامل ہےجس کی اجازت اسے شریعت نے عطاء کی ہے۔پس یہ دوسری دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچوں کو ادب اور دین سکھانے کے لئے مارپیٹ کرنے کی اجازت ہے جو کہ بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل غوروفکر ہے کہ اللہ انسان کا خالق ہے لہٰذااس سے زیادہ اس کی مخلوق کی حوائج و ضروریات اور احتیاجات کو سمجھنے والا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے بچوں کی تربیت کے لئے جسمانی سزا کی اجازت دی ہے تو بچوں کی تعلیم و تربیت میں صرف پیار ومحبت اس سزا کا نعم البدل ہر گز نہیں ہوسکتااور ہرموقع و محل پر بچے سے پیار و محبت سے وہ مطلوب و مقصود حاصل نہیں کیا جاسکتاجس کے لئے شریعت جسمانی سزا کی تجویز و اجازت دیتی ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 34میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِـهِـمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّـٰهُ ۚ وَاللَّاتِىْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِى الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ ۖ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْـهِنَّ سَبِيْلًا ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْـرًا ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پھر نیک عورتیں تابعدار ہوتی ہیں کہ مردوں کی غیر موجودگی میں اللہ کی مدد سے (ان کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں، اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور بستر میں انہیں جدا کر دو اور مارو، پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو، بے شک اللہ سب سے اوپر بڑا ہے۔‘‘ قرآن کی یہ آیت بھی ہمارے نظریے و دعویٰ پر دال ہے کیونکہ جب عورت کو سرکشی سے باز رکھنے کے لئے اللہ نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ عورت کو مار سکتا ہے تو بچوں کو سرکشی سے باز رکھنے کے لئے انہیں مارنا تو بدرجہ اولیٰ صحیح اور درست ہوگا کیونکہ عورتیں تو اپنے برے بھلے کا شعور رکھتیں ہیں لیکن بچے تو اپنے اچھے برے سے قطعاً ناواقف ہوتے ہیںلہٰذا انہیں راہ راست پر رکھنے کے لئے مارپیٹ کی عورتوں سےزیادہ ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت اس لئے دی ہے کہ مرد بڑے نقصان یعنی طلاق سے بچ جائے اس لئے چھوٹے نقصان یعنی عورتوں کے ساتھ مارپیٹ کو بہ امر مجبوری گوارا کیا گیا ہے۔چونکہ مرد کو اللہ نے عورت پر حاکم بنایا ہےاور اسے ایک حد میں رکھنے کے لئے جسمانی سزا کی اجازت دی ہے تو اولاد پر باپ کی حکومت ویسے ہی ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی کو مارنے کی اجازت سے اولاد کو مارنے کی اجازت کا جواز خود بخود حاصل و ثابت ہوجاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’علق سوطك حيث يراه أهلك‘‘ اپنے گھر میں ایک چھڑی لٹکائے رکھ ، تاکہ گھر والے اسے دیکھا کریں۔(الطبرانی ،المعجم الکبیر،رقم: 10672، 10/285) اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی بعض الناس کااسلام میںسزا سے انکار کا تصور سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن بہرحال یہ کوئی شدید حیرت اور اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ محکوم قومیں حاکم قوموں کی نقالی میں فخر محسوس کرتی ہیں اور غیرترقی یافیہ یا ترقی پذیر لوگ ترقی یافتہ قوموں کی طرز زندگی کو اپنانے اور ان کی فکر و فلسفے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتےہیںپہلے جب مسلمان دنیا کے حکمراں تھے تب غیرمسلم عربی سیکھنےاور بولنے اور مسلمانوں جیسا لباس پہننے اور ان کے جیسا رہن سہن اختیار کرنے میںتندہی کا مظاہرہ کرکے اپنی عزت اور افتخارمیں اضافہ کرتے تھے پھر جب مسلمانوں کا زوال شروع ہواتو مسلمانوں نے یہ کام شروع کردیا اور اپنے مذہب کو غیرمسلموں کے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی اس کے لئے قرآن و احادیث میں تاویل وتحریف کا ناپسندیدہ راستہ اختیار کیا گیا اور یہ نا مسعود سعی ہر غیر اسلامی نظریے اورعقیدہ کو اسلامی رنگ و شکل دینے کی صورت میں منتج ہوئی۔اپنی تنزلی پر نادم اور شرمندہ اور اغیار کی ترقی سے مرعوب احساس کمتری میں مبتلا لوگوں نےمغرب کے عطا کردہ نظریاتی تحفے’’بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی‘‘ سے یکجہتی کے اظہار کے لئےاس بات کا برملا اعلان کردیا کہ قرآن و حدیث میں خواتین اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے یا ان کی تادیب کے لئے سزا دینے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہےاوراپنے مذموم مقصد کو پانے کے لئے قرآن و حدیث میں جہاں مارنے کا ذکر آتا ہے جس کے لئے ’’ضرب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہےوہاں انہوں نے لغت کا سہارا لے کراس لفظ کو ایسےبعید معنوں پر محمول کیا ہے جس سے مارپیٹ کی نفی ہوتی ہےیا پھر نصوص میں جہاں سخت ،ناجائزاور بلا جواز مار کی مذمت بیان ہوئی ہے اس کو ہلکی پھلکی مارکے لئے بہانے کے طور پر استعمال کرکے ضروری و غیرضروری اور جائز وناجائز ہر طرح کی جسمانی سزا سے انکارکیا ہے جوکہ ظاہر ہے درست رویہ نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی شریعت کی درست ترجمانی ہے۔ عرض ہے کہ اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں جو نصوص واردہیںوہ اپنے مفہوم پر اس قدرواضح ہیں کہ ان میںدورازکار، فاسد ، باطل اور بےتکی تاویلات ایک سلیم الفطرت شخص کو اپیل نہیں کرتیں۔ بہرکیف ان لولی لنگڑی دلیلوں سے یہ اسلام سے جسمانی سزا کا تصور ختم کرنے میںتو کامیاب نہیں ہوسکتے البتہ اپنا دل ضرور بہلا سکتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اس بات کو ایک مسلّم اصول کے ذریعہ بھی سمجھا جاسکتا ہے اور وہ ہے صحابہ کے فہم اور طریقے کی پیروی کا اصول۔ یہ اصول اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے لوگوں سے ایمان لانے کے لئے ایمان صحابہ کے نمونے کی نقل کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ ﴾ ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں۔ البقرة : 13 یہاں ’’الناس‘‘ سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ ایمان صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْاُ ﴾ پھراگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقینا ًوہ ہدایت پا گئے اس اصول سے پتا چلتا ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص کا صحیح فہم وہی ہے جس پر صحابہ کرام کاربند تھے۔ اب بچوں کی تربیت سے متعلق صحابہ کے طریقہ کار کو ملاحظہ فرمائیں : امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے ” باب التوثق ممن تخشی معرته“ (جس سے فساد کا خطرہ ہو اس کو باندھنا)، اور اس کے تحت ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عکرمہ ؒ کو فرائض، سنن اور تعلیمِ قرآن کے لیے باندھا کرتے تھے، طبقاتِ کبریٰ میں ہے کہ حضرت عکرمہ ؒفرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ قرآن وسنت کی تعلیم کے لیے میرے پاؤں میں بیڑی ڈالا کرتے تھے۔ اب معاملہ بالکل صاف ہوگیا کہ جو لوگ کتاب وسنت کے دلائل سے بچوں پر مناسب تشدد کا انکار کررہے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں قرآن و حدیث کا حکم صرف پیار و محبت کا ہے وہ غلطی پر ہیں کیونکہ صحابہ کرام کا عمل اس کے برعکس ہے اور ہمیں صحابہ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مضبوط دلیل یہ بھی ہےکہ صرف بچوں کی تعلیم و تربیت میں نہیں بلکہ انسان کو جرائم و گناہوں سے دور رکھنے میں بھی جسمانی سزا بہت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہےیعنی کہ جسمانی سزا صر ف بچوں کی تربیت میں مثبت کردار ادا نہیں کرتی بلکہ بڑوں کی اچھی تربیت کی بھی ضامن ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین جو اپنی مخلوق کی نفسیات کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے نے بھی مختلف جرائم کے لئے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں جو جرائم کی روک تھام کے لئے ضروری ہیںجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ (البقرۃ:۱۷۹) ’’اے ہوش مندو! تمہارے لیے قصاص میں(یعنی بدلہ لینے میں)زندگی ہے۔‘‘ یعنی جب ایک ظالم، گنہگار او ر مجرم سے قصاص لیا جائے گایعنی آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک،کان کےبدلے کان، دانت کےبدلے دانت اور جان کے بدلے جان تو نہ صرف وہ بقیہ زندگی کے لئے سدھر جائے گا بلکہ دوسرے مجرمین بھی اس کا انجام دیکھ کر جرم سے باز رہیں گے۔ لہٰذا جسمانی سزا لوگوں کے کردار اور اخلاق کی درستگی کے لئے ناگزیر نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن مغرب جو فطرت کا دشمن ہے اسلامی سزائوں کو غیر انسانی اور گھنائونی قرار دے کر مسلمان ملکوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اسلامی سزائوں کو چھوڑ کربے ضرر مغربی سزائیں نافذ کریں اور یوں جرائم میںکمی کے بجائے جرائم کو خوب فروغ حاصل ہوتا ہےاور یہی مغرب کی دیرینہ خواہش ہے کہ مسلمان معاشروں میں امن و امان ایک نہ پورے ہونے والا خواب بن کر رہ جائے۔مغرب جو ایک مسلمان کو مفید شہری بنتے نہیں دیکھ سکتاتو وہ ہمارے بچوں کوکیونکر دین و دنیا میں کامیاب،بہتر اور اچھا انسان بنتے دیکھنا برداشت کرے گا اسی لئے وہ اپنے گماشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے ذہن میں بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی کے اس غیر اسلامی اور غیر فطری نظریے کو ٹھونسنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہےاور کافی حدتک وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب بھی ہےلہٰذا ہمیں مغرب کی اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے جو مستقبل کے معمار ہیں ان کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جب جسمانی سزا ایک بڑے کو سدھار سکتی ہے تو ایک بچے کو سیدھے راستے پر کیوںگامزن نہیںکرسکتی؟ یقیناً کرسکتی ہے پس یہ مغرب کا دھوکہ اور سراب ہے کہ بچے صرف پیار و محبت سے سمجھتے ہیںاور مارپیٹ سے بگڑ جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچے مارنے سے سدھرتے ہیں اور ہمیشہ کے پیار ومحبت سے خراب ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو تربیتی لحاظ سے مارنے کے قدیم نظریے اور نہ مارنے کے جدید نظریےکےبچوں کے کردار پر مرتب ہونے والے نتائج و عواقب اور نفع و نقصان پر غور کریں اوراس حوالے سے اگر ماضی اور حال کے بچوں کا آپس میں موازنہ کریں تووہ بچے جو اس ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئے جہاںوالدین اپنے جگر گوشوں کو اسکول میں استاد کے حوالے کرتے ہوئے اور مدرسہ میں مولوی صاحب کے سپردکرتے ہوئےزبان زد عام مقولہ’’ ہڈیاں ہماری کھال تمہاری‘‘ ادا کرنا نہ بھولتے تھے اورجہاں استاد اور والدین کی مار کو بچے کی تربیت میں ضروری خیال کیا جاتا تھا وہ بچے آج کے ان بچوں سےبہرحال بہتر تھے جوسختی ، ڈانٹ اور مار سےمکمل طور پر ناآشنا ہیں جنھیں ماں با پ کی جانب سے سختی برادشت نہیں کرنی پڑتی اور استادوں کی مار اور ڈانٹ کا تو اب کوئی تصور ہی نہیں رہا کیونکہ اگر غلطی سے بھی استاد کسی بچے کو ڈانٹ دے یا معمولی سزا دے دے تو فوراً سے بیشتروالدین اس استاد کی سرزنش کرنے اور اس کی شکایت لے کر اسکول پہنچ جاتے ہیں اور بعض اوقات اسے ملازمت سے فارغ کروا کے دم لیتے ہیں۔ بچے کے حق میں والدین کی اس غیرضروری حساسیت کا ایک ثمر تو بالکل صاف اور عیاں ہے کہ آج استاد کی وہ عزت اور عظمت معاشرے سے ختم ہوگئی ہے جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی بلکہ پورا سچ تو یہ ہے کہ ماضی کے بچے آج کے بچے سے تمیز، تہذیب،ادب وآداب ، کردار اور عمل ہرلحاظ سے ہر حال میںفائق اور بہتر تھے پھر یہ دعویٰ کرنا کہ سختی اور مار بچے کو نفسیاتی طور پر تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اوریہ کہ جس نے استاد اور والدین کی مار جھیلی ہوایسا انسان کبھی نارمل زندگی نہیں گزارتا کس قدر غیر حقیقی اور مضحکہ خیز ہے۔ لیکن اگر بالفرض مغربی تحقیق کے مرعوبین کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ جسمانی مار بچوں پر دیرپا منفی اثر ڈالتی ہے تو ہمارے والدین اور ان کے ہم عمر تمام افراد کو ذہنی اور نفسیاتی مریض ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس عمر کے تمام افراد نے بچپن میں والدین اور اساتذہ کی مار اور ڈانٹ برداشت کی ہے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے والدین اور استادوں کی مار کھانے والےذہن اور کردار دونوں کے لحاظ سے انتہائی مثبت ہیں جبکہ وہ بچےجو مار اور ڈانٹ کے تجربے سے نابلد ہیں گوناگوں نفسیاتی مسائل اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہیںاور انتہائی منفی ذہنیت کے کردار کے حامل ہیں۔ چناچہ یہ نتائج اس مخمصے سے نکلنے کے لئے کلیدکی حیثیت رکھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے انہیں ماراجائے یا نہیں۔ اس سلسلے میںہر سطح پر ایک ہی قسم کی بات اورمسلسل رٹ سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اور بچوں کو جسمانی سزا نہ دینے کے نظریے کوباقاعدہ طور پر مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ ایک دانشور’’توقیر چغتائی‘‘ نے روزنامہ اخبار ایکسپریس نیوز کی 20 جولائی 2017 کی اشاعت میں’’ہڈیاں ہماری کھال تمہاری‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں جناب لکھتے ہیں: ’’بچوں پر تشدد کا گلہ اُس نام نہاد پڑھے لکھے جج سے تو کیا جا سکتا ہے جس کی پڑھی لکھی بیوی نے اپنی ملازمہ بچی پر اتنا تشدد کیا کہ اس کی پہچان ہی نا ممکن ہوگئی ، مگر اُس دیہاتی سے کوئی کیا گلہ کرے گا جس نے آٹھ سالہ مدثرکوگدھے کے پیچھے باندھ کر پتھریلی زمین پر تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا ۔ مسکین نامی یہ ملزم سزا کا مستحق تو ہے ، مگر اس سے زیادہ رحم کا بھی مستحق ہے کہ اس کے ساتھ بھی بچپن میں شاید ایسا ہی بے رحمانہ سلوک کیا گیا ہو گا جس کی وجہ سے وہ کسی بچے کو مارنے پیٹنے، اس پر تشدد کرنے، یہاں تک کہ اسے انتہائی اذیت دے کر زندگی سے محروم کرنے کے عمل کو بھی معیوب نہیں سمجھتا ۔ ‘‘ توقیر چغتائی صاحب کا اس دیہاتی کی درندگی اور بے رحمی کو بنا ثبوت بچپن کی جسمانی سزا سے جوڑنامعنی خیز بھی ہےاور کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل بھی۔ ان جاہل دانشوروں سے کوئی یہ پوچھے کہ ان کے والدین اور انہی کے عمر کے دیگر افراد جن سب نے ہی مارپیٹ کے کلچر کا سامنا کیا آج بہتر انسان ہیں یا بدتر؟ ان میں سے کتنے ہیں جو بچپن کی جسمانی سزا کی وجہ سے مجرم اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں؟یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ایام طفل میں جسمانی سزا کا سامنا کرنے والے کل کے بچے آج کے بچوں اتنے زیادہ بہتر تھے کہ یہ دانشور اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر بالفرض ہم توقیر صاحب کے اس زبردستی کے نتیجہ کو قبول بھی کرلیں کہ بچپن میں جسمانی تشدد اور مار کا شکار افراد بڑے ہوکر خود بھی دوسروں پر جسمانی تشدد کرتے ہیں حتی کہ بے رحمانہ طریقے سے ان کی جان لینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تو’ ’توقیر چغتائی‘ ‘ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ مغرب میں وہ بچے جنھیں اپنے والدین اور استادوں سے نہ کبھی ماربرداشت کرنی پڑی اور نہ ہی ڈانٹ سہنی پڑی، ایسے بچے کیونکر دوسرے بچوں پرشدید جسمانی تشدد کے مرتکب ہورہے ہیں حتی کہ بے رحمی سے انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے مجرمانہ سرگرمیوں میںملوث یہ مغربی بچےیقیناً خود پر ہونے والے کسی جسمانی سزا کا بدلہ نہیں لے رہے تو پھر اس کے محرکات کیا ہیں؟ یقیناً اس سوال کا جواب توقیر صاحب کے پاس نہیں ہوگااسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نام نہاد دانشوروں کی بچوں کی جسمانی سزا کے خلاف دی گئی دلیل انتہائی سطحی ، بے معنی اور فضول ہے جس سے یہ عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں بس لوگوں کے ذہنوں میں اس بات کوزبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں کہ ہر برائی اور خرابی کی جڑ بچوں کی جسمانی سزا میں مضمر ہے۔ جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہےیہ لوگ چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثالوں میںتشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات پیش کرتے ہیںجو کسی کے ساتھ بچپن میں ہونے والے انتہائی ظلم اور شدید جسمانی تشدد کا ردعمل تو ہوسکتےہیں لیکن نتیجے میں بے جا ظلم ، ناجائز مار پیٹ والے رویے کی مذمت کرنے کے بجائے یہ دانشور ان واقعات کو بنیاد بنا کرمناسب جسمانی سزا کا بھی کلی انکار کرتے ہیں جو کہ بچے کی تربیت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شدید جسمانی سزا، ذہنی و نفسیاتی اذیت اور بے جا لاڈ پیار اور ہر وقت کی نرمی دونوں افراط و تفریط پر مشتمل صورتیں اور رویے ہیں جو بچے میں مختلف پیچیدگیوں ، ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی امراض کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک حد میں رہتے ہوئے بچے کو دی گئی جسمانی سزا بہت سے فوری اور دوررس فوائد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اگر بچوں کے ساتھ مارپیٹ کا واقعتاً ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوتا جیسا کہ ہر دانشور اور ہر موٹیویشنل اسپیکر کے ذریعہ ہمیں بارور کروایا جارہا ہے تو مغرب کے بچوں کواعلیٰ اخلاق اور بہترین کردار کا مالک ہونا چاہیے تھا اور جرم و سزا کی دنیا سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن بچوں کے ساتھ مارپیٹ نہ کرنے کے نتائج اس کے برعکس ہیںجو یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ مجرمانہ سرگرمیوں کے اسباب کچھ اور ہیں ان کا بچپن میں دی گئی جائز و مناسب جسمانی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت میں جسمانی سزا کا نسخہ کتنا آزمودہ اور مجرب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ عیسائیت جیسا الہامی مذہب بھی اس کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور اس نسخہ کو بروئے کار لانے کی اپنے ماننے والوں کو ترغیب و نصیحت کرتا ہے، ملاحظہ کریں: ۱۔ لڑکے سے تادیب کو دریغ نہ کر۔اگر تو اسے چھڑی سے مارے گا تو وہ مر نہ جائے گا۔تو اسے چھڑی سے مارے گا اور اس کی جان کو پاتال سے بچائے گا۔(کتاب مقدس، عہد نامہ عتیق، [لاہور: بائبل سوسائٹی ]، امثال، باب 23، آیت،13) ۲۔ حماقت لڑکے کے دل سے وابستہ ہے لیکن تربیت کی چھڑی اس کو اس سے دور کرے گی۔ (عہد نامہ عتیق، امثال، باب 22،آیت 15) ۳۔ چھڑی اور تنبیہ حکمت بخشتی ہے لیکن جو لڑکا بے تربیت چھوڑدیاجاتا ہے اپنی ماں کو رسوا کرے گا۔(عہد نامہ عتیق، امثال، باب 29،آیت 15) ۴۔ جو اپنی چھڑی کوباز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے پر وہ جو اس سے محبت رکھتا ہے ہر وقت اس کو تنبیہ کرتا ہے ۔(عہد نامہ عتیق، امثال،باب 13،آیت 24) اور یہ بہت زیاد ہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب عیسائی تعلیمات کے مطابق انگریز بھی بچوں کی تربیت میں جسمانی سزا کے حامی تھے۔ قدرت اللہ شہاب کو ایک بگڑے ہوئے انگریز رئیس زادے کو ٹیوشن پڑھانے کا اتفاق ہوا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے قدرت اللہ صاحب لکھتے ہیں: ٹیوشن شروع کرنے سے پہلےمیںنے مسٹر نیڈوسے کہا، کہ اگر لڑکا بہت بگڑا ہوا ہے، تو شاید کسی قدر سختی سے کام لینا پڑے ۔ انہیں کوئی اعتراض تو نہیںـ؟ مسٹر نیڈو عصبی المزاج بزرگ تھے۔ اپنے بیٹے کے لاابالی پن سے نالاںنظر آتے تھے، میری بات سن کرانہوں نے گھبراہٹ سے ادھر ادھر دیکھا، کہ کوئی اور گوش بر آواز تو نہیںپھر آہستہ سے میرے کان میں کہا۔’’خداتمہیں خوش رکھے۔ ضرور سختی کرو۔ لیکن دیکھناکوئی ہڈی وڈی نہ توڑ بیٹھنا۔ میرے سر پر قیامت آجائے گی۔‘‘ (شہاب نامہ، صفحہ 126) والد کا اپنے بیٹے پر سختی کی اجازت دینے کا کیا نتیجہ برآمد ہوا اس کا احوال بھی سنیے، قدرت اللہ شہاب رقم طراز ہیں: جان نیڈو پندرہ سولہ برس کا مغرور سالونڈا تھا۔ ایک ملازم مجھے اس کے کمرے میں لے گیا۔اس نے ناک سکیڑ کر نفرت سے میری طرف دیکھا، اور بدتمیزی سے بولا۔ ’’نکل جائو فوراًآپ کا اس کمرے میں کیا کام ہے؟‘‘ ُُ’’صبر بیٹا ،صبر۔‘‘ میں نے کہا۔’’میں تمہارا نیا ٹیوٹر ہوں۔ تمہیں پڑھانے آیا ہوں۔‘‘ ’’اونہہ، ٹیوٹر۔‘‘ جان نے تحقیر سے الفاظ چبا کر کہا۔’’ میں کہتا ہوں چلے جائو۔ میرے پاس فالتو وقت نہیں۔‘‘ جان نے چھاتی پھلائی اور دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ڈال کر میرے سامنے اکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے بھانپ لیا کہ یہ لاتوں کا بھوت ہے، باتوں سے نہیں مانے گا۔ گربہ کشتن روز اوّل۔ میں نے اس کے منہ پر زور سے ایک زناٹے دار چانٹا رسید کیا اور ڈانٹ کر کہا۔ ’’یوسن آف بچ۔ تمہاری امّاں نے تمہیں استاد سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی؟ جیب سے ہاتھ نکال کر سیدھی طرح کھڑے ہوجائو۔‘‘ جان نے کچھ اور اکڑ دکھائی، تو میں نے پے درپے اس کے دو تین اور تھپڑ لگادئیے۔ وہ روتا ہوا دروازے کی طرف لپکا، تو میں نے اسے گردن سے پکڑ کر روک لیا۔ اور کہا۔ ’’تمہارا باپ اس میں کوئی دخل نہ دے گا۔ میں اس سے پوچھ کر آیا ہوں؟‘‘ ’’نان سنس‘‘۔ جان چلّایا۔ ’’میرا باپ مجھے مارنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘ ’’صرف ہڈی توڑنے کی اجازت نہیں۔‘‘ میں نے اسے مطلع کیا۔’’ باقی سب چھٹی ہے۔‘‘ جان نے مجھے بڑی شستہ انگریزی میں دو تین گالیاں دیں۔ میں نے اس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ پہ ایک لات جمائی اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔یہ اصطلاح اس کے لئے نئی تھی۔ میں نے خود مرغا بن کر اس کی رہنمائی کی۔ پانچ دس منٹ کان پکڑ کر اس کی طبیعت صاف ہوگئی۔اور اس کے بعد ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ استوار ہوگیا۔ ایک ماہ کے بعد جب میں اپنا فلپس سائیکل وصول کرکے رخصت ہونے لگا تو سارا گھر میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں منہ مانگی فیس پر جان کا ٹیوٹر بنا رہوں۔ لیکن میری ٹیوشن تو چندراوتی کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔ اس لئے میں نے انکار کردیا۔(شہاب نامہ، صفحہ 126 تا127) گویا بچے پر سختی کا بعینہ وہی نتیجہ نکلا جو کہ لازماًاور اصولاً نکلنا چاہیےاورجسے دین فطرت سے پہلے ہی سے مقرر اور طے کیا ہوا ہے یعنی بگڑا ہوا بچہ سدھر گیا لیکن اگر جدید اصولوں کے مطابق سختی سے احتراز کیا جاتا اور پیار و محبت سے ہی بچے کو سمجھانےکی سعی کی جاتی تو یقیناً معاملہ ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘اور ’’وہی مرغے کی ایک ٹانگ‘‘ والا ہوتا اور صورتحال میں کوئی بہتری رونما نہ ہوتی۔ اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ دور کے نام نہاد عیسائی جو بچوں کی تربیت میں جسمانی سزا کے مخالف ہیں اصل عیسائی نہیں بلکہ ملحدین اور مذہب بے زار لوگوں کا ٹولہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہب دشمن ملحدین کا نظریہ درست ہوگا یا الہامی مذاہب کا نظریہ حق و صحیح ہوگا؟ بس یہی ایک بات اس نظریے کے غلط ہونے کے لئے کافی ہے لہٰذا بحیثیت الہامی مذہب کے پیروکار ہمیں بچوں کو سزا نہ دینے کےاس غیر الہامی او ر ملحدانہ نظریے سے شدت کے ساتھ انکار کرنے کی ضرورت ہے جو بہتری کے بجائے فتنہ اور بگاڑ کا سبب ہے۔ ایک مشہور پنجابی محاورہ ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ اپنی وضاحت آپ ہے اس محاورے میں جو سادہ سا پیغام ہے اسے سمجھنے کے لئے کسی سائنس یا غیر معمولی ذہانت کی چنداں ضرورت نہیںاورچونکہ محاورے صدیوں کے انسانی تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہوتے ہیں اس لئے ان کی درستگی اور سچائی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا بلکہ ان محاورات کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ مذکورہ محاورہ انسانی عادتوں کی کجی دور کرنے کے لئے ڈنڈے کو بطور علاج پیش کرتا ہےجو اچھے اچھوں کی طبیعت صاف کردینے ،دماغ ٹھکانے لگانے اور بری عادتیں چھڑا دینے کی غیر معمولی اور حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ایذا رسانی انسانی نفسیات پر گہر ا اثر ڈالتی ہے اس لئے ڈنڈے کے ساتھ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ بھلائے نہیں بھولتی جبکہ پیار و محبت سے سمجھائی گئی بات ایک کان سے ہوکر باآسانی دوسرے کان سے نکل جاتی ہے۔اس کے ثبوت میں اشفاق احمد جو کہ پاکستان کے بہت بڑے ادیب تھے کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے بدتہذیب اور بدتمیز بچوں کو چند منٹوں میں وہ سبق پڑھایا جو ان کے والدین اپنے غلط انداز تربیت کے سبب سالوں نہ سکھا سکے۔اشفاق احمد صاحب ایک امیر خاتون کے ہاںدوپہر کے کھانے پر مدعو تھے وہاں ان کی ملاقات ان خاتون کے دو بچوں سے ہوئی ۔ یہ ملاقات کیسی رہی اس بارے میں اشفاق صاحب لکھتے ہیں: اب بیٹھے بیٹھے مجھے کوئی مشکل سے چار پانچ منٹ ہوئے ہوں گے اور میں تھوڑا سا بور بھی ہورہا تھا۔ وہاں سیڑھیاں تھیں آٹھ دس، وہاں سے ٹپ ٹپ کرتا ہوا ایک لڑکا، جس نے نیلی نیکر پہنی ہوئی، کالے سیاہ بوٹ اور کتنے سارے بٹنوں والی ایک جیکٹ سی پہنی ہوئی وہ نیچے اترا۔ لڑکا کوئی سات آٹھ سا ل کا تھا۔ نیچے اترا کھٹ کھٹ کرتا مجھ تک پہنچا۔ میں نے اس کو مسکر ا کر کہا، بنجوجی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور سیدھا میرے پاس آکر کھڑا ہو کے غور سے میری شکل دیکھنے لگا۔ اب میںبڑا ایمپریس ہورہا تھا۔ میں نے اس کو کہا How are you? You belong to a rich class اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے کہنی رکھ کے میز کے اوپر، جہاں میں تھا، ایسے میری شکل دیکھی۔اب ایک آدمی کا چہرہ اتنا قریب ہو، اس اینگل پر ہو، بڑی پریشانی کاباعث بنتا ہے اس زمانے میں میں نے تھوڑی تھوڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک آرٹسٹ تھا ڈالی، وہ اپنی مونچھوں کو موم لگا کے ذرا اونچی رکھتا تھا۔ میں نے بھی ڈالی کے فیشن میں مونچھیں اوپر کی تھیں تو جب اس نے چہرہ قریب کیا تو وہ میرے بہت نزدیک آگیا۔ سیدھے کھڑے ہو کے اس نے میری ایک مونچھ کو پکڑا اور زور سے کھینچا۔ میرا ہونٹ سارا اوپر کو کھنچ گیا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے تڑاخ سے ایک چماٹا دیا میرے، اتنے زور کا کہ میرا یہ سارا ہونٹ نیچے گرگیا۔ میں کیا کرسکتا تھا۔ ایک ملازم آگیا اور مجھے آکے کہنے لگا، یہ رسیلنی کا بڑا بیٹا ہے اور میڈم کا بڑا لاڈلا بچہ ہے۔ میں نے کہا ، ہاںماشاءاللہ بہت پیارا ہے۔ تھپڑ مار کے زور سے وہ بھاگ گیا، کہیں کھیلنے۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا۔ میں نے کہا، یا اللہ جتنی خوشی خوشی میں آیا تھا اور جتنا میرا دبدبہ تھا، جو کچھ میں نے سنا تھا، یہ کیا ہوا میرے ساتھ۔ خیررنج تو ہوا، آج تک ہے۔ یہ ہوکیا گیا میرے ساتھ۔ وہ چلاگیا اور میں بیٹھا رہا، اتنے میں میڈم آگئی اور معذرت کرنے لگی، مجھے کچھ کام تھاـ......اس نے کھانے کو پوچھا تو میں نے کہا، آپ کے شوہر آئیں گے، ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ پھر وہ معذرت کرکے چلی گئی۔ اس کا ایک ٹیلی فون آگیا تھا۔ میڈم کو ٹیلی فون بہت آتے تھے۔ چلی گئی تو اب میں بہت Conscious ہو کے بیٹھا ہوا ہوں۔ یا اللہ وہ ظالم کا بچہ پھر نہ آجائے۔ ایک ڈر ہوتا ہے نا آدمی کو کہ ایک گھوم رہا ہے آفت کا پرکالہ۔ بعد میں یہ پتا چلا کہ رسیلنی نے کہا، آپ کھانا کھائیں، میں آپ کو Join نہیں کرسکوں گا، کیونکہ میں Delayہوگیا۔ میرا شاٹ تیار نہیں ہوا تو میں پھر اشفاق سے ضرور ملوں گا۔ یہ بات طے ہے، پھر اس نے کہا،Would you like?میں نے کہا، جیسا کہیں ٹھیک ہے۔ وہ ڈونگے لے کر آنے لگے۔ ان کے ملازم باوردی دستانے پہنے ہوئے چیزیں لارہے ہیں۔ میری جان پر بنی ہوئی تھی کہ وہ چھری کانٹے سے کھاتے تھے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کھانا ہے...... چیزیں آگئیں۔ اتنے میں وہ جو چھوٹا آفت کا پرکالہ تھا، اس کے بجائے پھر ایک اور نکل آیا۔ چار سال کا چھوٹا پرکالہ سا۔ تو میڈم نے کہا، یہ میرا چھوٹا بچہ ہے۔ دو ان کے بیٹے تھے۔ تو میں نے کہا ہیلو ہائے ویری کیوٹ۔ جیسے کہتے ہیں۔ تو وہ چھوٹا آگیا۔ اس نے کرسی میرے اس طرف ڈال لی اور میرے قریب بیٹھ گیا، اور میرے چہرے کو غور سے دیکھتا جا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے، عجیب و غریب سی۔ کیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔کس قسم کا آدمی ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں بچے بہت اچھی اٹالین بولتے تھے۔ میں بھی ٹھیک ٹھاک بولتا تھا۔ باتیں ہم کرتے رہے۔ جب کھانا لگ گیا بڑئے طلائی اور زریں برتنوں میں۔ تو ہم نے شوربہ ڈال دیا، جو آغاز کرنے والا شوربہ ہوتا ہے۔ تو وہ جو چھوٹا بچہ تھا، دوسرا بڑا ادھر بیٹھا تھا، دوسرا بھی آگیا۔ کھانا تو کھانا تھا نا ساتھ۔ تو چھوٹے نے کیاکیا، وہ دہی کا ایک پیالہ اس کو لے میرےشوربے میں ڈال دیا اور چمچہ لے کر اس میں ہلادیا اور اپنی چیز کچھ کھانے لگا۔ تو میں نے کہا، کوئی بات نہیں۔ شوربے میں دہی پڑا ہے۔ اس میں کیا خرابی ہوسکتی ہے تو میں نے ایک آدھ چمچ لیا تو میڈم نے کہا:I am very sorry بچے نے misbehave کیا آپ کے ساتھ ۔ ہم بچوں کو ٹوکتے نہیں ہیں۔ ہم ان کو نفسیاتی طریقوں پر پال رہے ہیں، کیونکہ اگر بچوں کو ٹوکا جائے، ان کو منع کیا جائے تو ان کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ یہ نئی نئی تحقیق آئی ہے۔ ہم سارے لوگ یورپ کی اس تحقیق پر چل رہے ہیں۔ ہمارے جیسے پڑھے لکھے والدین اس معاملے میں بہت ہی محتاط ہیں۔ ہم بچوں کو کچھ نہیں کہتے ۔ ملازم سے کہا کہ یہ پلیٹ اٹھادو۔ اس کی جگہ اس نے نئی لا کر رکھ دی تو میں نے شوربہ ڈالا تو اس کے بڑے بیٹے نے کیچپ کی ساری بوتل پلیٹ میں انڈیل دی۔ تو میں نے کہا، میں کھاتا نہیں ہوں۔ میں ذرا سی چکن اور آلو گول سے کٹے ہوئے، وہ لے لیتا ہوں۔ وہ ڈال دئیے تو وہ جو بڑا بیٹا تھا، اس نے دیکھا کہ یہ بڑے شوق سے کھانے والا ہے۔ ابھی ایک نوالہ لیا تھا کہ اس نے اپنا آلو چڑھایا فورک کے اوپر اور یوں تلکا کے ٹھک کرکے جیسے غلیل نہیں ہوتی، میری ناک کے اوپر، میں بہت اچھے کپڑے پہن کے گیا تھا، ٹھنا ٹھن مرچیں ڈال کے، آلودہ ہوگیا۔ اس نے کہا، میں پھر معذرت چاہتی ہوں۔ اگر ہم ان کو کچھ کہیں گے، منع کریں گے تو ان کی شخصیت پر اثر پڑے گا۔ ہم نہیں چاہتے بچے کی شخصیت خراب ہو یوں آگے چل کر وہ بہتر انسان بنتا ہے۔ تو میں نے کہا، ہاں کوئی بات نہیں۔ (پھر میں نے ہاتھ ایسے کیے) جو بھی آدمی Protection کرسکتا ہے، لیکن ہونہیں سکی۔ ہاتھ ایسے کیا تو چھوٹے نے کھڑے ہوکر میرے پائوں کے اوپر اپنا پائوں بڑے زور سے مارا۔ اس کے نیچے لوہے کے وہ لگے ہوئے تھے نیلز میری چیخ نکلی خوفناک قسم کی۔ میں نے سوچا کس لیے یہاں آگیا۔ دفع کرو، لعنت بھیجو، یہ ایکڑوں کے گھر ہوتے ہیں۔ میں کہاں پھنس گیا۔ اتنے میں رسیلنی کا ٹیلی فون آگیا تو ملازم نے آکر اعلان کیا۔ اس نےکپڑا رکھاٹک ٹک کرتی اوپر چلی گئی۔ اب میں اس کی طرف دیکھ رہاہوں، اوپر جارہی ہےکہ اب جا کے ٹیلی فون سننے لگ گئی ہے۔ جب وہ ٹیلی فون سن رہی ہوگی، بچے دونوں تاک میں بیٹھے تھے۔ میں نے گالی دی۔ کہ سور میں تیراگاٹا اتاردوں گا کتے۔ اس بے چارے نے کبھی گالی نہیں سنی تھی۔ اتنی گندی گالیاں جتنی مجھے آتی تھیں، جو کہیں بھی نہیں آسکتیں تو وہ کانپ گیا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسا دیکھا نہیں تھا، وہ بے چارے ڈر گئے اور رنگ فق ہوگیا۔ میں نے کہا، اگر تم نے آواز نکالی تو کوئی اٹالین نہیں، کوئی انگریزی نہیں۔ خالص پنجابی ’’جے تو فیر ایہہ کیتا نا گل وڈ کے تھالی وچ رکھ دیاں گا۔‘‘ اور اب چہرےسے پتا چل گیا اور دہشت آگئی ان پر۔ اتنے میں وہ اپنا فون سن کے واپس آگئی اور انہوں نے کہا، وہ پھر معذرت کررہے ہیں۔ کوشش میں کررہا ہوں، موقع مجھے اگر مل جائے تو جانے نہ دینا، جائن ضرور کروں گا۔ میں نے کہا ، بڑی مہربانی۔ پھر وہ کھانا کھانے لگی۔ اور دونوں بچے بھی۔ ہم بھی کھاتے رہے تو کھانے کے دوران جب ہم اختتام پر پہنچے تو میڈم نے کہا، پروفیسر! دیکھا آپ نے، اگر بچوں کو ڈانٹا نہ جائے تو شخصیت کیسی ہوتی ہے۔ پرسکون ہوتی ہے۔ کس شرافت سے کھانا کھارہے ہیں۔ ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ نفسیات کا اچھا اصول ہے۔(زاویہ، جلد اوّل،بچوں کی نفسیات، صفحہ 17 تا20) اشفاق احمد صاحب کا یہ بیان کردہ واقعہ 1950 کا ہے جب ’’مار نہیں پیار‘‘ کا بیماری زدہ نعرہ نیا نیا بلند ہونا شروع ہوا تھا اوریورپ سے درآمد شدہ اس تحقیق یا نعرے پر عمل کے آغاز ہی میں اسکے برے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے تھےلیکن اس کے باوجود اہل مشرق اس سے کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ بخوشی وہی غلطی دہرانے کے لئے تیار ہیں جو اہل یورپ نے کی۔اس کا سہرا بڑی حد تک موٹیویشنل اسپیکرز کے سرجاتا ہے جو یورپ کی ناکام ،فرسودہ اور مردہ تحقیق میں نئی جان ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ بہرحال بچوں کو جسمانی سزا دینا ہماری روز مرہ زندگی کا اہم ترین حصّہ رہاہے یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے افسانوں، سفرناموں اور آپ بیتیوں میں جابجا بچوں کے ساتھ سختی اور مارپیٹ کے واقعات بیان ہوئے ہیں لیکن کسی مصنف نے اس طرز عمل کی مذمت بیان نہیں کی جس سے معلو م ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ سختی کے برتائو سے اجتناب ایک نیا نظریہ ہےجس کے بعض نتائج ظہور پذیر ہوچکے ہیں اور بعض نتائج ابھی آنا باقی ہیں اور ظاہر ہے کہ نہ تو وقوع پذیر نتائج اچھے ہیں اور نہ ہی وہ نتائج جو مستقبل میں واقع ہوں گے کوئی امید افزا ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ سختی برتنے کاطریقہ صدیوں پرانا ہےجس کے نتائج اور ثمرات پوری طرح طشت ازبام ہوچکے ہیںاور بچوں کی بہتری کے لئے نہایت آزمودہ اور مجرب ثابت ہوئے ہیں۔ اس حساس معاملے کے تناظر میں مغرب کی نفسیات سمجھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ دراصل مغربی اقوام خوف کو نقص اور عیب سمجھتی ہیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہےکہ ان کی موجودہ اور آنے والی نسل خوف نامی اس بیماری سے محفوظ و مامون رہے۔بات یہاں تک تو ٹھیک تھی کیونکہ ہرشخص کو ہر قوم کو آزادی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں کوئی بھی نقطہ نظر رکھےلیکن گڑبڑ وہاں شروع ہوئی جب انہوں نے اپنے نقطہ نظر کو دوسروںسے بھی بزور قوت تسلیم کروانا چاہا حالانکہ ہر معاشرے اور قوم کے ان کے مجموعی حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف نظریات ہوتے ہیں جو کہ ان کےمخصوص مذہبی اور معاشرتی حالات کے مطابق ان کے لئے تو مفید ہوسکتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے غیر مفید اور بعض اوقات نقصان دہ اور خطرناک ہوسکتے ہیںلیکن مغربی قوم اس بنیادی بات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اپنا ہر غلط و صحیح نظریہ دوسری قوموں پر تھوپنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے لہٰذا اہل مغرب نے مسلسل محنت اور بڑی جانفشانی سے ’’خوف‘‘کو ایک منفی اور قابل نفرت چیز کے طور پر پوری دنیا میںمتعارف کروایا ہےاور تیسری دنیا کے ممالک میں اپنا اثرو اسوخ استعمال کرکےکبھی بذریعہ قوت، کبھی لالچ اور کبھی ڈرا دھمکا کرکوشش کی ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک اپنی خارجی و ملکی پالیسی ان کے نظریات کے مطابق بنائیں ۔اور کبھی تو انہیں ان ہتھکنڈوں کی بھی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی کیونکہ مغربی کلچر سے مرعوب تیسری دنیا کے لوگ خود ہی ان کا ہرموقف اور ہرنظریہ اپنانے میںتیزی اور جلدبازی کامظاہرہ کرتے ہیں اور مغرب کی نقالی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میںبڑائی و فخر محسوس کرتے ہیںاور یوں انکا مشکل کام خود ہی آسان کردیتے ہیں۔ مغربی لوگوں کی مجبوری تو قابل فہم ہے کہ یہ لوگ دین فطرت یعنی اسلام سے کوسوںدور ہیں اس لئے انسانی کردار کی بہتر تشکیل میں خوف کی اہمیت و افادیت سے قطعاًنابلد اور جاہل ہیںلیکن مسلمانوں پر افسوس ہے کہ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود بھی ایسے ازلی اور ابدی غلام ابن غلام ہیں کہ مغرب کی جانب سے آنےوالی ہر چیز اور نظریے پر آنکھ بند کرکےسب سے پہلے لبیک کہتے ہیں اور اسے اپنانے کوذلّت ورسوائی کے بجائے تفاخرگردانتے ہیں۔ مغربی اقوام بھی نہایت ہوشیار اور چالاک ہیں وہ قانون توڑنے پر سزائیں مقرر کرکے اپنی عوام کوتو دن رات مبتلائے خوف رکھتی ہیں لیکن بچوں پر والدین اور اساتذہ کا ڈر مسلط کرنے کو قابل سزاجرم سمجھتی ہیں جس کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ وہ ایک بدکردار، اخلاقی اقدار سے محروم، کسی بھی پابندی سے آزاد اور ایک مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کےخواہاں ہیںایک ایسامعاشرہ جس کے باسی دنیا میں تو کامیاب ہیں لیکن روزحشر خسارہ پانےوالے ہیں۔ چونکہ آخرت اور مرنے کے بعد اپنے اعمال کی جواب دہی ان کا مطمع نظر نہیںاس لئے انہیں کوئی پرواہ بھی نہیںلیکن ایک کلمہ گو کو تو بیرونی نظریات گلے لگانے سے پہلے اتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ میری عاقبت کے لئے کتنا مفید اور کتنا نقصان دہ ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ گناہ کا علم اور معرفت نیز اچھے برے اعمال کی پہچان کبھی بھی انسان کو گناہوں سے باز نہیں رکھتی اور نہ ہی رکھ سکتی ہےبلکہ اگر کوئی چیز اسے برائیوں اور گناہوں سے بچاتی ہے وہ صرف اور صرف ایک ہی چیز ہےاور وہ ہےخوف، اللہ کا خوف اور اسی کو تقویٰ کے نام سے موسوم کیا گیا ہےاگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو کوئی بندہ بشر اللہ کا مطیع و فرمابردار نہ ہوتا اس لئے رب کائنات نے بھی انسان کو سیدھی راہ پر رکھنے اور اسکی سمت درست رکھنے کے لئے جہنم پیدا کی اور اس کے خوفناک عذابوں سے انسان کو ڈرایا ہے۔ اسی ایک بات سے انسان کی زندگی میں مختلف اقسام کے خوف کی اہمیت و افادیت کا حال معلوم ہوجاتا ہے۔جیسے قانون شکنی پر سزا پانے کا خوف لوگوں کو اچھا اور مفید شہری بناتا ہے،اللہ کا خوف اسے پوشیدہ اور چھپے ہوئے گناہوں سے باز رکھتا ہے، معاشرے اور لوگوںکا خوف اسے اعلانیہ سیاہ کاریوں سے روکتا ہے، اساتذہ کا خوف انسان کو دنیا میں کامیاب وکامران بنانے میں مدد دیتا ہے اور والدین کا خوف بچوںکو انسان سے صحیح معنوں میں انسان بناتا ہے،ایسا انسان جو تہذیب یافتہ اور مہذب ہوتا ہے جس کی خیر اور اچھائی سے مخلوق خدا نفع اٹھاتی ہے۔ ڈر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ خوف اتنا طاقت ور جذبہ ہے کہ انسان سے وہ کچھ کروا دیتا ہے عام حالات میں انسان جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مرنے کے بعد لوگوں کے طعنوں کا ڈر اور خوف ہی تھا جس نے ابو طالب کو حق پر مطلع ہونے باوجود بھی اسے اپنانے سے روکے رکھااس کے علاوہ اہل عرب شجاعت اور بہادری میں جو مشہور و معروف تھے تو ان کے جری اور بہادر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اس بات سے انتہائی خوف زدہ رہتے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد کہیں انہیں بزدلی کے طعنے نہ دئیے جائیںاور یہ جذبہ اور خوف انہیں دلیری اور بہادری پر اکساتا تھا اور وہ لڑائی میں عموماً پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگتے تھے۔ بزدل کہلانے کا ڈر انہیں مظلوم کی مدد پر ابھارتا تھا ۔ ایک بزدل انسان مظلوم کی حمایت اور مدد نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے لئے ظالم کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے جو مالی سے لے کر جانی بھی ہوسکتا ہےاور یہ خطرہ صرف وہی شخص اٹھا سکتا ہے جس کو بہادری ویعدت کی گئی ہو۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو بزدلی کے طعنے سے خوف کھانا بھی ایک نعمت ہی ہےکیونکہ لامحالہ یہ انسان کو جرات اوربہادری پر مجبور کرتی ہےاور بالآخر یہ چیز خیر اور اچھائی کا موجب بنتی ہے۔ مذکورہ بالا ان حقائق کے باوجود بھی خوف کو مطلق طور پر براجاننا اوراغیار کی دیکھا دیکھی’’ مار نہیں پیار‘‘والانعرہ لگانااوراس نظریے کی ترویج و اشاعت میں اپنی توانایاں صرف کرنا تاکہ بچے والدین ،اساتذہ اورمعاشرے کے خوف سے بے نیاز اور بے خوف ہوجائیں، اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔ عربی کے ایک مشہور و معروف پاکستانی معلم جناب عامر سہیل صاحب نے ’’لسان القرآن کورس‘‘ کی اپنی ایک کلاس میںتقویٰ اور خوف کے متعلق بات کرتے ہوئے اس موضوع پر خوب روشنی ڈالی ہے، چناچہ فرماتے ہیں: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے کہ ’’وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ‘‘ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ ایک جنت بھی ہمیں عطاء فرمائے لیکن یہ جو دو جنتوں کا وعدہ کیا جارہا ہے یہ آپ ذرا غور کریںکہ یہ کام آسان نہیں ہے...... اصل میں دیکھیں کہ اللہ کا خوف ہی تو نہیں ہے ہم میں۔میں آپ سے ڈروں گا ۔ آپ مجھ سے یا ایک دوسرے سے ڈریں گے۔ لیکن جیسے ہی ہمیں کوئی موقع ملے گا ہم گناہ کریں گے ۔ کیونکہ ہم گناہ کیوں نہیں کرتے اس لئے کہ ایک دوسرے سے ڈرتے رہتے ہیں۔ ہم پولیس سے ڈرتے ہیں، ہم قانون سے ڈرتے ہیںلیکن جس دن ہمارے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوگیاناں کہ ہم اللہ سے ڈرنے والے بن گئے ۔ اصل ڈرنا وہ ہے یاد رکھئے گا......اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اس کو ’’رَأْسُ الحِكْمةِ‘‘ قرار دیا ہے ۔ یعنی حکمت کی چوٹی ’’مَخافةُ اللهِ‘‘ اللہ کا خوف ۔ تو اللہ کا خوف ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ اور یہ بات واقعی حقیقی بات ہے کہ جب آپ خوف کو نکال دیں گے اپنے اندر سے،آج کے اسٹوڈنٹس میں سے خوف نکال دیا گیا ہے۔ مارکا خوف،سزا کا خوف ۔ یعنی وہ ’’مار نہیں پیار‘‘ والےجو نعرے لگتے ہیںوہ کیا ہیں؟اس سے دیکھیں حال کیا ہوا ہے۔یعنی استاد کا خوف جو مجھے یاد ہےیعنی ہمارا استاد وہاں سے اگر آرہا ہوتا تھا اور ہم یہاں سائیکل پر سوارہوتے تھے تواستاد کو دیکھتے ہی سائیکل سے اتر جاتے تھے اور کھڑے ہوجاتے تھے استاد جب تک قریب سے گزر نہیں جاتا تھااسے سلام کرتے تھے اور وہ جب تک دور نہیں چلاجاتا تھا ہم سائیکل پر سوار نہیں ہوتے تھے۔ اور آج کا اسٹوڈنٹ؟ مجھے یاد ہے میں ایک دن موٹر سائیکل پر جارہا تھا تو پیچھے سے مجھے کسی نے ہاتھ مار ا میری پیٹھ پرمیں نے مڑ کر دیکھا تو میرا ایک اسٹوڈنٹ تھا میرے سے پوچھتا ہے کہ ’’سر کیسے ہیں؟‘‘ تو یہ ایک ڈفرینس ہےیعنی وہ جو ہے نہ کہ فرینکنیس ہونی چاہیے آپس میں دوستی ہونی چاہیے۔پھر تو یہی کچھ ہوگا جی دوستیوں میں۔ یعنی استاد کا جو خوف ہوتا تھا والدین کا جو خوف ہوتا تھابچوں کو پتا ہوتا تھا کہ اگر ہم نے باپ کی بات نہ مانی ماں کی بات نہ مانی تو ہمیں جو جوتیاں پڑنی ہیںوہ بچوں کو پتا ہوتا تھا۔آج مار نہیں پیار والا نعرہ لگا لگا کر آپ نے جو رزلٹس حاصل کئے ہیںوہ آپ کے سامنے ہیں۔ (یوٹیوب پر دیکھئے: 04-Lecture (Lisan-ul-Quran-2018,Part-1) By Amir Sohail : وقت07 :22 تا 53:27) یہاں یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ اسلام کچھ حدود و قیود اور بعض شرائط کے ساتھ مارنے کی اجازت دیتا ہے مثلاً ۱۔ مار سخت نہ ہو۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے: نبی کریمﷺ نے ایک معلم سے فرمایا : ’’إیّاک أن تضرب فوق الثلاث فإنک إذا ضربتَ فوق الثالث اقتص اللّٰہُ منک۔‘‘ تین ضرب سے زیادہ مت مارو، اگر تم تین ضرب سے زیادہ ماروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے قصاص لے گا۔‘‘ اس حدیث کی اسنادی حیثیت اور صحت سے راقم لاعلم ہےکیونکہ اسے فقہ حنفی کی کتاب ’’رد المحتار‘‘ سے نقل کیا گیا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ شریعت سزا کے نام پر ایسی سخت مار مارنے کی شدید مخالف ہے جس میں ہڈیاں ٹوٹ جائیں یا جسم پر زخم اور نیل کے نشانات پڑ جائیںیا بدن کے کسی عضو کو نقصان پہنچے۔لہٰذا مندرجہ بالا حدیث اپنے مفہوم پر بالکل درست ہے۔ ۲۔ چہرے پر مارنے سے اجتناب کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ حدیث نص کی حیثیت رکھتی ہے: إِذَا ضَرَبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَّقِ الوَجْہ(سنن أبی داؤد:۴۴۹۰) ’’جب تم میں سے کوئی مارے تو چہرے پرمارنے سے گریز کرے۔‘‘ اور چہرے پر مارنے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس لئے چہرے کا اکرام کرتے ہوئے اس پر ضرب لگانے سے بچنا چاہیے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبْ الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ۔ ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بھائی سے جھگڑا لڑائی کرو تو چہرے (پہ مارنے) سے بچو کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے ۔ (صحیح مسلم : 2612) اس مسئلہ کو لے کرمنفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے برعکس اسلام میں بچوں اور خواتین کے لئے تادیب کی اجازت مشروط اجازت ہے نہ کہ مطلق اجازت۔ مارنے والے کے لئے اس بات کا دھیان رکھنا بھی از حد ضروری ہے کہ مار بلاوجہ نہ ہو اور نہ ہی اپنا ذاتی غصہ نکالنے کے لئے بچے کو سزا دی جائے بلکہ اس کا واحد مقصد بچے کی اصلاح اور اس کی تربیت ہونی چاہیے۔ ان باتوں کا خیال رکھ کر ہی دی جانے والی سزا مطلوبہ نتائج کی حامل ہوگی جبکہ دوسری صورت میں مارپیٹ میں بے اعتدالی بھی ہر وقت کے لاڈ وپیار کی طرح فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہے۔ چناچہ ایسے اساتذہ اور والدین جو بچے کی اصلاح کے بجائے اپنی جھنجھلاہٹ اور غصہ نکالنے کے لئے بچوںکے ساتھ مارپیٹ کرکے اپنا کلیجہ اور آتشی جذبات کو ٹھنڈا کرتے ہیں ان کی انہیں غلط حرکتوں کو بطور مثال پیش کرکے مغربی ذہنیت سے متاثر لوگوں کوجسمانی سزا کی افادیت سے انکار کا موقع ملتا ہےجبکہ جس طرح بے مقصد کی مارپیٹ افراط پر مبنی رویہ ہے اسی طرح بالکل نہ مارنا تفریط کی ایک شکل ہے جبکہ افراط اور تفریط دونوں ہی خلاف اعتدال ہیں۔ معتدل رویہ یہ ہے کہ بچوں سے زیادہ پیار کیا جائے اور مارا کم جائے اور جب بھی مارپیٹ کی نوبت آئے تو ایسی صورت میں جب اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ مغربی اقوام کی یہ خصلت اور عادت بہت اچھی اور قابل تعریف ہےکہ جب ان پر انکی غلطی واضح ہوجاتی ہے تو وہ اسے درست کرنے میں تاخیر نہیں کرتےجبکہ ہم دوسروںکی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے غلطی پر غلطی کرنا پسند کرتے ہیںلہٰذا اس معاملے میں بھی مغرب کی اندھی تقلید کا یہی منطقی نتیجہ برآمد ہوگا کہ جب بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی کا نتیجہ اور خمیازہ بھگتنے کے بعد اہل مغرب پر ان کے نظریے کا غلط اور باطل ہونا پوری طرح آشکار ہوگااور وہ اپنی غلطی سدھارنےکے لئے ایک مرتبہ پھر فطرت کی طرف پلٹیں گے تو اس وقت ہم بھی سوجوتے اور سو پیاز کھا نے کے بعد اسلامی تعلیمات کی جانب رجوع کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم نوشتہ دیوار کیوں نہیں پڑھنا چاہتےاور ٹھوکر کھانے سے پہلے سبق کیوں نہیں حاصل کرلیتے جبکہ ہمارے دین میں صحیح راہنمائی بھی موجود ہے اور ہمیں اغیار کی تقلید کی بھی ضرورت نہیں؟ مغربی چکاچوند اور طرز حیات سے متاثر ہونا اس لئے بے وقوفی ہے کہ پورا مغربی نظام غیر فطری اور غیر منطقی بنیادوں پر استوار ہے ۔ ایک جانب تو بچوں پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں والدین کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور دوسری جانب پیار و محبت کے نتیجے میں جب بچہ خودسر اور بدتمیز ہوجاتا ہے اور والدین سے جھگڑنے لگتا ہے تو والدین کی شکایت پر بچوں کوبھی جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ عبدالعزیز محمد سابقہ انٹونی ایل میسن اپنے قبول اسلام کی کہانی سناتے ہوئے بتاتے ہیں: 16سال کی عمر میں، میں اپنی والدہ کے ساتھ بحث اور لڑائی جھگڑے میں پڑ گیا اور صرف اسی وجہ سے مجھے کمسن لوگوں کے لئے بنائی گئی جیل میں جانا پڑا۔وہاں میں نے عہد کرلیا کہ ایک مرتبہ میں باہر نکل آئوںتو اپنی زندگی میں بھی تبدیلی لے آئوں گا اور کوئی ایسا راستہ تلاش کروں گاکہ دوسروں کو بھی طرز زندگی بدلنے میں مدد دوں ۔ تاہم ابھی میرے ذہن میں ایسے کسی راستے کا کوئی خاکہ موجود نہیں تھا، چناچہ ایک روز میری والدہ نے مجھے باہر نکلوالیا لیکن دو دن بعد پھر ہمارے درمیان بحث و مباحثہ ہوگیا۔( کلیساسے واپسی،صفحہ 51) اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مغرب میںبچوں اور والدین کی تربیت کا ٹھیکہ ریاست نے اٹھا رکھا ہے اور مقصد یہ ہے کہ نہ تو بچہ والدین کے معاملات میں بولے اور نہ والدین بچے کے کاموں میں مداخلت کریں اورنہ ہی بچے کی جائز و ناجائز خواہشات پر بند باندھنے کی کوشش کریں۔ بچہ اور والدین جو کچھ کرنا چاہتے ہیں بغیر کسی رکاوٹ انہیں کرنے دیا جائے۔ریاست کے اس طرز عمل کے پیچھے ان کا یہ نظریہ ہے کہ ہر شخص آزاد ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرکے اس بنیادی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کرے پھر چاہے وہ مداخلت والدین کی بچوں کے معاملات ہو یا شوہر کی بیوی اور بیوی کی شوہر کے معاملات میں یا پھر بچوں کی والدین کے معاملات میں ہو کسی صورت قابل قبول نہیں۔اسی لئے مغربی معاشرے کو مادر پدر آزاد معاشرہ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ مغرب کی اس تھیوری کے نتائج کبھی مثبت نہیں ہوسکتےاس لئے مشرق میں بسنے والوں کو آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بچے کی کردار سازی کے عمل اور اچھی تعلیم وتربیت میں مارپیٹ یا تادیب کی حیثیت آخری اقدام، مجبوری والے اختیار اورانتہائی آپشن کی ہےچناچہ شریعت کی استاد، حاکم اور والدین کو اپنے شاگر، رعایا اور اولاد کے حق میںجسمانی سزا کا اختیار دینے سےہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ یہ لوگ مستقل اپنے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑ لیںاور وقت بے وقت اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے معمولی غلطی پر بھی خطاء کار کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیںیعنی چھوٹی غلطی پر بڑی سزا دیںبلکہ صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پہلے بچے کو ہر ممکن طور پرپیار و محبت سے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیےاور اگر بچہ نرمی سے سمجھ جاتا ہےتواسے زودوکوب کرنے یا اس پر ہاتھ اٹھانے کی ضرورت باقی نہیںرہتی اور یہ بھی یاد رہے کہ بچے کی ہر خطاء قابل سزا نہیں ہوتی بعض چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز بھی کردینا چاہیے صرف ایسی غلطیوںپر بچوں کو سزا دینی چاہیے جو بعد میں جاکر ان کے لئےدینی یا دنیاوی لحاظ سے مسئلہ یا مصیبت بن سکتی ہوں لہٰذا اساتذہ، حکام اور والدین کو اپنے جائز اختیارات کے ناجائز استعمال میں اخروی جوابدہی کا خوف ضرور ہونا چاہیے۔لیکن اگر نرمی اور محبت بچے پر اپنا اثر نہیں دکھا رہی تو پھر ڈانٹ ڈپٹ کا اختیار استعمال کرنا چاہیے لیکن اگر بچہ ڈرا دھمکا کر بھی نصیحت پر کان دھرنے کو تیار نہ ہو تو پھر آخر میں باامر مجبوری اس پر ہاتھ اٹھانا چاہیےاور وہ بھی کچھ باتوں کا خیال رکھ کر جیسا کہ ماقبل بیان کیا گیا ہے یعنی چہرے پر نہ مارا جائے، جسم پرایسی شدید ضرب نہ لگائی جائے کہ زخم یا نیل پڑ جائیں اور نہ ہی کسی عضو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے اور مار کا مقصد بچے کو اس کی غلطی کا احساس دلانے کے بجائے اپنی خار اور غصہ نکالنا ہر گز نہ ہو۔مناسب مارپیٹ کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ جب بچے کو سیدھی پٹری پر لانے کے تمام اقدامت بےکار ہوجائیں تو جسمانی سزا بہرحال بچے کو تیر کی طرح سیدھا کردیتی ہے اور ہر وہ بات اور نصیحت سیدھی اس کے دل میں اتر جاتی ہے جو پیار محبت سے اسے سمجھ میں نہیں آتی۔ نوشتہ: 14مئی2022 تا 13جون 2022 ازقلم: شاہد نذیر کتابیات 1۔ پرورش پر اعتماد بچے کی، مصنفین: محمد زبیر، وجیہہ زبیر، ناشر: علی زبیر پبلیشر 2۔ کلیسا سے واپسی، تحقیق وترتیب: عبیداللہ عابد، ناشر: کتاب سرائے ، بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ 3۔ شہاب نامہ، مصنف: قدرت اللہ شہاب، ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 4۔ زاویہ،جلداوّل، تالیف: اشفاق احمد، ناشر:سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
  2. جناب دلیل مانگی ہے۔ فضول تبصرہ کسی دلیل کا نام نہیں۔
  3. بریلوی حضرات چونکہ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں اس لئے بغیر ثبوت کے ان کی اس بات کا کیسے اعتبار کیا جائے! بریلوی حضرت سے گزارش ہے کہ نواب صدیق حسن خان کے نام کی تختی کی طرف صرف تیر سے اشارہ کرنے کے بجائے واضح تصویر لگائیں تاکہ ہم بھی دیکھ سکیں کہ تختی پر واقعی انہیں کا نام کندہ ہے یا کسی بریلوی بدعتی کا؟
  4. بریلویوں اور دیوبندیوں کی تحریف و تاویل کی عادت بد جائے گی نہیں۔ میرے مضمون کے عنوان اجارہ داری کو اپنی تاویلات باطلہ کی بھینٹ چڑھا کر اسے امام اعظم اور اہلسنت والجماعت کون کر دینا انتہائی بددیانتی اور بے شرمی ہے۔ اس عمل سے بدعتی نہ تو اہل سنت والجماعت بنیں گے اور نہ ہی ان کا خود ساختہ امام، امام اعظم۔ ابوحنیفہ کو اگر کوئی دلائل سے امام اعظم تو کجا ایک عام عالم بھی ثابت کردے تو محال ہے۔ جو شخص ساری زندگی دین میں اپنی رائے داخل کرکے دین کو نقصان پہنچاتا رہا ہو اسکو امام اعظم کہنا شدید ترین گستاخی ہے۔۔
  5. سنی پرنس صاحب کے لینے کے باٹ اور، دینے کے اور کیوں نہ ہوں کہ موصوف سنی پرنس امین اوکاڑوی کذاب و دجال کے روحانی شاگرد ہیں۔ امین اوکاڑوی ایک نمبر کا جھوٹا اور دوغلا آدمی تھا۔ جیسا استاد ویسے شاگرد
×
×
  • Create New...