-
کل پوسٹس
628 -
تاریخِ رجسٹریشن
-
آخری تشریف آوری
-
جیتے ہوئے دن
46
سب کچھ Sybarite نے پوسٹ کیا
-
Aik maamlay mein aap bhaiyoo ki madad darkaar hai. Mera susraal lahore se kuch faslay per Mandi Mureedkay mein muqeem hai. Waha unn ke ghar walo per kuch mushkilaat aan pari hain. Kabhi ghar se goosht ke tukray kabhi dewaaro se khoon waghaira.. iss tarah ki safli cheezien ho rahi hain. Mein choo'nkay ke Karachi mein hun iss liye Lahore ke Ulema ke baray mein tu janta hun lekin Aamil hazrat ke baray mein tafseelaat nahi maloom. Mera susral Alhamdulillah Bukhari Syed hai, tu agar humaray Lahore mein muqeem members mein se agar koi iss mamlay mein rehnumai kar sakay tu bari nawazish hogi. Naam aur address waghaira darkar hai baqi mein unhay khud hi waha bhaij dun ga. Aur agar members mein se koi aisay sahib-e-ilm aur saheeh-ul-aqeeda Aamil se rawabit rakhta hai tu baray'meherbani baqi tafseelat mujhse phone per maloom kar lein kyu ke mere susar janab zara kam'goo kism ke aadmi hain shayad poori tafseel samjha bhi na sakein. Yaha post karne ki wajeh ye ke mein unhay kisi bad'mazhab dhoongi aamil ke paas bhaijna nahi chahta. Duaoo mein yaad rakhiye ga. Allah Hafiz.
-
did Sunita Williams - American indian astronatut, accept islam ?
Sybarite replied to Ubaid-e-Raza's topic in گفتگو فورم
Well thats a satellite picture. And yes Makkah and Madina Munwarrah shines this way because of the surrounding terrain is dark and both these places has a lot of white marble used in construction. -
did Sunita Williams - American indian astronatut, accept islam ?
Sybarite replied to Ubaid-e-Raza's topic in گفتگو فورم
Yaseen bhai ye Neil Armstrong wali kahani bhi sachi nahi, another hoax. Neil Armstrong himself denied this. There were actually two version of this hoax raised many years ago. First one said he heard the Adhaan and then visited Egypt where he heard Adhaan again and converted to Islam right away. Second version of the hoax said that he saw a crack on the moon's surface, from one end to another and then matched this with the Islamic fact of Shaq'ul'Qamar (dividing the moon) and thus became Muslim. But all of this is false and pure hoax. You can easily find Neil Armstrong's official denial to such stories. -
did Sunita Williams - American indian astronatut, accept islam ?
Sybarite replied to Ubaid-e-Raza's topic in گفتگو فورم
Its another hoax! Please don't just forward such things without prior research. First of all Sunita Williams never been to the moon but an International Space Station. Secondly she is not the first Indian astronaut in space, the first one was Kalpana Chawla. And infact after Sunita's arrival from that Space Station she quotes: "I know Ganesha was looking after me." "Up in space, the Gita and Ganesha were what kept me grounded. They put life in perspective" (Interview with India Times). So please confirm the source of info... try to search just a little bit rather than blindly forwarding such hoax. -
Lhrusa.. I am in dubai since last month.. You should've my last login date.. Anyways I'll try my best to get the required scans as soon as i get back home.
-
حضرت میں نے کہا تو سہی کہ تھوڑا سا صبر کرجائیں جناب، اس کا اسکین پیش کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اور انشااللہ یہاں رات گئی بات گئی والا معاملہ نہ ہوگا۔ رب نواز کے متعلق ہم نے اس لئے کہا کہ اگر آپ کی دیوبندیوں سے اس بابت گفتگو چل رہی ہو تو ان تک ہمارے یہ مطالبات پہنچا دیجیئے گا۔ آپ سے تھوڑی نہ مانگے ہیں اسکین ہم نے۔ رہی رب نواز سے بات کرنے کی تو یہ رب نواز بات کرنے کے لائق ہی کہاں ہے۔ کچھ سال پہلے ہمارے کچھ دوست گئے تھے ان کے پاس، ان کا ایک معتقد ہی لے گیا تھا۔ وہاں اپنی کتب کا پہلے انکار کرنے اور پھر اصلی کتاب سامنے آنے پر ان کی بولتی بند ہوگئی اور دھمکیاں دینے پر اتر آئے تھے یہ موصوف۔ خیر یہ پرانی باتیں ہیں۔
-
Aamir Cheema Shaheed Sunni Barelvi Tha
Sybarite replied to ExposingNifaq's topic in مناظرہ اور ردِ بدمذہب
-
Agar in ko TV per dekhien to janab her thori dair baad roomal se chehra saaf kartay nazar aatay hain. Ghaliban isi ki ziyadti ki wajeh se baal jharr gaye hain.
-
بلکل بجا فرمایا جناب آپ نے۔ اس حوالے کا اسکین پیش کرنا میری ذمہ داری ہے اور انشااللہ اسے نبھاؤں گا بھی۔ لیکن کچھ وقت درکار ہے اس لئے امید کرتا ہوں کہ آپ صبر سے کام لیں گے۔ ویسے اگر آپ کی دیوبندیوں سے بات ہو تو ان سے ذرا رب نواز حنفی کی تقاریر میں دیئے گئے حوالہ جات کا اسکین بھی طلب کیجیئے گا۔ اگر وہ مان جائیں تو مجھ سے لسٹ لے جائیے گا ان حوالہ جات کی جن کے اسکین درکار ہیں۔ اعلیٰحضرت رضی اللہ عنہ سے منسوب کی گئی کلمۃ الحق کا اسکین بھی ابھی تک ہمیں موصول نہیں ہوا۔ اس کی بابت بھی پتہ کیجیئے گا۔ شکریہ
-
اور کسی کا شعر نقل کرنا اس کی فضیلت کی گواہی دینا نہیں ہوتا۔ فضیلت اس طرح بیان کی جاتی ہے جیسے دیو کے بندروں کے محدث انور شاہ کشمیری نے بیان کی؛ جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا۔ تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔ (رسالہ دیوبند صفحہ 21 جمادی الاول 1330ھ)۔ اعلیٰحضرت کی تصنیف "جمل الارشاد فی اصل حرف الضاد" پر مفتی شفیع دیوبندی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ؛ حامداً و مصلیاً اما بعد ! احقر نے رسالہ ھذا علاوہ مقدمات کے بتمامہا مطالعہ کیا اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اپنے موضوع میں بے نظیر رسالہ ہے خصوصاً حرف ضاد کی تحقیق بالکل افراط و تقریظ سے پاک ہے اور نہایت بہتر تحقیق ہے مؤلف علامہ نے متقدمین کی رائے کو اختیار فرما کر ان تمام صورتوں میں فساد صلوٰۃ کا حکم دیا ہے جن میں تغیر فاحش معنٰی میں ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں احقر کا خیال بتعاًللا کابر یہ ہے کہ اپنے عمل میں تو متقدمین ہی کے قول کو اختیار کرنا چاہئیے۔ کتبہ :۔ احقر محمد شفیع غفرلہ خادم دارالافتاء دارالعلوم دیوبند یو۔پی۔ (ہند) (فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج2 ص 306)۔
-
سارے عالم میں مشہور اور پڑھے جانے والے سلامِ رضا کی نقل پر دیوبندی رسالہ ضربِ مومن میں چھپنے والا سلام۔
-
انگریز نواز امام احمد رضا نہیں بلکہ دیوبندی ھیں
Sybarite replied to Khalil Rana's topic in فتنہ وہابی دیوبندی
I just found a few interesting things from this very Francis Robinson's book "The Ulama of Farangi Mahall & Islamic Culture in South Asia". First he writes; "it is not unreasonable to assume that the deoband school might be hostile to the colonial government. This, moreover, is the story which nationalist historians have told, with the apparently clinching assertion that the founders of the school, Muhammad Qasim Nanawtawi, Rashid Ahmad Gangohi and Hajji Imdad Allah, fought in the mutiny uprising against the British." After that he writes; "But recent scholarship has blown away the fog of nationalist mythology to tell a different story, and a more interesting one. The founders of deoband, for instance, did not fight the British in the Mutiny uprising. Such claims are made only in sources written after 1920, up to which time they were dismissed by the learn men of deoband as enemy smears." He further writes; "Then, although Shah Abdul Aziz certainly did declare India Dar al-Hard, this did not mean he was mobilizing Muslims to fight the British, merely that he was alerting them to the fact that government is no longer in Muslim hands. He declared English education permissible, providing it was put to Islamic ends. He declared service under the British permissible, providing it did not harm Muslims. His own dealings with the British were not infrequent, and while he refused to serve them himself, he did not forbid his relations or his pupils to do so. His message seems to have been that, while Muslims could live as Muslims under a colonial government, it could be tolerated." I am gonna try to get this book to take a closer look what he wrote about deobandis as they think of him as some divine source of information which cant be wrong . -
انگریز نواز امام احمد رضا نہیں بلکہ دیوبندی ھیں
Sybarite replied to Khalil Rana's topic in فتنہ وہابی دیوبندی
ان علمی یتیموں کو کچھ نہ ملا تو تھانوی بن گئے! تھانوی نے مرزا کی کتابوں سے نقل ماری اور آج تھانوی کی موجودہ نسل انگریزوں کی کتابوں سے حوالے چھاپ رہی ہے۔ خود ہی الزامی ٹاپک بناتے ہیں اور پھر بھانڈا پھوٹ جانے کے ڈر سے اپنے ہی فورم پر اپنے ہی بنائے ٹاپک کو بند کرکے بھاگتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا اسے بے بسی کہا جائے یا بےشرمی!۔ اور اس ڈاکٹرفرانسس کے ای میل کی تلاش کی۔ اس کا پرسنل ای میل تو نہ ملا البتہ اس کا رائل ہولووے یونیورسٹی والا ای میل مل گیا۔ اس باؤلے سے فی الحال تو صرف یہی پوچھا ہے کہ اس معاملے میں اس کی سورس آف انفارمیشن کیا ہے۔ دیکھیں کیا جواب آتا ہے۔ کیا پتا تھانوی کو تنخواہ دینے والوں میں سے کچھ اب دیوبند کے تنخواہ دار ہوں۔ -
سب سے پہلی بات تو یہ کہ "بریلوی" کوئی مسلک نہیں، یہ ایک نسبت ہے جو مخالفین کی طرف سے ہی دی گئی جس کی بنا پر آج عوام کو یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ "بریلوی" ایک نئی اور فرقہ ناجیہ اہلسنت و الجماعت سے علیحدہ ایک جماعت ہے۔ مخالفین کے اس پروپیگنڈا کی اولین وجہ امامِ اہلسنت مجّددِ دین و ملّت الشاہ احمد رضاخاں قادری رضی اللہ عنہ کی دنیائے اسلام میں بےپناہ مقبولیت ہی رہی۔ اعلٰیحضرت رضی اللہ عنہ کی بدمذہبوں، دین کے اہزنوں اور گستاخانِ رسولﷺ کے غیراسلامی افکارونظریات کی سرکوبی کے ردّعمل کے طور پر محض ضد اور عناد کی بنا پر مخالفین نے انہیں اور ان کے ہم مسلک علما و مشائخ کو "بریلوی" کا نام دیا تاکہ ناواقف عوام کو یہ باور کراسکیں کہ دوسرے باطل فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمینِ ہند میں پیدا ہوا اور اس سے پہلے اس فرقے کے افکارونظریات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ! اس لئے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سب سے اپنوں اور بیگانوں کی تحریرات سے یہ واضح کردوں کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ یہ وہی جماعت ہے جنہیں اہلسنت والجماعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ علما اہلسنت کی وضاحت؛ 1۔ امام احمدرضاخان رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری مدظلہ عالیہ سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ؛ "بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، حضورﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں، حضورﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضورﷺ کی امت کے اولیااللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14) 2۔ مبلغِ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی فرماتے ہیں؛ غور فرمائیے کہ فاضلِ بریلی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے۔ از اول تا آخر مقّلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب و سنّت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجماں رہی۔ نیز صالحین وائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہیں۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے سبیلِ مومنین صالحین سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے شخص کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات وتشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلف ِصالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو بریلوی کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنّیت کا بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کا وجود فاضلِ بریلی کے وجود سے پہلے تسلیم نہیں کرلیا گیا؟(تقدیم، دورِ حاضر میں بریلوی اہلسنت کا علامتی نشان، ص 10-11) 3۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد مظہری اس بارے میں فرماتے ہیں کہ؛ "امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔(آئینہ رضویات، ص 300) ۔ آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے۔(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69) اور کافی علما اہلسنت کے اقوال موجود ہیں لیکن سب کو یہاں پیش کرنا طوالت کا سبب ہوگا اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اب ذرا مخالفین کی گواہیاں ملاحظہ ہوں۔ 1۔ سلیمان ندوی لکھتے ہیں؛ تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہلِ سنہ کہتا رہا۔ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علما تھے۔(حیاتِ شبلی، ص 46) 2۔ ثنااللہ امرتسری نے 1938 میں یہ لکھتے ہیں: اسّی سال پہلے قریباَ سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔(شمع توحید، ص 53) 3۔ اہلسنت کے خلاف لکھی جانے والی کتاب میں بھی یہی گواہی ہے؛ "یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام اور برِصغیر کے فرقوں میں اپنی شکل وشباہت کے اعتبار سے اگرچہ نئی ہے لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم اور پہلے کی ہے۔(احسان الٰہی ظہیر، البریلویۃ (عربی) ، ص 7) یہ اور بات ہے کہ اس کتاب کے مترجم عطاالرحمٰن ثاقب نے ترجمہ میں ان الفاظ کو ہی ہضم کرڈالا جن کا معنی تھا "اہلسنت افکاروعقائد کے اعتبار سے قدیم ہیں"، لیکن عربی نسخے میں اصل عبارت دکھائی جاسکتی ہے۔ یہی احسان الٰہی ظہیر یہ بھی لکھتے ہیں؛ "ابتداَ میرا گمان تھا کہ یہ فرقہ پاک وہند سے باہر موجود نہیں ہوگا مگر یہ گمان زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ میں نے یہی عقائد مشرق کے آخری حصے سے مغرب کے آخری حصے تک اور افریقا سے ایشیا تک اسلامی ممالک میں دیکھے۔(البریلویۃ، ص 10) 4۔ مولوی مظہرحسین دیوبندی ماہنامہ "حق چاریار" میں سیّد محمد بن علوی مالکی کے بارے میں لکھتے ہیں؛ "ایک موقع پر جناب علوی مالکی نے ایک مجلس میں کہا؛ سیّدی علامہ مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کو ہم ان کی تصنیفات اور تالیفات کے ذریعے جانتے ہیں۔ وہ اہلسنہ کے علامہ تھے۔ ان سے محبت کرنا سنّی ہونے کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا اہل بدعت کی نشانی ہے۔ اعلیٰحضرت کی ایک ہزار سے زائد کتب اور ان کی تعلیمات و تحریرات آج بھی موجود ہیں اور ان میں کتاب و سنت کے خلاف یا ان سے متضاد کوئی بات پیش نہیں کی جا سکی ہے بلکہ ان کے مخالفین نے بھی انہیں سچا عاشق رسول اور عالم حق تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں تو کافی کچھ لکھا جا چکا۔ ہندوستان کو داراسلام کس کس نے کہا یہ بھی واضح کرچکے ہم۔ اعلٰحضرت کی تصنیفِ لطیف "اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام" آج تک چھپ رہی لیکن اس کا فقہی ردّ اب تک کسی سے ممکن نہ ہوا اور نہ قیامت تک ہوسکے گا۔ اس مسئلہ پر تحقیق پسند حضرات کو چاہئیے کہ مذکورہ کتاب کے ساتھ ساتھ "المحجة المؤتمنة في آية الممتحنة" کا بھی مطالعہ کرے۔ مزید یہ کہ اعلٰیحضرت ولادت ہوئی 1856 میں تقریباً سولہ سال بعد سنِ شعوروسنِ بلوغت کو پہنچے۔ اب ذرا بحوالہ کتب کوئی بتلائے کہ اس وقت دیوبندی اکابرین کہاں کس جگہ انگریزوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے اور اعلٰیحضرت کا وہ فتوٰی کہاں ہے کہ جسے پڑھ کر علما دیوبند جہاد ترک کرکے روپوش ہوگئے تھے اور بہت سوں نے انگریز کی ملازمتیں اور نوکریاں قبول کرلیں تھیں؟ ڈاکٹرمبارک علی غالباَ یہاں یہ موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ فرقہ دیوبند بریلویت سے کافی پہلے وجود میں آیا اور آگے چل کر اسے واضح انداز میں بھی بیان کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ان کی بےعلمی کی دلیل ہے۔ مدرسہ دیوبند کے وجود میں آنے سے پہلے اہلسنت والجماعت کے کئی مدارس ہندوستان میں موجود تھے۔ علما بدایوں کا مدرسہ قادریہ بدایوں دیوبند سے پہلے بھی موجود تھا۔ علامہ لطف اللہ کا دارالعلوم علی گڑھ، مولانا ہدایت جونپوری کا مدرسہ حںفیہ، رامپور میں مولانا ارشاد حسین نقشبندی کا مدرسہ، اجمیر شریف میں جامعہ معینیہ عثمانیہ اور دیگر بہت سے مدارس دارالعلوم دیوبند کے قیام سے پہلے موجود تھے جن میں سے کافی انگریز کے غلبے کے بعد نیست و نابود کردیئے گئے۔ اور ویسے بھی کسی مدرسہ کا پہلے سے وجود ہونا اس کی حقانیت کی دلیل نہیں وگرنہ تو حضورِ اقدسﷺ کی ولادتِ باسعادت سے پہلے خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے اور حضور اقدسﷺ نے بعد میں نزولِ اجلال فرمایا تو کیا بتوں کا نبیِ اکرم ﷺ سے پہلے موجود ہونا بت پرستوں کی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ اور ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ انگریز 1857 کے غلبے کے بعد ایک طرف تو مسلم سلطنتِ دہلی سے مدارس کو تہہ وبالا کررہا تھا وہاں دوسری طرف سلطنتِ دہلی سے صرف 96 میل دور ہندوؤں کی مشہور و معروف قدیم بستی "دیوی بن" یا "دیبی بن" (زمانہ حال کا دیوبند) میں ایک نئے مدرسے کے قیام و اجرا سے بےخبر رہا اور اس مدرسہ کے قیام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی؟ ہاں بعد میں لیفٹیننٹ گورنر سرجان ڈگلس، لفٹیننٹ گورنر مسٹر پامر، سرجیمز مسٹن وغیرہ سے تفتیشی معائنے ضرور کرائے گئے لیکن خدا ہی جانے کہ دارالعلوم دیوبند میں ایسے کون سے تہہ خانے تھے جہاں مجاہدین کی سرگرمیاں جاری تھیں جو اتنے معائنوں کے بعد بھی کسی انگریز تفتیشی آفیسرز کی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔ غالباً اسکیم یہ رہی ہوگی کہ انگریز سے وظیفے، عطیے، چندے اور معاوضے لے لے کر انہیں اس قدر کنگال کردیں کہ وہ خود ہی ہندوستان چھوڑ کر بھاگ جائے اسی لئے اتنے تفتیشی معائنوں کے بعد بھی انگریز کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ لارڈ میکالے کے مرتبہ اصولوں کو دیکھیں تو کافی کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ لارڈ میکالے کے اصول کے تحت؛ "ہمیں (انگریزوں کو) ایک ایسی جماعت بنانی چاہئیے جو ہم میں اور ہماری کڑوڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہئیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔ (مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص 147، بحوالہ میجر باسو، ص 87) اب آئیے سوانح قاسمی پر نظر ڈالیں تو تصویر کا یہ رخ اور واضح نظر آئے گا۔ "عربی کالج (دہلی) کی مشین میں جو کل پرزے ڈھالے جاتے تھے ان کے متعلق طے کیا گیا تھا کہ صورت وشکل کے اور بیرونی لوازم کے حساب سے تو وہ مولوی ہوں اور مذاق ورائے اور سمجھ کے اعتبار سے آزادی کے ساتھ حق کی تلاش کرنے والی جماعت ہو"۔(سوانح قاسمی، ج ا، ص 97-96) جبکہ یہ عربی کالج (دہلی) انگریزوں کی ہی سرپرستی میں تھا۔ اب انگریزوں کی سرپرستی میں "آزادی کے ساتھ حق کی تلاش کرنے والے" کیسے کیسے پرزے تیار کئے گئے ہونگے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں لیکن بڑے اختصار سے واضح کرتے چلیں کہ اکابرِ دیوبند میں سے مسلمہ اور سرکردہ حضرات قاسم نانوتوی کے استادِ محترم مملوک علی اور مولوی احسن نانوتوی اور خود قاسم نانوتوی وغیرہ انگریزوں کے اسی عربی کالج دہلی کے تربیت یافتہ تھے۔ حتیٰ کہ سرسّید کی فرمائش پر گاڈ فری بگنس کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ مولوی احسن نانوتوی نے ہی کیا تھا۔(مولانا احسن نانوتوی، ص 77،25) (ارواحِ ثلاثہ، ص 301) (تذکرہ علما ہند، ص 210) مزید سواںح قاسمی میں یہ بھی اقرار ہے کہ؛ "(مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت ) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنز تھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کو شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی ( حاشیہ سوانح قاسمی، ج 2، ص 247) غالبا اسی طمانیت کی بنا پر انگریز کے غاصبانہ قبضے میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں بھی ڈاکٹرمبارک علی نے اپنی کم علمی یا علمی خیانت کی بنا پر غلط بیانی کی ہے۔ علما دیوبند نے ابنِ عبدالوہاب نجدی کے پیرو اسماعیل دہلوی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے علاوہ سبھی کو بدعت اور مشرک قرار دینے کی جو مہم شروع کی تھی آج تک اسی روش پر چلتے ہوئے انہیں معمولات کو شرک اور بدعت قرار دیا جو کتاب و سنّت اور سلفِ صالحین سے ثابت ہیں۔ ان کا تفصیلی تذکرہ آگے کروں گا۔ رہی بات علما دیوبند کی مقبولیت کی تو اس بات کا تو خود علما دیوبند کو بھی اقرار ہے کہ ان کے اکابرین کی متنازع کتب پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بقول علامہ اقبال دیوبندیت کا سرچشمہ وہابیت ہی ہے اور اس کی گواہی خود دیوبندیوں کے گھر میں موجود ہے۔ اپنی جماعت کی مصلحت کے لئے حضورﷺ کے فضائل بیان کئے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔(اشرف السوانح، حصہ 1، ص 76) اسمعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان کے ردّ میں علما نے بیشتر کتب لکھیں جن میں خود دہلوی خانوادے کے علما بھی شامل ہیں۔ خود اسمعیل دہلوی اپنی کتاب "تقویۃ الایمان" کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ؛ "میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ آگئے ہیں اور بعض جگہ تشّدد بھی ہوگیا ہے۔ ان وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی اشاعت سے شورش ضرور ہوگی۔ گو کہ اس سے شورش ہوگی مگر توقع ہے کہ لڑبھڑ کر خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔(ارواحِ ثلاثہِ، ص 81) اسماعیل دہلوی کی یہ توقع پوری ہوئی، اس سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا حتٰی کہ خون خرابا تک ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔ رہ گئی یہ توقع کہ لڑبھڑ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے، ایں خیال است و محال است و جنوں! دیوبندی عالم احمد رضا بجنوری اسی کتاب کی بابت لکھتے ہیں کہ؛ افسوس ہے کہ اس کتاب تقویۃ الایمان کی وجہ سے مسلمانانِ ہندوپاک جن کی تعداد بیس کڑوڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوّے صد حںفی المسلک ہیں، دو گرہوں میں بٹ گئے۔ ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسی خطے میں ایک امام ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں۔ (انوار الباری، ج 11، ص 107) سرسّید احمد خاں جو عقائد کے اعتبار سے نیچریت کی طرف مائل تھے اس کتاب کے بارے میں حقیقت بیان کرتے ہیں کہ؛ جن چودہ کتابوں کا ذکر ڈاکٹر ہنڑ نے اپنی کتاب میں کیا ہے ان میں سے ساتویں کتاب تقویۃ الایمان ہے چناچہ اس کتاب کا انگریز ترجمہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی (لندن) کے رسالے جلد 12، 1825 میں چھپا۔(مقالاتِ سرسّید، ج 9، ص 17 ابھی اسماعیل دہلوی کی تقویۃالایمان کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہ مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی۔ اس مذموم کتاب کو کتنی مقبولیت ملی اس کے گواہی خود اشرف تھانوی دیتے ہیں؛ "جس وقت مولانا نانوتوی صاحب نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبد الحئی کے۔"(الافاضات الیومیہ، ج 4، ملفوظ 927) اس سب کے بعد بھی اسے "مقبولیت" قرار دینا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹرمبارک علی حسبِ سابق یہاں بھی اپنی علمیت کا بھرپور مظاہر kرتے ہوئے اعلیٰحضرت پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے یہ مکتبہ فکر 1920 میں قائم کیا۔ لیکن حقیقت میں اول تو اعلٰیحضرت نے کسی نئے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی ہی نہیں۔ خود معتمد دیوبندی مورخ شیخ محمد اکرام ایم اے کہتے ہیں کہ؛(ان کی اس تصنیف کا حوالہ جامعہ بنوریہ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے) ”انہوں (اعلٰیحضرت) نے نہایت شدّت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“ ﴿موج کوثر: ص: 70﴾ دوئم اگر اس سے دارالعلوم منظرِاسلام کا قیام بھی مراد لی جائے تو بھی یہ تاریخ صحیح نہیں کہ دارالعلوم منظرِاسلام کی بنیاد 1904 میں رکھی گئی۔ 1920 تک تو اعلٰیحضرت شیخ ہدایت اللہ بن محمد بن محمد سعید السنی مہاجر مدنی، شیخ موسٰی علی الشامی الازہری اور حافظ کتب الحرم سیّد اسمعیل خلیل مکّی جیسے جیّد علما کرام کی جانب سے "امام الائمہ المجّدد الھندہ الامہ، خاتم الفقہا والمحدثین" جیسے عالی مرتب القابات سے نوازے جاچکے تھے۔ یہ بھی ڈاکٹرمبارک علی صاحب کی خام خیالی ہے کہ یہ تمام معمولات ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں نے اختیار کئے ورنہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معمولات تو سلفِ صالحین سے تواتر سے ثابت ہیں۔ ان معمولات کے جواز کی تفصیل میں تو فی الحال نہیں جایا جاسکتا کہ اس میں ہر موضوع تفصیلی گفتگو کا متقاضی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان میں سے اکثر معمولات کے جواز کا ثبوت علما دیوبند کی کتب میں بھی موجود ہے جیسا کہ مزارات کی زیارت، نذرونیاز، فاتحہ خوانی وغیرہ۔ البتہ موسیقی کے بارے میں ڈاکٹرصاحب نے پھر غلط بیانی سے کام لیا ہے کیونکہ اعلٰیحضرت نے فتاوٰی رضویہ میں موسیقی کے حرام ہونے پر فتوٰی دیا ہے چاہے وہ قوالی میں ہو یا گانے بجانے میں۔ ہاں 11 اپریل 2002 کو آغاز اخبار میں سابقہ گلوکار اور حال تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن جنید جمشید کا یہ بیان ان سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ "موسیقی کو حرام نہیں کہا، نغمے گاؤں گا۔ جنید جمشید۔ اسلام کی روح کے مطابق موسیقی پر کام کرکے دکھاؤں گا، پریس کانفرنس سے خطاب" اسی خبر میں دیوبندیوں کے مشہور عالم تقی عثمانی کا قول بھی نقل کیا ہے کہ؛ اسلام بھی موسیقی کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام نے موسیقی کے لئے ایک حد مقرر کردی ہےـ اب یہ تو دیوبندی علما یا ڈاکٹرمبارک ہی بتلائیں گے کہ اسلام میں کس قسم کی موسیقی جائز ہے اور کون سی ناجائز۔ اب بار بار ڈاکٹرمبارک علی کی علمیت پر گفتگو کرنے میں تو ہمیں شرم آرہی ہے لیکن انہیں یقیناً اس کم علمی کے باوجود بھی اس موضوع پر خود کو کچھ لکھنے کا اہل سمجھنے میں شرم نہیں آئی ہوگی۔ صرف تقویۃ الایمان کے بارے میں ہی ہم بتلا چکے کہ اس تصنیفِ رذیل کے موجب مسلمانانِ ہند میں کیسا انتشار پیدا ہوا تھا جو اب تک جاری ہے اور جس شدّت میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ رہی بات دونوں فریقین کا ایک دوسرے کی تکفیر کرنا تو اہلسنت و الجماعت پر تکفیر کے فتوے تو آجکل کہ یہ دو دو ٹکّے کے مفتی لگاتے ہیں ورنہ اکابرینِ دیوبند میں سے کسی نے بھی اہلسنت و الجماعت (بریلوی) کی تکفیر نہیں کی۔ ایک شخص نے (اشرف علی تھانوی) سے پوچھا، ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ فرمایا ہاں، ہم ان کو کافر نہیں کہتے اگرچہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں۔(قصص الاکابر، ص 99) ہاں ہماری طرف سے جن علما پر تکفیر کی گئی وہ آج بھی قائم ہے کیونکہ جنہوں نے وہ گستاخیاں کی وہ تو رجوع یا اپنا موقف ثابت کئے بغیر فوت ہوگئے۔ یہ مذہب کا علاقائی پسِ منظر سے جوڑ ہمیں تو سمجھ نہیں آتا۔ ہم نے تو پنجاب، سندھ، بلوچستان، سارے پاکستان میں ہی عوام کو مدرسے جاتے دیکھا ہے۔ یہاں خیبر پختونخواہ کو کس وجہ سے نمایاں طور پر پیش کیا جارہا ہے اس کی وجہ تو ڈاکٹرمبارک ہی جانیں۔ اگر بات صرف زندگی میں رنگینی نہ ہونے کی ہے تو پاکستان کے بیشتر دیہات میں یہی معاملہ ہے۔ البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سود اور لواطت کی لعنت کے ساتھ ساتھ کم عمر لڑکیوں کی نکاح کے نام پر خرید و فروخت کرنے کے واقعات سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ میں ہی ہوتے ہیں۔ اگر کسی تہوار پر کھانا پکوانا رنگینی ہے تو اس طرح تو ساری امّت ہی رنگین مزاج قرار پائے گی کہ شادی بیاہ، سالگرہ اور دیگر تقریبات میں کھانے کی ضیافت سبھی کا معمول ہے۔ اور رہی بات دیوبندی مسلک میں رنگینی کی تو جتنی رنگینی ہم نے اس مسلک میں دیکھی، قادیانیت کے سوا اور کہیں نہیں دیکھی۔ اس پر حوالہ جات جسے درکار ہوں مانگ لے کہ ایسے پبلک فورم پر بزرگ بھی ہوں اور خواتین بھی اور ان سب کے بیچ ہماری غیرت ہمیں ایسے فحش قصے بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ چلئیے کہیں تو سچ کہا ڈاکٹرصاحب نے! یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں افتراق بین المسلمین کی سب سے بڑی وجہ وہابیت ہی تھی اور اسے پھیلانے والے اسمعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی ہی تھے۔ ان کے جہاد کی اصلیت اور سرحد میں ان کا کیا اثرورسوخ تھا اس کی تفصیل ان کے سوانح نگاروں خوب لکھی ہے لیکن پہلے ذرا سید احمد کے علمی حالات پر نظر ڈالتے ہیں پھر آگے بڑھیں گے؛ "بزرگ سید بچپن میں اپنے غیر معمولی سکوت کی وجہ سے پرلے درجے کا غبی مشہور ہوگئے تھے اور لوگوں کا خیال تھا کہ اسے تعلیم دینا بےسود ہے۔ کبھی کچھ آئے جائے گا نہیں۔ میں ذہن کی طرف کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا، صرف اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سید کی بچپن میں کیا پوری جوانی میں بھی لکھنے پڑھنے کی طرف طبعیت رجوع نہ تھی۔(حیاتِ طیبہ، ص 37) اسی کے آگے مزید لکھا ہے کہ: "جب وہ ایک ایک جملے کو گھنٹوں جپے جاتا تھا تب کہیں کسی قدر یاد آتا تھا اور دوسرے دن تماشا یہ تھا کہ وہ بھی چوپٹ۔ جب یہ کیفیت ہوئی تو والدین اور میاں جی کو تنبیہہ پڑنے لگی اور گھر کی جھڑکی آنکھیں نکالنے سے گزر کر مار پیٹ تک نوبت پہنچ گئی۔ اسے سے بھی والدین کی آرزو پوری نہ ہوئی۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ قدرتی طور پر اس کے دماغ میں قفل لگ گیا ہے اور یہ کسی طرح کی تنبیہہ سے بھی نہیں پڑھ سکتا تو ناچار ہوکر پڑھنے سے اٹھا لیا۔(حیاتِ طیبہ، ص 137 "آپ نے تین سال کی طویل مدّت میں قرآنِ کریم کی چند سورتیں پڑھیں اور حرفِ ہجا لکھنے سیکھے۔"(مخزنِ احمدی، ص 12) لیکن ان کے معتقدین کا کمال ہے کہ اپنے اس پیشوا کی جہالت کو سرکارِ ابد قرارﷺ کے معجزہ امّیت سے ملاتے ہیں۔ خیر یہ تو تھی اس مسلک کے پیشوا کی ذہنی کیفیت اور علمی حالات۔ اب جہاد کی اصلیت پر آئیے۔ سید احمد بریلوی کے بھانجے سید محمد علی لکھتے ہیں؛ "جب اندھیرا ہوگیا، اس وقت دیدبانوں نے عرض کیا کہ کچھ مشعلیں ہماری طرف آرہی ہیں۔ اسی گفتگو کے دوران کیا دیکھتے ہیں کہ ایک انگریز گھوڑے پر سوار مختلف قسم کے کھانے لے کر کشتی کے قریب کھڑا ہے اور پوچھتا ہے، پادری صاحب کہاں ہیں؟ سید صاحب نے کشتی سے جواب دیا کہ میں یہاں موجود ہوں، تشریف لائیے۔ انگریز فورا گھوڑے سے اترا اور اپنی ٹوپی سر سے اتار کر کشتی میں سید صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ مزاج پرسی کے بعد عرض کیا کہ میں نے اپنے نوکروں کو آپ کے قافلہ کی آمد کی اطلاع کے لئے متعین کر رکھا تھا۔ آج خبر ملی آپ مع قافلہ اس طرف آرہے ہیں۔ یہ خوشخبری سن کر میں نے کھانا تیار کیا اور خدمت میں حاضر ہوگیا۔ حضرت نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ فورا کھانا اپنے برتنوں میں لے کر قافلے میں تقسیم کردو۔ قریب دو گھڑی تک وہ انگریز حضور میں حاضر رہا۔(مخزنِ احمدی فارسی، ص 67) سياسي مصلحت كي بنا پر سيد احمد صاحب نے اعلان كيا كه سركار انگريز سے همارا مقابله نهيں اور نه هميں اس سے كچھ مخاصمت هے ۔ هم صرف سكھوں سے اپنے بھائيوں كا انتقام ليں گے۔ يهي وجه تھي كه حكام انگلشيه بالكل باخبر نه هوئے اور نه ان كي تياري ميں مانع آئے۔﴿حيات طيبه، ص 260﴾ "سيد صاحب كا انگريزي سركار سے جهاد كرنے كا هر گز اراده نهيں تھا، وه اس وقت آزاد عمل داری كو اپنی هی عمل داري سمجھتے تھے۔ اس ميں شك نهيں كه سركار انگريز اس وقت سيد صاحب كے خلاف هوتی تو هندستان سے سيد صاحب كو كچھ بھی مدد نه ملتی، مگر سركار انگريزي اس وقت دل سے چاهتی تھی كه سكھوں كا زور كم هو۔"﴿حيات سيد احمد شهيد، ص 293﴾ "کلکتہ میں جب مولان اسمعیل صاحب نے جہاد کا وعظ فرمانا شروع کیا ہے اور سکھوں کے مظالم کی کیفیت پیش کی ہے تو ایک شخص نے دریافت کیا، آپ انگریزوں پر جہاد کا فتوٰی کیوں نہیں دیتے۔ آپ نے جواب دیا ان پر جہاد کسی طرح واجب نہیں ہے۔ ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے بلکہ اگر ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں۔(حیاتِ طیبہ، ص 324) پہاڑی علاقے سے ہمیں مقالاتِ سرسید سے ایک پہاڑی قسم کا حوالہ یاد آگیا جو اسی پہاڑی قوم کے متعلق ہے۔ "یہ (پہاڑی) قوم مذہبی مخالفت میں نہایت سخت ہے۔ اس سبب سے اس قوم نے اخیر میں وہابیوں سے دغا کرکے سکھوں سے اتفاق کرلیا اور مولوی محمد اسماعیل اور سید احمد کو شہید کردیا۔(مقالاتِ سرسید، 9: 139۔140) دیوبندی حضرات سید احمد کو تحریکِ آزادی کی بنیادی تحریک چلانے والا مردِ مجاہد بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن ارواحِ ثلاثہ میں کچھ اس طرح ہے؛ "سید صاحب نے پہلا جہاد مسمی یار محمد خاں حاکم یاغستان سے کیا تھا"۔(ارواحِ ثلاثہ، ص 159۔160) اسی صفحہ پر آگے سکھوں سے جہاد کی تفصیل بھی لکھی ہے جہاں سے یہ سید احمد صاحب غائب ہوگئے تھے کہ بقول انکے انہیں "اب غائب رہنے کا حکم ہوا ہے"۔ اور دوسری طرف اسمعیل دہلوی کے قتل (جسے وہابیہ شہادت قرار دیتی ہے) کی داستان بھی عجیب ہے۔ وہابیہ کہتے ہیں کہ اسمعیل دہلوی سرحد میں سکھوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اور ابھی کچھ عرصہ پہلے بالاکوٹ میں زلزلے کے حوالے سے یہ قصہ بھی مشہور کیا گیا کہ اتنے شدید زلزلے کے بعد بھی اسماعیل دہلوی کی قبر صحیح سلامت رہی۔ یاد رہے کہ یہ وہی وہابیہ ہیں جنہوں نے توحید کے نام پر جنّت البقیع اور جنّت المعلٰی میں اہلبیت و اصحابِ کرام کی قبور کو مسمار کیا۔ اوّل تو 1893 تک اسماعیل دہلوی کی اس قبر کا کوئی وجود ہی نہ تھا، 62 سال بعد خان عجب خان (نائب تحصیلدار) نے اندازوں کی بنیاد پر ایک جگہ نشان قائم کردیا، اس کی تفصیل غلام رسول مہر کی تصنیف "سید احمد شہید" میں پڑھی جاسکتی ہے۔ ایسی جعلی فرضی غیرثابت قبر اگر کسی اپنے کی نہ ہوتی تو وہابیہ خود ہی ابتک اسے بیعتِ رضوان والے درخت کی مثال دے کر نیست ونابود کرچکے ہوتے لیکن وہابیہ کہ یہاں لینے کے باٹ اور ہیں، دینے کے اور۔ ضلع ہزارہ کی تاریخ "تاریخِ ہزارہ" میں اسمعیل دہلوی کے قتل کی داستان یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ جرگہ یوسف زئی کے پٹھان جو کہ سکھوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھے اور مولوی اسماعیل کے حامی ہوچکے تھے ان کے خاندانوں میں رواج تھا کہ یہ لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی دیر سے کرتے تھے۔ مولوی اسماعیل نے خلیفہ سید احمد کو اس امر کی اطلاع دی تو خلیفہ صاحب نے ان پٹھانوں پر شرعی حکومت کا زور دے کر ان کی لڑکیوں میں بیس لڑکیاں اپنے پنجابی ہمرائیوں سے بیاہ لیں اور کچھ پٹھانوں کو راضی کرکے دو لڑکیوں کا نکاح خود کرلیا۔ اس معاملہ سے تمام یوسف زئی جرگہ میں مولوی اسماعیل اور سید احمد کے متعلق نفرت پھیل گئی اور ان لوگوں نے سید احمد کی بیعت توڑ دی اور اپنی لڑکیاں واپس لینےکا مطالبہ کیا۔ مولوی اسماعیل وغیرہ نے انکار کیا تو سید احمد اور مولوی اسماعیل نے ان پٹھانوں پر کفر کا فتوٰی دے کر ان سے جہاد کرنا فرض قرار دے دیا۔ ادھر پٹھانوں نے تنظیم قائم کرلی۔ ادھر پنجابیوں نے مقابلہ کیا بلاآخر پٹھان غالب ہوتے نظر آئے تو ایک روز خود مولوی اسماعیل پٹھانوں سے مقابلے کے لئے نکلا۔ ایک یوسف زئی پٹھان نے ایسی گولی چسپ کی کہ سب سے اول اسماعیل ہی کا خاتمہ کردیا اور وہ وہیں ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پنجابی بھاگ گئے اور پٹھان کامیاب ہوئے۔ (تاریخِ ہزارہ، انوارِ صداقت ص 519، فریاد المسلمین، ج 2، ص 284) اس کی تائید میں کئی حوالے اور بھی ہیں۔ اول تو سکھوں سے اس جہاد کا فائدہ بھی انگریز کو ہی پہنچا اور وہ پنجاب پر قابض ہوئے جب کہ سکھوں کے طاقتور رہتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا۔ مزید اسماعیل دہلوی اور سید احمد صاحب کا نکتہ نظر بھی یہ تھا جو کہ ان کی مخالفت کرے وہ مشرک و مرتد اور واجب القتل ہے۔ سید احمد کو امیرالمومنین بنانے کے سلسلے میں اسماعیل دہلوی کا یہ خط کافی باتوں کو واضح کرتا ہے۔ "جو شخص آںجناب (سید احمد) کی امامت ابتدا ہی سے قبول نہ کرے یا قبول کرنے کے بعد اس سے انکار کرے، وہ ایسا باغی ہے کہ اس کا خون بہانا حلال ہے اور اس کا قتل کرنا کافروں کے قتل کی طرح عین جہاد ہے۔ اس کی ہتک کرنی فسادیوں کی ہتک کی طرح رب العباد کی عین مرضی ہے کیوںکہ ایسے لوگ احادیثِ متواترہ کے حکم سے کتّے کی چال چلنے والے ملعونینِ اشرار ہیں۔ اس معاملے میں عاجز کا یہی مسلک ہے لہذا اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کا جواب تلوار کی مار ہے نہ کے تحریروتقریر۔"(مکتوباتِ سید احمد، مکتوب 31) یہی سب کچھ ابن عبدالوہاب نجدی نے حجازِ مقدس کی پاک سرزمین پر کیا تھا اور اسی کے ںظریات کو اسماعیل دہلوی نے برِصغیر میں فروغ دیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان لوگوں نے روافض کے مسلک کو لیا یا خوارج کے۔ امامت کا مسئلہ روافض کا ہے، گناہِ کبیرہ کے مرتکب کا خون بہانا خوارج کا مسلک ہے۔ سید احمد کی امامت سے اختلاف کرنے والوں کو واجب القتل قرار دینے والوں چاہئیے تھا کہ اصحابِ کرام کے حالات کو دیکھتے جہاں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے مولٰی صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی تھی لیکن پھر بھی ان دونوں حضرات سے کسی نے تعرض نہ کیا تھا۔ انہیں سید احمد کے متعلق مہدی ہونے کا دعوی بھی ملتا ہے۔ "شیخ ولایت علی صادقپوری نے دعوٰی کیا ہے کہ امام امیر (سید احمد) ہی مہدی موعود ہیں، وہ لڑائی میں شہید نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کی نظروں سے چھپ گئے ہیں اور وہ اس عالم میں موجود ہیں۔"(حزبِ امام ولی اللہ دہلوی کی اجمالی تاریخ کا مقدمہ، ص 148 ) یہی وجہ تھی کہ جہاد کے نام پر مسلمانوں کا خون بہانے والی اس تحریک کا ردّ کیا گیا جس کا اعتراف کرتے ہوئے اسماعیل دہلوی کہتے ہیں؛ "معلوم ہوا کہ ہندوستان کے رہنے والے اکثر اسلام کے مدعی، جن میں عقلمند فضلا، مشائخ طریقت، مغرور امرا اور ان کے فاجر و فاسق پیرو بلکہ تمام شریرالنفس منافق اور بدخصلت فاسقوں نے دینِ محمد کو خیرباد کہہ کر کفروارتداد کا راستہ اختیار کرلیا ہے اور جہاد کی کوشش کرنے والوں پر طعن و تشنیع کی زبان کھول رکھی ہے۔"(مکتوباتِ سید احمد، مکتوب 30) خیر اس جہاد کی تفصیل علی گڑھ کے سید مراد علی کی تصنیف "تاریخِ تناولیاں" میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ جناب 1872 میں بہ سلسلہ ملازمت بلاکوٹ گئے اور وہاں بوڑھے افراد سے واقعات معلوم کرکے نقل کئے، یہ وہ وقت تھا جب اسماعیل دہلوی کے جہاد کو اکتالیس برس ہی ہوئے تھے۔ اسماعیل دہلوی کی اس تحریک کے خاتمے کا سبب کیا تھا ملاحظہ فرمائیں۔ "شرفا افاغنہ دوسری قوموں کے شرفا سے رشتے ناطے کرنا معیوب نہیں سمجھتے، مہاجرین اپنے ساتھ اہل وعیال تو لے نہیں گئے تھے۔ جب افغان علاقے میں مستقل طور پر رہنے لگے تو انکی شادی بیاہ افغانیوں میں ہوتا رہا۔ مگر امیرشہید (سید احمد) کے دعوٰی خلافت کی اشاعت کرنے والے ہندوستانی اپنی حاکمانہ قوت دکھا کر جبراً افغان لڑکیوں سے نکاح کرنے لگے۔"(حزبِ امام ولی اللہ دہلوی کی اجمالی تاریخ کا مقدمہ، ص 163-164) اس کے ردِّ عمل میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل پڑھیئے۔ "کابل میں قیام کے زمانے میں ہم نے اس فتنے کے متعلق کافی معلومات حاصل کرلیں۔ اس کی ابتدا خویشگی کے اس خاندان سے ہوئی جس کی لڑکی کا جبراً نکاح ہوا تھا۔ اس میں زیادہ رہنمائی کرنے والا خٹک کا خان تھا جس نے خویشگی کے خان سے صلح کرلی تھی ان ہر دو خونین کی باہمی پشتی عداوت تھی۔ جب خویشگی کے خان کی ایک لڑکی کا ایک ہندوستانی سے جبراً نکاح کیا گیا تو اس نے خان خٹک سے کہا کہ میں نے اب اپنا دعوٰی چھوڑ دیا ہے کہ اب سوال ننگِ افغان کا ہے۔ ہماری باہمی صلح ہے، تم میری امداد کرو۔ خان خٹک کی نوجوان لڑکی تھی، خان خٹک نے پیغام پہنچتے ہی اسی مجلس میں اپنی دوشیزہ لڑکی کو بلایا اور سرِدربار اس کے سر سے کپڑا اتار دیا اور کہا؛ آج سے تیری کوئی عزت باقی نہیں رہی جبتک افغان کی لڑکی کا انتقام نہیں لیا جاتا۔ تری عزت ہیچ محض ہے۔ اس کے بعد خان خٹک کی یہ لڑکی اس فتنے کے خاتمے تک ہموارِ ننگِ سر رہی۔ رات کو ایک جماعت کے ساتھ جاتی اور گاؤں میں عورتوں مردوں کو جمع کرکے پشتو میں ننگِ افغان کے متعلق لوگوں کو بھڑکاتی، دوسری رات دوسرے گاؤں جاتی۔ اس طرح تمام افغانی علاقے میں شورش منظّم کردی۔ اس پر ایک معین رات میں سب سرداروں کو قتل کردیا اور حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔"(حزبِ امام ولی اللہ دہلوی کی اجمالی تاریخی کا مقدمہ، ص 170) ان سب گواہیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل دہلوی نے مسلمانوں میں انتشار پھیلا کر سید احمد کے ہمراہ جنگ صرف سکھوں اور مسلمانوں سے کیا اور اس کا فائدہ بھی انگریز کو ہی پہنچا۔ اس بات پر میں ڈاکٹرمبارک علی سے اتفاق کرتا ہوں۔ آج کے دیوبندی جتنا مرضی وہابیہ سے اپنی برات ظاہر کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ دراصل ایک ہی ہیں اور اس کا ثبوت علما دیوبند کی تحریرات میں جا بجا ملتا ہے۔ یہ تو وہابیت کے نام سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کی گئی کہ تقویۃالایمان کے بعد پاک وہند کے مسلمانوں میں وہابیت ایک گالی بن گئی تھی۔ ہم نے خود بزرگوں سے سنا کہ اس زمانے میں کسی سنّی مسجد میں کوئی وہابی گھستا تو اسے نہ صرف باہر نکال دیا جاتا بلکہ پوری مسجد کو پاک کرنے کے لئے دھویا جاتا تھا۔ وہابیت کی اس بدنامی کا اعتراف خود اشرف تھانوی کی سوانح سے ہم پیچھے پیش کرچکے۔ مزید خود کے وہابی ہونے کے اعتراف کے طور پر یہ پڑھیں۔ کانپور کی ایک مسجد میں اشرف تھانوی نیاز لانے والی عورتوں کو کہتے ہیں کہ؛ " بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں۔ یہاں فاتحہ نیاز کےلئے کچھ نہ لایا کرو۔"(اشرف السوانح، ج 1، ص 45) مزید مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ اعتراف بھی پڑھ لیں۔ "انہوں (مولانا خیرالدین) نے وہابیوں کو دو اصولی قسموں میں بانٹ دیا تھا۔ کہتے تھے کہ دو فرقے ہیں۔ ایک اسماعیلیہ دوسرا اسحاقیہ۔ وہ کہتے تھے کہ جب اسماعیلیہ غیرمقبول ہوگیا تو وہابیت نے اپنی اشاعت کے لئے راہ تقیہ اختیار کی اور حنفیت کی آڑ قائم کرکے اپنے دیگر عقائد کی اشاعت کرنے لگے۔(آزاد کی کہانی از عبدالرزاق ملیح آبادی، ص 173) انہیں بگڑتے حالات میں دیوبندیوں نے اپنے مذہب کے بانی اول کے حوالے سے یہ تک لکھ دیا؛ "محمد بن عبدالوہاب نجدی چونکہ خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسد رکھتا تھا اس لئے اس نے اہلسنت و جماعت کا قتل و قتال کیا۔ وہ ایک ظالم و باغی خونخوار و فاسق شخص تھا۔(الشہاب الثاقب از مولوی حسین احمد، ص 20) لیکن پھر جب سعودیوں نے اشاعتِ وہابیت کے لئے پڑو ڈالر کے دروازے کھولے تو دیوبندیوں نے ابن الوقتی کی مثال قائم کرتے ہوئے یہ فرمایا؛ "محمد بن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں، وہ اچھا آدمی تھا۔ سنا ہے کہ مذہبِ حنبلی رکھتا تھا اور عامل بالحدیث تھا، بدعت وشرک سے روکتا تھا۔"(فتاوٰی رشیدیہ، حصہ 3، ص 79) مزید اپنے اکابر کے الشہاب الثاقب میں لکھے قول کی حالات بدلنے پر یہ توجیح کی؛ "الشہاب الثاقب کا اندازِ تحریر واقعی غیر محمود اور لائقِ اجتناب ہے بلکہ ہم وہابیوں کے اور بھی بزرگوں سے کہیں کہیں ازراہِ بشریت الفاظ و انداز کی ایسی لغزشیں ہوگئی ہیں۔ انہیں قابلِ اصلاح کہنا چاہئے۔(تجلّی دیوبند،1959، ص 84) سعودیوں کی طرف سے نوازشات کا سلسلہ 1991 تک چلتا رہا، لیکن جب 1991 میں خلیجی جنگ ہوئی اور سعودیوں نے امریکی فوج کو ان کے تمام تر حرام لوازمات کے ساتھ حجازِ مقدس میں بلایا تو برِصغیر کے دیوبندیوں نے حمایت نہ کی۔ وہابیہ کی دوسری شاخ غیرمقلدین کو سعودیوں کی ساری خیرات اپنے حصے میں لانے کا اس بہتر موقع کیا میسر آنا تھا۔ انہوں نے عربوں کو یہ باور کرایا کہ دیوبندی نمک حلال نہیں کہ اتنی خیرات وصول کرنے کے بعد بھی وقت پر کام نہ آئے۔ پھر دیوبندیہ کے خلاف متعدد کتابیں لکھ کر سعودیہ بھجوائیں گئیں جس میں "القول البلیغ فی التحذیر من جماعۃ التبلیغ" قابلِ ذکر ہے جس میں دیوبندیوں کی تبلیغی جماعت کی خامیوں کو طشت ازبام کیا گیا جس کے نتیجے میں سعودیہ عربیہ میں تبلیغی جماعت پر آفیشل پابندی عائد کردی گئی۔ پھر "الدیوبندیہ تعریفھا، عقائدھا" میں علمائے دیوبند کو مشرک اور بدعتی قرار دے کر خود کو برِصغیر میں وہابیت کا اکلوتا سپوت ثابت کیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند میں گرنے والی پڑوڈالر کی دھار رکی تو اکابرِ دیوبند نے بھی غیرمقلدین کے خلاف اپنی زبان وقلم کے تیور بدل دئیے اور غیرمقلدیت کو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا۔ اور یہ کھسیانی بلّی کھمبا نوچے والی حرکتیں پہلی بار نہ کی گئی تھیں۔ جب حسام الحرمین میں علمائے حقہ اہلسنّہ نے دیوبندیہ کے کفریہ عقائد کے خلاف فتاوٰی پر اپنی تصدیقات دیں تب بھی انہیں مغالطہ دینے کی خاطر علمائے دیوبند کی جانب سے ایسی ہی کوشش کی گئی اور "المہند" نامی کتاب لکھ کر اپنے تمام عقائد پر پردہ ڈال کر خود کو صحیح العقیدہ اہلسنت ثابت کرنے کی ناکام کوششیں ہوئی۔ اس "المہند" میں بھی اپنے اکابرین کے وہابیت پرست فتاوٰی کو چھپا کر وہابیت سے اپنی بیزاری ظاہر کی گئی۔ یہ تھی دیوبندیوں کی اپنے رضاعی بھائیوں سے خانہ جنگی کی مختصر داستان۔ ظاہر ہے جب ہماری طرف سے وہابیت کا ہمیشہ ہی ردّ کیا گیا تو پھر ہمیں ان سے کیا ملنا تھا سوائے مخالفت کے۔ لیکن رضائے الٰہی کے خواہشمندوں کو وہابیت کی نوازشات کے حصول کی تمنا کبھی تھی ہی نہیں اسی لئے مدرسہ منظرِ اسلام کے سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے ہی اعلٰیحضرت نے اعلان فرمادیا کہ اس ماہ کے اخراجات میں خود ادا کروں گا۔ جبکہ دوسری طرف علمائے دیوبند کو لکڑ پتھر سب ہضم تھا جنہوں نے نہ انگریز کا مال چھوڑا، نہ وہابیوں کا اور نہ ہندوؤں کا۔ سوانح قاسمی میں دارالعلوم دیوبند کے چندہ دینے والوں کچھ ہندؤوں کے نام موجود ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس دارالعلوم منظرِاسلام کے اربابِ انتظام کو بین الاقوامی گداگری کا فن نہیں آتا تھا اس لئے دارالعلوم منظرِاسلام ظاہری نمائشی شہرت سے دور رہا۔ اس سب کے باوجود بھی اللہ عزوجل اور اسکے رسول سرورکونینﷺ کے فضل سے دارالعلوم منظرِاسلام کسی اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار بنے بغیر بھی آج اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ دینی علمی عروج و کمال کے ساتھ موجود ہے۔ افغان جہاد کے معاملے پر تو دنیا جانتی ہے کہ کس طرح امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں بک کر کن ملاؤں نے سنّی عوام کی اولادوں کو ورغلا کر جہاد پر بھیج کر اپنی اولادوں کو بجائے جہاد کے، اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ اور برطانیہ بھجوا دیا۔ ہم سے جہادِ افغانستان کی بابت سوال کرنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ سید احمد گیلانی، مولانا نبی محمدی اور صبغت اللہ مجددی جو افغان جہاد کی فرنٹ لائن پر تھے، کون تھے؟ جہاد افغانستان میں15 نومبر1987ء کو خوست کے مقام پر شہید ہونے والے انجمن طلبہ اسلام قائدآباد ضلع خوشاب کے کارکن محمد یونس شہید کے جذبہ شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ شہادت سے قبل ہی دیواروں پر اپنا نام محمد یونس شہید لکھا کرتا تھا۔ ہمارے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف یہ کہ افغانستان میں روسی استعمار کے خلاف لڑلی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دیا بلکہ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور اس کے غلاموں نے افغانستان میں قائم ملا محمد عمر کی اسلامی حکومت کے خلاف حملے کے منصوبے بنانے شروع کئے اور طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں لگائیں تو یہ مولانا شاہ احمد نورانی ہی تھے کہ جنہوں نے جنرل حمید گل اور مولانا سمیع الحق کو تمام مکاتب فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے پر مجبور کیا۔ اور پھر طالبان حکومت کی حمایت میں دفاع افغان کونسل کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنا کر طالبان کے حق میں بڑی بڑی ریلیوں' جلسوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا گیا۔ الجزیرہ کی یہ رپورٹ بھی دیکھنے لائق ہے۔ http://www.megaupload.com/?d=SGWF8GPT اعلیٰحضرت کا ہندوستان کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے پر فتوٰی عین حنفی مذہب کے مطابق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اعلیٰحضرت پر "اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام" پر اعتراضات تو کئے جاتے ہیں لیکن آج تک علمی دلائل سے اس تصنیف کا ردّ کسی سے ممکن نہ ہوا۔ اگر مسلمانوں کو واقعی ہندوستان میں مذہبی آزادی نہ تھی تو کوئی ڈاکٹرمبارک علی سے یہ بھی پوچھے کہ پھر اسی ہندوستان میں دیوبندیوں نے ایک دارالعلوم کی بنیاد کیسے رکھی؟ تاریخ کی کسی بھی کتاب میں یہ بات نہیں لے گی کہ مسلمانانِ ہند پر مذہبی پابندیاں عائد کی گئی۔ مسلمنانِ ہند اعلانیہ طور پر تمام معمولاتِ دین پر عمل کرتے رہے۔ رہ گئی بات جہاد کی تو اس تفصیل ہم نے پہلے بھی پیش کی اور اس پوسٹ میں بھی کافی کچھ لکھ چکے اس لئے اس موضوع پر مزید کچھ لکھنا بلا وجہ بات کو طویل کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمیں ڈاکٹرمبارک علی سے کسی جواب کی نہ تمنا ہے اور نہ امید۔ ہاں اگر ہم سے بتقاضہ بشریت کوئی نکتہ رہ گیا ہو تو برائے کرم نشاندہی کرکے ہمیں شکریہ کا موقع دیں۔ الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے دے آدمی کو موت پر یہ بد ادا نہ دے نوٹ: یہاں میں خلیل رانا صاحب، سعیدی صاحب اور اسلامی محفل کے دیگر بھائیوں کا مشکور ہوں کہ علمائے کرام اور انہی بھائیوں کے توسل سے یہ سب کچھ لکھ پایا۔ اصل ٹاپک یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات
-
ابھی کچھ دنوں پہلے ایک اردو فورم پر بی بی سی اردو سے ڈاکٹرمبارک علی کا آرٹیکل "بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات" پڑھا۔ موصوف کی علمی خیانت اور اس فورم کے کچھ ممبران کی بکواس برداشت نہ ہوئی اس لئے فورم جوائن کرکے جوابات بھی دئیے۔ پھر آگے سے ایک دیوبندی ممبر نے بحث شروع کی جس کے جواب میں میری طرف کئے گئے کئی سوالات کا جواب موصول نہ ہوا۔ وہاں دیوبندیوں کے پرانے "ملنگ" بھی ملے، ابھی تک ویسے ہی ہیں البتہ گالی گلوچ پہلے کی طرح نہیں کی۔ خیر اس بحث کا خاتمہ تو کیا ہونا تھا، فورم کے ممبران نے خود ہی فرمائش کردی کہ بجائے دیوبندی ممبر سے سوالات کے جوابات کی امید کرنے کے، ڈاکٹرمبارک علی کے آرٹیکل پر بات کی جائے۔ میں نے سوچا یہاں بھی نقل کردوں کہ ڈاکٹرمبارک علی جیسے مبصرین کی علمی اوقات بھی واضح ہوجائے۔ پہلے ڈاکٹرمبارک علی کا آرٹیکل پیش کرتا ہوں پھر اس کا جواب؛
-
Dawateislami Sunni Jamaat Hai
Sybarite replied to Shan E Raza's topic in اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
آپ نے غالباً بھائی کی پوسٹ کو غور سے نہیں پڑھا۔ انہوں نے پہلے دعوتِ اسلامی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آخر میں ماہنامہ جامِ نور کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے تنقیدی طور پر بتایا کہ وہ تو ڈاکٹرپادری کو بھی سنّی مانتے ہیں جس پر قادری عطاری صاحب نے ان سے اس معاملے پر ثبوت کا مطالبہ کیا جس کے جواب میں بھائی نے جامِ نور میں شائع ہونے والے ڈاکٹرپادری کے آرٹیکل کا اسکین بطور ثبوت پیش کیا۔ اب اس پر یہ کہنا کہ یہ آرٹیکل ڈاکٹرپادری کے حق میں پیش کیا گیا یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ -
جناب محمد الطاف صاحب اس بےچارے سے اتنے مشکل مشکل سوال نہ پوچھیں! پہلے ہی ہمارے سیدھے سادھے سوالات کا جواب دینے میں ان کی جان نکل رہی ہے، آپ اوپر سے ان کے رہے سہے اوسان بھی خطا کئے دیتے ہیں۔ اس بےچارے پر کہیں راتوں میں اٹھ اٹھ کے بال نوچ کر "ہائے ہائے بریلوی جانے دے، ہائے ہائے مجھ بخش دو" کی چیخیں مارنے کی نوبت نہ آجائے۔
-
آپ کے دیو کے بندروں میں سے یہاں بچا کون ہے جسے مبارکباد دے رہے ہیں، اعتراض کرتے ہیں اور جواب سن بھاگ جاتے ہیں۔ ہاں اکّا دکّا آپ جیسے بھی ہیں جنہوں نے یا تو شرم وحیا بیچ کر کوّے خرید لئے ہیں یا پھر ان کی ذہنی سطح ہی اس قابل نہیں کہ وہ سیدھی سادھی باتوں کو بھی سمجھ سکیں۔ ویسے آپ کے کس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا ذرا وہ لکھ دیں تاکہ دیگر ممبران کو بھی معلوم ہو جائے۔ جناب اب آپنے بڑکی مار ہی دی ہے تو ذرا ثابت بھی کردیں کہ ہم نے کیسے اور کب ٹاپک کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ رہی بات رسول اللہﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے والے دن عید کی بات تو یہ بھی آپ نے اپنے طرف سے ٹاپک بدلنے کی ایک اور ناکام کوشش کی ہے۔ ورنہ اصل ٹاپک تو یہ ہے نہیں اور یہ بات آپ خود بھی جانتے ہیں۔ ویسے دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف تھانوی نے بھرپور طریقے سے بمع دلائل نشرالطیب میں یہ ثابت کیا ہے کہ ۱۲ ربیع الاول رسول اللہﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کی تاریخ ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اس کا اسکین پیج بھی اس ٹاپک کے پہلے پیج پر ہی آپ دکھا دیا تھا۔ آپ نے غالباً ہمیں بھی اپنی طرح کوڑھ مغز سمجھا ہوا ہے کہ ایک ہی سوال کا بار بار جواب دیں۔ پھر آپ نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا رسول اللہﷺ کی نورانیت پر۔ جناب پہلے آپ پر جو جوابات ادھار ہیں ان کا تو جواب دینے کی غیرت پیدا کیجیئے، پھر نئے اعتراضات بھی پیش کیجیئے گا۔ آخر میں اپنے یہ شعر لکھا ہے؛ مجھے دشمنوں نا چھیڑوں میرا ہے کوئی جہاں میں ۔۔۔۔۔ میں ابھی پکار لوں گا نہیں دور ہے مدینہ یہ شعر پڑھنے کے بعد آپ دیوبندیوں کے جدامجد اسمعیل دہلوی کے فتوٰی کے مطابق مشرک قرار پاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یہ پڑھ لیں۔ دیو کے بندروں کو مبارکباد بعد میں دیتے رہیئے گا پہلے خود کو اس دیوبندیوں کے نام نہاد مجاہد، شہید، توحید کے علمبردار کے فتوٰی کے بعد مسلمان تو ثابت کیجیئے۔ باقی اصولی طور پر تو آپ کی یہ تمام نئی پوسٹ ڈیلیٹ کردینے کے قابل ہیں کیونکہ آپ نے بار بار پوچھے جانے کے بعد بھی ہمارے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ میں نے آپ کی آسانی کے لئے پچھلی پوسٹ میں سوالات کو ترتیب وار بھی لکھ دیا لیکن پھر بھی آپ نے جوابات پوسٹ کرنے کے بجائے ہم جیت گئے ہم جیت گئے کا شور مچانا شروع کردیا۔ لیکن ہم آپ کی ان پوسٹنگز کو اب ڈیلیٹ نہیں کریں گے بلکہ اب تو یہ دیوبندیوں کی جیتی جاگتی بےبسی کی تصویر کے طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔
-
دیو کے بندروں کی جانب سے ایسے اعتراض دیوبندیوں کی فقہ حنفی سے واقفیت معلوم ہوتی ہے۔ خیر مندرجہ ذیل ٹاپکز میں جوابات موجود ہیں۔ چمگادڑ حلال یا حرام کیا حلال اور کیا حرام دیوبندیوں کا جھوٹ غالباً باطل فورم والوں نے فقہ حنفی چھوڑ کر اپنے جدِامجد غیرمقلّدوں کو اپنا لیا ہے۔ رہا اس اعتراض کا جواب تو یہ اعتراض تو دیوبندیوں نے ردالمختار پر کیا ہے کیونکہ یہ مسئلہ اس میں بھی موجود ہے۔ اوّل اوّل یہ اعتراض غیرمقلدین کیا کرتے تھے لیکن جو وہابیت غیرمقلّدین میں رچی بسی ہے وہی دیوبندیت کے خمیر میں شامل ہے جس کا ثبوت باطل فورم کے دیوبندی اکثر دیتے رہتے ہیں۔ فتاوٰی رضویہ میں اس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے؛ اور آخر میں باطل فورم کے دیو کے بندروں سے گزارش ہے کہ وہ نیچے دیئے گئے اسکین پر بھی اپنا فتوٰی پیش کریں۔
-
مجتبیٰ صاحب، چلئیے کھل کر آپ نے دیوبندیت کی خصلتیں تو واضح کیں کہ جب آپ جیسوں کے پاس جواب نہیں ہوتا تو پھر فریق پر کس طرح بھونکتے ہیں اور باقی فورم ممبرز کو بھی دیوبندیت کی علمی اور اخلاقی اقدار کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس جواب نہیں اس لئے ہم نے آپ کی پوسٹ ڈیلیٹ کی جب کہ آپ کی پوسٹ میں جو اعتراض تھا وہ آپ سے پہلے آپ ہی آپکا بھائی بند ایک علیحدہ ٹاپک میں کرچکا اور اسے جواب بھی دے دیا گیا۔ لنک آپ کو سیف الاسلام بھائی کی پوسٹ میں مل جائے گا۔اب تک اس ٹاپک میں آپ نے ہمارے بیشتر سوالات کا جواب نہیں دیا۔ ذیل میں ان سوالات کو دوبارہ بیان کردیتا ہوں ممکن ہے اس بار آپ کی دیوبندیت کی غیرت جاگ جائے۔ ۱) جمیعۃ علما ہند کا سربراہ محمود مدنی دیوبندی کے بیان کا اسکین پیج آپ کو بیش کیا جس میں وہ جہادِ کشمیر کو جہاد ہی تسلیم نہیں کرتا۔ علما دیوبند کے کتنا علما نے محمود مدنی دیوبندی کے اس بیان کی تردید کی ہے؟ ۲) دارالعلوم دیوبند کا استاذالحدیث ارشادمدنی دیوبندی کہتا ہے کہ کافر لفظ کو ہندو مذہب کے ساتھ جوڑنا ٹھیک نہیں۔ اس بیان کے ردّ میں کسی دیوبندی نے کوئی بیان دیا؟ اگر نہیں تو پھر ہندوں کے تلوے چاٹنے والے دیوبندی کو شرم آنی چاہئیے مسلمانوں پر شرک وبدعت کے فتوے دیتے ہوئے۔ ۳) دیوبندی کے مستند عالم رشیدگنگوہی کی فتاوٰی رشیدیہ سے اسکین پیج پیش کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صحابہ کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہوگا، یعنی صحابہ کو کافر کہنے والا دیوبندیوں کے قطب الاقطاب کے نزدیک کافر تو دور کی بات اہلسنت و الجماعت سے بھی خارج نہیں۔ مجتبیٰ صاحب اگر آپ سچے ہیں تو آئیے اور عظمتِ صحابہ کے خلاف ایسا فتوٰی دینے والے کو کافر قرار دیں۔ ۴) جمیعۃ علمائے ہند کا سربراہ اسعد مدنی دیوبندی کے بیان کا اسکین پیش کیا جس میں وہ جہاد کشمیر کو جہاد نہیں بلکہ بغاوت قرار دیتا ہے۔ اسعد مدنی دیوبندی کے اس بیان کی علما دیوبند نے کوئی تردید نہیں کی۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ دیوبندی , مظلوم کشمیری مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے خلاف ہیں۔ ۵) آقائے دوجہاں سرورکونینﷺ کے میلاد منانے پر تم جیسے ٹکے ٹکے کے دیوبندی کہتے ہو "دین تمہارے باپ کا نہیں جو سالگرہ منائو" اس کے جواب میں دیوبندیوں کی نام نہاد سپاہ صحابہ کا خلفاراشدین کی یاد میں دن منانا اور جلوس نکالنا اور احترام الحق تھانوی دیوبندی کا محفلِ میلاد میں شرکت کے ثبوت پیش کئیے۔ کسی دیوبندی مفتی نے ان کے خلاف فتوٰی دیا ہے تو پیش کریں ورنہ ہم پوچھتے ہیں کہ دین کیا دیوبندیوں کی مرضی پر ہے جو دیوبندیوں کے لئے صحابہ کا دن منانا، جلوس نکالنا اور محفلِ میلاد میں شرکت کرنا جائز ہے اور دوسروں کے لئے بدعت؟ ۶) دیوبندیوں کے مشہور ملّے یوسف لدھیانوی بنوری جس کے قتل پر جامعیہ بنوریہ ٹاؤن کے دیوبندی طلبہ نے پاگل کتّوں کی طرح احتجاجی طور پر بےقصور غریب عوام کی دکانیں جلایئں تھیں، اس کے فتوٰی کے مطابق جو امام مووی بنوائے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ تو آج تک جتنے دیوبندی باؤلوں نے امامِ کعبہ کے پیچھے نماز پڑھی ان کی وہ تمام نمازیں ضائع ہوئی یا نہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب آپ پر ادھار ہے مجتبیٰ صاحب۔ ہم نے تو آپ کے اس ٹاپک سے غیرمتعلقہ اعتراضات کے جوابات بھی دے دئیے۔ لیکن آپ نے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک مندرجہ بالا سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے پہلے بھی پوچھا تھا کہ کیا دیوبندیوں میں کوئی حلال کی اولاد نہیں جو ان کا جواب دے، اور اس کے بعد بھی آپ نے ابھی تک ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس ردعمل سے آپ خود کو کیا ثابت کرتے ہیں یہ آپ بھی سمجھ چکے ہونگے۔
-
جناب مجتبیٰ صاحب، سچائی میرے خیال میں آپ خود بھی جان چکے ہیں دنیا میں ابھی تک شاید کسی دیوبندی ماں نے وہ لعل جنا ہی نہیں جو ہماری باتوں کا جواب دے اسی لئے جواب دینے کے بجائے آپ ہر بار ایک نیا اعتراض پیش کرکے ہمارے سوالات سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو میرا مشورہ ہے کہ ایسی صورت میں آپ کے لئے وقت گزارنے کے لئے بہترین جگہ آپ کے گھر کا زنان خانہ ہے۔ وہاں چوڑیاں پہن کر گھونگھٹ اوڑھے بیٹھے رہیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم زنان خانے میں گھس کر آپ سے اپنے سوالات کے جوابات طلب نہیں کریں گے۔ لیکن اگر اس فورم پر دیوبندیت کا دفاع کرنے کی خارش آپ کو ہے تو پھر جوابات لائیے اور پھر بےجھجک جتنے چاہے اعتراض کرتے رہیئے گا۔ مغل بھائی، معذرت لیکن آپ کی پوسٹ بھی ڈیلیٹ کردی گئی کیونکہ آپ اور ہم تو جوابات دیتے رہیں گے لیکن ان دیو کے بندروں سے ہمارے سوالات کا جواب قیامت تک نہیں دیا جائے گا۔ سو اگر کسی ٹاپک میں موضوع سے ہٹ کر کوئی پوسٹ نظر آئے تو اسے نظرانداز کریں کہ غیر متعلقہ پوسٹ کا اگر آپ جواب دیں گے تو یہ دیو کے بندر اصل موضوع سے فرار کے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امید ہے فقیر کا یہ قدم آپکو ناگوار نہ گزرے گا۔