Jump to content

Sybarite

مدیر
  • کل پوسٹس

    628
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    46

سب کچھ Sybarite نے پوسٹ کیا

  1. نیّت کی اظہار کی تو بات ہی نہیں۔ ردِّصلح کلیت کے سیکشن میں بھی آپ امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹرپادری سے پیسے بٹور کر آکٹیکل نقل کردیا جائے گا تو یہ آپ کی بےوقوفی ہے۔ باقی خود بھی تحقیق کرلیں کہ کتنے صحافیوں نے اس لانگ مارچ ڈرامے کے حق میں لکھا اور کتنوں نے خلاف تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔ گندگی کی تو بات ہی نہ کریں آپ حضور! ڈاکٹرپادری کے مداحوں نے اسلام آباد کی سڑکوں پر کیسی غلاظت پھیلائی اس کی تفصیل تو کافی چینلز پر دکھائی جاچکی، ہاں ڈاکٹرپادری کی غلاظت اس کربلائی بلٹ پروف کنٹینر سے نکل کر عوامی گند میں شامل ہوئی یہ ڈاکٹرپادری کے ساتھ ہی رخصت ہوئی اس کی تفصیل نہیں ملی۔ اور ہمیں زیادہ چنتا ہوتی بھی نہیں کیونکہ چنتا تو وہاں ہو جہاں آپ جیسوں نمٹنے کا انتظام نہ ہو۔ جناب ڈاکٹرپادری کی ڈگڈگی پر مت ناچیے کمرمیں چک آجائے گی۔ یہ یک رکنی ٹربیونل جو کہ پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈینینس ۱۹۶۹ کے تحت قائم کیا گیا تو کیا یہ کسی چوراہے پر جرگے میں بیٹھ کر کام کرنے کے لئے بنایا گیا تھا؟ آپ نے غالباً اس کی اہمیت کو کم کرنے کی خاطر یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ پتہ نہیں شاید آپ نے اسے کسی چلتے پھرتے بندے کی ذاتی رائے سمجھ لیا۔ ورنہ پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈینینس ۱۹۶۹ کے تحت تو اس ٹربیونل کو سول کورٹ کے برابر اختیار حاصل ہے اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ۱۹۳ اور ۲۲۸ کے تحت اسے جوڈیشل کاروائی قرار دیا گیاہے۔ ایسے تحقیقاتی ٹربیونل کورٹ کی ہدایت پر ہی تشکیل دیے جاتے ہیں اوران کا کام ہوتا ہے کہ کسی واقعہ یا واردات اور اس سے متعلقہ دوسرے معاملات کی تحقیقات کرکے یہ بتائے کہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کن پر عائد ہوتی ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ آج کئی کئی فٹ اچھل اچھل کر منہ سے پسینہ پونچھتے اپنے خلاف ہر بات کی تردید کرنے والے ڈاکٹرپادری نے تحقیقاتی ٹربیونل کے اس فیصلے کو دنیا کی کس عدالت میں چیلنج کیا؟ یک طرفہ فیصلے کی بات کرنے والے اس پادری سے پوچھیں کی اس وقت اس تحقیقاتی کاروائی بائیکاٹ کرکے بھاگے کیوں تھے؟
  2. جناب سمجھنے کو تو سیدھی سی بات ہے لیکن سمجھنی ہی نہ ہو تو اس کا علاج ہمارے پاس نہیں۔ ہم تو سیدھی سی بات کئی بار کہہ چکے کہ ڈاکٹرپادری کے نزدیک پادری اہل ایمان، اب اگر ڈاکٹرپادری کا یہی فارمولا استعمال کرتے ہوئے ہم فرض کریں کہ ڈاکٹرپادری اہل ایمان تو پھر جب پادری کو اہل ایمان کہنے میں ڈاکٹرپادری کے فارمولے کے مطابق کوئی مسئلہ نہیں تو خود ڈاکڑ کو پادری کہنے میں کیا مسئلہ ہے؟ کیا ڈاکٹرپادری خود اپنی نظر میں اہل ایمان نہیں؟ رہی بات فتویٰ کی تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ دیگر مسائل میں تو آپ جیّد علما کے قول پر بھی خود مجتحد بن کر سہو کا فتویٰ لگا دیتے ہیں لیکن پھر خود ہی دعوتِ اسلامی کی طرف سے فتویٰ کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ خیر آپ کی اس بندر گلاٹھی کا جواب پہلے بھی دے چکا۔ فورم سرچ کرلیں تاج الشریعہ اور دیگر کافی علما کی رائے اس بارے میں پہلے ہی پیش کی جاچکی ہے۔
  3. بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد جن علما نے بھی کیا انہیں کسی نا کسی حد تک دیگر علما اہلسنت کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جیسا کہ علما مولانا شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ جیسی جیّد شخصیت پر بھی جائز تنقید کرتے رہے۔ لیکن وہاں بھی اتحاد بہرحال سیاسی حد تک تھا خود جن بدمذہبوں سے اتحاد کیا انہیں بھی اقرار کہ ایک ہی تحریک میں ہوتے ہوئے بھی نورانی میاں نے کبھی بدمذہبوں کے پیچھے نماز ادا نہ کی۔ آپ کے پادری تو حلقہ احباب و چندگان بڑھانے کے لئے سبھی کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ کبھی دیوبندیوں کے پیچھے نماز تو کبھی خمینی کے جینے مرنے کو علی اور حسین کی حیاتِ مبارکہ سے تشبیہہ دینا۔ سیاسی طور پر پہلے ضیاالحق پھر بےنظیر پھر میاں صاحب پھر پرویزمشرف اور اب متحدہ۔ اور اگر مظفروارثی کی باتیں ان کی باتیں ہیں تو جناب آپ کا تو پھر کوئی اتا پتا نہیں کس کھیت کی مولی ہیں لہذا آپ کی تمام تر جرح کو ہم شخصیت پسندی کی بیماری قرار دے کر جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔ باقی عدالتی فیصلے کا متن دوسرے ٹاپک میں پیش کرچکا وہ پڑھ لیجئیے گا۔ محمد مالک اور اسامہ غازی والا پروگرام میں بھی دیکھا تھا لیکن پھر اس کے بعد پادری کو خودساختہ کربلا میں یزیدیوں سے مذکرات کرتے بھی دیکھا۔ پادری کا قاتلانہ حملے کے ڈرامے پر ان کا موقف ہی سامنے آیا لیکن کوئی ثبوت ابھی تک منظرِعام پر نہیں آیا جب کہ عدالتی کاروائی کا متن عرصہ دراز سے سامنے آچکا۔
  4. یہاں ذاتی پسند ناپسند کی بات آپ نے کیوں کی اس کی وجہ تو آپ ہی جانتے ہونگے ورنہ ہم نے تو یہ تمام تبصرے بلاتبصرے یہاں پیش کئے تھے۔ ویسے ان تمام تبصروں پر آپ کا تبصرہ بھی ذاتی ہی شمار کیا جائے گا اور اس کی بھی علمی اوقات کیا ہے یہ سبھی کے سامنے ہے۔ اور قربان جاوٗ آپ کے درسِ اخلاقیات پر کہ جب ڈاکٹرپادری سے ٹی وی پر آن ائیر فیسبک پر ان کے متعلق کمنٹس پر سوال کیا جائے تو وہ چیخ چیخ کر فیسبک یوزرز کو کالے کالے کہہ کر اپنی خفت مٹانے کے باوجود آپ کے نزدیک شیخ الاسلام قرار پاتے ہیں لیکن کوئی صحافی اگر غیرجانبدارانہ تجزیہ پیش کردے جو ڈاکٹرپادری کے خلاف جاتا ہو تو وہ صحافی کا ذاتی عناد قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور جناب آپ کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ پادری لانگ مارچ ڈرامے کے حق میں لکھے آرٹیکلز کو منہاجیوں کی ویبسائٹ پر پیش کریں۔ بس یہاں گندگی کرنے سے پرہیز کیجیئے گا۔ لاہور ہائیکورٹ کا متن بلاتبصرے حاضر ہے۔
  5. ہم نے ڈاکٹرپادری پر لفظ پادری کا اطلاق صرف لغوی معنی میں کیا ہی نہیں (جسے آگے خود آپ ہی نے تسلیم کرلیا) لہذا بات وہیں ہے جہاں تھی۔ ہاں طاہری بیچارے یہ کوشش ضرور کرتے رہیں اور کرتے رہیں گے کہ ان کی دفاعی قوت بس یہی تک ہی ہے۔ رہی بات کہ ڈاکٹرپادری عیسائیوں کو اہل ایمان کہتے ہیں اور بریلویوں کو بھی تو جناب بریلوی ڈاکٹرپادری کی اول الذکر توجیح کو باطل قرار دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹرپادری اور منہاجیوں کو تو اس کا اقرار ہے۔ لہذا مخالف کی رائے کا اطلاق ہم پر کیونکر منطقی قرار پاتا ہے یہ آپ ہی بتا دیں۔ کل کو ڈاکٹرپادری نے سلمان تاثیر کو شہیدِ اسلام قرار دے دینا ہے تو اسے آپ جیسے ہی قبول کریں گے ہم نہیں۔ ہم نے ڈاکٹرپادری کی ہی توجیح کا اطلاق ان پرکیا ہے، اس میں غیرمنطقی کیا ہے اس پر بات کریں۔
  6. مشرکین بھی توحیدِ ربوبیت کے تو قائل تھے لیکن توحید الوہیت پر ان کا یقین نہ تھا۔ مشرکین میں ایسے بھی تھے جو اللہ کو رب تو مانتے تھے لیکن الوہیت کا قائل نہ تھے۔ افاداتِ کاظمی میں غزالئ زماں فرماتے ہیں کہ؛ یہ درست ہے کہ مشرکوں نے اپنے باطل معبودوں کو مخلوق مانا، لیکن جب مان لیا تو ان کو تسلیم کرنا چائیے تھا کہ مخلوق خالق کی محتاج ہے اور خالق کے وجود کے بغیر مخلوق کا وجود نہیں ہو سکتا اور مخلوق جس طرح پیدائش میں خالق کی محتاج ہے اسی طرح موت کے لئے بھی اسی کی محتاج ہے۔ یہ اعتقاد ضروری تھا لیکن ان مشرکین نے کہا؛ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو اللہ نے پیدا کیا لیکن پیدا کرنے کے بعد ان کو الوہیت دے دی۔ لہذا اب اللہ تعالٰی کوئی کام نہ کرے اور یہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اب ان کو اپنے حکم میں نہیں رکھا اور استقلال کی صفت ان کو دے دی کہ میرا حکم نہ بھی ہو تو تم کام کرسکتے ہو۔ یہ تھا ان جاہلوں کا اعتقاد حالانکہ ان کو سمجھنا چاہئیے تھا کہ جو چیز مخلوق ہے وہ مستقل نہیں ہوسکتی۔ الوہیت عطائی نہیں ہوسکتی اللہ تعالی سب کچھ دے سکتا ہے مگر الوہیت نہیں دے سکتا، کیونکہ الوہیت مستقل ہے اور عطائی چیز مستقل نہیں ہوسکتی۔ اوہیت استقلال ہی کے معنی میں ہے لیکن مشرکین کا تصور یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ لات ومنات وغیرہ ایسے زاہدوعابد لوگ تھے کہ اللہ نے کہا کہ تمہاری عبادت کمال کو پہنچ گئی۔ اب میں تم پر یہ عنایت کرتا ہوں کہ تم آزاد ہو میں تم پر نہ کچھ فرض کرتا ہوں اور نہ کوئی پابندی لگاتا ہوں۔ پس اس طرح انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے معبودوں کو الوہیت دے دی۔ جس شخص کا یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وصفِ الوہیت عطا فرمادی ہے وہ مشرک اور ملحد ہے۔ مشرکین اور مومنین کے مابین بنیادی فرق یہی ہے کہ وہ غیراللہ کے لئے عطائے الوہیت کے قائل تھے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب ترین حتیٰ کے حضورسید المرسلین ﷺ کے حق میں بھی الوہیت اور غنائے ذاتی کے قائل نہیں۔ وہ آیات جن میں مشرکین کی توحیدِ ربوبیت کا ذکر ہے۔ سورۃ المومنون؛ ۸۴۔۸۵ قُل لِّمَنِ ٱلأَرْضُ وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ۔ تم فرماوٗ کس کا مال ہے زمین اور جو کچھ اس میں ہے اگر تم جانتے ہو۔ اب کہیں گے اللہ کا، تم فرماوٗ پھر کیوں نہیں سوچتے۔ سورۃ الزخرف؛ ۹ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ ٱلْعَزِيزُ ٱلْعَلِيمُ۔ اور اگر تم انے سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے تو ضرور کہیں گے کہ انہیں بنایا اس عزت والے علم والے نے۔ آل عمران؛ ۳۱ قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وٱلأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَيَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ۔ تم فرماوٗ تمہیں کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردے سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندے سے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو اب کہیں گے کہ اللہ۔ تو تم فرماوٗ کیوں نہیں ڈرتے۔
  7. What actually you mean by proof bhai? Scans of references or what?
  8. سورۃ الم نشرح کی آیت 4 وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کی تفسیر میں بیشتر مفسرین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرنا عمرو بن الحارث، عن درّاج، عن أبي الهيثم عن أبي سعيد الخُدْرِيّ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " أتانِي جِبْرِيلُ فَقالَ: إنَّ رَبِّي وَرَبَّكَ يَقُولُ: كَيْفَ رَفَعْتُ لَكَ ذِكْرَكَ؟ قال: اللّهُ أعْلَمُ، قال: إذَا ذُكِرْتُ ذُكِرْتَ مَعِي " تفسير مجمع البيان في تفسير القرآن/ الطبرسي أي قرنَّا ذكرك بذكرنا حتى لا أذكر إلا وتذكر معي يعني في الأذان والإِقامة والتشهد والخطبة على المنابر عن الحسن وغيره قال قتادة: رفع الله ذكره في الدنيا والآخرة فليس خطيب ولا متشهد ولا صاحب صلاة إلا وينادي بأشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً رسول الله وفي الحديث عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذه الآية قال: " قال لي جبرائيل قال الله عز وجل إذا ذكرت ذكرت معي " تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي قال مجاهد: يعني بالتأذين. وفيه يقول حسان بن ثابت؛ أَغَرُّ عليه للنبوّة خاتَمٌ من الله مشهود يلوح ويُشْهدُ وضمّ الإلٰه اسم النبيّ إلى اسمه إذا قال في الخمس المؤذنُ أَشْهدُ ورُوي عن الضحاك عن ابن عباس، قال: يقول له لا ذُكِرتُ إلا ذُكِرتَ معي في الأذان۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسير تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير قال ابن جرير: حدثني يونس، أخبرنا ابن وهب، أخبرنا عمرو بن الحارث عن دراج، عن أبي الهيثم عن أبي سعيد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " أتاني جبريل فقال: إن ربي وربك يقول: كيف رفعت ذكرك؟ قال: الله أعلم، قال: إذا ذكرت، ذكرت معي " تفسير النكت والعيون/ الماوردي الثالث: أن تذكر معي إذا ذكرت، روى أبو سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " أتاني جبريل عليه السلام فقال: إن الله تعالى يقول أتدري كيف رفعْت ذكرك؟ تفسير معالم التنزيل/ البغوي أخبرنا أحمد بن إبراهيم الشريحي, أخبرنا أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي, أخبرنا أبو القاسم عبد الخالق بن علي المؤذن, حدثنا أبو بكر بن حبيب, حدثنا أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل, حدثنا صفوان يعني ابن صالح عبد الملك, حدثنا الوليد يعني بن مسلم, حدثني عبد الله بن لهيعة عن دَّراج عن أبي الهيثم عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم " أنه سأل جبريل عليه السلام عن هذه الآية { وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ }؟ قال: قال الله تعالى: " إذ ذُكِرْتُ ذُكِرْتَ معي ". وعن الحسن قال: { وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ } إذا ذُكرتُ ذُكرتَ معي وقال عطاء عن ابن عباس: يريد الأذان والإقامة والتشهد والخطبة على المنابر، ولو أن عبداً عبد الله وصدَّقه في كل شيء ولم يشهد أن محمداً رسول الله لم ينتفع بشيء، وكان كافراً. تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن { ورفعنا لك ذكرك } روى البغوي بإسناد الثعلبي عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم " أنه سأل جبريل عن هذه الآية، ورفعنا لك ذكرك قال: قال الله عز وجل: إذا ذكرت ذكرت معي " تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور/ السيوطي وأخرج أبو يعلى وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن حبان وابن مردويه وأبو نعيم في الدلائل عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " أتاني جبريل فقال: إن ربك يقول: تدري كيف رفعت ذكرك؟ قلت: الله أعلم. قال: إذا ذكرت ذكرت معي ". وأخرج ابن أبي حاتم عن عدي بن ثابت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سألت ربي مسألة وددت أني لم أكن سألته. قلت: أي رب اتخذت إبراهيم خليلاً، وكلمت موسى تكليماً. قال: يا محمد ألم أجدك يتيماً فآويت، وضالاً فهديت، وعائلاً فأغنيت، وشرحت لك صدرك، وحططت عنك وزرك، ورفعت لك ذكرك فلا أذكر إلا ذكرت معي واتخذتك خليلاً؟ ". تفسير التبيان الجامع لعلوم القرآن/ الطوسي وقوله { ورفعنا لك ذكرك } قال الحسن ومجاهد وقتادة: معناه إني لا اذكر إلا ذكرت معي يعني بـ (لا إله إلا الله محمد رسول الله صلى الله عليه وآله). تفسير روح المعاني/ الالوسي وروي عن مجاهد وقتادة ومحمد بن كعب والضحاك والحسن وغيرهم أنهم قالوا في ذلك لا أذكر إلا ذكرت معي وفيه حديث مرفوع أخرج أبو يعلى وابن جرير وابن المنذر وابن أبـي حاتم وابن حبان وابن مردويه وأبو نعيم في «الدلائل» عن أبـي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " أتاني جبريل عليه السلام فقال إن ربك يقول أتدري كيف رفعت ذكرك؟ قلت الله تعالى أعلم قال إذا ذكرتُ ذكرتَ معي " اسکین صرف صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان کا ہی مل سکا۔
  9. برہان بھائی آپ کو فونٹ بدلنے کی وجہ سے شاید ٹھیک نظر نہیں آرہا۔ آپ کو اردو فونٹز بھیج دیتا ہوں انسٹال کرلیں پھر ٹھیک ہوجائے شاید۔
  10. زلفی صاحب توجہ دلانے کا شکریہ اور غلطی پر معذرت۔۔ میں لوڈشیڈنگ کے ڈر کے مارے جلدی جلدی میں کچھ کا کچھ کرگیا۔ عربی پر تو مجھے بھی کوئی عبور نہیں۔ ہاں البتہ علامہ ابن سیرین اس خواب کی تعبیر میں فرماتے ہیں؛ اس خواب کا دیکھنے والا حضور ﷺ کی احادیث اور سنتوں کو دنیا میں پھیلائے گا اور ان سے ایسے مسا ئل بیان کرے گا جن کی طرف کسی کا ذہن منتقل نہیں ہوا۔ ریفرینس جلد ہی پوسٹ کرتا ہوں۔
  11. روزنامہ نوائے وقت اثرچوہان مانگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شَیخ اُلاِسلام علّامہ طاہراُلقادری کی قیادت میں، اُن کے عقیدت مندوں کا، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع ہے۔ خُدا کرے کہ مارچ کے شُرکا محفوظ رہیں۔ علّامہ صاحب فرماتے ہیں۔ ”میری قیادت میں، لانگ مارچ، عوامی جمہوریہ چِین کے قائد، ماﺅزے تنگ کے لانگ مارچ کے بعد، سب سے بڑا لانگ مارچ ہو گا“۔ پھر فرمایا۔ مَیں حضرت امام حسینؓ کا غلام ہوں اور حسینی مِشن پر نِکلا ہوں“۔ علّامہ القادری نے کبھی ”ماﺅ کیپ“۔ نہیں پہنی۔ وہ پہلے ”جناح کیپ“۔ پھر۔ ”سندھی“ ٹوپی پہنتے رہے، لیکن۔ ”شیخ الاِسلام“۔ کا لقب اختیار کرنے کے بعد موصوف پاپائے روم کی طرح، ایک منفرد ٹوپی یا عمامہ پہننے لگے ہیں۔ علّامہ صاحب کو امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؑ سے تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک! ماﺅزے تنگ کی قیادت میں (1934ئ۔ 1935ءمیں) ہونے والے لانگ مارچ میں (بقول ماﺅزے تنگ) اُن کے ساتھ، نظریات سے مسلّح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ سُرخ فوج کے جوان اور معمر لوگ چل رہے تھے۔ ماﺅزے تنگ نے، لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لئے، اپنے لئے زندگی کی تمام آسائشوں سے لبریز، بم پروف کنٹینر نہیں بنوایا تھا اور نہ ہی اُن کی سیکورٹی کے لئے 313 گاڑیاں اور کمانڈوز کی 90 گاڑیاں چل رہی تھیں۔ انہوں نے زندگی میں دولت جمع نہیں کی۔ ماﺅزے تنگ، جب آنجہانی ہُوئے تو، چھ جوڑے کپڑے (یونیفارم) ایک لائبریری اور بنک میں ایک ہزار سے بھی کم ڈالرز چھوڑے۔ علّامہ صاحب نے تو ماشااللہ اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ ہر نیوز کانفرنس میں، اُن کے دائیں بائیں بیٹھے اُن کے دونوں پی ایچ ڈی، بیٹوں کی سات پشتیں کینیڈا میں بیٹھ کر آرام سے کھا سکتی ہیں۔ لانگ مارچ پر روانہ ہونے سے پہلے علّامہ صاحب نے (اپنے دونوں بیٹوں سمیت) اہلِ خانہ کو وصیت بھی کی کہ۔ ”میرے قتل کی صورت میں میرے مشن کو جاری رکھا جائے“۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ علّامہ القادری کے اہلِ خانہ لانگ مارچ میں شریک نہیں ہیں۔ علّامہ القادری کے بقول وہ پاکستان میں۔ ”انقلاب“۔ لانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ماﺅزے تنگ نے 1927ءمیں۔ ”ھونان کی کسان تحریک کے بارے میں تحقیقی رپورٹ“۔ میں۔ ”انقلاب“۔ کے حوالے سے لِکھا تھا۔۔۔ ”انقلاب کوئی دعوتِ طُعام، یا مضمون نویسی، یا مصّوری، یا کشِیدہ کاری نہیں۔ یہ اتنا نفِیس، اتنا پُرسکون اور کرِیم اُلنفس، اتنا مُعتدل، رحم دل، مودب، محتاط اور عالی ظرف نہیں ہو سکتا۔ انقلاب ایک بغاوت ہے، ایک ایسی تشدد آمیز کاروائی ہے جس کے ذریعے ایک طبقہ، دوسرے طبقے کا تختہ اُلٹتا ہے۔ دیہی انقلاب ایک ایسا انقلاب ہے، جس کے ذریعے کسان طبقہ، جاگیردار زمیندار طبقے کے اقتدار کا تختہ اُلٹتا ہے۔ انتہائی قوت استعمال کئے بغیر کسانوں کے لئے زمینداروں کے اس انتہائی مستحکم اقتدار کا تختہ الٹنا ممکن نہیں جو ہزاروں برس سے قائم ہے“۔ علّامہ القادری تو، محض آئینی اصلاحات کا جھنڈا لے کر، لانگ مارچ کے لئے نِکلے ہیں، لیکن یہ تو، بہت ہی مہنگا لانگ مارچ ہے۔ اتنے مہنگے سیٹ تو ہالی ووڈ کی کسی جنگی فلم کی تیاری میں بھی نہیں لگائے جاتے۔ فلم کی تیاری میں بھی، ہر کردار کو ایک سکرپٹ دِیا جاتا ہے، ریہرسل کرائی جاتی ہے۔ مکالمے یاد کرائے جاتے ہیں، لیکن علّامہ صاحب کے مارچ میں شریک لوگ تو، محض ایک ہجوم کی صورت ہیں۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کر کے، اپنی اپنی جان چھڑا لی ہے۔ اور علّامہ صاحب کی۔ ”اخلاقی حمایت“۔ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ علّامہ صاحب خود بلند اخلاق ہیں۔ ایک زمانہ اُن کے اخلاق کا دم بھرتا ہے۔ بھلا انہیں دوسروں کی اخلاقی حمایت کی کیا ضرورت ہے؟ چودھری شجاعت حسین۔ اپنے نائب وزیرِاعظم کزن چودھری پرویز الہی اور اُن کے بیٹے چودھری مونس الہی کو لے کر، لانگ مارچ رکوانے کے لئے جب، علّامہ صاحب کے گھر پہنچے تو، علّامہ صاحب کے دونوں بیٹے متحرک تھے۔ لانگ مارچ۔ چودھری خاندان اور طاہرالقادری خاندان کا مسئلہ معلوم ہو رہا تھا، ملک محمد ریاض آف بحریہ بھی، چودھری صاحبان کے ساتھ تھے، لیکن علّامہ القادری نے ملک ریاض کو، ریاست کا اسٹیک ہولڈر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لانگ مارچ کے ڈرامے میں، ملک ریاض کے اچانک نمودار ہونے سے، پتہ چلا کہ جِس طرح، ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اُسی طرح ہمارے بہت سے، سیاستدانوں کی کامیابی کے پیچھے، ملک ریاض کا ہاتھ بلکہ کندھا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ۔ حضرت موسیٰؑ کے دور کے، بنی اسرائیل کے ایک شخص ”قارون“۔ کے پاس بھی اتنی دولت نہیں تھی کہ جتنی، ملک ریاض کے پاس ہے۔ روایت ہے کہ قارون کے پاس اتنا خزانہ تھا کہ 40 خچر، اُس خزانے کی چابیاں لے کر چلا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے قارون کو، اپنے ایک ہزار دینار پر، ایک دِینار زکوٰة ادا کرنے کا حُکم دیا تھا، لیکن اُس نے یہ حُکم نہیں مانا اور وہ حضرت موسیٰؑ کی بددُعا سے اپنی دولت سمیت زمین میں غرق ہو گیا۔ چودھری شجاعت حسین نے، ملک ریاض کو پاکستان کا سب سے بڑا مخیر قرار دیا اور خلقِ خُدا کے ساتھ اُن کے حُسنِ سلوک کی بہت تعریف بھی کی۔ علّامہ القادری اگر چاہتے تو، پُر امن رہنے کی شرط پر، وہ اپنے لانگ مارچ، کے سارے اخراجات ملک ریاض سے وصول کر سکتے تھے، لیکن علّامہ صاحب کو، اللہ تعالیٰ نے اتنا کچھ دیا ہے کہ انہیں کسی بھی، ملک ریاض کی ضرورت نہیں۔ یوں بھی، ملک ریاض اپنے ہر۔ ”کارخیر“۔ کی خُفیہ طور پر ویڈیو فلم بنوا لیتے ہیں۔ علّامہ القادری نے چودھری صاحبان کو مایوس بھیج دیا، لیکن۔ ”ہنوز اسلام آباد دُور است“۔ چودھری شجاعت حسین اب بھی پُراُمید ہیں۔ کہتے ہیں۔ ”راستے میں، مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں اور لانگ مارچ رُک سکتا ہے“۔ ایسی صورت میں صدر زرداری کی خدمت میں جو رپورٹ پیش کی جائے گی۔ اُس کا منظوم خلاصہ یہ ہو گا۔۔۔ ”چودھریوں سے، مُک مُکا میں، ملک ریاض کا، کیا ہے کام؟ مانگتا ہے، شَیخ اُلاِسلام ، پاکستان میں اُونچا مقام“
  12. روزنامہ نئی بات مستنصر حسین تارڈ کے کالم سے اقتباس۔ اے قائداعظم ترا احسان ہے احسان کہیں کسی کینیڈین پادری صاحب کو یکدم خیال آتا ہے کہ پاکستانی عوام میری مسیحائی کے منتظر ہیں۔۔۔ اور چونکہ میں وہ واحد شخص ہوں جس پر دن رات بشارتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اس لئے کچھ حرج نہیں کہ میں ایک مُوسیٰ کا کردار ادا کرتے ہوئے اس قوم کو دریائے نیل کے پار لے جاؤں۔۔۔بے شک اس مقدس لبادے پر میرے خون کے دھبے نہ تھے، بکرے کے خون کے تھے اور ایک ناہنجار جج نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے آغاز میں مجھے جھوٹا اور فریبی قرار دیا گیا تھا۔ اگر تفصیل درکار ہے تو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کا وہ شمارہ دیکھ لیجئے جس میں یہ عدالتی فیصلہ شائع ہوا۔
  13. روزنامہ نئی بات پروفیسر مظہر انقلاب انقلاب انقلاب انگڑائی لے کر بیدار ہونے والی حق و صداقت کی آندھیوں نے ہر مقہور کے ذہن میں یہ الفاظ رکھ دیئے ہیں کہ ہماری ماؤں نے ہمیں غلام نہیں جنا، نہ ہم سدھائے ہوئے بندر ہیں جو ہر صاحبِ مکر و ریا کی ڈُگڈی پر ناچنے لگیں ۔منزل قریب آ لگی تو کچھ شعبدہ باز اپنے کرتب دکھانے میدان میں اُتر آئے ۔حکمرانوں کو تو گزرے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہی ہو گااور قوم بد دیانتوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھیکنے کے لئے بیتاب بھی ہے لیکن اِن ’’درآمدی رہزنوں‘‘ کے ذہنوں میں چھُپے زہر سے آگہی بھی ضروری ہے ۔اہالیانِ فکر و نظر اور صاحبانِ بصارت و بصیرت کا فرض ہے کہ وہ دھرتی ماں کا قرض اتارتے ہوئے قوم کو آگاہ کریں کہ یہ نو وارد جو یک سو قوم میں تفرقہ ڈالنے آئے ہیں منصورِ حقیقت نہیں ابنِ ابی ہیں اور حسینیت کا پرچار کرنے والے در اصل یزیدیت کے علمبردار ہیں کہ خلفائے راشدین کا نظام لوٹانے کا دعویٰ کرنے والے کبھی بارہ بارہ کروڑ لاگت کے بُلٹ پروف اور بم پروف کنٹینروں میں سفر کرتے ہیں نہ بُلٹ پروف لینڈ کروزروں میں ۔تینوں خلفائے راشدینؓ نے یکے بعد دیگرے شہادت قبول کر لی لیکن بیت المال سے اپنی حفاظت کے لئے ایک درہم بھی صرف کرنا گوارا نہ کیا ۔لیکن یہ غیر ملکی مولوی موت کے خوف سے لرزہ براندام چوہے کی طرح اپنے بُلٹ پروف بِل میں گھُسا بیٹھا ہے ۔اُس شعبدہ باز نے لانگ مارچ سے پہلے اپنی وصیت لکھوائی حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اُس پر خود کُش حملے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خود کُش حملہ حکیم اللہ محسود کے حکم سے ہونا ہے اور حکیم اللہ امریکی ایجنٹ جبکہ مولوی امریکہ کا چہیتا اور دونوں کا مقصد اور ایجنڈا ایک ، انارکی اور صرف انارکی ۔میں نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہر طالبان کمانڈر کو حکیم اللہ کی مخبری پر ڈرون کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔کالم کی اشاعت کے اگلے ہی روز جنوبی وزیرستان کے کمانڈر مُلّا نذیر کو ڈرون کی غذا بنا دیا گیا ۔مُلّا نذیر کے بارے میں ہماری ایجنسیاں ہی نہیں بلکہ بہت سے واقفانِ حال بھی جانتے تھے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کا جذباتی حامی تھا اور اسی بنا پر اُس کے حکیم اللہ محسود سے شدید اختلافات بھی پیدا ہو چکے تھے ۔ جب کروڑوں ڈالرز سالانہ کی سیکولر دانشوروں اور این جی اوز پر سرمایہ کاری کے باوجود امریکہ حصولِ مقصد میں ناکام رہا تو اسے بھی ادراک ہو گیا کہ پاکستان کے دین سے والہانہ محبت کرنے والے مسلمانوں کے لیے یہ سیکولر دانشور اور این جی اوز، ناکافی ہیں ۔تبھی اُس نے ایک ایسا مولوی بھیجنے کا فیصلہ کیا جو دینِ اسلام کی وہی تشریح کرتا ہے جو امریکہ کو مرغوب ہے ۔میرا دین تو جھوٹے پر ہزار لعنت بھیجتا ہے لیکن اِس’’مسیلمہ کذاب ‘‘ کی پوری زندگی ہی جھوٹ سے عبارت ہے ۔اُس نے پہلے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے مجمعے کو پچیس لاکھ اور پچیس میل تک پھیلا دیا اور اب جب کہ خفیہ ایجنسیاں اور سارا میڈیا چیخ رہا ہے کہ لانگ مارچ کا مجمع کسی بھی صورت میں چالیس ،پینتالیس ہزار سے زیادہ نہیں تو مولوی صاحب اسے چالیس لاکھ قرار دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہ ابھی دس لاکھ لوگ پیدل بھی آ رہے ہیں ۔جب لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد دس سے پندرہ ہزار رپورٹ کی جا رہی تھی تب ایک ٹاک شو میں منہاج القرآن کے ترجمان ریاض قریشی نے یہ تعداد ایک لاکھ بتائی اور عین اسی وقت مولوی صاحب یہ تعداد دس لاکھ بتا رہے تھے ۔مولوی صاحب سے اندھی عقیدت میں گُم اس کے پیرو کاروں کو عقلِ سلیم کا تھوڑا سا استعمال کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا دینِ مبیں کے علمبردار اتنے جھوٹے بھی ہوا کرتے ہیں؟۔انہیں یہ بھی مدِّ نظر رکھنا ہو گا کہ قول کے کچے لوگوں سے نسبت پر کیسا ناز دھوبی کے کُتّے کا کیا ہے ،جس کا گھر نہ گھاٹ جو شخص 23دسمبر سے اب تک سینکڑوں بار اپنے بیانات بدل چکا ہو ، حکومت سے تحریری معاہدہ کرکے مکر چکا ہو اور جس کے قول و فعل میں تضاد ہی تضاد ہو اسے دینِ مبیں کا علمبردار کہنا بذاتِ خود گناہِ کبیرہ ہے ۔مولوی صاحب نے اعلان فرمایا ہے کہ صدر ،وزیرِ اعظم اور وزراء سابق ہو گئے ، اسمبلیاں ختم ہو چکیں اور اب سفرِ انقلاب شروع ہو گیا ۔اُس نے زرداری ، پرویز اشرف ،نواز شریف اور اسفند یار ولی کو قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے کا حکم بھی دیا ہے ۔ایسی باتیں کوئی مخبوط الحواس شخص ہی کر سکتا ہے اور سچ کہا ہے سینیٹر پرویز رشید نے کہ ایسے شخص کو جیل بھیج دینا چاہیے یا پاگل خانے لیکن شاطر رحمٰن ملک کا پروگرام کچھ اور ہے ۔جس طرح وہ مولوی قادری کو ڈھیل دیتے جا رہے ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ ملک صاحب نے مولانا قادری کو بھی سوات کے صوفی محمد کے سے انجام کو پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔حکومت نے صوفی محمد کو ڈھیل دیتے دیتے اُس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ آپے سے باہر ہو گیا اور یہی حربہ اب مولوی طاہر القادری کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
  14. روزنامہ نئی بات عبداللہ طارق سہیل کھیل علامہ ناگہانی کہتے ہیں، وہ روحانی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ کس قسم کا روحانی انقلاب۔ یہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ہیڈ سلیمانکی میں علامہ صاحب کے نوجوان اور ادھیڑ عمر روحانیین لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک65 سالہ غازی محمد یار کو روک کر حکم دیا، لانگ مارچ میں چلو۔ یار محمد نے کہا کہ وہ بوڑھا اور بیمار ہے، اتنی دور نہیں جا سکتا۔ یہ سن کر روحانیین کا مقامی گرو غلام فخری طیش میں آگیا اور بزرگ کو ٹھڈے، مکے اور لاتیں مار مار کر بے ہوش کر دیا۔ روحانی لوگ وفورِ روحانیت سے اکثر بے خود ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسروں کو اس طرح بے خود کرنا پہلی بار سنا۔ بے خود کرنے کے لئے لاتوں ، ٹھڈوں اور گھونسوں کا استعمال علامہ صاحب کے روحانیین کی بالکل نئی ایجاد ہے۔ سچ ہے، موصوف روحانیت کے بھی مجدّد ہیں۔ ___________________________ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے تحت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور بم دھماکے اسی کھیل کا حصہ ہیں اور اسی کے دوران طاہر القادری بھی اچانک سامنے آگئے اور دوسری طرف بھارت نے سرحد پر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کے آئینی خاتمے میں دو ماہ رہ گئے ہیں ۔اخبار نے لکھا ہے کہ یہ واقعات ایک لکھے گئے سکرپٹ کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ ایک اور اخبارہٹنگٹن پوسٹ نے حیرت ظاہر کی ہے کہ علامہ موصوف آئینی تبدیلیوں کے لئے غیر آئینی مطالبات کیوں کر رہے ہیں۔ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اتنے بھاری فنڈز انہیں کہاں سے مل رہے ہیں۔ بہت زیادہ درست تجزیئے کرنے والے برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ قادری کی خواہش ’’راولپنڈی‘‘ کی خواہش ہے اور وہ فوج کے گھوڑے پر سوار ہیں اور پاکستان کی تاریخ کی بھیانک ترین غلطی ہونے جا رہی ہے اور یہ پاکستان کا افسوسناک موڑ ہوگا۔ ممتاز دفاعی ماہر اور مبصر جنرل اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ نے الیکشن روکنے کے لئے قادری کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ہوئے تو نواز شریف حکومت میں آئیں گے اور امریکہ کو نواز شریف کا حکومت میں آنا گوارا نہیں کیونکہ وہ امریکہ کا حکم نہیں مانتا۔ کہانی صاف ہے۔ تشریح کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدر ادارے کرپشن پر پریشان ہیں حالانکہ کرپشن تو ’’زیر سرپرستی‘‘ ہے اور یہ کیسی پریشانی ہے جو الیکشن سے عین پہلے پیدا ہوگئی ہے۔ اصل بات وہی ہے یعنی یہ ڈر کہ امریکہ کا حکم نہ ماننے والے آجائیں گے۔افغان صورت حال اور کشمیر کے مسئلے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام، ٹوٹتی پھوٹتی ریاست بنا دیا جائے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے اور ’’پریشان‘‘ حضرات کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ آخر یہ ’’تقاضا‘‘ ہی تو ہے کہ مشرف اور اس کے مرید بے صفا شیخ رشید سمیت سارے ’’پارسا اور متقی پرہیز گار‘‘لوگوں نے اچانک ہی علّامہ کی حمایت شروع کر دی ہے۔ ___________________________ لانگ مارچ کے نتیجے ابھی نہیں نکلیں گے تو بعد میں نکلیں گے۔ یہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے لیکن ایک نتیجہ تو نکلا، زبردست ’’اکنامک ایکٹویٹی‘‘ کی شکل میں۔ جلسے پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے، لانگ مارچ پر5 سے7 ارب روپے کا خرچہ ہوا۔ یہ محتاط اندازہ ہے، صحیح تو زیادہ کا ہوگا۔ پانچ پانچ کروڑ کی رقم تو چار اینکر پرسنوں کے پروگرام خریدنے پر لگی۔ فی اینکر نہیں، فی پروگرام۔ کل دس پروگرام ہوں گے۔ 50 کروڑ تو یہی لگے۔ بیضوی پیٹ اور نیم بیضوی چہرے والے ’’خان‘‘ نے سب سے زیادہ ہاتھ رنگے۔ ملک ریاض کی سخاوت بھی اسی اینکر پر سب سے زیادہ برسی تھی۔ چنانچہ غور فرما لیجئے، کتنے لوگوں کا بھلا ہوا ہوگا۔ کتنے تشہیری اداروں نے اپنے ملازموں کو بونس دیئے ہوں گے۔ ہزاروں دیہاڑی داروں کی ہفتے بھر کی نہیں تو دو چار دن کے لئے چولہا گرم کرنے کی تدبیر تو ہوگئی۔ کچھ لوگ مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاہور سے تین لاکھ افراد لے کر نکلنے کا دعویٰ تھا، صرف سات ہزار کا ’’لانگ مارچ‘‘ کیوں نکلا اور اسلام آباد میں40لاکھ کا دعویٰ تھا، ایک لاکھ بھی نہیں آئے ۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سات آٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری تو ہوگئی۔اور یہ پوچھنا تو نادانی ہے کہ اتنے ارب در ارب کی دولت کہاں سے آئی۔ پہنچے ہوئے بزرگوں کو ’’دست غیب‘‘ تک غیبی رسائی ہوتی ہے۔ اور غریبوں کی بات آئی تو وہ دو غریب یاد آگئے جو ایک غریب پر ور ملک ریاض کا دامن پکڑ کر آستانہ انقلاب جا پہنچے تھے۔ انقلابِ دوراں نے فرمایا کہ ملک ریاض کی موجودگی میں بات نہیں کروں گا۔ (یہ سچ ہی تھا۔ اضافی بدنامی مول لینے سے کیا فائدہ) دونوں غریب بھائیوں نے انہیں بتایا کہ ملک ریاض غریبوں کو بہت کھلاتے ہیں‘‘ دونوں غریبوں کو ملک ریاض نے یقیناً پیٹ بھر کر کھلایا ہوگا اور دونوں غریبوں نے جھولیاں اٹھا اٹھاکر دعائیں بھی دی ہوں گی۔ جس طرح اب تک وہ زرداری کیلئے جھولیاں اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے پہلے مشرف کے لئے اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے بھی پہلے نواز شریف کے لئے اٹھاتے رہے۔ غریبوں کی اس سدا بہار جھولی بردارجوڑی کی خیر!
  15. ابولہب کے اس خواب سے علما نے وہی استدلال کیا ہے جو ہم کرتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نجدی وہابیوں کے نزدیک بھی ایک مسلّم شخصیت ہیں اس خواب پر ان کا استدلال پڑھ لیجیئے۔ اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ اب ذرا وہابی مردودوں سے کہیں کہ امامِ اعظم کے اس خواب پر علمِ رویا کے امام ابن سیرین کا قول پیش کردیں جلدی سے۔ خیر مر گیا مردود نہ فاتحہ نہ درور کے تحت آپ کے اس سوال کے بعد وہابی کی ماں مر جانی ہے اور جواب نہیں آنا۔
  16. فیصل صاحب اول تو آپ کھل کے اعتراض کرنے سے ہی گھبرا رہے ہیں اور الٹا چور کتوال کے ڈانٹے کے مصداق ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کھل کے جواب دیں۔ پہلے اپنا اعتراض تو کھل کے پیش کیجیئے۔ آپ کے نزدیک غیراللہ سے دعا مانگنا جائز ہے یا ناجائز؟ پہلے اس کا جواب عنایت فرما دیں پھر آگے مزید سوالات قائم کیجیئے گا۔ ویسے اردو لغت ہی دیکھ لیتے تو تکلیف دور ہوجاتی آپکی۔ اردو لغت میں دعا اسمِ مونث ہے اور معنی التماس، استدعا، درخواست، عرض ہیں۔ جہاں تک دعا کا معنیٰ طلب اور مانگنے کا اہل لغت نے کیا ہے تو یہ مطلق طلب نہیں ہے بلکہ ضعیف اور حاجت مند جب اپنے سے بڑے سے کچھ طلب کر تا ہے تو اسے بھی دعا کہا جاتا ہے۔
  17. Let me quote the report exactly first; I'd say all those who object Imam Ahmed Raza Khan's act are actually following those prostitutes as they objected on the same and those who favors the answer of Imam is representing Imam Ahmad Raza. This is a matter of each one’s fate. This answer of Imam Ahmad Raza (Radi Allahu Anhu) explains his God-gifted knowledge and piety, otherwise it is impossible to give such an academic answer at such a young age. The prostitutes were the first to put this allegation on Imam Ahmad Raza, and Imam Ahmad Raza gave them an academic answer as per the knowledge bestowed upon him by Allah . About the query regarding Shariah ruling to apply on Ahmad Raza Khan's act (showing the Satr) is plainly absurd. Do you even know when does a person becomes Baaligh? Or at what age following the Shariah ruling becomes obligatory on a person? I'd love to see a fatwa on minor for showing the satr. So there goes the reply regarding the Shariah ruling on this matter. First of all Ala'Hazrat reported this event from Imam Buseri (Rehmatullahe Ta'ala Allaihe). Lets say Ala'Hazrat mentioned about his own experience. Did your father never seen your mother when she was feeding you? Didn't you ever seen a lady feeding her baby? The report is about seeing a grown up girl forcefully feeding from his mother and NOT about Ala'Hazrat seeing the breasts. Let me put a few examples to help you understand it a bit more. You're sitting with your mom and she goes to the washroom to take a bath. A few moments later your father asks you "beta have you seen your mother"? A common reply would be; "Yes she is taking a bath". Now should we consider that you have literally seen your mother having bath? I think now you can understand how lame this objection is.
  18. لانگ مارچ کے ڈرامے اور متحدہ قومی مومنٹ سے اتحاد کے بعد ڈاکٹرپادری کے متعلق کافی کچھ عوام کے سامنے آچکا ہے۔ سوچا اتنے عرصے بعد فورم پر حاضر ہوا ہوں تو کچھ سامان اور مہیہ کرتا چلوں۔ سو خلوص باتوں میں پادری کے ہم خیالوں میں بس ذرا سی شرم کم ہے ان منہاج والوں میں
  19. ٹاپک پر کافی عرصہ سے کوئی ایکٹویٹی بھی نہیں اور پورا ٹاپک بھی نہیں پڑھ پایا اس لیے ممکن ہے کہ اس کا جواب آپ دے چکے ہوں۔ اگر جواب عنایت فرما دیا ہے تو برائے مہربانی پوسٹ نمبر بتلا دیجیئے گا۔ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اس روایت میں ایسے بندوں سے مدد مانگنے کا ذکر ہے جو ہمیں نظر نہیں اتے۔ تو اول تو یہ بتائیے کہ یہ کون سے بندے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے؟ کیا یہ صرف دل کے اندھوں سے اوجھل ہیں یا آنکھوں کے اندھوں سے بھی اوجھل ہیں؟ آپ مزید تسلیم کرتے ہیں اجازت بھی جنگل بیابان میں ہے۔ تو کیا یہ بندے صرف جنگلات کی حد تک ہی محدود ہیں؟ کیا انہیں ساری دنیا میں بسی مخلوق کو چھوڑ کر صرف جنگل وبیابان میں مصیبت زدوں کی مدد پرمامور کیا گیا ہے؟
  20. اس ضمن میں اتنا ہی کہوں گا کہ فتوی کا مطالبہ کرنے سے پہلے ڈاکٹرپادری سے متعلق دیگر ٹاپکز کا مطالعہ کریں۔ خاص اسی سوال کا جواب موجود کہ ڈاکٹرطاہر کو پادری کہنا کیسا ہے۔ میری اس طرح اچانک ڈاکٹرپادری کے موضوع پر بات کرنا شاید عجیب لگے۔ دراصل دیوبندی اور منہاجیوں کی درگت بنانے کے جراثیم ختم ہی نہیں ہوتے۔ یہاں ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ اختلافات میں مخالف کے لئے گھٹیا زبان استعمال کرنے کو میں بھی ٹھیک نہیں سمجھتا لیکن کچھ صفات اگر واقعی اس بندے میں پائی جاتی ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسے جھوٹے کو جھوٹا کہنا خبیث کو خبیث کہنا۔ جیسے 63 سال کی عمر کی بشارت بازبانِ اقدسِ مصطفٰی ﷺ پانا اور پھر اس سے زائد عمر پانا، ممتازقادری جیسے محبِ رسولﷺ کو قاتل قرار دے کر اپنی ازلی خباثت کا اظہار کرنا وغیرہ۔ اب تو خیر سے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد ڈاکٹرپادری کے کافی ڈرامے عوام کے سامنے آچکے۔ رہی بات ڈاکٹرپادری کا میڈیا کوریج کے لئے پیسے دینا تو کچھ بعید نہیں سچ ہو۔ جس حد تک اس شخص کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں یہ پیسے اور شہرت کے لئے کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ کبھی اگر ڈاکٹرپادری سے ملاقات ہو تو جدّہ ائرپورٹ پر لیموزین میں بیٹھنے کے شوق میں بخاری فیملی (میرے سسّر) کے ہاتھوں ذلیل ہونے کی داستان پوچھ لیجیئے گا۔ باقی الحمدللہ حق بات کو تسلیم کرنے والے آپ اکیلے نہیں۔ میں خود دعوتِ اسلامی کو کافی مسائل میں ڈیفینڈ کرتا رہا ہوں لیکن ٹی وی ویڈیو میں اختلاف اپنی جگہ آج بھی قائم ہے۔
  21. آپ کی یہ پوسٹ کس پوسٹ کے جواب میں ہے یہ سمجھ نہیں آیا یا غالباً اصل پوسٹ ڈیلیٹ کی جاچکی۔ خیر بات شاید ڈاکٹرپادری کے متعلق ہے۔ جہاں تک بات ہے برے القابات کی تو جناب منہاجیوں کو اور دیگر کافی حضرات کو لفظ پادری پر ہی زیادہ تر اعتراض ہوتا ہے اور شاید آپ کو بھی ہوگا۔ دیگر القابات کا تو نہیں معلوم مگر ڈاکٹرطاہر کو پادری کہنا کسی طور بدکلامی میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ خود ڈاکٹرپادری کا کہنا ہے کہ عیسائی اہل ایمان ہیں اور پادری کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہے۔ لہذا اگر یہی اصطلاح ڈاکٹرطاہر کے لئے استعمال ہو تو کیا حرج ہوا کہ خود ان کے قول کے مطابق پادری اہل ایمان قرار پاتے ہیں۔ تو ڈاکٹرپادری کہنے پر تو منہاجیوں کو خوش ہونا چاہیے۔
  22. یہ پوسٹر ڈاکٹر پادری کے آفیشل فیس بک پیج پر موجود ہے۔ مجھے اس پوسٹر کو مرتب کرنے والے کی بیچارگی پر رحم آرہا ہے۔ جھوٹ لکھتے ہاتھ اتنے کپکپائے کہ تاریخ بھی 2012 کی ڈال دی۔ لیکن بےشرمی سے جھوٹ بولنا منہاجیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ یہ تازہ ترین پوسٹر اسی آفیشل فیس بک پیج پر تقریباً 43 منٹ پہلے پبلش کیا گیا ہے۔
×
×
  • Create New...