Jump to content

Jad Dul Mukhtar

اراکین
  • کل پوسٹس

    733
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    25

سب کچھ Jad Dul Mukhtar نے پوسٹ کیا

  1. Jad Dul Mukhtar

    موت کی فضیلت

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ موت کی فضیلت کا بیان حاکم نے " مستدرک " میں اور طبرانی نے کبیر میں اور ابن مبارک نے زہد میں اور بیہقی نے " شعب الایمان " میں عبداللہ بن طہر سے روایت کی کہ رسول نے فرمایا کہ موت مومن کا تحفہ ہے ـ اس قسم کی حدیث دیلمی نے مسند فردوس میں نقل کی ـ دیلمی و بیہقی نے " شعب الایمان " میں حضرت عائشہ سے روایت کی کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ موت غنیمت ہے ، گناہ مصیبت ہے ، محتاجی راحت ہے ، مالداری عذاب ہے ، عقل خدائی ہدیہ ہے ، جہالت گمراہی ہے ، اطاعت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، خدا کی مشیت سے رونا نجات ہے ، اور ہنسنا ہلاکت ہے اور گناہ سے توبہ کرنے والا اس کی طرح ہے جو بے گناہ ہو ـ احمد اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں صحیح سند سے محمود بن بسیہ سے روایت کی کہ نبی نے فرمایا کہ دو چیزوں کو انسان برا سمجھتا ہے ـ موت کو برا سمجھتا ہے حالانکہ موت اس کے لئے فتنہ سے بہتر ہے ـ مال کی کمی کو برا سمجھتا ہے حالانکہ مال کی کمی سے قیامت میں حساب میں کمی ہو گی ـ نسائی ، طبرانی ، اور ابن ابی الدنیا نے عبادہ بن صامت سے روایت کی کہ رسول نے فرمایا کہ جو بھی جان روئے زمین پر مرتی ہے اس کے لئے اس کے رب کے پاس بھلائی ہے اور وہ واپس آنا نہیں چاہتی ، خواہ اس کو تمام دنیا اور ما فیھا ، دے دی جائے سوائے شہید کے ، کیوں کہ وہ بار بار آنے کی تمنا کرتا ہے تاکہ ثواب عظیم پائے ـ مروزی ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے " شعب الایمان " میں ابن مسعود سے روایت کی کہ دو چیزیں بہت بہتر ہیں ، محتاجی اور موت ـ ابن ابی الدنیا نے مالک بن مغول سے روایت کی کہ سب سے پہلی چیز خوشی کی جو مومن کو حاصل ہو گی وہ موت ہے کیونکہ اس میں وہ اللہ کا ثواب اور اس کا کرم دیکھتا ہے ـ طبرانی نے ابو مالک اشعری سے روایت کی کہ رسول نے فرمایا کہ اے اللہ ! جو لوگ مجھے رسول جانتے ہیں ان کے دل میں موت کی محبت ڈال دے ـ طبرانی نے " ترغیب " میں حضرت انس سے روایت کی کہ نبی نے ان سے فرمایا اگر تم میری وصیت یاد رکھو تو وہ یہ ہے کہ موت سے زا‏ئد پسندیدہ چیز تمہارے نزدیک کوئی نہ ہو ـ ابن ماجہ نے حضرت عمر سے روایت کی کہ رسول سے دریافت کیا گیا سب سے عقلمند کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو موت کو سب سے زائد یاد رکھے اور موت کے بعد کیلئے سب سے اچھی تیاری کرے ، یہ ہے عقل مند ـ شرح الصدور
  2. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH http://www.dawateislami.net/library/litera...2&year=2004 YE LINK HAI JA'AL HAQ OF MUFTI AHMED YAAR KHAN ALAIHI REHMAH http://www.dawateislami.net/library/detail...x?litid=lit-124
  3. MR. ZAKIR NAIK APP LOGOON KI TAKREEBAN AADATAIN SHIAOON SAY KITNI MILTI HAI, JESA KEH TAQEYA. JHOOT BOLNA. APP KEHTAY HAIN ISS SITE MAIN KOI FIRKA WARIAT KI BAAT NAHI. NAMAZ KAY MASAIL KYA HAIN YE,LINKS,ISLAM KAY SIRF DO ASOOL......ETC UB BHI HUM APP KI POST KO EDIT,DELETE NA KARAIN TO KYA KARAIN.
  4. WA A'ALAIKUMMUSSALAM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH JI BHAI IT'S FROM AD-DURA-RUS-SANEYATU FI RAD-E-ALA-ALWAHHABIYYAH. JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN
  5. Jad Dul Mukhtar

    FITNATUL WAHABIYYAH

    Fitnatul Wahhabiyyah - The menace of Wahhabism Mawlana Shaykhu-l-Islam Ahmad Zayni Dahlan al-Makki ash-Shafi'i (Chief Mufti of Mecca al-Mukarramah). May Allah be pleased with him Introduction During the reign of Sultan Salim III (1204-1222 AH) many tribulations took place. One was the tribulation of the Wahhabiyyah which started in the area of al-Hijaz(1) where they captured al-Haramayn(2), and prevented Muslims coming from ash-Sham(3) and Egypt from reaching their destination to perform Pilgrimage (Hajj). Another tribulation is that of the French who controlled Egypt from 1213 A.H. until 1216 A.H. Let us here speak briefly about the two adversities(4), because each was mentioned in detail in the books of history and in separate treatises. Background On The Tribulations Of The Wahhabis The fighting started between the Wahhabis and the Prince of Mecca, Mawlana Sharif Ghalib Ibn Bu Sa'id, who had been appointed by the honored Muslim Sultan as his ruling representative over the areas of al-Hijaz. This was in 1205 AH during the time of Sultan Salim III, the son of Sultan Mustafa III, the son of Ahmad. Previous to the outbreak of fighting, the Wahhabis began to build power and gain followers in their areas. As their territories expanded, their evil and harm increased They killed countless numbers of Muslims, legitimated confiscating their money and possessions, and captured their women. The founder of their wicked doctrine was Muhammad Ibn 'Abdul-Wahhab, who originated from eastern Arabia, from the tribe of Banu Tamim. He lived a long life, about one-hundred years. He was born in 1111 AH and died in 1200 AH. His history was narrated as follows: Muhammad Ibn 'Abdul-Wahhab started as a student of knowledge in the city of the Prophet, sallallahu
  6. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH SHOAIB APP SAY KAHA HAI KEH PEHLAY APNA EMAN SABIT KARO, APNA MUSALMAN HONA SABIT KARO, TUMHARA ALLAH AZZAWAJAL, MALAIKA ALAIHI SALAM, ANBIYA ALAIHI SALAM, SAHABAH IKRAM RADI ALLAH ANHUM, UMAHATUL MOMONEEN RADI ALLAH ANHUM, KAY BARAY MAIN KYA AQIDA HAIN. FROYE MASAIL PER ABHI BAT KARAIN GAY TUM SAY ITNI JALDI KYA HAI, RAFA YADEEN KI JO MANTAK TUM NAY POST KI HAI ISS SAY ANDAZA HOGAYA KAH TUM KITNAY PANI MAIN HO. IDDER UDDOR KI CHOORO OR JAWAB DO DALEEL SAY.
  7. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH DEDICATE KARTAY WAQT UN KA ALFAAZ KA HOTAY HAIN??? WO LIKH DAIN PLZZZZZ
  8. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH ALL SHOAIB SAY PEHLAY AQAID PER BAAT HONI CHAHIYE PHIR FROYE MASAIL PER BAAT HOGI. PEHLAY YE APNA MUSALMAN HONA SABIT KARAY PHIR RAFA YADEEN, VITER, TAREEH, SPRUM PAK HAI YA NAHI, KHIMZEER PAK YA NAJIZ, MUTA HARAM YA HALAL,.............................................ETC PEHLAY APNA EMAN SABIT KARAY PHIR BAAT HOGI AGAY. JAZAKALLAH AZZAWAJAL ALL SUNNIES AAMEEEEEEEEEN
  9. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH MUDASSIR APP KAHAIN TO SAJJAD BHAI KO FAIZAN E MADINAH MAIN HI PAKAR LAIN. JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEN
  10. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH BHAI MERA BHI YE HI MAKSAD HAI UN KO ALAG HONA CHAHIYE JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN
  11. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH MUDASSIR BHAI YE SUB KAY HONAY MAIN MUJAH KOI AYETIRAAZ NAHI HAI. SIRF EMOTION KAY HALWAY SAY POST KI HAI JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN
  12. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ[/size] THE BOOK OF ALAHAZRAT RADI ALLAH ANHU The Holy Prophet's Accession to the Arsh (of Allah) and to have the privilege of seeing Allah with his eyes. JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEN
  13. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ APP LOGON SAY AIK MADNI MASHWARA LAINA HAI. POST NEW TOPIC MAIN MAIN SHOW ALL AIK OPTION HAI JIS MAIN SALAM, AZZAWAJAL, SALLALLAHO ALAIHI WASALLAM , FI AMAN NILLAH ,ETC KAY SATH EMOTION HAIN, KYA YE USE KARNA SAHI HAI ? MERI NAKIS AKAL ISSAY KABOOL NAHI KARTI, APP KYA KEHTAY HAIN ISS BARAY MAIN??????????? JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEEEEN
  14. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH ALLAH AZZAWAJAL NABI E PAAK SALLALLAHO ALAIHI WASALLAM KAY WASILAY SAY APP KI WALIDA MAJIDAH KI HATMI MAGFIRAT FARMAYE. 20 QURAN APP KI WALIDA MAJIDAH KI BARGAH MAIN TOOHFA ALLAH AZZAWAJAL QABOOL FARMAYE. AAMEEEEEEEEN
  15. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں ، وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہو‏ئے ـ حضرت علامہ ملا علی قاری متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا ـ مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو ـ بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ مرقات شرح مشکوۃ میں ہے کہ ـ کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام " کتاب القوائد " کے آخر میں لکھتے ہیں کہ بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا ( تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے ) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کہ : ـ من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ صحیح مسلم ، ج 2 ، ص 341 ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی لکھتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ علامہ شامی کے استاد محترم عارف باللہ علامہ عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء " الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ " میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو " سنّۃ حسنہ " کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ " بدعت " کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ایسے کام کو " سنّۃ " قرار دیا ہے ـ
  16. Jad Dul Mukhtar

    جہنم کی چنگاڑ

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ دوزخ کی تخلیق کے وقت فرشتوں کی کیفیت ابن مبارک کی روایت ہے ، محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ : ـ جب دوزخ کی تخلیق ہو‏ئی تو اس سے ملائکہ پر اس قدر خوف و ہراس طاری ہوا کہ ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، پھر جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس سے ان کو سکون نصیب ہوا اور ان کے غم مٹ گئے ـ میمون بن مہران بیان کرتے ہیں : ـ اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا فرمایا ، پھر اس کو حکم دیا کہ وہ سانس لے ، جب جہنم نے گرم سانس لیا تو اس کی تپش اور گرمی سے ساتوں آسمانوں میں ہر فرشتہ جہنم کی چنگاڑ سے غش کھا کر منہ کے بل گر گیا ـ اللہ عزوجل نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا : اے فرشتو ! اٹھو ! کیا تم کو معلوم نہیں کہ میں نے تمہیں اپنی اطاعت اور عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنم کو میں نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کے لیے تخلیق کیا ہے جو نافرمان ہوں گے ، فرشتوں نے یہ فرمان الہی سن کر عرض کی : اے ہمارے پروردگار ! ہمارا ڈر دور نہیں ہوگا یہاں تک کہ ہم اہل جہنم کو دیکھ لیں ، اسی لیے ارشاد خداوندی ہے : ـ ان الذین ھم من خشیۃ ربہم مشفقون ترجمہ : وہ اپنے رب کے ڈر سے سہمے ہوئے ہیں ـ المومنون : 57 دوزخ کے ذکر سے رونے اور خوف زدہ ہونے والے حضرت زید بن اسلم بیان کرتے ہیں : ـ ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت اسرافیل علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہو‏ئے ، دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو سلام عرض کیا ـ حضرت اسرافیل علیہ السلام آنکھیں جھکائے کھڑے تھے اور ان کا رنگ اڑا ہوا تھا ـ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : اے جبرائیل ! کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اسرافیل کا چہرہ اترا ہوا ہے اور وہ سر افگندہ کھڑے ہیں ؟ حضرت جبرا‏ئیل نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ! زمین پر اترنے سے قبل ابھی ابھی انہوں نے جنہم کی ایک سخت چنگاڑ سنی تھی ، اسی وجہ سے یوں سہمے ہو‏ئے آنکھ جھگائے کھڑے ہیں ـ ابن مبارک کی روایت ہے ، محمد بن مطرف نے ثقہ راویوں سے حدیث نقل کی ہے کہ ایک انصاری نوجوان کے دل میں روزخ کا ذکر سن کر اتنا خوف پیدا ہوا کہ وہ دوزخ کے ذکر کے وقت روتا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں بند ہوکر رہ گیا ـ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے پاس اس نوجوان کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپ اس انصاری نوجوان کے گھر تشریف لائے ، جب آپ اندر داخل ہوئے تو وہ نوجوان آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے دامن سے لپٹ گیا اور پھر گر کر فوت ہو گیا ـ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اپنے ساتھی کے کفن دفن کا اہتمام کرو کیونکہ خوف جہنم کی وجہ سے اس کا جگر پارہ پارہ ہو جانے سے اس کی موت واقع ہو چکی ہے ـ حضرت امام ثعلبی اور دوسرے ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا جو قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ و ان جھنم لموعدھم اجمعین ترجمہ : اور بے شک جہنم ان سب کا وعدہ ہے ـ الحجر : 43 تو حضرت سلمان فارسی تین روز تک دیوانگی اور بے ہوشی کے عالم میں جنگل میں خوف جہنم کی وجہ سے دوڑتے پھرتے تھے ، پھر ان کو پکڑ کر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا ـ آپ نے ان کا حال پوچھا تو عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ! قرآن مجید میں اللہ عزوجل کا جو یہ فرمان نازل ہوا ہے کہ و ان جہنم لمو عدھم اجمعین تو مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، اس آیت کریمہ نے تو میرے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے ـ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوتی ہے ، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ان المتقین فی جنت و عیون ترجمہ : بے شک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں ـ الحجر : 45
  17. السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ امام اوزاعی اور حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رضی اللہ تعالی عنھم کا جنازہ مروی ہے کہ جس دن حضرت امام اوزاعی رضی اللہ تعالی عنہ کا جنازہ ہوا تو ان کے جنازہ میں مخلوق خدا کی کثرت کو دیکھ کر اور جنازہ کے موقع پر قدرت خداوندی کے عجائبات کا مشاہدہ کرتے ہوئے پیس 30 ہزار کے قریب یہودی اور عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ـ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ تعالی کا جب انتقال ہوا تو لوگ ان کے جنازہ میں شرکت کے لیے ہر طرف سے امڈ آئے اور اتنی مخلوق جمع ہو گئی کہ اس کی تعداد کا علم اللہ تعالی کو ہی ہے ـ پورے شہر میں چیخ و پکار اور شور برپا تھا ـ ایک عمر رسیدہ یہودی شور سن کر باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک جنازہ آ رہا ہے ، وہ بوڑھا چلا کر کہنے لگا : اے لوگو ! کیا تم بھی دیکھ رہے ہو جو مجھے نظر آ رہا ہے ؟ لوگوں نے کہا : بڑے میاں ! تمہیں کیا نظر آ رہا ہے ؟ اس نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک قوم آسمان سے اتر رہی ہے اور وہ جنازہ کو چھو کر تبرک حاصل کر رہی ہے ، پھر وہ یہودی اسلام میں داخل ہو گئے اور بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے ـ اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ـ آمین
  18. السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ رحمت خداوندی عزوجل ابو داؤد طیالسی نے روایت کیا ہے :ـ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس بات کی خبر دوں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی مومنین کے ساتھ سب سے پہلی بات کیا کرے گا ؟ صحابہ نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ( صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ) ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ تعالی مومنین سے فرمائے گا : کیا تم میری ملاقات کو پسند کرتے تھے ؟ وہ عرض کریں گے : ہاں اے ہمارے رب ! : پھر اللہ تعالی فرمائے گا : یہ بتاؤ تمہارا میرے ساتھ ملاقات کرنے کے شوق اور محبت کا باعث کیا چیز تھی ؟ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : اہل ایمان عرض کریں گے : تیری رحمت ، بخشش اور رضا ، اللہ تعالی فرمائے گا : بے شک میری رحمت تمہارے لیے واجب ہو گئی ہے ـ حلیۃ الاولیاء ج 8 ص 179 ، مسند احمد ج 5 ص 238 ، طبرانی الکبیر ج 20 ص 94 حافظ ابو نعیم نے روایت کی ہے : ـ حضرت زید بن اسلم بیان کرتے ہیں : گزشتہ امتوں میں ایک شخص تھا جو عبادت و ریاضت میں بڑی کوشش کرتا تھا اور وہ لوگوں کو اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس کرتا تھا ، پھر وہ مر گیا ، جب وہ اللہ تعالی کی جناب میں گیا تو کہنے لگا : اے پروردگار ! تیری بارگاہ میں میرے لیے کیا اجر و ثواب ہے ؟ اللہ نے فرمایا : جہنم کی آگ ہے ، اس نے کہا : تو میری عبادت اور ریاضت کہاں گئی ؟ جواب ملا کہ : تو دنیا میں لوگوں کو میری رحمت سے ناامید کیا کرتا تھا اور آج کے دن میں تجھے اپنی رحمت سے نا امید و محروم کرتا ہوں ـ حلیۃ الاولیاء ج 3 ص 222 ایک عجیب واقعہ ابو غالب فرماتے ہیں کہ میرا شام میں حضرت ابو امامہ کے ہاں آنا جانا رہتا تھا ، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ابو امامہ کے پڑوس میں ایک لڑکا بیمار پڑ گیا ، میں اس کی عیادت کو گیا ـ وہ لڑکا کہتے ہیں بڑا نافرمان اور سرکش تھا ، اس کے پاس اس لڑکے کا چچا بیٹھا ہوا اس کو سخت سست کہہ رہا تھا کہ اے دشمن خدا ! کیا میں تجھے برے کاموں سے منع نہ کرتا تھا ؟ مگر تو نے میری ایک نہیں سنی اور کوئی اچھا کام نہیں کیا ، اب دیکھ رہا ہے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ؟ وہ لڑکا بولا : اے چچا ! مجھے آپ ایک بات بتائیے کہ اگر اللہ تعالی مجھ کو میری ماں کے سپرد کر دیتا تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتی ؟ اس کے چچا نے کہا کہ وہ تجھ کو جنت میں داخل کرتی تو اس لڑکے نے کہا : قسم اللہ کی ! اللہ کریم مجھ پر میری ماں سے زائد رحم کرنے والا ہے ـ قضائے الہی سے وہ لڑکا اسی وقت فوت ہوگیا ، اس کے چچا نے اس کے کفن دفن کا اہتمام کیا ، نماز جنازہ کے بعد جب اس کو قبر میں اتارنے لگے تو ابو غالب کہتے ہیں کہ اس کے چچا کے ساتھ میں بھی قبر میں اترا ، جب اس پر اینٹیں رکھی جا رہی تھیں تو ایک اینٹ گر پڑی تو اس کا چچا اچانک کچھ دیکھ کر گھبرا گیا اور چلایا : میں نے کہا : تجھے کیا ہوا ؟ اس نے جواب دیا : اس لڑکے کی قبر حدنگاہ تک وسعت کر دی گئی ہے اور وہ تور سے بھر دی گئی ہے اور میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہو گیا ہوں ـ
  19. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH BHAI APP KAY SAWAL PARHAY APP KO ISS KAY JAWAB BHI MILGAYE HAIN, APP KO AIK MADNI MASHWARA DOON GA APP HAR NAMAZ SAY PEHLAY (1 HOUR ) WALIDA SAY POOCHA LIA KARAIN KAH KOI KAAM TO NAHI HAI KUCH LANA TO NAHI HAI KAHEEN JANA TO NAHI HAI TAH KAH APP NAMAZ KAY WAQT FARIQ HO JAYEEN GAY. DOOSRA APP NAY WAZAIF KAY BARAY MAIN POOCHA TO EIK AMAL AMEER E AHLESUNNAT HAZRAT ALLAMA MOULANA ABUL BILAL MOHAMMAD ILYAS ATTAR QADRI RIZVI DAMAT BARAKATUHUM ALIYAH NAY HAMAIN MADNI ENAMAAT KA TOOHFA DIA HAI JO 72 MADNI SAWALAAT PER MUSHTAMIL HAI APP USS PER AMAL KARAIN, WEEKLY IJTIMA ATTEND KARAIN, OR IJTIMA MAIN JA KAR DUA KARAIN. WAZAIF: محبت غیر کی دل سے نکالو یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم مجھے اپنا ہی دیوانہ بنالو یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم بسم اللہ الرحمن الرحیم ط لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین ط اللہ نور السموات و الارض ط لا تاخذہ سنۃ و لا نوم ط باوضو تین بار پڑھ کر ( اول و آخر ایک بار درود شریف ) پانی پر دم کر کے پی لیں یہ عمل 40 دنوں تک کریں ـ نماز کی پابندی ضروری اشد ضروری ہے ـ یا قھّار : چلتے پھرتے ورد کرتے رہنے سے دنیا کی محبت دور ہوتی ہے اور اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی محبت پیدا ہو گی ـ ق پر زبر ، ھ پر بھی زبر اور ر پر پیش ہے یا ممیت : بغیر حساب جنت میں داخلے کے لئے ہر نماز کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر سات بار پڑھ کر سینے پر دم کریں ـ ان شاء اللہ عزوجل بری عارتیں بھی چھٹیں گی اور اور عبادت میں بھی دل لگے گاـ JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN
  20. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH SIS ISS KA REFERENCE BHI BATA DAIN MAIN ISS HAWALAY SAY MAZEED PARHNA CHAOONGA. JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEN
  21. ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH MASHA ALLAH AZZAWAJAL BHAI BOHAT ACCHI INFORMATION DI APP NAY, JAZAKALLAH AZZAWAJAL AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN DOO NAAM OR HAIN JIN SAY AMEER E AHLESUUNAT DAMAT BARAKATUHUM ALIYAH KO KHILAFAT MILI. KHATEEB E AZAM PAKISTAN HAZRAT ALLAMA MOULANA HAFIZ MUHAMMAD SHAFEE OKARVI RAHMATULLAHI TA'ALA ALAIH, YE KHILAFA HAIN HAZRAT ALLAMA MOULANA ZIA UDDIN MADNI RADI ALLAH ANHU KAY. HAZRAT ALLAMA MOULANA GHULAM MUHAMMAD NAGPOORI RAHMATULLAHI TA'ALA ALAIH, YE KHILAFA HAIN MUFTI E AZAM HIND HAZRAT ALLAMA MOULANA MUSTAFA RAZA RADI ALLAH ANHU KAY. JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEEN
  22. Jad Dul Mukhtar

    BUEATY ON EARTH

    ASSALAM-U-ALAIKUM WA RAHMATULLAHI TA'ALA WA BARAKATUH WA MAGFIRAH MUST SEE JAZAKALLAH AZZAWAJAL AAMEEEEEEEEN
  23. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ حاکم یوقنا حضرت عبداللہ جب بھی حضرت ابو عبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تب فصیح عربی زبان میں گفتگو فرماتے تھے ـ حالانکہ حاکم یوقنا عربی زبان سے بالکل ناواقف تھے ـ جنگ کے دوران حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ جنگ کے امور کے متعاق جب بھی گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی تب مترجم کے واسطے سے ہی گفتگو کی گئی تھی لیکن اچانک ان کو فصیح اور بلیغ عربی زبان میں گفتگو کرتے دیکھ کر حضرت ابوعبیدہ کو بہت تعجب ہوا ـ حضرت ابو عبیدہ نے حاکم یوقنا سے فرمایا کہ میری معلومات کے مطابق تم عربی زبان نہیں جانتے ہو لیکن اچانک اس طرح عربی زبان میں گفتگو کرنا کہاں سے حاصل ہوا ؟ حاکم یوقنا نے جو جواب دیا اس کو علامہ واقدی قدس سرہ کی کتاب سے حرف بحرف نقل کرتے ہیں : ـ پس کہا یوقنا نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ آیا تعجب کرتے ہو تم اے سردار اس حال سے ـ ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا ہاں ـ یوقنا نے کہا کہ میں شب گزشتہ کو فکر اور اندیشہ کرتا تھا تمہارے کام میں کہ کیوں کر مدد اور غلبہ لے گئے تم لوگ ہم پر حالانکہ کو‏ئی گروہ ہم سے زیادہ ضعیف ہمارے نزدیک نہ تھا ـ پس جب دل میں ڈالا میں نے تمہارے معاملہ کو تو سو گیا میں ـ پس دیکھا میں نے ایک شخص کو روشن تر چاند سے ـ پس پوچھا میں نے کیفیت ان کی ـ پس دیکھا کہا گیا مجھ سے کہ یہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ہیں ـ پس گویا میں سوال کرتا ہوں ـ کہ اگر یہ نبی صادق ہیں تو درخواست کریں اپنے پروردگار سے کہ آگاہ اور تعلیم کر دیوے مجھ کو ساتو زبان عربی کے _ پس گویا اشارہ فرماتے ہیں وہ میری طرف اور درخواست کی اپنے پروردگار سے اس امر کی ـ پس بیدار ہو گیا میں اس حال میں کہ زبان عربی میں کلام کرتا تھا ـ دیکھا آپ نے بھائیوں اور بہنوں نبی کریم رؤف الرحیم رحمۃ للعالمین شفیع عالمین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا تصرف اور اختیار کیسا عظیم ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا اور حاکم یوقنا حضرت عبداللہ عربی زبان میں ماہر ہو گئے ـ حوالہ :ـ "فتوح الشام " از علامہ واقدی ، ص : 328 تنکا بھی ہمارے تو ہلا‏ئے نہیں ہلتا تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہ محن پھول
  24. السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ رو‏ئے زمین پر چلنے والی تمام مخلوق سے اور سب انسانوں میں افضل وہ ہے جو لوگوں کو علم سکھائے ، جب بھی دین اپنے لباس اور شعار کو پرانا کر لیتا ہے تو معلم دین اس دین کو ( اپنے تجدیدی کارناموں ) نیا لباس پہناتے ہیں اور اس تعلیم پر اجرت طلب نہیں کرتے بلکہ اس کو گناہ تصور کرتے ہیں ـ (معلم کا یہ مقام اور درجہ اس لیے ہے کہ ) معلم جب بچے کو کہتا ہے کہ کہہ دو " بسم اللہ الرحمن الرحیم " تو اللہ تعالی معلم دین ، طالب علم بچے اور بچے کے والدین سب کے لیے دوزخ سے برات کو لکھ دیتا ہے ـ ( رواہ الثعلبی ) ـ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : جس نے قبرستان میں سورہ " یس " پڑھی تو اللہ تعالی اس کی برکت سے مردوں کے عذاب میں تخفیف فرما دے گا اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا ـ احکام الجنائز رقم الحدیث : 259 ابو محمد عبد الحق کہتے ہیں کہ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے حکم دیا تھا کہ ان کی قبر کے پاس سورہ بقرہ پڑھی جائے ـ قبر پر قرآن خوانی کی اباحت و جواز پر حضرت علاء بن عبدالرحمن سے روایت آئی ہے اور امام نسائی اور دوسرے محدثین نے معقل بن یسار سے روایت کی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : اپنے مردو ں کے پاس سورہ " یس " پڑھو ـ ابو داؤد رقم الحدیث : 3105 ، ابن ماجہ رقم الحدیث : 1448 ، مسند احمد ج 5 ص 26 ، المستدرک ج 1 ص 565 ، ابن حبان ج 4 ص 3 شیخ قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کہ " اپنے مردوں کے پاس " یس " پڑھو " دو احتمال رکھتی ہے ، ایک تو یہ کہ مرتے وقت اور دوسرا یہ کہ قبر پر ـ پہلا قول جمہور کا ہے اور دوسرا عبدالواحد مقدسی کا ہے اور متاخرین میں سے محب طبری نے اس کو عام رکھا ـ ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کی قرات ، تسبیح و تکبیر اور اللہ تعالی کے تمام اذکار کا ثواب جب میت کو ایصال ثواب کیا جائے تو پہنچہتا ہے ـ فتاوی ابن تیمیہ 24 / 324 ابن قیم نے لکھا کہ تحقیق سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ انہوں نے وصیتیں کی کہ مرنے کے بعد دفن کے وقت ان کی قبروں کے پاس قرآن کی تلاوت کرنا ـ کتاب الروح 64 امام نووی فرماتے ہیں کہ اور علماء کی کثیر جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ میت کو تمام عبادات کا ثواب پہنچتا ہے خواہ نماز ہو یا روزہ ہو یا تلاوت وغیرہ وغیرہ ـ مسلم مع تووی 1 / 13 امام شعبی سے مروی ہے کہ انصار کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان کا کو‏ئی آدمی فوت ہوتا تو وہ اس کی قبر پر جایا کرتے اور وہاں قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے ـ التذکرہ فی احوال موتی و امور آخرہ للقرطبی 46 ، کتاب الروح للابن قیم 66 بحوالہ القول المنصور زعفرانی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ قبر پر قرآن پڑھنا کیسا ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ـ الامر بالمعروف و نھی عن المنکر للخلال 123 ، شرح الصدور 403 ابن نجار نے اپنی تاریخ میں نقل کیا کہ مالک بن دینار سے روایت ہے کہ میں جمعۃ المبارک کی رات ایک قبرستان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک نور چمک رہا ہے تو میں نے کہا کہ لا الہ الا اللہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے قبرستان والوں کی مغفرت کر دی ہے تو ایک غیبی آواز آتی ہے کہ اے مالک بن دینار کہ مومنوں کا تحفہ ہے اپنے بھائیوں کے لیے میں نے اس کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھا کہ یہ کس نے ہدیا بھیجا ہے تو آواز آئی ایک مومن بندہ اس قبرستان میں آیا اور اس نے اچھی طرح وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز ادا کی اور ان دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں قل یایھا الکافرون اور دوسری میں قل ھو اللہ احد پڑھا اور کہا اے اللہ میں ان دو رکعتوں کا ثواب ان تمام قبرستان والے مسلمانوں کو بخشتا ہوں تو اللہ تعالی نے اس ثواب کی وجہ سے یہ روشنی اور نور ہم کو دے دیا اور ہماری قبروں کو مشرق و مغرب میں وسعت دی اور فرحت پیدا فرما دی ـ حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ ہر حمعہ کی رات کو دو رکعت اس طرح پڑھ کر مسلمانوں کی ارواح کو بخشتا ـ پس ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا اے مالک بن دینار بے شک اللہ تعالی نے تجھ کو بخش دیا ہے ـ جتنی مرتبہ تو نے میری امت کو نور کا تحفہ بھیجا ہے اتنا ہی ثواب اللہ تعالی نے تیرے لیے کیا ہے اور اللہ تعالی نے تیرے لیے جنت میں ایک مکان بنایا ہے جس کا نام منیف ہے ـ مالک بن دینار فرماتے ہیں میں نے عرض کی منیف کیا ہے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا جس پر اہل جنت بھی جھانکیں گے ـ حافظ شمس الدین عبدالواحد کہتے ہیں ہر شہر میں مسلمانوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے فوت شدگان کے لیے قرآن کریم کی قرات کرتے ہیں اور کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا گویا کہ اس پر امت کا اجماع ہے ـ مظھری زیر آیت و ان لیس للانسان الا ما سعی ، ضیاء القرآن ایضا
  25. السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ کیا تلاوت قرآن کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ابو حامد امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ " الاحیاء " میں اور ابو محمد عبدالحق رحمۃ اللہ تعالی علیہ کتاب " العاقبہ " میں رقمطراز ہیں : امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو سورہ فاتحہ ، معوذتین اور " قل ھو اللہ احد " پڑھو اور ان کا ثواب اہل قبور کو پہنچا دو کیونکہ یہ پہنچتا ہے ـ علی بن موسی حداد بیان کرتے ہیں : میں احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ جوہری کے ہمراہ ایک جنازہ میں موجود تھا ، جب میت کو دفن کیا گیا تو ایک نابینا شخص آیا اور قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنے لگا ، حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! قبر پر قرآن خوانی بدعت ہے ـ علی بن موسی حداد فرماتے ہیں : جب ہم قبرستان سے باہر آئے تو محمد بن قدامہ رحمۃ اللہ نے حضرت امام حمد رحمۃ اللہ سے عرض کیا : اے ابو عبد اللہ ! مبشر حلبی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے فرمایا : وہ ثقہ ( قابل اعتماد ) آدمی تھے ، میں نے دریافت کیا کہ آپ نے ان سے کچھ لکھا ہے ؟ فرمایا : ہاں ! علی بن موسی بن حداد نے عرض کیا کہ حضرت مبشر حلبی بن اسماعیل نے عبد الرحمن بن العلاء بن الحجاج سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انہوں نے وصیت فرمائی کہ ان کے دفن کرنے کے بعد ان ( کی قبر ) کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیتیں تلاوت کی جائیں اور انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے سنا کہ آپ نے اس بات کی وصیت فرما‏ئی تھی ـ (یہ سن کر ) حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا : میں اپنے موقف سے رجوع کرتا ہوں اور اس شخص سے کہو کہ وہ (قبر کے پاس ) پڑھے ـ کتاب الروح مصنفہ علامہ ابن قیم (شاگرد ابن تیمیہ ) ، التذکرہ فی احوال موتی و امور آخرہ مصنفہ امام علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر انصاری قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ شیخ قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ہمارے بعض علماء نے میت کو ثواب پہنچنے پر حدیث عسیب سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ کہ حضور سید عالمین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ملاخطہ فرمایا کہ دو قبروں کو عذاب ہو رہا ہے تو آپ نے ایک تر شاخ منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک قبر پر ٹکڑا لگا دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ تر رہیں گی قبر والوں سے عذاب میں تخفیف ہوگی ـ صحیح بخاری ج 3 ص 222 ، صحیح مسلم ج 3 ص 200 ، نسائی ج 4 ص 106 ، ترمذی رقم الحدیث : 70 ، ابن ماجہ رقم الحدیث : 347 - 349 ، مسند احمد ج 1 ص 35 ، صحیح ابن حبان ج 5 ص 52 ، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : 6753 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 375 ، البیہقی ج 1 ص 104 ـ اور مسند ابی داؤد طیالسی میں ہے کہ آپ نے شاخ کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک قبر پر رکھ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ شاخ تر رہے گی ان کا عذاب ہاکا ہو جائے گا ـ معالم السنن ج 1 ص 27 ، ترمذی ج 1 ص 103 ، صحیح مسلم ج 8 ص 231 - 236 ـ علماء کہتے ہیں : یہ حدیث قبر کے پاس درخت وغیرہ لگانے کی اصل ہے اور یہ کہ جب اللہ تعالی درختوں اور شاخوں وغیرہ کی تسبیح سے عذاب میں تخفیف فرماتا ہے تو کو‏ئی مومن قبر کے پاس اگر قرآن مجید پڑھے گا تو کیا عالم ہو گا ؟؟ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر اہل قبور کو ثواب پہنچائے تو اللہ تعالی پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر اجر عطا فرمائے گا ـ کنز العمال رقم الحدیث : 42596 ، احکام الجنائز ص 193 ، القراءۃ علی القبور ج ق 201 ص 6 خادم رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا : جب کوئی مسلمان آیت الکرسی پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبور کو پہنچاتا ہے تو اللہ تعالی ( اس کی برکت سے ) مشرق سے لے کر مغرب تک ہر مومن کی قبر میں چالیس ( 40 ) روشنیاں داخل کرتا ہے اور اللہ تعالی ان مردوں کی قبروں کو کشادہ فرما دیتا ہے اور قاری کو ستر نبیوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور ہر میت کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور ہر مرنے والے کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے ـ احکام الجنائز ص 191 ، صحیح مسلم ج 2 ص 188 ، ترمذی ج 4 ص 42 ، مسند احمد ج 2 ص 284 ـ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو اور یہ دعا پڑھے : ـ اللھم رب الاجساد البالیۃ و العظام الناخرۃ خرجت من الدنیا و ھی بک مومنۃ فادخل علیھا روحا منک و سلاما منی الا کتب بعددھم حسنات ـ ترجمہ : ـ اے اللہ ! اور ان پرانے جسموں اور بوسیدہ ہڈیوں کے مالک ! جب یہ اجسام دینا سے قبروں میں گئے تھے تو تجھ پر ایمان رکھنے کی حالت میں گئے تھے پس تو ان پر اپنی طرف سے راحت اور میری طرف سے سلامتی داخل فرما ـ تو اس دعا کی بدولت اللہ تعالی ان کی تعداد کے برابر پڑھنے والے کے لیے نیکیاں لکھ دیتا ہے ـ
×
×
  • Create New...