لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation since 26/12/2023 in all areas
-
2 points
-
2 points
-
دل تین باتوں پر خیانت نہیں کرتے ۔ (1) اللہ کے لئے خالص عمل کرنا۔ (۲) اور حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا ۔ (۳) اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا کیونکہ ان کی دعا ان کے علاوہ سب کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے (مسندِ دارمی) نوٹ: اِس حدیث کے حاشیہ میں وہابی مترجم کہتا ہے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے رجائیت والے کلام سے پتہ چلا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے۔ ورنہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم قطعیت کے ساتھ کہتے کہ آئندہ تم کو مل نہ سکوں گا جب کہ اِسی حدیث کے تحت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى تَوْدِيعِهِمْ وَإِعْلَامِهِمْ بِقُرُبٍ وَفَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی یہاں سرکار صلّی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں تمہیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور انہیں اپنے قرب وفات کی خبر دے رہے ہیں بہر حال یہ اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔ حدیث شریف تو ایک ہے، مگر وہابی بےخبری نکال رہا ہے اور اِمام نووی علم کی خوشبو سونگھ رہے ہے1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
✍️از قلم علی حیدر سنی حنفی بریلوی *وہابیوں دیوبندیوں اور مرزا جہلمی چیلوں کے («فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ» مسلم شریف حدیث 2750 سے متعلق جاہلانہ اعتراضات پر مشتمل پوسٹ کا پوسٹ مارٹم* ================================================ سب سے پہلے جو ایک جہلمی چیلے نے قرآن پاک کی ایک آیت لکھ کر مجھے اسکے مصداق ٹھہرانے کی کوشش کی جس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسائل شرعیہ میں جرأت دکھانے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ دراصل اس آیت کے مصداق آپ خود ہیں کیونکہ آپ نے بغیر علم اور اپنی جہالت کی بنا پر مجھے آدھی حدیث بیان کرنے٫ حدیث سے اپنی مرضی کا مفہوم لینے نبی علیہ السلام پر جھوٹ باندھنے اور بدعت کے دفاع کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا مرتکب قرار دیا معاذاللہ جبکہ حقیقتاً یہ آپ کی کم علمی اور جہالت کا نتیجہ ہے کہ آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کوئی حدیث یا آیت قرآنی کا ایک جز بیان کرکے دوسرا جز ترک کرنا تب جرم ہوتا ہے جب دوسرے جز میں پہلے جز والی بات کی نفی ہورہی ہو یا پھر ایک جز بیان کرنے سے دوسرے جز کی مخالفت ہوتی ہو جیسا کہ قرآن پاک میں سورۃ النساء کی مشہور آیت 43 میں سے اگر کوئی صرف اتنا حصہ *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ* پڑھ کر یہ حکم ثابت کرے کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والوں نماز کے قریب بھی نہ جاؤ- لہذا نماز پڑھنا جائز نہیں (معاذاللہ) تو یہ خیانت اور تحریف ہوگی لیکن اگر کوئی اس آیت کا اگلا حصہ جو نماز کے قریب نہ جانے کا سبب بیان کررہی ہے وہ بھی ملاکر یعنی *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا* *اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ ، جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو* ۔۔۔۔۔الخ پڑھے تو بالکل درست ہے جبکہ یہ آیت مبارکہ یہاں بھی پوری نہیں ہوئی بلکہ آگے طویل آیت ہے مگر چونکہ اس سے اگلے حصے سے آیت کے پچھلے حصے پر کچھ انکار لازم نہیں آتا لہذا یہ آیت اپنے موضوع کی مناسبت سے یہاں تک بیان کرنے میں کوئی گستاخی یا جرم نہیں ہے جیسا کہ مرزا جہلمی نے بھی کئی بار اس آیت کو پڑھا ہے مگر مکمل آیت نہیں پڑھتا ہے لہذا اسی طرح جو میں نے مسلم شریف کی حدیث 2750 میں سے اسکا پہلا جز پیش کیا تھا جس میں صحابی رسول نے سوال کیا تھا کہ یارسول اللہ آپ پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو حضور نے وجہ ارشاد فرمائی کہ *فِيهِ وُلِدْتُ* اس دن میری پیدائش ہوئی اب اگرچہ آگے حضور نے اس کی یہ دوسری وجہ بھی بیان فرمائی کہ *وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ* اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ مگر اس دوسری وجہ کے بیان نہ کرنے سے پہلی وجہ پر کوئی انکار لازم نہیں آتا اور جب حدیث کے دوسرے حصے یعنی نزول وحی پہ خوشی منانے پر معترضین سے جھگڑا و اختلاف نہیں بلکہ صرف میلاد منانے پر ہے تو لہذا اس لئے اپنے موضوع کی مناسبت سے قرآن یا حدیث کا کچھ مطلوبہ حصہ یعنی صرف *یوم ولدت فیہ* بیان کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں اور اس حدیث پر مرزائی چیلے نے دوسرا اعتراض یہ کیا کہ اس میں پیر کے دن کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے میلاد النبی منانے کو بیان نہیں کیا گیا ہے تو جوابا عرض ہے کہ بالکل پیر کے دن کی فضیلت کو ہی تو بیان کیا گیا ہے مگر سر فہرست معیار فضیلت اپنی ولادت کو قرار دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ولادت رسول پہلے اور نزول وحی بعد ہے اور ولادت رسول پیر کے دن ہونے پر اجماع ہے تو نبی علیہ السلام کا پیر کے دن اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھنے پر کیا تعجب اب چونکہ حضور کی ولادت اور نزول وحی دونوں پیر کے دن ہیں تو اسی لئے حضور نے پیر کے روزے کا سبب اپنی ولادت کیساتھ ساتھ نزول وحی بھی بیان فرمایا ============================== لیکن اگر مرزائی چیلوں کو پھر بھی سمجھ نہ آئی ہو تو میں حدیث سے اس کی ایک مثال بطور دلیل پیش کردیتا ہوں حالانکہ اسکی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور محدثین٫ فقہاء,محققین وغیرہ کی کتب بھری پڑی ہیں جن میں قرآنی آیات احادیث و عبارات میں سے اپنے موضوع کی مناسبت سے کچھ خاص حصہ نقل کیا جاتا ہے موضوع سے قطع نظر حصے کو بیان یا لکھا نہیں جاتا جیسے اکثر علما کرام اور خود مرزا جہلمی بھی قرآن کی تقریبآ سورہ اخلاص جتنی آیت میں سے صرف اتنا حصہ پڑھتے ہیں *لعنت اللّہ علی الکذبین* تو کیا اس سے مرزا بھی گستاخ قرآن اور محرف قرآن ہوا اگر نہیں تو پھر ہم پر یہ فتوے کیوں ؟ اب ذرا صحیح مسلم شریف کی حدیث نمبر 2150 پڑھیں جسکا مفہوم ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّہ تعالیٰ عنہ میت پر انکے گھر والوں کے زیادہ رونے کے سبب میت پر عذاب ہونے کے قائل تھے تو حضرت عائشہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا نے جواباً سورۃ الانعام کی آیت 164 کا آخری جز *وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى* تلاوت فرمایا تو یہاں مرزا اور اسکے چیلے حضرت عائشہ پر بھی وہی فتویٰ لگائیں گے کہ امی عائشہ بھی محرف قرآن اور گستاخ الٰہی وغیرہ ہے (معاذاللہ) =================================== *یوم ولادت باسعادت سوموار کے دن روزے والی حدیث پر اعتراض کا جواب* کچھ جاہل لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے جامع ترمذی کی حدیث نمبر747 میں پیر کے دن کے روزے کی وجہ اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جانا بیان فرمائی ہے اسی لئے پیر کے دن روزہ کھنے کی وجہ یوم ولادت باسعادت نہیں بلکہ اللہ کے حضور اعمال پیش کیے جانا ہے لہذا نبی علیہ السلام کے پیر کے روزے کا یوم پیدائش میلاد النبی سے خاص کرنا درست نہیں ہے =================================== اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر احادیث میں پیر کے دن کیساتھ کئی سارے واقعات کا تعلق بیان کیا گیا ہے جیسے ولادت رسول، نبوت مصطفیٰ ،ہجرت رسول، مغفرت اہل ایمان، مدینہ میں آمد رسول ماہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہونا، وصال رسول ،پیش اعمال ،حجر اسود کا اپنی جگہ نسب کیا جانا٫ جنت کے دروازوں کے کھلنے وغیرہ ======================================= (مسلم6547٫٫6544٫، بخاری،3906،ابوداؤد،4916٫،مسنداحمد، 25519٫25381٫24690٫12695٫12096٫ 9188٫10007٫9041٫7627 ، نسائی 1832) ================================= ان تمام کا وقوع پیر کے دن ہے اب ان میں سے کس چیز کے واقع ہونے کے سبب اس پیر کے دن کو فضیلت حاصل ہوگی تو ظاہر ہے کہ ان تمام میں سب سے افضل کام نبی علیہ السلام کا اس دن پیدا ہونا ہے اور پھر وصال اقدس کا شرف بھی اسی پیر کے دن کو حاصل ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ نبیوں کی ولادت و وفات کا دن سلامتی والا دن ہوتا ہے جیساکہ سورۃ المریم کی آیت 15 میں ارشاد ہوا- *وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾* اسی طرح آیت 33 ہے *وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾* جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش والے دن وصال والے دن اور جس دن اٹھائے جائینگے اس دن پر سلام بھیجا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اپنی پیدائش کے دن اور جب وصال ہوگا اس دن اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام بھیجا ہے۔ اور ایک مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رب نے فرمایا *۔وَذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ* اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا۔ تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان دنوں کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے جن دنوں میں اللہ نے اپنی نشانیاں اور اپنی نعمتیں رکھی ہیں اور جن ایام کا تعلق انبیاء کرام کی ذات سے ہےان ایام کو یادگار بناکر سلامتی بھیجی ہے جب حضرت یحییٰ اور عیسی علیہ السلام کی پیدائش کےدن قابل ذکر اور فضیلت والے ہیں تو ہمارے نبی جو کہ امام الانبیاء ہیں انکا یوم میلاد بدرجہ اولی معیار فضیلت ہے پس ثابت ہوا کہ نبی کا یوم ولادت اور یوم وصال باعث برکت سلامتی اور خیر والا دن ہوتا ہے اور صحابہ کرام بھی ان ایام کو محبوب رکھتے تھے جیسا کہ مسند احمد حدیث 45 میں ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق بیمارہوئے تو سوموار کے دن وصال کا وقت قریب آنے پر فرمایا کہ اگر میں آج ہی رات دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا بلکہ رات ہی کو مجھے دفن کر دینا کیونکہ *مجھے وہ دن اور رات زیادہ محبوب ہے جو نبی ﷺ کے زیادہ قریب ہو* یعنی پیر کے دن وصال رسول ہونے کے سبب اس پیر کے دن سے اتنی محبت تھی نبی کے غار یار ابوبکر صدیق رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کو۔ اس محبوب جیسا نہ محبوب کوئی اس محب جیسا نہ محب کوئی مذکورہ تمام خوبیوں میں پیر کے دن کی سب سے بڑی خاصیت و خوبی نبی کی ولادت کا ہونا ہے باقی رہ گئیں دیگر خصوصیات تو گویا یوں ہوسکتاہے کہ ولادت رسول کی وجہ سے پیر کا دن فضیلت والا ٹھہرا اسی لئے پھر اللہ نے پیر کے دن نزول وحی مغفرت اور اعمال کے پیش کیئے جانے وغیرہ کو منتخب فرماکر اس میں برکتیں رکھیں اسی طرح جمعے کے دن بھی کئی سارے واقعات کے ہونے کا ذکر موجود ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کو بہترین دن قرار دیا اور فرمایا کہ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے ۔ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔۔۔۔۔ نسائی 1431، مسلم٫ 854 اب اگر کوئی یہ کہے کہ جمعہ کے دن کو ولادت آدم علیہ السلام کی وجہ سے فضیلت حاصل ہوئی تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حدیث پر جھوٹ باندھا ہے یا آدھی حدیث بیان کرکے گستاخی کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ تخلیق آدم کے سبب یوم جمعہ کو فضیلت حاصل ہوئی اس لئے اللّہ تعالیٰ اس دن میں دوسرے معاملات بھی بیان فرمائے *نتیجہ:-* پیر کے دن کی اصل فضیلت یوم ولادت باسعادت کا ہونا ہے اور باقی معاملات کا اس دن ہونا اسی فضیلت کے ماتحت ہے نوٹ:- اس پوری پوسٹ کا مقصد میلاد النبی منانے کی اصل ثابت کرنا تھا یعنی جس دن حضور کی پیدائش ہوئی اس دن شرعی حدود میں رہ کر بطور شکرانے نعمت مصطفیٰ خوشی کرنے کا جواز ہم نے دلائل سے ثابت کردیا امید ہے کہ مرزا کے چیلوں کو اس سے ہدایت حاصل ہو اور وہ اس مستحب عمل کو بدعت کہنے سے باز آجائیں اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق دے آمین وما علینا الاالبلاغ المبین *از قلم علی حیدر سنی حنفی بریلوی*1 point
-
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ جاکم اللہ بھاٸ جان بہت بہت شکریہ ایک ملحد نے اس دن اعتراض کیا تھا اپکے جوابات سے میں اسے جواب دونگا انشاءاللہ اللہ پاک اپکو اجر خیر عطا فرماۓ امین ثمہ امین1 point
-
علماء كرام نے اِس حدیث کے مختلف جوابات لکھے ہیں ، بعض کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے اور بعض کے نزدیک یہ ایک مخصوص وقت کے لئے مخصوص لوگوں کے لئے تھا ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد مزید کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالکر ضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔ (حدیث 5274)1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
https://www.dawateislami.net/magazine/ur/batain-meray-huzoor-ki/qabr-mein-deedar-e-mustafa1 point
-
1 point
-
بسم اللہ الرحمن الرحیم ہم خوشی سے آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ اسلامی محفل فورم کے اپ گریڈ کا عمل کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے۔ اس عمل میں پرانی فائلوں کا محفوظ بیک اپ لے کر، سسٹم کی صفائی کی ہے۔ اس کے علاوہ، فورم پر ایک نئے لوگو logo کا اضافہ کیا گیا ہے جو انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں موجود ہے۔ پرانے پوائنٹس سسٹم کی جگہ ایک نیا اور جدید سسٹم متعارف کرایا ہے جو کہ پوسٹنگ اور دیگر فورم کی سرگرمیوں کے مطابق صارفین کو رینک اور بیجز سے نوازے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، فورم کی کارکردگی اور صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لئے متعدد دیگر بہتریاں بھی کی گئی ہیں۔ اگر آپ کو فورم استعمال کرتے وقت کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا ہو، یا اگر فورم پر تصاویر، پوسٹ اٹیچمنٹس وغیرہ نظر نہ آئیں تو براہ کرم اس ٹاپک میں اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ ہم آپ کی مدد کر سکیں۔ We are pleased to inform you that the upgrade process of the IslamiMehfil has been successfully completed. During this process, we took a secure backup of old files and cleaned up the system. Additionally, a new logo that is available in both English and Urdu languages has been added to the forum. We have introduced a new and modern system that replaces the old points system, which will reward users with ranks and badges based on their posting and other forum activities. Moreover, several other improvements have been made to enhance the forum's performance and user experience. If you encounter any difficulties while using the forum, or if images, post attachments, etc., do not appear on the forum, please express your feedback on this topic so we can assist you.1 point
-
1 point
-
مولانا انتظار حسین کشمیری حضرت ہندہ رضی اللہ عنھا نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں اور اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے لہذا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو انہوں نے قبل اسلام کیا اس پر اعتراض درست نہیں- Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا Maulana Bilal Sa’eed ‘Attari Madani https://www.dawateislami.net/magazine/en/remembrance-of-pious-ladies/sayyidatuna-hind-bint-utbah Once, a maid hurried to the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم with a gift of two baby goats. Arriving at the tent, she greeted and sought permission to enter. ‘My lady has sent a gift for you,’ she said, ‘and has apologised. Our goats have given birth to only a few baby goats (otherwise we would have gifted more to you).’ The Honourable Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم accepted the gift and supplicated: ‘May Allah Almighty bless your goats and increase them.’ The maid returned to her lady, telling her the supplication of the Holy Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم. Hearing these gracious words, the woman was moved with joy. The maid later testified that following this incident, there was an unprecedented increase in their livestock. The lady would explain it as a result of the blessings of the Honourable Prophet’s supplications. The lady also said, ‘I saw myself in a dream, standing in the sun. There was shade near me but I was unable to reach it. Then, the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم came close to me and because of him, I was able to reach the shade,’ (Tareekh Ibn-e-Asakir, vol. 70, p. 184). She accepted Islam on the day of the Conquest of Makkah. Do you know who this lady was? She was a companion of the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم and her name was Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah Al-Hashimiyyah. Her husband was Sayyiduna Abu Sufyan and her son was Sayyiduna Ameer Mu’awiyah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُما. Love for Islam She had such immense love for Islam that she broke the idol that was in her house, declaring, ‘We were in delusion because of you,’ (Tabaqat Ibn-e-Sa’d, vol. 8, p. 188). Praiseworthy Qualities She رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا was an expert in Arabic stylistics and rhetoric and extremely intelligent, (Usd-ul-Ghaabah, vol. 7, p. 316). Devotion to the Beloved Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم Sayyidatuna Hind b. ‘Utbah رَضِیَ الـلّٰـهُ عَنْهَا said, ‘Messenger of Allah! On the entire earth, there was no-one more hated by me than your family. But today, there is no family more beloved to me than your family,’ (Bukhari, vol. 2, p. 567, Hadith 3825). As a brave and astute warrior, she served Islam by participating in the Expeditions of Yarmuk and Al-Qadisiyah, (Mirat-ul-Manajih, vol. 6, p. 174). At a critical moment in the Expedition of Yarmuk, she encouraged the believers, ‘Fight in the way of Allah Almighty and sacrifice your lives,’ (Futooh Al-Sham, vol. 1, p. 196). Similarly, when the women were pledging allegiance to the Honourable Prophet صَلَّى الـلّٰـهُ عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم, she too joined in, (Tabaqat Ibn-e-Sa’d, vol. 8, p. 189). Passing Away During the reign of Sayyiduna ‘Umar رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ, she passed away on the same day as Sayyiduna Abu Bakr Al-Siddiq’s father, Sayyiduna Abu Quhafah Uthman. Her legacy includes the many hadith she transmitted, (Mirqat-ul-Mafatih, vol. 8, p. 243, under the Hadith 4466). https://www.arabicdawateislami.net/blog/533 هي هند بنت عُتْبَةَ، أمّ سيدنا معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنهما، وزوجة سيدنا أبي سفيان بن حرب رضي الله تعالى عنهما، كانت السيدة هندٌ امرأةً قويةً، فذَّةً في الجاهلية والإسلام، وكان لها أثر قويّ في عداوتها الإسلامَ والمسلمين في الجاهلية، ثم بعد ذلك فتحَ الله على قلبها فأسلمَتْ وحَسُنَ إسلامها، أعلنت السيدة هندٌ إسلامَها عامَ الفتح، وأتتْ النبيّ ﷺ مع وفد النساء للمبايعة وهي تغطّي وجهَها؛ لكيلا يعرفَها رسولُ الله ﷺ؛ وذلك بسبب مواقفِها السابقة المعاديةِ للإسلام والمسلمين، فخافت من المحاسبة، ولم تكن تعلم أن الإسلام يجُبُّ ما قبله، فلا يُحاسب المرء على أفعاله قبل الإسلام. إتيانها الرسول ﷺ للمبايعة: عندما أتتْ السيدة هند عند الرسول ﷺ للمبايعة، كانت تتكلّم بلسان النساء وتنوبُ عنهنّ لما لها من قوة وجرأة، فعرفها النبي ﷺ وقال لها: أنت "هند بنت عتبة"؟ فقالت: أنا هند بنت عتبة، فاعفُ عمّا سبق عفا الله عنك، فرحّب بها النبي ﷺ، مع أنها كانت من أشدِّ الأعداء لرسول الله ﷺ، وكانتِ الداعمَ الأكبرَ والسبب الأولَ لمقتلِ سيدنا حمزةَ بن عبد المطلب رضي الله تعالى عنه، ومع ذلك عفا عنها رسولُ الرحمة الذي قال الله تعالى فيه: وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةٗ لِّلۡعَٰلَمِينَ ١٠٧ فالرسول الكريم ﷺ قَبِل إسلامَها ولم يُوجِّهْ لها حتى كلمة عتابٍ ولوم، هكذا كان قلبه الشريف ﷺ، لا يعرف الحقد، سليم الصدر، يعفو ويرحم، فالنبي الكريم ﷺ لم يحاسب هندًا رضي الله تعالى عنها ولا غيرَها من المسلمين على ذنوبٍ اقترفوها قبل الإسلام * السيدةُ هندٌ رضي الله تعالى عنها ووقعة اليرموك: أسلمت السيدة هند رضي الله عنها وحَسُن إسلامها قبل وقعة اليرموك، فشهدتِ الوقعةَ مسلمةً مع زوجِها، وكانت لها مواقفُ مشرِّفةٌ فيها، فكانت من المحرّضين على قتال الروم * السيدة هند رضي الله عنها الأمّ الْمُربّيةُ والْمُؤثّرة: كانتِ السيدة هندٌ رضي الله عنها إلى جانبِ شخصيتها القويةِ أُمًّا، والأمّ هي المربّية وهي المؤثّرة على تكوين شخصية أولادها ذكورًا كانوا أو إناثًا، وقد أثّرت شخصيةُ السيدة هندٍ رضي الله تعالى عنه في تربية ابنِها سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه تأثيرًا واضحًا، فقد ورد أنّ سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه كان رجلاً سياسيًّا ذكيًّا داهيةً، وسبب ذلك ما تلقّاه من حسن التربية والتنشئة، وقد ورد أنّ سيدنا أبا سفيان -رضي الله تعالى عنه- كان يذهبُ إلى دار الندوةِ الذي تجتمع فيه ساداتُ قريش قبلَ الإسلام لبحثِ الأمورِ المهمة، وكان يصطحب معه ابنَه سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه، وفي إحدى المرّات شارك سيدنا معاوية رضي الله تعالى عنه -وهو ابنُ سبعِ سنين- في الحوار وأبدى تعليقًا ذكيًّا فأبهر ساداتِ قريش، وذات يومٍ نظر سيدنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه إلى ابنِهِ معاوية رضي الله تعالى عنه وهو غلامٌ فقال: إنّ ابني هذا لعظيمُ الرأسِ، وإنّه لخَلِيقٌ أن يسودَ قومَه، فقالت سيدتُنا هندٌ رضي الله تعالى عنها: قومَهُ فقط، ثكلته إن لم يَسُدِ العربَ قاطبةً فهكذا كانت السيدة هندٌ رضي الله تعالى عنه تربّي ولدها على القيادة والرِّياسة مُنذ الصغر، وهذا شأن الأمهات اللواتي يكتبْنَ التاريخَ في أبنائهن، فقد كانت الشجاعةُ والقوة تجري مجرى الدم في سيدتِنا هندٍ رضي الله عنها، فربَّت أولادَها على ذلك، ولذلك كرّم الإسلام الأمهاتِ وجعل لهنّ مرتبةً عظيمةً ومقامًا رفيعًا، فالأمهات هنّ صانعاتُ الرجال، فكم من أمٍّ فقدت زوجَها وربّتْ أولادَها بمفردها، وكم من أمٍّ عظيمةٍ خلّد التاريخ ذكرَها، كأمِّ الإمامِ البخاريِّ، وأمِّ الإمامِ مالكٍ، وأمِّ الإمامِ الشافعيِّ، وأمِّ الإمامِ أحمدَ بنَ حنبلٍ رحمه الله تعالى، فهؤلاء الأئمةُ جميعًا توفّيت آباؤهم في صغرهم، وتولّتْ أمهاتُهم أمرَ تربيتِهم، فأنشأْنَ أولادَهنّ نشأةً صالحةً خلّد التاريخُ ذكرَها، ونحنُ نروي قصص هؤلاء النساء كي تتأسّى بهنّ نساءُ المسلمين اليومَ، فالمرأة شأنُها عظيمٌ، وهي من تتولّى أمرَ تربيةِ أولادِها، وهي التي تكون مع أولادِها غالبَ الوقت، ولهذا تأثير الأمّ أقوى من الأب دائمًا، فالأمّ لها رتبةٌ عاليةٌ في الإسلام، وفي عهدِ النبوة كانَ للصحابيّاتِ دورٌ كبير في العلم والتربية وحتى في الجهادِ في سبيل الله. * صبرها عند وفاة أولادها: اشتُهرتِ السيدة هندٌ رضي الله عنها بذكائِها وحكمتها وفصاحتها، فكانت أديبةً بليغةً، ورد عنها الشعرُ والنثرُ، وورد عنها أنّها كانت صابرةً محتسبةً، ومن مواقفِ صبرِها ما وقعَ لها في خلافة سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه من موتِ ابنِها "يزيد" بالطاعون، فعندما ذهب سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه لتعزيتها وجدَها صابرةً محتسبةً تقول: "إنّا لله وإنّا إليه راجعون" فضائلها ومناقبها رضي الله عنها: من فضلها ومناقبها رضي الله عنها أنها نزل فيها قوله تعالى: يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِٱللَّهِ شَيۡـٔٗا وَلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِينَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ أَوۡلَٰدَهُنَّ وَلَا يَأۡتِينَ بِبُهۡتَٰنٖ يَفۡتَرِينَهُۥ بَيۡنَ أَيۡدِيهِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِينَكَ فِي مَعۡرُوفٖ فَبَايِعۡهُنَّ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لَهُنَّ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ ١٢ نزلت هذه الآيةُ فيها وفي أخواتِها من النساءِ اللواتي بايعنَ النبيّ ﷺ بعدَ الفتح. ومما وردَ في فضلِها وكرمِها وتكريمِ النبيِّ ﷺ لها أنَّها أهدَتْ للنبيِّ ﷺ جَدْيَيْنِ واعتذرتْ من قلّةِ ولادةِ غنمها، فدعا لها رسولُ اللهِ ﷺ بالبركة في غنمها، فكثُرَ غنمُها ببركة دعاء النبي ﷺ، فكانت تعطي وتهبُ منها وتقول: هذا من بركة رسولِ الله ﷺ، فالحمدُ لله الذي هدانا للإسلام مواقفها في خلافة سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه: ورد أن سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه نهى سيدَنا أبا سفيانَ زوجَ السيدةِ هندٍ رضي الله تعالى عنهما عن رشِّ باب منزله حتى لا ينزلقَ الحجّاجُ الذين يمرّون أمامه، فلم يمتنعْ سيدنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه عن رشِّ الماء، فمرّ سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه ذاتَ يومٍ أمامَ منزله فانزلقَ بسببِ رشِّ أبي سفيان رضي الله تعالى عنه للماء، فقال سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه لسيدنا أبي سفيان رضي الله تعالى عنه: ألم أنهَكَ أن تفعلَ هذا؟ فوضع سيدُنا أبو سفيان رضي الله تعالى عنه يدَهُ على فمِه؛ وهذا بمعنى الاعتذار منه، فقال سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه: الحمد لله الذي جعلني آمُرُ أبا سفيان فيعملُ ما آمُرُه به، فسمعتْهُ السيدةُ هندٌ رضي الله تعالى عنه فقالت: أحمده يا عمر! فإنك إن تحمَدْهُ فقد أُوتِيتَ عظيمًا انتقالها من الدنيا الفانية إلى الآخرة الباقية: تُوفّيت رضي الله تعالى عنه في خلافة سيدنا عمر رضي الله تعالى عنه، في السنة الرابعة عشرة للهجرة النبوية الشريفة، في نفسِ اليومِ الذي مات فيه أبو قحافة والدُ سيدِنا أبي بكرٍ الصديقِ رضي الله عنهما #مركز_الدعوة_الاسلامية #مركز_الدعوة_الإسلامية #الدعوة_الإسلامية #مجلة_نفحات_المدينة #نفحات_المدينة1 point
-
https://www.dawateislami.net/pamphlets/7216/page/6 پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے ماضِی کی تلخیوں کا ایک بڑا سبب لفظِ کاش ہے۔ ہم اپنے ماضِی کے مُتَعَلِّق کاش بہت کہتے ہیں؛ کاش!میں یہ نہ کرتا، کاش!میں وہ نہ کرتا، کاش!یہ نہ ہوتا، کاش!وہ نہ ہوتا، کاش! میں نے یہ کاروبار نہیں، وہ کاروبار کیا ہوتا، کاش! میں نے یہ ڈپلومہ نہیں، فُلاں ڈپلومہ کیا ہوتا، کاش!میں یہاں نہیں، فُلاں جگہ نوکری کر لیتا وغیرہ۔ یہ جو لفظِ کاش ہے، یہ ہمارے ماضِی،حال اور مستقبل تینوں کو تلخ بنا دیتا ہے۔ اس لئے اپنی زندگی سے لفظِ کاش نِکال دیجئے! یہ بہت خطرناک لفظ ہے۔ امت کے غمخوار، محبوبِ ربِّ غفار صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی حدیثِ پاک ہے، فرمایا: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں وہ کام کر لیتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ کہو: قَدَّرَ اللہُ وَ مَا شَآءَ فَعَل اللہ پاک نے مُقَدَّر کیا اور جو چاہا، وہی کیا۔ مزید فرمایا: فَاِنَّ لَو تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ بیشک اگر مگر شیطان کا کام کھول دیتا ہے۔ ([1]) الحاج مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی اس اگر مگر سے انسان کا بھروسہ اللہ پاک پر نہیں رہتا، اپنے پر یا اسباب پر ہو جاتا ہے (پِھر جب اللہ پاک پر بھروسہ نہیں رہتا تو شیطان اِنْسان کو جکڑ لیتا ہے)۔ خیال رہے! یہاں دُنیا کے اگر مگر کا ذِکْر ہے، دینی کاموں میں اگر مگر اور افسوس و ندامت اچھی چیز ہے، مثلاً اگر میں اتنی زندگی نیکیوں میں گزارتا تو متقی ہو جاتا مگر افسوس میں نے گُنَاہوں میں زندگی گزار دی۔ ایسا افسوس! بہترین عبادت ہے۔([2]) پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہے اسلام کی پیاری پیاری تعلیم! اپنی زندگی سے اگر مگر، ماضِی کے واقعات پر بِلاوجہ کڑھتے رہنا، کاش کاش کرتے رہنا، یہ سب کچھ چھوڑ دیجئے! اچھی اور مثبت سوچ اپنائیے! اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! ماضِی کی تلخیاں دُکھ نہیں پہنچائیں گی بلکہ بہت صُورتوں میں ثواب کا ذریعہ بن جائیں گی۔ [1]...مسلم، كتاب القدر، باب الامر بالقوۃ وترک العجز...الخ، صفحہ:1027، حدیث:2664۔ [2]...مرآۃ المناجیح، جلد:7، صفحہ:113 خلاصۃً۔1 point
-
Ghunya mein Ahle Hadith bil muqabil Ahle Ra'ee heh ... yehni joh aqli goray dora kar Quran ko samajtay hen un kay khilaaf Ahle Hadith yehni Ahle Sunnat. Aik zamana thah jab philosophy mantiq waghayra kay zor say logoon ko Quran ko samajna shoroon keeya aur inneeh ko Sunnat/Hadith par tarjeeh denay lagay. yahan par ghayr muqallid Wahhabi ahle hadith murad nahin balkay woh murad hen jo Sunnat par chaltay thay. aur woh sab hi muqallid aur imamoon ko follow kartay thay. Ghayr muqallidiyat toh 150/200 saal purani heh. Wahhabiyun nay Ahle Hadith ka title apna leeya jistera mein aik Jammat e Sahaba bana loon Sahabi ka lakab na-haq apna upoor laga loon aur phir jitni hi Sahaba ki shaan mein Hadith hen apnay upar aur meray peechay chalnay waloon par fit karna shoroon ho jahoon. Toh aisa karnay say mein aur peray gumra perokar Sahabiat kay darjay par faiz hen? Nahin nah! Is'see tera Wahhabiyun ka Ahle Hadith ka title apna lenay say woh Ahle Hadith nahin.1 point
-
ذاکر نائیک عالم دین نہیں ہے بس وہ ایک تقابل ادیان میں مہارت رکھتا ہے لیکن افسوس ہماری عوام میں جو بندہ جس کام میں مشہور ہوجائے اور وہ ظاہری طور پر مذہبی حلیے والا ہو تو عالم و مفتی بن جاتا ہے اور پھر الٹے سیدھے فتوے دیتا ہےجیسے ذاکر نائیک دیتا ہے سگریٹ پینے کو حرام کہہ دیتا ہے خارجیوں کی طرح بات بات پر شرک و بدعت کے فتوے اور جب اس سے پینٹ کورٹ کے متعلق پوچھاتو جواب دیا کہ شرع میں اس بارے میں ممانعت کسی حدیث میں نہیں آئے بندہ پوچھے پینٹ کورٹ کے متعلق ممانعت نہیں تو ختم ، قل،گیارہویں ،میلاد کی ممانعت پر کونسی آیات و احادیث موجود ہیں جسے بدعت کہتے ہیں۔1 point
-
1 point
-
نبی پاکﷺ اپنی قبر مبارک میں اپنی امت کے اعمال پر مطلع ہوتے ہیں اس مشہور روایت کی تحقیق! امام البزار اپنی مسند میں اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ [ص:309]، فَمَا رَأَيْتُ مِنَ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنَ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺنے فرمایا کہ میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں اس روایت پر متعدد متفقہ جید محدثین کی توثیق درج ذیل ہے ۱۔امام ابن عراقیؒ اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے لکھتےہیں : وروی ابو بکر البزار فی مسندہ باسناد جید عن اب مسعود ؓقال رسولﷺ بلخ۔۔۔۔ (کتاب طرح التثریب فی شرح التقریب امام ین الدین ابی الفضل عبدالرحیم بن الحسین االعراق ، ص ۲۹۶) ۲۔ امام جلال الدین سیوطیؒ امام سیوطی اسی روایت کے بارے فرماتے ہیں اوخرج البزار بسند صحیح من حدیث ابن مسعود مثله (الخصائص الکبریٰ ص ۴۹۱) ۳۔ امام ہیثمیؒ امام الحافظ نور الدین علی بن ابو بکر الہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے ایک باب قائم کرتے ہیں : (باب مایحصل لا مته ﷺمن استغفار بعد وفاتة) یعنی نبی پاکﷺ کا بعد از وصال استغفار کرنا اپنی امت کے لیے پھر اس روایت کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت نقل کر کے فرماتے ہیں رواہالبزار ورجالہ رجال الصحیح (مجمع الزوائد ص ۹۳) ۴۔امام سمہودیؒ امام سمہودی اس روایت کو نققل کرنے سے پہلے فرماتے ہیں: الحدییث وللبزار برجال الصحیح عن ابن مسعود بلخ۔۔۔ (خلاصہ الوافا با خبار دارالمصطفیٰﷺ ص ۳۵۳) اتنے بڑے جید محدثین کی تائید حاصل ہونے پر اس روایت کے رجال کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن ہم اس کی سند پر تحقیق پیش کر کے ان جید محدثین کی تائید کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سند کی تحقیق! سند کا پہلا راوی : يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، یہ امام بخاری سمیت صحاح ستہ کے اماموں کے شیخ ہیں امام ابن ابی حاتم انکا ترجمہ یوں نقل کرتے ہیں: 969 - يوسف بن موسى القطان الكوفى، وأصله اهوازي روى عن جرير بن عبد الحميد وحكام بن سلم ومهران بن ابى عمر العطار وأبي زهير عبد الرحمن بن مغراء وسلمة بن الفضل وعبد الله بن ادريس ومحمد بن فضيل ووكيع وعبد الله بن نمير روى عنه أبي وأبو زرعة. نا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: هو صدوق (الجرح والتعديل لا ابن ابی حاتم برقم ۹۶۹) امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ ان سے میرے والد اور امام ابو زرعہؒ نے روایت کیا ہے اور میرے والد (امام ابی حاتمؒ) فرماتے ہیں یہ صدوق تھے امام خطیب بغدادیؒ انکے بارے میں فرماتے ہیں : وكان ثقة (تاریخ بغداد ج۱۶، ص ۴۵۴) مختصر یہ صحیح بخاری کا راوی ہے متفقہ ثقہ ہے سند کا دوسرا راوی: عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ 340 - عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد أبو عبد الحميد المكى مولى الازد روى عن معمر وابن جريج سمعت أبى يقول ذلك، نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول ابن علية عرض كتب ابن جريج على عبد المجيد بن عبد العزيز بن ابى رواد فأصلحها له فقلت ليحيى ما كنت اظن ان عبد المجيد هكذا قال يحيى كان اعلم الناس بحديث ابن جريج ولكن لم يكن يبذل نفسه للحديث، نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس قال سمعت يحيى بن معين وسئل عن عبد المجيد بن عبد العزيز بن ابى رواد فقال ثقة (نا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلى قال سئل يحيى بن معين وانا اسمع - عبد المجيد بن عبد العزيز بن ابى رواد فقال ثقة - 3) ليس به بأس نا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال ليس بالقوى يكتب حديثه كان الحميدى يتكلم فيه. (الجرح والتعدیل لا ابن ابی حاتم برقم ۳۴۰) امام ابن ابی حاتم امام یحییٰ بن معین سے بیان کرتے ہیں کہ عبدالمجید صالح تھا پھر فرمایا دو مرتببہ اسکوثقہ کہہ کر توثیق کی ہے اسکے بعد ابن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کے میرے والد انکو لیس بالقوی قرار دیتے اور اسکی حدیث لکھی جائے اور اس میں کمزوری ہے یاد رہے امام ابن معین الحنفیؒ امام ابو حاتم وغیرہ سے بڑے محدث اور متشدد تھے تو انکی توثیق راجع قرار پائے گی 3435- عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد عن أبيه وابن جريج وأيمن بن نابل وعنه كثير بن عبيد والزبير بن بكار قال أحمد ثقة يغلو في الارجاء وقال أبو حاتم ليس بالقوي توفي 206 م (الکاشف امام ذھبی ) امام ذھبی فرماتے ہیں اسکو امام احمد نے ثقہ فرمایا اور یہ مرجئی تھا اور ابو حاتم نے اسکے قوی ہونے کی نفی کی ہے اسکے علاوہ امام ذھبی کے نزدیک یہ راوی معتبر اور صدوق ہے جیسا کہ وہ اس راوی کو اپنی کتاب : ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں زکر کیا ہے اور اس کتاب کے مقدمے مین انہوں نے لکھا ہے کہ اس میں ان راویان کے نام ہے جو صدوق اور حسن الحدیث ہیں لیکن ان پر جروحات بھی ہیں (لیکن راجع یہی ہے کہ وہ راوی صدوق و حسن الحدیث ہیں ) 220 - عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد المدني (م على) : ثقة مرجىء داعية غمزه ابن حبان نیز اسکے علاوہ امام ذھبی میزان الاعتدال میں بھی اسکی توثیق فرماتے ہوئے کھتے ہیں : 5183 - عبد المجيد بن عبد العزيز [م، عو] بن أبي رواد. صدوق مرجئ كابيه. کہ عبدالمجید صدوق ہے اور مرجئی ہے امام ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی اسکی توثیق فرمائی ہے لسان المیزان میں وہ صیغہ (هـ) استعمال کرتے ہوئے اسکی توثیق کی طرف فیصلہ دیاہے 1706 - م4 , (هـ) عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد (2: 648/ 5183). ========= [مفتاح رموز الأسماء التي حذف ابن حجر ترجمتها من الميزان اكتفاءً بذكرها في تهذيب الكمال] رموز التهذيب: (خ م س ق د ت ع 4 خت بخ ف فق سي خد ل تم مد كن قد عس)، ثم (صح) أو (هـ): - (صح): ممن تكلم فيه بلا حجة. - (هـ): مختلف فيه والعمل على توثيقه. -ومن عدا ذلك: ضعيف على اختلاف مراتب الضعف. (لسان المیزان برقم ۱۷۰۶) اسکے علاوہ امام ابن حجر نے تقریب میں بھی اسکو صدوق یخطی قرار دیا ہے اور ابن حبان کا اس پر جرح کرنے کو باطل قرار دیا ہے 4160- عبد المجيد ابن عبد العزيز ابن أبي رواد بفتح الراء وتشديد الواو صدوق يخطىء وكان مرجئا أفرط ابن حبان فقال متروك من التاسعة مات سنة ست ومائتين م (تقریب التہذیب بررقم ۵ؤ۴۱۶۰) یعنی عبدالمجید صدوق درجے کا ہے اور یخطی ہے اور ابن حبان نے اس پر متروک کی جرح کر کے حد سے تجاوز کیا اسکی توثیق مندرجہ زیل اماموں نے کی ہے ۱۔امام ابن معین (متشدد) ۲۔امام احمد بن حنبل ۳۔ امام نسائی (متشدد) ۴۔ امام ابو داود ۵۔ امام نسائی ۶۔ امام ذھبی ۷۔ امام ابن حجر نیز یہ راوی طبقہ ثالثہ کا مدلس راوی ہے جسکی روایت عن کے ساتھ ضعیف ہوتی ہے لیکن اسکی شاہد موجود ہے جسکو امام سیوطی نے الخصائص الکبرہ میں با سند صحیح نقل کیا ہے جو کہ مرسل ہے تو اسکی تدلیس والا اعتراض یہاں بےضرر ہے جیسا کہ اس روایت کی دوسری مرسل سند ایسے ہے حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ : ثنا غَالِبٌ الْقَطَّانُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ ، تُحَدِّثُونَ وَيُحَدَّثُ لَكُمْ ، فَإِذَا أَنَا مُتُّ كَانَتْ وَفَاتِي خَيْرًا لَكُمْ ، تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ ، فَإِنْ رَأَيْتُ خَيْرًا حَمِدْتُ اللَّهَ ، وَإِنْ رَأَيْتُ غَيْرَ ذَلِكَ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ . ترجمہ : حضرت بکر بن عبدللہ المزنی سے روایت ہے،رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'میری حیات بهی تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم حدیثیں بیان کرتے ہو اور تمہارے لئے حدیثیں (دین کے احکام)بیان کیے جاتے ہیں، اور میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ، تمہارا جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر الله کا شکر ادا کرتا ہوں،اور اگر برے اعمال پاتا ہوں تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں ۔ (الراوي : بكر بن عبد الله المزني المحدث : الألباني - المصدر: فضل الصلاة - صفحة 26 خلاصة الدرجة : جيدة رجالها رجال مسلم . المحدث : محمد ابن عبد الهادي - المصدر: الصارم المنكي صفحة 329 خلاصة الدرجة : مرسل إسناده صحيح ) السيوطي - المصدر: الخصائص الكبرى الصفحة أو الرقم: ٢/٤٩١ خلاصة الدرجة: إسناده صحيح ۔) امام ابن سعد نے بھی مرسل روایت کی ایک اور بے غبار سند بیان کی ہے أخبرنا يونس بن محمد المؤدب، أخبرنا حماد بن زيد، عن غالب، عن بكر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حياتي خير لكم، تحدثون ويحدث لكم، فإذا أنا مت كانت وفاتي خيرا لكم، تعرض علي أعمالكم، فإذا رأيت خيرا حمدت الله، وإن رأيت شرا استغفرت الله لكم» (طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۹۴) امید ہے جناب کو اب تدلیس والے اعتراض کا کافی و شافی جواب مل گیا ہے سند کا تیسرا راوی :سفیان الثوری یہ متفقہ ثقہ اور امیر المومنین فی حدیث ہیں امام ذھبی انکا تعارف یوں کرواتے ہیں هو شيخ الإسلام، إمام الحفاظ، سيد العلماء العاملين في زمانه، أبو عبد الله الثوري، الكوفي، المجتهد، مصنف كتاب (الجامع) . (سیر اعلام النبلاء برقم 82) سند کا چوتھا راوی : عبداللہ بن سائب الکندی 303 - عبد الله بن السائب الكندي روى عن زاذان وعبد الله (6) ابن معقل وعبد الله بن قتادة المحاربي روى عنه الشيباني أبو إسحاق والأعمش وسفيان الثوري وأبو سنان [الشيباني - 7] سمعت أبي يقول ذلك. نا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين أنه قال: عبد الله بن السائب ثقة. نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول: عبد الله بن السائب الذي يروى عنه زاذان ثقة. (الجرح والتعدیل لا ابن ابی حاتم ) 891 - عبد الله بن السَّائِب الكندى ثِقَة (الثقات امام عجلی ) الغرض یہ متفقہ ثقہ امام ہیں سند کا پانچواں راوی: زاذان أبو عمر1 450- زاذان أبو عمر1: سمع من عبد الله بن مسعود، ثقة. (الثقات عجلی ) 417 - زَاذَان ثِقَة كَانَ يتَغَنَّى ثمَّ تَابَ (تاریخ الثقات ابن شاھین) 1603- زاذان أبو عمر الكندي مولاهم الضرير البزاز عن علي وابن مسعود ويقال سمع عمر وعنه عمرو بن مرة والمنهال بن عمرو ثقة توفي 82 م (امام ذھبی الکاشف) 4556- زاذان أبو عمر الكندي مولاهم سمع: علي بن أبي طالب، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عمر. روى عنه: ذكوان أبو صالح، وعبد الله بن السائب، وعمرو بن مرة، وغيرهم. وكان ثقة (تاریخ بغداد امام خطیب) 1976- زاذان أبو عمر الكندي البزاز ويكنى أبا عبد الله أيضا صدوق يرسل وفيه شيعية من الثانية مات سنة اثنتين وثمانين بخ م 4 (تقریب التہذیب امام ابن حجر) اما م ابن حجر کہتے ہین کہ یہ صدوق ہے شیعت کا عنصر پایا جاتا تھا اس میں اور ارسال بھی کرتا تھا امام ذھبی انکا ترجمہ یوں بیان کرتے ہیں : 470- زاذان 1: "م، أبو عمر الكندي، مولاهم، الكوفي، البزاز، الضرير، أحد العلماء الكبار. ولد: في حياة النبي صلى الله عليه وسلم وشهد خطبة عمر بالجابية. وكان ثقة، صادقا، روى جماعة أحاديث. (سیر اعلام النبلاء) زاذان یہ ابو عمر ہیں اور علماء میں سے تھے یہ نبی پاک کی زندگی میں پیدا ہوئے اور وہ ثقہ صدوق تھے سند کے پانچوے راوی خود صحابی رسولﷺ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں اس تحقیق سے معلووم ہوا کے اسکی سند صحیح ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے دعاگو: خادم الحدیث رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی )1 point
-
رد الشمس والی روایت پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مدلل جواب ردالشمس والی مشہور روایت جس میں نبی پاک کے معجزے کا زکر ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے سورج کو واپس پلٹایا اس روایت کی توثیق میں نے جمہور محدثین بشمول امام ابن حجرعسقلانی ، امام بدرالدین عینی، امام طحاوی ، امام قاضی عیاض ، امام جلال الدین سیوطی ، امام مغلطائی الحنفی ، امام ابن حجر مکی ، امام ابو بکر الہیثمی امام شامی ، امام شاہ ولی اللہ محدث ، امام زرقانی سمیت اور کئی محدثین کی توثیق دیکھائی تو ابن تیمیہ اینڈ کمپنی اور دیوبنہ کے پیٹ میں ایسے مروڑ پیدا ہوئے کہ ہر جگہ اسکو ضعیف ثابت کرنے کی کوشیش میں لگے ہیں جبکہ پہلے ابن تییمیہ کی اندھی تقلید میں موضوع سے کم اس پر حکم ہی نہ لگاتے تھے جبکہ یہ روایت بالکل صحیح اور پختہ دلیل ہے نبیؐ کے معجزے کی ۔ جمہور محدثین کی توثیق یہ ہے امام ابن حجرعسقلانی الشافعی شارح بخاری کا ابن تیمیہ اور ابن جوزی کا رد کرنا :۔ الحافظ شیخ الالسلام امام بن حجر عسقلانی الشافعی نے اس روایت کو حسن قرار دیا اور ایک دوسرے طرق کو دلیل قرار دیا کہ یہ روایت نبی کی نبوت کی دلیل ہے اور اس روایت ابن جوزی نے موضوع کہہ کر غلطی کی اور ایسے ابن تیمیہ نے بھی غلطی کی اس کو موضوع قرار دے کر۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری) امام بدرالدین عینی جو شارح بخاری ہیں اور اعظیم محدث کا رد الشمس کو صحیح قرار دینا:۔ امام بدرالدین کہتے ہیں کہ یہ روایت متصل ہے اور ثقات سے مروی ہے اور ابن جوزی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں جس نے اس میں نقص نکالنے کی کوشیش کی ۔ (عمدتہ القاری شرح صحیح بخاری) امام الحافظ مغلطائی الحنفی:۔ امام مغلطائی فرماتے ہیں کہ ردالشمس والی روایت کو ثقات نے روایت کیا ہے (السرت المصطفیٰ) امام المحدث جلال الدین سیوطی الشافعی :۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام طبرانی ، امام ابن مندہ اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے اور اسکے بعض طرق صحیح کی شرط پر ہیں (الخصائص الکبریٰ) امام ابو جعفرالطحاوی (امام طحاوی نے رد الشمس کا باب قائم کیا اور اس باب میں دو مختلف طرق سے روایت نقل کی اور توثیق فرمائی ) (شرح مشکل الاثار) امام قاضی عیاض المالکی :۔ز ل، امام قاضی عیاض اس روایت کو دو طرق سے لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور ثقات سے مروی ہیں اور امام طحاوی سے مروی امام احمد بن صالح کا قول نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کے لائق نہیں جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو اور وہ اسماء بنت عمیس والی روایت کو حفظ نہ کرے جبکہ اس میں نبوت کی نشانی ہے (الشفاء قاضی عیاض) امام ابو بکر الہیثمی امام ابو بکر الھیثمیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن الحسن کے اور وہ بھی ثقہ ہیں ابن حبان نے انکو ثقہ کہا ہے اور فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کو میں نہیں جانتا (مجمع الزائد) امام ابن حجر مکی شافعیؒ امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابو زرعہ نے حسن قرار دیا ہے اور دوسرے محدثین نے بھی انکی تائید کی ہے اور رد کیا ہے انکا جو اسکو موضوع کہتے ہیں (الصوائق المحرقہ) اس کے علاوہ امام زرقانی نے بھی اس روایت کو توثیق کی اور ابن تیمیہ کا رد کیا ۔ ماضی قریب کے اعظیم شیخ و محقق الکوثریؒ نے بھی اس روایت کی توثیق کی اور ابن تیمیہ کے مکڑی کے کمزور دلائل کا مدلل رد فرمایا ، علامہ ابن عابدین الشامی نے بھی اس روایت کی توثیق فرمائی علامہ شاہ عبدالعزیز نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں جمہور محدثین اہلسنت کی طرف سے توثیق بیان کی ہے (تحفہ اثنا عشریہ ص 436) اسکے علاوہ اہلسنت کے دو اعظیم محدثین امام جلال الدین سیوطی اور امام ابن یوسف الصالحی نے اس موضوع پر پوری کتاب لکھ کر ردالشمس والی روایت کو صحیح قرار دیا اور ابن تیمیہ کا رد کیا ان دو کتب کے نام یہ ہیں ۔کشف البس فی حدیث رد الشمس ۔مزیل البس فی رد الشمس امام ابو زرعہ اور امام احمد بن صالح نے اس روایت کو صحیح قرار دیا بقول امام قاضی عیاض اسکے علاوہ اور کثیر محققین نے اس روایت کو حسن و صحیح قرار دیا اب بھی کوئی متعصب جو ابن تیمیہ ناصبی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس ضیعف یا موضوع قرار دیتا ہے تو وہ اس روایت پر متکلمین کی توثیق کے مقابلے متکلمین ہی سے اس روایت پر جرح مفسر پیش کرے کیونکہ متاخرین میں ابن تیمیہ اینڈ کمپنی نے اس میں نقص نکالے جبکہ اس سے پہلے متکلمین اور بعد والے متاخرین نے اس روایت کی توثیق کی ہے اب آتے ہیں معجم الکیر والی سند پر غیر مقلدین کے اعتراضات کی طرف وہابیہ نجدیہ کی طرف سے اس روایت پر دو راوی جو بشمول جمہور محدثین اور وہابیہ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں لیکن کیونکہ بغض اہل بیت اور نبی کے مجعزہ کو ماننے سے انکے پیٹ کے کیڑے ایکٹوو ہو جاتے ہیں تو ان راویوں کو جھوٹا اور معاذاللہ کذاب تک ثابت کرنے کی جھوٹی کوشیش کرنے لگ گئے امام طبرانی نے اپنی معجم الکبیر میں اپنی سند سے اسکو بیان کیا جو کہ یہ ہے حدثنا جعفر ن احمد بن سنان الواسطی ثنا علی بن المنذر ثنا ممد بن فضیل بن مرزوق عن ابراھیم بن الحسن عن فاطمہ بنت علی عن اسماء بنت عمیس بلخ۔۔۔۔۔ اس سند میں ایک راوی فضیل بن مرزوق ہے جو کہ تشیع تھا لیکن ثقہ ، ثبت اور صالح تھا جس کی توثیق ان مندرجہ زیل محدثین نے کی ہے ۱۔ متشدد امام ابن حبان نے اسکو ثقات میں زکر کیا اور کہا کہ غلطی بھی کر جاتا اور عطیہ سے موضوع روایت مروی ہیں ۲۔امام ذھبیؒ نے اسکو الکاشف میں ثقہ لکھا ہے ۳۔امام ذھبیؒ نے میزان الااعتدال میں فضیل بن مرزوق پر جمہور کی توثیق نقل کر کے آخر میں ابن حبانؒ کی جو ہلکی پھلکی جرح ہے اسکا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے جو کہا کہ عطیہ سے موضوع روایت مروی ہے اس سے تو امام ذھبی کہتے ہیں قلت (میں کہتا ہوں )ٌ عطیہ تو خود ضعیف ہے اس سے یعنی عطیہ کی روایات کی وجہ سے فضیل بن مرزوق پر کوئی اعتراض نہیں آتا ۴۔امام عجلیؒ نے فضیل بن مرزوق کوالثقات میں درج کیا اور کہ یہ ثقہ جائز الحدیث اور سچا تھا اور تشیع تھا ۔ ۵۔امام ابن معین الحنفیؒ نے بھی فضیل بن مرزوق کی توثیق کرتے ہوئے اسکو ثقہ گردانہ ہے ۔ یاد رہے کہ وہابیہ ابن معین سے اسکو ضعیف ثابت کرتے ہیں جبکہ امام ابن معین سے اسکی توثیق بھی ثابت ہے لہذا جرح ساقط ہوئی ۶۔امام ابن شاھینؒ نے فضیل بن مرزوق کو تاریخ الثقات میں زکر کرتے ہوئے ثقہ کہا ہے ۷۔امام ابن حجر عسقلانی نے تو جمہور محدثین سے اسکو ثقہ ثابت کرتے ہئے مندرجہ زیل محدثین سے توثیق لکھی جن کے نام یہ ہیں امام شافعی ، امام ابن ابی حاتم امام ابن عینہ امام امام احمد بن حبنل امام ابن عدی امام ابن شاھین امام ابن حبان وغیرہ ہیں اور اس پر جرح کی ہے امام نسائی نے اور وہ متشدد ہیں اب آتے ہیں اس میں تشیع ہونے والے مسلے پر اصول جرح و تعدیل کے اہل علم لوگوں کو معلوم ہے کہ متقدمین میں تشیع سے مراد وہ لوگ ہوتے تھے جہ اہل بیت کا زکر زیادہ کرتے اور حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دیتے اور ہر جنگ کے معاملے میں حضرت علی کو حق مانتے تھے اور بس تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا کہ متقدمین میں تشیع سے مراد ایسے لوگ جو محض شیخین کے ساتھ حضرت علی کو عثمان بن عفان پر ٖفضیلت دیتے اور بعض حضرت علی ؓ کو نبی پاک کے بعد سب پر فضیلت دیتے وہ بہت نیک ، صالح اور متقی پرہیزگزار تھے اور ایسا عقیدہ تو تابیعن اور تبع تابعین میں بہت سے لوگوں کا تھا تو فقط اسکی وجہ سے انکی روایت کو ترک نہیں کیا جا سکتا البتہ جب تک وہ اپنے عقائد کا داعی نہ ہو اور متکلمین سے تشیع سے مراد رافضی ہے جو کہ آج کے شعیہ ہیں انکی روایت کسی بھی حال میں منظور نہیں تو فضیل بن مرزوق خیر القرون کا راوی ہے اور اس کو تشیع متقدمین نے کہا ہے جیسا کہ ابن معین ، امام نسائی وغیر نے اور تبھی اسکو سچا جائز الحدیث اور ثقہ حجت قرار دیا وہابیہ کا دوسرا اعتراض کہ شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوگی یہ والی کیونکہ اس میٰں حضرت علی کی شان بڑھ رہی ہے اور تشیع علی کی شان میں روایتیں گھڑہتے تھے الجواب : ان علمی یتیموں کو یہ بھی معلوم نے کہ ایک راوی جب تمام محدثین کے اتفاق سے ثقہ ہے تو تب اسکی روایت کیوں نہ قبول کی جائے گی ؟؟ جبکہ روایت گھڑہنے والا راوی کذاب ہوتا ہے اور اس روایت میں حضرت علی کی شان معاذاللہ نہ خلفائے راشدین سے افضل ثابت ہو رہی ہے نہ ہی نبی پاک سے ، بلکہ اس میں تو حضرت محمدؐ کا معجزہ ثابت ہو رہا ہے جو کہ انکی شان کو بڑھا رہا ہے اور نبوت کی نشانی ثابت کر رکا ہے تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن تیمہ و جوزی کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ اسکی اسناد حسن ہیں اور ابن تیمیہ نے غلطی کی خطائی کھائی اور ایسے ابن جوزی نے اسکو موضوع کہہ کر دوسرا راوی جس کو تشیع ثابت کر کے سادہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ رافضی کی روایت قبول نہیں جبکہ اوپر امام ذھبی اور امام ابن حجر سے متقکلمین اور متقدمین سے تشیع کی تشریح ثابت کر دی اور اگر اس پیمانے کو رکھ لیا جائے کہ ہر تشیع کی روایت قبول نہیں ہوگی تو پھر بخاری میں ۴۵ سے زیادہ راوی تشیع بیٹھے ہیں اور امام حاکم تشیع تھے اور امام عبدالرزاق امام بخاری کے دادا استاد بھی تشیع تھے لیکن اتنے برے کبیر محدث تھے وہابیہ کو چاہیے کہ انکی ساری کتب کو رد کر دیں خیر دوسرا راوی جس کا نام علی بن المنذر ہے اسکی توثیق ۔امام ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ۲۔امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکی توثیق کی اور مندرجہ زیل محدثین سے اسکی توثیق نقل کی ہے ا امام نسائی نے کہا ثقہ حجت ہے تشیع ہے امام دارقطنی نے کہا اس میں کوئی حرج نے ہے امام ابن ماجہ نے کہا کہ اکثر کے نزدیک حجت ہے امام ابن ابی حاتم نے کہا کہ ثقہ یعنی حجت ہے اس راوی پر تو کسی ایک امام نے بھی جرح نہیں کی بلکہ بالاتفاق یہ ثقہ حجت راوی ہے تو پھر اس وہابیہ نجدیہ کا اسکو تشیع سے حدیث گھڑنے والا راوی بنانا انکی جہالت اور بغض نبی ہی ہو سکتاہے (نوٹ ان تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں ) دعا گو رانا اسد فرحان الطحاوی خادم حدیث ۱۴ جون ۲۰۱۸1 point
-
1 point
-
1 point
-
1 point
-
میں ایک غیر مقلد عالم عبدالرحمان کیلانی کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا سماع موتی کے بارے میں. علامہ صاحب کیا فرماتے ہیں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے بارے میں ذرا غور سے پڑھئیے. ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی (روح عذاب قبر اور سماع موتٰی ،عبدالرحمٰن کیلانی، صفحہ 55،56) (ماہنامہ محدث، جلد 14 ، صفحہ 95،96 میرا سوال ہے غیر مقلدین سے کہ اگر کوئی حنفی تصوف پہ کتاب لکھے یا احناف کا عقیدہ سماع موتیٰ کا ہو تو وہ تمہارے نزدیک مشرک اور گمراہ ہو جاتا ہے لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ یہی عقیدہ رکھنے کے باوجود مشرک اور گمراہ کیوں نہیں ہوتے؟؟؟؟. کہاں ہیں قران اور حدیث کے نام پہ احناف پہ فتوی لگانے والے نام نہاد اہلحدیث؟؟؟1 point
-
مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ (1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹ پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79 (2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45 گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ ضروری ہدایت: زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔ (1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81 اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64 ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107 حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28 اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89 معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سےدعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔''( ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ .(''صحیح مسلم''،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵. و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰. ترجمہ:اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ .( ''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹. ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔(2) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) قبروالوں سے سوال وجواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳ تبصرہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔ ایک قبر سے دوسری قبر میں شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵) تبصرہ غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی و جہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء(مشکوۃ ،ص۱۲۱) (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی ۔) اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اوران کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیارواقتدارکا کیا عالم ہوگا۔ غورفرمائیے کہ وہابیوں کے پیشوامولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں یہ مضمون لکھ کر کہ ''حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے۔ '' (نعوذباللہ)کتنا بڑا جرم اورظلم عظیم کیا ہے ۔ اللہ اکبر!ان بے ادبوں اورگستاخوں نے اپنے نوک قلم سے محبین رسول کے قلوب کو کس طرح مجروح وزخمی کیا ہے ، اس کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ فَاِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام قبر کے اندرسے سلام حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی) اسی طرح شیخ محمود کردی شیخانی نزیل مدینہ منورہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور پر حاضر ہوکرسلام عرض کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر منور کے اندر سے بآواز بلند ان کے سلام کا جواب دیا اورارشاد فرمایاکہ اے شیخ محمود! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر ''حمزہ''رکھنا۔چنانچہ جب خداوند کریم نے ان کو فرزند عطافرمایا تو انہوں نے اس کا نام ''حمزہ ''رکھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ کتاب الباقیات الصالحات) تبصرہ اس روایت سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند کرامتیں معلوم ہوئیں: (1) یہ کہ آپ نے قبر کے اندرسے شیخ محمود کے سلام کوسن لیااور دیکھ بھی لیا کہ سلام کرنے والے شیخ محمود ہیں ۔ پھر آپ نے سلام کا جواب شیخ محمود کو سنا بھی دیا حالانکہ دوسرے قبر والے سلام کرنے والوں کے سلام کو سن تو لیتے ہیں اورپہچان بھی لیتے ہیں مگر سلام کا جواب سلام کرنے والوں کو سنا نہیں سکتے ۔ (۲)سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی قبر شریف کے اندر رہتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ ابھی شیخ محمود کے کوئی بیٹا نہیں ہے مگر آئندہ ان کو خداوند کریم فرزند عطا فرمائے گا۔ جبھی تو آپ نے حکم دیا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر حمزہ رکھنا۔ (۳)آپ نے جواب سلام اوربیٹے کا نام رکھنے کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس قدر بلند آواز سے فرمایا کہ شیخ محمود اور دوسرے حاضرین نے سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔ مذکورہ بالا کرامتوں سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوران کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں تک جان او رپہچان لیتے ہیں کہ آدمی کی پشت میں جو نطفہ ہے اس سے پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ یہی توو جہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر رکھنا اگر ان کو بالیقین یہ معلوم نہ ہوتا کہ لڑکا ہی پیدا ہوگا تو آپ کس طرح لڑکے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا حکم دیتے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ قبر میں سے خون نکلا جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے ۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد) تبصرہ وفات کے بعد تازہ خون کابہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں کفن سلامت ،بدن تروتازہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری) اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔) (ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲) پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ ) (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی) قبر میں تلاوت حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔ جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ) تبصرہ یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ قبرستان میں گزرے تو میں نے ایک قبر میں دھماکہ سنا گھبرا کر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں نے ایک قبر میں دھماکہ کی آواز سنی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بھی اس دھماکہ کی آواز سن لی ؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں !ارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے ایک قبر والے کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے یہ اسی عذاب کی آواز کا دھماکہ تھا جو تو نے سنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس قبر والے کو کس گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ شخص چغل خوری کیا کرتا تھا اوراپنے بدن اورکپڑوں کو پیشاب سے نہیں بچاتا تھا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۴بحوالہ بیہقی) موت کے بعد وصیت حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواب میں یہ فرمایا کہ اے شخص!تم امیر لشکر حضرت خالد بن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سے اتار لیا اور اپنے گھوڑاباندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کر کے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دینا کہ جو مجھ پر قرض ہے وہ اس کو ادا کردیں اورمیرا فلاں غلام آزاد ہے ۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا خواب حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اورواقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اورجب امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا گیا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے انکا قرض ادا فرمادیااور انکے غلام کو آزاد قراردے دیا۔ مشہورصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایساکوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔(تفسیر صاوی ، ج۲،ص۱۰۸) نیزہ پر سراقدس کی تلاوت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹) اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲) (روضۃ الشہداء ،ص230) تبصرہ ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔ موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :''اے رونے والیو!خاموش رہو۔'' یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: ''حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔''اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: ''سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔'' اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:''سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔'' اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :''سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔''اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)1 point
-
ایمان و کفر کا بیان ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے اﷲ عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا، مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں، نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں۔ عقیدہ (۱): اصلِ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے، اعمالِ بدن تو اصلاً جزو ایمان نہیں، رہا اقرار، اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تصدیق کے بعد اس کو اظہار کا موقع نہ ملا تو عند اﷲ مومن ہے اور اگر موقع ملا اور اُس سے مطالبہ کیا گیا اور اقرار نہ کیا تو کافر ہے اور اگر مطالبہ نہ کیا گیا تو احکام دنیا میں کافر سمجھا جائے گا، نہ اُس کے جنازے کی نماز پڑھیں گے، نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے، مگر عند اﷲ مومن ہے اگر کوئی امر خلافِ اسلام ظاہر نہ کیا ہو۔ عقیدہ (۲): مسلمان ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو، اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں، کہ بلا اِکراہِ شرعی مسلمان کلمہ کفر صادر نہیں کر سکتا، وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا اِنکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجاءش نہیں۔ مسئلہ(۱): اگر معاذ اﷲ کلمہ کفر جاری کرنے پر کوئی شخص مجبور کیا گیا، یعنی اُسے مار ڈالنے یا اُس کا عضو کاٹ ڈالنے کی صحیح دھمکی دی گئی کہ یہ دھمکانے والے کو اس بات کے کرنے پر قادر سمجھے تو ایسی حالت میں اس کو رخصت دی گئی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں وہی اطمینانِ ایمانی ہو جو پیشتر تھا ، مگر افضل جب بھی یہی ہے کہ قتل ہو جائے اور کلمہ کفر نہ کہے۔ مسئلہ (۲): عملِ جوارح داخلِ ایمان نہیں، البتہ بعض اعمال جو قطعاً مُنافی ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحَف شریف یا کعبہ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ھلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں۔ یوہیں بعض اعمال کفر کی علامت ہیں، جیسے زُنّار باندھنا، سر پر چُوٹیا رکھنا، قَشْقَہْ لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ عقیدہ (۳): جس چیز کی حِلّت، نصِّ قطعی سے ثابت ہو اُس کو حرام کہنا اور جس کی حُرمت یقینی ہو اسے حلال بتانا کفر ہے، جبکہ یہ حکم ضروریاتِ دین سے ہو، یا منکر اس حکمِ قطعی سے آگاہ ہو۔ مسئلہ (۱): اُصولِ عقائد میں تقلید جاءز نہیں بلکہ جو بات ہو یقینِ قطعی کے ساتھ ہو، خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو، اس کے حصول میں بالخصوص علمِ استدلالی کی حاجت نہیں، ہاں! بعض فروعِ عقائد میں تقلید ہوسکتی ہے ، اِسی بنا پر خود اھلِ سنّت میں دو گروہ ہیں: ''ماتُرِیدیہ'' کہ امام عَلم الہدیٰ حضرت ابو منصور ماتریدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متّبع ہوئے اور ''اَشاعرہ'' کہ حضرت امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اﷲ تعالیٰ کے تابع ہیں، یہ دونوں جماعتیں اھلِ سنّت ہی کی ہیں اور دونوں حق پر ہیں، آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے۔ اِن کا اختلاف حنفی، شافعی کا سا ہے، کہ دونوں اھلِ حق ہیں، کوئی کسی کی تضلیل و تفسیق نہیں کرسکتا۔ مسئلہ (۲): ایمان قابلِ زیادتی و نقصان نہیں، اس لیے کہ کمی بیشی اُس میں ہو تی ہے جو مقدار یعنی لمبائی، چوڑائی، موٹائی یا گنتی رکھتا ہو اور ایمان تصدیق ہے اور تصدیق، کَیف یعنی ایک حالتِ اِذعانیہ۔ بعض آیات میں ایمان کا زیادہ ہونا جو فرمایا ہے اُس سے مراد مُؤمَن بہ ومُصدََّق بہ ہے، یعنی جس پر ایمان لایا گیا اور جس کی تصدیق کی گئی کہ زمانہ نزولِ قرآن میں اس کی کوئی حد معیّن نہ تھی، بلکہ احکام نازل ہوتے رہتے اور جو حکم نازل ہوتا اس پر ایمان لازم ہوتا، نہ کہ خود نفسِ ایمان بڑھ گَھٹ جاتا ہو، البتہ ایمان قابلِ شدّت و ضُعف ہے کہ یہ کَیف کے عوارض سے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تنہا ایمان اس اُمت کے تمام افراد کے مجموع ایمانوں پر غالب ہے۔ عقیدہ (۴): ایمان و کفر میں واسطہ نہیں، یعنی آدمی یا مسلمان ہوگا یا کافر، تیسری صورت کوئی نہیں کہ نہ مسلمان ہو نہ کافر۔ مسئلہ: نفاق کہ زبان سے دعوی اسلام کرنا اور دل میں اسلام سے انکار، یہ بھی خالص کفر ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں کچھ لوگ اس صفت کے اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے کہ ان کے کفرِ باطنی پر قرآن ناطق ہوا، نیز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وسیع علم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرما دیا کہ یہ منافق ہے۔ اب اِس زمانہ میں کسی خاص شخص کی نسبت قطع کے ساتھ منافق نہیں کہا جاسکتا، کہ ھمارے سامنے جو دعوی اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے، جب تک اس سے وہ قول یا فعل جو مُنافیِ ایمان ہے نہ صادر ہو، البتہ نفاق کی ایک شاخ اِس زمانہ میں پائی جاتی ہے کہ بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے تو دعوی اسلام کے ساتھ ضروریاتِ دین کا انکار بھی ہے۔ عقیدہ (۵): شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا، یعنی اُلوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بدتر قسم ہے، اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں، ولہٰذا شرعِ مطہّر نے اھلِ کتاب کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے، کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار، کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے، مشرکہ سے نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی کے نزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا، مشرک سے نہ لیا جائے گا اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے۔ یہ جو قرآنِ عظیم میں فرمایا: کہ ـ''شرک نہ بخشا جائے گا۔'' وہ اسی معنی پر ہے، یعنی اَصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی، باقی سب گناہ اﷲ عزوجل کی مشیت پر ہیں، جسے چاہے بخش دے۔ عقیدہ (۶): مرتکبِ کبیرہ مسلمان ہے اور جنت میں جائے گا، خواہ اﷲ عزوجل اپنے محض فضل سے اس کی مغفرت فرما دے، یا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد، یا اپنے کیے کی کچھ سزا پا کر، اُس کے بعد کبھی جنت سے نہ نکلے گا۔ مسئلہ: جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے، یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور، یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی(3) کہے، وہ خود کافر ہے۔ عقیدہ (۷): مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاﷲ کفر پر ہوا، تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے۔ خاتمہ پر بِنا روزِ قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے، اس کو یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بُت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا، مگر ہم کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر ہی جانیں، اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لیے ہیں، مثلاً میل جول، شادی بیاہ، نمازِ جنازہ، کفن دفن، جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ کا حال علمِ الٰہی پر چھوڑیں، جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اُس سے کوئی قول و فعل خلافِ ایمان نہ ہو، فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں، اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ'' میاں...! جتنی دیر اسے کافر کہو گے، اُتنی دیر اﷲ اﷲ کروکہ یہ ثواب کی بات ہے۔'' اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافرکافر کا وظیفہ کرلو...؟! مقصود یہ ہے کہ اُسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو، نہ یہ کہ اپنی صُلحِ کل سے(کل مذاہب کا ایک مآل سمجھ کر مختلف مذاہب کے لوگوں سے خصومت نہ کرنا اور دوست و دشمن سے یکساں برتاؤ رکھنا) اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔ تنبیہ ضروری: حدیث میں ہے: ((سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلٰثًا وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إلاَّ وَاحِدَۃً.)) ''یہ امت تہتّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔'' صحابہ نے عرض کی: ''مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟'' ''وہ ناجیفرقہ کون ہے یا رسول اﷲ ؟'' فرمایا: ((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ.))(''سنن الترمذي''، کتاب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھذہ الأمۃ، الحدیث: ۲۶۵۰، ج۴، ص۲۹۲) ''وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں''، یعنی سنّت کے پیرو۔ دوسری روایت میں ہے، فرمایا: ((ھُمُ الْجَمَاعَۃُ.))(''السنۃ'' لابن أبي عاصم، باب فیما أخبر بہ النبي علیہ السلام أن أمتہ ستفترق علی... إلخ، الحدیث: ۶۳، ص۲۲) ''وہ جماعت ہے۔'' یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سوادِ اعظم فرمایا اور فرمایا: جو اس سے الگ ہوا، جہنم میں الگ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ''ناجی فرقہ'' کا نام ''اھلِ سنت و جماعت'' ہوا۔ اُن گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہو کر ختم ہو گئے، بعض ہندوستان میں نہیں ،ان فرقوں کے ذکر کی ہمیں کیا حاجت؟!، کہ نہ وہ ہیں، نہ اُن کا فتنہ، پھر ان کے تذکرہ سے کیا مطلب جو اِس ہندوستان میں ہیں؟! مختصراً ان کے عقائدکا ذکر کیا جاتا ہے، کہ ھمارے عوام بھائی ان کے فریب میں نہ آئیں، کہ حدیث میں اِرشاد فرمایا: ((إِ یَّاکُمْ وَإِ یَّاھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ.))(''صحیح مسلم''، مقدمۃ الکتاب للإمام مسلم، باب النھي عن الروایۃ عن الضعفائ... إلخ، الحدیث: ۷، ص۹.) ''اپنے کو اُن سے دُور رکھو اور اُنھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔'' قادیانی قادیانی: کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو ہیں، اس شخص نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں کیں، خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃاﷲ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیِّبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کیے، جن کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہِل جاتے ہیں، مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں کے سامنے اُن میں کے چندبطور نمونہ ذکر کیے جائیں، خود مدّعی نبوت بننا کافر ہونے اور ابد الآباد جہنم میں رہنے کے لیے کافی تھا، کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے، مگر اُس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سَر لیا اور یہ صدہا کفر کا مجموعہ ہے، کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے، اگرچہ باقی انبیا و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو، بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے ، چنانچہ آیہ : (کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوۡحِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ )ـپ۱۹، الشعرآء ۱۰۵ـ وغیرہ اس کی شاہد ہیں اور اُس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بتایا۔ ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں مسلمانوں کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسے کی تکفیر میں اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر۔ اب اُس کے اقوال سُنیے) : ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳: (خدا تعالیٰ نے ''براہین احمدیہ'' میں اس عاجز کا نام امّتی بھی رکھا اور نبی بھی)۔ ''انجام آتھم'' صفحہ ۵۲ میں ہے: (اے احمد! تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو)۔ صفحہ ۵۵ میں ہے: (تجھے خوشخبری ہو اے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جو آیتیں تھیں انہیں اپنے اوپر جَما لیا۔ ''انجام'' صفحہ ۷۸ میں کہتا ہے: (وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ) ـپ۱۷، الانبیآء : ۱۰۷.ـ ''تجھ کو تمام جہان کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔'' نوٹ: قادیانی شیطان کی تقریباً۸۰ اَسّی سے زائد کتابیں ہیں ، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: '' انجامِ آتھم''، ''ضمیمہ اَنجامِ آتھم'' ، ''کشتیئ نوح'' ، ''اِزالہ اَوہام''، '' دافع البلاء ومعیار اھل الاصطفائ''، ''اربعین'' اور ''براہین اَحمدیہ'' وغیرہا ، ''روحانی خزائن '' نامی کتاب میں ان کتابوں کو ۲۳ تیئس حصوں میں جمع کیا گیا ہے ۔ نیز اس شیطان کے کئی اشتہارات ہیں جو تین۳ حصوں میں جمع کئے گئے ہیں، اور مغلظات بھی ہیں ، جنہیں۱۰د س حصوں میں ''ملفوظات'' کے نام سے جمع کیا گیا ہے نیز یہ آیہ کریمہ (وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعْدِی اسْمُہٗۤ اَحْمَدُ ؕ)ـپ۲۸، الصف : ۶ـ سے اپنی ذات مراد لیتا ہے۔ ''دافع البلاء'' صفحہ ۶ میں ہے: مجھ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ أَوْلاَدِيْ أَنْتَ مِنِّي وَأنَا مِنْکَ). یعنی اے غلام احمد! تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں)۔) ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۶۸۸ میں ہے: (حضرت رسُولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اِلہام و وحی غلط نکلی تھیں)۔ صفحہ ۸ میں ہے: (حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اُس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں، جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں اُمید باندھی تھی، غایت ما فی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں زیادہ غلط نکلیں)۔ ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۰ میں ہے: (سورہ بقر میں جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور اپنے قاتل کا پتا دے دیا تھا، یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علمِ مِسمریزم تھا)۔ اُسی کے صفحہ ۷۵۳ میں لکھتا ہے: حضرت اِبراہیم علیہ السلام کا چار پرندے کے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے، وہ بھی اُن کا مِسمریزم کا عمل تھا)۔) صفحہ ۶۲۹ میں ہے: (ایک باشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اُس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے، اور بادشاہ کو شکست ہوئی، بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا)۔(1) اُسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں لکھتا ہے: قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآنِ عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے)۔) اور اپنی ''براہینِ احمدیہ'' کی نسبت ''اِزالہ'' صفحہ ۵۳۳ میں لکھتا ہے: براہینِ احمدیہ خدا کا کلام ہے)۔ ) ''اَربعین'' نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا: (کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ)۔ اِن اُولو العزم مرسَلین کا ہادی ہونا درکنار، پورے راہ یافتہ بھی نہ مانا۔ اب خاص حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں جو گستاخیاں کیں، اُن میں سے چند یہ ہیں۔ ''معیار'' صفحہ ۱۳: اے عیسائی مِشنریو! اب ربّنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے، جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے)۔) صفحہ ۱۳ و ۱۴ میں ہے: (خدا نے اِس امت میں سے مسیح موعود بھیجا، جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا، تایہ اِشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے، جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے)۔) ''کشتی'' صفحہ ۱۳ میں ہے: مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیلِ ابنِ مریم، ابنِ مریم سے بڑھ کر)۔ ) نیز صفحہ ۱۶ میں ہے: خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیحِ محمدی، مسیحِ مُوسوِی سے افضل ہے)۔) ''دافع البلاء'' صفحہ ۲۰ : (اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو! میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اُس سے بھی بہتر ہے، جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام ؎ ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں)۔ ''دافع البلاء'' ص ۱۵: (خدا تو، بہ پابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ایسے شخص کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں نہیں لاسکتا، جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے)۔(1) ''انجام آتھم'' ص ۴۱ میں لکھتا ہے: مریم کا بیٹا کُشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا)۔ ) ''کشتی'' ص ۵۶ میں ہے: (مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کر سکتا ہوں، وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ ہر گز دِکھلا نہ سکتا)۔) ''اعجاز احمدی'' ص ۱۳: (یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں، بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ'' ضرور عیسیٰ نبی ہے، کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں)۔) اس کلام میں یہودیوں کے اعتراض، صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بُطلان پر دلیلیں قائم ہیں۔ ص ۱۴ میں ہے: عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں، مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں)۔ اُسی کتاب کے ص ۲۴ پر لکھا : کبھی آپ کو شیطانی اِلہام بھی ہوتے تھے)۔) مسلمانو! تمھیں معلوم ہے کہ شیطانی اِلہام کس کو ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے: (تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۲۲﴾ ) ـپ۱۹، الشعرآء: ۲۲۲ـ ''بڑے بہتان والے سخت گنہگار پر شیطان اُترتے ہیں۔'' اُسی صفحہ میں لکھا: ( اُن کی اکثر پیش گوئیاں غلطی سے پُر ہیں)۔ صفحہ ۱۳ میں ہے: (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی پیش گوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں، جو ہم کسی طرح اُن کو دفع نہیں کرسکتے)۔ صفحہ ۱۴: (ہائے! کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں)۔ اس سے ان کی نبوت کا انکار ہے، چنانچہ اپنی کتاب ''کشتی نوح'' ص ۵ میں لکھتا ہے: ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں)۔) اور ''دافع الوساوس'' ص ۳ و ''ضمیمہ انجام آتھم'' ص ۲۷ پر اِس کو سب رُسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی اور ذلت کہتا ہے۔ ''دافع البلاء'' ٹائٹل پیج صفحہ ۳ پر لکھتا ہے: (ہم مسیح کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں سے البتہ اچھا تھا واﷲ تعالیٰ اعلم، مگر وہ حقیقی منجی نہ تھا، حقیقی منجی وہ ہے جو حجاز میں پیدا ہوا تھا اور اب بھی آیا، مگر بُروز کے طور پر خاکسار غلام احمد از قادیان)۔ آگے چل کر راست بازی کا بھی فیصلہ کر دیا، کہتا ہے: (یہ ھمارا بیان نیک ظنّی کے طور پر ہے، ورنہ ممکن ہے کہ عیسیٰ کے وقت میں بعض راست باز اپنی راست بازی میں عیسیٰ سے بھی اعلیٰ ہوں)۔ اسی کے صفحہ ۴ میں لکھا: (مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یحییٰ کو اُس پر ایک فضیلت ہے، کیونکہ وہ (یحییٰ) شراب نہ پیتا تھا اور کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عِطر مَلا تھا، یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اُس کے بدن کو چُھوا تھا، یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی، اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ''حصور'' رکھا، مگر مسیح کا نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصّے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے)۔ ''ضمیمہ اَنجام آتھم'' ص ۷ میں لکھا: (آپ کا کنجریوں سے مَیلان اور صحبت بھی شاید اِسی وجہ سے ہو کہ جَدّی مناسبت درمیان ہے، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اُس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر مَلے اور اپنے بالوں کو اُس کے پیروں پر مَلے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے)۔ نیز اس رسالہ میں اُس مقدّس و برگزیدہ رسول پر اور نہایت سخت سخت حملے کیے، مثلاً شریر، مکار، بدعقل، فحش گو، بدزبان، جھوٹا، چور، خللِ دماغ والا، بد قسمت، نِرا فریبی، پیرو شیطان ، حد یہ کہ صفحہ ۷ پر لکھا: (آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہّر ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اورکسبی عورتیں تھیں، جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا)۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دادی باپ کی ماں کو کہتے ہیں تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے باپ کا ہونا بیان کیا، جو قرآن کے خلاف ہے اور دوسری جگہ یعنی ''کشتی نوح'' صفحہ ۱۶ میں تصریح کر دی: یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں، یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھے)۔ ) حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزات سے ایک دم صاف انکار کر بیٹھا۔ ''انجامِ آتھم'' صفحہ ۶ میں لکھتا ہے: (حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا)۔) صفحہ ۷ پر لکھا: (اُس زمانہ میں ایک تالاب سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے، آپ سے کوئی معجزہ ہوا بھی تو وہ آپ کا نہیں، اُس تالاب کا ہے، آپ کے ہاتھ میں سِوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا)۔ ''اِزالہ'' کے صفحہ ۴ میں ہے (ما سِوائے اِس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو اُن حواشی سے الگ کرکے دیکھا جائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گڑھے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا، بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خَوارق پرایسے شبہات ہوں، کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق نہیں دُور کرتا)۔ کہیں اُن کے معجزہ کو کَلْ کا کھلونا بتاتا ہے، کہیں مسمریزم بتا کر کہتا ہے: اگر یہ عاجز اِس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اِن اعجوبہ نمائیوں میں ابنِ مریم سے کم نہ رہتا)۔) اور مسمریزم کا خاصہ یہ بتایا : (کہ جو اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے، وہ رُوحانی تاثیروں میں جو روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں، بہت ضعیف اور نکمّا ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں کو اِس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے، مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں کے دِلوں میں قائم کرنے میں اُن کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے)۔ ) غرض اِس دجّال قادیانی کے مُزَخرفات کہاں تک گنائے جائیں، اِس کے لیے دفتر چاہیے، مسلمان اِن چند خرافات سے اُس کے حالات بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کہ اُس نبی اُولو العزم کے فضائل جو قرآن میں مذکور ہیں، اُن پر یہ کیسے گندے حملے کر رہا ہے...! تعجب ہے اُن سادہ لوحوں پر کہ ایسے دجّال کے متبع ہو رہے ہیں، یا کم از کم مسلمان جانتے ہیں...! اور سب سے زیادہ تعجب اُن پڑھے لکھے کٹ بگڑوں سے کہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ جہنم کے گڑھوں میں گر رہے ہیں...! کیا ایسے شخص کے کافر، مرتد، بے دین ہونے میں کسی مسلمان کو شک ہوسکتا ہے۔ حَاشَ للہ! ''مَنْ شَکَّ فيْ عَذَابِہ وَکُفْرِہ فَقَدْ کَفَرَ.'' ''جو اِن خباثتوں پر مطلع ہو کر اُس کے عذاب و کفر میں شک کرے، خود کافر ہے۔''1 point
-
1 point
-
بھگوان ، دیوتا اور غیر مقلد اھلِ حدیث فرقہ ویسے تو ہندو 33 کروڑ دیوتاؤں (خداؤں) کے قائل ہیں لیکن ان کے تین بڑے دیوتا بڑے مشہور ہیں جن کا نام ’’برہما‘ وشنو اور شیو ہے۔ آپ نے صرف ہندؤں اور مشرکوں کے مذہب میں ہی دیوتاؤں کا تصور پڑھا اور سنا ہوگا لیکن یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اہل حدیث فرقہ بھی ہندؤں کی طرح دیوتاؤں اور بھگوانوں کا قائل ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ شرک کا دشمن اور توحید کا علمبردار قرار دیتا ہے لیکن ان کی تصویر کے دوسرے رخ‘ توحید اور اسلام کی بنیادوں کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اس بات کو واضح کردیا ہے کہ اہل حدیث فرقہ کی جڑیں بالاخر اہل شرک و ہنود کے دھرم سے جاملتی ہیں۔ قارئین آنے والے حوالہ جات سے خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اہلحدیث فرقہ کا پہلا دیوتا شریف گھڑیالوی کو اہل حدیث فرقہ دیوتا کا مقام و مرتبہ دیتا ہے‘ شریف گھڑیالوی ایک عرصہ تک صوبہ پنجاب کی جماعت اہل حدیث کا امیر رہا اور اسی عہدہ پر اس کی موت ہوئی۔ اس کو دیوتا قرار دیتے ہوئے وہابیوں کے زبردست عالم و مورخ اسحاق بھٹی نے لکھا سکھوں اور ہندؤں نے اس مرد موہن (شریف گھڑیالوی) کو دیوتا قرار دیا اور بالکل صحیح قرار دیا (کاروان سلف ص 55‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد) قارئین کرام! دیکھا آپ نے‘ کتنی بے باکی کے ساتھ اپنے وہابی عالم کو دیوتا قرار دیا جارہا ہے۔ اہلحدیث فرقہ کا دوسرا دیوتا قاضی محمد سلیمان منصور پوری‘ سکھ ریاست پٹیالہ کا سیشن جج اور اہل حدیث فرقہ کا زبردست سیرت نگار تھا‘ اس کے مرنے کے بعد اہل حدیث فرقے نے اس کے حالات زندگی قلمبند کئے‘ اہل حدیث فرقہ کا ایک دیوتا سے دل نہ بھرا تو شریف گھڑیالوی کی طرح قاضی سلیمان کو بھی دیوتا قرار دے دیا‘ چنانچہ وہابیوں کے مایہ ناز مورخ اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب تذکرہ قاضی محمد سلیمان میں لکھا غازی (محمود وہابی) صاحب لکھتے ہیں: قاضی محمد سلیمان منصور پوری سیشن جج پٹیالہ جج اجسام کے دیوتاؤں میں سے ایک زندہ دیوتا تھا۔ (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 208‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) انا و بغض نبی نے ہر بند سے آزاد کیا لا کے کعبہ سے صنم خانہ میں آباد کیا اہلحدیث فرقہ کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور ہندؤں کے بے ہودہ دیوتا ’’پرماتما‘‘ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہندو اپنے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا کو ’’پرماتما‘‘ یا ’’ایشور‘‘ کہتے ہیں۔ ہندؤں کے نزدیک ان کے اس خدا کی عجیب و غریب صفات ہیں‘ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ دن اور رات‘ ایشور (پرماتما) کی دو بغلیں ہیں‘ سورج اور چاند اس کی دو آنکھیں ہیں۔ سورج کی دھوپ اور بجلی کی چمک یہ دونوں ایشور (پرماتما) کے ہونٹ اور سورج اور چاند کے درمیان جو خلا ہے‘ وہ اس کا منہ ہے۔ نیز ہندؤں کے نزدیک ان کا یہ خدا‘ چوری کرتا بھی ہے اور کرواتا بھی ہے اور جوئے (قمار بازی) سے تو اتنا خوش ہوجاتا ہے کہ یہ خوشی اس کو بالکل بدمست کردیتی ہے۔ پرماتما کی ان تمام صفات کو وہابی مولوی عبدالمجید سوہدری نے اپنی کتاب سیرت ثنائی میں وہابی مناظر ثناء اﷲ امرتسری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ (ملخصا سیرت ثنائی صفحہ 231,230 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور مصنف عبدالمجید وہابی) قارئین کرام نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ ہندؤں کا پرماتما اور ایشور نامی خدا کس قدر کمینی صفات کا حامل اور کس قدر گندی حرکتوں کا مرتکب ہے‘ لیکن آپ یہ سن کر سکتہ میں آجائیں گے کہ اہل حدیث کے نزدیک پرماتما اور اﷲ تعالیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ ان کے نزدیک ہندو اﷲ کو پرماتما کے نام سے ہی مان رہے ہیں‘ چنانچہ غیر مقلدین کے مولوی قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ‘‘انہیں (یعنی ہندؤں کو) یہی سمجھانا ہے کہ تم اپنے تئیں ’’اﷲ واحد‘‘ کو ’’پرماتما‘‘ کے نام سے مانتے ہو’’ (تزکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 290‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) ہونکو نام جو ایماں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے اہل حدیث فرقہ کے نزدیک ہندؤں کے بھگوان‘ نبی اور ہادی ہیں ہندو لاکھوں کروڑوں بتوں کو بھگوان سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے ان کو کافر اور مشرک قرار دیا جاتا ہے۔ اہل حدیث فرقہ کو ان بھگوانوں سے کس قدر محبت ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگایئے کہ ہندؤں نے تو ان بھگوانوں کو خدا مان لیا۔ اہل حدیث فرقہ نے ان بھگوانوں کو ہادی اور نبی مان لیا۔ نعوذ باﷲ من ذالک‘ چنانچہ اپنے اس عقیدہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اہلِ حدیث فرقہ کے مولوی اسحاق بھٹی نے ‘اپنے فرقہ کے سیرت نگار قاضی محمد سلیمان کے حوالہ سے اس طرح نقل کیا جن بھگوانوں کی ہستی کو تاریخ ثابت کردے انہیں ہادی (یا نبی) مان لو (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 291 مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) وضع میں تم ہو نصاری تو عقیدہ میں ہنود یہ وہابی ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود نیز غیر مقلدین کے نزدیک ہندؤں کے دیوتا اور بھگوان مثلا رام چندر‘ لچھمن‘ کرشن‘ بدھا وغیرہ کی نبوت کا انکار درست نہیں۔ نعوذ باﷲ تعالیٰ تفصیل کے لئے دیکھئے اہل حدیث فرقہ کی مشہور و معروف کتاب ہدیۃ المہدی من الفقہ المحمدی ص 85 مصنف وحید الزماں وہابی اہل حدیث فرقہ کے نزدیک وہابی مولوی اﷲ سے لڑ کر اپنی بات منوالیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے پاس سب سے زیادہ طاقت اور قوت ہے‘ غیر اﷲ میں سے کوئی بھی اﷲ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ اپنی طاقت دکھا سکتا ہے‘ نہ اس زبردست قوت سے لڑ سکتا ہے اور نہ اس سے زور زبردستی سے اپنی بات منوا سکتا ہے‘ لیکن اہلحدیث فرقہ کا ایک مولوی ایسا بھی ہے جس کے متعلق اہلحدیث مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے لڑ بھی لیتا تھا اور اپنی بات بھی منوالیتا تھا‘ اس مولوی کو یہ لوگ مجاہد اسلام صوفی محمد عبداﷲ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ چنانچہ وہابیوں کے مورخ اسحاق بھٹی نے صوفی محمد عبداﷲ کے متعلق اپنے فرقہ کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا مولانا احمد الدین گکھڑوی نے فرمایا ’’صوفی عبداﷲ تو خدا سے لڑ کر بات منوالیتا ہے (صوفی محمد عبداﷲ ص 392‘ مطبوعہ شاکرین شیش محل لاہور) عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا اہل حدیث فرقہ کے نزدیک اﷲ‘ انسانی شکل میں دنیا میں آکر خدا نہ رہے گا ہندؤں کے نزدیک ان کے دیوتا اور بھگوان انسانی شکل میں دنیا کے اندر آسکتے ہیں اور دنیا میں اپنی کارستانیاں دکھا سکتے ہیں۔ وہابی بھی بالکل یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انسانی شکل میں دنیا میں آسکتا ہے۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ ہندؤں کے نزدیک ان کا خدا‘ اگر دنیا میں آجائے تو وہ پھر بھی ان کے نزدیک خدا ہی رہتا ہے‘ لیکن وہابیوں کے نزدیک جب اﷲ‘ انسانی شکل میں دنیا میں آئے گا تو وہ خدا ہی نہیں رہے گا‘ نعوذ باﷲ۔ چنانچہ اہل حدیث فرقہ کے زبردست مولوی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا خدا اگر چاہے تو انسانی شکل و صورت میں آسکتا ہے مگر جونہی وہ انسانی پیکر میں ظاہر ہوگا وہ خدا نہیں رہے گا اور خدا کے مرتبہ اور منصب سے معزول ہوجائے گا (خطبات ذاکر نائیک 1‘ ص 76‘ مطبوعہ مونال پبلی کیشنز‘ راولپنڈی) اف یہ جوش تعصب آخر بھیڑ میں کمبخت کے ہاتھ سے ایمان گیا اہل حدیث فرقہ کی کرشن دیوتا کی جنم اشٹمی میں شرکت ہندؤں کے ایک دیوتا کا نام کرشن ہے‘ ہندو اپنے اس خدا کی پیدائش کا جنم دن مناتے ہیں۔ کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ان کی اس شرکیہ اورکفریہ رسم میں عقیدت اور احترام کے شرکت کرے‘ لیکن ایک دفعہ ریاست پٹیالہ میں جب ہندؤں نے اپنے مذکورہ دیوتا کی جنم اشٹمی (سالگرہ) منائی تو اہلحدیث فرقہ کے عالم و پیشوا سلیمان منصور پوری کو بھی اس میں مدعو کیا‘ سلیمان صاحب نے اس میں بڑی دلچسپی سے شرکت کی اور اس میں ایک زوردار تقریر بھی کی جس میں ہندؤں کو ان کے مذہب کے متعلق وہ معلومات دیں کہ خود ہندو حیران ہوگئے چنانچہ اسحاق وہابی نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ایک مرتبہ ریاست پٹیالہ میں کرشن جی مہاراج کی جنم اشٹمی پر ہندؤں نے جلسہ کیا۔ قاضی صاحب کو بھی شرکت و تقریر کی دعوت دی۔ قاضی صاحب نے اس جلسے میں جو تقریر کی‘ ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے‘ وہ حیران تھے کہ اس موضوع سے متعلق اتنی معلومات انہیں کہاں سے حاصل ہوئیں‘ وہ تقریر اس دور کے ہندؤں کے کئی رسائل و جرائد میں شائع ہوئی۔ بہت سے تعلیم یافتہ ہندو پوچھتے تھے کہ قاضی صاحب نے یہ نادر معلومات کہاں سے حاصل کیں (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 120‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) قارئین غور فرمائیں کہ یہ وہی وہابی ہیں جو نبی کریمﷺ کی پیدائش کے دن خوشی‘ جلسے اور جلوس پر بدعت اورشرک کے فتوے لگادیتے ہیں‘ لیکن جب اپنے ہندو‘ دوستوںکی باری آئی تو یہ کفر اور شرک کے سارے فتوے سب ایک طرف رہ گئے اور کرشن کی جنم اشٹمی سب جائز ہوگئی۔ اہل حدیث فرقہ کی ہندؤں کے شرکیہ تہوار دیوالی میں شرکت ہندؤں کے ایک مذہبی تہوار کا نام دیوالی ہے جس میں وہ زبردست شرکیہ رسومات سرانجام دیتے ہیں‘ کوئی مسلمان اس میں شرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اہلحدیث فرقہ کے امام و پیشوا ثناء اﷲ امرتسری نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ اس دن کو مبارک دن قرار دیا نیز ہندؤں کو جوا کھیلنے کی زبردست ترغیب بھی دلائی‘ چنانچہ عبدالمجید وہابی نے اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھا ایک روز دیوالی کے روز ہندؤں نے جلسہ کیا۔ اسے دیکھنے کے لئے آپ بھی تشریف لے گئے۔ اہل ہندو نے آپ کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا اور اسٹیج پر آپ کو عزت سے بٹھایا۔ اس جلسے میں بہت سے ہندؤں نے دیوالی کی فضیلت پر تقریریں کیں‘ جب آپ سے درخواست کی گئی کہ اس تیوہار پر کچھ ارشاد فرمائیں تو آپ نے کہا چونکہ اس مبارک دن میں جوا کھیلنے کو بہت سراہا گیا ہے‘ اس لئے اہل ہنود کو چاہئے کہ وہ پھلوں سے جوا کھیلا کریں کیونکہ ایسے پھل آپ کے ایشور اور پرماتما کو بہت بھاتے ہیں‘‘ … الخ (سیرت ثنائی صفحہ 230 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور) لاحول ولاقوۃ الا باﷲ … قارئین کرام! دیکھ لیا آپ نے! کس قدر پرجوش انداز میں ہندو مذہب سے لگائو کا اظہار کیا جارہا ہے‘ وہابی کہتے ہیں کہ ہندو اس موقع پر شرمندہ ہورہے تھے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ بات درست نہیں‘ کیونکہ جب ثناء اﷲ نے ہندو مذہب کے موافق باتیں کیں تو ہندو اس موقع پر دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ ارے ثناء اﷲ صاحب تو اپنے ہی آدمی نکلے وہابی ایسے ہی ان کو اپنا عالم سمجھتے ہیں۔ ہندؤں سے وہابیوں کی محبت اورپرتپاک انداز میں ان کا استقبال مشرکوں‘ دین کے دشمنوں سے دوستی اور محبت نہیں کرنی چاہئے اور نہ ان کی تعظیم کرنی چاہئے‘ جو لوگ ان سے محبت کرتے اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میں ان پر عتاب وناراضگی کا اظہار فرمایا ہے لیکن غیر مقلدین کو دین کے دشمنوں اور اہل شرک سے بڑی محبت ہے‘ چنانچہ عبدالمجید وہابی نے ثناء اﷲ وہابی کے متعلق لکھا کسی مذہبی تیوہار کے دن چند ہندو ماتھے پر تلک لگائے آپ کی خدمت میں سلام کی غرض سے حاضر ہوئے اس وقت آپ کے پاس بہت سے مسلمان بیٹھے تھے۔ مولانا نے ہندؤں کو دیکھا تو تپاک اور محبت سے ملے مزاج پرسی کی (سیرت ثنائی ص 231‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور) آہ !ہندؤں کے منعقدہ جلسہ کی صدارت کیلئے اہل حدیث مولوی نے پنڈت نہرو کو تیار کیا ہندؤں نے عالمی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا‘ ہندؤں کی خواہش تھی اس مذہبی کانفرنس کی صدارت ہمارے پنڈت جواہر لعل نہرو کریں لیکن پنڈت کو اس کی صدارت کے لئے راضی کرنا بڑا مشکل کام تھا اور اس مشکل کام کو اہل حدیث فرقہ کے زبردست عالم صوفی نذیر احمد نے آسان کردیا۔ یہ وہابی صوفی صاحب بنفس نفیس ہندؤں کے ساتھ مل کر پنڈت کے گھر گئے اور اس کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہندو اس کارنامے سے اس قدر خوش ہوئے کہ صوفی صاحب کو بارہ گلاس لسی کے ایک وقت میں پلا دیئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے وہابیوں کی مایہ ناز کتاب ’’گزر گئی گزران‘‘ ص 141 تا 144‘ مصنف اسحاق بھٹی وہابی مطبوعہ ادارہ نشریات لاہور اہل حدیث فرقہ نے اپنے جلسہ میںہندو لیڈر سے تقریر کروائی ۔ 1945ء کا مشہور ہندو لیڈر‘ جس کو ہندو جے پرکاش نارائن کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ جب پنجاب آیا تو وہابیوں نے اس کو فرید کوٹ میں تقریر کی دعوت دی۔ وہابیوں نے بہت بڑا جلسہ منعقد کیا اور لوگوںکو اپنے ممدوح ’’جے پرکاش نارائن‘‘ کی تقریر سنوا کر ہندؤں سے زبردست محبت کا ثبوت پیش کیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے وہابی کی مایہ ناز کتاب (’’گزر گئی گزران‘‘ ص 392 تا 393‘ مصنف اسحاق بھٹی وہابی مطبوعہ ادارہ نشریات لاہور) ہولی کے دیئے توڑنے پر اہل حدیث فرقہ کی ناراضگی ہندو اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے مذہبی تہوار ’’ہولی‘‘ کے موقع پر دیئے (چراغ) روشن کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کچھ بچوں نے وہ دیئے (چراغ) توڑ دیئے تو ہندؤں کو برا لگا ہو یا نہ لگا ہو‘ لیکن اہلحدیث فرقہ کو یہ فعل اتنا برا لگا کہ ان کے مولوی عبدالقادر حصاری نے ان بچوںکو سخت سزا دی‘ ان کے کان پکڑوائے اور ان کے سر بھی منڈوادیئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئےوہابیوں کی مشہور کتاب کاروان سلف ص 239‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد مصنف اسحاق بھٹی وہابی اہل حدیث فرقہ کا‘ گائے کے پیشاب کو پاک سمجھنا ہندو مذہب میں گائے کی بڑی عزت ہے اور وہ اس کو ’’ماتا‘‘ مانتے ہیں اور اس کے پیشاب کو بالکل پاک سمجھتے ہیں۔ اہل حدیث فرقہ اس معاملہ میں بھی ہندؤں سے کئی قدم آگے ہے‘ ان کے نزدیک گائے کے پیشاب کے ساتھ ساتھ تمام حرام جانوروں کا پیشاب‘ کتے اور خنزیر کا تھوک اور ان کا جٹھا‘ کتے کا پیشاب اور پاخانہ‘ تمام قسم کے خون سوائے حیض کے خون کے‘ عورت کی شرم گاہ کی رطوبت وغیرہ سب پاک ہیں۔ تفصیل کے لئے پڑھیئے وہابیوں کی مستند کتاب نزل الابرار ص 50,49‘ حصہ و جلد 1‘ مصنف وحید الزماں وہابی مطبوعہ سعید المطابع بنارس ہند ناشر جمعیت اہل سنت لاہور اہل حدیث کے نزدیک گستاخ رسول کو عزت سے پکارا جائے 14۔ ایک اسلام دشمن ہندو‘ جس کا نام ’’دیانند‘‘ تھا۔ اس خبیث کافر نے قرآن اور رسول اﷲﷺ کی شان اقدس پر زبردست حملے کئے تھے اور اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام ستیارتھ پرکاش تھا۔ اسی وجہ سے ہندو اس کے نام کے دائیں‘ بائیں تعظیمی القابات لگاتے تھے مثلا سوامی‘ جی وغیرہ۔ یہ شخص رسول اﷲﷺ کا نام مبارک انتہائی بے باکی اور گستاخانہ انداز میں لیا کرتا تھا‘ لیکن اہل حدیث فرقہ اس کے باوجود اس گستاخ رسول کو ہندؤں کی طرح تعظیمی القابات سے پکارتا اور لکھتا تھا اور کہتا تھا کہ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ اہل حدیث فرقہ کی گستاخ رسول شخص کے ساتھ یہ محبت اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ اندر سے معاملہ کچھ اور ہے‘ نیز اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ گستاخ رسول واجب القتل ہے لیکن اہل حدیث فرقہ کے نزدیک اس کی تعظیم کی جائے گی‘ نیز ابوجہل کا اصل نام عمرو بن ہشام تھا اور لوگ اس کو عزت سے ابوالحکم کہتے تھے لیکن مسلمانوں نے اس کا نام ابوجہل رکھ دیا جو سخت معیوب اور قبیح تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص رسول اﷲﷺ کا گستاخ تھا اور دین کا زبردست دشمن تھا۔ لیکن اہل حدیث فرقہ کا اپنا ہی ایک مذہب ہے چنانچہ وہابیوں کے سب سے بڑے مناظر ثناء اﷲ نے کہا کہ سوامی بڑی عزت کا لفظ ہے آریہ سامجی (دیانند) ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کا نام صرف محمد لکھتے ہیں اور مفرد کے صیغہ سے بیان کرتے ہیں مثلا لکھتے ہیں ’’محمدپیدا ہوا‘‘ ’’محمد کہتا تھا‘‘ جو ایک ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہیں مگر ہم ان کے گرو (پیشوا دیانند) کو عزت ہی سے یاد کریں گے کیونکہ اسلام کا ہم کو یہی حکم ہے۔ (حق پرکاش ص 14 ‘ دیباچہ نعمانی کتب خانہ لاہور) قارئین کرام! وہ فرقہ جو دیوتاؤں کا قائل ہو‘ ہندؤں کے بے ہودہ خدا پرماتما اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کسی فرق کا قائل نہ ہو‘ ہندؤں کے بھگوانوں کو ہادی اور نبی مانتا ہو‘ اپنے مولوی کو خدا سے لڑنے والا قرار دیتا ہو‘ ہندؤں کے عقیدہ کے مطابق خدا کا انسانی شکل میں آنا درست جانتا ہو‘ خدا کے ختم ہوجانے کا قائل ہو‘ ہندؤں کے شرکیہ میلوں ٹھیلوں میں شرکت کرتا اور ان کو اپنے جلسوں میں بلوا کر تقریر کرواتا ہو‘ ہولی کے دیئے توڑنے پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہو‘ پیشاب کو پاک قرار دیتا ہو اور گستاخ رسول کو عزت سے یاد کرتا ہو‘ کیا وہ حق پر ہوسکتا ہے‘ فیصلہ آپ خود فرمالیں۔1 point
-
Towheedi bhai kya khoob post ki hai Janab Towheedi bhai ne Allah aapko or aapky muawin sab ko dono jahan ki barkaton se malamal farmaye...Ameen1 point
-
this video is private how to watch bro1 point
-
1 point