Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation since 13/03/2024 in پوسٹس

  1. باقی بُخاری اور نسائی کی کُچھ حدیثوں میں پیشاپ کا ذکر نہیں ملتا وہاں صرفِ دودھ کا ذکر ہے
    2 points
  2. Sunni Websites 1 www.dawateislami.net 2 http://sunnitigerscamp.blogspot.in/ 3 http://haqbaat.com/ 4 www.nafseislam.net 5 http://cifiaonline.com/ 6 http://www.correctislamicfaith.com/ 7 www.islamicacademy.org 8 www.aalerasoolahmad.blogspot.com 9 www.alahazrat.net 10 http://armaanmiyan.blogspot.in/ 11 www.thesunniway.com 12 www.sunnidawateislami.net 13 http://www.786sho.blogspot.in/ 14 http://www.ahlesunnat.net/ 15 www.jamiaahsanulbinat.blogspot.com 16 www.nooremadina.net 17 www.yanabi.com 18 http://sunnihaq.com/ 20 www.ahlesunnat.net 21 http://islamicsunnibooks.blogspot.com/ 22 http://www.auliaehind.com 23 http://irshad-ul-islam.com/ 24 www.islamiccentre.org 25 www.sunnah.org 26 www.sunnirazvi.org 27 www.raza.co.za 28 www.razemustafa.net 29 www.nooremadinah.net 30 www.noorulislambolton.com 31 http://truecolorsofislam.com/ 32 www.idaratulmustafa.com 33 www.siratemustaqeem.net 34 www.practicingislam.com 35 http://www.cifiaonline.com/ 36 http://www.jilani.org/ 37 http://thesunniway.com/ 38 http://www.alahazratnetwork.org/ 39 http://imamahmadraza.net/index.php/research 40 http://www.alahazrat.net/events/ursealahazrat/hisimpact.htm 41 http://www.alahazrat.net/.../noor-the-blessed-light-of... 42 http://www.alahazrat.net/alquran/Quran/index.html 43 http://www.nooremadinah.net/UrduBooks/UrduBooksShow.asp... 44 http://www.raza.org.za/ 45 http://www.imamahmadraza.net/ 46 http://markaznews.com/eye.html 47 http://razaislamicmission.webs.com/impactinworldtoday.htm 48 http://ghousia.8m.net/4.htm 49 http://www.alahazrat.net/.../alahazrat-imam-ahmed-raza.../6/ 50 http://islam786books.com/.../page_sufi_books_imam_ahmad... 51 http://www.faizaneraza.org/book-detail/60 52 http://sunnah.org/articles/Imam_raza_ahmed_khan.htm 53 http://sunnah.org/ 54 http://books.ahlesunnat.net/.../alahazrat-imam-ahmed.../10/ 55 http://books.ahlesunnat.net/.../alahazrat-imam-ahmed.../10/ 56 http://faizaneraza.org/ 57 www.raza.co.za 58 http://www.raza.org.za/deviant_sects_and_scholars... 59 http://www.nooremadinah.net/razaemustafa/main.asp 60 AlaHazrat Network - books by and on A'la Hazrat Imam Ahmed Raza Khan R.A. in English, Arabic and Urdu. http://www.razanw.org/ 61 www.raza.org.za , Raza Academy South Africa(bookstore) 62 http://www.ahlesunnat.biz/ 63 http://www.islam786.com/ 64 http://www.noori.org/ 65 http://www.noorenabi.com/ 66 http://www.hazrat.org/ 67 http://www.livingislam.org/n/pku_e.html 68 http://www.scribd.com/.../30401279-Imam-Ahmad-Raza-Khan... 69 http://www.barkati.net/ 70 http://www.ahlesunnat.org/ 71 http://www.taajushshariah.com/Bank%20Interest.htm 72 www.taajushshariah.com 73 http://www.jamiaturraza.com/ 74 http://www.razaacademy.com/ 75 http://www.trueislam.info/ 76 http://raza-e-khushtar.org/ 77 http://www.ahlesunnat.net/ 78 http://www.multimediaquran.com/ 79 http://www.baharemadinah.com/index.php?option=com_content... 80 http://www.faizaneraza.org/islamic-audio.php?a_id=6 81 http://www.sunnispeeches.com/ 82 http://www.naatsharif.com/ 83 http://www.naatonline.com/ 84 http://www.members.tripod.com/okarvi/ 85 http://www.ahlesunnat.net/about-us.php 86 http://www.aljamiatulashrafia.org/index.asp 87 http://www.ashrafjahangir.com/index.asp 88 http://www.faizaneattar.net/ 89 http://www.faizahmedowaisi.com/home 90 http://www.islam786.org/ilmalghayb.htm 91 http://www.afzalbiabani.org/ 92 http://www.algillani.com/ 93 www.dawateislami.net 94 http://www.wimnet.org/ 95 http://www.sunnidawateislami.net/index.php... 96 http://www.noorifoundation.com/ 97 www.aulia-e-hind.com 98 http://www.ja-alhaq.com/ 99 http://www.ahya.org/ 100 http://www.muhammadiya.com/ 101 http://www.falaah.co.uk/ 102 http://irshad-ul-islam.com/ 103 http://www.ahadees.com/quran.html 104 Site In Arabic & English From Syria::http://www.sunna.info/Lessons/cat_26.html 105 http://www.islamieducation.com/.../shaking-foundation-of... 106 http://www.seekingilm.com/ 107 http://www.nafseislam.com/en/BooksList.php?Cat=32&Rctr=1... 108 http://www.islamicacademy.org/ 109 http://www.faizaneislam.org/about.shtml 110 http://www.ahlus-sunna.com/index.php?option=com_content... 111 http://www.islamieducation.com/en/7 112 http://madinasharif.wordpress.com/79 113 http://www.shaikulislam.com/80 114 www.ziaislamic.com 115 http://www.almustafa.org.uk/Default.aspx82 116 http://gauseazam.wordpress.com/about/83 117 http://www.dargahajmer.com/84 118 http://www.chishtiamission.com/home.html#85 119 http://www.kgn786.com/86 120 http://www.hazratbakhtiyarkaki.com/87 121 http://www.habibia.com/index.php89 122 www.quthbiyamanzil.org 123 http://www.ashrafitimes.com/90 124 http://www.internationalsuficentre.org/ 125 http://islamtreasure.blogspot.in
    1 point
  3. اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ مسجد کی تعمیر میں حصہ لے کر ثواب جاریہ حاصل کریں ہمارے علاقہ میں مسجد کے لئے ایک جگہ خریدی جاری ہے ، جس کی قیمت 99،00،000 لاکہ روپے ہے ـ آپ تمام اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں سے مدنی التجاء ہے کہ اللہ تعالی کے گھر کی تعمیر میں حصہ لے کر اپنے لئے ، اپنے والدین ، اپنے گھر والوں ، اور اپنے مرحومین کے لئے ثواب جاریہ حاصل کریں ـ الحمد اللہ ! پیارے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں دعوت اسلامی اللہ عزوجل اور اسکے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ایسی نعمت ہے کہ جس پر اللہ عزوجل کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ـ مساجد میں نماز کے ساتھ ساتھ روزانہ درس و بیان ، مدرسہ بالغان ، تحصیل اجتماع ، تعویزات عطاریہ ، مدنی قافلہ اور بہت سارے مدنی کام ہوتے ہیں ـ آپ تمام اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں سے مدنی التجاء ہے کہ آپ سے جتنا ہو سکے درج ذیل اکاؤنٹ میں مدنی عطیات جمع کروا سکتے ہیں ، اور باب المدینہ کے اسلامی بھائی چاہیں تو مجھے بھی دے سکتے ہیں ـ اسلامک محفل کے 1381 کے آس پاس ممبر ہیں اگر ایک ممبر کم ازکم 100 روپے بھی جمع کروائے تو ان شاء اللہ عزوجل کثیر مدنی عطیات جمع ہو جمع ہو جائیں گے ـ ہو سکے تو اپنے رشتہ داروں ، دوست احباب اور گھر والوں سے بھی ترکیب بنائیں ـ ACCOUNT TITLE: FARAZ BIN ALI ACCOUNT NUMBER # : 4353-8 (PLS) BANK NAME : ALLIED BANK LTD. DASTAGIR COLONY BRANCH CODE : 136 امید ہے کہ آپ تمام ممبر اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ـ ان شاء اللہ عزوجل
    1 point
  4. DEOBANDI Muhaddis Kashmiri ne Hadees ki Sharah Likhne se Pahle Aala Hazrat ki Kitab Padhi Ye scan Nhi Mil rha Maherbani krke Inayat Farmaye
    1 point
  5. دل تین باتوں پر خیانت نہیں کرتے ۔ (1) اللہ کے لئے خالص عمل کرنا۔ (۲) اور حکمرانوں کی خیر خواہی کرنا ۔ (۳) اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا کیونکہ ان کی دعا ان کے علاوہ سب کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے (مسندِ دارمی) نوٹ: اِس حدیث کے حاشیہ میں وہابی مترجم کہتا ہے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے رجائیت والے کلام سے پتہ چلا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے۔ ورنہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم قطعیت کے ساتھ کہتے کہ آئندہ تم کو مل نہ سکوں گا جب کہ اِسی حدیث کے تحت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى تَوْدِيعِهِمْ وَإِعْلَامِهِمْ بِقُرُبٍ وَفَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی یہاں سرکار صلّی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں تمہیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور انہیں اپنے قرب وفات کی خبر دے رہے ہیں بہر حال یہ اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔ حدیث شریف تو ایک ہے، مگر وہابی بےخبری نکال رہا ہے اور اِمام نووی علم کی خوشبو سونگھ رہے ہے
    1 point
  6. سوادِ اعظم کے سِوا باقی تمام فرقے جہنمی ہیں
    1 point
  7. سوادِ اعظم کے سِوا جتنے فرقے ہونگے سب جہنمی ہیں ،
    1 point
  8. " امت بنی اسرائیل پر ایک فرقہ زیادہ ہو گی "سواد اعظم کےسوا سب جہنمی ہوں گے
    1 point
  9. https://archive.org/details/TibiyanulQuran/TibiyanulQuranJ00/
    1 point
  10. مرقاة المفاتيح - ملا علي القاري All reac
    1 point
  11. Kamran Shahzad Kay Etraz ka jawab .. کامران شہزاد کے اعتراض کا جواب
    1 point
  12. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ جاکم اللہ بھاٸ جان بہت بہت شکریہ ایک ملحد نے اس دن اعتراض کیا تھا اپکے جوابات سے میں اسے جواب دونگا انشاءاللہ اللہ پاک اپکو اجر خیر عطا فرماۓ امین ثمہ امین
    1 point
  13. Allah Aapko Kamyabi Naseeb Fermaye... Ameen.
    1 point
  14. تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہابیوں نے یہاں جھوٹ کا سہارا لیا ہوا ہے، نیچھے کے اسکین ملاحظہ کریں کتاب کا نام ، مصنف کا نام ، مطبوعہ کا نام ایک ہی ہے ، لکین اِس پوری کتاب میں کہیں بھی یہ کُفرِیہ واقعہ نہیں لکھا ( صفحہ نمبر ۸۱ میں بھی نہیں)۔۔۔اس جھوٹ کو ایک دیوبندی نے اپنی "بریلویت کی خانہ تلاشی" نامی کتاب میں اہلسنت کی طرف منسوب کیا ہوا ہے۔ اِن وہابیوں کے لئے قرآن کی ایک آیت ہی کافی ہے
    1 point
  15. وعلیکم السلام ورحمةالله وبركاته بھائی برائے مہربانی کوشش کیا کریں کہ عربی صحیح لکھا کریں کیوں کہ ایسا نہ کرنے سے معنی تبدیل ہو جاتا ہے
    1 point
  16. 1 point
  17. Qabar main Dedar e Mustafa ( Sallallhu alaihi wasalam) by Allama Faiz ahmad owaisi r.a. قبر میں دیدار مصطفی ﷺ.pdf
    1 point
  18. دیوبندیوں کے حکیم الامت ۔
    1 point
  19. 1 point
  20. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ شیعوں نے اپنی ایک ویب ساٸیٹ پر ایک پوسٹ اپلوڈ کی جس میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی شرح صحیح مسلم میں علامہ عینیؒ کے قول کو نقل کیا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”میں(عینی) کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہؓ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جاۓ گا ؟ اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے ؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی،اور ابن سمیہ عمار بن یاسرؓ ہیں،اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا،کیا معاویہؓ برابر سرابر ہونے پر راضی نہیں ہیں کہ ان کو ایک اجر مل جاۓ“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس قول کو لکھنے کے بعد شیعہ چیلنج کر رہے ہیں کہ ”کیا کوٸی اہل سنت اس اعتراض کا علمی جواب دے سکتا ہے ؟“ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ مکار اور فریبی قوم ہیں،بس اپنے مطلب کی بات نکال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کوٸی شخص کم علمی میں شیعہ کی آدھی پوسٹ پڑھ کر یہ فتوے بازی نہ شروع کر دے کہ علامہ بدرالدین عینیؒ رافضی تھے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم ان کے اس چیلنج کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ ان کے چیلنج کا منہ توڑ جواب اسی کتاب کے اگلے صحفے پر موجود ہے۔ پہلی بات ہی یہ ہے کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے یہ قول ہی اس باب میں نقل کیا ہے کہ ”حضرت معاویہ پر علامہ عینی کے اعتراض کا جواب“ یعنی کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ اس جگہ ان کے اس اعتراض کا جواب لکھنے لگے ہیں،لیکن شیعہ نے اس سے اگلا صحفہ نہ ہی لگایا ہے نا ہی پڑھا ہو گا۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ علامہ عینیؒ کا یہ قول لکھ کر سب سے پہلے یہ کہتے ہیں حضرت علیؓ کی محبت برحق ہے اور ہمارے ایمان کا جُزو ہے،لیکن حضرت علیؓ کی محبت میں حضرت معاویہؓ پر غیظ و غضب کا اظہار کرنا اور ان کے فضاٸل اور ان کے اجر و ثواب کا انکار کرنا تشیع اور رفض کا دروازہ کھولنا ہے،اور راہِ اعتدال اور مسلک اہلسنت وجماعت سے تجاوز کرنا ہے۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ،علامہ عینیؒ کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالی علامہ بدالدین عینیؒ کی مغفرت فرماۓ(آمین) انہوں نے امیر معاویہؓ پر اعتراض کیا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے موقف کا حق ہونا واضح ہو گیا تھا اور لیکن انہوں نے اس کے بعد بھی رجوع نہیں کیا۔ اس کے بعد علامہ عینیؒ کے اعتراض کا جواب کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”علامہ عینیؒ کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت پہلے تو حضرت معاویہ کے اجتہاد پر کوٸی اعتراض نہیں ہے،ہاں حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد حق ضرور واضح ہو گیا تھا لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو یہاں بھی التباس اور اشتباہ ہو گیا،انہوں نے کہا کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کا باعث حضرت علیؓ ہیں(جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں روایت موجود ہے)،اگر حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ کا قصاص لے لیتے تو جنگ کی نوبت نہ آتی اور نا ہی حضرت عمارؓ شہید ہوتے،حضرت معاویہؓ کی تاویل صحیح نہیں ہے لیکن یہ تاویل بھی ان کی اجتہادی خطا پر مبنی ہے“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 792) اس جواب کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ عمدة القاری کے شروع میں علامہ عینیؒ نے خود حضرت معاویہؓ کی اجتہادی خطا کا اعتراف کیا ہے وہ اس حدیث کہ ”عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار اس گروہ کو جنت کی طرف بلاۓ گا اور وہ لوگ عمارؓ کو دوزخ کی طرف بلاٸیں گے“(یاد رہے یہ جنت و جہنم کے زاٸد الفاظ بخاری کے قدیم نسخوں میں موجود نہیں تھے لیکن بعد میں شامل کر دیے گۓ جو کہ میں اپنی پہلے والی پوسٹ میں ثابت کر چکا ہوں)اس حدیث پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عمارؓ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑے تھے اور ان کو حضرت امیر معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا تو کیا حضرت معاویہؓ کا گروہ باغی اور دوزخ کی طرف دعوت دینے والا تھا ؟ اس کے جواب میں علامہ عینیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمارؓ کو حضرت معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا لیکن وہ خود مجتہد تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ وہ جنت کی دعوت دے رہے ہیں اور اس واقعے کے برعکس تھا اور اپنے ظن کی اتباع کرنے میں ان پر کوٸی ملامت نہیں ہے،اگر تم یہ کہو کہ جب مجتہد صحیح اجتہاد کرے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اگر غلط اجتہاد کرے تو ایک اجر ملتا ہے تو یہاں کیا معاملہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اقناعی جواب دیا ہے اور صحابہ کے حق میں اس کے خلاف کہنا لاٸق نہیں ہے،کیونکہ اللہ نے صحابہ کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کی گواہی دی ہے، قران مجید میں ہے ”تم بہترین امت ہو“ مفسرین نے بیان کیا ہے اس سے مراد ”صحابہ“ ہیں۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 972) تو اس سے سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا چیلنج بلکل فضول اور جاہلانہ تھا اور ساتھ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ بدرالدین عینیؒ حضرت امیر معاویہؓ پر طعن کرنے کے قاٸل نہیں تھے اور نا ہی ان کو جہنمی کہتے تھے بلکہ وہ خود حضرت امیر معاویہؓ کی تاویل کو اجتہادی خطا سمجھتے تھے،اور ان کی فضیلت کے قاٸل تھے۔لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ حق واضح ہونے کے باوجود حضرت امیر معاویہؓ نے رجوع نہیں کیا اور پھر سے تاویل کی جو کہ صحیح نہیں تھی۔ شیعہ حضرات کو بھی چاہیے کہ علما کی بیان کردہ باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور الٹے سیدھے فضول چیلنج کرنے کی بجاۓ حق کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔ تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
    1 point
  21. https://www.dawateislami.net/pamphlets/7216/page/6 پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے ماضِی کی تلخیوں کا ایک بڑا سبب لفظِ کاش ہے۔ ہم اپنے ماضِی کے مُتَعَلِّق کاش بہت کہتے ہیں؛ کاش!میں یہ نہ کرتا، کاش!میں وہ نہ کرتا، کاش!یہ نہ ہوتا، کاش!وہ نہ ہوتا، کاش! میں نے یہ کاروبار نہیں، وہ کاروبار کیا ہوتا، کاش! میں نے یہ ڈپلومہ نہیں، فُلاں ڈپلومہ کیا ہوتا، کاش!میں یہاں نہیں، فُلاں جگہ نوکری کر لیتا وغیرہ۔ یہ جو لفظِ کاش ہے، یہ ہمارے ماضِی،حال اور مستقبل تینوں کو تلخ بنا دیتا ہے۔ اس لئے اپنی زندگی سے لفظِ کاش نِکال دیجئے! یہ بہت خطرناک لفظ ہے۔ امت کے غمخوار، محبوبِ ربِّ غفار صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی حدیثِ پاک ہے، فرمایا: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں وہ کام کر لیتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ کہو: قَدَّرَ اللہُ وَ مَا شَآءَ فَعَل اللہ پاک نے مُقَدَّر کیا اور جو چاہا، وہی کیا۔ مزید فرمایا: فَاِنَّ لَو تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ بیشک اگر مگر شیطان کا کام کھول دیتا ہے۔ ([1]) الحاج مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی اس اگر مگر سے انسان کا بھروسہ اللہ پاک پر نہیں رہتا، اپنے پر یا اسباب پر ہو جاتا ہے (پِھر جب اللہ پاک پر بھروسہ نہیں رہتا تو شیطان اِنْسان کو جکڑ لیتا ہے)۔ خیال رہے! یہاں دُنیا کے اگر مگر کا ذِکْر ہے، دینی کاموں میں اگر مگر اور افسوس و ندامت اچھی چیز ہے، مثلاً اگر میں اتنی زندگی نیکیوں میں گزارتا تو متقی ہو جاتا مگر افسوس میں نے گُنَاہوں میں زندگی گزار دی۔ ایسا افسوس! بہترین عبادت ہے۔([2]) پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہے اسلام کی پیاری پیاری تعلیم! اپنی زندگی سے اگر مگر، ماضِی کے واقعات پر بِلاوجہ کڑھتے رہنا، کاش کاش کرتے رہنا، یہ سب کچھ چھوڑ دیجئے! اچھی اور مثبت سوچ اپنائیے! اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! ماضِی کی تلخیاں دُکھ نہیں پہنچائیں گی بلکہ بہت صُورتوں میں ثواب کا ذریعہ بن جائیں گی۔ [1]...مسلم، كتاب القدر، باب الامر بالقوۃ وترک العجز...الخ، صفحہ:1027، حدیث:2664۔ [2]...مرآۃ المناجیح، جلد:7، صفحہ:113 خلاصۃً۔
    1 point
  22. Download https://data2.dawateislami.net/Data/Books/Download/ur/pdf/2009/364-1.pdf?fn=uyun-ul-hikayaat-hissa-2', 'Uyun ul Hikayaat Hissa 2', 668
    1 point
  23. اس وقت جتنے فتنے پھیل رہے ہیں ان کی فہرست انتہائی طویل ہے صرف چند کے نام آپ سے شئیر کرتا ہوں۔ (1) فتنہ الحاد و لبرل ازم (2) فتنہ منکرین حدیث (3) فتنہ اہل قرآن (4) فتنہ قادیانیت (5) فتنہ دیوبندیت (6) فتنہ شیعیت (7) فتنہ نجدیت (8) فتنہ دہریت (9) فتنہ نیچیریت (10) فتنہ عیسائیت (11) فتنہ یہودیت و دجالیت (12) فتنہ غامدیت (13) فتنہ ذاکر نائک (14) فتنہ جہلمی
    1 point
  24. ذاکر نائیک عالم دین نہیں ہے بس وہ ایک تقابل ادیان میں مہارت رکھتا ہے لیکن افسوس ہماری عوام میں جو بندہ جس کام میں مشہور ہوجائے اور وہ ظاہری طور پر مذہبی حلیے والا ہو تو عالم و مفتی بن جاتا ہے اور پھر الٹے سیدھے فتوے دیتا ہےجیسے ذاکر نائیک دیتا ہے سگریٹ پینے کو حرام کہہ دیتا ہے خارجیوں کی طرح بات بات پر شرک و بدعت کے فتوے اور جب اس سے پینٹ کورٹ کے متعلق پوچھاتو جواب دیا کہ شرع میں اس بارے میں ممانعت کسی حدیث میں نہیں آئے بندہ پوچھے پینٹ کورٹ کے متعلق ممانعت نہیں تو ختم ، قل،گیارہویں ،میلاد کی ممانعت پر کونسی آیات و احادیث موجود ہیں جسے بدعت کہتے ہیں۔
    1 point
  25. قہر خداوندی بر فرقہ دیوبندی حصہ اول و دوئم Total Pages : 504 5_6091607684203676044.pdf
    1 point
  26. تیرے نزدیک ہوا کذب الہی ممکن تجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری بلکہ کذاب کیا تونے تو اقرار وقوع اف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری کیا یہی آپ کی توحید ہے.pdf
    1 point
  27. بزم ارجمنداں میں ہی ١- غیرمقلد وھابی معین الدین کے علاوہ ٢- غیرمقلد وھابی حافظ عبدالله روپڑی (صفحہ 273, 277) اور ٣- شاہ محمد جعفر پھلواری ندوی کے تعویز کرنے کا (صفحہ 364, 365) ذکر بھی موجود ہے۔
    1 point
  28. Quran Teacher is another website of Dawateislami. Through this website they will teach online Islamic courses to brothers and sisters.
    1 point
  29. My Favorite 💗 https://sunnibarelwi.blogspot.com/ With scan pages
    1 point
  30. رد الشمس والی روایت پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مدلل جواب ردالشمس والی مشہور روایت جس میں نبی پاک کے معجزے کا زکر ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے سورج کو واپس پلٹایا اس روایت کی توثیق میں نے جمہور محدثین بشمول امام ابن حجرعسقلانی ، امام بدرالدین عینی، امام طحاوی ، امام قاضی عیاض ، امام جلال الدین سیوطی ، امام مغلطائی الحنفی ، امام ابن حجر مکی ، امام ابو بکر الہیثمی امام شامی ، امام شاہ ولی اللہ محدث ، امام زرقانی سمیت اور کئی محدثین کی توثیق دیکھائی تو ابن تیمیہ اینڈ کمپنی اور دیوبنہ کے پیٹ میں ایسے مروڑ پیدا ہوئے کہ ہر جگہ اسکو ضعیف ثابت کرنے کی کوشیش میں لگے ہیں جبکہ پہلے ابن تییمیہ کی اندھی تقلید میں موضوع سے کم اس پر حکم ہی نہ لگاتے تھے جبکہ یہ روایت بالکل صحیح اور پختہ دلیل ہے نبیؐ کے معجزے کی ۔ جمہور محدثین کی توثیق یہ ہے امام ابن حجرعسقلانی الشافعی شارح بخاری کا ابن تیمیہ اور ابن جوزی کا رد کرنا :۔ الحافظ شیخ الالسلام امام بن حجر عسقلانی الشافعی نے اس روایت کو حسن قرار دیا اور ایک دوسرے طرق کو دلیل قرار دیا کہ یہ روایت نبی کی نبوت کی دلیل ہے اور اس روایت ابن جوزی نے موضوع کہہ کر غلطی کی اور ایسے ابن تیمیہ نے بھی غلطی کی اس کو موضوع قرار دے کر۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری) امام بدرالدین عینی جو شارح بخاری ہیں اور اعظیم محدث کا رد الشمس کو صحیح قرار دینا:۔ امام بدرالدین کہتے ہیں کہ یہ روایت متصل ہے اور ثقات سے مروی ہے اور ابن جوزی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں جس نے اس میں نقص نکالنے کی کوشیش کی ۔ (عمدتہ القاری شرح صحیح بخاری) امام الحافظ مغلطائی الحنفی:۔ امام مغلطائی فرماتے ہیں کہ ردالشمس والی روایت کو ثقات نے روایت کیا ہے (السرت المصطفیٰ) امام المحدث جلال الدین سیوطی الشافعی :۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام طبرانی ، امام ابن مندہ اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے اور اسکے بعض طرق صحیح کی شرط پر ہیں (الخصائص الکبریٰ) امام ابو جعفرالطحاوی (امام طحاوی نے رد الشمس کا باب قائم کیا اور اس باب میں دو مختلف طرق سے روایت نقل کی اور توثیق فرمائی ) (شرح مشکل الاثار) امام قاضی عیاض المالکی :۔ز ل، امام قاضی عیاض اس روایت کو دو طرق سے لکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور ثقات سے مروی ہیں اور امام طحاوی سے مروی امام احمد بن صالح کا قول نقل کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کے لائق نہیں جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو اور وہ اسماء بنت عمیس والی روایت کو حفظ نہ کرے جبکہ اس میں نبوت کی نشانی ہے (الشفاء قاضی عیاض) امام ابو بکر الہیثمی امام ابو بکر الھیثمیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن الحسن کے اور وہ بھی ثقہ ہیں ابن حبان نے انکو ثقہ کہا ہے اور فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کو میں نہیں جانتا (مجمع الزائد) امام ابن حجر مکی شافعیؒ امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابو زرعہ نے حسن قرار دیا ہے اور دوسرے محدثین نے بھی انکی تائید کی ہے اور رد کیا ہے انکا جو اسکو موضوع کہتے ہیں (الصوائق المحرقہ) اس کے علاوہ امام زرقانی نے بھی اس روایت کو توثیق کی اور ابن تیمیہ کا رد کیا ۔ ماضی قریب کے اعظیم شیخ و محقق الکوثریؒ نے بھی اس روایت کی توثیق کی اور ابن تیمیہ کے مکڑی کے کمزور دلائل کا مدلل رد فرمایا ، علامہ ابن عابدین الشامی نے بھی اس روایت کی توثیق فرمائی علامہ شاہ عبدالعزیز نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں جمہور محدثین اہلسنت کی طرف سے توثیق بیان کی ہے (تحفہ اثنا عشریہ ص 436) اسکے علاوہ اہلسنت کے دو اعظیم محدثین امام جلال الدین سیوطی اور امام ابن یوسف الصالحی نے اس موضوع پر پوری کتاب لکھ کر ردالشمس والی روایت کو صحیح قرار دیا اور ابن تیمیہ کا رد کیا ان دو کتب کے نام یہ ہیں ۔کشف البس فی حدیث رد الشمس ۔مزیل البس فی رد الشمس امام ابو زرعہ اور امام احمد بن صالح نے اس روایت کو صحیح قرار دیا بقول امام قاضی عیاض اسکے علاوہ اور کثیر محققین نے اس روایت کو حسن و صحیح قرار دیا اب بھی کوئی متعصب جو ابن تیمیہ ناصبی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس ضیعف یا موضوع قرار دیتا ہے تو وہ اس روایت پر متکلمین کی توثیق کے مقابلے متکلمین ہی سے اس روایت پر جرح مفسر پیش کرے کیونکہ متاخرین میں ابن تیمیہ اینڈ کمپنی نے اس میں نقص نکالے جبکہ اس سے پہلے متکلمین اور بعد والے متاخرین نے اس روایت کی توثیق کی ہے اب آتے ہیں معجم الکیر والی سند پر غیر مقلدین کے اعتراضات کی طرف وہابیہ نجدیہ کی طرف سے اس روایت پر دو راوی جو بشمول جمہور محدثین اور وہابیہ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں لیکن کیونکہ بغض اہل بیت اور نبی کے مجعزہ کو ماننے سے انکے پیٹ کے کیڑے ایکٹوو ہو جاتے ہیں تو ان راویوں کو جھوٹا اور معاذاللہ کذاب تک ثابت کرنے کی جھوٹی کوشیش کرنے لگ گئے امام طبرانی نے اپنی معجم الکبیر میں اپنی سند سے اسکو بیان کیا جو کہ یہ ہے حدثنا جعفر ن احمد بن سنان الواسطی ثنا علی بن المنذر ثنا ممد بن فضیل بن مرزوق عن ابراھیم بن الحسن عن فاطمہ بنت علی عن اسماء بنت عمیس بلخ۔۔۔۔۔ اس سند میں ایک راوی فضیل بن مرزوق ہے جو کہ تشیع تھا لیکن ثقہ ، ثبت اور صالح تھا جس کی توثیق ان مندرجہ زیل محدثین نے کی ہے ۱۔ متشدد امام ابن حبان نے اسکو ثقات میں زکر کیا اور کہا کہ غلطی بھی کر جاتا اور عطیہ سے موضوع روایت مروی ہیں ۲۔امام ذھبیؒ نے اسکو الکاشف میں ثقہ لکھا ہے ۳۔امام ذھبیؒ نے میزان الااعتدال میں فضیل بن مرزوق پر جمہور کی توثیق نقل کر کے آخر میں ابن حبانؒ کی جو ہلکی پھلکی جرح ہے اسکا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے جو کہا کہ عطیہ سے موضوع روایت مروی ہے اس سے تو امام ذھبی کہتے ہیں قلت (میں کہتا ہوں )ٌ عطیہ تو خود ضعیف ہے اس سے یعنی عطیہ کی روایات کی وجہ سے فضیل بن مرزوق پر کوئی اعتراض نہیں آتا ۴۔امام عجلیؒ نے فضیل بن مرزوق کوالثقات میں درج کیا اور کہ یہ ثقہ جائز الحدیث اور سچا تھا اور تشیع تھا ۔ ۵۔امام ابن معین الحنفیؒ نے بھی فضیل بن مرزوق کی توثیق کرتے ہوئے اسکو ثقہ گردانہ ہے ۔ یاد رہے کہ وہابیہ ابن معین سے اسکو ضعیف ثابت کرتے ہیں جبکہ امام ابن معین سے اسکی توثیق بھی ثابت ہے لہذا جرح ساقط ہوئی ۶۔امام ابن شاھینؒ نے فضیل بن مرزوق کو تاریخ الثقات میں زکر کرتے ہوئے ثقہ کہا ہے ۷۔امام ابن حجر عسقلانی نے تو جمہور محدثین سے اسکو ثقہ ثابت کرتے ہئے مندرجہ زیل محدثین سے توثیق لکھی جن کے نام یہ ہیں امام شافعی ، امام ابن ابی حاتم امام ابن عینہ امام امام احمد بن حبنل امام ابن عدی امام ابن شاھین امام ابن حبان وغیرہ ہیں اور اس پر جرح کی ہے امام نسائی نے اور وہ متشدد ہیں اب آتے ہیں اس میں تشیع ہونے والے مسلے پر اصول جرح و تعدیل کے اہل علم لوگوں کو معلوم ہے کہ متقدمین میں تشیع سے مراد وہ لوگ ہوتے تھے جہ اہل بیت کا زکر زیادہ کرتے اور حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دیتے اور ہر جنگ کے معاملے میں حضرت علی کو حق مانتے تھے اور بس تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا کہ متقدمین میں تشیع سے مراد ایسے لوگ جو محض شیخین کے ساتھ حضرت علی کو عثمان بن عفان پر ٖفضیلت دیتے اور بعض حضرت علی ؓ کو نبی پاک کے بعد سب پر فضیلت دیتے وہ بہت نیک ، صالح اور متقی پرہیزگزار تھے اور ایسا عقیدہ تو تابیعن اور تبع تابعین میں بہت سے لوگوں کا تھا تو فقط اسکی وجہ سے انکی روایت کو ترک نہیں کیا جا سکتا البتہ جب تک وہ اپنے عقائد کا داعی نہ ہو اور متکلمین سے تشیع سے مراد رافضی ہے جو کہ آج کے شعیہ ہیں انکی روایت کسی بھی حال میں منظور نہیں تو فضیل بن مرزوق خیر القرون کا راوی ہے اور اس کو تشیع متقدمین نے کہا ہے جیسا کہ ابن معین ، امام نسائی وغیر نے اور تبھی اسکو سچا جائز الحدیث اور ثقہ حجت قرار دیا وہابیہ کا دوسرا اعتراض کہ شیعہ کی روایت قبول نہیں ہوگی یہ والی کیونکہ اس میٰں حضرت علی کی شان بڑھ رہی ہے اور تشیع علی کی شان میں روایتیں گھڑہتے تھے الجواب : ان علمی یتیموں کو یہ بھی معلوم نے کہ ایک راوی جب تمام محدثین کے اتفاق سے ثقہ ہے تو تب اسکی روایت کیوں نہ قبول کی جائے گی ؟؟ جبکہ روایت گھڑہنے والا راوی کذاب ہوتا ہے اور اس روایت میں حضرت علی کی شان معاذاللہ نہ خلفائے راشدین سے افضل ثابت ہو رہی ہے نہ ہی نبی پاک سے ، بلکہ اس میں تو حضرت محمدؐ کا معجزہ ثابت ہو رہا ہے جو کہ انکی شان کو بڑھا رہا ہے اور نبوت کی نشانی ثابت کر رکا ہے تبھی امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن تیمہ و جوزی کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ اسکی اسناد حسن ہیں اور ابن تیمیہ نے غلطی کی خطائی کھائی اور ایسے ابن جوزی نے اسکو موضوع کہہ کر دوسرا راوی جس کو تشیع ثابت کر کے سادہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ رافضی کی روایت قبول نہیں جبکہ اوپر امام ذھبی اور امام ابن حجر سے متقکلمین اور متقدمین سے تشیع کی تشریح ثابت کر دی اور اگر اس پیمانے کو رکھ لیا جائے کہ ہر تشیع کی روایت قبول نہیں ہوگی تو پھر بخاری میں ۴۵ سے زیادہ راوی تشیع بیٹھے ہیں اور امام حاکم تشیع تھے اور امام عبدالرزاق امام بخاری کے دادا استاد بھی تشیع تھے لیکن اتنے برے کبیر محدث تھے وہابیہ کو چاہیے کہ انکی ساری کتب کو رد کر دیں خیر دوسرا راوی جس کا نام علی بن المنذر ہے اسکی توثیق ۔امام ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ۲۔امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکی توثیق کی اور مندرجہ زیل محدثین سے اسکی توثیق نقل کی ہے ا امام نسائی نے کہا ثقہ حجت ہے تشیع ہے امام دارقطنی نے کہا اس میں کوئی حرج نے ہے امام ابن ماجہ نے کہا کہ اکثر کے نزدیک حجت ہے امام ابن ابی حاتم نے کہا کہ ثقہ یعنی حجت ہے اس راوی پر تو کسی ایک امام نے بھی جرح نہیں کی بلکہ بالاتفاق یہ ثقہ حجت راوی ہے تو پھر اس وہابیہ نجدیہ کا اسکو تشیع سے حدیث گھڑنے والا راوی بنانا انکی جہالت اور بغض نبی ہی ہو سکتاہے (نوٹ ان تمام حوالاجات کے اسکین نیچے موجود ہیں ) دعا گو رانا اسد فرحان الطحاوی خادم حدیث ۱۴ جون ۲۰۱۸
    1 point
  31. الجراز الدیانی علیٰ المرتد القادیانی.pdf
    1 point
  32. یہ تحریر سعیدی صاحب کی ہے
    1 point
  33. حضرت کتب و رسائل کے لیے علیحدہ سیکشن پہلے سے ہی موجود ہے۔لنک ملاحظہ فرمائیں http://www.islamimehfil.com/forum/131-kutub-o-rasail/
    1 point
  34. کہاں بھاگ گیا ہے سلفی ؟؟ تمہارے محدث فورم کےتمام دلائل کا رد ہوا اس لیے تمہارے لیے کاپی پیسٹ کے لیے کچھ نہیں بچا اس لیے بھاگ گیا ہے نا؟؟؟
    1 point
  35. امام ابنِ حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی کو چھوڑ کر آج کے محدث ومفتی و فقہا کہاں جائیں گے۔ اگر انہوں نے میلاد شریف پر دلائل قائم کیے ہیں، تو یہ ان کے دلائل اس بات کر سند ہیں کہ میلاد شریف کا بابرکت عمل اس وقت بھی رائج العمل تھا، اور الحمدللہ آج اہلسنت سلف صالحین کے منہج پر عمل پیرا ہے۔ ثم الحمدللہ۔
    1 point
  36. مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔ ​(1) فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹ پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔(پ8،الاعراف:78۔79 (2) فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳ توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔ (3) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵ ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جاویں ۔(پ25،الزخرف:45 گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟ بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو مردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ ضروری ہدایت: زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔ دوسری ہدایت: اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔ صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں ۔ (1) وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔(پ3،اٰل عمرٰن:81 اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں آخرمیں عیسی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔ (2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64 ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔ (3) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107 حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔ (4) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28 اس''لِلنَّاسِ''میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ مدد تا قیامت جاری ہے ۔ (5) وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89 معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سےدعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔ درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے، حافظ ہے ، قاضی ہے اور مردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے'' ہے'' او ر مردوں کے لئے ''تھا'' استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جاوے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔ عقیدہ (۲): مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔ (''منح الروض الأزہر''، ص۱۰۰۔۱۰۱ عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ''ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔'' ائمہ کرام فرماتے ہیں: ''إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ .'' ( ''فیض القدیر'' شرح ''الجامع الصغیر''، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔'' حدیث میں فرمایا: ((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ.))( ''شرح الصدور''، باب فضل الموت، ص۱۳ ''جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔'' شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں( ''فتاوی رضویہ ''، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ئ ''فتاوی عزیزیہ '' روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔'' (یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔ کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ، یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پھلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں۔ عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔ عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔ عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔) عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں۔ عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں، اور اُن کے مُہیببال سر سے پاؤں تک، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت) خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔''( ''تاریخ بغداد''، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-99 صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ .(''صحیح مسلم''،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵. و''سنن ابن ماجہ''،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰. ترجمہ:اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ .( ''سنن الترمذي''،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹. ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت) اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر مردے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶ یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔(2) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم) قبروالوں سے سوال وجواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳ تبصرہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔ ایک قبر سے دوسری قبر میں شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵) تبصرہ غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی و جہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء(مشکوۃ ،ص۱۲۱) (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی ۔) اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اوران کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیارواقتدارکا کیا عالم ہوگا۔ غورفرمائیے کہ وہابیوں کے پیشوامولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں یہ مضمون لکھ کر کہ ''حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے۔ '' (نعوذباللہ)کتنا بڑا جرم اورظلم عظیم کیا ہے ۔ اللہ اکبر!ان بے ادبوں اورگستاخوں نے اپنے نوک قلم سے محبین رسول کے قلوب کو کس طرح مجروح وزخمی کیا ہے ، اس کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ فَاِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام قبر کے اندرسے سلام حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی) اسی طرح شیخ محمود کردی شیخانی نزیل مدینہ منورہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور پر حاضر ہوکرسلام عرض کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر منور کے اندر سے بآواز بلند ان کے سلام کا جواب دیا اورارشاد فرمایاکہ اے شیخ محمود! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر ''حمزہ''رکھنا۔چنانچہ جب خداوند کریم نے ان کو فرزند عطافرمایا تو انہوں نے اس کا نام ''حمزہ ''رکھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ کتاب الباقیات الصالحات) تبصرہ اس روایت سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند کرامتیں معلوم ہوئیں: (1) یہ کہ آپ نے قبر کے اندرسے شیخ محمود کے سلام کوسن لیااور دیکھ بھی لیا کہ سلام کرنے والے شیخ محمود ہیں ۔ پھر آپ نے سلام کا جواب شیخ محمود کو سنا بھی دیا حالانکہ دوسرے قبر والے سلام کرنے والوں کے سلام کو سن تو لیتے ہیں اورپہچان بھی لیتے ہیں مگر سلام کا جواب سلام کرنے والوں کو سنا نہیں سکتے ۔ (۲)سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی قبر شریف کے اندر رہتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ ابھی شیخ محمود کے کوئی بیٹا نہیں ہے مگر آئندہ ان کو خداوند کریم فرزند عطا فرمائے گا۔ جبھی تو آپ نے حکم دیا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر حمزہ رکھنا۔ (۳)آپ نے جواب سلام اوربیٹے کا نام رکھنے کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس قدر بلند آواز سے فرمایا کہ شیخ محمود اور دوسرے حاضرین نے سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔ مذکورہ بالا کرامتوں سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوران کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں تک جان او رپہچان لیتے ہیں کہ آدمی کی پشت میں جو نطفہ ہے اس سے پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ یہی توو جہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر رکھنا اگر ان کو بالیقین یہ معلوم نہ ہوتا کہ لڑکا ہی پیدا ہوگا تو آپ کس طرح لڑکے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا حکم دیتے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ قبر میں سے خون نکلا جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے ۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد) تبصرہ وفات کے بعد تازہ خون کابہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں کفن سلامت ،بدن تروتازہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری) اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔) (ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲) پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ ) (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی) قبر میں تلاوت حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔ جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ) تبصرہ یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ قبرستان میں گزرے تو میں نے ایک قبر میں دھماکہ سنا گھبرا کر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں نے ایک قبر میں دھماکہ کی آواز سنی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بھی اس دھماکہ کی آواز سن لی ؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں !ارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے ایک قبر والے کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے یہ اسی عذاب کی آواز کا دھماکہ تھا جو تو نے سنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس قبر والے کو کس گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ شخص چغل خوری کیا کرتا تھا اوراپنے بدن اورکپڑوں کو پیشاب سے نہیں بچاتا تھا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۴بحوالہ بیہقی) موت کے بعد وصیت حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواب میں یہ فرمایا کہ اے شخص!تم امیر لشکر حضرت خالد بن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سے اتار لیا اور اپنے گھوڑاباندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کر کے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دینا کہ جو مجھ پر قرض ہے وہ اس کو ادا کردیں اورمیرا فلاں غلام آزاد ہے ۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا خواب حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اورواقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اورجب امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا گیا تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے انکا قرض ادا فرمادیااور انکے غلام کو آزاد قراردے دیا۔ مشہورصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایساکوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔(تفسیر صاوی ، ج۲،ص۱۰۸) نیزہ پر سراقدس کی تلاوت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹) اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲) (روضۃ الشہداء ،ص230) تبصرہ ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔ موت کے بعد گفتگو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔ جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :''اے رونے والیو!خاموش رہو۔'' یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: ''حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔''اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: ''سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔'' اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:''سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔'' اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :''سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔''اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔ (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)
    1 point
  37. بھگوان ، دیوتا اور غیر مقلد اھلِ حدیث فرقہ ویسے تو ہندو 33 کروڑ دیوتاؤں (خداؤں) کے قائل ہیں لیکن ان کے تین بڑے دیوتا بڑے مشہور ہیں جن کا نام ’’برہما‘ وشنو اور شیو ہے۔ آپ نے صرف ہندؤں اور مشرکوں کے مذہب میں ہی دیوتاؤں کا تصور پڑھا اور سنا ہوگا لیکن یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اہل حدیث فرقہ بھی ہندؤں کی طرح دیوتاؤں اور بھگوانوں کا قائل ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ شرک کا دشمن اور توحید کا علمبردار قرار دیتا ہے لیکن ان کی تصویر کے دوسرے رخ‘ توحید اور اسلام کی بنیادوں کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور اس بات کو واضح کردیا ہے کہ اہل حدیث فرقہ کی جڑیں بالاخر اہل شرک و ہنود کے دھرم سے جاملتی ہیں۔ قارئین آنے والے حوالہ جات سے خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اہلحدیث فرقہ کا پہلا دیوتا شریف گھڑیالوی کو اہل حدیث فرقہ دیوتا کا مقام و مرتبہ دیتا ہے‘ شریف گھڑیالوی ایک عرصہ تک صوبہ پنجاب کی جماعت اہل حدیث کا امیر رہا اور اسی عہدہ پر اس کی موت ہوئی۔ اس کو دیوتا قرار دیتے ہوئے وہابیوں کے زبردست عالم و مورخ اسحاق بھٹی نے لکھا سکھوں اور ہندؤں نے اس مرد موہن (شریف گھڑیالوی) کو دیوتا قرار دیا اور بالکل صحیح قرار دیا (کاروان سلف ص 55‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد) قارئین کرام! دیکھا آپ نے‘ کتنی بے باکی کے ساتھ اپنے وہابی عالم کو دیوتا قرار دیا جارہا ہے۔ اہلحدیث فرقہ کا دوسرا دیوتا قاضی محمد سلیمان منصور پوری‘ سکھ ریاست پٹیالہ کا سیشن جج اور اہل حدیث فرقہ کا زبردست سیرت نگار تھا‘ اس کے مرنے کے بعد اہل حدیث فرقے نے اس کے حالات زندگی قلمبند کئے‘ اہل حدیث فرقہ کا ایک دیوتا سے دل نہ بھرا تو شریف گھڑیالوی کی طرح قاضی سلیمان کو بھی دیوتا قرار دے دیا‘ چنانچہ وہابیوں کے مایہ ناز مورخ اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب تذکرہ قاضی محمد سلیمان میں لکھا غازی (محمود وہابی) صاحب لکھتے ہیں: قاضی محمد سلیمان منصور پوری سیشن جج پٹیالہ جج اجسام کے دیوتاؤں میں سے ایک زندہ دیوتا تھا۔ (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 208‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) انا و بغض نبی نے ہر بند سے آزاد کیا لا کے کعبہ سے صنم خانہ میں آباد کیا اہلحدیث فرقہ کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور ہندؤں کے بے ہودہ دیوتا ’’پرماتما‘‘ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہندو اپنے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا کو ’’پرماتما‘‘ یا ’’ایشور‘‘ کہتے ہیں۔ ہندؤں کے نزدیک ان کے اس خدا کی عجیب و غریب صفات ہیں‘ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ دن اور رات‘ ایشور (پرماتما) کی دو بغلیں ہیں‘ سورج اور چاند اس کی دو آنکھیں ہیں۔ سورج کی دھوپ اور بجلی کی چمک یہ دونوں ایشور (پرماتما) کے ہونٹ اور سورج اور چاند کے درمیان جو خلا ہے‘ وہ اس کا منہ ہے۔ نیز ہندؤں کے نزدیک ان کا یہ خدا‘ چوری کرتا بھی ہے اور کرواتا بھی ہے اور جوئے (قمار بازی) سے تو اتنا خوش ہوجاتا ہے کہ یہ خوشی اس کو بالکل بدمست کردیتی ہے۔ پرماتما کی ان تمام صفات کو وہابی مولوی عبدالمجید سوہدری نے اپنی کتاب سیرت ثنائی میں وہابی مناظر ثناء اﷲ امرتسری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ (ملخصا سیرت ثنائی صفحہ 231,230 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور مصنف عبدالمجید وہابی) قارئین کرام نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ ہندؤں کا پرماتما اور ایشور نامی خدا کس قدر کمینی صفات کا حامل اور کس قدر گندی حرکتوں کا مرتکب ہے‘ لیکن آپ یہ سن کر سکتہ میں آجائیں گے کہ اہل حدیث کے نزدیک پرماتما اور اﷲ تعالیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ ان کے نزدیک ہندو اﷲ کو پرماتما کے نام سے ہی مان رہے ہیں‘ چنانچہ غیر مقلدین کے مولوی قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ‘‘انہیں (یعنی ہندؤں کو) یہی سمجھانا ہے کہ تم اپنے تئیں ’’اﷲ واحد‘‘ کو ’’پرماتما‘‘ کے نام سے مانتے ہو’’ (تزکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 290‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) ہونکو نام جو ایماں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے اہل حدیث فرقہ کے نزدیک ہندؤں کے بھگوان‘ نبی اور ہادی ہیں ہندو لاکھوں کروڑوں بتوں کو بھگوان سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے ان کو کافر اور مشرک قرار دیا جاتا ہے۔ اہل حدیث فرقہ کو ان بھگوانوں سے کس قدر محبت ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگایئے کہ ہندؤں نے تو ان بھگوانوں کو خدا مان لیا۔ اہل حدیث فرقہ نے ان بھگوانوں کو ہادی اور نبی مان لیا۔ نعوذ باﷲ من ذالک‘ چنانچہ اپنے اس عقیدہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اہلِ حدیث فرقہ کے مولوی اسحاق بھٹی نے ‘اپنے فرقہ کے سیرت نگار قاضی محمد سلیمان کے حوالہ سے اس طرح نقل کیا جن بھگوانوں کی ہستی کو تاریخ ثابت کردے انہیں ہادی (یا نبی) مان لو (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 291 مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) وضع میں تم ہو نصاری تو عقیدہ میں ہنود یہ وہابی ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود نیز غیر مقلدین کے نزدیک ہندؤں کے دیوتا اور بھگوان مثلا رام چندر‘ لچھمن‘ کرشن‘ بدھا وغیرہ کی نبوت کا انکار درست نہیں۔ نعوذ باﷲ تعالیٰ تفصیل کے لئے دیکھئے اہل حدیث فرقہ کی مشہور و معروف کتاب ہدیۃ المہدی من الفقہ المحمدی ص 85 مصنف وحید الزماں وہابی اہل حدیث فرقہ کے نزدیک وہابی مولوی اﷲ سے لڑ کر اپنی بات منوالیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے پاس سب سے زیادہ طاقت اور قوت ہے‘ غیر اﷲ میں سے کوئی بھی اﷲ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ اپنی طاقت دکھا سکتا ہے‘ نہ اس زبردست قوت سے لڑ سکتا ہے اور نہ اس سے زور زبردستی سے اپنی بات منوا سکتا ہے‘ لیکن اہلحدیث فرقہ کا ایک مولوی ایسا بھی ہے جس کے متعلق اہلحدیث مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے لڑ بھی لیتا تھا اور اپنی بات بھی منوالیتا تھا‘ اس مولوی کو یہ لوگ مجاہد اسلام صوفی محمد عبداﷲ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ چنانچہ وہابیوں کے مورخ اسحاق بھٹی نے صوفی محمد عبداﷲ کے متعلق اپنے فرقہ کا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا مولانا احمد الدین گکھڑوی نے فرمایا ’’صوفی عبداﷲ تو خدا سے لڑ کر بات منوالیتا ہے (صوفی محمد عبداﷲ ص 392‘ مطبوعہ شاکرین شیش محل لاہور) عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا اہل حدیث فرقہ کے نزدیک اﷲ‘ انسانی شکل میں دنیا میں آکر خدا نہ رہے گا ہندؤں کے نزدیک ان کے دیوتا اور بھگوان انسانی شکل میں دنیا کے اندر آسکتے ہیں اور دنیا میں اپنی کارستانیاں دکھا سکتے ہیں۔ وہابی بھی بالکل یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انسانی شکل میں دنیا میں آسکتا ہے۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ ہندؤں کے نزدیک ان کا خدا‘ اگر دنیا میں آجائے تو وہ پھر بھی ان کے نزدیک خدا ہی رہتا ہے‘ لیکن وہابیوں کے نزدیک جب اﷲ‘ انسانی شکل میں دنیا میں آئے گا تو وہ خدا ہی نہیں رہے گا‘ نعوذ باﷲ۔ چنانچہ اہل حدیث فرقہ کے زبردست مولوی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا خدا اگر چاہے تو انسانی شکل و صورت میں آسکتا ہے مگر جونہی وہ انسانی پیکر میں ظاہر ہوگا وہ خدا نہیں رہے گا اور خدا کے مرتبہ اور منصب سے معزول ہوجائے گا (خطبات ذاکر نائیک 1‘ ص 76‘ مطبوعہ مونال پبلی کیشنز‘ راولپنڈی) اف یہ جوش تعصب آخر بھیڑ میں کمبخت کے ہاتھ سے ایمان گیا اہل حدیث فرقہ کی کرشن دیوتا کی جنم اشٹمی میں شرکت ہندؤں کے ایک دیوتا کا نام کرشن ہے‘ ہندو اپنے اس خدا کی پیدائش کا جنم دن مناتے ہیں۔ کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ان کی اس شرکیہ اورکفریہ رسم میں عقیدت اور احترام کے شرکت کرے‘ لیکن ایک دفعہ ریاست پٹیالہ میں جب ہندؤں نے اپنے مذکورہ دیوتا کی جنم اشٹمی (سالگرہ) منائی تو اہلحدیث فرقہ کے عالم و پیشوا سلیمان منصور پوری کو بھی اس میں مدعو کیا‘ سلیمان صاحب نے اس میں بڑی دلچسپی سے شرکت کی اور اس میں ایک زوردار تقریر بھی کی جس میں ہندؤں کو ان کے مذہب کے متعلق وہ معلومات دیں کہ خود ہندو حیران ہوگئے چنانچہ اسحاق وہابی نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ایک مرتبہ ریاست پٹیالہ میں کرشن جی مہاراج کی جنم اشٹمی پر ہندؤں نے جلسہ کیا۔ قاضی صاحب کو بھی شرکت و تقریر کی دعوت دی۔ قاضی صاحب نے اس جلسے میں جو تقریر کی‘ ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے‘ وہ حیران تھے کہ اس موضوع سے متعلق اتنی معلومات انہیں کہاں سے حاصل ہوئیں‘ وہ تقریر اس دور کے ہندؤں کے کئی رسائل و جرائد میں شائع ہوئی۔ بہت سے تعلیم یافتہ ہندو پوچھتے تھے کہ قاضی صاحب نے یہ نادر معلومات کہاں سے حاصل کیں (تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ص 120‘ مطبوعہ مکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور) قارئین غور فرمائیں کہ یہ وہی وہابی ہیں جو نبی کریمﷺ کی پیدائش کے دن خوشی‘ جلسے اور جلوس پر بدعت اورشرک کے فتوے لگادیتے ہیں‘ لیکن جب اپنے ہندو‘ دوستوںکی باری آئی تو یہ کفر اور شرک کے سارے فتوے سب ایک طرف رہ گئے اور کرشن کی جنم اشٹمی سب جائز ہوگئی۔ اہل حدیث فرقہ کی ہندؤں کے شرکیہ تہوار دیوالی میں شرکت ہندؤں کے ایک مذہبی تہوار کا نام دیوالی ہے جس میں وہ زبردست شرکیہ رسومات سرانجام دیتے ہیں‘ کوئی مسلمان اس میں شرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اہلحدیث فرقہ کے امام و پیشوا ثناء اﷲ امرتسری نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ اس دن کو مبارک دن قرار دیا نیز ہندؤں کو جوا کھیلنے کی زبردست ترغیب بھی دلائی‘ چنانچہ عبدالمجید وہابی نے اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھا ایک روز دیوالی کے روز ہندؤں نے جلسہ کیا۔ اسے دیکھنے کے لئے آپ بھی تشریف لے گئے۔ اہل ہندو نے آپ کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا اور اسٹیج پر آپ کو عزت سے بٹھایا۔ اس جلسے میں بہت سے ہندؤں نے دیوالی کی فضیلت پر تقریریں کیں‘ جب آپ سے درخواست کی گئی کہ اس تیوہار پر کچھ ارشاد فرمائیں تو آپ نے کہا چونکہ اس مبارک دن میں جوا کھیلنے کو بہت سراہا گیا ہے‘ اس لئے اہل ہنود کو چاہئے کہ وہ پھلوں سے جوا کھیلا کریں کیونکہ ایسے پھل آپ کے ایشور اور پرماتما کو بہت بھاتے ہیں‘‘ … الخ (سیرت ثنائی صفحہ 230 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور) لاحول ولاقوۃ الا باﷲ … قارئین کرام! دیکھ لیا آپ نے! کس قدر پرجوش انداز میں ہندو مذہب سے لگائو کا اظہار کیا جارہا ہے‘ وہابی کہتے ہیں کہ ہندو اس موقع پر شرمندہ ہورہے تھے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ بات درست نہیں‘ کیونکہ جب ثناء اﷲ نے ہندو مذہب کے موافق باتیں کیں تو ہندو اس موقع پر دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ ارے ثناء اﷲ صاحب تو اپنے ہی آدمی نکلے وہابی ایسے ہی ان کو اپنا عالم سمجھتے ہیں۔ ہندؤں سے وہابیوں کی محبت اورپرتپاک انداز میں ان کا استقبال مشرکوں‘ دین کے دشمنوں سے دوستی اور محبت نہیں کرنی چاہئے اور نہ ان کی تعظیم کرنی چاہئے‘ جو لوگ ان سے محبت کرتے اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میں ان پر عتاب وناراضگی کا اظہار فرمایا ہے لیکن غیر مقلدین کو دین کے دشمنوں اور اہل شرک سے بڑی محبت ہے‘ چنانچہ عبدالمجید وہابی نے ثناء اﷲ وہابی کے متعلق لکھا کسی مذہبی تیوہار کے دن چند ہندو ماتھے پر تلک لگائے آپ کی خدمت میں سلام کی غرض سے حاضر ہوئے اس وقت آپ کے پاس بہت سے مسلمان بیٹھے تھے۔ مولانا نے ہندؤں کو دیکھا تو تپاک اور محبت سے ملے مزاج پرسی کی (سیرت ثنائی ص 231‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور) آہ !ہندؤں کے منعقدہ جلسہ کی صدارت کیلئے اہل حدیث مولوی نے پنڈت نہرو کو تیار کیا ہندؤں نے عالمی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا‘ ہندؤں کی خواہش تھی اس مذہبی کانفرنس کی صدارت ہمارے پنڈت جواہر لعل نہرو کریں لیکن پنڈت کو اس کی صدارت کے لئے راضی کرنا بڑا مشکل کام تھا اور اس مشکل کام کو اہل حدیث فرقہ کے زبردست عالم صوفی نذیر احمد نے آسان کردیا۔ یہ وہابی صوفی صاحب بنفس نفیس ہندؤں کے ساتھ مل کر پنڈت کے گھر گئے اور اس کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہندو اس کارنامے سے اس قدر خوش ہوئے کہ صوفی صاحب کو بارہ گلاس لسی کے ایک وقت میں پلا دیئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے وہابیوں کی مایہ ناز کتاب ’’گزر گئی گزران‘‘ ص 141 تا 144‘ مصنف اسحاق بھٹی وہابی مطبوعہ ادارہ نشریات لاہور اہل حدیث فرقہ نے اپنے جلسہ میںہندو لیڈر سے تقریر کروائی ۔ 1945ء کا مشہور ہندو لیڈر‘ جس کو ہندو جے پرکاش نارائن کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ جب پنجاب آیا تو وہابیوں نے اس کو فرید کوٹ میں تقریر کی دعوت دی۔ وہابیوں نے بہت بڑا جلسہ منعقد کیا اور لوگوںکو اپنے ممدوح ’’جے پرکاش نارائن‘‘ کی تقریر سنوا کر ہندؤں سے زبردست محبت کا ثبوت پیش کیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے وہابی کی مایہ ناز کتاب (’’گزر گئی گزران‘‘ ص 392 تا 393‘ مصنف اسحاق بھٹی وہابی مطبوعہ ادارہ نشریات لاہور) ہولی کے دیئے توڑنے پر اہل حدیث فرقہ کی ناراضگی ہندو اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے مذہبی تہوار ’’ہولی‘‘ کے موقع پر دیئے (چراغ) روشن کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کچھ بچوں نے وہ دیئے (چراغ) توڑ دیئے تو ہندؤں کو برا لگا ہو یا نہ لگا ہو‘ لیکن اہلحدیث فرقہ کو یہ فعل اتنا برا لگا کہ ان کے مولوی عبدالقادر حصاری نے ان بچوںکو سخت سزا دی‘ ان کے کان پکڑوائے اور ان کے سر بھی منڈوادیئے۔ تفصیل کے لئے دیکھئےوہابیوں کی مشہور کتاب کاروان سلف ص 239‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد مصنف اسحاق بھٹی وہابی اہل حدیث فرقہ کا‘ گائے کے پیشاب کو پاک سمجھنا ہندو مذہب میں گائے کی بڑی عزت ہے اور وہ اس کو ’’ماتا‘‘ مانتے ہیں اور اس کے پیشاب کو بالکل پاک سمجھتے ہیں۔ اہل حدیث فرقہ اس معاملہ میں بھی ہندؤں سے کئی قدم آگے ہے‘ ان کے نزدیک گائے کے پیشاب کے ساتھ ساتھ تمام حرام جانوروں کا پیشاب‘ کتے اور خنزیر کا تھوک اور ان کا جٹھا‘ کتے کا پیشاب اور پاخانہ‘ تمام قسم کے خون سوائے حیض کے خون کے‘ عورت کی شرم گاہ کی رطوبت وغیرہ سب پاک ہیں۔ تفصیل کے لئے پڑھیئے وہابیوں کی مستند کتاب نزل الابرار ص 50,49‘ حصہ و جلد 1‘ مصنف وحید الزماں وہابی مطبوعہ سعید المطابع بنارس ہند ناشر جمعیت اہل سنت لاہور اہل حدیث کے نزدیک گستاخ رسول کو عزت سے پکارا جائے 14۔ ایک اسلام دشمن ہندو‘ جس کا نام ’’دیانند‘‘ تھا۔ اس خبیث کافر نے قرآن اور رسول اﷲﷺ کی شان اقدس پر زبردست حملے کئے تھے اور اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام ستیارتھ پرکاش تھا۔ اسی وجہ سے ہندو اس کے نام کے دائیں‘ بائیں تعظیمی القابات لگاتے تھے مثلا سوامی‘ جی وغیرہ۔ یہ شخص رسول اﷲﷺ کا نام مبارک انتہائی بے باکی اور گستاخانہ انداز میں لیا کرتا تھا‘ لیکن اہل حدیث فرقہ اس کے باوجود اس گستاخ رسول کو ہندؤں کی طرح تعظیمی القابات سے پکارتا اور لکھتا تھا اور کہتا تھا کہ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ اہل حدیث فرقہ کی گستاخ رسول شخص کے ساتھ یہ محبت اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ اندر سے معاملہ کچھ اور ہے‘ نیز اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ گستاخ رسول واجب القتل ہے لیکن اہل حدیث فرقہ کے نزدیک اس کی تعظیم کی جائے گی‘ نیز ابوجہل کا اصل نام عمرو بن ہشام تھا اور لوگ اس کو عزت سے ابوالحکم کہتے تھے لیکن مسلمانوں نے اس کا نام ابوجہل رکھ دیا جو سخت معیوب اور قبیح تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص رسول اﷲﷺ کا گستاخ تھا اور دین کا زبردست دشمن تھا۔ لیکن اہل حدیث فرقہ کا اپنا ہی ایک مذہب ہے چنانچہ وہابیوں کے سب سے بڑے مناظر ثناء اﷲ نے کہا کہ سوامی بڑی عزت کا لفظ ہے آریہ سامجی (دیانند) ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کا نام صرف محمد لکھتے ہیں اور مفرد کے صیغہ سے بیان کرتے ہیں مثلا لکھتے ہیں ’’محمدپیدا ہوا‘‘ ’’محمد کہتا تھا‘‘ جو ایک ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہیں مگر ہم ان کے گرو (پیشوا دیانند) کو عزت ہی سے یاد کریں گے کیونکہ اسلام کا ہم کو یہی حکم ہے۔ (حق پرکاش ص 14 ‘ دیباچہ نعمانی کتب خانہ لاہور) قارئین کرام! وہ فرقہ جو دیوتاؤں کا قائل ہو‘ ہندؤں کے بے ہودہ خدا پرماتما اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کسی فرق کا قائل نہ ہو‘ ہندؤں کے بھگوانوں کو ہادی اور نبی مانتا ہو‘ اپنے مولوی کو خدا سے لڑنے والا قرار دیتا ہو‘ ہندؤں کے عقیدہ کے مطابق خدا کا انسانی شکل میں آنا درست جانتا ہو‘ خدا کے ختم ہوجانے کا قائل ہو‘ ہندؤں کے شرکیہ میلوں ٹھیلوں میں شرکت کرتا اور ان کو اپنے جلسوں میں بلوا کر تقریر کرواتا ہو‘ ہولی کے دیئے توڑنے پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہو‘ پیشاب کو پاک قرار دیتا ہو اور گستاخ رسول کو عزت سے یاد کرتا ہو‘ کیا وہ حق پر ہوسکتا ہے‘ فیصلہ آپ خود فرمالیں۔
    1 point
  38. عقیدہ وحدت الوجود از علامہ احمد سعید کاظمی رح صفحہ نمبر 1 وحدت الوجود۱.bmp صفحہ نمبر 2 وحدت الوجود2.bmp صفحہ نمبر 3 وحدت الوجود3.bmp صفحہ نمبر 4 وحدت الوجود4.bmp صفحہ نمبر 5 وحدت الوجود5.bmp
    1 point
  39. yei saray ilzamat deobnadi wahabiyo ki tarah jhotay hain kaee baar in ka jawab dia ja chuka hai...yaha islamimehfil pay inshaAllah aap aatay rahain aur deobandi wahabi hazrat ko bhee dawat dain kay unhain challenge hai kay yaha tashreef laaiy aur Alahazrat Imame Ahlesunnat ki zaat par aaik bhe jhota ilzam jo wo lagatay hain sabit karain.. Allah azzawajal Ulame Ahlesunnat is forum kay tamam Sunni bhaiyo bahno ; khusoos bil khusoos hazrat Khalil Ahmed Rana sahab aur tamam musalmano par apna fazlo karam farmaaiy aamin... Please check these links 1 Malfuzat Sharif mai Hazrat Syedi Abdul Wahab(aur ajnabia par nazar) kay waqaiay par Aaitarz ka Jawab ***** 2. 2.1 Malfuzat Sharif Mai Hai Nabi Pak AlaihisSlam shabBashi Farmatay hai, Is Aaitraz ka Jawab 2.2 Alahazrat nay Nabi ka Imam bannay ka dawa kia, Is Buhtan Ka Jawab ***** 3 Ala-Hazrat ko Fann e Shayari mai Talmeezur Rahman kahnay par Aaitraz ka Jawab ***** 4 Malfuzat Sharif mai Hazrat Junaid Baghdadi kay Waqiay par Aaitraz ka Jawab ***** 5 Hazrat-e-Aisha RaziAllahanha ki Shaan main Ala Hazrat ne koi Ghustakhi Nahi Ki ***** 6 Ala Hazrat par Ummul Momineen RaziAllahAnha ki Tauheen kay Buhtan ki Haqeeqat ***** 7 Ala Hazrat kay Ustad Mirza Qadiyan ka bhai tha is Buhtan ka Jawab ***** 8 Ala Hazrat ka Allama Aalosi aur Roohul Ma'aani kay baray mai daryaft karnay pay Aaitaraz ka Jawab ***** 9 Ala Hazrat Shia thay, Is Buhtan Ka Jawab http://www.islamimeh...hony-ka-ilzaam/ ***** 10 Ghair Insan , Haiwan say Nikah Jayaz, Is Ilzam Ka Jawab ***** 11 Barelvi Peer Na Janay Kaha Kaha Maujood Hotay hain, Is Ilzam ka Jawab ***** 12 Malfoozat mai hai kay Kalma Ka Iqrar karna Goya Khuda ka Baita Ban Jana hai , Is buhatan ka Jawab ***** 13 Malfoozat mai hai kay Baghair Ghous kay Zameen o Aasman Qayam Nahee rah Saktay, Aaitaraz ka Jawab ***** 14 Malfoozat mai Hazrat Moosa Sohag kay Zikar par Aaitaraz ka Jawab- Audio ***** 15 Malfoozat mai Hazrat Moosa souhag kay Zikar par Aaitaraz ka Jawab ***** 16 Ghazwa Ahzab, Shumali Hawa kay Waqiay par Malfoozat par Aaitaraz ka Jawab http://www.islamimeh...-banjh-ho-gayi/ ***** 17 Alahazrat ka Fatwa Hindustan Darul Islam hai , Is par Aaitaraz ka Jawab ***** 18 Alahazrat nay Bartanvi Hakoomat kay Khilaf Jahad Haram Qarar dia, Is Ilzam ka Jawab ***** 19 Ala Hazrat nay Allah Kay Leay Kizb Mumkin Likha, Is Ilzam Ka Jawab ***** 20 Alahazrat ka fatwa , Huqqa Mubah hai , aur Mukhalifeen ka jahilana Aaitaraz ***** 21 Ala Hazrat kay Farzand nay Haj ki Farziyat say Inkar Kia, Is Ilzam Ka Jawab ***** 22 Ala Hazrat ka Panjatan Pak ki shan mai Shair pay Aaitaraz ka Jawab ***** 23 Alahazrat kay Qasida Mairaj Hazoor Ghu'as Pak kay muta'llik Ashar par Aaitaraz ***** 24 Ala Hazrat kay Hazoor Ghaus Pak ki Shan mai Ash'aar par mazeed Aaitaraz ***** 25 Ala Hazrat kay Naam kay Sath RaziAllah Anho Likhnay par Aaitaraz ka Jawab ***** 26 Rooh e Alahazrat ki Faryad, Aaik Jhooti Kitab Hai ***** 27 Wahabi Imam Chahay Haram ka ho , Us kay Peachay Namaz Jayaz Nahee, Aitaraz ka Jawab ***** 28 Ahlesunnat(Barelviyo) ka Ala Hazrat per Darood Parhna, Is Ilzam Ka Jawab ***** also visit: English: Answers to Allegations Against AlaHazrat RaziAllah Anho Urdu: Ala Hazrat par keay janay walay baybunyad Ilzamat kay Tahqiqi Jawab Please read this book as well (pdf format) AalahazratPar150EtrazatKayJawabat.pdf
    1 point
×
×
  • Create New...