لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation on 30/10/2024 in all areas
-
ایمان و کفر کا بیان ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے اﷲ عزوجل کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا، مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں، نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں۔ عقیدہ (۱): اصلِ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے، اعمالِ بدن تو اصلاً جزو ایمان نہیں، رہا اقرار، اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تصدیق کے بعد اس کو اظہار کا موقع نہ ملا تو عند اﷲ مومن ہے اور اگر موقع ملا اور اُس سے مطالبہ کیا گیا اور اقرار نہ کیا تو کافر ہے اور اگر مطالبہ نہ کیا گیا تو احکام دنیا میں کافر سمجھا جائے گا، نہ اُس کے جنازے کی نماز پڑھیں گے، نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے، مگر عند اﷲ مومن ہے اگر کوئی امر خلافِ اسلام ظاہر نہ کیا ہو۔ عقیدہ (۲): مسلمان ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو، اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں، کہ بلا اِکراہِ شرعی مسلمان کلمہ کفر صادر نہیں کر سکتا، وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا اِنکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجاءش نہیں۔ مسئلہ(۱): اگر معاذ اﷲ کلمہ کفر جاری کرنے پر کوئی شخص مجبور کیا گیا، یعنی اُسے مار ڈالنے یا اُس کا عضو کاٹ ڈالنے کی صحیح دھمکی دی گئی کہ یہ دھمکانے والے کو اس بات کے کرنے پر قادر سمجھے تو ایسی حالت میں اس کو رخصت دی گئی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں وہی اطمینانِ ایمانی ہو جو پیشتر تھا ، مگر افضل جب بھی یہی ہے کہ قتل ہو جائے اور کلمہ کفر نہ کہے۔ مسئلہ (۲): عملِ جوارح داخلِ ایمان نہیں، البتہ بعض اعمال جو قطعاً مُنافی ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحَف شریف یا کعبہ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ھلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں۔ یوہیں بعض اعمال کفر کی علامت ہیں، جیسے زُنّار باندھنا، سر پر چُوٹیا رکھنا، قَشْقَہْ لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ عقیدہ (۳): جس چیز کی حِلّت، نصِّ قطعی سے ثابت ہو اُس کو حرام کہنا اور جس کی حُرمت یقینی ہو اسے حلال بتانا کفر ہے، جبکہ یہ حکم ضروریاتِ دین سے ہو، یا منکر اس حکمِ قطعی سے آگاہ ہو۔ مسئلہ (۱): اُصولِ عقائد میں تقلید جاءز نہیں بلکہ جو بات ہو یقینِ قطعی کے ساتھ ہو، خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو، اس کے حصول میں بالخصوص علمِ استدلالی کی حاجت نہیں، ہاں! بعض فروعِ عقائد میں تقلید ہوسکتی ہے ، اِسی بنا پر خود اھلِ سنّت میں دو گروہ ہیں: ''ماتُرِیدیہ'' کہ امام عَلم الہدیٰ حضرت ابو منصور ماتریدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متّبع ہوئے اور ''اَشاعرہ'' کہ حضرت امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اﷲ تعالیٰ کے تابع ہیں، یہ دونوں جماعتیں اھلِ سنّت ہی کی ہیں اور دونوں حق پر ہیں، آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے۔ اِن کا اختلاف حنفی، شافعی کا سا ہے، کہ دونوں اھلِ حق ہیں، کوئی کسی کی تضلیل و تفسیق نہیں کرسکتا۔ مسئلہ (۲): ایمان قابلِ زیادتی و نقصان نہیں، اس لیے کہ کمی بیشی اُس میں ہو تی ہے جو مقدار یعنی لمبائی، چوڑائی، موٹائی یا گنتی رکھتا ہو اور ایمان تصدیق ہے اور تصدیق، کَیف یعنی ایک حالتِ اِذعانیہ۔ بعض آیات میں ایمان کا زیادہ ہونا جو فرمایا ہے اُس سے مراد مُؤمَن بہ ومُصدََّق بہ ہے، یعنی جس پر ایمان لایا گیا اور جس کی تصدیق کی گئی کہ زمانہ نزولِ قرآن میں اس کی کوئی حد معیّن نہ تھی، بلکہ احکام نازل ہوتے رہتے اور جو حکم نازل ہوتا اس پر ایمان لازم ہوتا، نہ کہ خود نفسِ ایمان بڑھ گَھٹ جاتا ہو، البتہ ایمان قابلِ شدّت و ضُعف ہے کہ یہ کَیف کے عوارض سے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تنہا ایمان اس اُمت کے تمام افراد کے مجموع ایمانوں پر غالب ہے۔ عقیدہ (۴): ایمان و کفر میں واسطہ نہیں، یعنی آدمی یا مسلمان ہوگا یا کافر، تیسری صورت کوئی نہیں کہ نہ مسلمان ہو نہ کافر۔ مسئلہ: نفاق کہ زبان سے دعوی اسلام کرنا اور دل میں اسلام سے انکار، یہ بھی خالص کفر ہے، بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں کچھ لوگ اس صفت کے اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے کہ ان کے کفرِ باطنی پر قرآن ناطق ہوا، نیز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وسیع علم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرما دیا کہ یہ منافق ہے۔ اب اِس زمانہ میں کسی خاص شخص کی نسبت قطع کے ساتھ منافق نہیں کہا جاسکتا، کہ ھمارے سامنے جو دعوی اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے، جب تک اس سے وہ قول یا فعل جو مُنافیِ ایمان ہے نہ صادر ہو، البتہ نفاق کی ایک شاخ اِس زمانہ میں پائی جاتی ہے کہ بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے تو دعوی اسلام کے ساتھ ضروریاتِ دین کا انکار بھی ہے۔ عقیدہ (۵): شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا، یعنی اُلوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بدتر قسم ہے، اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں، ولہٰذا شرعِ مطہّر نے اھلِ کتاب کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے، کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار، کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے، مشرکہ سے نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی کے نزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا، مشرک سے نہ لیا جائے گا اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے۔ یہ جو قرآنِ عظیم میں فرمایا: کہ ـ''شرک نہ بخشا جائے گا۔'' وہ اسی معنی پر ہے، یعنی اَصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی، باقی سب گناہ اﷲ عزوجل کی مشیت پر ہیں، جسے چاہے بخش دے۔ عقیدہ (۶): مرتکبِ کبیرہ مسلمان ہے اور جنت میں جائے گا، خواہ اﷲ عزوجل اپنے محض فضل سے اس کی مغفرت فرما دے، یا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد، یا اپنے کیے کی کچھ سزا پا کر، اُس کے بعد کبھی جنت سے نہ نکلے گا۔ مسئلہ: جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے، یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور، یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی(3) کہے، وہ خود کافر ہے۔ عقیدہ (۷): مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاﷲ کفر پر ہوا، تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے۔ خاتمہ پر بِنا روزِ قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے، اس کو یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بُت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا، مگر ہم کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر ہی جانیں، اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لیے ہیں، مثلاً میل جول، شادی بیاہ، نمازِ جنازہ، کفن دفن، جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ کا حال علمِ الٰہی پر چھوڑیں، جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اُس سے کوئی قول و فعل خلافِ ایمان نہ ہو، فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں، اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ'' میاں...! جتنی دیر اسے کافر کہو گے، اُتنی دیر اﷲ اﷲ کروکہ یہ ثواب کی بات ہے۔'' اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافرکافر کا وظیفہ کرلو...؟! مقصود یہ ہے کہ اُسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو، نہ یہ کہ اپنی صُلحِ کل سے(کل مذاہب کا ایک مآل سمجھ کر مختلف مذاہب کے لوگوں سے خصومت نہ کرنا اور دوست و دشمن سے یکساں برتاؤ رکھنا) اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔ تنبیہ ضروری: حدیث میں ہے: ((سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلٰثًا وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إلاَّ وَاحِدَۃً.)) ''یہ امت تہتّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔'' صحابہ نے عرض کی: ''مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟'' ''وہ ناجیفرقہ کون ہے یا رسول اﷲ ؟'' فرمایا: ((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ.))(''سنن الترمذي''، کتاب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھذہ الأمۃ، الحدیث: ۲۶۵۰، ج۴، ص۲۹۲) ''وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں''، یعنی سنّت کے پیرو۔ دوسری روایت میں ہے، فرمایا: ((ھُمُ الْجَمَاعَۃُ.))(''السنۃ'' لابن أبي عاصم، باب فیما أخبر بہ النبي علیہ السلام أن أمتہ ستفترق علی... إلخ، الحدیث: ۶۳، ص۲۲) ''وہ جماعت ہے۔'' یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سوادِ اعظم فرمایا اور فرمایا: جو اس سے الگ ہوا، جہنم میں الگ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ''ناجی فرقہ'' کا نام ''اھلِ سنت و جماعت'' ہوا۔ اُن گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہو کر ختم ہو گئے، بعض ہندوستان میں نہیں ،ان فرقوں کے ذکر کی ہمیں کیا حاجت؟!، کہ نہ وہ ہیں، نہ اُن کا فتنہ، پھر ان کے تذکرہ سے کیا مطلب جو اِس ہندوستان میں ہیں؟! مختصراً ان کے عقائدکا ذکر کیا جاتا ہے، کہ ھمارے عوام بھائی ان کے فریب میں نہ آئیں، کہ حدیث میں اِرشاد فرمایا: ((إِ یَّاکُمْ وَإِ یَّاھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ.))(''صحیح مسلم''، مقدمۃ الکتاب للإمام مسلم، باب النھي عن الروایۃ عن الضعفائ... إلخ، الحدیث: ۷، ص۹.) ''اپنے کو اُن سے دُور رکھو اور اُنھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔'' قادیانی قادیانی: کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو ہیں، اس شخص نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں کیں، خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃاﷲ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیِّبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کیے، جن کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہِل جاتے ہیں، مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں کے سامنے اُن میں کے چندبطور نمونہ ذکر کیے جائیں، خود مدّعی نبوت بننا کافر ہونے اور ابد الآباد جہنم میں رہنے کے لیے کافی تھا، کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے، مگر اُس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سَر لیا اور یہ صدہا کفر کا مجموعہ ہے، کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے، اگرچہ باقی انبیا و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو، بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے ، چنانچہ آیہ : (کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوۡحِۣ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ )ـپ۱۹، الشعرآء ۱۰۵ـ وغیرہ اس کی شاہد ہیں اور اُس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بتایا۔ ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں مسلمانوں کو ہرگز شک نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسے کی تکفیر میں اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر۔ اب اُس کے اقوال سُنیے) : ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۵۳۳: (خدا تعالیٰ نے ''براہین احمدیہ'' میں اس عاجز کا نام امّتی بھی رکھا اور نبی بھی)۔ ''انجام آتھم'' صفحہ ۵۲ میں ہے: (اے احمد! تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو)۔ صفحہ ۵۵ میں ہے: (تجھے خوشخبری ہو اے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جو آیتیں تھیں انہیں اپنے اوپر جَما لیا۔ ''انجام'' صفحہ ۷۸ میں کہتا ہے: (وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ) ـپ۱۷، الانبیآء : ۱۰۷.ـ ''تجھ کو تمام جہان کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔'' نوٹ: قادیانی شیطان کی تقریباً۸۰ اَسّی سے زائد کتابیں ہیں ، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: '' انجامِ آتھم''، ''ضمیمہ اَنجامِ آتھم'' ، ''کشتیئ نوح'' ، ''اِزالہ اَوہام''، '' دافع البلاء ومعیار اھل الاصطفائ''، ''اربعین'' اور ''براہین اَحمدیہ'' وغیرہا ، ''روحانی خزائن '' نامی کتاب میں ان کتابوں کو ۲۳ تیئس حصوں میں جمع کیا گیا ہے ۔ نیز اس شیطان کے کئی اشتہارات ہیں جو تین۳ حصوں میں جمع کئے گئے ہیں، اور مغلظات بھی ہیں ، جنہیں۱۰د س حصوں میں ''ملفوظات'' کے نام سے جمع کیا گیا ہے نیز یہ آیہ کریمہ (وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعْدِی اسْمُہٗۤ اَحْمَدُ ؕ)ـپ۲۸، الصف : ۶ـ سے اپنی ذات مراد لیتا ہے۔ ''دافع البلاء'' صفحہ ۶ میں ہے: مجھ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ أَوْلاَدِيْ أَنْتَ مِنِّي وَأنَا مِنْکَ). یعنی اے غلام احمد! تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں)۔) ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۶۸۸ میں ہے: (حضرت رسُولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اِلہام و وحی غلط نکلی تھیں)۔ صفحہ ۸ میں ہے: (حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اُس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں، جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں اُمید باندھی تھی، غایت ما فی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں زیادہ غلط نکلیں)۔ ''اِزالہ اَوہام'' صفحہ ۷۵۰ میں ہے: (سورہ بقر میں جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور اپنے قاتل کا پتا دے دیا تھا، یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علمِ مِسمریزم تھا)۔ اُسی کے صفحہ ۷۵۳ میں لکھتا ہے: حضرت اِبراہیم علیہ السلام کا چار پرندے کے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے، وہ بھی اُن کا مِسمریزم کا عمل تھا)۔) صفحہ ۶۲۹ میں ہے: (ایک باشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اُس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے، اور بادشاہ کو شکست ہوئی، بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا)۔(1) اُسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں لکھتا ہے: قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآنِ عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے)۔) اور اپنی ''براہینِ احمدیہ'' کی نسبت ''اِزالہ'' صفحہ ۵۳۳ میں لکھتا ہے: براہینِ احمدیہ خدا کا کلام ہے)۔ ) ''اَربعین'' نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا: (کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ)۔ اِن اُولو العزم مرسَلین کا ہادی ہونا درکنار، پورے راہ یافتہ بھی نہ مانا۔ اب خاص حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں جو گستاخیاں کیں، اُن میں سے چند یہ ہیں۔ ''معیار'' صفحہ ۱۳: اے عیسائی مِشنریو! اب ربّنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے، جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے)۔) صفحہ ۱۳ و ۱۴ میں ہے: (خدا نے اِس امت میں سے مسیح موعود بھیجا، جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا، تایہ اِشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے، جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے)۔) ''کشتی'' صفحہ ۱۳ میں ہے: مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیلِ ابنِ مریم، ابنِ مریم سے بڑھ کر)۔ ) نیز صفحہ ۱۶ میں ہے: خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیحِ محمدی، مسیحِ مُوسوِی سے افضل ہے)۔) ''دافع البلاء'' صفحہ ۲۰ : (اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو! میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اُس سے بھی بہتر ہے، جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام ؎ ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں)۔ ''دافع البلاء'' ص ۱۵: (خدا تو، بہ پابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ایسے شخص کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں نہیں لاسکتا، جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے)۔(1) ''انجام آتھم'' ص ۴۱ میں لکھتا ہے: مریم کا بیٹا کُشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا)۔ ) ''کشتی'' ص ۵۶ میں ہے: (مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کر سکتا ہوں، وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ ہر گز دِکھلا نہ سکتا)۔) ''اعجاز احمدی'' ص ۱۳: (یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں، بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ'' ضرور عیسیٰ نبی ہے، کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں)۔) اس کلام میں یہودیوں کے اعتراض، صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بُطلان پر دلیلیں قائم ہیں۔ ص ۱۴ میں ہے: عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں، مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں)۔ اُسی کتاب کے ص ۲۴ پر لکھا : کبھی آپ کو شیطانی اِلہام بھی ہوتے تھے)۔) مسلمانو! تمھیں معلوم ہے کہ شیطانی اِلہام کس کو ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے: (تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۲۲﴾ ) ـپ۱۹، الشعرآء: ۲۲۲ـ ''بڑے بہتان والے سخت گنہگار پر شیطان اُترتے ہیں۔'' اُسی صفحہ میں لکھا: ( اُن کی اکثر پیش گوئیاں غلطی سے پُر ہیں)۔ صفحہ ۱۳ میں ہے: (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی پیش گوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں، جو ہم کسی طرح اُن کو دفع نہیں کرسکتے)۔ صفحہ ۱۴: (ہائے! کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں)۔ اس سے ان کی نبوت کا انکار ہے، چنانچہ اپنی کتاب ''کشتی نوح'' ص ۵ میں لکھتا ہے: ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں)۔) اور ''دافع الوساوس'' ص ۳ و ''ضمیمہ انجام آتھم'' ص ۲۷ پر اِس کو سب رُسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی اور ذلت کہتا ہے۔ ''دافع البلاء'' ٹائٹل پیج صفحہ ۳ پر لکھتا ہے: (ہم مسیح کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں سے البتہ اچھا تھا واﷲ تعالیٰ اعلم، مگر وہ حقیقی منجی نہ تھا، حقیقی منجی وہ ہے جو حجاز میں پیدا ہوا تھا اور اب بھی آیا، مگر بُروز کے طور پر خاکسار غلام احمد از قادیان)۔ آگے چل کر راست بازی کا بھی فیصلہ کر دیا، کہتا ہے: (یہ ھمارا بیان نیک ظنّی کے طور پر ہے، ورنہ ممکن ہے کہ عیسیٰ کے وقت میں بعض راست باز اپنی راست بازی میں عیسیٰ سے بھی اعلیٰ ہوں)۔ اسی کے صفحہ ۴ میں لکھا: (مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یحییٰ کو اُس پر ایک فضیلت ہے، کیونکہ وہ (یحییٰ) شراب نہ پیتا تھا اور کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عِطر مَلا تھا، یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اُس کے بدن کو چُھوا تھا، یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی، اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ''حصور'' رکھا، مگر مسیح کا نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصّے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے)۔ ''ضمیمہ اَنجام آتھم'' ص ۷ میں لکھا: (آپ کا کنجریوں سے مَیلان اور صحبت بھی شاید اِسی وجہ سے ہو کہ جَدّی مناسبت درمیان ہے، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اُس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر مَلے اور اپنے بالوں کو اُس کے پیروں پر مَلے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے)۔ نیز اس رسالہ میں اُس مقدّس و برگزیدہ رسول پر اور نہایت سخت سخت حملے کیے، مثلاً شریر، مکار، بدعقل، فحش گو، بدزبان، جھوٹا، چور، خللِ دماغ والا، بد قسمت، نِرا فریبی، پیرو شیطان ، حد یہ کہ صفحہ ۷ پر لکھا: (آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہّر ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اورکسبی عورتیں تھیں، جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا)۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دادی باپ کی ماں کو کہتے ہیں تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے باپ کا ہونا بیان کیا، جو قرآن کے خلاف ہے اور دوسری جگہ یعنی ''کشتی نوح'' صفحہ ۱۶ میں تصریح کر دی: یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں، یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھے)۔ ) حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزات سے ایک دم صاف انکار کر بیٹھا۔ ''انجامِ آتھم'' صفحہ ۶ میں لکھتا ہے: (حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا)۔) صفحہ ۷ پر لکھا: (اُس زمانہ میں ایک تالاب سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے، آپ سے کوئی معجزہ ہوا بھی تو وہ آپ کا نہیں، اُس تالاب کا ہے، آپ کے ہاتھ میں سِوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا)۔ ''اِزالہ'' کے صفحہ ۴ میں ہے (ما سِوائے اِس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو اُن حواشی سے الگ کرکے دیکھا جائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گڑھے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا، بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خَوارق پرایسے شبہات ہوں، کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق نہیں دُور کرتا)۔ کہیں اُن کے معجزہ کو کَلْ کا کھلونا بتاتا ہے، کہیں مسمریزم بتا کر کہتا ہے: اگر یہ عاجز اِس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اِن اعجوبہ نمائیوں میں ابنِ مریم سے کم نہ رہتا)۔) اور مسمریزم کا خاصہ یہ بتایا : (کہ جو اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے، وہ رُوحانی تاثیروں میں جو روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں، بہت ضعیف اور نکمّا ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں کو اِس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے، مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں کے دِلوں میں قائم کرنے میں اُن کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے)۔ ) غرض اِس دجّال قادیانی کے مُزَخرفات کہاں تک گنائے جائیں، اِس کے لیے دفتر چاہیے، مسلمان اِن چند خرافات سے اُس کے حالات بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کہ اُس نبی اُولو العزم کے فضائل جو قرآن میں مذکور ہیں، اُن پر یہ کیسے گندے حملے کر رہا ہے...! تعجب ہے اُن سادہ لوحوں پر کہ ایسے دجّال کے متبع ہو رہے ہیں، یا کم از کم مسلمان جانتے ہیں...! اور سب سے زیادہ تعجب اُن پڑھے لکھے کٹ بگڑوں سے کہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ جہنم کے گڑھوں میں گر رہے ہیں...! کیا ایسے شخص کے کافر، مرتد، بے دین ہونے میں کسی مسلمان کو شک ہوسکتا ہے۔ حَاشَ للہ! ''مَنْ شَکَّ فيْ عَذَابِہ وَکُفْرِہ فَقَدْ کَفَرَ.'' ''جو اِن خباثتوں پر مطلع ہو کر اُس کے عذاب و کفر میں شک کرے، خود کافر ہے۔''1 point