لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation on 31/10/2021 in all areas
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ جـبــرائــیــل عـلیــہ الســـلام کــی جہـنــم کــے حوالــے ســے ایـکـــ روایـتـــــ کـــی تحــقیـــق اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ ◉◎➻═•━══→﷽←══•━═➻◎◉ آج کل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہورہی ہے جس کے حوالے سے سوال بھی کیا گیا ہے ایک دوست کی طرف سے کہ اس میں ایک روایت جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف اور نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کی جارہی ہے جہنم کے حوالے سے وہ مکمل روایت جس طرح بیان کی جاتی ہے اگر یہاں نقل کروں تحریر بہت طویل ہو جائے گی لہذا میں اس روایت کا مختصر سے مختصر مفہوم یہاں عرض کر دیتا ہوں مــفہــوم روایـتـــــ مشـہـور ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟ جبرائیل نے عرض کی: اے محبوبِ قل، میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی: جہنم کے قل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے، تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے، دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے الخ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ مـکمــل تــحــقیـــق حــدیــثــــــ یہ مشہور روایت انہی الفاظ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں البتہ ایک حنفی فقیہ ابو اللیث سمرقندی (أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373 ھ) نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں نقل کی ہے امام الذہبی تاريخ الإسلام میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں وفي كتاب تنبيه الغافلين موضوعات كثيرة یعنی انکی کتاب تنبیہ الغافلین میں بہت ساری موضوع (یعنی من گھڑت روایات ) پائی جاتی ہیں كتاب تاريخ الإسلام 26/583📓 اور انہوں نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں بے سند اس کو روایت کیا ہے ملاحظہ ہو وروى يزيد الرقاشي ، عن أنس بن مالك، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: الخ تنبیہ الغافلین للسمرقندی ص70📒 اس روایت کی باقی سند تو امام سمرقندی نے نقل نہیں کی لیکن جس ایک راوی کا ذکر کردیا یہ ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت کا کوئی بھروسا نہیں میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر کے نہ بیان کیا جائے ❖◉➻════════════════➻◉❖ اس سے ملتے جھلتے الفاظ کی ایک روایت معجم الاوسط٬ شعب الایمان٬ البدایہ والنہایہ٬ وغیرہ میں موجود ہے اصل کتاب سے سکین اس تحریر کے ساتھ اس کا لگا دوں گا مگر عرض یہ ہے کہ وہ روایت بھی ضعیف ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو ضعیف کہا اس کی سند میں ایک راوی ہے سلام بن سلم ابو عبداللہ الطویل اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے چند اقوال درج ذیل ہیں ★ محمد بن إسماعيل البخاري :- يتكلمون فيه، ومرة: تركوه ★ أحمد بن شعيب النسائي :- متروك، ومرة: ليس بثقة ولا يكتب حديثه ★ أحمد بن حنبل :- روى أحاديث منكرة، منكر الحديث ★ الدارقطني :- ضعيف الحديث ★ يحيى بن معين :- له احاديث منكرة ★ ابن حجر العسقلاني :- متروك الحديث ★ أبو بكر البيهقي :- ضعيف روایـــــت کـــــے حوالــــــہ جات ملاحـــــظہ ہــــوں معجم الاوسط للطبرانی 3/89📕 البدایہ و النہایہ ابن کثیر 20/124📙 شعب الایمان للبیہقی 9/508📒 مجمع الزوائد للہیثمی 10/387📓 جامع الاحادیث للسیوطی 27/106📗 ✧✧✧ـــــــــــــــــ{🌹}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ خــــــــــــلاصــــــــــــــہ کــــــــــــــلام جن الفاظ کے ساتھ روایت مشہور ہے ان الفاظ کے ساتھ کسی معتبر کتاب میں بسند ثابت نہیں تنبیہ الغافلین کتاب کے بارے میں امام جرح و تعدیل شمس الدین الذھبی کا موقف آپ کو پیش کیا ملتے جھلتے الفاظ کی روایت ملتی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد الامام الحافظ إسماعيل بن محمد بن الفضل کا قول اس دوسری والی روایت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قال الحافظ أبو القاسم يعني إسماعيل بن محمد بن الفضل: هذا حديث حسن، وإسناده جيد البدایہ والنہایہ 20/125 طبعه دار الهجر📔 اس دوسری والی روایت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو جہنم کا خوف دلانے کے لئے اور حضور ﷺ کی شفقت اور اللہ کی رحمت سے آراستہ کرنے کے لیے ❖◉➻════════════════➻◉❖ فقـــــط واللہ ورسولــــــہٗ اعلـــم بـالـصــواب ✍🏻 شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی1 point
-
*(ظالم فاسق حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا حکم)* *بسم اللہ الرحمن الرحیم* *________________________________* *محترم قارئین کرام جب ناموس رسالت اور ختم نبوت کی خاطر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت وقت کو للکارا اور ان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تو حکومت کے کچھ پٹھوں نے قرآن کریم سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام کے ذہن میں ایک فتنہ برپا کرنا چاہا کے حاکم وقت کیسا بھی ہو کافرہو فاجر ہو فاسق ہو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے جبکہ یہ نظریہ جہالت پر مبنی اور بالکل باطل ہے* *جس پر چند دلائل پیش نظر ہیں*👇🏻 *_______________________________* *حدثنا قتيبة بن سعيد : حدثنا ليث عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي و أنه قال : «على المرء المسلم السمع والطاعة، فيما أحب وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمغصبة، فلا سمع ولا طاعة»* . *4763 لیث نے عبیداللہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بچن سے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند ، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جاۓ ، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا ( روا) ہے نہ ماننا*۔ *📗(صحیح مسلم جلد نمبر 3 حدیث نمبر4763)* *محترم قارئین کرام اس روایت سے یہ بات واضح ثابت ہوتی ہے کہ اگر حاکم وقت کسی گناہ کا کام کرنے کا حکم دے تو اس کی مخالفت کرنی ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی یہ حکم واضع ہے جب گناہ کے کام میں حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے تو ناموس رسالت کے معاملے میں مسلمان ان گستاخ حکمرانو کا ساتھ دیں یہ ہو سکتا نہیں* دوسری دلیل👇🏻 *___________________________________* *حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْعَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ* . *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے* ۔ 📙 *(سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4344)* *اس روایت میں تو واضح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جہاد کرنے کا ایسے فاسق فاجر اور ظالم حکمران کے خلاف* تيسری دلیل👇🏻 *______________________________________* *حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ، تَابَعَهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ* . *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔“ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے* 📙 *(صحیح البخاری جلد 3حدیث نمبر6044)* *ہمارے حکمران تو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر رہے ہیں تو ان کی اطاعت کرنا کیسے واجب ہو سکتی ہے* تیسری دلیل👇🏻 *____________________________________* *عَنْ جَابِر رَضِي اللّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : سَيِّد الشُّهَدَاء حَمْزة بْن عَبْد الْمُطَّلِب ، وَرَجُل قَامَ إِلَى إِمَام جَائِر فَأَمَرَه وَنَهَاه فَقَتَلَه* *جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں، اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اس نے اسے (اچھائی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا۔ تو اس حکمران نے اسے قتل کر دیا۔* *📕(السلسلہ الصحیحہ حدیث نمبر 3506)* *یہاں اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ظالم حاکم کے خلاف جہاد اور کلمہ حق بلند کرنے کی تعلیم عطا فرمائی* *____________________________________* *محترم قارئین کرام واقعہ کربلا تو روز روشن کی طرح واضح دلیل ہے کے ظالم حکمران کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے چنانچہ فخر المحدثین امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں👇🏻* *_________________________________* *وعن محمد بن أحمد بن مسمع قال : سكر يزيد، فقام يرقص، فسقط* *افتتح دولته بمقتل الشهيد الحسين، واختتمها بواقعة الحرة، فمقته الناس . ولم يبارك في عمره. وخرج عليه غير واحد بعد الحسين. كأهل المدينة قاموا(۱) الله ، وكمرداس بن أدية الحنظلي البصري* *محمد بن احمد بن مسماء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یزید نشے میں تھا تو وہ ناچتا ہوا اٹھا اور گر پڑا۔* *اس (یزید) نے اپنی ریاست کا آغاز حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل سے کیا اور اس کا خاتمہ الحرۃ کے واقعہ سے کیا تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس کی عمر میں برکت نہیں تھی۔ اور امام حسین کے بعد ایک سے بڑھ کر لوگ اس کے کے خلاف نکلے مدینہ والوں کی طرح* *📕(سیراعلام النبلاء جلد 4صفحہ 37تا38)* *محترم قارئین کرام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دے دیا کے ظالم فاسق فاجر حکمرانو کے ساتھ جہاد کیا جاتا ہے انکی اطاعت نہیں کی جاتی* *اسی طرح ائمہ مجتہدین نے بھی ظالم حکمرانوں کے باطل نظریات کا رد کیا اطاعت نہیں کی سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا عمل اور ان کی تعلیم آپ کے سامنے پیش ہے*👇🏻 *_________________________________* *نقله أبو جعفر المنصور من الكوفة إلى بغداد، فأقام بها حتى مات، ودفن بالجانب الشرقي منها في مقبرة الخيزران، وقبره هناك ظاهر معروف.* *وقد كلم ابن هبيرة أبا حنيفة أن يلي له قضاء الكوفة، فأبى عليه، فضربه مائة سوط وعشرة أسواط، في كل يوم عشرة أسواط، وهو على الامتناع فلما رأى ذلك خلى سبيله، وكان ابن هبيرة عاملا على العراق في زمن بني أمية.* *حاکم وقت عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ سے بغداد قید کر کے منتقل کیا، جہاں وہ مرتے دم تک رہے، اور اس کے مشرقی جانب الخیزران قبرستان میں دفن کیا گیا، اور وہاں ان کی قبر معروف ہے۔عہد عباسی کے وزیر ابن ہبیرہ، نے امام ابوحنیفہ سے ضلع کوفہ پر قبضہ کرنے کے لیے بات کی، لیکن امام ابو حنیفہ نے انکار کر دیا، تو انہی کوڑے مارے اور دس کوڑے مارے گئے، ہر روز دس کوڑے مارے جاتے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حق بات پر قائم رہے* *📙(الحاوى الكبیرا فی فقہ مذهب الامام الشافعي رضي الله عنه وهو شرح مختصر المزني صفحہ 110)* *📗(تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 328)* *_________________________________* *محترم قارئین کرام اسی طرح امام ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے باطل عقائد و نظریات رد کیا*👇🏻 *________________________________* وأما أحمد بن حنبل، فكلامه في مثل هذا مشهور متواتر، وهو الذي اشتهر بمحنة هؤلاء الجهمية؛ فإنهم أظهروا القول بإنكار صفات الله - تعالى - وحقائق أسمائه، وأن القرآن مخلوق،حتى صار حقيقة قولهم تعطيل الخالق - سبحانه وتعالى - ودعوا الناس إلى ذلك، وعاقبوا من لم يجبهم، إما بالقتل، وإما بقطع الرزق، وإما بالعزل عن الولاية، وإما بالحبس أو بالضرب، وكفروا من خالفهم، فثبت الله - تعالى - الإمام أحمد حتى أخمد الله به باطلهم، ونصر أهل الإيمان والسنة عليهم، وأذلهم بعد العز، وأخملهم بعد الشهرة، واشتهر عند خواص الأمة وعوامها أن القرآن كلام / الله غير مخلوق، وإطلاق القول أن من قال: إنه مخلوق، فقد كفر. *امام احمد بن حنبل کے دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔* *تو اس دور میں امام ابن حنبل نے اس طرح کے باطل عقائد اور لوگوں کے حوالہ سے حوالے سے فتوی جاری کیا کے قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے کیوں کہ قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے اسے تخلیق نہیں کیا گیا* *📕(الفتاویٰ الکبری جلد5 صفحہ 32)* *_______________________________* *محترم قارئین کرام بحمدللہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آواز اٹھانا رسول اللہ کا بھی حکم ہے صحابہ کا بھی عمل ہے اور ہمارے علماء و محدثین بھی اس طرح کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا رد کرتے ہوئے ہیں* *اور ہمیں بھی یہ چاہیے کہ اس طرح کے ملعون اور ظالم حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو* *________________________________* *تحقیق ازقلم:شیخ محترم سید عاقب حسین رضوی مدظلہ العالی* *تحریر ازقلم:خادم اہلسنت محمد حسن رضا قادری رضوی*1 point
-
*(ظالم فاسق حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا حکم)* *بسم اللہ الرحمن الرحیم* *________________________________* *محترم قارئین کرام جب ناموس رسالت اور ختم نبوت کی خاطر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت وقت کو للکارا اور ان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تو حکومت کے کچھ پٹھوں نے قرآن کریم سے غلط استدلال اور استنباط کر کے عوام کے ذہن میں ایک فتنہ برپا کرنا چاہا کے حاکم وقت کیسا بھی ہو کافرہو فاجر ہو فاسق ہو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے جبکہ یہ نظریہ جہالت پر مبنی اور بالکل باطل ہے* *جس پر چند دلائل پیش نظر ہیں*👇🏻 *_______________________________* *حدثنا قتيبة بن سعيد : حدثنا ليث عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي و أنه قال : «على المرء المسلم السمع والطاعة، فيما أحب وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمغصبة، فلا سمع ولا طاعة»* . *4763 لیث نے عبیداللہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بچن سے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند ، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جاۓ ، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا ( روا) ہے نہ ماننا*۔ *📗(صحیح مسلم جلد نمبر 3 حدیث نمبر4763)* *محترم قارئین کرام اس روایت سے یہ بات واضح ثابت ہوتی ہے کہ اگر حاکم وقت کسی گناہ کا کام کرنے کا حکم دے تو اس کی مخالفت کرنی ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی یہ حکم واضع ہے جب گناہ کے کام میں حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے تو ناموس رسالت کے معاملے میں مسلمان ان گستاخ حکمرانو کا ساتھ دیں یہ ہو سکتا نہیں* دوسری دلیل👇🏻 *___________________________________* *حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْعَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ* . *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے* ۔ 📙 *(سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4344)* *اس روایت میں تو واضح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جہاد کرنے کا ایسے فاسق فاجر اور ظالم حکمران کے خلاف* تيسری دلیل👇🏻 *______________________________________* *حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ، تَابَعَهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ* . *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔“ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے* 📙 *(صحیح البخاری جلد 3حدیث نمبر6044)* *ہمارے حکمران تو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر رہے ہیں تو ان کی اطاعت کرنا کیسے واجب ہو سکتی ہے* تیسری دلیل👇🏻 *____________________________________* *عَنْ جَابِر رَضِي اللّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : سَيِّد الشُّهَدَاء حَمْزة بْن عَبْد الْمُطَّلِب ، وَرَجُل قَامَ إِلَى إِمَام جَائِر فَأَمَرَه وَنَهَاه فَقَتَلَه* *جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں، اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اس نے اسے (اچھائی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا۔ تو اس حکمران نے اسے قتل کر دیا۔* *📕(السلسلہ الصحیحہ حدیث نمبر 3506)* *یہاں اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ظالم حاکم کے خلاف جہاد اور کلمہ حق بلند کرنے کی تعلیم عطا فرمائی* *____________________________________* *محترم قارئین کرام واقعہ کربلا تو روز روشن کی طرح واضح دلیل ہے کے ظالم حکمران کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے چنانچہ فخر المحدثین امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں👇🏻* *_________________________________* *وعن محمد بن أحمد بن مسمع قال : سكر يزيد، فقام يرقص، فسقط* *افتتح دولته بمقتل الشهيد الحسين، واختتمها بواقعة الحرة، فمقته الناس . ولم يبارك في عمره. وخرج عليه غير واحد بعد الحسين. كأهل المدينة قاموا(۱) الله ، وكمرداس بن أدية الحنظلي البصري* *محمد بن احمد بن مسماء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یزید نشے میں تھا تو وہ ناچتا ہوا اٹھا اور گر پڑا۔* *اس (یزید) نے اپنی ریاست کا آغاز حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل سے کیا اور اس کا خاتمہ الحرۃ کے واقعہ سے کیا تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس کی عمر میں برکت نہیں تھی۔ اور امام حسین کے بعد ایک سے بڑھ کر لوگ اس کے کے خلاف نکلے مدینہ والوں کی طرح* *📕(سیراعلام النبلاء جلد 4صفحہ 37تا38)* *محترم قارئین کرام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دے دیا کے ظالم فاسق فاجر حکمرانو کے ساتھ جہاد کیا جاتا ہے انکی اطاعت نہیں کی جاتی* *اسی طرح ائمہ مجتہدین نے بھی ظالم حکمرانوں کے باطل نظریات کا رد کیا اطاعت نہیں کی سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا عمل اور ان کی تعلیم آپ کے سامنے پیش ہے*👇🏻 *_________________________________* *نقله أبو جعفر المنصور من الكوفة إلى بغداد، فأقام بها حتى مات، ودفن بالجانب الشرقي منها في مقبرة الخيزران، وقبره هناك ظاهر معروف.* *وقد كلم ابن هبيرة أبا حنيفة أن يلي له قضاء الكوفة، فأبى عليه، فضربه مائة سوط وعشرة أسواط، في كل يوم عشرة أسواط، وهو على الامتناع فلما رأى ذلك خلى سبيله، وكان ابن هبيرة عاملا على العراق في زمن بني أمية.* *حاکم وقت عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ سے بغداد قید کر کے منتقل کیا، جہاں وہ مرتے دم تک رہے، اور اس کے مشرقی جانب الخیزران قبرستان میں دفن کیا گیا، اور وہاں ان کی قبر معروف ہے۔عہد عباسی کے وزیر ابن ہبیرہ، نے امام ابوحنیفہ سے ضلع کوفہ پر قبضہ کرنے کے لیے بات کی، لیکن امام ابو حنیفہ نے انکار کر دیا، تو انہی کوڑے مارے اور دس کوڑے مارے گئے، ہر روز دس کوڑے مارے جاتے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حق بات پر قائم رہے* *📙(الحاوى الكبیرا فی فقہ مذهب الامام الشافعي رضي الله عنه وهو شرح مختصر المزني صفحہ 110)* *📗(تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 328)* *_________________________________* *محترم قارئین کرام اسی طرح امام ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے باطل عقائد و نظریات رد کیا*👇🏻 *________________________________* وأما أحمد بن حنبل، فكلامه في مثل هذا مشهور متواتر، وهو الذي اشتهر بمحنة هؤلاء الجهمية؛ فإنهم أظهروا القول بإنكار صفات الله - تعالى - وحقائق أسمائه، وأن القرآن مخلوق،حتى صار حقيقة قولهم تعطيل الخالق - سبحانه وتعالى - ودعوا الناس إلى ذلك، وعاقبوا من لم يجبهم، إما بالقتل، وإما بقطع الرزق، وإما بالعزل عن الولاية، وإما بالحبس أو بالضرب، وكفروا من خالفهم، فثبت الله - تعالى - الإمام أحمد حتى أخمد الله به باطلهم، ونصر أهل الإيمان والسنة عليهم، وأذلهم بعد العز، وأخملهم بعد الشهرة، واشتهر عند خواص الأمة وعوامها أن القرآن كلام / الله غير مخلوق، وإطلاق القول أن من قال: إنه مخلوق، فقد كفر. *امام احمد بن حنبل کے دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔* *تو اس دور میں امام ابن حنبل نے اس طرح کے باطل عقائد اور لوگوں کے حوالہ سے حوالے سے فتوی جاری کیا کے قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے کیوں کہ قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے اسے تخلیق نہیں کیا گیا* *📕(الفتاویٰ الکبری جلد5 صفحہ 32)* *_______________________________* *محترم قارئین کرام بحمدللہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آواز اٹھانا رسول اللہ کا بھی حکم ہے صحابہ کا بھی عمل ہے اور ہمارے علماء و محدثین بھی اس طرح کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا رد کرتے ہوئے ہیں* *اور ہمیں بھی یہ چاہیے کہ اس طرح کے ملعون اور ظالم حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو* *________________________________* *تحقیق ازقلم:شیخ محترم سید عاقب حسین رضوی مدظلہ العالی* *تحریر ازقلم:خادم اہلسنت محمد حسن رضا قادری رضوی*1 point
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــیــا حنــفــی گــمــراہ فــرقــہ ہــے انــجیــنئر مــرزا کــــی جـہـالـتـــــ کــا رد اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁ مشہور زمانہ فتنہ علمی یتیم جونیئر مرزا جہلمی غنیۃ الطالبین کے حوالے سے اعتراض کرتا ہے کہ اس کتاب میں سیدنا غوث الاعظمؓ نے حنفیہ کو مرجئہ فرقوں میں شمار کیا ہے ان شاءاللہ اس کا رد بلیغ کریں گے ✧✧✧ـــــــــــــــــ{﷽}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مرجئہ کے معنی کیا ہیں مرجئہ کا لفظ ارجاء سے ہے جس کے لغوی معنیٰ موخر کرنا ہیں اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852ھ لکھتے ہیں وَمِنْهُم من أَرَادَ تَأْخِير القَوْل فِي الحكم على من أَتَى الْكَبَائِر وَترك الْفَرَائِض بالنَّار لِأَن الْإِيمَان عِنْدهم الْإِقْرَار والاعتقاد وَلَا يضر الْعَمَل مَعَ ذَلِك مقدمہ فتح الباری ص646📕 کہ بعض کے ہاں ارجاء سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر دخول فی النار [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ] کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں سلطان المحدثین ملا علی قاریؒ 1014ھ فرماتے ہیں ثم المرجئه طائفته قالوا لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعته فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علي شئي من الکبائر شرح فقہ اکبر ص75📔 ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ تو آپ لوگوں کو اس فرقے کا تعارف تو پتہ چل ہی گیا ہوگا اب اصل میں یہ فرقہ حنفیہ نہیں بلکہ فرقہ غسانیہ ہے یعنی غسان ابن عبا الکوفی کے متبعین کو فرقہ غسانیہ کہتے ہیں ان کے عقائد آپ کو اوپر بتائے جا چکے ہیں مزید دیکھ لیں امام عبدالقاھر البغدادیؒ 429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں قال انه يزيد ولا ينقص وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص الفرق بين الفرق ص188📒 ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہؓ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہؓ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت اللہ اور رسول ﷺ کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیر تفصیل کے اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا ================================ اب یہ عقیدہ نہ تو امام ابو حنیفہؓ کا ہے نہ آپ کے متبعین کا دراصل غسان ابن عبا اور اس کے متبعین لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے کہ جو عقیدہ ہمارا ہے امام ابو حنیفہؓ کا بھی یہی عقیدہ تھا اور پھر یہ فرقہ غسانیہ کے نام سے بدل کر حنفیہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس نام سے یہ فرقہ مشہور تھا اسی نام سے اس کو مرجئہ میں شامل کیا ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ اور امام اعظم ابو حنیفہؓ نے تو خود اس عقیدہ کا اپنی کتاب میں رد کیا ہے جو غسان ابن عبا کا تھا امام ابوحنیفہؓ نے اس کا رد اپنی کتاب فقہ الاکبر میں صراحت سے کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا الفقہ الاکبر مع الشرح ص77،78📙 ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا خـــــــلاصــــہ کـــــــلام تو تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ فرقہ مرجئہ کے جو عقائد ہیں وہ نہ تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں نہ آپ کے متبعین کے ہیں بلکہ وہ غسان ابن عبا اور اس کے متبعین کے ہیں ️اور بہت سے مستند علماء کرام نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ یہ عبارت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہیں بلکہ کسی مخالف کی ہے اور غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے مگر اس میں تحریف ہو چکی ہے بہت سے مسائل میں یہ بھی مستند علماء کرام اور محدثین کا موقف ہے انجینئر مرزا اپنے اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے امام اعظمؓ سے ذاتی بغض اور کینہ کی بنا پر یہ بات اور یہ الزام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ پر عائد کیا کہ گویا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حنفیوں کو مرجئہی کہا اور سب سے اہم بات انجینئر مرزا جہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا ہے دار الکتب العلمیہ بیروت وہاں سے شائع ہونے والی غنیۃ الطالبین میں حنفیہ کی جگہ غسانیہ ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 1/186 پھر اسی کتاب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ جب ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؓ کا تعارف کرواتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ کرواتے ہیں وهو مذهب الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان رحمه الله تعالى یہ مذہب ہے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اب انجینئر بتائے بقول انجینئر جن کے فرقے کو اور جن کو وہ مرجیئہ کہہ رہے ہیں ان کو رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام اعظم بھی کہیں گے؟؟ جبکہ وہ خود امام احمد بن حنبلؒ کے مقلد ہیں فقہ میں اپنی پوری کتاب میں انہوں نے اپنے امام کو امام اعظم نہیں کہا۔ ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 2/85 ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ✍️ شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنّت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی1 point
-
★تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال★ الـســــــوال ↓↓↓↓↓ ☆اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ☆ نماز کی حالت میں ماں کے آواز دینے پر نماز توڑ دینے والی روایت کی تحقیق فرما دیں کیا یہ روایت صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو کیا یہ ہر نماز کے لئے ہے یا کسی نماز کے ساتھ خاص ہے مکمل تفصیل بتا دیں اور کیا باپ کے بلانے پر بھی نماز توڑ سکتے ہیں ؟؟ جزاک اللہ ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ 📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ★وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ★ ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ روایـتــــ کــی مـکمــل تحـقیـق درج ذیـــل ہـــے ⇊ ✍️ یہ روایت متصلاً ہمیں دو قسم کے الفاظوں کے ساتھ ملتی ہے👇 امام بیہقیؒ (المتوفى: 458هـ) نے فرمایا 7497 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، أنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، نا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، نا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ تُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، لَأَجَبْتُهَا: لَبَّيْكِ " يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ ضَعِيفٌ 📓شعب الإيمان 10/284 📒كتاب مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري 1/210 اور جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت مشہور ہے 👇 امام ابن الجوزیؒ (المتوفى: 597هـ) نے فرمایا 25 - أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَ أَبُو بَكْرٍ الْخَيَّاطُ، قَالَ: أَنْبَأَ ابْنُ دُوسْتَ الْعَلَّافُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُنَادِي، قثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قثنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قثنا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُوَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْقَ بْن عَلِيٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ *فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ:* يَا مُحَمَّدُ لَقُلْتُ لَبَّيْكِ " 📙كتاب البر والصلة لابن الجوزي ص57 📕كتاب كنز العمال 16/470 ترجمہ: اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ﷺ ، تو میں جواباً لبیک کہتا ============================ اس حدیث کی سند کا دارومدار ياسين بن معاذ پر ہے جو روایت کرتا ہے عبد الله بن قریر اور وہ روایت کرتے ہیں طلق بن علی سے عبداللہ کے والد کا نام مختلف اسانید میں محرف آیا ہے مرثد ٫ قرین ٫ قوید مگر اصل نام قُرَیر) ہے ) ملاحظہ ہو 👇 📗 الاکمال لابن ماکولا (7/ 84) ============================ ‼️ متصل سند میں یاسین بن معاذ سخت ترین مجروح راوی ہے اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ملاحظہ ہو 👇 ◈ محمد بن إسماعيل البخاريؒ : *منكر الحديث* ◈ مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ : *منكر الحديث* ◈ أحمد بن شعيب النسائيؒ : *متروك الحديث* ◈ أبو بكر البيهقيؒ : *متروك، وضعيف* ◈ أبو حاتم بن حبانؒ البستي : يروى الموضوعات عن الثقات، وينفرد بالمعضلات عن الأثبات، لا يجوز الاحتجاج به خلاصہ یہ ہوا کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے اس کی روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور وہ قابل اعتبار بھی نہیں ❗ مزید اس سند کو نقل کر کے ائمہ نے کیا فرمایا 👇 ◉ امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا 👇 هَذَا مَوْضُوع عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ ياسين 📓 كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/85 ◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع: آفَتُهُ ياسين (قُلْتُ) أخرجه الْبَيْهَقِيّ وَالله أعلم. 📕 كتاب اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250 ◉ امام محمد طاہر الفَتَّنِيؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع قلت أخرجه الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز هُوَ حَدِيث طلق عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ وَفِيه يس بن معَاذ يروي الموضوعات قلت قَالَ الْبَيْهَقِيّ ضَعِيف 📙 كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص202 ‼️ ائمہ جرح و تعدیل و محدثین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ روایت متصلاً ہرگز قابل احتجاج نہیں اور قابل اعتبار نہیں ◉➻═════════════➻◉ ✍️ ہاں مگر اس طرح کی روایت کو مرسلاً بھی دو طرق سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ⇊ 8013 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» 📓 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 8014 - حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: «إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ» 📕 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 📗 شعب الإيمان 10/285 ترجمہ: امام ابن ابی شیبہؒ نے محمد بن المنکدرؒ اور مکحولؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ [ ھذا حدیث مرسل صحیح ] ============================ ‼️ جیسا کہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے البتہ متصلاً جو الفاظ ہیں وہ ہرگز قابل احتجاج اور اعتبار نہیں مرسل حدیث پر مطلقاً ضعیف ہونے کا حکم دور حاضر کے وہابی غیرمقلدین لگاتے ہیں 🌟 جب کہ مرسل تمام صحابہ کرامؓ و تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں حجت ہے البتہ امام شافعیؒ کے ہاں مرسل معتضد حجت ہے ❗ اس موضوع پر جامع اور مفصل تحریر لکھی جا سکتی ہے مرسل کی حجیت پر مگر اختصاراً ایک دلیل ہی عرض کر دیتا ہوں 👇 وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ ترجمہ: علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔ 📓 كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/223 ‼️ جیسا کہ واضح ہوگیا کہ تمام تابعینؒ کا مرسل کی حجیت پر اتفاق تھا اسی طرح مذہب احناف مالکیہ اور حنابلہ کا بھی لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ مرسل حجت ہے اور یہ حدیث مرسل صحیح ہے ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ خـــــــــــــلاصـــــــــــــہ کـــــــــــــــــــلام ✍️ چناچہ پوری تحقیق سے ثابت ہوا کہ جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت متصلاً ملتی ہے وہ صحیح نہیں البتہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے 1 جیسا کہ بتایا گیا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے 👇 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ 2 جی بالکل یہ روایت نوافل نماز کے ساتھ خاص ہے ہاں البتہ فرض نماز بھی اگر پڑھ رہا ہو اور والدین مصیبت میں پکاریں تو پھر یہ حکم فرض کا ہے کہ وہ نماز ترک کر دے اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے اور اگر کسی سخت ضرورت اور مدد کے لیے نہ پکاریں تو فرض نماز توڑنا جائز نہیں اگر نفل نماز پڑھ رہا ہے اور والدین کو معلوم نہیں کہ بیٹا نماز پڑھ رہا ہے تو ان کے پکارنے یا آواز دینے پر نماز توڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور اگر انہیں معلوم ہے تو پھر تلاوت کو بلند کرے یا سبحان اللہ کہہ کر احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے 3 جی بالکل باپ کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا اگر فرض ہو اور سخت مصیبت اور پریشانی میں بلائے تو ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اگر نفل ہو اور ان کو معلوم نہ ہو تو پھر بلائیں تو پھر ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اور اگر ان کو معلوم ہو تو احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے دلیل ملاحظہ ہو 👇 "قلت: لکن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز وبه صرح في الإمداد بقوله: أي: لایجوز قطعها بنداء أحد أبویه من غیر استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لایجوز إلا لضرورة، وقال الطحطاوي: هذا في الفرض، وإن کان في نافلة إن علم أحد أبویه أنه في الصلاة وناداه لا بأس أن لایجیبه، وإن لم یعلم یجیبه قوله: إلا في النفل أي فیجیبه وجوبًا و إن لم یستغث لأنه لیم عابد بني إسرائیل علی ترکه الإجابة وقال ﷺ ما معناه: لو کان فقیهًا لأجاب أمّه، وهذا إن لم یعلم أنه یصلي، فإن علم لاتجب الإجابة لکنّها أولی کما یستفاد من قوله: لا باس" 📓 كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين 1/654 📕كتاب مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص138 📙كتاب حاشية الطحطاوي ص372 ╭┄┅─══════════════─┅┄╮ ༻◉ لبیک یا رسول اللہ ﷺ ◉༺ ╰┄┅─══════════════─┅┄╯ فقـــــــــــــط واللہ ورسولـــــــــــــہٗ اعلـــــــــم ____خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی____★᭄✨🌸1 point