لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation on 28/08/2021 in all areas
-
اللہ عزوجل کے مقرب بندوں پر بہتان و الزام اور ہماری ذمہ داریاں بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مسلمانان اسلام !اس کا کوئی انکار نہیں کہ بد شکل بد نما کالی بھیڑیں ہر جگہ پائی جاتی ہیں ۔منافقین نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دین اسلام کو بد نام کرنے کی کوشش کی ۔اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو کالی بھیڑیں ہر شعبہ زندگی میں پائی جاتی ہیں ۔ہمارے تعلیمی ادارے( یعنی اسکول) جہاں سے ہماری تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور جہاں ہم اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں(یعنی کالجز اور یونیورسٹیاں) وہاں بھی بد شکل بد نما کالی بھیڑیں موجود ہے ۔اور شوشل میڈیا پر درجنوں کے حساب سے تعلیمی اداروں کے اندر بد شکل بد نما کالی بھیڑوں کے گھٹیا افعال کی ویڈیوز اپلوڈ ہیں جس کا انکار کوئی صاحب انصا ف شخص نہیں کر سکتا ۔بلکہ گستاخی معاف ہو تو جن کو ہم مسیحا سمجھتے ہیں[ڈاکٹرز] ان میں بھی بعض کے کالے کرتوت شوشل میڈیا پر آپلوڈ ہیں ۔جن کو ہم عدل و انصاف کے داعی[وکیل و ججز]سمجھتے ہیں ان میں بھی بعض کے کالے کرتوت شوشل میڈیا پر موجود ہیں۔المختصرعرض یہ ہے کہ کالی بھیڑوں سے شاید ہی کوئی شعبہ و ادارہ محفوظ ہو ۔لیکن اس کے باوجود کوئی بھی شخص ان چند بد نما بد شکل کالی بھیڑوں کی وجہ سے ان تمام شعبہ جات کے ہر ہر فرد کو ایک نظر سے نہیں دیکھتا ,سب کوہی غلط ہرگز نہیں کہتا۔تو بالکل اسی طرح کی سوچ ہمیں دینی طبقے سے منسلک علماکرام اور مدارس کے متعلق بھی رکھنی چاہے ۔اور کسی فرد واحد کے کالے کرتوتوں کی سزا تمام دینی طبقے کو نہیں دینی چاہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض دفعہ شریف و بزرگ شخصیات کو بغیر کسی جرم و گناہ کے بھی خواہ مخواہ بد نام کرنے کی سازشیں کی گئی ہیں ۔عام لوگ تو ایک طرف اللہ عزوجل کے مقرب بندوں پر بھی گھٹیا قسم کے الزامات اور بہتان لگائے گے ہیں۔اہل علم جانتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر ایک عورت نے الزام لگایا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل میں قید کروا دیا۔‘‘قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ’’ بولی کیا سزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی سے بدی چاہی مگر یہ کہ قید کیا جائے یا دکھ کی مار(پارہ ۱۲:یوسف:۲۹)اور اس الزام کی وجہ سے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام ایک مدت تک جیل میں قید رہے ۔لیکن بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی خود اس عورت اور اس کی ساتھی عورتوں نے دی ۔ ‘‘قُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ’’ بولیں اللّٰہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہ پائی۔(پارہ ۱۲:یوسف:۵۱)پھر اس عورت نے اپنے جھوٹے الزام کا اقرار کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی خود گواہی دی کہ‘‘وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ’’ اور وہ بیشک سچّے ہیں(پارہ ۱۲:یوسف:۵۱) اسی طرح بنی اسرائیل کے ایک نیک بزرگ حضرت جریج رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ وہ نہایت ہی نیک و پرہیز گار بزرگ تھے انہوں نے ایک عبادت خانہ بنا رکھا تھا جہاں وہ عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے ۔لیکن ایک عورت جو کسی چرواہے کے ساتھ منہ کالا کر کے حاملہ ہو گئی تھی جب اس کا بچہ پیدا ہوا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟تواُس عورت نے کہا: اس عبادت خانے والے ( یعنی حضرت جریج ؒ)کا بچہ ہے۔لوگ کدالیں اور پھاوڑے لے آئے اور ان کا عبادت خانہ گرا دیا ……..لیکن جب حقیقت سامنے آئی اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ عورت نے جھوٹا الزام لگایا ہے ، حضرت جریج رحمۃ اللہ علیہ بےگناہ ہیں ۔اور ہم اس بد کار عورت کی سازش کا شکار ہو کر اللہ عزوجل کے ایک نیک پر بے گناہ الزام لگا بیٹھے تو لوگوں نے حضرت جریج رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: ہم آپ کے لئے سونے چاندی کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔لیکن انھوں نے کہا: نہیں، جس طرح پہلے یہ مٹی کا تھا اسی طرح بنا دو۔پھر وہ اپنے عبادت خانے پر چلے گے ۔مفہوم(صحیح بخاری: 3436 وصحیح مسلم: 2550)ان دونوں حوالوں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ (1)۔۔۔۔اللہ عزوجل کے مقرب بندوں پر زنا جیساگھٹیا الزام لگا کر انہیں بد نام کرنے کی سازش کا سلسلہ بڑا پرانااور قدیم حربہ ہے ۔ (2)۔۔۔۔یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس پر کوئی ایسا بہتان والزام لگایا گیا ہو تو الزام بھی سچا ہو بلکہ بعض دفعہ نیک و پرہیز گار لوگوں پر خواہ مخواہ الزام و بہتان بھی لگائے جاتے رہے ۔ (3)۔۔۔۔عوام الناس بھی اکثر ان سازشوں کا شکار ہو کر مقرب بندوں کے خلاف ہو جاتے ہیں ،ان کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں ،انہیں بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں ۔ (4)۔۔۔۔عوام الناس ان سازشوں کاشکار ہوکر ان مقرب بندوں کی عبادت گاہوں (مساجد ،مدارس )تک کے خلاف ہو جاتے ہیں اور ان کو نقصان تک پہنچاتے ہیں۔ (5)۔۔۔۔اکثرعوام الناس فورا بد گمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں،تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ (6)۔۔۔۔ایسے معاملات میں مکمل تحقیق کے بعد ہی کوئی تبصرہ کرنا چاہے ،بغیر تحقیق کہ تبصروں سے پرہیز کرنی چاہے ۔تاکہ بعدمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ (7)۔۔۔۔جو نیک و پرہیزگار ،بے گناہ بندے ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ بالآخر انہیں ایسی آزمائشوں سے نکال کر سر خرو فرماتا ہے ۔ لہذا فی زمانہ ادیان باطلہ کی طرف سے اہل حق کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی ویڈیو آپلوڈ ہوئی ہوتی ہے اور پھر باقاعدہ منظم طریقے سے دینی طبقے کو بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورت حال میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے ۔اور خواہ مخواہ فوراََ بغیر کسی تحقیق یا فیصلہ کے لعن طعن سے بچنا چاہے۔ اللہ تبارک و تعالی کی مقدس کتاب اور کتب احادیث کے ان دو واقعات کو دیکھا جائے تو حق و انصاف یہی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جس شخص پر ایسے گھٹیا الزامات لگائے گے ہوں وہ الزامات سو فیصد درست ہی ہوں ،بلکہ بعض اوقات اللہ عزوجل کے مقرب بندوں پر بھی غلط الزام و بہتان لگائے گے ۔اور دوسروں پر ایسے جھوٹے الزام لگانابھی بہت بڑا قانونی ،اخلاقی اور شرعی جرم و گناہ ہے ۔‘‘وَمَنۡ یَّکْسِبْ خَطِیۡٓىـَٔۃً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہٖ بَرِیۡٓــًٔا فَقَدِ احْتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیۡنًا ’’ اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اُسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا (پارہ ۵:النسا:۱۱۲)اور جو بے گناہ کسی مسلمان مرد و عورت پرالزام لگا کرانہیں ستاتے ہیں اس کے بارے میں بھی قرآن نے فیصلہ سنا دیا‘‘ وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکْتَسَبُوۡا فَقَدِ احْتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیۡنًا’’ اور جو ایمان والے مَردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کُھلا گناہ اپنے سر لیا (پارہ ۲۲: الاحزاب: ۵۸) نیزیہ بھی ہرگز درست نہیں کہ محض سنی سنائی باتوں پر ہم کسی مسلمان بلخصوص متقی و پرہیز گار مسلمان کے بارے میں بد گمانی میں مبتلا ہو جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ‘‘یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اجْتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ’’ اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو (۲۴) بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے(پارہ۲۶: الحجرات :۱۲)لہذا ایسے تمام معاملات میں ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہے ۔ہاں جو شرعی ثبوتوں کے ساتھ مجرم ثابت ہو جائے ۔تو ایسی بد نمابد شکل کالی بھیڑوں کوسخت سے سخت سزادے کر نشان عبرت بنانا چاہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو خواہ مخواہ کسی بھی مرد و عورت پر جھوٹے الزام و بہتان لگا کر اس کو بد نام کرے ایسے حضرات کو بھی نشان عبرت بنانا چاہے۔آخری بات یہ ہے کہ جوبے گناہ ہیں اللہ عزوجل ان کو با عزت ان مقدمات سے نجات عطا فرمائے ۔اور ایسے حضرات کو صبر سے کام لینا چاہے کیونکہ یہ ان کی آزمائش کاوقت ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ‘‘وَ نَبْلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الْخَیۡرِ فِتْنَۃً’’ اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں برائی اور بھلائی سے (پارہ ۱۷:الأنبياء :آیت ۳۵)لہذا صبر ایسے حضرات کو بارگاہ الہی میں پہلے سے بڑھ کر سجدہ ریز ہونا چاہے اور صبر سے کام لیں ۔‘‘ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ’’(اور فرمایا)‘‘وَ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمْ کَیۡدُہُمْ شَیۡـًٔا ؕ اِنَّ اللہَ بِمَا یَعْمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ’’ اور اگر تم صبر اور پرہیزگاری کئے رہو تو اُن کا داؤ ں تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا ۔بے شک اُن کے سب کام خدا کے گھیرے میں ہیں ’’(پارہ ۴:آل عمران:۱۲۰)۔اللہ ہمیں تمام تر فتنوں سے محفوظ فرمائے ۔جو مجرم ہیں ان کو سخت سزا ہونی چاہے اور جو بے گناہ ہیں،خواہ مخواہ ان پر الزام و بہتان لگا کر ان کو جو بد نام کرنے کی سازش رچائی جاتی ہے ایسی سازشی عناصر کو بھی سخت سے سخت سزا ملنی چاہے ۔ (وَمَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیۡنُ)۔بندہ نا چیز احمد رضا ’’1 point