Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 13/06/2021 in all areas

  1. از قلم غلامِ احمدرضاعلی حیدرسنی حنفی بریلوی جاہل پیروں جعلی صوفیوں اوربدمذہب سیدوں کارد • *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم*ِ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ سب سے پہلے دیوبندیوں اور وہابیوں کے ایک بے ایمانی اعتراض کا جواب دیتا چلوں کچھ عرصہ قبل ایک دیوبندی شخص نے مجھ سے مخاطب ہوکر جاہلوں کی خرافات پیری مریدی اور مزاروں پر موجودہ گندی رسمیں مسلک اہلسنت بریلویوں کی طرف کرکے کہا ہے کہ تم بریلویوں نے مزارات پر کتنی بری بدعتیں ایجاد کر رکھی ہیں اور پیری مریدی کا دھندا کھول رکھا ہے پھر اس دیوبندی نے سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ جاہل ننگے نقلی لامذہب شیطانی صفت نما پیروں کی تصاویر اور ویڈیوز سینڈ کرکے اعتراض کیا کہ سنیوں کے پیر اور انکے مرید ایسے ہوتے ہیں "معاذ اللہ" اور الحمد للہ میں نے اسکے جواب میں ایک لاجواب تحریر کتابی شکل میں لکھی جسکانام رکھا" مزارات پر خرافات اور فعلِ جہلاء کا رد" جسمیں میں نے سینکڑوں دلائل سے خلاف شرع تمام امور کو اہلسنت کی متعدد کتابوں سے مردود ہونا ثابت کیا اور جب اس دیوبندی کو میں نے وہی تحریر جواب میں پیش کی تو اس جاہل نے بنا پڑھے ہی دوسرا جاہلانہ اعتراض کردیاکہ"یہ تمام غلط کام بریلوی ہی کیوں کرتے ہیں اسکی کیا وجہ ہے اگر جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں تو کیا پوری دنیاں میں جاہل صرف بریلوی ہیں اب اس تحریر میں سب سے پہلے دیوبندی کے اس اعتراض کا جواب تحریر خدمت ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی نے اپنے اعتراض میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گویا اعلیحضرت سے پہلے تمام مسلمان مزارات پر موجودہ خرافات اور منکرات شرعیہ و لہو و لعب سے بالکل پاک تھے اور جب اعلیحضرت پیدا ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو یہ تعلیم دی اور پھر یہ تمام خلاف شرع امور لوگوں میں رائج ہوئے معاذاللہ اور دیوبندیوں نے مسلک اعلیحضرت اہلسنت بریلویوں کو بدعتی کہہ کر انکو ایک نیا فرقہ بتایا جس پر انکی کتابیں شاہد ہیں جیسے "رضاخانی مذہب اور بریلوی نیافرقہ وغیرہ اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دیوبندی وہابی قدیم فرقہ ہے اور نبی علیہ السلام و صحابہ کرام کے طریقے پر ہیں جبکہ یہ صرف دیوبندیوں اور وہابیوں کی خوش فہمی اور ہٹ دھرمی ہے کیونکہ جس سابقہ دیوبندی سعید احمد نے جھوٹ بولا تھا اور رضاخانی مذہب کتاب لکھی تھی وہ توبہ کرکے سنی حنفی بریلوی بن گیا ہے اور اس نے اپنی تمام کتابیں جو بریلویوں کے رد میں تھیں سب کو جھوٹی قرار دے کر منسوخ قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اب میری کسی کتاب سے بھی دیوبندی حوالہ پیش نہیں کرسکتے میں ان کتابوں کو رد کرتا ہوں۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ مصنف رضاخانی مذہب نے تو توبہ کرلی مگر اس اس کتاب پر تقریظ لکھنے والے اس کی تصدیق کرنے والے دیوبندی اب تک تائب نہیں ہوئے اور بڑی بے شرمی سے دیوبندی حضرات ہمارے خلاف اس کتاب کے جھوٹ بطورِ حجت پیش کرتے ہیں سچ فرمایا ہے کسی نے کہ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن اور حضور نے فرمایا کہ بے حیا بن جاپھر جو چاہےکر اور وہابیوں کی بے حیائی کا کیا کہنا کہ خود انکے ملائوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امام احمد رضا خان بریلوی قدیم مسلک سنی حنفی تھے اسکی گواہی ثناء اللہ امرتسری نے دی شمع توحید میں اور سلیمان ندوی نے دی حیات شبلی میں اور شیخ محمد اکرام نے موج کوثر میں دی ہے اسکے علاوہ عبدالحئ علی ندوی نے نزہتہ الخواتر میں دی ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ دیوبندیوں کو خود بھی اقرار ہے کہ بریلوی مسلک بنا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے اصحاب رسول کے طریقے پر چلنے والا ناجی فرقہ ہے اب آتے ہیں مزارات پر خرافات کے حوالے سے کہ یہ بدعات اعلیحضرت نے نہیں ایجاد کی ہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہردور میں جہلاء کا شعار رہا ہے اور مزارات پر جعلی پیروں اور جاہل لوگوں کی خرافات کا ہونا بہت پہلے سے ہے اس میں اعلیحضرت کا یا ان اولیاء کرام کا کوئی قصور نہیں وہ تو خود اسطرح کی غیر شرعی حرکات سے دور تھے انکی تعلیمات تو قرآن و سنت کے عین مطابق تھی حضور داتا علی حجویریؓ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ جب زمانے کے دنیادار لوگوں نے دیکھا کہ نقلی صوفی پائوں پر تھرکتے،گاناسنتے اور بادشاہوں کے دربار میں جاکر ان سے مال و منال کے حصول میں حرص و لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں، درباری دیکھتے ہیں تو وہ ان سے نفرت کرتے ہیں اور تمام صوفیوں کو ایسا ہی سمجھ کر سب کو برا کہنے لگتے ہیں کہ ان کے یہی طور و طریق ہوتے ہیں اور پچھلے صوفیاء کا حال بھی ایسا ہی تھا حالانکہ وہ حضرات ایسی لغویات سے پاک و صاف تھے وہ اس پر غور و فکر نہیں کرتے یہ زمانہ دین میں سستی و غفلت کا ہے کشف المحجوب صفحہ 69 شبیر برادرز لاہور نمبر1۔ دیوبندیوں اب کیاکہوگےکہ داتا علی حجویری سے پہ لےبھی سب لوگ بریلوی تھے نمبر2۔ داتا علی حجویری کے زمانے میں بھی یہ لغویات موجودتھیں کیا دیوبندیوں کے نزدیک داتاعلی حجویری بھی بدعتی تھے کیا انکی بھی یہی تعلیمات تھیں کیاوہ ولی نہیں تھے جسطرح اعلیحضرت پر دیوبندی فتویٰ لگاتے ہیں ذرا ادھر بھی جرات کریں نمبر3۔ جسطرح داتا صاحبؓ نے فرمایا کہ لوگ نقلی صوفیوں کو دیکھ کر تمام صوفیوں کو نقلی صوفیوں کیطرح برا سمجھنے لگتے ہیں یہی حال دیوبندیوں اور وہابیوں کا بھی ہے کہ وہ کچھ جاہلوں کی وجہ سے تمام اہلسنت پر تہمت لگاتے ہیں اور مزارات اولیاء سے بغض رکھتے ہیں۔ اللہ پناہ دے ان شرپسندوں سے نمبر 4۔ اعلیحضرت کی وفات 1340ھ میں ہوئی اور داتا علی ہجویری کی قریباً 456ھ ہے تو اعلیحضرت سے قریباً 884 سال پہلے بھی بقول داتا صاحب کے جعلی پیری مریدی کا سلسلہ چالو تھا اور ان میں تمام لغویات گانابجانا وغیرہ موجود تھا اور فرماتے ہیں کہ یہ زمانہ دین میں سستی و غفلت کا ہے جب 884 سال پہلے داتا صاحب نےلکھا کہ یہ زمانہ دین میں سستی اور غفلت کا اس وجہ سے داتا صاحب کے زمانے میں لغویات و خرافات موجود تھیں تو دیوبندیوں ذرا سوچ کر بتائو کہ آج کے اس زمانے میں اس پرفتن دور میں بنسبت داتا صاحب کے دور کے کتنی جہالت پھیل چکی ہے کتنی بےحیائی بڑھ چکی ہے تو اس دور میں خلاف شرع امور کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ امام ابن حجر ہیتمی مزارات پر خرافات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ سائل نے مزارات پر ہونے والی جن خرافات کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے سبب مزار کو جانے کو نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ انسان پر لازم ہے کہ وہ ان مزارات پر ہونے والی بدعات کا انکار کرے اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے الفتاویٰ الفقیہة الکبرٰی کتاب الصلوٰة باب الجنائز جلد2صفحہ 24 المکتبة الاسلامیہ۔ اعلیحضرت بزرگان دین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایك بارحضرت محبوب الٰہی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کسی نے عرض کی آجکل بعضے خانقاہ دار درویشوں نے مزامیر کے مجمع میں وجد کیا۔ فرمایا: اچھا نہ کیا جو بات شرع میں ناروا ہے وہ کسی طرح پسندیدہ نہیں۔ سیرالاولیاء باب نہم مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد ص ۵۳۰ کسی نے عرض کی کہ جب وہ لوگ وہاں سے باہرآئے ان سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیا کیا وہاں تو مزامیر تھے تم نے وہاں جا کر کیوں قوالی سنی اور وجد کیا، وہ بولے ہم ایسے مستغرق تھے کہ ہمیں مزامیر کی خبرنہ ہوئی، حضرت شیخ المشائخ نظام الحق والدین نے فرمایا: یہ جواب بھی محض مہمل ہے سب گناہوں میں یہی حیلہ ہو سکتاہے۔ سیرالاولیاء باب نہم مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد ص ۵۳۱ اعلیحضرت فرماتے ہیں دیکھو کیسا قاطع جواب ارشاد ہوا۔ آدمی شراب پئے اور کہہ دے کمال استغراق کے سبب ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یا پانی، زنا کرے اور کہہ دے ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جوروہے یا بیگانی۔ فتاویٰ رضویہ جلد 21 ص562 اب ذرا وہابی دیوبندی انصاف کی نظر سے دیکھیں کہ جن لغویات کو وہ امام احمد رضا کی طرف تھوپتے ہیں اسی امام احمد رضا نے ان لغویات و خرافات کا کسطرح رد فرمایا ہے۔ مزید اگلے صفحے پر لکھتے ہیں کہ ایك بار کسی نے عرض کی کہ فلاں موضع میں بعض یاروں نے مجمع کیا اور مزامیر وغیرہ حرام چیزیں ہیں، حضرت سلطان المشائخ رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نے منع فرمادیا ہے کہ مزامیر ومحرمات درمیان نہ ہوں، ان لوگوں نے اچھا نہ کیا۔ فتاویٰ رضویہ جلد21ص 563 اب دیوبندی کیا کہیں گے کہ حضرت سلطان المشائخؓ کے منع کرنے کے بعد بھی لوگ منکرات شرعیہ سے بعض نہ آئے تو اسمیں پیر صاحب کا قصور ہے یقیناً آپ کا قصور نہیں ہے کیونکہ آپ نے تو واضح رد فرمایا ہے ٹھیک اسی طرح ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ علمائے اہلسنت نے ہمیشہ سے منکرات شرعیہ کا رد فرمایا ہے ہمارے بزرگوں کی یہ تعلیم ہرگزنہیں ہے جو آج کل جہلاء میں رائج ہے مسلک اعلیحضرت اس سے بالکل بری ہے ۔ لہذا مزارات پر اگر بعض جاہل لوگ غیر شرعی حرکات کرتے ہیں تو ہرگز اسکا یہ حل نہیں کہ سنیت کو چھوڑ کر نجدی ہوجائیں یا اس مزار کو شہید کیاجائے اگر کسی نجدی کا باپ بے نمازی هوگا تو کیا نجدی اسکی اصلاح کرے گا یا اپنا باپ بدل لے گا یا اس باپ ہی کو ماردے گا؟ جسطرح امام ابن حجر نے ان منکرات کا رد فرماکر عمل مستحب کو جائز و رواں رکھنے کا حکم دیا ٹھیک اسی طرح اعلیحضرت نے بھی تمام منکرات شرعیہ کا رد فرماکر مزارات اولیاء سے صحیح عقیدت رکھنے کی تعلیم دی ہے مگر وہابی اپنے کفر کو چھپانے کیلیے اعلیحضرت پر وہ الزام لگاتے ہیں جسکا اعلیحضرت سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ امام اہلسنت اور علمائے اہلسنت نے ان تمام لغویات کا بڑی شدومد سے رد فرمایاہے۔ اس پر میں الحمدللہ پہلے کتاب لکھ چکاہوں جس بھائی کو ضرورت ہو مجھ سے اس نمبر پر رابطہ کرکے مانگ سکتاہے پی ڈی ایف میں 03423111899 ۔ جوکہ میرے ٹیلی گرام چینل "تحقیق" پر بھی مزارات پرخرافات اورفعلِ جہلاء کار۔ کے نام سے موجود ہے اب میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کیطرف کہ کسطرح علمائے اہلسنت نے جعلی صوفیوں اور جعلی پیروں عاملوں اور بدمذہب سیدوں وغیرہ کا رد بلیغ کیا ہے پیر کیسا ہونا چاہئے ؟ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ (1) سنی صحیح العقیدہ ہو۔ (2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ (3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔ (4) اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳، ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت کرے جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔ لیکن ہمارے اس معاشرے میں جاہل پیروں اور شیطانی صفت صوفیوں نے لوگوں میں علماء کرام کے بارے میں بغض بھر رکھا ہے جب علماء انکی اصلاح کیلیے جعلی پیروں کا رد کرتے ہیں تو جاہل عوام خاص کر کے سنی عوام علماء کے مخالف آکر انکو گالیاں دینے شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔ یہاں پیر کے کامل ہونے کیلیے مرید کا جاہل ہونا ضروری ہے جتنا بڑا جاہل مرید ہوگا پیر اتنا ہی بڑا کرنی دا اور پہنچا ہوا ہوگا۔ہمارے معاشرے میں اکثر جاہل پیروں میں مذکورہ شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے وہ لوگ اپنے مریدوں کو شریعت و طریقت کو دو الگ راہیں بتاکر اپنا مرید بنالیتے ہیں اور پھر انکو گمراہ اور کنگال کرتے رہتے ہیں جبکہ شریعت و طریقت جدا نہیں ہیں مفتی امجد علی اعظمی نے بہار شریعت کے حصہ اول ص 265 پر بحوالہ اعلیحضرت لکھا کہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان ارشاد فرماتے ہیں : ’’حاشا! نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں ، علامہ مناوی ’’شرح جامع صغیر ‘‘پھر عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی ’’حدیقہ ندیہ ‘‘میں فرماتے ہیں : امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : علم الباطن لا یعرفہ إلاّ من عرف علم الظاہر [’’الحدیقہ الندیہ‘‘، النوع الثاني، ج۱، ص۱۶۵] ۔ علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے، امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاہلاً، اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا، یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا کہ جو علم ظاہر نہیں رکھتا علم باطن کہ اسکا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر پاسکتا ہے ‘‘ ’’فتاوی رضویہ‘‘ ،ج۲۱، ص۵۳۰۔ اور اسی صفحہ 265 پر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ اور ولایت بے علم کو نہیں ملتی، (4) خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر اﷲ عزوجل نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں ۔ ص265 اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ جس حقیقت کو شریعت رد کردے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے۔فتاویٰ رضویہ جلد21 ص546 پھر آپ نے حضرت جنیدؓ کا ارشاد نقل فرمایا کہ شریعت کی پرواہ نہ کرنے والے جعلی صوفیاء سے چور اور زانی بہتر ہیں ۔ ص546 ذرا غور کریں کہ چور کی سزا شریعت میں ہاتھ کاٹنا ہے اور زناہ کا قتل کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کے بعد زنا کو گناہ کبیر بیان فرمایا ہے اورحضرت جنیدؓ نے جعلی صوفیوں کو ان دونوں سے بدتر بتایا ہے کیونکہ زانی جسم و عزت کا دشمن ہے اور چور مال و دولت کا مگر جاہل صوفی سب سے بڑا دشمن یعنی دین و ایمان اور شریعت محمدی کا دشمن ہے تو اسکی سزا کیا ہونی چاہیے؟ احکام شرع کی پابندی نہ کرنے والا زندیق ہے اور اسکے ہاتھ پر ظاہر ہونیوالے خوارق عادات مکرواستدراج ہیں۔ ص 546 مدعی تصوف اگر شریعت و طریقت کو جدا بتائے تو دروغ گو اور لاف زن ہے۔ ص 548 سوبات کی ایک بات یہ ہے کہ ولی کا علم کتاب و سنت سے باہر نہ جائے گا۔ ص 549 اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ بالجملہ شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایك ایك سانس ایك ایك پل ایك ایك لمحہ پر مرتے دم تك ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو اور زیادہ کہ راہ جس قدر باریك اس قدر ہادی کی زیادہ حاجت ولہذا حدیث میں آیا حضور سیدی عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:بغیر فقہ کے عبادت میں پڑنے والا ایساہے جیسا کہ چکی کھینچنے والا گدھا کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں(اسے ابونعیم نے حلیہ میں واثلہ بن الاسقع رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ترجمہ ۳۱۸ خالد بن معدان دارالکتاب العربی بیروت ۵/ ۲۱۹۔ فتاویٰ رضویہ جلد21ص527 امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں:دو شخصوں نے میری پیٹھ توڑدی(یعنی وُہبلائے بے در ماں ہیں)جاہل عابد اور عالم جو علانیہ بیباکانہ گناہوں کا ارتکاب کرے۔ اعلیحضرت نے لکھا کہ اولیائے کرام فرماتے ہیں صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔اسی لئے حدیث میں آیا حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی ع لیہ وسلم نے فرمایا:کہ ایك فقیہ شیطان پرہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے(اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔جامع الترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۳،سنن ابن ماجہ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰۔ بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے منہ میں لگام،ناك میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے "وَ ہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا ﴿۱۰۴﴾ اور وہ اپنے جی میں سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ص528 لوگوں کو گمراہ کرنے والے گمراہ پیروں کے متعلق اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ گمراہ اور گمراہی کی طرف بلانے والا وارث نبی نہیں نائب ابلیس ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ ص 530۔ اعلیحضرت عالم کے علم کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ جو عالم شریعت ہو مگر اپنے علم پر عمل نہ ہو صرف اسکے علم کی وجہ سے شریعت میں اسکا کیا مقام و مرتبہ ہے چنانچہ ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ عالم شریعت اگراپنے علم پر عامل بھی ہو چاند ہے کہ آپ ٹھنڈا اور تمھیں روشنی دے ورنہ شمع ہے کہ خو دجلے مگر تمھیں نفع دے،رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کہ اس شخص کی مثال جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتاہے اس فتیلہ کی طرح ہے کہ لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتاہے اس کو بزار نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اور طبرانی نے حضرت جندب بن عبداﷲ ازدی اور حضرت ابوبرزہ السلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے بسند حسن روایت کیا۔ت) الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی والبزار مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۷۔۱۲۶ و ۳/۲۳۵ ص 531۔ اسی طرح ایک اور روایت نقل کی کہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:جب آدمی قرآن مجید پڑھ لے اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثیں جی بھر کر حاصل کرے اور اس کے ساتھ طبیعت سلیقہ دار رکھتا ہو تو وہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے نائبوں سے ایك ہے۔(اسے امام رافعی نے اپنی تاریخ میں ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)۔کنز العمال بحوالہ الرافعی فی تاریخہ حدیث ۲۸۶۹۴ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/ ۱۳۸۔اسی حدیث کے تحت اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ دیکھوحدیث نے وارث تو وارث خلیفۃ الانبیاء ہونے کے لئے صرف تین شرطیں مقرر فرمائیں قرآن وحدیث جانے اور ان کی سمجھ رکھتاہو،خلیفہ ووارث میں فرق ظاہر ہے آدمی کی تمام اولاد اس کی وارث ہے مگر جانشین ہونے کی لیاقت ہر ایك میں نہیں۔ پھر آگے قرآن کی آیات سے مزید دلائل دیکر فرمایا کہ:ظاہر ہے کہ یہ سب اوصاف علمائے شریعت میں ہیں تو وہ ضرور ربانی ہیں۔ پھر آگے مزید احادیث بیان کرکے علماء کرام کو شیطان کہنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ:جبکہ اﷲ عزوجل علمائے شریعت کو اپنا چنا ہوا بندہ کہتا ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انھیں اپنا وارث اپنا خلیفہ انبیاء کا جانشین بتاتے ہیں تو انھیں شیطان نہ کہے گا مگر ابلیس یا اس کی ذریت کا کوئی منافق خبیث یہ میں نہیں کہتا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کہ تین شخصوں کے حق کو ہلکانہ جانے گا مگر منافق منافق بھی کون سا کھلا منافق۔ایك بوڑھا مسلمان جسے اسلام ہی میں بڑھاپا آیا،دوسرا عالم دین،تیسرا بادشاہ مسلمان عادل،(اس کو ابوالشیخ نے توبیخ میں جابر سے اور طبرانی نے کبیر میں ابوامامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے بسند حسنہ الترمذی فی غیر ھذا الحدیث۔المعجم الکبیر عن ابی امامہ حدیث ۷۸۱۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸/ ۲۳۸،کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ فی التوبیخ حدیث ۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶/ ۳۲ ۔ ایک اور روایت میں ہےکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لوگوں پر زیادتی نہ کرے گا مگر ولد الزنا یا وہ جس میں اس کی کوئی رگ ہو۔(اسے طبرانی نے کبیر میں ابو موسٰی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت) مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب الخلافۃ باب فی عمال السؤالخ دارالکتاب بیروت ۵/ ۲۳۳ و ۶/ ۲۵۸،کنز العمال بحوالہ طب حدیث ۱۳۰۹۳ مؤسسۃالرسالہ بیروت ۵/ ۳۳۳ ۔ جب عام لوگوں پر زیادتی کے بارے میں یہ حکم ہے پھر علماء کی شان ارفع واعلٰی ہے بلکہ حدیث میں لفظ ناس فرمایا،اور اس کے سچے مصداق علماء ہی ہیں۔امام حجۃ الاسلام محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:سئل ابن المبارك من الناس فقال العلماء یعنی ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے تلمیذ رشید عبداﷲ بن مبارك رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حدیث وفقہ ومعرفت وولایت سب میں امام اجل ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ ناس یعنی آدمی کون ہیں،فرمایا:علماء۔امام غزالی فرماتے ہیں:"جو عالم نہ ہو امام ابن المبارك نے اسے آدمی نہ گنا اس لئے کہ انسان اور چوپائے میں علم کا فرق ہے، احیاء العلوم کتاب العلم الباب الاول مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ۱/۷ ان سب دلائل کے بعد اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ:بیانات بالا سے واضح ہے کہ علمائے شریعت ہر گز طریقت کے سدر ایك ادب پر توامین ہے نہیں اسرار الٰہیہ پر کیونکر امین ہوگا۔الرسالۃ القشیریۃ باب الولایۃ مصطفی البابی مصر ص۱۱۷ قول ۱۳:نیز حضرت بسطامی رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں:اگر تم کسی شخص کو دیکھو ایسی کرامت دیا گیا کہ ہوا پر چار زانو بیٹھ سکے تو اس سے فریب نہ کھانا جب تك یہ نہ دیکھو کہ فرض،واجب ومکروہ و حرام ومحافظت حدود وآداب شریعت میں اس کا حال کیسا ہے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابو یزید البسطامی مصطفی البابی مصر ص۱۵ قول ۱۴:حضرت ابو سعید خراز رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حضرت ذوالنون مصری سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے اصحاب اور سید الطائفہ جنید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اقران سے ہیں فرماتے ہیں: جو باطن کہ ظاہر اس کی مخالفت کرے وہ باطن نہیں باطل ہے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابو سعید خراز مصطفی البابی مصر ص۲۴ علامہ عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قد س سرہ القدسی اس قول مبارك کی شرح میں فرماتے ہیں:اس لئے کہ جب اس نے ظاہر کی مخالفت کی تو وہ شیطانی وسوسہ اور نفس کی بناوٹ ہے۔ الحدیقۃ الندیۃ الباب الاول الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۱۸۶ قول ۱۵:حضرت سیدنا حارث محاسبی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اکابر ائمہ اولیاء معاصرین حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں فرماتے ہیں: جو اپنے باطن کو مراقبہ اور اخلاص سے صحیح کرلے گا۔لازم ہے کہ اﷲ تعالٰی اس کے ظاہر کو مجاہدہ وپیروی سنت سے آراستہ فرمادے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر حارث محاسبی مصطفی البابی مصر ص۱۳ ظاہر ہے کہ انتفائے لازم کو انتفائے ملزوم لازم تو ثابت ہواکہ جس کا ظاہر زیور شرع سے آراستہ نہیں وہ باطن میں بھی اﷲ عزوجل کے ساتھ اخلاص نہیں رکھتا۔ قول ۱۶:حضرت سیدنا ابوعثمان حیری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اجلہ اکابر اولیاء معاصرین حضرت سید الطائفہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے ہیں وقت انتقال اپنے صاحبزادے ابوبکر رحمہ اﷲ تعالٰی سے فرمایا:اے میرے بیٹے! ظاہر میں سنت کا خلاف اس کی علامت ہے کہ باطن میں ریا کاری ہے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوعثمن سعید بن اسمعیل الحیری مصطفی البابی مصر ص۲۱ قول ۱۷:نیز حضرت سعید بن اسمعیل حیری ممدوح رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ زندگانی کا طریقہ یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرے اور علم ظاہر کو لازم پکڑے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوعثمن سعید بن اسمعیل الحیری مصطفی البابی مصر ص۲۱ قول ۱۸:حضرت سید ابوالحسین احمد بن الحواری رضی اﷲ تعالٰی عنہ جن کو حضرت سید الطائفہ ریحانۃ الشام یعنی ملك شام کا پھول کہتے تھے فرماتے ہیں: جو کسی قسم کا کوئی عمل بے اتباع سنت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کرے وہ عمل باطل ہے۔ الرسالۃ القشیریۃ ذکر ابوالحسین احمد بن الحواری مصطفی البابی مصر ص۱۸ قول ۱۹:حضرت سیدی ابوحفص عمر حداد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ اکابر ائمہ عرفاء و معاصرین حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں فرماتے ہیں: جو ہر وقت اپنے تمام کام احوال کو قرآن وحدیث کی میزان میں نہ تولے اور اپنے وارادات قلب پر اعتماد کرلے اسے مردوں کے دفترمیں نہ گن۔ الرسالہ القشیریۃ ذکر ابوحفص عمر الحداد مصطفی البابی مصر ص۱۸ قول ۲۰:حضرت سیدنا ابوالحسین احمد نوری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ حضرت سری سقطی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اصحاب اور حضرت سید الطائفہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے اقران سے ہیں فرماتے ہیں:تو جسے دیکھے کہ اﷲ عزوجل کے ساتھ ایسے حال کا ادعا کرتاہے جو اسے علم شریعت کی حد سے باہر کرے اس کے پاس نہ پھٹک۔الرسالہ القشیریۃ ذکر ابوالحسین احمد نوری مصطفی البابی مصر ص۲۱ قول ۲۵: سید نا ابوعلی رود باری بغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ خلفائے حضرت جنید بغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہیں حضرت عارف باﷲ سیدنا استاذ ابوالقاسم قشیری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا: مشائخ میں ان کے برابر علم طریقت کسی کو نہ تھا۔ آپ سے سوال ہواکہ ایك شخص مزامیر سنتاہے اور کہتا ہے یہ میرے لئے حلال ہے اس لئے کہ میں ایسے درجے تك پہنچ گیا ہوں کہ احوال کے اختلاف کا مجھ پر کچھ اثر نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا: ہاں پہنچا تو ضرور ہے مگر جہنم تک،والعیاذ باﷲ تعالی۔ الرسالۃ القشیریۃ ابوعلی احمد بن محمد رودباری مصطفی البابی مصر ص۲۸ قول ۲۸:حضرت سیدی ابوالقاسم نصرآبادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حضرت سید ناابوبکر شبلی وحضرت سیدنا ابوعلی رودباری رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے اجلہ اصحاب سے ہیں فرماتے ہیں: تصوف کی جڑیہ ہے کہ کتاب وسنت کو لازم پکڑے رہے۔ الطبقات الکبرٰی للشعرانی ذکر ابی القاسم ابراہیم بن محمد النصرآبادی مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۲۳ قول ۲۹:حضرت سیدی جعفر بن محمد خواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ مریدو خلیفہ حضرت سیدا لطائفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: میں کوئی چیز معرفت الٰہی وعلم احکام الٰہی سے بہتر نہیں جانتا۔ اعمال بے علم کے پاك نہیں ہوتے،بے علم کے سب عمل برباد ہیں،علم ہی سے اﷲ کی معرفت ومعرفت اطاعت ہوئی، علم کو وہ ہی ناپسند رکھے گا جو کم بخت ہو۔ الطبقات الکبرٰی للشعرانی ذکرسیدجعفربن محمدالخواص مصطفی البا بی مصر ۱/ ۱۹۔۱۱۸ قول ۳۱:حضرت سیدنا شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہروردی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سردار سلسلہ علیہ سہروردیہ اپنی کتاب مستطاب میں فرماتے ہیں: یعنی کچھ فتنہ کے مارے ہوؤں نے صوفیوں کا لباس پہن لیا ہے کہ صوفی کہلائیں حالانکہ ان کو صوفیہ سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ وہ ضرور غلط میں ہیں بکتے ہیں کہ ان کے دل خالص خدا کی طرف ہوگئے اور یہی مراد کو پہنچ جانا ہے اور رسوم شریعت کی پابند ی عوام کا مرتبہ ہے ان کا یہ خالص الحاد وزندقہ اﷲ کی بارگاہ سے دور کیا جانا ہے اس لئے کہ جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے۔عوارف المعارف الباب التاسع فی ذکر من الصوفیۃ الخ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ص۷۱ و ۷۲ پھرجنید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ جو چوری اور زنا کرے وہ ان لوگوں سے بہتر ہے۔عوارف المعارف الباب التاسع فی ذکر من الصوفیۃ الخ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ص۷۱ و ۷۲ قول ۳۵:نیز حضرت سید محی الدین ابن عربی رضی اﷲ تعالٰی عنہ فتوحات میں فرماتے ہیں: یقین جان کر میزان شرع جو اﷲ عزوجل نے زمین میں مقرر فرمائی ہے وہ یہی ہے جو علماء شریعت کے ہاتھ میں ہے تو جب کبھی کوئی ولی اس میزا ن شرع سے باہر نکلے اور اس کی عقل کہ مدار احکام شرعیہ ہے باقی ہو تو اس پر انکار واجب ہے۔ الیواقیت والجواہر الفصل الرابع مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۶ قول ۳۶:نیز حضرت بحرالحقائق ممدوح رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: یقین جان کہ اولیاء مرشدین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی میزانیں کبھی شریعت سے خطا نہیں کرتیں وہ مخالف شرع سے محفوظ ہیں۔ الیواقیت والجواہر الفصل الرابع مصطفی البابی مصر ص۲۶ و ۲۷ قول ۴۷:نیز ولی موصوف قدس سرہ فرماتے ہیں: تصوف کیا ہے بس احکام شریعت پر بندہ کے عمل کا خلاصہ ہے۔ الطبقات الکبرٰی للشعرانی مقدمۃ الکتاب مصطفی البابی مصر ۱/ ۴ قول ۴۸:پھرفرمایا:علم تصوف چشمہ شریعت سے نکلی ہوئی جھیل ہے۔ الطبقات الکبرٰی للشعرانی مقدمۃ الکتاب مصطفی البابی مصر ۱/ ۴ قول ۵۱:نیز عارف معروف قدس سرہ فرماتے ہیں: سچا کشف ہمیشہ شریعت کے مطابق ہی آتا ہے جیسا کہ اس فن کے علماء میں مقرر ہوچکا ہے۔المیزان الکبرٰی فصل فان قال قائل ان احدالا یحتاج الٰی ذوق مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۲ قول ۵۲:حضرت عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی فرماتےہیں: وہ جو ہمارے زمانے کے بعض صوفی بننے والے ادعا کرتے ہیں کہ اے علم ظاہر والو ! تم اپنے احکام کتا ب وسنت سے لیتے ہو اور ہم خود صاحب قرآن سے لیتے ہیں یہ بالاجماع قطعا بوجوہ کثیرہ کفر ہے ازانجملہ یہ عقل وبلوغ شرائط تکلیف ہوتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم زیراحکام شریعت نہیں۔ یہیں فرمایا:گر علم ظاہر چھوڑ نے سے اس کا نہ سیکھنا اور اس کا اہتمام نہ کرنا مرادلے اس خیال سے کہ علم ظاہر کی طرف حاجت نہیں تو اس نے کلام الٰہی کو احمق بتایا اور انبیاء کو بیوقوف ٹھہرایا، رسولوں کے بھیجنے کتابوں کے اتارنے کو عبث وباطل کی طرف نسبت کیا تو کچھ شك نہیں کہ وہ کافر ہے اور اس کا کفر سب سے سخت تر کفر۔الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ الباب الاول الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۱۵۹ قول ۵۴:حضرت قطب ربانی محبوب یزدانی مخدوم اشرف جہانگیر چشتی سمنانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سردار سلسلہ چشتیہ اشرفیہ فرماتے ہیں: اگر اوصاف ولایت والے ولی سے خارق عادت ظاہر ہو تو وہ کرامت ہے اور اگر مخالف شریعت سے صادر ہو تو استدارج ہے۔ لطائف اشرفی لطیفہ پنجم مکتبہ سمنانی کراچی ۱/ ۱۲۶ قول ۵۵:ولی جب تك شرعیت کو مکمل طو ر پر نہ اپنائے ولایت میں قدم نہیں رکھ سکتا بلکہ اگر اس کا انکار کرے تو کافر ہے۔(ت) نفحات الانس ذکر ابی المکارم رکن الدین احمد بن محمد از انتشارات کتابفروشی تہران ایران ص۴۴۳ قول ۵۶:حضرت سیدی شیخ الاسلام احمد نامقی جامی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت سیدی خواجہ مودود چشتی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا: پہلے عبادت کا مصلی طاق پر رکھ اور جا کر علم حاصل کرکیونکہ جاہل شیطان کا مسخرہ ہوتاہے۔(ت)۔نفحات الانس ذکر خواجہ قطب الدین مودود چشتی انتشارات کتابفروشی تہران ایران ص۳۲۹ قول ۵۷:حضرت مولانا نورالدین جامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں: اگر لاکھ خارق عادات ظاہر ہوں جب تك ظاہر وباطن شریعت وآداب طریقت کے موافق نہ ہو تو وہ مکر اور استد راج ہوگا ولایت وکرامت کا مصداق نہ ہوگا۔ لطائفاشرفی لطیفہ پنجم مکتبہ سمنانی کراچی١٢٩ /۱۰ فتاویٰ رضویہ جلد21ص537تا561 مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں کہ جو خلاف شرع کام کرے وہ پیر نہیں کاروباری ہے بے عمل پیر و جاہل مرید ص 2 حکایت حضرت بایزید قدس سرہ: ایک شخص حضرت بایزید کی خدمت میں اس غرض سے آیا کہ وہ آپ کی کرامت ملاحظہ کرے اس نے سمجھا ہوا تھا کہ ولی وہ ہوتا ہے جس سے کرامت کا ظہور ہو حالانکہ یہ غلط ہے، ولی وہ ہوتا ہے جو اتباع رسول کا سر چشمہ اور مظہر ہو خیر وہ اپنے زعم کے مطابق حضرت جنید کی کرامت دیکھنے کیلیے پورا ایک سال آپ کی خدمت میں رہا لیکن اس کو آپ کی کوئی کرامت نظر نہ آئی تو وہ پراگندہ خاطر ہوکر جانے لگا، آپ نے بڑی محبت اور شفقت سے اس سے پوچھا کہ کیوں کیا بات ہے؟ کیوں جارہے ہو؟ ہم سے تمہارے حق میں کیا قصور سرزد ہوا؟ اس نے کہا قصور تو کوئی نہیں ہوا مگر ایک سال میں مجھے آپ کی کوئی کرامت نظر نہیں آئی، آپ نے فرمایا کہ یہ بتائو کہ تم نے اس عرصے میں میرا کوئی کام خلاف سنت دیکھا ہے ؟ اس نے برملا کہا ہرگز نہیں ہرگز نہیں! آپ نے فرمایا کہ جائو جنید کی یہی کرامت ہے بے عمل پیر و جاہل مرید ص،3 اور اسی صفحہ پر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں پیر اسے سمجھا جاتا ہے جو کرامات دکھائے حالانکہ پیری مریدی کیلیے کرامات شرط نہیں شریعت کی پابندی شرط ہے ۔ حکایت بایزید : حضرت بایزید بسطامی کا ایک مرید تھا جو اکثر آپکی خدمت میں حاضر رہتا اسکی عادت تھی کہ وہ تبرک کے طور پر آپ کا پس خوردہ کھاتا اور جانتا کہ میری کشود کار اور نجات اسی میں ہے حضرت بایزید نے اسے فرمایا کہ اگر تو مجھ کو ذبح کرکے میرا گوشت اور ہڈیاں بھی کھاجائے تو تجھے اتباع رسول کے بغیر کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ صفحہ 3 مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جو داڑھی مونڈتا ہے، خشی داڑھی والا ہے نماز نہیں پڑھتا، حلال و حرام کا امتیاز نہیں رکھتا وغیرہ وغیرہ وہ شرعی روحانی اور حقیقی پیر و مرشد نہیں بلکہ رسمی کاروباری آدمی ہے جن کو ہم اللہ اولیاء کہتے ہیں قیامت میں یہ ان میں سے نہ ہوگا بلکہ یہ دوسری عوام میں ہوگا جن کو اپنی پڑی ہوگی جب یہ خود گم ہو قیامت میں مریدوں کے خاک کام آئے گا جو لوگ خلاف شرع پیروں کے مرید ہورہے ہیں وہ خود سوچ لیں کہ ۔ آنکہ خود گم است کرارہبری کند ان خلاف شرع پیروں سے دنیوی کا م تو لیتے رہو مثلاً تعویذات لینا دم درود کرانا دعائیں کرانا یہ ان کا آبائی پیشہ ہے یا وہ اگر سیاست میں حصہ لیتا ہے تو حکومتی امور کیلیے کام کرانا وغیرہ وغیرہ لیکن اولیاء اللہ نہیں بلکہ کاروباری لوگ ہیں جیسے تجارت پیشہ ہے کوئی پیشہ ہے یہ پیری مریدی پیشہ ور ہیں ایسے لوگوں سے اسلامی، روحانی، شرعی، حقیقی بیعت ناجائز ہے، ایسے پیروں سے رسم ادا کرنی ہے تو لوگ جانیں انکا کام جانے ورنہ تمام سلاسل طیبہ کے تمام اولیاء کرام و مشائخ عظام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ خلاف شرع کام کرنے والا پیرو مرشد بنے کے لائق نہیں نہ اسکی بیعت جائز ہے نہ سلسلہ بیعت کا دعویٰ صحیح وہ سبزی فروشی کی طرح ایک دھندہ ہے بلکہ اس سے بدتر کہ سبزی فروشی اور دیگر پیشہ کا نام کسب حلال ہے اور خلاف شرع ہوکر رسول اللہ کا نائب بننا اور عوام کو دھوکا دینا ابلیسی شیوہ ہے۔ صفحہ 6 جس شخص کے اخلاق و اطوار، افعال و اقوال، سنتِ رسول خدا کے مطابق نہ ہوں، وہ کسی صورت میں بھی پیر بننے کے لائق نہیں ۔ صفحہ 7 مولانا رومؓ ایسے ہی ڈاکو اور پیشہ ور پیروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ۔ کار شیطان میکند نامش ولی گرولی ایں است لعنت برولی کام شیطان کے کرتا ہے ولی کہلاتا ہے اگر ولی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں تو ایسے ولی پر لعنت ہو۔ صفحہ ص 7 غرض یہ کہ پیر و مرشد کا منصب علماء کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا لہذا جو عالم دین نہیں اسکی بیعت جائز نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں ۔ صفحہ7 یاد رکھئیے پیر وہی ہے جو شریعت کا تابعدارہو ۔ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی بھی بیعت کے وقت کسی اجنبی عورت کا ہاتھ اپنے دستِ اقدس میں نہ لیا ۔ اصلی اور نقلی پیرص13بحوالہ بخاری آج کل پیروں کو دیکھیں, عورتوں کے ماتھوں کو ، ہاتھوں کو چھوتے رہتے ہیں ۔ ہاتھوں میں ایک سے زائد انگوٹھیاں پہنتے ہیں اپنے بالوں کوشانوں سے بھی لمبا کرتے ہیں نمازکی بالکل پرواہ نہیں کرتے ۔ ایسے پیرہرگز ہرگز قابل بیعت نہیں نہ ان کی ارادت جائز اور نہ ہی ان سے فیض کا حصول ،جو اَیسوں کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجے وہ حدیث کے مطابق دیُّوث یعنی بے غیرت ہے ۔ بدمذہب سیّد یا غیرسیّد کا شرعی حکم : سَیِّد کا لغوی معنیٰ ”سردار“ ہے مگرپاک و ہند میں اِصطلاحاً وہ لوگ سَیِّد کہلاتے ہیں جو حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اَولاد ہیں جبکہ عرب میں ہرمعزز شخص کو ”سَیِّد“ اور امامین حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اَولاد کو ”شریف“ کہا جاتا ہے ۔ اعلیحضرت امامِ اہلسنّت فرماتے ہیں : سَیِّد“ سبطین کریمین یعنی امامین حَسَنَینِ کَرِیْمَیْن کی اولاد کو کہتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ،١٣/٣٦١) اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ: سادات کرام کی تعظیم فرض ہے اور انکی توہین حرام فتاویٰ رضویہ جلد22ص422 پھر مزید فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ اعلیحضرت فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ کی جائے گی جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔ (پارہ نمبر ۱۲،سورہ ھُود:۴۶) ترجَمہ : فرمایا اے نو ح (علیہ السّلام) وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١) مفتی نعیم الدِّین مُراد آبادی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (تفسیر خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶) جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ جان بوجھ کرسید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم فرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،الخ ،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلا دلیل تکذیب نہیں کر سکتے ، اَللہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨) *سید کفریہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا* اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ : جو کافر ہو وہ قطعاً سید نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح ترجمہ:۔ وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اسکے کام بڑے نالائق ہیں ۔(ت) نہ اسے سید کہنا جائز۔ *منافق کو سید نہ کہو* نبی علیہ السلام فرماتے ہیں منافق کو سید نہ کہو اگر وہ تمہارا سید ہوتو بیشک تم پر تمہارے رب کا غضب ہو ۔ روایت حاکم کے لفظ یہ ہیں کہ: جو کسی منافق کو اے سید کہے اسنے اپنے رب کا غضب اپنے اوپر لیا ۔ پھر یہی نہیں کہ یہاں صرف اطلاق لفظ سے ممانعت شرعی اور نسب سیادت کا انتقائے حکمی ہو حاشا بلکہ واقع میں کافر اس نسل طیب و طاہر سے تھاہی نہیں اگرچہ سید بنتا اور لوگوں میں براہ غلط سید کہلاتا ہو ائمہ دین اولیاء کاملین علمائے عالمین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین تصریح فرماتے ہیں کہ سادات کرام بحمد اللہ تعالیٰ خباثت کفر سے محفوظ و مصئون ہیں جو واقعی سید ہے اس سے کبھی کفر واقع نہ ہوگا جیساکہ قرآن پاک میں ہے: اللہ یہی تو چاہتا ہے کہ تم سے نجاست دور رکھے اے نبی کے گھر والو! اور تمہیں خوب پاک کردے ستھرا کرکے اعلیحضرت رافضیوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر سے بڑھ کر نفی سیادت پر اور کیا دلیل درکار، آگے لکھتے ہیں کہ علمائے کرام تصریح فرماچکے کہ سید صحیح النسب سے کفر واقع نہ ہوگا۔ اعلیحضرت لکھتے ہیں کہ یہ امر تو آسان ہوگیا ہے کہ ہزاروں اپنی اغراض فاسدہ سے براہ دعویٰ سید بن بیٹھے ہیں غلہ تا ارزاں شود امسال سیدمی شوم اس سال سید بنوں گا تاکہ خوراک میں آسانی ہو ۔ کوئی عقیدہ کفریہ رکھنے والا رافضی وہابی متصوف نیچری ہرگز سید صحیح النسب نہیں ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 15ص731 تا 739 اعلیحضرت امام ابن حجر کے الفاظ نقل فرماتے ہیں کہ بے شك میں اس بات پر جزم کرتاہوں کہ صحیح النسب سید سے حقیقی کفر کا وقوع نہیں ہوتا۔الخ(ت) اوربالفرض نفی خلود ببَلکہ بفرض غلط نفی دخول ہی قطعی مان لی جائے تو کس کےلئے،ان کے لیے جو عند الله سادات کرام ہیں،نہ ہر اس شخص کے لئے جو سید کہلاتاہو اگرچہ واقع میں نہ ہو فتاویٰ رضویہ جلد30 ص 77 مفتی خلیل احمد خان قادری مارہروی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ غیر سیّد اگر خود کو سیّد کہلاتا ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لعنت کا مستحق ہے اور اس پر جنّت حرام ہے ۔ فتاویٰ خلیلیہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 137 اعلیحضرت سے ایک تفصیلی سوال پوچھا گیا جسکا مختصر یہ ہے کہ تفضیلی شیعہ جو کہ سید ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اعلیحضرت نے محدثین کے اقوال سے افضلیت صدیق اکبر پر اجماع نقل کرکے تفضیلی شیعہ جو سید بھی ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی فرمایا ہے۔ چنانچہ اعلیحضرت لکھتے ہیں: (ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدیدمکروہ ہے۔ت)تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہاور پھیرنی واجب ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 622 ۔ متکلمین نے فرمایا اللہ کا ولی وہ ہے جس کا عقیدہ درست ہو، مبنی بر دلیل ہو: ویکون بالاعمال الصالحة علی وفق ماوردت به الشریعة. اور جس کے اعمال شریعت کے مطابقہوں۔ (امام فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج: 17، ص: 126) پوری تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم ان اولیاء کرام کے ماننے والے ہیں جیسا اللہ و رسول اور شریعت نے ہمیں بتایا ہے۔ اور ہم خود سب سے زیادہ لغویات و منکرات شرعیہ کا رد کرنے والے ہیں جیسا کہ تحقیق پیش ہے ہم ایسے جعلی اور لٹیرے پیروں سے بیزار ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علامہ فیض احمد اویسی فرماتے ہیں کہ: نقلی پیروں کے خلاف آواز بلند کرنا جہاد اکبر ہے۔ اصلی اورنقلی پیرمیں فرق ص,2 *ختم شدہ*_ازقلم_علی_حیدر___________
    1 point
  2. ~*"از قلم غلامِ احمد رضا علی حیدر سنی حنفی بریلوی*"~ مزارات پر ہونے والی خرافات اورفعلِ جہلاء کا رد *أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ* *الرَّجيـم* *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۞* *الصلوة والسلام علیک* *یارسول اللہ* *السلام علیکم* *گفتگو:* کچھ جاہل لوگ بسبب اپنی جہالت کے یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ بریلوی یعنی سنی ہمیشہ مزارات پر ناچتے گاتے ڈھول بجاتے ہیں اور عورتوں کو وہاں بے پردہ لیے پھرتے ہیں قبروں کو سجدے اور طواف کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ تمام بریلوی قبر پرست ہیں اور اسطرح وہ کئی قسم کی ویڈیوز اور تصاویر وغیرہ شئیر کرتے رہتے ہیں مختلف مقامات پر اور جب ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ایسے گناہ اور خرافات کرنے والے اسکے ذمہ دار خود ہیں اس سے ہمارے مسلک کا کیا تعلق جہلاء کا فعل کبھی شریعت کیلیے حجت نہیں ہوسکتا ہے ایسے گناہ کرنے والوں کو اپنے ان گناہوں کا بوجھ خود کرنے والے کو اٹھانا پڑیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ *وَ لَا تَکۡسِبُ کُلُّ نَفۡسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی* ترجمہ اور جو کوئی کچھ کمائے وہ اسی کے ذمہ ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی سورت الانعام 164 اب ذرا دیکھتے ہیں کہ مزارات پرہونے والی ان تمام خرافات کے بارے میں سنی علماء کرام کی تحریرات اور فتوے *{سب سے پہلے فتویٰ رضویہ سے* *غیر خدا کو سجدے کے بارے میں تحقیق}* *نوٹ* : اعلیحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ نے غیر خدا کوسجدہ حرام ہونے کے متعلق ایک رسالہ لکھا ہے جو کہ *الزبدتہ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ* کے نام سے فتویٰ رضویہ میں موجود ہے فتویٰ رضویہ جدید جلد 22،ص 425تا537 قدیم جلد 9, نصفِ آخر،ص212 تا247 مکتبہ رضویہ، جلد10, نصف آخر،ص212تا247 *یہ رسالہ قریباً 112 صفحات پر مشتمل ہے* اور اسمیں اعلیححضرت نے تین فصل قائم کی ہیں فصل اول: قرآن قریم سے سجدہ تحیت کی تحریم فصل دوم: چالیس حدیثوں سے تحریم سجدہ تحیت کا ثبوت فصل سوم: ڈیڑھ سو یعنی کہ 150 نصوص فقہ سے سجدہ تحیت کے حرام ہونے کا ثبوت اس رسالہ کے نام سے ہی واضح ہے کہ اعلیحضرت نے کسطرح سجدہ تعظیمی کے حرام ہونے پر کلام کیا ہے صرف رسالہ کے نام سے ہی سجدہ تعظیمی کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے اتنی بڑی اور عمدہ تحقیق موجود ہے اعلیحضرت کی لیکن میں صرف مختصر یہاں بیان کروں گا ان شاء اللہ اعلیحضرت نقل فرماتے ہیں کہ شریعت میں اس کے سوا کسی غیر کو سجدہ حرام ہوگیا مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت جلالہ کے سوا کسی کے لئے نہیں۔اس کے غیر کو سجدہ عبادت یقینا اجماعا شرك مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت حرام وگناہ کبیرہ بالیقین ہے جلد 22 صفحہ 429 سجدہ تحیت ایسا سخت حرام ہے کہ مشابہ کفر ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی صحابہ کرام نے حضور کو سجدہ تحیت کی اجازت چاہی اس پر ارشاد ہوا کیا تمھیں کفر کا حکم دیں،معلوم ہوا کہ سجدہ تحیت ایسی قبیح چیز ایسا سخت حرام ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا:جب حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سجدہ تحیت کا یہ حکم ہے پھر اوروں کا کیا ذکر۔واﷲ الھادی۔ جلد 22 صفحہ 437 لایجوز السجود الا اﷲ تعالٰی [3]۔ سجدہ غیر خدا کے لئے جائز نہیں۔ غیر خدا کو سجدہ تحیت شراب پینے اور سوئر کھانے سے بھی بدتر ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی جلد22 ص 467 ثابت ہوا کہ غیر خدا کے لئے سجدہ حرام ہے بیشك محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دین میں اﷲ عزوجل کے سوا سجدہ کسی کے لئے حلال نہیں *{پیروں کو سجدہ کرنا}* السجد حرام لغیرہ سبحانہ تعالٰی [3]۔ غیر خدا کو سجدہ حرام وہ جو بہت ظالم جاہل پیروں کو سجدہ کرتے ہیں یہ ہر حال میں حرام قطعی ہے چاہے قبلہ کی جانب ہو یا اور طرف اور چاہے خدا کو سجدہ کی نیت کرے یا اس نیت سے غافل ہو پھر اس کی بعض صورتیں تو مقتضی کفر ہیں اﷲ تعالٰی ہمیں اس سے پناہ دے۔ جلد22 ص 468 بیشك آئمہ نے تصریح فرمائی کہ پیروں کو سجدہ کہ جاہل صوفی کرتے ہیں حرام اور اس کی بعض صورتیں حکم کفر لگاتی ہے۔ سجدہ کہ بعض جاہل صوفی اپنے پیر کےآگے کرتے ہیں نرا حرام اور سب سے بدتر بدعت ہے وہ جبرًا اس سے باز رکھیں جائیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ سجدہ کہ جہال اپنے سرکش پیروں کو کرتے اور اسے پائگاہ کہتے ہیں بعض مشائخ کے نزدیك کفر ہے اور گناہ کبیرہ تو بالاجماع ہے پس اگرا اسے اپنے پیر کے لئے جائز جانے تو کافر ہے اور اگر اس کے پیرنے اسے سجدہ کا حکم کیا اور اسے پسند کرکے اس پر راضی ہوا تو وہ شیخ نجدی خود بھی کافر ہوا اگر کبھی مسلمان تھا بھی۔ *{اعلیحضرت خود فرماتے ہیں}* اقول:(میں کہتاہوں)یعنی ایسے متکبر خدا فراموش خود پسند اپنے لئے سجدے کے خوہشمند غالبا شرع سے آزاد بے قید وبند ہوتے ہیں یوں تو آپ ہی کافر ہیں اور اگر کبھی ایسے نہ بھی تھے تو حرام قطعی یقینی اجماعی کو اچھا جان کو اب ہوئے والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ الحمد ﷲ یہ نفس سجدہ تحیت کے حکم میں ستر نص ہیں کہ سجدہ اﷲ واحد قہار ہی کے لئے ہے اور اس کے غیر کے لئے مطلقًا کسی نیت سے ہو حرام حرام حرام کبیرہ کبیرہ کبیرہ۔ جلد22ص496 :سجدہ تو سجدہ زمین بوسی حرام ہے عالموں اور بزرگون کے سامنے چومنا حرام ہے اور چومنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گنہ گار۔ کافی وکفایہ وغایۃ وتبیین ودرو مجمع وابوالسعود وجواہرنے زائد کیا۔لانہ یشبہ عبادۃ الوثن [2]اس لئے کہ وہ بت پرستی کے مشابہ ہے۔ طوری کے لفظ یہ ہیں لانہ اشبہ بعبدۃ الاوثان [3]۔ایسا کرنے والا بت پرستوں سے نہایت مشابہ ہے۔ نص ۸۷:علامہ سید احمد مصری طحطاوی جلد ۴ ص زیر قول مذکور در: یشبہ عبادۃ الوثن لانہ فیہ صورۃ السجود لغیر اﷲ تعالٰی [4]۔ زمین بوسی اس لئے بت پرستی کے مشابہ ہے کہ اس میں غیر خدا کو سجدہ کی صورت ہے جلد22ص 470 اقول:(میں کہتاہوں)زمین بوسی حقیقۃ سجدہ نہیں کہ سجدہ میں پیشانی رکھنی ضروری ہے جب یہ اس وجہ سے حرام مشابہ ہے پرستی ہوئی کہ صورۃ قریب سجدہ ہے تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مشابہ تام ہوگا۔والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ عالم کے سامنے تحیت کی نیت سے زمین بوسی حرام ہے۔زمین چومنا اور جھکنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ زمین بوسی بطور تحیت حرام اور بروجہ تعظیم کفر ہے۔زمین چومنا سجدے کے قریب ہے اور حین یا رخسارہ زمین پر رکھنا اس سے بھی زیادہ فحش وقبیح ہے۔ قسم سوم: زمین بوسی بالائے طاق رکوع کے قریب تك جھکنا منع ہے جلد22 ص 471 سلام میں رکوع کے قریب تك جھکنا بھی مثل سجدہ ہے۔نہ بوسہ دے نہ جھکے کہ دونوں مکروہ ہیں۔ سلام کے وقت جھکنا منع فرمایا گیا اور وہ مجوسی کا فعل ہے۔ سلام میں نہ جکھے کہ بادشاہ ہو یا کوئی کسی کے لئے جھکنے کی اجازت نہیں اور ایك وجہ ممانعت یہ ہے کہ وہ یہود ونصارٰی کا فعل ہے۔ معلوم رہے کہ جو اکابر میں کسی سے ملتے وقت اس کے لئے سر یاپیٹھ جھکائے اگر چہ اس میں مبالغہ کرے اس کا ارادہ تحیت و تعظیم ہی کا ہوتا ہے نہ کہ اس کی عبادت کا تو اس فعل سے کافرنہ ہوجائیگا۔ جلد22ص 472 ۱۱۰:امام اجل عزالدین بن عبدالسلام(۱۱۱)ان سے امام ابن حجر مکی فتاوٰی کبرٰی میں جلد ۴ ص ۲۴۷(۱۱۲)ان سے امام عارف نابلسی حدیقہ ص ۳۸۱میں: حد رکوع تك کوئی کسی کے لئے نہ جھکے جیسے سجدہ اور اس قدر سے کم میں حرج نہیں کہ کسی اسلامی عزت والے کے لئے جھکے۔ جلد22ص473 مزارات کو سجدہ یا ان کے سامنے زمین چومنا حرام اورحد رکوع تك جھکنا ممنوع۔ ۱۲۸: منسك متوسط علامہ رحمۃ اﷲ تلمیذ امام ابن الہمام (۱۲۹)مسلك متقسط شرح ملاعلی قاری ص ۲۹۳: زیارت روضہ انور سید اطہر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم(رزقنا اﷲ العود المیھاد بقبولہ) ہمیں اﷲ تعالٰی دوبارہ روضہ اطہر کی زیارت نصیب فرمائے بشرطیکہ قبولیت ہو)کے وقت نہ دیوار کریم کو ہاتھ لگائے،نہ چومے،نہ اس سے چمٹے،نہ طواف کرے نہ جھکے نہ زمین چومے کہ یہ سب بدعت قبیحہ ہیں۔ اقول:(میں کہتاہوں)بوسہ میں اختلاف ہے اور چھونا چمٹنا اس کے مثل اور احوط منع اور علت خلاف ادب ہوناہے۔ وہ بات نہیں جو ملا علی قاری سے بوسہ دینے کے بارے میں صادر ہوئی کہ وہ بعض ارکان قبلہ کے خواص میں سے ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے اس لئے کہ ائمہ کرام نے مصحف شریف اور علمائے کرام کے ہاتھ پاؤں چومنے کے مستحسن ہونے کی تصریح فرمائی۔نیز روٹی کو بوسہ دینے کی صراحت فرمائی۔(ت) اور جھکنے سے مرادبدستور تاحد رکوع،اور طواف سے یہ کہ نفس طواف بغرض تعظیم مقصود ہو کما حققناہ فی فتاوٰی بما لا مزید علیہ (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں بڑی تفصیل سے اس کی تحقیق کردی کہ جس پر اضافہ نہیں ہوسکتا۔ت) جلد22ص474تا475 *"قبروں کو چومنا"* کسی قبر کو سجدہ تو کجا آپ نے تو والدین کی قبر تک کو بوسہ دینا مکروہ بتایا ہے چنانچہ جب اعلیحضرت سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ بوسہ قبر کا کیا حکم ہے تو اسکے جواب میں اعلیحضرت نے فرمایا کہ بعض علماء اجازت دیتے ہیں اور بعض روایات بھی نقل کرتے ہیں، کشف الغطاء میں ہے : کفایۃ الشعبی میں قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایك اثر نقل کیا ہے اورکہا ہے کہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں۔ اور شیخ بزرگ نے بھی شرح مشکوٰۃ میں بعض آثار میں اس کے وارد ہونے کا اشارہ کیا اور اس پر کوئی جرح نہ کی ۔ مگر جمہور علماء مکروہ جانتے ہیں، تو اس سے احتراز ہی چاہئے اشعۃ اللمعات میں ہے : قبر کو ہاتھ نہ لگائے، نہ ہی بوسہ دے ۔ کشف الغطاء میں ہے: ایسا ہی عامۃ کُتب میں ہے۔ مدارج النبوۃ میں ہے : قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایك روایت بیہقی ذکر کرتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ ناجائز ہے فتاویٰ رضویہ جلد9 ص528تا529 اسی جلد22ص251تا269تک بوسہ دست و پائوں قبر طواف قبر اور سجدہ تعظیمی وغیرہ کی بحث موجود ہے اتنے دلائل کے بعد بھی مخالفین کچھ جہلاء کے فعل مسلک اعلیحضرت کے خلاف بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں یہ بڑے افسوس کی بات ہے آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ شریعت کے خلاف عمل کرنے والے جہلاء کے بارے میں اعلیحضرت کسطرح رد فرماتے ہیں *سوال* *(۳)یہ کہنا کہ عرب شریف اسلام کا گھر ہے وہاں کے لوگ داڑھی کٹواکر چھوٹا کرلیتے ہیں اگر اور کوئی ش خص داڑھی کتروائے* *تو کیا مضائقہ ہے۔ایسے کہنے والے شخص کی* *نسبت کیا حکم ہے؟* *جواب* شریعت پر کسی کا قول وفعل حجت نہیں۔اﷲ ورسول سب پر حاکم ہیں اﷲ ورسول پرکوئی حاکم نہیں،یہ فعل وہاں کے جاہلوں کا ہے اور جاہلوں کا فعل سند نہیں ہوسکتا کہیں کے ہوں،ایسا کہنے والا اگر جاہل ہے اسے سمجھا دیا جائے او ر اگر ذی علم ہو کر ایسا کہتا ہے یاسمجھانے کے بعد بھی نہ مانے اصرار کئے جائے وہ سخت فاسق وگمراہ ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم فتویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 609 اب انصاف کریں کہ اعلیحضرت نے کسطرح فرمایا ہے کہ جاہلوں کا فعل سند نہیں بن سکتا ہےاور سمجھانے کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے اور جہلاء کا فعل کو شریعت کے خلاف حجت مانے تو وہ فاسق معلن اور سخت گمراہ ہے *سوال* *(۲)مسلمان کو مونچھ بڑھانا یہاں تك کہ منہ میں آئے کیاحکم ہے؟ زید کہتاہے ترکی لوگ بھی* *مسلمان ہیں وہ کیوں* *مونچھ بڑھاتے ہیں؟* *الجواب* فوجی جاہل ترکوں کا فعل حجتہے۔یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد۔واﷲ تعالٰی اعلم جلد 22 صفحہ 688 یہاں پر بھی اعلیحضرت وہی بات بیان فرمائی کہ جاہلوں کا فعل حجت نہیں *سوال* کیافرماتے ہیں علمائے دینومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں،اس ملك کے مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ ہارمونیم بجانااور سننا اور گراموفون بجانا یاسننا قطعی حرام ہے،اگردرحقیقت حرام ہے تو اکثربلادمیں بہت سے علماء ہند نے اس کوجائز رکھاہے او دیدہ دانستہ گناہ کے مرتکب ہوتےہیں اس کی کیاوجہ،کیاوہ لوگ علم دین سے واقف نہیں ہیں یعنی اجمیرشریف،پھلواریشریف،بغدادشریف وغیرہ میں زمانہ عرس میں قوالی سنتے ہیں اس کے سامنے ہارمونیموستارضرورہوتاہے اس کی کیاوجہ ہے، ازراہ مہربانی اس کے بارہ میں جیساحکم ہو کس کسطریقہ والے کے نزدیك جائزہے اور کس کس کے نزدیك ناجائزہے؟ جواب سے مطلعفرمائیں۔فقط۔ *الجواب* : ہارمونیم ضرورحرامہے،بغدادشریف میں تو اس کانشان بھی نہیں،نہ اجمیرشریف میں دیکھنے میں آیا،نہ فاسقوں کافعل حجت ہو سکتا ہے،نہ کسی عالم نے اسے حلال کہا،اگرکسی نے حلال کہا ہوتو وہ عالم نہ ہوگا ظالم ہوگا۔گراموفون سے قرآن مجید کاسننا ممنوع ہے کہ اسےلہوولعب میں لانابے ادبی ہے،اور ناچ یاباجے یاناجائز گانے کی آواز بھی سننا ممنوعہے،اور اگرجائزآواز ہو کہ نہ اس میں کوئی منکر شرعی نہ وہ کچھ محل ادب،تو اس کےسننے میں فی نفسہٖ حرج نہیں،ہاں لہو کاجلسہ ہوتو اس میں شرکت کی ممانعت ہے،اورتفصیل کامل ہمارے *رسالہ الکشف شافیا* میں ہے جلد 24 صفحہ 134 اب اس سے تو صاف واضح ہوگیا کہ خلاف شرع امور میں کسی کی پیروی جائیز نہیں ہے اگر کسی نے عالم ہونے کے باوجود بھی ان منکرات کو جائیز قراردیا تو اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ وہ عالم نہیں بلکہ ظالم ہے *سوال* گاناقوالی مع ساز اورنااہللوگوں کاجمع ہونا جوصوم صلوٰۃ کے پابند نہ ہوں خصوصًا مستورات کاجمع ہونا جائزہےیاناجائز؟ *الجواب* : گانا مع مزامیر مطلقً ناجائیز ہے ناکہ ان منکرات کیساتھ جلد 24 صفحہ 135 اعلیحضرت نے تو گانے بجانے کو مطلقً ناجائیز قرار دیا ہے اور لوگ انہی تمام منکرات کو مسلک بریلوی کیطرف بڑی بے شرمی کیساتھ منسوب کردیتے ہیں اللہ بچائے ان فتنہ گروں سے *{مزارات پر حاضری کا طریقہ}* *سوال* حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہبزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں ا ور فاتحہ میں کون کون سیچیزیں پڑھا کریں؟ *الجواب:* مزار شریفہ پر حاضرہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کمازکم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز بادب عرض کرے السّلام علیك یا سیدی ورحمۃ اﷲوبرکاتہ پھر درودغوثیہ تین بار، الحمد شریف ایك بار ، آیۃ الکرسی ایك بار، سورہ اخلاصسات بار، پھر درود غوثیہ سات بار ، اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰسں او رسورہ ملك بھیپڑھ کر اﷲ عزوجل سے دعا کرے کہ الہی ! اس قرأت پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرمکے قابل ہے، نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے او راسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کونذر پہنچا، پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو ا س کے لیے دعا کرے اورصاحب مزار کی روحکو اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اس طرح سلام کرکے واپس آئے،مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔واﷲ تعالٰی اعلم جلد9ص 524تا525 فتاویٰ فخرازہر جلد2ص427تا428 اور بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ سے بیٹھے کہ اس کے پاس زندگی میں نزدیک یا دور جتنے فاصلہ پر بیٹھ سکتا تھا۔ (5) (ردالمحتار) بہارشریعت حصہ چہارم 852 مزار شریف پر سر رکھنا بھی منع ہے ہرگز ایسا نہ کریں فتاویٰ علیمیہ ص364 *{عورتوں کا مزار پر جانا}* (۲) عورتوں کو مقابر اولیاء ومزارات عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے۔ جلد9ص 538 نوٹ: اعلیحضرت نے عورتوں کو زیارت قبور سے ممانعت پر ایک رسالہ لکھا ہے جسکا نام *(جمل النور فی نھی النساء عن زیارت القبور)* ہے جو فتویٰ رضویہ جدید جلد9ص541 تا564 قدیم جلد4ص166تا176 پر موجود ہے اور اسکے علاوہ عورتوں کے بے پردہ نکلنے کے بارے میں بھی رسالہ لکھا جسکا نام ہے *مروج النجاءلخروج النساء* جلد 22 ص221تا251 اہلسنت والجماعت بریلوی علمائے کرام کے فتوے {غیر اللہ کو سجدہ حرام ہے} 1:علامہ ممتاز تیمور قادری صاحب(کنزلا ایمان اور مخالفین ص 403 2:علامہ منیر احمد یوسفی (قبروں کی تعظیم و احترام حکم اسلام قبروں کو سجدہ مطلقً حرام 3: مولانا محمد شاہد القادری صاحب تاج الشریعہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں قبر کو سجدہ اور طواف ناجائیز و ممنوع ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں سخت گناہگار ہیں انہیں امام بنانا گناہ اور انکے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب تعلیمات تاج الشریعہ ص 47 بحوالہ بتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 414 اسی کتاب کے ص 37 پر ہے کہ غیر اللہ کے آگے سجدہ اگر بہ نیت عبادت ہو تو معاذ اللہ شرک جلی وکفر صریح ہے اور اگر بہ نیت تعظیم ہوتو اشد حرام و گناہ کبیرہ ہے بحوالہ فتاویٰ تاج الشریعہ جلد دوم ص 577 اسی کے ص 14 پر ہے کہ انبیاء اولیاء کو سجدہ تحیت ناجائیز وحرام ہے بحوالہ فتاویٰ تاج الشریعہ جلد اول ص269 4:مفتی جلال الدین احمدالامجدی صاحب فتاویٰ فیض الرسول جلد2 ص496تا504 پر پوری تحقیق سے ثا بت کیا ہے ہیکہ غیراللہ کو سجدہ ہر صورت ناجائیز ہے اور اسی کتاب کے صفحہ 490تا 491 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائیز نہیں چاہے وہ صنم ہو یا غیر صنم اللہ کے علاوہ دوسرے کو سجدہ حرام ہے سلام کی نیت سے بھی سجدہ کرنا جائیز نہیں چاہے وہ بادشاہ ہو یا شیخ جسنے بطور سلام بادشاہ کو سجدہ کیا اسکے سامنے زمین چومی تو وہ ارتکاب کبیرہ کے سبب گنہگار ہوا۔اور جو شخص غیر خدا کو سجدہ جائیز بتائے وہ گمراہ ہے اس سے مرید ہونا بھی جائیز نہیں ہے ص 490_ 491 اسی میں ہے کہ کسی بزرگ کی تعظیم کیلیے اسکی قبر کا طواف کیا جائے ناجائیز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانئہ کعبہ ہے ص 561بحوالہ فتوی رضویہ مزید لکھتے ہیں کہ مزار کو بطور عبادت سجدہ کرنے والا کافر و مرتد ہےاور اگر سجدہ عظیمی ہوتو سجدہ کرنے والا فعل حرام وگناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور سجدہ فقہی کو جائیز قبر کیلیئے جائیز ماننے والا گمراہ و فاسق ہے اور سجدہ عقیدت بہر صورت ناجائیز و حرام ہے ص 598 5:مفتی شریف الحق امجدی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی مخلوق کو سجدہ جائیز نہیں مخلوق کیلیے سجدہ عبادت کفر اور سجدہ تحیت حرام قطعی ہے اور سجدہ تحیت کو جائیز بتانا زید کا غلط عقیدہ ہے فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 344 اور یہی بات ص 339تا 340 پر بھی اسیطرح موجود ہے 6: علامہ محمد اختر حسین قادری صاحب فتاویٰ علیمیہ میں جواب دیتے ہوئےلکھتے ہیں کہ مزارات مقدسہ کاطلب شفا کی نیت سے طواف کرنا یعنی چکر لگانا راجح قول کے مطابق ممنوع ہے اور اس سے بچنا چاہئے جلد1 ص344 7:مفتی جلال الدین احمد امجدی صاحب فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں لکھتے ہیں کہ جاہل عوام کا درخت کو سجدہ کرنا یہ بھی حرام ہے جبکہ بروجہ عبادت نہ ہو اگر بروجہ عبادت ہوتو قطعاً یقیناً اجماعاً کفر ہے جلد اول ص 391 مزید لکھتے ہیں کہ مزار کا طواف صرف تعظیم کی نیت سے بھی ناجائیز ہے کہ تعظیم بالطواف صرف خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہے ص 365 8:مفتی امجد علی اعظمی بہارشریعت میں لکھتے ہیں کہ مسئلہ ۴۸: نماز اﷲ ہی کے لیے پڑھی جائے اور اسی کے لیے سجدہ ہو نہ کہ کعبہ کو، اگر کسی نے معاذ اﷲ کعبہ کے لیے سجدہ کیا، حرام و گناہ کبیرہ کیا اور اگر عبادت کعبہ کی نیت کی، جب تو کھلا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔ (1) (درمختار و افاداتِ رضویہ) بہار شریعت حصہ سوم ص 489 ایک مقام پر لکھا کہ مسئلہ ۱۵: سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت بطورِ اکرام کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر بقصد عبادت ہو تو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔ (2) (ردالمحتار) مسئلہ ۱۶: بادشاہ کو بروجہ تحیت سجدہ کرنا یا اس کے سامنے زمین کو بوسہ دینا کفر نہیں ، مگر یہ شخص گنہگار ہو ااور اگر عبادت کے طور پر سجدہ کیا تو کفر ہے۔ عالم کے پاس آنے والا بھی اگر زمین کو بوسہ دے، یہ بھی ناجائز و گناہ ہے، کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گنہگار ہیں ۔ (3) (عالمگیری) مسئلہ ۱۷: ملاقات کے وقت جھکنا منع ہے۔ (4) (عالمگیری) یعنی اتنا جھکنا کہ حدِ رکوع تک ہوجائے۔ بہار شریعت حصہ شانزدہم ص476 بلکہ روضہ انور کے حوالہ سے بھی یہاں تک فرمایا کہ (۳۹) روضۂ انور کا نہ طواف کرو، نہ سجدہ، نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم اُن کی اطاعت میں ہے۔ بہار شریعت حصہ ششم ص1222 9:احکام شریعت ص241 10:ارشادات اعلیحضرت ص56تا57 11:عوامی غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح ص29 12:امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرعzafir میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی) *روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ* امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضورﷺ کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور) *روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے* امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور) معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے *مزارات پر عورتوں کا جانا ممنوع ہے* تمام حوالہ جات درج ذیل ہیں 1:فتوی رضویہ جلد9ص535 2:بہار شریعت حصہ چہارم852 3:فتاویٰ فخرازہر جلددوم ص312تا313 4:قبروں کی تعظیم واحترام حکم اسلام قبروں کو سجدہ مطلقاً حرام ص 7 5:تعلیمات تاج الشریعہ ص12 6:فتاویٰ تاج الشریعہ جلد1ص203 7:وقارالفتاویٰ جلد3ص376 8:فتاویٰ فیض الرسول جلد ص 529 9:فتاویٰ فیض الرسول جلد2 ص 613تا614 10:فتاویٰ فیض الرسول جلد1 ص 456 11:فتاویٰ مفتی اعظم جلد 3 ص 282 12:فتاویٰ فقیہ ملت جلد1ص278 پر دوفتوے موجود ہیں 13:فتاویٰ مصطفویہ ص453 14:فتاویٰ بریلی شریف میں تو یہاں تک لکھا ہیکہ مزارات اولیاء پر عورتوں کا جاناناجائیزوحرام ہے جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں ہوجاتیں فرشتے ان پر لعنت بھیجتے ہیں ص205 15:فتاویٰ بریلی شریف ص121 16:فتاویٰ افریقہ ص66 17:احکام شریعت ص167 18:فتاویٰ عبیدیہ ص 213 19:ملفوظات شریف ص 240 20:ارشادات اعلیحضرت ص45 21:عوامی غلط فہمیاں اور انکی اصلاح ص 29 مزامیر۔ مروجہ قوالی۔مروجہ تعزیہ داری۔ گانابجانا۔ ڈھول تاشے سارنگ۔ ناچ ورقص۔ موسیقی۔شراب چرس اور بھانگ وغیرہ پینا۔ تاش ۔ جوا۔ قوالی سننے کے ساتھ پیسہ لٹانا۔روپیہ کامالاپہنانا۔ عورتوں کا جلوس میں شامل ہونا۔ اور ایسی تمام اشیاء اور افعال ناجائیز و حرام ہیں 1: اعلیحضرت نے ان تمام امور کے رد میں ایک پورا راسالہ لکھا جسکانام درج ذیل ہے لہو ولعب کھیل تماشہ۔ میلہ۔ مزاح۔ ناچ۔ گانا۔ قوالی۔ مزامیر۔راگ۔ سماع۔ موسیقی وغیرہ سے متعلق فتویٰ رضویہ جلد24ص76تا167پرموجودہے فتویٰ رضویہ میں یہ رسالہ قریباً90صفحات پر مشتمل ہے 2:اسی طرح بہارشریعت کے بعض مقامات مزامیر کیساتھ قوالی وغیرہ کی مذمت کی گئی ہے حصہ1ص160اور276 حصہ9 ص467 حصہ16ص 514تا515وغیرہ 3:فتاویٰ فخرازہرجلددوم ص363تا364اورص332تا333 4:تعلیمات تاج الشریعہ ص51 ص39ص36ص30 فتاویٰ مفتی اعظم جلداول ص 299تا300 5:فتاویٰ فیض الرسول جلددوم ص487تا488اورص512 ص508تا510ص518تا519 ص 545ص533 تا534 ص563تا564ص611 6:فتاویٰ نعیمیہ ص10ص134 7:مختصرفتاویٰ اہلسنت ص196 8:وقارالفتاویٰ ص163تا 167 9: فتاویٰ شارح بخاری جلددوم ص 498 10:فتاویٰ مفتی اعظم جلدپنجم ص 184 11:فتاویٰ مفتی اعظم جلددوم ص125 12:فتاویٰ فقیہ ملت جلددوم ص 337تا342اورص296تا297 13:فتاویٰ اکبریہ جلداول ص493ص 490 14:فتاویٰ شرعیہ جلددوم ص442 15:فتاویٰ افریقہ ص129 16:فتاویٰ مرکزتربیت افتاء جلد دوم ص 478تا 479ص379 17:تفسیرصراط الجنان سورہ المائدة آیت 77 سورة لُقْمٰن آیت 6 18:فتاویٰ مسعودی ص542 نوٹ: اعلیحضرت نے شادیوں کی رسومات کے تعلق سے بھی ایک الگ رسالہ لکھا جسمیں تمام تمام امور غیر شرعیہ کا رد کرکے امت کی اصلاح کی گئی ہے ۔رسالہ کانام ہے *ھادی الناس فی رسوم الاعراس* فتویٰ رضویہ جلد23ص 278تا324 یہ رسالہ قریباً44صفحات کاہے تعزیہ *مروجہ تعزیہ داری کےناجائز و حرام ہونے پر علمائے اہلسنت کے 110فتاوے* (1) فتاوی عزیزی، ص184 (2) ایضاً، ص186 (3) ایضاً، ص188 (4) ایضاً، ص189 (5) فتاوی رضویہ، ج29، ص238 (6) ایضاً، ج24، ص142 (7) ایضاً، ص145 (8) ایضاً، ص490 (9) ایضاً، ص493 (10) ایضاً، ص498 (11) ایضاً، ص499 (12) ایضاً، ص500 (13) ایضاً، ص501 (14) ایضاً، ص502 (15) ایضاً، ص503 (16) ایضاً، ص504 (17) ایضاً، ص505 (18) ایضاً، ص507 (19) ایضاً، ص508 (20) ایضاً، ص513 (21) ایضاً، ص525 (22) ایضاً، ص558 (23) ایضاً، ج21، ص168 (24) ایضاً، ص221 (25) ایضاً، ص246 (26) ایضاً، ص247 (27) ایضاً، ص423 (28) ایضاً، ج16، ص121 (29) ایضاً، ص155 (30) ایضاً، ج15، ص263 (31) ایضاً، ج8، ص455 (32) ایضاً، ج6، ص442 (33) ایضاً، ص608 (34) فتاوی شرعیہ، ج2، ص612 (35) ایضاً، ج2، ص442 (36) فتاوی بحر العلوم، ج1، ص188 (37) ایضاً، ص320 (38) ایضاً، ج4، ص293 (39) ایضاً، ج5، ص238 (40) ایضاً، ص247 (41) ایضاً، ص268 (42) ایضاً، ص301 (43) ایضاً، ص442 (44) ایضاً، ص443 (45) ایضاً، ص452 (46) ایضاً، ص453 (47) ایضاً، ص456 (48) ایضاً، ج6، ص173 (49) فتاوی دیداریہ، ص120 (50) ایضاً، ص132 (51) فتاوی مفتی اعظم راجستھان، ص135 (52) فتاوی خلیلیہ، ج1، ص79 (53) فتاوی اجملیہ، ج4، ص15 (54) ایضاً، ص42 (55) ایضاً، ص68 (56) ایضاً، ص83 (57) ایضاً، ص105 (58) ایضاً، ص128 (59) ایضاً، ص88 (60) فتاوی شارح بخاری، ج2، ص454 (61) فتاوی ضیاء العلوم، ص39 (62) فتاوی ملک العلماء، ص463 (63) فتاوی اجملیہ، ج4، ص15 (64) فتاوی فقیہ ملت، ج1، ص54 (65) ایضاً، ج2، ص155 (66) کیا آپ کو معلوم ہے، ح1، ص215 (67) فتاوی مسعودی، ص83 (68) فتاوی نعیمیہ، ص55 (69) فتاوی اویسیہ، ص464 (70) فتاوی تاج الشریعہ، ج1، ص293 (71) ایضاً، ص427 (72) ایضاً، ج2، ص103 (73) ایضاً، ص341 (74) ایضاً، ص511 (75) ایضاً، ص561 (76) ایضاً، ص597 (77) ایضاً، ص619 (78) تعزیہ بازی (79) ملفوظات اعلی حضرت، ص286 (80) اعلی حضرت کے بعض نئے فتاوی، ص86 (81) فتاوی منظر اسلام نمبر، ص218 (82) ایضاً، ص219 (83) ایضاً، ص235 (84) ایضاً، ص237 (85) ایضاً، ص239 (86) ایضاً، ص246 (87) فتاوی رضا دار الیتامی، ص285 (88) عرفان شریعت، ص10 (89) فتاوی شرعیہ، ج3، ص272 (90) ایضاً، ص531 (91) فتاوی امجدیہ، ج4، ص167 (92) ایضاً، ص185 (93) ایضاً، ص206 (94) تعزیہ اور ماتم (95) تعزیہ علماے اہل سنت کی نظر میں (96) رسومات محرم اور تعزیہ داری (97) مروجہ تعزیہ داری کا شرعی حکم (98) بہار شریعت، ح16 (99) خطبات محرم، ص464 (100) محرم میں کیا جائز کیا ناجائز (101) محرم الحرام کے بارے میں 50 سوالات اور علماے اہل سنت کے جوابات (102) ماہ محرم اور بدعات (103) قانون شریعت (104) فتاوی فیض الرسول، ج1، ص247 ‌(105) ایضاً، ص249 (106) ایضاً، ص250 (107) فتاوی فیض الرسول، ج2، ص518 (108) ایضاً، ص533 (109) ص563 (110) ایضاً، ص646 *متبرک مقام کی مٹی بغرض تبرک کھاناجائیز ہے* 1:مٹی کھانا مکروہ ہے۔کیونکہ اس سے بیماری پیدا ہوتی ہےعورتوں اور بچوں کوبھی اس سےمنع کرناچاہیے۔ متبرک مقام کی مٹی بغرض تبرک کبھی کھالیں تواس میں مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن نہ کھانابہتر ہے کیونکہ جواہرالفتاویٰ وغیرہ کتب میں ہے کہ کراہت عام ہے خواہ کہیں کی بھی مٹی ہو الحاوی میں امام ابوالقاسم سے روایت ہے کہ مٹی کھانا احمقوں کا فعل ہے عقلاء کا نہیں۔محیط میں ہے اگر عورت مٹی کھانے کی عادت بنالے تو اسے روکاجائے کیونکہ اسمیں صحت و جمال کا نقصان ہےاور فائدہ کچھ نہیں تلخیص فتاویٰ نظامیہ ص 126تا127 2:عام مٹی کھانا مکروہ ہے بلکہ فقہاء کرام سے حرام تک کا قول وارد ہے کیونکہ اس سے انسانی صحت کو خطرہ و نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے قاضی خان میں ہے"یکرہ اکل الطین لان ذلک یضرہ فیصیرقاتلاًنفسة" البتہ اگر ہلکا سا چاٹ لیاجائے تاکہ خواہش پوری ہوجائے تو کوئی حرج نہیں زیادہ کھانا نقصان سے خالی نہیں فتاویٰ فخرازہر جلددوم ص497 3:فقیہ الہند حضرت شاہ محمد مسعود محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ واضح ہوکہ مٹی کھانا مطلقاً حرام نہیں ہے کیونکہ مٹی پاک ہے اور پھر تفسیر کبیر سورة النساء زیر آیت 43 اور مسلم شریف کی حدیث سے پھر شرح صحیح مسلم امام نووی کے حوالہ سے یہ ثابت کیا ہیکہ مٹی پاک اور حلال ہے پھر لکھتے ہیں کہ جب آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ مٹی پاک اور حلال ہے تو کھانا بھی مطلقاً جائیز ہوا خواہ مدینہ منورہ کی ہو خواہ غیر اسکے پھر فرماتے ہہیں البتہ عادة نہ پکڑے اور کثرت سے نہ کھائے کہ موجب بیماری کا ہے اس لیے فقہاء مٹی کھانے پر عادة پکڑنے کو مکروہ تنزیہی لکھتے ہیں بجہت بیماری اور نقصان جسم اور جمال کے، نہ کہ بجہت حرمت اور ناپاکی کے، اور اگر گاہے گاہے کھالے یا قلیل ہوتو درست اور جائیز ہے چنانچہ مدینہ منورہ کی مٹی گاہے قلیل کھانا درست ہے فتاویٰ مسعودی ص586تا587 4:اعلیحضرت خودفرماتے ہیں مسئلہ: مٹی کھاناحرام ہے یعنی زیادہ کہ مضر ہے خاکِ شفا شریف سے تبرکًا قدرے چکھ لینا جائز ہے فتاویٰ رضویہ جلد4ص727 وضاحت: ان تمام حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ مزارات پر جاکر برکت کیلیے وہاں کی مٹی سے تھوڑی سی مٹی چاٹ لیں تو اس میں کچھ حرج نہیں مگر اتنی مٹی کھالینا کہ جس سے انسان کی صحت بگڑے اس صورت میں مٹی کھانا مکروہ ہے بلکہ فقہاء کرام سے حرام تک کا قول وارد ہے *دیوبندیوں سے گزارش:* جب کوئی سنی مسلمان تبرک کے طور پر کسی ولی کی مزار سے نمک یامٹی وغیرہ اٹھاکر چاٹ لے یا برکت کیلیے گھروالوں میں تقسیم کردے تو دیوبندی کفر و شرک کے فتوے لگانا شروع کردیتے ہیں حالانکہ اسطرح کارنامے خود دیوبندیوں کے بزرگوں سے ثابت ہیں *پہلا حوالہ:* اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین صاحب حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وہ حضرت مولانا کی ایک کرامت(جو بعد وفات واقع ہوئی) بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ہمارے نانوتہ میں جاڑہ بخار کی بہت کثرت ہوئی ۔ سو جو شخص مولانا (محمدیعقوب) کی قبر سے مٹی لے جا کر باندھ لیتا اسے ہی آرام ہوجاتا ۔ بس اس کثرت سے مٹی لے گئے کہ جب ڈلوائوں تب ہی ختم ۔ کئی مرتبہ ڈال چکا ۔ پریشان ہو کر ایک دفعہ مولانا کی قبر پر جا کر کہا ۔ یہ صاحبزادے بہت تیز مزاج تھے۔ آپ کی تو کرامت ہو گئی اور ہماری مصیبت ہو گئی ۔ یاد رکھو کہ اگر اب کے کوئی اچھا ہوا توہم مٹی نہ ڈالیں گے ایسے ہی پڑے رہیو ۔ لوگ جوتہ پہنے تمھارے اوپرایسے ہی چلیں گے ۔ بس اس دن سے پھر کسی کو آرام نہ ہوا ۔ جیسے شہرت آرام کی ہوئی تھی ویسے ہی یہ شہرت ہوگئی کہ اب آرام نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں نے مٹی لے جانا بند کر دیا ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر ۲۵۷،چشتی) *دوسرا حوالہ:* اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نے خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت کی کہ حضور علیہ السلام ان کو فرمارہے ہیں کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ تم پر علم کھول دے تو ضررِ کی قبر کی مٹی میں سے کچھ لو اور اسکو نہار منہ نگل جائو ان فقیہ نے ایساہی کیااور اسکی برکتیں ظاہرہوگئیں جمال الاولیاء ص 105 *تیسرا حوالہ:* _بقول تھانوی قبرکی مٹی باعث شفا بن گئی_ تھانوی صاحب نے اپنی کتاب جمال الاولیاء میں حضرت محمد بن حسن المعلم باعلوی کے متعلق لکھا ہے کہ ایک چور نے آپ کے کھجور کے درختوں پر سے کچھ پھل چوری کرلیا تھا تو اس کے بدن میں ذخم ہوگئے اور اس قدر تکلیف کہ نیند حرام کردی صبح ہوئی وہ حضرت شیخ کی خدمت میں معذرت کیلیے حاضر ہوا آپ نے فرمایاکہ فلاں صاحب کی قبر پرجائو اور اس قبر کی مٹی اپنے زخم پر لگالو اس نے ایسا کیا اور اچھا ہوگیا۔جمال الاولیاء ص157 ان تین حوالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اولیاء کرام کی مزارات والی مٹی میں بھی اللہ تعالیٰ نے برکت اور شفاء رکھی ہے ۔اب کوئی دیوبندی جرت کرکے فتویٰ لگائے *"چندجہالتوں اور جعلی پیروں کا بھرپور رد"* *نیم کے درختوں کو غوث پاک کی طرف منسوب کرنا وہاں نیاز و فاتحہ دلانا سلام کرنا نذر ماننا کیسا ہے؟* جواب: اس درخت کو کو سیدنا غوث پاک کی طرف منسوب کرکے وہاں نیاز و فاتحہ دلانا اس کو سلام کرنا نذر ماننا وغیرہ محض خرافات ہیں فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم ص 376تا377 اس نیم کے درخت کو غوث پاک کی نشانی قراردینا یا فرضی مزار بنالینا پھر اس پر فاتحہ پڑھنا اور پھول ڈالنا اور اسکی زیارت کو جانا اور عرس منانا اور ناچ گانے مزامیر کیساتھ غوث پاک کے نام پر صندل نکالنا اور اسمیں مردوں عورتوں کا مخلوط ہوکر ایک ساتھ گشت کرنا یہ سارے کام حرام و گناہ ہیں رہ گیا جاہل عوام کا اس درخت کے سامنے سجدہ کرنا تو یہ بھی حرام ہےجبکہ بروجہ عبادت نہ ہو اور اگر بروجہ عبادت ہوتو قطعاً یقیناً اجماعاً کفر ہے جلد دوم ص 390تا391 زید کا پانی اور تیل مزار شریف کی دیوار سے لگاکر دم کرنا اور یہ کہنا کہ سرکار صاحب مزار کا دم کیا ہوا ہے نیز یہ کہنا کہ آج چلے جائو سرکار صاحب مزار نے ایک دودن یا ہفتہ کے بعد بلایا ہے یہ جھوٹ معلوم ہوتا ہے اور جھوٹ گناہ ہے الا یہ کہ صاحب کشف ہو اور بطور کشف دم کرکے اور مرضی معلوم کرکے یہ بتائے واللہ تعالیٰ اعلم جلددوم ص 399 لوگوں کا یہ کہنا کہ جو کچھ کرتے ہیں سرکار صاحب مزار ہی کرتے ہیں صحیح نہیں اسطرح کی بولی سے احتراز چاہیے بلکہ یوں کہے کہ جو کچھ اولیاء کرام کرتے ہیں وہ اللہ کی عطا اور توفیق ہی سے کرتے ہیں جلد دوم ص400 "مزارات کا دھاگہ ہاتھوں میں باندھنا کیسا ہے"؟ جواب: اجمیر شریف یا کسی بھی جگہ کا دھاگہ ہاتھ میں باندھنا جائیز نہیں ہے کہ اس میں مشرکین سے مشابہت ہے وہ بھی اپنے تیرتھ استھا نوں سے اسی قسم کے دھاگے لاکر باندھتے ہیں نیز انکا ایک تہوار کشا بندھن ہے جسمیں اسی قسم کے دھاگے باندھے جاتے ہیں اور تشبہ بالغیر ناجائیز و گناہ ہے حضور بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ جائیز نہیں کہ دھاگہ ہاتھ میں باندھے اسمیں مشرکین کیساتھ تشبہ ہے اور حدیث میں ہے من تشبہ بقوم فھو منھم فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلددوم ص 436 حضرت خضر علیہ السلام کی فاتحہ کیلیے عورتوں تالاب وغیرہ پر جانا اور کشتی چھوڑنا جہالت اور تشبیہ ہنود ہے اس سے بچنا لازم ہےاور انکی فاتحہ کیلیے تالاب یا ندی کے کنارے نہ جائیں بلکہ گھر ہی پر فاتحہ دلائیں۔فتاویٰ فقیہ ملت جلداول ص 492 *"ایک جعلی پیربابا کارد"* کسی مکار اور فریب کار بابا کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم کو شہیدوں ولیوں اور بڑے پیروں وغیرہ کی سواری آتی ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا البتہ شیطان اور اسکی ذریات اسپر مکمل طور سے ضرور مسلط ہیں ورنہ وہ ایسی بکواس ہرگز نہ کرتا شہید ولی اور بڑے پیر تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں انکو ایک بے نمازی فاسق و فاجر اور مکار بنے ہوئے بابا سے کیا تعلق اور اسکا یہ کہنا بھی سراسر جھوٹ ہے کہ یسین نے ہمیں بشارت دی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے جھوٹے بابا سے دور رہیں اور اسکو اپنے قریب نہ آنے دیں اسکے کہنے پر جو فرضی مزار بنایا گیا ہے اسے کھود کر پھینک دیں ورنہ اسے صحیح مزار سمجھ کر لوگ اسکی زیارت کریں گے اور مستحق لعنت ہوں گے ۔اور جس نے اللہ کے نام کی جگہ یسین بابا کا نام لیکر مرغا ذبح کیا مسلمانوں کو حرام مرداری گوشت کھلایا اسے کلمہ پڑھا کر اعلانیہ توبہ و استغفار کرایا جائے اور بیوی والا ہوتو دوبارہ اسکا نکاح پڑھایاجائے اور اس سے عہد لیا جائے کہ آئندہ پھر کبھی بسم اللہ اللہ اکبر کی بجائے دوسرا نام لیکر کوئی جانور ذبج نہیں کریگا اور جن لوگوں نے جان بوجھ کر اس مرداری مرغے کا گوشت کھایا نیز یسین کے گھر والے اور وہ تمام لوگ جو چادرگاکرکے جلوس وغیرہ میں شریک رہے سب کو توبہ کرایا جائے اور ان سے عہد لیا جائے کہ آئندہ پھر اسطرح کا کوئی پروگرام ہرگز نہیں کریں گے فتاویٰ فقیہ ملت جلد1ص293 *"بے نمازی پیر اور مرید"* ایسا نام نہاد پیر جو نماز نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ ہم نماز عشق پڑھتے ہیں ظاہری نماز کی ہمیں فرصت نہیں وہ حضور علیہ السلام کی پیروی کی بجائے شیطان کی اتباع کررہا ہے اور سارے مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ نکال رہا ہے اسکا ٹھکانا جہنم ہے۔ لہذا مسلمان ایسے نام نہاد پیر اور اسکے ماننے والوں سے دور رہیں اور خنزیر یعنی سور سے بھی زیادہ ان سے نفرت کریں کہ وہ لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا اور یہ گمراہ کرتے ہیں۔ فتاویٰ فقیہ ملت جلد2ص408 *"پیر سے پردہ لازم"* عورت کو غیر محرم پیر سے پردہ کرنا ضروری ہےپیر پردے کے معاملہ میں باپ کے مانند نہیں ہے۔البتہ مرتبے میں باپ کے مانند بلکہ باپ سے بڑا اور افضل ہے۔ اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ پیر سے پردہ واجب ہے جبکہ محرم نہ ہو فتاویٰ رضویہ جلد نہم نصف آخر ص304 اور مفتی اعظم فرماتے ہیں کہ عورت پر ہر غیر محرم سے پردہ فرض ہے پیر استاد محرم نہیں ہوتا محض اجنبی ہے جو بزرگان دین ہیں وہ پردے کو لازم ہی جانتے ہیں۔شرعاً اجانب سے پردہ لازم ہے حضرت علی کاری فرماتے ہیں کہ جو عورتیں خود بے پردہ پھرتی ہیں انکو ہدایت کرنا پیر کا کام ہے فتاویٰ مصطفویہ ص 490 بحوالہ فتاویٰ فقیہ ملت جلد دوم ص 428 *پیر سے پردہ* مرید ہونے کے بعد بھی پیر عورت کیلیے نامحرم ہے اور کسی عورت کا پیر کے سامنے بے پردہ آنا جائیز نہیں اور جسم کو چھونا خاص سر یا پائوں وغیرہ دبانا حرام ہے وقار الفتاویٰ ص 170 جو اپنے سامنے عورتوں کو بے پردہ بلاتا ہو اور ہاتھ پائوں وغیرہ تنہائی میں دبواتاہو وہ پیر نہیں ہے شیطان ہے اس بیعت ہونا تو بڑی بات ہے اسکے پاس بیٹھنا بھی جائیز نہیں ہے حضور علیہ السلا نے بھی بیعت کرتے وقت کسی عورت کا ہاتھ پکڑ کر بیعت نہ لی تھی تو ان پیروں کو یہ اجازت کیسے ہوجائے گی کہ ان کا جسم عورتیں دبائیں اور وہ بے پردہ پیر کے سامنے آئیں مرید ہونے کے بعد بھی عورت نامحرم رہتی ہے اور اس کو اپنے پیر سے اسی طرح پردہ کرنا لازمی ہے جس طرح دوسرے لوگوں سے پردہ کرنا ضروری ہے۔ کسی پیر کا اپنی بیعت شدہ نوجوان خواتین کو اپنی محفل میں بلانا۔اور رات کو محفل کے بعد اپنے کمرہ میں بلاکر ان کے ساتھ شب باشی کرنا۔اور اس مقصد کیلیے مخصوص رضاعی بنواناجوکہ بیک وقت دس یا پندرہ اشخاص کیلیے کافی ہو یہ تمام باتیں حرام ہیں ایسے جاہل بدعمل اور شیطان صفت نام نہاد پیروں کے واقعات اخبارات میں آتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی مرید عورتوں کو لیکر فرار بھی ہوجاتے ہیں وقارالفتاوی ص171 غیر محرم پیر سے عورت کو پردہ واجب ہے پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکسا ہے جوان لڑکی کوچہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے درمختار میں ہے کہ جوان عورت کو اندیشہ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنے چہرہ کشائی سے روکاجائے پیرومرشد اگر نامحرم ہے تو عورت کا ان سے بھی پردہ کرنا واجب ہے اور بڑھیا اگر سِنّ ایاس کو پہنچی ہوئی ہو جس سے احتمال فتنہ نہ ہوتو حجاب عرفی ضروری نہیں مگر حجاب شرعی بوڑھی عورت کیلیے بھی واجب ہے فتویٰ رضویہ جلد 22ص205 جوپیراسلامی پردے کا لحاظ اور شرعی احتیاط نہ رکھے وہ فاسق ہیں ان سے بیعت جائیز نہیں ایسے پیر سے مرید ہونا نہ چاہیے۔حاجت شرعیہ ہو اور اندیشہ فتنہ نہ ہواور خلوت بھی نہ ہو تو پردے کیساتھ بعض نامحرم سے ضرورتاً کلام جائیز ہے فتاویٰ رضویہ جلد22ص243 بحوالہ فتاویٰ قادریہ ص58 نوٹ: علامہ فیض احمد اویسی نے ایک کتاب لکھی ہے جسکانام *جاہل پیر اور جاہل مرید ہے* *"عورتوں کا تعویزات کیلیے آئمہ اور پیروں کے پاس جانا"* عالم ہو یا پیر کسی کے سامنے غیر محرم عوتوں کا بے پردہ جانا جائیز نہیں ہے اور جو شخص بے حجاب عورتوں کے آنے پر راضی ہے وہ گناہگار ہےاسکو امام بنانا بھی ناجائیز ہے وقارالفتاویٰ جلد3ص155 سوال جسطرح مرد کوہاتھ پکڑ کر مرید کرتے ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی ہاتھ پکڑوا کر مرید کرتے ہیں اور پیر کا اپنی مریدنی کو اپنے بستر پر آرام کرانا،اپنی گدی پر بیٹھانا،اپنے سرپر تیل مالش کرانا اور ہاتھ پیر کمر وغیرہ دبوانا کیسا ہے جواب غیر عورتوں کا ہاتھ پکڑنا حرام،بدکام بدانجام ہے اور غیر محرم کیساتھ خلوت میں رہنا ہی حرام اور ہاتھ پیر دبوانا ساتھ سوناتوحرام درحرام ہےاور ایسا شخص پیر گناہگار مستوجب نار مستحق غضب جبار ہے اور نالائق پیری ہے اور اگر ان محرمات کو جائیز سمجھتا ہے تو مسلمان ہی نہیں اور اس سے بیعت ہونا حرام اور اسکی صحبت سخت زہر اشد حرام فتاویٰ تاج الشریعہ جلد2ص24بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص22تا23 "پیر سے بھی پردہ ضروری ہے" "عورتوں سے خلط ملط رکھنے والے پیر کی بیعت نہ ہوں" احکام شریعت ص190 *"ولی وبزرگ کی تصاویرکاحکم"* کسی ولی یا بزرگ کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوکر دعا مانگنے والا شخص سخت جاہل ہے ایسا شخص توبہ کرے اور تجدید ایمان بھی کرے اور بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے۔ فتاویٰ تاج الشریعہ جلد دوم ص 574بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص 27 *"خانقاہ میں یاگھرمیں اپنے پیرکی تصویر لگانا"* حرام اشدحرام،بدکام بدانجام بلکہ کفرنماکام ہے کیونکہ پیر کی تصویر کے عموماًوہی آداب،تعظیم و توسل و اعتقاد برزخیت ہوتا ہوگا جو پیر کے ساتھ ہوتا ہے اور حرام کو حلال ماننا کفر ہے لہذاتوبہ و احتراز فرض ہے۔ فتاویٰ تاج الشریعہ جلددوم ص26 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص 23 *پیر کی تصویر گھرمیں لٹکانا* "پیر اور مرید کا شریعت کی "خلاف ورزی کرنافوٹوکھنچوانا" تصویر اپنے پیر کی ہویا کسی بھی انسان یاجاندار کی اسے اپنے گھرمیں آویزاں کرناجائز نہیں فتاویٰ مرکزتربیت افتاء جلد دوم ص 570 مسئلہ: کسی پیر کا فوٹو کھچوانا اپنی محفل میں فوٹوبازی اور ویڈیو فلم بنانے سے منع نہ کرنا بلکہ اس فعل پر رضامند ہونا۔ اور پیر کوباوجود اختیار ہونے کے خلاف شرع امور سےاپنے مریدین کو نہ روکنا ۔ پیر کا اپنی محفل میں داڑھی منڈے لوگوں سے نعت خوانی کروانا وغیرہ کیسا ہے؟ جواب: اسلام میں بزرگی کا دارومدار تقویٰ اور پرہیزگاری پرہےمحرمات یعنی حرام چیزوں کا مرتکب ولی نہیں ہوسکتاہے فوٹو کھچوانا حرام ہے، علامہ شامی نے اسے گناہ کبیرہ بتایا ہے اور احادیث میں اسپر سخت وعیدیں آئی ہیں لہذا جو شخص تصویریں کھچواتا ہے اور لوگوں کو یااپنے مریدوں کو بھی اس سے منع نہیں کرتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصویر کو جائیز سمجھتا ہے وہ کسی طرح بزرگ نہیں ہوسکتا،اس کو پیر کہنا ہی غلط ہے اور اس سے مریدہوناناجائز ہے۔ جو شخص اپنے مریدوں کو برائی سے نہ روکے وہ پیر ہی کیسا اور دیگر جو باتیں سوال میں لکھی ہیں سب ناجائز ہیں وقارالفتاوی ص 174 *"فرضی مزار یا فرضی چلا بنانا اور اسکے ساتھ اصل جیسے معاملات کرنا"* 1:فرضی مزار بنانا جائیز نہیں اور اسکی زیارت کرنے والوں پر خدائے تعالیٰ کی لعنت ہے فتاویٰ عزیزیہ جلد اول ص 144 فتاویٰ فیض الرسول جلد2ص611 اور اسی فتاویٰ میں ہے کہ جب تک ثبوت صحیح شرعی سے کسی بزرگ کا مزار ہونا ثابت نہ ہوجائے وہاں خیال قائم کرنے اور غیر معتبر لوگوں کے کہنے سے یہ جائیز نہ ہوگا کہ وہاں بزرگ کا مزار مان لیں ص686 لہذا جسطرح فرضی مزار بنانا جائیز نہیں ہے اور اسکی زیارت کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اسی طرح کسی بزرگ کے نام سے فرضی چلہ بنانا بھی جائیز نہیں اسلیے اسکو ہٹانا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ اندھی عقیدت میں بہکنے سے بچیں اب تو جگہ جگہ نئے نئے چلے سننے میں آرہے ہیں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ بزرگان دین جنکا ان جگہوں پر کبھی گزر نہیں ہوا مگر انکے نام کے چلے موجود ہیں حالانکہ عرف عام میں چلہ گاہ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ کے کسی ولی نے کچھ دیر عبادت یا قیام کیا ہو مگر اب تو دنیا پرست لوگوں نے پیٹ بھرنے نوٹ بٹورنے کیلیے جگہ جگہ چلے بنائے دھونی سلگائے مورچھل لیکر بیٹھے ہیں صورت مستفسرہ میں ان مصنوعی فرضی چلہ گاہوں پر جانا درست نہیں اور ایسے فرضی چلہ کو ہٹانانہایت ضروری ہے فتاویٰ فخرازہر جلد2ص483 2:اعلیحضرت فتاویٰ رضویہ کی جلد 4ص115 پر تحریر فرماتے ہیں کہ قبر بلا مقبور کی زیارت کیلیے وہ افعال کرنا گناہ ہے اورجب کہ وہ اسپر اڑے ہوئے ہوں اور باعلان اسے کررہے ہوں تو وہ فاسق معلن ہیں اس جلسہ زیارت میں شرکت جائیز نہیں ۔اس معاملہ سے جو خوش ہیں خصوصاً وہ جو خرافات میں مددگار و حمایتی ہیں سب گناہ گار بلکہ وہ بھی جوباوجود قدرت و طاقت خاموش ہیں مگر ان میں کوئی بات کفر نہیں کہ اس سے ایمان و نکاح باطل ہو بہرحال فرضی قبر بنانا اور اسکے ساتھ اصل جیسا معاملہ کرنا ناجائیز و بدعت ہے فتاویٰ فخرازہر جلد2ص350تا351 3:فرضی کربلا بنانا حرام ہے فتاویٰ تاج الشریعہ جلد4ص 421 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص 60 4: فتاویٰ تاج الشریعہ جلد اول ص 444 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص19 5:فتاویٰ فیض الرسول جلد2ص543اورص611 6: *پہلا فتویٰ* فاسقوں کی خبر کی بنیاد پر کسی فرضی قبر کو ولی کی قبر مان کر اس قبر پر عرس کرانا اور اسکی زیارت کرنا سخت ناجائیزوحرام ہے *دوسرا فتویٰ* مصنوعی قبر کی زیارت حرام ہے اور حدیث میں لعنت آئی ہے جو بزرگ کی قبر ہونے کا مدعی ہو وہ دلیل شرعی سے ثابت کرے بلادلیل شرعی قبر بتانا بھی ناجائیز گناہ ہے *تیسرا فتویٰ* بیشک جب تک ثبوت صحیح شرعی سے کسی بزرگ کا مزار ہونا ثابت نہ ہوجائے وہاں محض خیال قائم کرنے اور غیر معتمد لوگوں کے کہنے سے یہ جائیز نہ ہوگا کہ وہاں بزرگ کا مزار مان لیں خصوصاً فساق کا بیان حال قال اللہ تعالیٰ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا سورة الحجراة آیة "6" ترجمہ: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو بزرگ کا مزار ہونا تو بزرگ کا مزار ہے وہاں عرس کرنا اور چڑھانا کا وہاں مسلم کی قبر ہے جب تک ثابت نہ ہوجائے وہاں جانا نیز سمجھنا اور وہاں پڑھنا اسکی بھی اجازت نہ ہوگی فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم ص 686تا687 7:فتاویٰ علیمیہ جلداول ص 365 تا 366 پر اعلیحضرت کی بات نقل کی جو پہلے حوالے میں بیان ہوئی اور آخر میں لکھتے ہیں اور جو لوگ عدم علم کی بنا پر ایسے فرضی مزار پر چلے جائیں تو ان پر الزام نہیں مگر بعد علم توبہ کریں 8:جس قبر کایہ بھی حال معلوم نہ ہو کہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی، ا س کی زیارت کرنی، فاتحہ دینی ہرگز جائز نہیں کہ قبر مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب، اور قبر کافرکی زیارت حرام ہے او راسے ایصال ثواب کاقصد کفر، فتویٰ رضویہ جلد 9 ص535 9:بغیر ثبوت کسی مزار کی زیارت کو نہیں جانا چاہئے فتاویٰ علیمیہ جلد1ص365 فتاویٰ علیمیہ جلد1ص362 10:ایسی مصنوعی قبر جسمیں صاحب قبر کا کوئی ثبوت نہیں صرف گائوں کے بڑے بوڑھوں کے کہنے سے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے کہ رات میں اس قبر کی جگہ کوئی سفید چیز نظرآرہی تھی کہ جس سے معلوم ہورہاتھا کوئی شخص سفید لباس پہنے ہوئے کھڑا ہےتو صبح کے وقت لوگوں نے اس جگہ تھوڑی سی مٹی رکھ کر اس جگہ کو ملنگ بابا کے تھان کے نام سے یاد کرنے لگے اور اس جگہ فاتحہ دلانا شروع کردیے ہھر وہاں پختہ قبر بنوادی اور اسپر چادریں چڑھانا وغیرہ یہ سب واہیات،خرافات اور جاہلانہ حماقتیں ہیں انکا ازالہ لازم ہے شرع میں اسکی کچھ اصل نہیں محض روشنی اور سفید چیز کے نظر آنے سے قبر کا ثبوت نہیں ہوتا اور فرضی قبر کی زیارت کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے نیاز و فاتحہ دلانا سب ناجائیز اور کسی بزرگ کی جانب اسکی نسبت محض افترا ہے۔ اس قبر کو بنوانے والے اور مجاوری کرنے والے سب کے سب گنہگار ہوئے ان پر توبہ لازم اور بنانے والے نے اگر بغیر اجرت بنایا تو اسکو بھی توبہ کرنا ضروری ہے۔ فتاویٰ فقیہ ملت جلد1ص295تا 296اورص293 11:فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد1ص377ص391ص413 12:فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد2ص378 "مزارات پر چادر چڑھانا" امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیںں احکام شریعت حصہ اول ص42 امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں احکام شریعت حصہ اول ص 42 بحوالہ فتاویٰ فخر ازہر جلد دوم ص 285 بقصد تبرک مزارات پر چادر ڈالنا مستحسن ہے خواہ ایک ڈالی جائے یادوچند مگران سب چادروں کو ان پرچھوڑانہ جائے بلکہ صرف ایک چادر رہنے دیں کہ مقصود قلوب عوام میں مزارات مبارکہ کی عظمت پیدا کرنا ہے اور وہ ایک سے حاصل ہے فتاویٰ علیمیہ جلد1ص365 چادر چڑھانے کے لیے بعض لوگ تاشے باجے کے ساتھ جاتے ہیں یہ ناجائز ہے مزار پر چادر ڈالنے کی منت ماننا کوئی شرعی منت نہیں ہے۔مگر یہ کام منع نہیں کرے تو اچھاہے بہار شریعت حصہ نہم ص320 نوٹ: مزارات پر چادریں ڈالنے کی مکمل تفصیل کیلیے علامہ عبدالغنی نابلسی کی کتاب "کشف النورعن اصحاب القبور" کا مطالعہ کریں جسکا ترجمہ علامہ عبدالحکیم قادری نے کیا ہے یہ مضمو ن سلسلہ اشاعت نمبر 92 میں ہے *مزارات و قبور کا بوسہ لینا* مزارات و قبورکا بوسہ لینانہ فرض ہے نہ واجب و مسنون بلکہ اگرعوام اس سے اجتناب کریں تو بہتر ہے فتاویٰ شرعیہ جلد2ص443 *"قبر رسول سے متصل جالی کو مس کرنا اور چومنا"* اعلیحضرت فرماتے ہیں کہ جالی شریف کےبوسہ ومس سے دور رہ کہ خلاف ادب ہے فتویٰ رضویہ جلد10ص825 خبردار جالی شریف کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کوا پنے حضور بلایا اور اپنے مواجہہ اقدس میں جگہ بخشی، ان کی نگاہ کریم اگر چہ تمھاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے والحمد ﷲ ۔ فتاویٰ رضویہ جلد10ص765 یہی بات مفتی امجد علی اعظمی نے بیان فرمائی بہارشریعت حصہ ششم ص1219 اور ایک مقام پر تو اعلیحضرت نے قبررسول کو چومنے کے متعلق سارا مسئلہ ہی حل کردیا چنانچہ اعلیحضرت نے فرمایاکہ فی الواقع بوسہ قبر میں علماءکا اختلاف ہے۔اور تحقیق یہ ہے کہ وہ ایك امر ہے دو چیزوں داعی و مانع کے درمیاندائر،داعی محبت ہے اور مانع ادب،تو جسے غلبہ محبت ہو اس سے مواخذہ نہیں کہ اکابرصحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے ثابت ہے اور عوام کے لئے منع ہی احوط ہے۔ہمارے علماءتصریح فرماتے ہیں کہ مزار کابر سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو پھرتقبیل کی کیا سبیل۔ فتویٰ رضویہ جلد22 ص405 یہی بات فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلددوم ص 399 پر بھی موجود ہے *اسیطرح یہی بات* فتاویٰ یورپ ص336 پر ہے *نوٹ* بوسہ قبور کی تفصیل کیلیے علامہ فیض احمداویسی کی کتاب *مزارات کوچومنا* کا مطالعہ کریں *پیرکواللہ ورسول کہنا* یہ کہنا کہ میراپیرمیرا اللہ میرا رسول ہے یہ جملہ کفر صریح ہے کہنے والے پر اس سے توبہ وتجدیدایمان فرض ہے اور شادی شدہ ہے تو تجدیدنکاح بھی ضروری ہے فتاویٰ تاج الشریعہ جلد1ص294 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص15 *قشقہ لگانا شعار ہنود ہے* ہندوجوپیشانیوں پرصندل کاقشقہ تلک لگاتے ہیں یہ صرور انکامذہبی شعارہے مسلمانوں کو قشقہ لگاناحرام،بدکام بدانجام بلکہ کفر ہے کہ یہ کفار سے پوری مشابہت ہے کما فی الحدیث من تشبةبقوم فھومنھم جو جس قوم سے مشابہت کرے وہ انہیں میں سے ہے فتاویٰ تاج الشریعہ جلد2ص139 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص 27 *مزارات پرچڑھے ہوئے سندل کا تلک لگانا* مزارات پر چڑھائے ہوئے صندل کا قشقہ تلک مسلمانوں کو لگانا حرام ہے اور جو اس کو جائز بتائے اس پرتوبہ وتجدیدایمان و نکاح لازم ہے اور ایسا کہنے والے کوامام بناناحرام اشد حرام اور مقتدائے دین، عالم شرع سمجھناکفراوراس سے مسائل پوچھناحرام ہے۔ بے توبہ لائق امات نہیں۔فتاویٰ تاجاالشریعہ جلد دوم ص139 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ ص 28 *سوال* دف بجاکر قصائد نعت اور حالت قیام میلاد شریف میں صلاة وسلام پڑھناجائز ہے یاناجائزہے اور دف مع جھانج ہوتو کیاحکم ہے *جواب* ہرگز نہ چاہیے ظاہر ہے کہ یہ سخت سوء ادب ہے اور اگر جھانج بھی ہوں یا اسطرح بجایاجائے کہ گت پیداہوفن کے قواعد پر جب توحرام اشدحرام ہے۔حرام درحرام ہے *سوال* *کسی بزرگ کے قدیم جھنڈے پر پھول چڑھانا دف بجاکرقصائد نعت وتوسل پڑھتے ہوئے اس کاجلوس نکالناپھراس جھنڈے کو بہ نیت تبرک مجلس میلاد شریف میں رکھنااوربعدختم میلادشریف ان پھولوں کوتبرک کے طورپرلوٹناجائزہےیاناجائزہے*؟ *جواب* یہ بھی نہ چاہیے جھنڈے پر پھول چڑھانامحض بےمعنی۔ دف بجاکر نعت و منقبت پڑھنے کاحکم اوپر گذرا۔ان پھولوں کو تبرک بنانا نری ہوس خام ہے جھنڈے کی کسی بزرگ کی طرف نسبت ہی کے کیا معنی یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیہ دار فتح نشان کی عظمت حضرت امام عالی مقام کی جانب فرضی نسبت سے کرتے ہیں فرضی نسبت کیا کارآمد ہے پھر اگر نسبت فرضی نہ ہو مثلاً کسی پیرکے مریداسکی خانقاہ کے جھنڈے کی ایسی تعظیم کرتے ہوں اس پر پھول چڑھاکر انہیں لوٹتے ہوں جب بھی کہ یہ غلو ہے اور اللہ پاک غلوسے منع فرماتاہے۔ ارشاد قرآن ہے لاتغلوافی دینکم محض جھنڈے کا جلوس نکالنا بھی ایسا ہی ہے فتاویٰ مصطفویہ ص487تا488 *قبرپر اگربتی سلگانا* خاص قبر پر اگر بتی سلگانا ممنوع ہے ہاں اگر قبر سے ہٹ کر خالی جگہ پر سلگائیں تو کوئی حرج نہیں مگر یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہاں کچھ لوگ موجودہوں ورنہ اگر میت کو خوشبو پہنچانے کی نیت سے ہوتو فضول ہے کہ میت کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا *اعلیحضرت فرماتے ہیں* اگر بتی قبر کے اوپررکھ کر نہ جلائی جائے کہ اسمیں سوء ادب اور بدفالی ہے فتاویٰ رضویہ جلد 4ص185 بحوالہ فتاویٰ مرکزتربیت افتاء جلد اول ص 377 مسئلہ (۳): اَحکامِ شرعیّہ کی پابندی سے کوئی ولی کیسا ہی عظیم ہو، سُبکدوش نہیں ہوسکتا۔(1) بعض جہال جو یہ بک دیتے ہیں کہ شریعت راستہ ہے، راستہ کی حاجت اُن کو ہے جو مقصود تک نہ پہنچے ہوں ، ہم تو پہنچ گئے، سیّد الطائفہ حضرت جُنید بغدادی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انھیں فرمایا: ’’صَدَقُوا لَقَدْ وَصَلُوا وَلکِنْ إِلٰی أَیْنَ؟ إِلَی النّارِ۔‘‘(2) ’’وہ سچ کہتے ہیں ، بیشک پہنچے، مگر کہاں ؟ جہنم کو۔‘‘ البتہ! اگر مجذوبیت(3) سے عقلِ تکلیفی زائل ہو گئی ہو، جیسے غشی والا تو اس سے قلمِ شریعت اُٹھ جائے گا(4)،مگر یہ بھی سمجھ لو! جو اس قسم کا ہوگا، اُس کی ایسی باتیں کبھی نہ ہوں گی، شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا۔بہارشریعت حصہ اول ص167 ’’ملفوظات‘‘ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ میں ہے : ’’سچے مجذوب کی یہ پہچان ہے کہ شریعت مطہرہ کا کبھی مقابلہ نہ کریگا‘‘۔ ’’ملفوظاتِ اعلی حضرت بریلوی‘‘، حصّہ دوم، ص۲۴۰۔ بحوالہ بہارشریعت کوئی ولی کتنا ہی عظیم ہو شریعت کی پابندی سے آذاد نہیں ہوسکتا جب تک ہوش و حواس باقی ہیں شریعت کی پابندی لازم ہے۔ اور جو پیر کہے کہ ہم طریقت والے ہیں شریعت والے الگ ہیں تو ایسا شخص جھوٹا اور مکار ڈھونگی گمراہ آور گمراہ گر ہے ایسے شخص سے مرید ہونا قطعاً جائیز نہیں اور اس پیر کا یہ کہنا کہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں تو اس جملے سے نماز کا صاف انکار معلوم ہوتا ہے اور نماز کا منکر کافر ہے لہذا شخص مذکور پر توبہ و تجدید ایمان لازم ہے۔نماز کا انکار یقیناً کفر ہے لیکن نہ پڑھنے والے پر حکم کفر تو عائد نہیں ہوگا۔لیکن فاسق معلن مستحق قہرغضب وباعث لعنت و ملامت ہے فتاویٰ فخر ازہرجلد472تا473 جو پیر امام اور علمائے اہلسنت کی توہین کرے سخت فاسق و فاجر ہے ایسا شخص پیری کے لائق نہیں ہے۔ ایضاً۔ص302 *فاسق معلن پیر سے بیعت* جو پیر داڑھی بالکل نہیں رکھتا ہے یعنی منڈایاکرتا ہے اور اجنبی عورتوں سے اختلاط میں کوئی عار نہیں سمجھتا تووہ فاسق وفاجر،مرتکب حرام و گناہ کبیرہ ہے اس سے مرید ہونا جائز نہیں کیونکہ شرائط پیری سے یہ بھی ہے کہ پیر فاسق معلن نہ ہو۔ اور پھر مریدوں کا یہ کہنا کہ ہمارے حضرت ظاہر میں ایسے ہیں کبھی کبھی ان کی داڑھی بوقت ضرورت ظاہر ہوتی ہے سراسر حماقت اور گمراہ گری ہے فتاویٰ مرکزتربیت جلد2ص345 *مسئلہ:کسی پیرومرشدکی نماز* *معاف ہے یانہیں؟یہ بھی* *صاف لکھیں کہ* *پیرومرشدپرنماز* *باجماعت فرض ہے یانہیں؟تیس* *قدم کے فاصلے پرایک* *پیرصاحب تھے لیکن جمعہ* *پڑھنے نہیں آئے ان کے بارے میں* *کیاحکم ہے* جواب: کسی پیرپرہرگز نماز معاف نہیں ہےجوپیر نمازوجماعت سے لاپرواہ ہووہ پیرنہیں *شیطان* ہے اس سے مرید ہونایااس کی صحبت میں بیٹھنا حرام حرام اشدحرام ہے۔جماعت کی پابندی واجب ہے جان بوجھ کربے عذر شرعی جماعت کاچھوڑنے والا بھی شرعاً فاسق وفاجرہے اور جماعت سنت موکدہ ہے ایسے ہی ہمارے عام مشائخ نے کہاکہ وہ واجب ہے اگرپیرمذکور نےبےعذرشرعی نمازجمعہ کوترک کیاتوشرعاًوہ ضرورقابل مواخذہ وملامت ہے فتاویٰ شرعیہ جلد3ص718 "کسی شخص پر کسی بزرگ یا ولی کاآنا" یہ سب مکروفریب ہےکوئی بزرگ کسی پر نہیں آتا اس پر اعتماد کرنا جائیز نہیں ہاں خبیث ہمزاد اور جنات آتے ہیں فتاویٰ شارح بخاری جلد2ص147 "کسی عورت پر پیر کا آنا" یہ اس عورت کا مکر ہے اور پیشہ ور پیروں عاملوں کا ڈھکوسلہ ہے کوئی اللہ کا ولی کسی عورت پر کبھی نہیں آسکتا ہاں جن اور ہمزاد یہ کسی بھی مرد یا عورت کو خبط الحواس کرکے اس سے جو چاہیں کرائیں فتاویٰ شارح بخاری جلد 2ص304 *نیم کے درخت کو غوث پاک کی طرف منسوب کر کے وہاں نیاذ و فاتحہ دلانا سلام کرنانذرمانناکیسا ہے* اس درخت کو غوث پاک کی طرف منسوب کرکے وہاں نیاز و فاتحہ دلانا اسکو سلام کرنا نذر مانناوغیرہ محض خرافات ہیں *اعلیحضرت فرماتے ہیں* یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں درخت پر شہید مرد رہتے ہیں اور اس عقیدے کے تحت وہاں فاتحہ دلانا مرادیں مانگناوغیرہ محض واہیات، خرافات اور جاہلانہ حماقات ہیں احکام شریعت جلد1ص32 بحوالہ فتاویٰ مرکزتربیت افتاء جلد دوم ص 378 *بزرگ کی سواری آنا* کسی مرد یاعورت پرکسی بزرگ کی سواری نہیں آتی یہ دعویٰ فریب ہے صرف جنات کا ثرہوتاہے وہ بھی کسی کسی پر مگر ان جنات سے سوال کرنایاآئندہ کا حال معلوم کرنا ناجائز ہے وقارالفتاویٰ ص 177 کسی عورت یا مرد پر کوئی پیر، بابا،یاولی شہیدوغیرہ نہیں آتے ہیں یہ تمام خرافات وخیالات و اوہام عوام ہیں ان باتوں پر اعتماد جائز نہیں فتاویٰ تاج الشریعہ ص جلد1ص 501 بحوالہ تعلیمات تاج الشریعہ19 "بزرگوں کے نام پر چراغ 16چراغ جلانا" بزرگوں کے نام پر سولہ چراغ جلانا یابتیس چراغ جلانا یہ سب بے اصل و من گھڑت اور وضع جہال ہے اور اپنے مال کو ضائع کرنا ہے اور فضول خرچی ہے۔فتاویٰ فخرازہرجلد2ص493 *کسی بزرگ کی مزار پر بال اتارنے کی منت ماننا* کسی بزرگ کے مزار پر بال اتارنے کی منت ماننا جہالت ہے فتاویٰ فقیہ ملت جلد2ص292 *سرپر چوٹی رکھنے کی منت ماننا* لڑکے کے سر پر چوٹی رکھنا ناجائیز ہے اور لڑکے کے سر پر بھی ایسی چوٹی رکھنا ناجائز ہے جو ہندئوں کی چوٹیاں ہوں فتاویٰ مفتی اعظم جلد پنجم ص 130 فتاویٰ مصطفویہ ص 467 *اعلیحضرت فرماتے ہیں* جو بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سرپر بعض اولیاء کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں اس میعاد تک کتنے ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں پھر میعاد گزار کر مزار لیجاکر وہ بال اتارتی ہیں تو یہ ضرور محض بےاصل و بدعت ہے فتاویٰ افریقہ ص 68 *مسئلہ* یہ منت ماننا کیسا ہے کہ اگر مجھے فلاں ولی کی دعا سے بیٹا پیدا ہوا تو میں اپنے بیٹے کے بال اس ولی کی درگاہ پر آکر منڈائوں گا؟ *جواب* بال وہاں اتروانا فضول اور اسکی منت باطل ہے فتاویٰ افریقہ ص148 مسئلہ ۲۰: بعض جاہل عورتیں لڑکوں کے کان ناک چھدوانے اور بچوں کی چوٹیا رکھنے کی منّت مانتی ہیں یا اور طرح طرح کی ایسی منتیں مانتی ہیں جن کا جواز کسی طرح ثابت نہیں اولاً ایسی واہیات(3) منتوں سے بچیں اور مانی ہوتوپوری نہ کریں اور شریعت کے معاملہ میں اپنے لغو خیالات (4) کو دخل نہ دیں نہ یہ کہ ہمارے بڑے بوڑھے یوہیں کرتے چلے آئے ہیں اور یہ کہ پوری نہ کرینگے تو بچہ مرجائیگا بچہ مرنے والا ہوگا تو یہ ناجائز منتیں بچا نہ لیں گی۔ منّت مانا کرو تو نیک کام نماز، روزہ، خیرات، دُرود شریف، کلمہ شریف، قرآن مجید پڑھنے، فقیروں کو کھانا دینے، کپڑا پہنانے وغیرہ کی منّت مانو اور اپنے یہاں کے کسی سنی عالم سے دریافت بھی کرلو کہ یہ منّت ٹھیک ہے یا نہیں ، وہابی سے نہ پوچھنا کہ وہ گمراہ بے دین ہے وہ صحیح مسئلہ نہ بتائے گا بلکہ ایچ پیچ (5) سے جائز امر کو ناجائز کہہ دیگا۔ بہار شریعت حصہ نہم ص 321 *اولیاءکرام کا عرس ضروری سمجھ کر منانا* اولیاء کرام کا عرس جائز ہے ضروری نہیں۔ اور کوئی مسلمان اسے ضروری نہیں کہتا ہے بلکہ جائز ہی کہتاہے۔لہذا زید کا یہ کہنا کہ عرس ضروری سمجھ کر کیاجاتاہے مسلمانوں پر بدگمانی ہے۔اور بدگمانی حرام ہے فتاویٰ فیض الرسول ص672 نوٹ: تمام حوالہ جات کہیں پر مختصر درج کیے گئے ہیں کہیں پر سوال اور جواب کو اکٹھا لکھدیا ہے اور کہیں پر مکمل سوال و جواب درج کردیے ہیں تو کہیں پر صرف جواب لکھ دیا گیا ہے *_ختم شدہ_* ~*ازقلم غلامِ احمد رضا*~ ~*علی حیدر تنیو سنی حنفی بریلوی*~
    1 point
×
×
  • Create New...