پھر بھی اگر تم اھل الاھواء ھونے کا ثبوت دیتے ھوئے۔ ابومطیع کو ضعیف تسلیم نہ کرو۔ تو بھی تم غلاظت کے ڈھیر میں ہی پڑے رھوگے۔ کیونکہ ابومطیع تمھیں بھی ٹیکہ لگاتے ھوئے معتزلی بنا گیا ھے۔ “الفقہ الاکبر” جو ابو مطیع کی سند سے امام ابوحنیفہ سے منسوب ھے۔ میں لکھا ہوا ہے کہ : “فما ذکر اللہ تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھو صفات بلا کیف ولا بقال: أن یدہ قدرتہ و نعمتہ لأفیہ ابطال الصفۃ وھو قول اھل القدر والإعتزال ولکن یدہ صفتہ بلا کیف” پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وجہ (چہرہ) ید (ہاتھ) اور نفس (جان) کا جو ذکر کیا ہے وہ اس کی بلا کیف صفتیں ہیں اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس کا ہاتھ اس کی قدرت اور نعمت ہے کیونکہ اس (کہنے) میں صفت کا ابطال ہے اور یہ قول قدریوں اور معتزلہ کا ہے، لیکن (کہنا یہ چاہئے کہ ) اس (اللہ) کا ہاتھ اس کی صفت ہے بلاکیف۔ [ص۱۹ ومع شرح القاری ص ۳۷،۳۶] پھر اسی ابو مطیع البلخی نے کہا : ابو مطیع نے اِمام أبو حنیفہ رحمہُ اللہ سے پوچھا : جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کے بارے میں کیا حُکم ہے ؟؟؟؟؟ أبو حنیفہ نے فرمایا: تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى الرحمٰن عرش پر قائم ہوا۔ اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے ابو مطیع کہتا ھے : میں نے پھر پوچھا : اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا عرش آسمان پر یا زمین پر ہے (تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے )؟ تو ابوحنیفہ نے فرمایا: ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے". [الفقه الأكبر : ج1 ص135] اس کے جواب میں ، ملا علی قاری حنفی نے، ابومطیع کو ہی کذاب قرار دے دیا۔ ھھھھھھھھھھھھھھھ یہ کیا چکر ھے، جب ابومطیع تمہیں دال پانی فراھم کرے تو تب امام حافظ جیسے الفاظ سے بھی توثیق نکال کر لے آتے ھو۔ اور ابومطیع کو انبیاء کے قائم مقام بنا دیتے ھو۔ اور جب یہی ابو مطیع تمہیں عقیدے کی تعلیم دیتا ھے۔ تو عقیدے میں تم ابومطیع پر لعنت بھیج دیتے ھو۔ ارے کوئی دین ایمان بھی ھے تم لوگوں کا یا کہ نہیں؟ ملا علی القاریؒ لکھتے ہیں ولا شک ان ابن عبدالسلام من اجل العلماء واو ثقھم ، فیجب الاعتماد علی نقلہ لا علی ما نقلہ الشارح ، مع ان ابا مطیع رجل وضاع عند اھل الحدیث کما صرح بہ غیر واحد اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابن عبدالسلام ایک جلیل القدر اور ثقہ عالم ہیں ان کی نقل پر اعتماد لازم ہے اور جو بات شارح نے نقل کی ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ابو مطیع بلخی سے بات نقل کی ہے اور ابو مطیع بلخی کے بارے میں علماء محدثین نے صراحت کی ہے کہ وہ بہت بڑا جھوٹا انسان ھے". Sent from my XT1609 using Tapatalk