Jump to content

لیڈر بورڈ

مشہور مواد

Showing content with the highest reputation on 27/10/2019 in all areas

  1. *شمشادنامی غیر کے مقلد کی کا دعویٰ کہ امام اعظم اما م مالک سے ہر علم میں کم تھے اور اسکی پیش کردہ دلیل پر تحقیقی نظر* غیر کا مقلد پہلے ایک روایت جو کہ امام شافعی سے منسوب ہے اسکو نقل کرنے سے پہلے ایک پھکی بنا کر لکھتا ہے : امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ؟؟ امام شافعی رحمہ اللہ کا اصول فقہ کا بانی سمجھا جاتاہے اب اس بانی اصول الفقہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ کون ہوتا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں: امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس، قلت: على الإنصاف؟ قال: نعم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم يعني مالكاً، قلت: فمن أعلم بالسنة؟ صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم. قلت : فأنشدك بالله من أعلم بأقاويل أصحاب محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قلت: فلم يبق إلا القياس والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الأصول فعلى أي شيء يقيس؟!!!! [الجرح والتعديل موافق 1/ 12 واسنادہ صحیح] ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا: کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہما اللہ میں سے زیادہ جانکار کون ہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا انصاف کے ساتھ بتلادوں؟ محد بن حسن نے کہا: جی ہاں۔ امام شافعی کہتے ہیں پھر میں نے کہا اللہ کے واسطے بتاؤ قران کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟ محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ قران کے زیادہ جانکار تھے۔ اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا : اچھا یہ بتاؤ حدیث کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟ محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے زیادہ جانکار تھے۔ اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اب باقی بچا قیاس تو قیاس انہیں قران وحدیث ہی پر ہوتا ہے پس جو شخص (ابوحنیفہ) اصول یعنی قران و حدیث سے ناواقف ہو وہ قیاس کس پر کرے گا؟؟؟ گھوپو پھر روایت پر اپنا خلاصہ بھی لکھتا ہے کہ : اس پورے کام میں غورکریں گے توصاف معلوم ہوتا ہے امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا فقیہ وہی ہوسکتاہے جو سب سے زیادہ حدیث (نصوص کتاب وسنت) کا جانکار ہوگا، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قران و حدیث میں کم علم کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی امام مالک رحمہ اللہ سے کمزور بتلایا ہے الجواب: اس غیر کے مقلد شمشاد نامی کو چاہیے تھا کہ یہ کہتاکے امام الحسن بن شیبانی ؒ جو خود حنفی ہیں وہ امام اعظم کو امام مالک سے ہر علم میں کم سمجھ رہے ہیں جبکہ متن میں بھی اقرار تو امام محمد بن حسن کر رہےہین امام شافعی نے تو اپنے منہ سے کچھ نہ بولا لیکن اس جاہل کو متن سمجھنے کی بھی تمیز نہیں اور اگر ہوگی بھی تو اس نے بات امام شافعی کی طرف لٹا دی ہے خیر اب ہم اسکا تحقیقی جواب پیش کرتے ہیں اس روایت کا متن ہی اس روایت کو باطل بنانے کے لیے کافی ہے امام محمد بن الحسن الشیبانی جو امام اعظم ابو حنیفہؒ کے شاگرد بنے پھر مدینہ امام مالکؒ کے پاس ۳ سال تک رہے اور انکی الموطا یاد کی ہے پھر وہ امام اعظمؒ کی شاگردی اختیار کی واپس آکر اور اپنی وفات تک فقہ حنفی کی تدوین کرتے رہے انہوں نے فقہ حنفی کی تائید اور تدوین میں سب سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امام اعظم معاذاللہ قرآن کا علم بھی حدیث کا علم اور اثار کا علم بھی نہیں رکھتے تو اللہ انکو امت کا سب سے بڑا فقیہ امام کیسے بنا دیا ؟ دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی جو خود موطا روایت کرتے ہیں امام مالک سے وہ بھی نیچے امام ابو حنیفہ ؓ سے مروی اثار لکھ کر کہتے ہیں ہمارا اس پر عمل ہے وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امام مالک ہر علم میں امام اعظم سے مقدم ہیں ؟ نیز امام محمد بن الحسن الشیبانی نے تو امام مالک کے رد پر مکمل کتاب تصنیف کی ہے جسکا نام انہوں نے الرد علی اہل مدینہ کے نام سے لکھی اگر وہ انکو ہر علم میں مقدم سمجھتے تو امام اعظم کی تائید اور دفاع میں امام مالک کے خلاف کتاب کیسے لکھتے ؟؟ امام شافعی کا فیصلہ! امام شافعی ؒ تو خود اپنے تما م تمام شیوخ جن میں امام مالک بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد بن الحسن الشیبانی الحنفیؒ نے کیا ہے (تاریخ اسلام و سند صحیح ) امام شافعی تو امام محمدبن الحسن کو اما م مالک پر فوقیت دیتے تھے وہ کس طرح یہ سمجھتے ہوں کہ : امام ابو حنیفہ امام مالک سے ہر علم میں کم ہیں نیز پھر اما م محمد بن الحسن کا بھی یہی کہنا ہو؟ نیز اسکو امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب آداب مناقب میں نقل کیاہے اور اس میں امام ابن ابی حاتم نے تعصب کی وجہ سے امام شافعی سے انکی زندگی کے آغاز میں امام اعظم اور صاحبین کے خلاف کہے گئے اقوال زیادہ نقل کیے اور اما م شافعی کی طرف سے امام اعظم کی مداح و ثناء میں اقوال نہ ہونے کے برابر لکھے ہیں اور اسی کتاب میں سند صحیح کےساتھ موجود ہے کہ امام شافعی کہتے ہیں رائے یعنی قیاس کوئی چیز ہے تو اس میں تمام لوگ اہل عراق (یعنی امام اعظم و صاحبین ) کے سب بچے ہیں پھر اپنی زندگی کے آخری حصے میں تھے تو کہتے تھے کہ : فقہ میں تما م لوگ بال بچے ہیں اہل اعراق (یعنی امام اعظم و صاحبین) کے امام اعظم تو فقہ کے باب مین سب کو امام اعظم و صاحبین کے بال بچے سمجھتے تھے وہ کیسے امام مالک کو مقدم کر سکتے تھے فقہ میں امام ابو حنیفہ پر ؟ جبکہ انکے نزدیک تو امام محمد بن الحسن الشیبانی بھی اما م مالک سے مقدم تھے فقہ کے باب میں اوردوسری بات امام مالک خود امام ابو حنیفہ کو بے نظیر فقیہ مانتے تھے اسی کتاب آداب الشافعی میں امام ابن ابی حاتم با سند صحیح سے لکھتے ہیں کہ : امام شافعی نے اما م مالک سے پوچھا کہ آپ نے امام ابو حنیفہ کو دیکھا ہوا ہے ؟ تو امام مالک نے کہا بیشک میں نے اسے دیکھا ہوا اسکے پاس دلائل کا اتنا انبار ہوتا ہے وہ ایک مٹی کے ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہے تو کئی دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں امام مالک کا امام عظم کے بارے یہ مشہور قول بھی ابن ابی حاتم نے ہضم نہ ہوا اور پیٹ میں مروڑ اٹھے جسکے بائث انہوں نے لکھا کہ امام مالک کی مراد تھی کہ امام ابو حنیفہ غلط ہونے پربھی ڈٹے رہتے (معاذاللہ استغفار) جبکہ امام اعظم کا اپنا قول صحیح سند سے ثابت ہے وہ کہتے ہیں اے ابو یوسف: تم میرے منہ سے نکلی ہر بات نا لکھ لی کروکیونکہ میں اکثر اپنے اقوال سے رجوع کر لیتا ہوں صبح ایک فیصلہ ہوتا ہے تو رات کو رجوع کر چکا ہوتاہوں نتیجہ: اس سے معلوم ہوا کہ اما م اعظم بہت محتاط اور دلائل پر گہری نظر رکھنے والے امام تھے کہ انکو اپنے اجتیہاد کے خلاف کوئی روایت مل جاتی تو فورا اپنا قیاس رد کر دیتے اور روایت کو قبول کر لیتے اور دوسرا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ اما م اعظم اپنے تمام شاگردوں کو اپنی اجازت سے لکھواتے تھے بغیر اجازت امام ابو یوسف کو بھی لکھنے سے منع فرما دیتے یہی وجہ ہے کہ امام اعظم اپنے کسی بھی فیصلے پر جب مدلل تحقیق کر چکے ہوتے تو تب لکھواتے یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں باقی فقہ کی طرح اقوال میں تکرار نہیں ہے اب آتے ہیں اسکی سند کی طرف: اسکی سند بظاہر صحیح ہے لیکن بظاہر ہر سند صحیح ہونے سے متن صحیح نہیں ہو جاتا ہے اہل علم جو اصول حدیث جانتے ہیں وہ یہ بات خوب سمجھتے ہیں تو ہم اس روایت کی سند میں متعدد علتیں پیش کرتے ہیں : ۱۔یہ واقعہ جو مناظرے کا ہے امام شافعی اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کا اسکو بیان کرنے والا فقط ایک راوی ہے جس پر اس قصے کا دارومدار ہے اور اسکا نام ہے محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم یہ خود امام مالک کے مذہب پر تھا اور امام شافعی کے بھی اور متشدد بھی تھا اسکا ترجمہ بیان کرتےہوئے امام ابن ایبک الصفدی (المتوفیٰ ۷۶۴ھ) کیا فرماتے ہیں دیکھتے ہیں : ابن عبد الحكم الشافعي محمد بن عبد الله بن عبد الحكم بن أعين بن ليث الإمام أبو عبد الله المصري الفقيه أخو عبد الرحمن وسعد لزم الشافعي مدة وتفقه به وبأبيه عبد الله وغيرهما روى عنه النسائي وابن خزيمة وثقه النسائي وقال مرة لا بأس به وكان الشافعي معجبا به لذكايه وحرضه على الفقه وحمل في محنة القرآن إلى بغداذ ولم يجب ورد إلى مصر وانتهت إليه رياسة العلم في مصر له تصانيف منها أحكام القرآن والرد على الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة والرد على أهل العراق وأدب القضاة توفى سنة ثمان وستين (الكتاب: الوافي بالوفيات ،المؤلف: صلاح الدين خليل بن أيبك الصفدي (المتوفى: 764هـ) امام ابن ایبک نے انکے بارے میں فرماتے ہیں : کہ ابن عبدالحکم یہ فقیہ تھے ان سے امام نسائی ، ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے امام نسائی کہتے تھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے پھر امام ابن ایبک آگے لکھتے ہیں انہوں نے کافی تصانیف بھی لکھی ہیں اور انہوں نے بنام احکام القرآن لکھی ہے ۲۔اور انہوں نے خود اما م شافعیؒ کے رد میں کتاب لکھی ہے جسکا نام تھا الرد علی الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة یعنی امام شافعی پر ان مسائل میں رد جس میں انہوں نے قرآن اور سنت کی مخالفت کی ہے (استغفار ) یہ ہے وہابیہ کی منافقت کیا یہ اب بقول اس راوی کے امام شافعی کو قرآن و حدیث کا مخالف سمجھیں گے ؟؟ چونکہ پہلے دور میں کیا ہوتا تھا محدثین جب کسی مجتہد کے فتوے کو سمجھ نہ پاتے اور انکے فتوے کو بظاہر ایک روایت کے خلاف سمجھ لیتے تو فورا یہ فتویٰ ٹھوک دیتے تے یہ تو قرآن و حدیث کے خلاف ہے بجائے ان سے یہ پوچھنے یا تحقیق کرنے کے کہ : مخالف کی دلیل کیا ہے اور جو روایت انکے پاس ہے کیا وہ مخالف کے منہج کے مطابق قابل قبول ہے بھی یا نہیں خیر آگے چلتے ہیں اما م ابن ایبک آگے لکھتے ہیں : ۳۔ انہوں نے ایک اور کتاب لکھی تھی الرد علی اہل العراق (یعنی امام اعظم و صاحبین) تو ایسے راوی جو اتنا متعصب ہو جو خود امام شافعی اور امام اعظم و صاحبین کے رد میں کتب لکھ چکا ہوتو ایسے متعصب راوی کی روایت پر کون یقین کر سکتا ہے ؟ کیونکہ ایسا متعصب راوی جس سے عداوت رکھتا ہے وہ ضرورالفاظ ایسے بیان کرتا ہے جس سے متن پورا کا پورا تبدیل ہو جاتا ہے اسکا ایک ثبوت اسی راوی ہی سے پیش کرتے ہیں جو کہ اس نے امام شافعی سے ایک ایسی بات بیان کی جسکی وجہ سے امام ربیع بن سلیمان جو امام شافعی کے کبیر شاگرد تھے انہوں نے اس راوی کو کذاب قرار دیتے ہوئے اما م شافعی پر اسکا بہتان لگانے کا اقرار کیا اوراسی وجہ سے امام ابن الجوزی بھی اسکو کذاب مانتے تھے امام ربیع بن سلیمان کی جرح کی وجہ سے لیکن چونکہ یہ جمہور محدثین کے نزدیک متفقہ ثقہ ہے تو محدثین نےتصریح کی ہے کہ یہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی نقل کرنے یا بیان کرنے میں کیونکہ امام ابن خزیمہ نے اسکے حفظ پر کلام کیا ہے کہ اسناد میں اسکا ضبط اچھا نہ تھا جیسا کہ آگے بیان ہوگا اس وجہ سے امام نسائی نے بھی اسکے مطلق فتویٰ دیا کے اس کےبارے میں جھوٹ کا اقرار نہیں کی جا سکتا ہے امام ذھبیؒ نے تزکرہ الحفاظ میں بھی اس راوی یعنی محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم کو شامل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قلت له كتب كثيرة منها الرد على الشافعي وكتاب أحكام القرآن ورد على فقهاء العراق وغير ذلك مات في سنة ثمان وستين ومائتين رحمه الله تعالى. (الكتاب: تذكرة الحفاظ المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں کہتا ہوں اس نے کافی کتب لکھی تھیں جن میں ایک الرد علی الشافعی وکتاب احکام القرآن اوردوسری ورد علی فقہا العراق لکھی (نوٹ: یہ متصب اور مخالف پرست ہونے کی نشانی ہے ) اب ہم ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اس راوی نے امام شافعی سے کونسی ایسی روایت بیان کی ہے جس پر امام ربیع بن سلیمان نے اسکو قسم کھا کر کذاب قرار دیا تھا : چناچہ امام ابن حجر عسقلانیؒ تہذیب التہذیب میں اس راوی کے ترجمے میں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ : وقال الذهبي في الميزان قال ابن الجوزي كذبه الربيع ورده الذهبي بأنه صدوق ثم نقل كلام النسائي وغيره فيه انتهى وابن الجوزي نقل ذلك من كلام الحاكم حيث نقل في علوم الحديث عن طريق بن عبد الحكم قصة مناظرة الشافعي مع محمد بن الحسن في ما يناسب إلى أهل المدينة من تجويز إتيان المرأة في الدبر وهي قصة مشهورة فيها احتجاج الشافعي لمن يقول بالجواز قال فقال الربيع لما بلغه ذلك كذب محمد والله الذي لا إله إلا هو لقد نص الشافعي على تحريمه في ستة كتب وقد أوضحت في مواضع أخر أنه لا تنافي بين القولين فالأول كان الشافعي حاكيا عن غيره حكما واستدلالا ولو كان بعض ذلك من تصرفه فالباحث قد يرتكب غير الراجح بخلاف ما نقله الربيع فإنه في تلك المواضع يذكر معتقده نعم في آخر الحكاية قال والقياس أنه حلال وقد حكى الذهبي ذلك أيضا وتعقبه التحريم كذا قال ولم يفهم المراد فإن في الحكاية عمن قال بالتحريم أن الحجة قول الله تعالى فمن ابتغى وراء ذلك الآية فدل على الحصر في الإتيان في الفرج فأورد عليه لو أخذته أو جعله تحت إبطها أو بين فخذيها حتى انزل لكان حلالا بالاتفاق فلم يصح الحصر ووجه القياس أنه عضو مباح من امرأة حلال فأشبه الوطء بين الفخذين وأما قياسه على دبر الغلام فيعكر عليه أنه حرام بالاتفاق فكيف يصح ثم قال الذهبي وقد حكى الطحاوي هذه الحكاية عن بن الحكم عن الشافعي فأخطأ في نقله ذلك عنه وحاشاه من تعمد الكذب وقد تقدم الجواب عن هذا أيضا (تہذیب التہذیب) امام ذھبی نے میزان میں کہا ہے کہ ابن جوزی نے یہ امام حاکم کے کلام سے نقل کیا ہے جیسے کہ امام حاکم نے علوم الحديث میں طریق بن عبد الحکم سے ایک مناظرے کا قصہ امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کے بارے میں نقل کیا ہے جو کہ اہل مدینہ کی طرف منسوب ہے عورتوں کے پیچھے حصے سے جماع کرنے کے بارے میں مشھور قصہ ہےا س میں امام شافعی کا ان لوگوں کے بارے میں احتجاج ہے جو جواز کے قائل ہیں جب ربیع کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا اس محمد(بن عبداللہ الحکم) نامی شخص نے جھوٹ بولا ہے للہ کی قسم جسکے سوا کوئی معبود نہیں امام شافعی کا اسکو حرام کہنے پر 6 کتب میں نص موجود ہےاور یقینا میں نے واضح کیا ہے کئی جگہوں پر کہ اپ ان اقوال کو ایک دوسرے کے متنافی نا کہے ایک تو امام شافعی اسے دلیل پکڑنے میں (مستدل بنانے میں) اور حکم لگانے میں دوسرے سے حکایت نقل کر رہے ہیں ناکہ خود سے بتا رہے ہیں اگرچہ بعض باتیں انکی تصرف سے ہیں پس بحث کرنے والا غیر راجح قول کا ارتکاب کرتا ہے بخلاف ربیع کے نقل کےکیونکہ وہ ان جگہوں پر معتقد ہو کر بھی نقل کررہا ہے تو آپ نے دیکھ سکتے ہیں کہ اس راوی جو کہ ثقہ توتھا فقیہ بھی تھا لیکن یہ اسناد یا متن میں کچھ ایسی گڑبڑ کر دیتا تھا کہ روایت کا مکمل متن اور مطلب تبدیل کر کے رکھ دیتا تھا یہی وجہ ہے کہ اسکی یہ باتوں کو محدثین نے تسامع میں درج کیا ہے نہ کہ اسکو کذاب قرار دیا اسی طرح خود امام ذھبی میزان کے بارے یہی روایت امام شافعی نے نقل کر کے لکھتے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے (نوٹ: جس طرح اما م ذھبی نے اسکا اما م شافعی سے عجیب و غریب متن کے ساتھ روایت کرنے کو متن قرار دیا ہے ویسے ہی ہم اوپر اسکا بیان کردہ امام شافعی سے امام محمد بن الحسن کے ساتھ ایک اور مناظرے کا قصہ متن کے لحاظ سے منکر ثابت کر آئے ہیں ) لیکن محدثین نے بھی اس واقعے پر اپنا کلام ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بات حقیقت کے منافی ہے جیسا کہ امام ذھبیؒ ہی نے خود سیر اعلام میں اس واقعے کا تعقب کیا ہے اور اسکو رد کرتےہوئے اپنا خوبصورت فیصلہ بیان کیا ہے : امام ذھبی سیر اعلام میں ابن الحکم سے اس واقعے کا کچھ حصہ ذکر کرکے اسکا تعقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قلت: وعلى الإنصاف؟ لو قال قائل: بل هما سواء في علم الكتاب، والأول أعلم بالقياس، والثاني أعلم بالسنة، وعنده علم جم من أقوال كثير من الصحابة، كما أن الأول أعلم بأقاويل علي، وابن مسعود، وطائفة ممن كان بالكوفة من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فرضي الله عن الإمامين، فقد صرنا في وقت لا يقدر الشخص على النطق بالإنصاف - نسأل الله السلامة -. (سیر اعلام النبلاء جلد ۸ ،ص ۱۱۲) میں کہتا ہوں ! انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کتاب اللہ کا علم ہونے کے حوالے سے یہ دونوں حضرات برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ، پہلے والے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ)قیاس کے بارے میں زیادہ علم رکھتے ہیں اور دوسرے صاحب (یعنی امام مالک )سنت کا زیادہ علم رکھتے ہیں انکے پاس صحابہ کے اقوال کا بہت سارا ذخیرہ ہے اور جیسا کہ پہلے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ) کے پاس حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کفہ میں موجود صحابہ کرام کے اقوال کے بارے میں زیادہ علم موجود ہے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں اماموں سے راضی ہو۔ ہم ایک ایسے وقت میں آگئے ہیں جس میں آدمی انصاف کے ساتھ برنے کی قدرت ہی نہیں رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں تو امام ذھبی ؒ نے خود اس بات کارد کرتے ہوئے انصاف کا دمن پکڑتے ہوئے اپنا فیصلہ دیا ہے کہ : امام مالک اور امام اعظم ابو حنیفہ علم قران میں برابر تھے یہ کہا جائے گا اور اجتیہاد اور مسائل میں امام اعظم کو مقدم کیا امام ذھبی نے اور احادیث کے مختلف طریق اور اقوال پر امام مالک کو مقدم کیا لیکن اس بھی تخصیص کرتے ہوئےامام اعظم کے بارے میں فرمایا کہ : امام ابو حنیفہ حضرت علی ، حضرت ابن مسعود اور اہل کوفی کی جماعت کے اقوال اور روایات کے حافظ تھے کیا وہابی ہر رویت میں امام ذھبی کاحکم پیش کرتے ہیں کیا اس بات پر امام ذھبی سے اتفاق کریں گے ؟ یا ان پر بھی بدعتی اور حنفی ہونے کا الزام لگائیں گے ؟ جبکہ امام ذھبی نے علم حدیث کی بنیاد کرنےوالے حضرات میں امام ابو حنیفہ کو بھی شامل کیا ہے اللہ ہم کو غیر مقلدین کے فتنے سے محفوظ رکھے اور ہم سلف اور صالحین محدثین اور فقہا کا دفاع ان گندے انڈے غیر مقلدین سے کرتے رہیں گے ا *دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی*
    1 point
×
×
  • Create New...