لیڈر بورڈ
مشہور مواد
Showing content with the highest reputation on 25/10/2019 in all areas
-
ارے جناب کچھ کہنے سے پہلے بندہ ائمہ حدیث کا منہج اور اسلوب بھی دیکھ لیتا ہے۔ امام ذہبی نے جناب نے کہا کہ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں ابن ملجم لعنتی کو صحابی لکھا ہے جب کہ یہ بات ایک بہتان ہے امام ذہبی نے کہیں بھی اسے صحابی نہیں لکھا۔ اگرصرف کتاب کے نام "تجرید اسماء الصحابۃ" سے استدلال کر رہے ہیں تو یہ جناب کی کم فہمی ہے اس میں امام ذہبی نے بہت سے تابعین اور غیر تابعین کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی صفحہ میں چند افراد کے نام ہیں جن کی امام ذہبی نے خود تصریح کی ہے کہ ان صحبت ثابت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ عبد الرحمن بن معاذ بن جبل توفي مع ابيه في طاعون عمواس لا صحبة له. عبد الرحمن بن معاوية لا تصح له صحبة نزل مصر وروي عنه سويد بن قيس * مرسل * تو جناب دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی نے غیر صحابہ کا ذکر بھی کیا ہے اور خود تصریح کی ہے جب کہ ابن ملجم کا کہیں بھی نہیں لکھا کہ وہ صحابی ہے اگر صحابی والی امام ذہبی کی عبارت جناب کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ اس بات سے رجوع کریں۔ امام ذہبی تو ابن ملجم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل ہی نہیں کہ اس سے حدیث لی جائے لیں امام ذہبی کا موقف: عبد الرحمن بن ملجم المرادي، ذاك المعثر الخارجي.ليس بأهل أن يروي عنه، وما أظن له رواية، وكان عابدا قانتا لله، لكنه ختم بشر، فقتل أمير المؤمنين عليا متقربا إلى الله بدمه بزعمه، فقطعت أربعته ولسانه، وسملت عيناه، ثم أحرق.نسأل الله العفو والعافية (میزان الاعتدال ج 4 ص 592) امید ہے اب امام ذہبی کے حوالے سے ایسی بات نہیں کریں گے۔ باقی ر ہا جناب کا یہ اعتراض: " ابن ملجم بھی مجتہد ہی تھا ۔ سیدنا عمر نے عمروبن العاص کو خط لکھا " عبدالرحمان بن ملجم کا گھر مسجد کے قریب کر دو تا کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید اور فقہ کی تعلیم دے" تاريخ الإسلام - الإمام الذهبي جلد3 ، ص / 653 یہ اعتراض بھی باطل ہے کیونکہ امام ذہبی نے اس واقعہ کی سند نہیں لکھی بلکہ اسے امام ابن یونس کے حوالے سے لکھا ہے جو یہ ہے: وقيل: إنّ عُمَر كتب إِلَى عَمْرو بْن العاص: أنْ قَرّبْ دار عَبْد الرَّحْمَن بْن مُلْجم من المسجد ليُعَلِّم النّاس القرآن والفقه[تاریخ الاسلام (ت بشار) ج 2 ص 273]اور یہی عبارت امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بھی نقل کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے:وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو بن العاص: أن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس القرآن والفقه،[سیر اعلام النبلاء (ط الرسالۃ) ج 2 ص 539]اس میں بندہ دیکھ سکتا ہے کہ امام ذہبی نے و قیل کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور قیل مجہول کےصیغے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ یہ بات امام ذہبی کی خود کی نہیں ہے بلکہ انہوں نے علامہ ابن یونس مصری کی تاریخ سے یہ بات نقل کی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے:علامہ ابن یونس لکھتے ہیں:وقيل: إن عمر كتب إلى عمرو: أن قرّب دار «عبد الرحمن بن ملجم» من المسجد؛ ليعلّم الناس القرآن والفقه.(تاریخ ابن یونس المصری ج 1 ص 315) اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس بات کو بلا سند نقل کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:وقيل أن عمر كتب إلى عمر وإن قرب دار عبد الرحمن بن ملجم من المسجد ليعلم الناس والقرآن والفقه(لسان المیزان ج 3 ص 440) اس بات کی کوئی سند موجود نہیں ہے یہ سب بے سند بات ہے۔ اس لیے بے سند بات کے لیے اپنے محقق فیضی صاحب کی باتیں سن لیں فیضی امام مرتضی زبیدی علیہ الرحمہ کی عبارت سے استدلال کرتے ہوئے ان کی عبارت کا ترجمہ اس طرح کرتا ہے:اور اسی طرح جب امام بخاری اپنے تمام راویوں کو گرا دیں تو ایسی حدیث کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ صحیح بخاری میں ہو تو اور امام بخاری اسے قال یا روی سے لائے ہوں تو یہ انداز اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک ثابت ہے اور اگر یذکر یا یقال سے لائے ہوں تو پھر اس میں کلام کی گنجائش ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ ان کی کسی دوسری کتاب میں بلا سند حدیث ہو تو وہ مردود ہے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔آگے لکھتا ہے:لہذا سوچئے کہ التاریخ الکبیر میں درج شدہ ایک ایسی روایت کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے جس میں دو راویوں کے درمیان 68 یا 83 سال کا فرق ہے؟؟[الاحادیث الموضوعۃ ص 98] اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے:اگرچہ ہر حدیث کا صحاح ستہ میں مذکور ہونا اس کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے تاہم یہ تو لازمی شرط ہے کہ ہر حدیث سے پہلے سند ہو۔[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 352] آگے لکھتا ہے: ہمارے معاصر نے بلاسند حدیث نقل کر کے یقینا بے پر کی اڑائی ہے اس لیے اس کی نقل کردہ روایت بے بنیاد مردود اور باطل ہے۔ پھرکہتا ہے:اگر یقال یا یذکر (کہا جاتا ہے، ذکر کیا جاتا ہے) یعنی صیغہ مجہول استعمال کیا ہو تو اس میں اعتراض کی گنجائش ہے۔[شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 354] اور آگے فیضی اپنی تمام بحث کا نتیجہ نکال کر کہتا ہے:خیال رہے کہ بلاسند حدیث بیان کرنے کی تردید میں ائمہ حدیث نے ضوابط و قواعد بیان کرنے میں اس عاجز نے جو محنت کی ہے اس کا باعث فقط یہ ہے کہ مجھ ایسے قارئین بھی ایسے قواعد سے آشنا ہوں ورنہ میری کوشش حکیم ظفر وغیرہ ایسے بے اصول لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ عقل مند کے لئے ایسے بے اصول لوگ بالکل اسی طرح غیر اہم ہیں جس طرح بلا سند روایت۔(شرح خصائص علی رضی اللہ عنہ ص 355) امید ہے جناب ہماری بات تو مانیں گے نہیں اس لیے فیضی صاحب کی بات مان لیں کہ یہ بے سند اقوال باطل ہے اور مردود ہے اور امام ذہبی پر جو الزام لگایا ہے وہ الحمدللہ باطل ہے۔1 point
-
یہ روایت میں جو اضافہ ہے وہ منکر ہے کیونکہ امام احمد نے اس اضافہ کو روایت نہیں کیا مسند احمد کی روایت یہ ہے: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ، وَكُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ، عَنْ أَبِي غَادِيَةَ، قَالَ: قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأُخْبِرَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ قَاتِلَهُ، وَسَالِبَهُ فِي النَّارِ»، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: فَإِنَّكَ هُوَ ذَا تُقَاتِلُهُ، قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلَهُ، وَسَالِبَه. (مسند احمد ج4 ص 198) اور اسی روایت کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے لیکن اس میں اضافہ ہو گیا ہے وہ اضافہ یہ ہے: حدثنا عفان قال حدثنا حماد بن سلمة قال أنبأنا أبو حفص وكلثوم بن جبر عن أبي غادية قال« سمعت عمار بن ياسر يقع في عثمان يشتمه بالمدينة قال: فتوعدته بالقتل قلت: لئن أمكنني الله منك لأفعلن.. فلما كان يوم صفين جعل عمار يحمل على الناس فقيل هذا عمار فرأيت فرجة بين الرئتين وبين الساقين، قال فحملتُ عليه فطعنته في ركبته قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم: يقول إن قاتله وسالبه في النار فقيل لعمرو بن العاص هو ذا أنت تقاتله فقال: إنما قال قاتله وسالبه». (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج 4 ص 198) لہذا جو سرخ الفاظوں سے الطبقات الکبری کے اضافے کی طرف نشان دہی کی ہے یہ منکر ہے کیونکہ یہ اوثق امام کی مخالفت ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل امام ابن سعد سے بہت زیادہ اوثق اور فقیہ ہیں۔ اور امام ابن حجر نے امام احمد کے بارے میں تقریب التہذیب میں لکھا: أحد الأئمة ثقة حافظ فقيه حجة اور امام ابن سعد کے بارے میں لکھا: صدوق فاضل لہذا امام احمد کے اوثق ترین ہونے کی وجہ سے امام ابن سعد کا اضافہ منکر ہے۔ اس کے علاوہ امام ذہبی نے اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: إسناده فيه انقطاع (سیر اعلام النبلاء ج 2 ص 544) مجھے لگتا ہے شاید امام ذہبی اس روایت کو منقطع اس لئے قرار دیا ہے کیونکہ کلثوم بن جبر کی وفات 130 ہجری میں ہوئی اور یہ واقعہ مدینہ اور صفین کا بیان کر رہا ہے جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت 35 ہجری میں ہوئی اور جنگ صفین میں 38 ہجری میں ہوئی ہے تو اس کے سماع پر اشکال ہے۔ واللہ اعلم اس کے علاوہ امام ابن حجر نے لسان المیزان (ج 2ص 257) میں ایک روایت الحسن بن دينار کےطرق سے نقل کی ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ یہی متروک راوی ہے۔ طبقات الکبری لابن سعد میں بھی ایک اور روایت بھی ہے کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کا قتل کیا لیکن اس کی سند میں واقدی ہے لہذا روایت ضعیف ہے۔ لہذا اس میں کوئی روایت درجہ تحسین یا درجہ تصحیح پر نہیں پہنچتی ۔ واللہ اعلم1 point